قرآن وسنت کی تشریح میں فہم سلف کی اہمیت
قرآن وسنت کی تشریح میں فہم سلف کی اہمیت
مصدر تشریع صرف قرآن و سنت ہے
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اصل مصدر تشریع صرف قرآن وسنت ہی ہے۔ یہی وحی جلی اور خفی ہے ، یہی مُنَزِّلْ مِنَ الله پیغام ہے، انہی کی نصوص و عبارات پر دین کی اساس قائم ہے اور یہی شریعت کی بنیاد ہیں۔ کسی آیت یا صحیح حدیث کے خلاف کسی صحابی یا تابعی کی رائے کوئی حیثیت نہیں رکھتی ۔
قرآن مجید میں صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت پر نہ صرف زور دیا گیاہے ، بلکہ براہ راست صحابہ کرام اور بالواسطہ تمام امت کو رسول اللہﷺ سے پیش قدمی سے سختی سے منع کیا گیا ہے اور آواز تک کو اونچا کرنے پر حبط اعمال کی شدید وعید سنائی گئی ہے[1]۔ خود صحابہ کرام قرآن مجید تو کیا سنت رسول کے خلاف بھی کسی کی اجتہادی فکر اور رائے کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔اس پر مزید کچھ کہنا بھی تحصیل حاصل ہے ۔ تاہم بعض لوگوں کی تشفی کے لیے ایک دو مثالیں پیش خدمت ہیں:
ا ۔ حضرت ابنِ عباس ارشاد فرمایا کرتے تھے :
لَیْسَ أَحَدٌ بَعَدَ النبیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا یُؤْخَذُ مِنْ قَوْلِهِ وَیُتَرْکُ إِلَّا النبی صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [2]۔
’’ رسول اللہ ﷺکی ذات گرامی کے علاوہ ہر شخص کا قول قبول بھی کیا جا سکتا ہے اور رد بھی۔‘‘
ب ۔ عملاً بھی صحابہ کرام نے وحی کے خلاف کسی کی بات کو کبھی اہمیت نہیں دی۔اس پر بیسیوں مثالیں موجود ہیں ،بالخصوص سیدنا عثمان اور سیدنا علی کی مثال قابل ذکر ہے۔ سعید بن مسیبؓ بیان کرتے ہیں:
اخْتَلَفَ عَلِيٌّ وَعُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا وَهُمَا بِعُسْفَانَ فِي الْمُتْعَةِ، فَقَالَ عَلِيٌّ: مَا تُرِيدُ إِلَّا أَنْ تَنْهَى عَنْ أَمْرٍ فَعَلَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ عَلِيٌّ أَهَلَّ بِهِمَا جَمِيعًا [3].
’’عثمان اور علی مقام عسفان پہنچے، تو ان میں باہم حج تمتع کے سلسلے میں اختلاف ہوا تو علی ؓنے فرمایا: جوعمل رسول اللہ ﷺنے کیا ہے،کیا آپ اس سے منع کرنا چاہ رہے ہیں؟ یہ دیکھ کر علی ؓنے حج اور عمرہ دونوں کا احرام ایک ساتھ باندھا۔‘‘
ایک دوسری روایت کے الفاظ یوں ہیں:
مَا كُنْتُ لِأَدَعَ سُنَّةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِقَوْلِ أَحَدٍ [4].
’’میں کسی شخص کے کہنے پر رسول اللہ ﷺکی حدیث کو نہیں چھوڑ سکتا۔‘‘
ج ۔اس باب میں سلف صالحین نہ صرف اتباع سنت پر زور دیتے تھے بلکہ اس کی ادنی مخالفت کو ہلاکت گردانتے تھے۔
اسلامی تاریخ میں شیخین امامین خلیفہ راشد سیدنا ابوبکر صدیق اور خلیفۂ راشدسیدنا عمر فاروق سے بڑھ کر کس کامقام ہو سکتا ہے ۔جب انہوں نے حج تمتع سے منع کیا۔ تو سیدنا ابن عباس نے نبی کریم ﷺکی سنت کا حوالہ دیا، اور حج تمتع پر آپﷺ کی حدیث مبارک پیش کی،کسی نے کہا،لیکن ابوبکر وعمر منع کرتے ہیں ، تو سیدنا ابن عباسؓ نے یہ تاریخی جملہ کہا :
’’لگتا ہے یہ لوگ ہلاک ہو جائیں گے ۔میں کہتا ہوں : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ’’ رسول اللہﷺ نے فرمایا‘‘ اور یہ کہتے ہیں : نَهَى أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ ’’ابوبکرؓ و عمرؓنے منع کیا ہے [5]۔‘‘
یہ تہدیدسیدناابن عباس ؓکے فہم قرآن اور تدبر قرآن کی بھی غمازی کرتی ہے۔ کیونکہ قرآن مجید سنت رسول اللہﷺ کی مخالفت پر عذاب الیم کی وعید بیان کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
[ فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖۤ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۰۰۶۳] [النور: 24]
’’تو جو لوگ ان کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہیے کہ (ایسا نہ ہو کہ) ان پر کوئی آفت پڑ جائے یا تکلیف دینے والا عذاب نازل ہو ۔‘‘
ان سے امام مجاہد نے یہی تربیت پائی اور اپنے شاگردوں کو بھی یہی درس دیا۔ان دونوں ہستیوں کے اس عظیم قول کو امام مالک نے بھی بڑے خوب صورت انداز میں بیان کیا اور انہی کی نسبت سے زیادہ مشہورہو گیا۔ امام احمد بھی یہی کہا کرتے تھے[6]۔
د۔ اسی مسئلے کے متعلق سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کا یہ قول تو آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ حج تمتع کے بارے ایک شامی شخص نے ان سے پوچھا تو انہوں نے جواز کا فتویٰ دیا۔ سائل نے کہا: آپ کے والد محترم (سیدنا عمرؓ) اس سے منع کرتے ہیں۔اس موقع پر جناب ابن عمرؓ نے فرمایا:
أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ أَبِي نَهَى عَنْهَا وَصَنَعَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَأَمْرَ أَبِي نَتَّبِعُ أَمْ أَمْرَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ [7] .
’’ذرا تم ہی بتاؤ اگر میرے والد کسی کام سے روکیں اور رسول اللہ ﷺ نے اسے انجام دیا ہو تو میرے والد کے حکم کی پیروی کی جائے گی یا رسول اللہ ﷺ کے حکم کی؟۔‘‘
گویا خود سلف صالحین اس پر متفق نظر آتے ہیں کہ قرآن وسنت کے خلاف کسی رائے کی ذرہ برابر کوئی حیثیت نہیں ۔چاہے وہ ابو بکر وعمر ہی کیوں نہ ہوں۔ حالانکہ شیخین کی بصیرت وفقاہت عدیم المثال ہے اور ان کی سنت عمومی حالات میں لائق اتباع ہے۔
ائمہ اربعہ کے اقوال بھی اس باب میں مشعل راہ ہیں ۔
اہل حدیث مکتب فکر تو ہمیشہ سے اسی نہج پر امت مسلمہ کی تربیت کرتا آیا ہے۔
الغرض پہلی بات تو یہ سمجھ لیجیے کہ فہم سلف سے مراد کوئی ایسی رائے یا اجتہاد نہیں جو قرآن وسنت کی نصوص کے خلاف ہو۔بھلا کوئی سچا مسلمان قرآن وسنت کے بالمقابل کسی صحابی یا تابعی کی رائے کو حجت کہنے کا خیال بھی دل میں کیسے لا سکتا ہے !،کیا کوئی مومن صادق ایسے صریح کفر کا سوچ بھی سکتا ہے ؟!!
[ فَلَا وَ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَ يُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا۰۰۶۵ ] [النساء: 65]
’’تمہارے پروردگار کی قسم! یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے۔‘‘
اس لیے امت پر ذرا رحم کیجیے اور بات کو درست تناظر اور حقیقی سیاق سے ہٹانے کی کوشش مت کیجیے۔
اسے منکرین فہم سلف کی چالاکی کہیے یا سادگی کہ انہوں نے فہم سلف کو قرآن وسنت کے متوازی ایک چیز بنا دیا،حالانکہ یہ تو سوچنا بھی صریح کفر ہے۔
فہم سلف سے کیا مراد ہے؟
فَہم سلف، دو الفاظ سے مرکب ہے۔ ہر ایک کی علیحدہ وضاحت پھر بطور اصطلاح مفہوم پیش خدمت ہے۔
فہم سلف کا لغوی معنی و مفہوم
فہم کی وضاحت: عربی زبان میں معلومات کے ادراک کے مختلف مراتب ہیں۔ ان میں سے ایک خاص مرتبے کا نام فہم ہے۔ جیساکہ صاحب ’’لسان العرب‘‘ کے مطابق، فہم سے مراد :
مَعْرِفَتُكَ الشَّيْءَ بِالْقَلْبِ[8].
’’دل سے کسی چیز کو جان لینا ’’فہم‘‘کہلاتا ہے۔‘‘
گویا عمومی علم کی بہ نسبت ’’فہم‘‘ ایک خاص درجے کی سمجھ بوجھ کا نام ہے۔
حضرت داؤد کی عدالت میں فریقین کا ایک مقدمہ پیش ہوا۔ مقدمے کا علم جناب داؤد اور حضرت سلیمان دونوں کو ہی تھا۔ لیکن احوال و قرائن سے خاص فہم اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کو نصیب کیا۔ اس واقعے کو نقل کرتے ہوئےاللہ تعالیٰ نے فرمایا:
[ فَفَهَّمْنٰهَا سُلَيْمٰنَ ] [الانبیاء: 79]
’’ ہم نے وہ فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا۔‘‘
جناب سلیمان جو اس قضیے کی تہ تک پہنچے اور فیصلہ کیا، اسے اللہ تعالیٰ نے ’’فہم‘‘ کہا۔ اور ساتھ ہی فرمایا:
[وَ كُلًّا اٰتَيْنَا حُكْمًا وَّ عِلْمًاٞ] [الانبیاء: 79]
’’ قوت فیصلہ اور علم ہم نے ہر ایک کو عطا کر رکھا تھا۔‘‘
امام ابن حجر نے ’’فہم‘‘ کی بہت خوب صورت تعریف کی ہے، فرماتے ہیں:
فالفهم فطنة يفهم بها صاحبها من الكلام ما يقترن به من قول أو فعل[9].
’’ فہم سے مراد ایسی سمجھ بوجھ ہے جس کے ذریعے انسان کلام میں سے وہ سب کچھ سمجھ جاتا ہے جو اس کے ساتھ کوئی بات یا عمل منسلک ہوتا ہے ۔‘‘
گویا احوال و ظروف کو سامنے رکھتے ہوئے کسی کلام کے درست مفہوم اور اس سے نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت کو فہم کہا جاتا ہے اور یہ علم کا ایک خاص درجہ ہے۔
دوسر الفظ ’’سلف‘‘ ہے۔
سلف کا مفہوم: عربی زبان میں لفظ سَلَفَ گزرنے اور ماضی میں ہونے کا مفہوم دیتا ہے۔ پہلے گزرے ہوئے کو سَالِفٌ کہتے ہیں۔ اور اس کی جمع سَلَف ہے۔ لغوی طور پر پہلے گزرے ہوئے لوگ سَلَف ہیں، قطع نظر اس سے کہ وہ اچھے ہوں یا برے۔ اللہ تعالیٰ نے قوم فرعون کی غرقابی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
[ فَجَعَلْنٰهُمْ سَلَفًا] [الزخرف: 56]
’’ ہم نے انہیں قصۂ ماضی بنا دیا۔‘‘
جو کام ماضی میں ہو چکا ہو، اس کے لیے سَلَفَ کا لفظ قرآن مجید میں متعدد بار مستعمل ہے[10]۔
سَلَف کا اصطلاحی مفہوم
سلف کے اصطلاحی مفہوم میں تین معتبر اقوال ہیں:
- اس سے مراد صرف صحابۂ کرام ہیں۔ عہد تابعین میں صحابۂ کرام کو ہی سَلَف کہا جاتا تھا۔حضرت عبداللہ بن مبارک برسر عوام کہا کرتے تھے:
دَعُوا حَدِيثَ عَمْرِو بْنِ ثَابِتٍ ؛ فَإِنَّهُ كَانَ يَسُبُّ السَّلَفَ[11].
’’عمرو بن ثابت کی روایت کردہ احادیث ترک کر دو،کیونکہ یہ سلف پر سب وشتم کیا کرتا تھا ۔‘‘
یہاں سلف سے مراد صحابہ کرام ہی ہیں ۔
- بعض اہل علم کے نزدیک سلف سے مراد صحابہ اور تابعین ہیں[12]۔
- اکثر اہل علم کے نزدیک سَلَف سے اصطلاحی طور پر صحابہ کرامؓ، تابعین اور تبع تابعین ہیں[13]۔
حجیت کےلحاظ سے فہم سلف کی درجہ بندی اوراقسام
- سلف صالحین انفرادی حیثیت سےنہ معصوم ہیں اورنہ ہی حجت۔ان کاانفرادی فہم اوررائےبھی بہرحال ایک انسانی کاوش اوربشری تقاضوں میں مقید ہے۔ ان میں سے کسی بھی فردکوغلطی لگ سکتی ہے،بھول ہوسکتی ہے،یہ بھی ہوسکتاہےکہ کوئی آیت یاحدیث ان میں سےکسی فرد کےعلم میں ہی نہ ہواوراس بناپراس کے خلاف کوئی رائے یافتویٰ دےدیاہواورشاذرائے،بلکہ حدیث رسول کے خلاف کوئی رائے اپنائی ہو۔ان تمام صورتوں میں ان کے بارے حسن ظن اورمکمل احترام کےساتھ ان سے اختلاف رائے کیاجاسکتاہے۔تاہم ان کے اقوال پھربھی لائق اعتنااورقابل توجہ ہیں ،تاکہ مختلف آراءسامنےآسکیں اورسلف کےاقوال معلوم ہوسکیں اوردلیل کی روشنی میں حق تک رسائی ممکن ہوسکے۔ان صورتوں میں اسے فہم سلف نہیں کہاجاتا، کیونکہ لفظ ’’سلف‘‘جمع ہے،اس سےمراداسلاف کی جماعت ہےنہ کہ فردواحد،انفرادی رائےبعض سلف کاانفرادی فہم ہے،’’فہم سلف‘‘نہیں ہے۔
- شرعی نصوص سے اللہ اوراس کے رسول کی مرادمتعین کرتےہوئےجب سلف صالحین کسی ایک فہم پرجمع ہوجائیں اورسب کےاقوال یاافعال یاتقریرات ایک متعین مفہوم پردلالت کررہےہوں تویہ ’’فہم سلف‘‘ہے۔اسے قبول کرنا،اس کی پابندی کرناضروری ہےاوریہ حجت ہے۔کیونکہ وہ درحقیقت مرادالٰہی کی تعیین ہےاورحکم نبوی ﷺ کی نشان دہی ہے[14]۔
- نص شرعی کےمفہوم میں سلف کااتفاق ہوتویہ صورت بلاشبہ قطعی حجت کےدرجےمیں ہے۔ اگر اتفاق تونہ ہو،لیکن کسی ایک کاایسامشہورقول ہوجسےاس دورمیں قبول عام حاصل ہوگیااورکسی دوسرے سے کوئی مخالف رائےثابت نہ ہوتوجمہورعلماءکےنزدیک یہ بھی حجت اوراجماع ہے۔بعض اہل علم کےنزدیک حجت ہےلیکن اجماع نہیں ۔بعض متاخرین فقہاءاورمتکلمین کےنزدیک نہ حجت ہےاورنہ ہی اجماع[15]۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ فرماتےہیں :
أﻣﺎ أﻗﻮاﻝ اﻟﺼﺤﺎﺑﺔ؛ ﻓﺈﻥ اﻧﺘﺸﺮﺕ ﻭﻟﻢ ﺗﻨﻜﺮ ﻓﻲ ﺯﻣﺎﻧﻬﻢ ﻓﻬﻲ ﺣﺠﺔ ﻋﻨﺪ ﺟﻤﺎﻫﻴﺮ اﻟﻌﻠﻤﺎء ﻭﺇﻥ ﺗﻨﺎﺯﻋﻮا ﺭﺩ ﻣﺎ ﺗﻨﺎﺯﻋﻮا ﻓﻴﻪ ﺇﻟﻰ اﻟﻠﻪ ﻭاﻟﺮﺳﻮﻝ. ﻭﻟﻢ ﻳﻜﻦ ﻗﻮﻝ ﺑﻌﻀﻬﻢ ﺣﺠﺔ ﻣﻊ ﻣﺨﺎﻟﻔﺔ ﺑﻌﻀﻬﻢ ﻟﻪ ﺑﺎﺗﻔﺎﻕ اﻟﻌﻠﻤﺎء ﻭﺇﻥ ﻗﺎﻝ ﺑﻌﻀﻬﻢ ﻗﻮﻻ ﻭﻟﻢ ﻳﻘﻞ ﺑﻌﻀﻬﻢ ﺑﺨﻼﻓﻪ ﻭﻟﻢ ﻳﻨﺘﺸﺮ؛ ﻓﻬﺬا ﻓﻴﻪ ﻧﺰاﻉ ﻭﺟﻤﻬﻮﺭ اﻟﻌﻠﻤﺎء ﻳﺤﺘﺠﻮﻥ ﺑﻪ [16].
’’جہاں تک اقوال صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تعلق ہے تو اس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔اگر صحابہ کے اقوال اپنے دور میں معروف ہوں اور کسی نے ان کی مخالفت نہ کی ہو تو جمہور علماء کے نزدیک یہ حجت ہیں۔اگر اقوال صحابہ میں باہمی اختلاف ہو تو بالاتفاق حجت نہیں ہیں ،کیونکہ خود بعض صحابہ نے ان سے اختلاف کیا ہوا ہے۔اور اگر کسی صحابی سے قول منقول ہو، جبکہ کسی دوسرے صحابی سے اس کے مخالف کوئی قول منقول نہ ہو اور نہ ہی وہ قول اس عہد میں معروف ہوا ہو تو اس میں اگرچہ اختلاف ہے لیکن جمہور علماء اسے بھی بطور حجت پیش کرتے ہیں ‘‘۔
اگر اقوال صحابہ مختلف ہوں تو کتاب وسنت کی طرف رجوع کیاجائےگااوردلیل کےمطابق ترجیح ہوگی[17]۔
- اخلاقی اقوال میں ترجیح دیتےہوئے یہ احتیاط ائمہ کرام کرتےرہےہیں کہ اقوال صحابہ میں سے ہی کسی کوترجیح دی جائے ،ان سےہٹ کرنیاقول اختیارنہ کیاجائے[18]۔
- اقوال تابعین بھی انفرادی حیثیت سے حجت نہیں ہیں۔نہ نصوص کی تفسیروتشریح میں اورنہ ہی فقہی اجتہادات میں ،اس حوالے سے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ لکھتےہیں :
ﻭﻗﺎﻝ ﺷﻌﺒﺔ ﺑﻦ اﻟﺤﺠﺎﺝ ﻭﻏﻴﺮﻩ:أﻗﻮاﻝ اﻟﺘﺎﺑﻌﻴﻦ ﻓﻲ اﻟﻔﺮﻭﻉ ﻟﻴﺴﺖ ﺣﺠﺔ ﻓﻜﻴﻒ ﺗﻜﻮﻥ ﺣﺠﺔ ﻓﻲ اﻟﺘﻔﺴﻴﺮ؟ ﻳﻌﻨﻲ أﻧﻬﺎ ﻻﺗﻜﻮﻥ ﺣﺠﺔ ﻋﻠﻰ ﻏﻴﺮﻫﻢ ﻣﻤﻦ ﺧﺎﻟﻔﻬﻢ ﻭ ﻫﺬا ﺻﺤﻴﺢ أﻣﺎ ﺇﺫا أﺟﻤﻌﻮا ﻋﻠﻰ اﻟﺸﻲء ﻓﻼ ﻳﺮﺗﺎﺏ ﻓﻲ ﻛﻮﻧﻪ ﺣﺠﺔ ﻓﺈﻥ اﺧﺘﻠﻔﻮا ﻓﻼﻳﻜﻮﻥ ﻗﻮﻝ ﺑﻌﻀﻬﻢ ﺣﺠﺔ ﻋﻠﻰ ﺑﻌﺾ ﻭﻻ ﻋﻠﻰ ﻣﻦ ﺑﻌﺪﻫﻢ ﻭ ﻳﺮﺟﻊ ﻓﻲ ﺫﻟﻚ ﺇﻟﻰ ﻟﻐﺔ اﻟﻘﺮآﻥ أﻭ اﻟﺴﻨﺔ أﻭ ﻋﻤﻮﻡ ﻟﻐﺔ اﻟﻌﺮﺏ أﻭ أﻗﻮاﻝ اﻟﺼﺤﺎﺑﺔ ﻓﻲ ﺫﻟﻚ [19].
’’امام شعبہ بن حجاج اور دیگر ائمہ نے کہا ہے کہ تابعین کے اقوال فروعی مسائل میں بھی حجت نہیں ہیں ،تو تفسیر قرآن میں کیونکر حجت ہوسکتے ہیں ؟یعنی ،جب تابعین کے اقوال مختلف ہوں تو ایک دوسرے پر حجت نہیں ہیں ۔ امام شعبہ وغیرہ کی یہ بات بالکل بجا ہے۔البتہ جب تابعین کسی بات پر اجماع کر لیں تو اس کے حجت ہونے میں شبہ نہیں ہے۔اگر ان میں باہم اختلاف ہو تو اس صورت میں نہ ایک دوسرے کے اوپر حجت ہیں نہ ہی بعد والوں پر،بلکہ ایسی صورت میں قرآن مجید ،سنت رسول، لغت ِعرب اور اقوال صحابہ کی طرف رجوع کیاجائے گا(اور دلائل کی بنیاد پر ترجیح دی جائے گی )۔‘‘
ان تصریحات سے معلوم ہورہاہےکہ فہم سلف کی حجیت سے پران کااجماعی فہم ہی مراد ہے، نہ کہ انفرادی اقوال وآراء۔ اگرچہ سلف میں صحابہ ،تابعین اور اتباع تابعین کے تینوں طبقات شامل ہیں ،لیکن ان میں اقوال صحابہ کاایک خاص مقام ہے،جواقوال تابعین اوراتباع تابعین کوحاصل نہیں ہے۔
امام ابن القیم نے اعلام الموقعین میں چھیالیس اسباب اورآیات واحادیث پرتفصیل سے گفتگو کرتے ہوئے قول ِصحابی کو(جب کوئی مخالف رائے کسی دوسرے صحابی سے ثابت نہ ہو)حجت قرار دیاہے[20]۔
درست بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ قول صحابی بھی مطلقاًحجت نہیں ہےاس کی مختلف صورتیں ہیں ،بعض صورتوں میں خاص شروط کے ساتھ حجت ہے،تفصیلات اصول فقہ اوراصول تفسیرکی کتب میں درج ہیں ۔
موضوع زیربحث میں اصل قضیہ انفرادی آراءواجتہادات کانہیں بلکہ ’’فہم سلف ‘‘کاہے۔
قول صحابی حجت ہےیانہیں ،اس سےقطع نظراس تفصیل وتحقیق اوراساطین علم کےدرمیان اختلاف سے یہ بات ضرور ثابت ہوتی ہے کہ صحابی کاقول اسلامی روایت میں دیگرآراءالرجال کی طرح نہیں ہے،اس کی خاص قدرومنزلت اورہیبت ہے،جوکہ اس وقت تک برقراررہنی چاہیے جب تک وہ کسی آیت یاحدیث کے خلاف نہ ہو۔ قول صحابی کہہ کرفوراً ٹھکرا دینے کا ایک رجحان جوبعض حلقوں میں دکھائی دیتا ہے،ہماری اسلامی روایت سے میل نہیں کھاتا۔
فہم سلف کااطلاقی مفہوم
فہم سلف کے متعدد پہلؤوں سے مختلف اطلاقات ہیں۔ زیر بحث موضوع کے حوالے سے ان میں سے مندرجہ ذیل بنیادی نوعیت کے اطلاقات اہم ہیں:
- خیرالقرون کےمسلمہ عقائدونظریات
- تفسیرقرآن وتشریح حدیث میں سلف کےاقوال
- وحی کےساتھ تعامل میں سلف کامنہج
- فقہی مسائل میں سلف کااجتماعی فہم
- تزکیہ واحسان میں سلف کااجتماعی تعامل
1۔ خیر القرون کے مسلمہ عقائد و نظریات
صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے ہاں دین کے مسلمہ اصول ومبادیات اور بنیادی عقائد فہم سلف میں سرفہرست شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صحابۂ کرام ؓ کے ایمان کو معیار قرار دیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
[ فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا هُمْ فِيْ شِقَاقٍ فَسَيَكْفِيْكَهُمُ اللّٰهُ وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُؕ۰۰۱۳۷] [البقرة: 137]
’’تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہو جائیں اور اگر منہ پھیر لیں (اور نہ مانیں) تو وہ (تمہارے) مخالف ہیں اور ان کے مقابلے میں تمھیں اللہ کافی ہے۔ اور وہ سننے والا (اور) جاننے والا ہے ۔‘‘
یہ لوگ نہ صرف خود ایمان ویقین سے متصف تھے بلکہ پوری بصیرت کے ساتھ اس کے داعی بھی تھے، ارشاد ربانی ہے:
[ قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْۤ اَدْعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ عَلٰى بَصِيْرَةٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِيْ ] [یوسف: 108]
’’کہہ دو میرا رستہ تو یہ ہے میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں (از روئے یقین وبرہان) سمجھ بوجھ کر میں بھی (لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا ہوں) اور میرے پیرو بھی۔‘‘
ذات باری تعالیٰ، اسما وصفات، توحید و شرک کے بارے میں جو کچھ خیر القرون میں طے پا گیا وہ اس امت کے لیے حرف آخر ہے۔[ صحابۂ کرام] اور ان کے یہ عقائد قرآن و سنت کے خالص فہم پرمبنی تھے۔
ملائکہ، کتب سماویہ، انبیاء و رسل پر ایمان، تقدیر کی حقیقت، قبر و حشر اور آخرت کی تفصیلات وہی حتمی اور حقیقی ہیں جو سلف صالحین سے منقول ہیں، وہ در حقیقت قرآن و سنت کی خالص تعبیر پر مبنی ہیں۔
ایمانیات اور غیبیات کے متعلق تو صحابۂ کرام کے بارے ائمہ کرام اس حد تک اعتماد کرتے ہیں کہ ان کے موقوف قول کو بھی بعض شروط کےساتھ مرفوع کے درجے میں رکھتے ہیں، جیساکہ کتب اصول حدیث میں اس کی تفصیلات درج ہیں۔
2۔ تفسیر قرآن میں فہم سلف کی حجیت
فہم سلف کی حجیت کا دوسرااہم اطلاق اور میدان تفسیر قرآن مجید اور تشریح حدیث ہے۔
صحابۂ کرام نے برارہ راست رسول اللہﷺ سے کس قدر محبت، جان فشانی اور محنت سے قرآن مجید سیکھا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔صحابہ کرام دس آیات سے آگے تب تک سبق نہ لیتے جب تک علم و عمل کی تمام گتھیاں سلجھا نہ لیتے[21]۔
حضرت عبداللہ بن مسعود جناب ابن عباس کو ’’ترجمان القرآن‘‘ کہا کرتے تھے[22]۔
امام مجاہد نے باقاعدہ ابن عباس سے مکمل تفسیر سیکھی اور اس کے نوٹس تیار کیے[23]
خیر القرون میں قرآن مجید کے جو معانی و مفاہیم طے پائے وہی درحقیقت مراد الٰہی ہیں۔ اس کے متضاد جو کچھ بھی تفسیر کے نام پر ہوگا، تفسیر نہیں، تحریف ہوگی۔ یہی معاملہ حدیث کی تشریح و تعبیر کا ہے۔
ا) قرآن مجید کی تفسیر کے لیے لغوی لحاظ سے عربی زبان کی معرفت سب سے اہم اور مقدم چیز ہے۔ خیر القرون کے لوگ خود عربی ماحول میں پلے بڑھے ہیں اور فطری طور پر عربی لغت کے اسالیب و محاورات سے آگاہ ہیں۔ اس لحاظ سے بھی ان کی تفسیر بعد کے لوگوں پر مقدم ہے۔
ب) قرآن مجید فصیح و بلیغ کلام ہے، کلام کی فصاحت و بلاغت کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ سامعین کی نفسیات، طرز کلام، محاورات، تاریخی پس منظر کے مطابق ہو، جسے فن بلاغہ میں ’’مقتضی الحال‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے صحابہ سے بہتر کون قرآن مجید کو سمجھ سکتا ہے؟!
ج) صحابۂ کرام قرآن مجید کے متعدد اسباب نزول اور واقعات کے عینی شاہد ہیں، کلام کے ساتھ کچھ ملابسات، قرائن و شواہد اور پس منظر کی ایسی چیزیں منسلک ہوتی ہیں جو نفس کلام میں موجود نہیں ہوتیں، عام سامع ان کو پوری طرح تب تک سمجھ ہی نہیں سکتا جب تک اس کے سامنے پورا ماحول اور پس منظر نہ ہو۔ مثال کےطور پر غزوۂ بدر کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
[اِذْ يُغَشِّيْكُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنْهُ وَ يُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّيُطَهِّرَكُمْ۠ بِهٖ وَ يُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطٰنِ وَ لِيَرْبِطَ عَلٰى قُلُوْبِكُمْ ][الانفال:11]
’’جب اللہ تعالیٰ تم پر اونگھ طاری کر رہا تھا اپنی طرف سے چین دینے کے لیے اور تم پر آسمان سے پانی برسا رہا تھا کہ اس پانی کے ذریعے سے تم کو پاک کر دے اور تم سے شیطانی وسوسہ کو دفع کر دے اور تمہارے دلوں کو مضبوط کر دے ۔‘‘
لغت کے معروف امام ابو عبیدہ نے وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدَامَ کو مجازی معنی پر محمول کیا ہے اور لکھا ہے:
مجازه يفرغ عليهم الصبر وينزله عليهم فيثبتون لعدوهم[24].
’’ ثابت قدمی مجازی معنی میں ہے ، اس سے مراد ہے بھرپور صبر کا نزول تاکہ وہ دشمن کے سامنے ڈٹ جائیں۔‘‘
جبکہ صحابہ کرام جن پر احسانات کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ انہیں مخاطب کر رہا ہے ،وہ خود اس واقعہ کے عینی شاہد اور شرکاء معرکہ ہیں ان کے نزدیک اونگھ طاری ہونا اور بارش برسنا اپنے سے حقیقی معنی میں ہے۔
ابو عبیدہ کے اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے امام طبری لکھتے ہیں:
وذلك قول خلاف لقول جميع أهل التأويل من الصحابة والتابعين، وحَسْبُ قول خطأ أن يكون خلافاً لقول من ذكرنا، وقد بينا أقوالهم فيه، وأن معناه: ويثبت أقدام المؤمنين بتلبيد المطر الرمل حتیٰ لا تسرح أقدامهم وحوافر دوابهم[25].
’’اور ابو عبیدہ کا قول تمام مفسرین صحابہ و تابعین کے مخالف ہے اور کسی قول کے غلط ہونے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ مذکورہ لوگوں کے مخالف ہو، اس بارے ابھی ہم ان کے اقوال واضح کر چکے ہیں اور یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ ان کے نزدیک ثابت قدمی کا مفہوم یہ ہے کہ بارش کے نزول سے ریت گیلی اور تر ہو گئی اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کے پاؤں جما دیے تاکہ نہ ان کے اپنے پاؤں پھسلیں اور نہ ہی ان کے جانوروں کے۔‘‘
اگر مزید غوروفکر کیا جائے تو صحابہ و تابعین کا بیان کردہ معنی سببِ نزول، سیاق و سباق اور خود آیت کی اندرونی ترتیب کے لحاظ سے بھی راجح قرار پاتا ہے۔ تفصیل میں جائے بغیر صرف ایک پہلو پر غور کرنے سے ہی صحابہ کا مفہوم راجح نظر آنے لگتا ہے، مثلاً: اگر ثابت قدمی سے مجازی معانی مراد لیا جائے تو تکرار غیر مفید ماننا پڑے گا، کیونکہ صبروثبات کا تذکرہ تو ’’ وَلِيَرْبِطَ عَلَىٰ قُلُوبِكُمْ‘‘ کہہ کر پہلے ہی کیا جا چکا ہے جو کہ نزول صبر کی خوبصورت پیرائے میں تصویر کشی کر رہا ہے، لہٰذا دوبارہ اس کے تذکرے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔
اس طرح کی بیسیوں مثالیں کتب تفسیرمیں جابجا موجود ہیں۔جن سےواضح ہوتاہےکہ بعض قرآنی آیات کوسمجھنے کےلیے صحابہ کےسامنے زانوئے تلمذتہہ کیے بغیرمرادالٰہی تک درست رسائی ممکن نہیں ۔
قرآنی آیت یاحدیث کی تفسیروتوضیح میں اگرسلف کااجماع ثابت نہ بھی ہو،تاہم خیرالقرون کے مشہوراورمعروف ائمہ دین نے اسے نصوص شرعیہ کی واحد تشریح کے طور پر اختیار کر لیا ہو، ان کے دور میں ایک نمائندہ تشریح کے طور پر جمہور اہل علم کے ہاں مقبول ہو گیا ہو اور اس کے مخالف کوئی قول ثابت نہ ہو تو یہ بھی بدرجہ اجماع یا کم از کم ان کے نمائندہ موقف کے طور پرجمہوراہل علم کےنزدیک ،جیساکہ گزشتہ سطورمیں وضاحت گزرچکی ہے واجب التسلیم ہوگا[26]۔
جس طرح بعض آیات بینات کوسمجھنےکےلیے اسباب النزول کی ضرورت ہوتی ہے،اسی طرح بعض احادیث مبارکہ کادرست پس منظرجاننےکےلیے اسباب ورودالحدیث کی حاجت ہوتی ہے۔
3۔وحی کے ساتھ تعامل میں سلف کا منہج
سلف صالحین کا طرز استدال اور منہج استنباط بھی فہم سلف کا ایک اہم ترین اوراصولی وبنیادی حصہ ہے۔ قرآنی آیات سے جس طرح وہ عموم وخصوص، ناسخ و منسوخ کا تعین کرتے تھے۔ احادیث مبارکہ کو جووہ مقام دیتے تھے۔ یہ بھی فہم سلف کا ایک روشن باب اورمینارۂ ہدایت ہے۔ جس طرح وہ فطری اور سادہ مفاہیم مراد لیتے تھے۔ جس طرح وہ عقل پر نقل کومقدم رکھتے تھے۔ جس طرح وہ بیرونی نظریات اور درآمد شدہ افکار سے متاثر ہوئے بغیر شرعی معانی مراد لیتے تھے۔ وہی طرز استدلال درست اور صائب ہے۔
4۔فقہی مسائل میں سلف کااجتماعی فہم
قرآن مجیدمیں مذکورآیات الاحکام اوراحادیث میں واردنبوی ارشادات وہدایات کی روشنی میں سلف صالحین اپنی زندگی گزارتےرہے۔جوان کے دورمیں اجتماعی فہم ،فقہی مسائل کے حوالےسے طے ہو گیا درحقیقت وہ شریعت کامنشااورمرادالٰہی ہے۔اس لیے اس سےانحراف سراسرگمراہی اوربدعت ہے۔اس باب میں کیابدعت ہےاورکیانہیں ؟جہاں بھی اس طرح کااختلاف ہوگا۔ سلف کافہم ہی میزان قرارپائےگا۔
5۔تزکیہ واحسان میں سلف کااجتماعی تعامل
تقرب الی اللہ،اذکارووظائف ،دعاومناجات،روحانی ترقی اورعبادت واحسان کے مدارج کیسے طے کرنے ہیں ،اس باب میں شرعی تعلیمات پرعمل کابالفعل کیاطریقہ ہے،اس حوالےسےبھی میزان فہم سلف ہی ہے۔
ویسے توتمام گمراہ فرقےبھی قرآن وسنت ہی کانام لیتےہیں،روافض جیسابدترین گروہ اپنے مکروہ عقائدکی تائیدمیں قرآنی آیات اوراحادیث نبویہ پیش کرتا ہے،نیچری بھی قرآنی فکرکانام لیتےہیں،غالی صوفی بھی آیات واحادیث سے اپنے کشف،وجدان اورنامعلوم کیاکیاضلالات کشید کرتے ہیں،حتی کہ قادیانی اورغیرمسلم بھی اپنےحق میں آیات واحادیث استعمال کرتےہیں ۔ان سب کی تردیدمیں اصل معانی کی پہچان خیرالقرون کے مسلمہ فہم سے وابستہ ہے۔آیات بینات اوراحادیث مبارکہ کےداخلی قرائن،سیاق وسباق، لغوی اسالیب جیسے خیرالقرون میں سمجھےگئےوہی حق ہیں،باقی سب باطل اورسراسر تحریف۔
حجیت فہم سلف پردلائل
قرآنی دلائل
قرآن مجید میں سینکڑوں آیات مبارکہ صحابہ کرام کی فضیلت بتا رہی ہیں ،ان سے جس طرح صحابہ کر۱م ؓ کے کردار کا سرٹیفکیٹ ملتا ہے ان کے علم کا تزکیہ بھی از خود مترشح ہوتا ہے۔ کیونکہ علم ہمیشہ عمل سے مقدم ہوتا ہے، جب علم درست ہو تو عمل بھی درست ہوتا ہے ، علم ہی غلط ہو تو عمل کیسے درست ہو سکتا ہے ؟۔
صحابہ کرام کے لیے مفلحون،مخلصون،صادقون،کتب فی قلوبہم الایمان،ألزمہم کلمة التقوی،رضوان کے سرٹیفکیٹس محض لفظی فضائل نہیں ہیں ،بلکہ ان کے اعمال و افکار اور علم وعمل کا تزکیہ بھی ہیں ۔بلکہ صحابہ کرام کے ایمان کو معیار قرار دینا خود ان کے عقائد تک کا ربانی سرٹیفکیٹ ہے۔
ان آیات میں سے چند پیش خدمت ہیں،جن سے قائلین فہم سلف نےبالخصوص استدلال کیاہے:
- [وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَاۤ اَبَدًا ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ۰۰۱۰۰ ][ التوبة:100]
’’اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کےدونوں طبقات مہاجرین وانصارکی مدح وتوصیف کی اوران کی اتباع کرنےوالوں کواپنی رضامندی کاسرٹیفکیٹ دیاہے۔اس آیت سے واضح معلوم ہوتاہےکہ
- صحابہ کی اتباع اللہ تعالیٰ کی رضاکاذریعہ ہے۔
- اتباع میں عقیدہ ونظریہ ،عمل واخلاق سب کچھ شامل ہے۔
- صحابہ کی اتباع پررضا الٰہی کی نوید اس بات کی دلیل ہےکہ صحابہ کامنہج، عقیدہ وعمل صحیح ہے۔
- صحابہ کرام کی اتباع کرنےوالے قیامت تک کے اللہ تعالیٰ کو پسندیدہ لوگ ہیں ۔
- اگرچہ اتباع کالفظ عام ہے،تاہم تابعین اورتبع تابعین دیگرنصوص اورشواہدکی بناپراس اتباع میں سرفہرست ہیں ۔
- [ فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا هُمْ فِيْ شِقَاقٍ فَسَيَكْفِيْكَهُمُ اللّٰهُ وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُؕ۰۰۱۳۷ ][البقرۃ:137]
’’تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہو جائیں اور اگر منہ پھیر لیں (اور نہ مانیں) تو وہ (تمہارے) مخالف ہیں اور ان کے مقابلے میں تمھیں اللہ کافی ہے۔ اور وہ سننے والا (اور) جاننے والا ہے ۔‘‘
اس آیت میں لوگوں کوصحابہ جیسے ایمان کی دعوت دی گئی ہے۔ظاہری اعتبارسے اورباطنی یقین کےلحاظ سے ان جیساایمان بعدوالوں کےلیے ممکن نہیں ۔توصحابہ کےایمان کو معیار قرار دینے کا یہی مطلب ہےکہ ان چیزوں پرایمان لائیں جن پروہ ایمان لائے اوراس منہج وعقیدہ کو تسلیم کریں جس پر وہ ایمان لائے۔
- [وَ مَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَ يَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَ وَ سَآءَتْ مَصِيْرًاؒ۰۰۱۱۵ ][النساء:115]
’’جو شخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہوجانے کے بھی رسول اللہﷺ کے خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کے علاوہ سبیل المؤمنین سے ہٹنے پر سخت وعیدسنائی گئی ہے۔سبیل المؤمنین سے مراد،اہل ایمان کے عقائدوافکاراوراعمال ہیں ، اوراہل ایمان میں سب سے مقدم خیرالقرون کے لوگ ہیں ۔اس آیت میں ان لوگوں کی اتباع کوثابت اور مخالفت کو ممنوع قرار دیا جارہا ہے ۔ ان کی اتباع اور مخالفت دونوں کی بنیادفہم ہی ہے۔ان کافہم حجت نہیں ہوگا تو ان کی اتباع کیونکر ہوگی ؟
- [ كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ ][آل عمران:110]
’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو ۔‘‘
اس آیت مبارکہ کے اولین مصداق صحابہ کرام ہیں، پھر ان کے نقش قدم پرچلنےوالے امت کے تمام افراد۔ ان کوبہترین قراردینااس بات کی علامت ہےکہ ان کاعقیدہ ،عمل سب سےبہترہے۔
غرضیکہ اجماع امت کی حجیت پرجن آیات سے استدلال کیاگیاہے،وہ تمام آیات فہم سلف کی حجیت پربالاولیٰ دلالت کرتی ہیں۔
احادیث مبارکہ سے دلائل
احادیث مبارکہ میں بھی جابجا صحابہ کرام کے علم وفکر اور عقیدہ وعمل کے مناقب درج ہیں:
- فرقہ ناجیہ کی وضاحت کرتےہوئےرسول اللہﷺ نےفرمایا:
وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً، قَالُوا: وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي [27].
’’اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی اور ایک فرقہ کو چھوڑ کر باقی سبھی جہنم میں جائیں گے، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ کون سی جماعت ہو گی؟ آپ نے فرمایا: ”یہ وہ لوگ ہوں گے جو میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر ہوں گے“۔
رسول اللہ ﷺ صرف اتنا فرما دیتے : ما أنا عليه’’وہ راستہ و منہج جس پر میں ہوں‘‘ تو کافی تھا، لیکن آپ ؐ نے فرمایا: ما أنا عليه وأصحابي ’’جس راہ پر میں خود ہوں اور میرے صحابہ‘‘ ۔اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ دین کے وہ مُسلّمات جو صحابہ کرام کے ہاں قائم ہو گئے اور حق و باطل کی جو بنیادیں اور نصوص وحی سے استدلال کے جو اصول ان کے دور میں قائم ہو گئے، بعد والے خصوصاً اختلاف و تفرقہ کے ادوار سے وابستہ لوگ انہی بنیادوں، انہی مُسلّمات اور انہی اصولوں کو اپنانے اور انہی پر کاربند رہنے کے پابند ہیں۔
- حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتےہیں :
سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ؟ قَالَ:" قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ [28].
’’نبی کریم ﷺسے پوچھا گیا کہ کون لوگ اچھے ہیں۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ میرا زمانہ، پھر وہ لوگ جو اس سے قریب ہوں گے پھر وہ لوگ جو اس سے قریب ہوں گے۔‘‘
صحابہ کرام کو خیرالناس کہنے کا تقاضا یہ ہےکہ علم وعمل میں وہ سب سے بہترہیں اورانہی کافہم مقدم ہے۔
- سیدناابن عباس بیان کرتےہیں کہ رسول اللہﷺ نےفرمایا:
تسمعون، ويسمع منكم، ويسمع ممن سمع منكم [29].
’’تم لوگ (علم دین) مجھ سے سنتے ہو اور لوگ تم سے سنیں گے اور پھر جن لوگوں نے تم سے سنا ہے لوگ ان سے سنیں گے۔“
یہ حدیث خبربھی ہے اور امربھی ،جس میں صحابہ کرام کورسول اللہﷺ سےعلم حدیث حاصل کرنےکی ترغیب دی گئی ہے،اسی طرح صحابہ سے تابعین اورتابعین سے تبع تابعین کوعلم حدیث سیکھنےکی ترغیب ہےاوریہ ان تینوں طبقات کےلیے بدرجہ تزکیہ ہے۔
- سیدناواثلہ بن اسقع بیان کرتےہیں رسول اللہﷺ نےفرمایا:
لا تَزالونَ بخَيرٍ ما دامَ فيكُم مَن رآني وصاحَبَني، واللَّهِ لا تزالونَ بخَيرٍ ما دامَ فيكُم مَن رأى مَن رآني وصاحبَ مَن صاحَبَني، واللَّهِ لا تزالونَ بخَيرٍ ما دامَ فيكُم مَن رأى مَن رأى مَن رآني وصاحَبَ مَن صاحَبَ مَن صاحَبَني[30].
’’تم ہمیشہ بہترین حالت میں رہو گے،جب تک تمہارے درمیان مجھے دیکھنے والا اور میرا کوئی صحابی موجود ہوگا۔ اللہ کی قسم تب تک بھی تم بہترین حالت میں رہو گے جب تک تمہارے درمیان میرے صحابی کو دیکھنے والا اور اور اس کا کوئی ساتھی (تابعی)موجود ہوگا،اور اللہ کی قسم اس وقت تک بھی تم بہترین حالت میں رہو گے جب تک تمہارے درمیان کوئی ایسا شخص ہوگا جس نے میرے کسی صحابیکو دیکھنے والے (یعنی تابعی)کو دیکھا ہوگااور میرے صحابی کے ساتھی کا ساتھی رہا ہوگا ۔‘‘
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺنے اپنے دیدار سے مشرف ہونے والے نفوس قدسیہ کے ساتھ خیر کو وابستہ کیا،اسی طرح صحابہ کی زیارت سے مشرف ہونے والے تابعین کے ساتھ بھی خیر کو لازم قرار دیا اور تبع تابعین کے ساتھ بھی خیر کو جزو لاینفک قرار دیا۔
- حضرت ابو بردہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا:
النُّجُومُ أَمَنَةٌ لِلسَّمَاءِ، فَإِذَا ذَهَبَتِ النُّجُومُ أَتَى السَّمَاءَ مَا تُوعَدُ، وَأَنَا أَمَنَةٌ لِأَصْحَابِي، فَإِذَا ذَهَبْتُ أَتَى أَصْحَابِي مَا يُوعَدُونَ، وَأَصْحَابِي أَمَنَةٌ لِأُمَّتِي، فَإِذَا ذَهَبَ أَصْحَابِي أَتَى أُمَّتِي مَا يُوعَدُونَ [31].
’’ستارے آسمان کے بچاؤ ہیں، جب ستارے مٹ جائیں گے تو آسمان پر بھی جس بات کا وعدہ ہے وہ آ جائے گی (یعنی قیامت آ جائے گی اور آسمان بھی پھٹ جائے گا)۔ اور میں اپنے اصحاب کا بچاؤ ہوں۔ جب میں چلا جاؤں گا تو میرے اصحاب پر بھی وہ وقت آ جائے گا جس کا وعدہ ہے (یعنی فتنہ اور فساد اور لڑائیاں)۔ اور میرے اصحاب میری امت کے بچاؤ ہیں۔ جب اصحاب چلے جائیں گے تو میری امت پر وہ وقت آ جائے گا جس کا وعدہ ہے (یعنی اختلاف و انتشار وغیرہ)۔‘‘
- اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح آسمان میں چمکتے دمکتے ستارے آسمان کی بقا کی نشانی ہیں، اسی طرح نبی رحمت ﷺ کی حیات طیبہ امت کی درست سمت میں بقا اور بچاؤ کی علامت ہیں ۔
- جو نسبت نبی کریم ﷺنے اپنی ذات کو امت کے ساتھ دی وہی نسبت اپنے اصحاب کو عطا فرمائی ۔
- ستاروں کے تذکرے سے صحابہ کی بصیرت اور نور ایمان کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے ۔
- جس طرح ستارے راستے کی نشان دہی کرتے ہیں ،اسی طرح صحابہ امت کے لیے ایمان وعمل کی درست راہیں متعین کرتے ہیں ۔
- جن کی یہ منقبت ہے،یقینا ان کا اجتماعی فہم امت کےلئے مشعل راہ ہے اور ستاروں کی طرح ضیا پاشی کا باعث ہے ۔
- سیدنا ابن عمر بیان کرتے ہیں ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ لَا يَجْمَعُ أُمَّتِي، أَوْ قَالَ: أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ضَلَالَةٍ، وَيَدُ اللهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ، وَمَنْ شَذَّ شَذَّ إِلَى النَّارِ [32].
”اللہ تعالیٰ میری امت کو یا یہ فرمایا: ”محمد ﷺکی امت کو گمراہی پر اکٹھا نہیں کرے گا، اللہ کا ہاتھ (اس کی مدد و نصرت) جماعت کے ساتھ ہے، جو شخص جماعت سے الگ ہوا وہ جہنم میں گرا۔ “
یہ حدیث اجماع کی حجت پردلیل ہےخیرالقرون کے فہم پربالاولیٰ حجت اوردلیل قاطع ہے۔
آثارصحابہ وتابعین
خود صحابہ کرام وتابعین عظام سےبھی سلف اول کی اتباع واقتداکےبارےمیں کثرت سےآثارمنقول ہیں ،ان سےچندمندرجہ ذیل ہیں۔
- سیدنا ابن مسعود کا یہ قول آب زر سے لکھنے کے قابل ہے ۔
مَنْ كَانَ مِنْكُمْ مُتَأَسِّيًا فَلْيَتَأَسَّ بِأَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؛ فَإِنَّهُمْ كَانُوا أَبَرَّ هَذِهِ الْأُمَّةِ قُلُوبًا وَأَعْمَقَهَا عِلْمًا وَأَقَلَّهَا تَكَلُّفًا وَأَقْوَمَهَا هَدْيًا وَأَحْسَنَهَا حَالًا، قَوْمًا اخْتَارَهُمُ اللَّهُ تَعَالَى لِصُحْبَةِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاعْرِفُوا لَهُمْ فَضْلَهُمْ وَاتَّبِعُوهُمْ فِي آثَارِهِمْ؛ فَإِنَّهُمْ كَانُوا عَلَى الْهُدَى الْمُسْتَقِيمِ [33].
’’جو آدمی کسی طریقہ کی پیروی کرنا چاہے تو اس کو چاہیے کہ ان لوگوں کی راہ اختیار کرے جو فوت ہو گئے ہیں، کیونکہ زندہ آدمی (دین میں) فتنہ سے محفوظ نہیں ہوتا اور وہ لوگ (جو فوت ہو گئے ہیں اور جن کی پیروی کرنی چاہیے) رسول اللہ ﷺ کے اصحاب ہیں، جو اس اُمت کے بہترین لوگ تھے، دلوں کے اعتبار سے انتہا درجہ کے نیک، علم کے اعتبار سے انتہائی کامل اور بہت کم تکلّف کرنے والے تھے، ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺکی رفاقت اور اپنے دین کو قائم کرنے کے لیے منتخب کیا تھا، لہٰذا تم ان کی بزرگی کو پہچانو اور ان کے نقشِ قدم کی پیروی کرو اور جہاں تک ہو سکے ان سے آداب و اخلاق کو اختیار کرتے رہو، (اس لیے کہ) وہی لوگ ہدایت کے سیدھے راستہ پر تھے۔‘‘
حضرت ابنِ مسعودؓ کا یہ قول فہم سلف کا ٹھیک ٹھیک مقام متعین کرتا ہے ۔کہ دین کی تعبیر میں جب آپ یہ فیصلہ کرنا چاہیں کہ صحابہ کرام کے پیچھے چلوں یا کسی معاصر مفکر کی تقلید کروں ؟تو صحابہ کا دامن تھام لینا ۔
- سیدنا ابن عباس نے خوارج سے مناظرہ کرتے ہوئے ،فہم سلف کو بطور مقدمہ پیش کیا :
أتيتُكم من عِندِ صحابةِ النَّبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم من المهاجِرين والأنصارِ لأُبَلِّغَكم ما يقولون وتُخبروني بما تقولون، فعليهم نَزَل القرآنُ وهم أعلَمُ بالوحي منكم، وفيهم أُنزِلَ، وليس فيكم منهم أحَدٌ[34].
’’میں تمہارے پاس انصار و مہاجرین کا نمائندہ بن کر آیا ہوں۔ تاکہ میں تمہیں ان کا موقف پہنچا سکوں ،اور تم میرے سامنے اپنا موقف رکھ سکو۔(سنو ! ) اُن کی موجودگی میں قرآن مجید نازل ہوا،اور وہ اس کی تفسیروتاویل کا تم سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ اور تم میں سے کوئی شخص بھی صحابی نہیں ہے۔‘‘
- مسجد میں مخصوص اجتماعی ذکر کی مجلس منعقد کرنے والوں کا رد کرتے ہوئے ابن مسعودنے فرمایا:
إِنَّكُمْ لَعَلَى مِلَّةٍ هِيَ أَهْدَى مِنْ مِلَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أوْ مُفْتَتِحُو بَابِ ضَلَالَةٍ [35].
’’ تم یا تو محمد ﷺ کی جماعت سے زیادہ ہدایت یافتہ بنناچاہتےہو یا تم گمراہی کا دروازہ کھولنے والے ہو؟!
- حضرت عمر بن عبد العزیز نے اپنے عامل عدی بن ارطاۃ کے نام خط لکھ کر اسے منہج سلف کا درس دیا ۔
فارض لنفسك بما رَضِىَ به القوم لأنفسهم؛ فإنَّهم عن علمٍ وقفُوا، وبِبَصرٍ نافذٍ كفُّوا[36].
’’تم اپنے لیے وہی پسندکروجوسلف نے اپنے لیےپسندکیا۔ان کاہرموقف علم پرمبنی تھا،اوران کی ہرخاموشی اورترک ،پوری بصیرت کی بنیادپرتھا۔‘‘
اجماع امت
جس مفہوم میں ہم فہم سلف کو مقام دے رہے ہیں یہ اہل سنت کے ہاں کبھی مختلف فیہ مسئلہ نہیں رہا۔ امام ابن تیمیہ نے تو اس معنی میں فہم سلف کو دین کی بدیہی حقیقت ، فطری ضرورت اورآیات واحادیث پر تدبر کا نتیجہ قرار دیا ہے ۔بلکہ اس معنی میں فہم سلف کی اہمیت پر اہل السنہ کا اجماع نقل کیا ہے، امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
وَمِنْ الْمَعْلُومِ بِالضَّرُورَةِ لِمَنْ تَدَبَّرَ الْكِتَابَ وَالسُّنَّةَ وَمَا اتَّفَقَ عَلَيْهِ أَهْلُ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ مِنْ جَمِيعِ الطَّوَائِفِ: أَنَّ خَيْرَ قُرُونِ هَذِهِ الْأُمَّةِ - فِي الْأَعْمَالِ وَالْأَقْوَالِ وَالِاعْتِقَادِ وَغَيْرِهَا مِنْ كُلِّ فَضِيلَةٍ أَنَّ خَيْرَهَا: الْقَرْنُ الْأَوَّلُ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ كَمَا ثَبَتَ ذَلِكَ عَنْ النَّبِيِّ صلی الله علیه وسلم مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ وَأَنَّهُمْ أَفْضَلُ مِنْ الْخَلَفِ فِي كُلِّ فَضِيلَةٍ: مِنْ عِلْمٍ وَعَمَلٍ وَإِيمَانٍ وَعَقْلٍ وَدِينٍ وَبَيَانٍ وَعِبَادَةٍ وَأَنَّهُمْ أَوْلَى بِالْبَيَانِ لِكُلِّ مُشْكِلٍ. هَذَا لَا يَدْفَعُهُ إلَّا مَنْ كَابَرَ الْمَعْلُومَ بِالضَّرُورَةِ مِنْ دِينِ الْإِسْلَامِ وَأَضَلَّهُ اللهُ عَلَى عِلْمٍ؛ كَمَا قَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ[37].
’’قرآن وسنت ،اہل السنہ کے تمام طبقات کے متفق علیہ موقف پرغورکرنےوالے ہرشخص کوبدیہی طورپرمعلوم ہےکہ اس امت کےتمام ادوارمیں سےسب سے بہترین دورقرن اول ہے۔پھراس سےملے ہوئے لوگ اورپھران کےبعدکےلوگ۔یہ لوگ اعمال ،اقوال ،اعتقادات ونظریات اورہرفضیلت کےلحاظ سے بہترین ہیں ۔ جیساکہ متعددروایات سےنبی کریمﷺ سےبھی ثابت ہے۔یہ بات بھی طےشدہ ہےکہ ان طبقات کےلوگ ہرفضیلت میں بعدوالوں سےافضل اوربہترہیں ،علم میں بھی ،عمل میں بھی اورہرپیچیدہ مسئلے کوسلجھانےمیں بھی ۔اس کاانکارصرف وہی شخص کرسکتاہےجوبدیہیات کےسامنے تکبرکرتاہواورعلم کےباوجوداللہ تعالیٰ نے ہی اس کےلیے گمراہی کافیصلہ کردیاہو۔یہ حقیقت عبداللہ بن مسعودؓ کےقول سے بھی ثابت ہے۔ ‘‘
فہم سلف کی اہمیت پرتاریخی وعقلی شواہد
تاریخی لحاظ سے اہمیت
صحابہ کرام کے پاس روحانی اور لغوی وتاریخی لحاظ سے علم دین کے وہ تمام اسباب مجتمع ہوگئے تھے جن کا بعد کے لوگوں کو عشر عشیر بھی میسر نہیں ۔مجموعی طور پر جو صحابہ کے عمل اور بعد والوں کے عمل میں تفاوت ہے وہی ان کے فہم میں بھی من حیث الجماعت تفاوت ہے۔بلکہ غیبیات کے متعلق ان کے ارشادات کو مرفوع حکمی کا درجہ حاصل ہے ۔بشرطیکہ وہ اسرائیلیات سے مستفاد نہ ہو۔
ملاوٹ سے محفوظ خالص فہم
سلف کافہم خالص قرآن وسنت کی عبارات پرمبنی ہوتاہے۔ اس میں نہ فلسفہ کی موشگافیاں ہیں ،نہ تحریف وتاویل،نہ غیراسلامی نظریات کی آمیزش اور نہ ہی درآمدشدہ افکارکی ملاوٹ ہے ۔سلف کاذہنی سانچہ خالصتاً قرآن وسنت میں ڈھلاہواتھا،اس لیے وہ اہم ہے، بعدوالےلوگوں کےفہم میں یہ چیز یں عموماًجمع نہیں ہوتیں ۔
اخلاص پرمبنی فہم
سلف کافہم اخلاص پرمبنی تھا۔نہ اس میں سیاسی مفادات تھے،نہ جماعتی تعصبات ،نہ گروہ بندی کےاسیرتھے،نہ فرقہ واریت کےقیدی ،نہ انہیں دنیاکی کوئی متاع عزیزتھی،نہ ہی کوئی تعلق۔انہوں نے جو سمجھا پورے خلوص سے سمجھااورسمجھایا۔بعدوالوں کے فہم میں یہ اخلاقی قدریں اس درجےپر نہیں ملتیں ۔
تعلق باللہ اورخاص ایمانی بصیرت
تعبیردین میں تقویٰ ،للہیت،تعلق باللہ ،تہجد،اذکار،رزق حلال،پابندی شریعت کابھی بڑاعمل دخل ہوتاہے۔یہ چیزیں جس درجےمیں خیرالقرون میں پائی جاتی تھیں ،بعدکےادوارمیں اس درجےکی نہیں ہیں۔اس وجہ سے جوسلف کے فہم میں معیارہےوہ بعدکےلوگوں میں نہیں ہے۔
فصاحت قرآنی کاتقاضا
فہم سلف کی اہمیت اس زاویے سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ سفر و حضر میں نبی مکرمﷺکے ساتھ رہنے والے ، نزول ملائکہ کا مشاہدہ کرنے والے، آیات کی تنزیل کا مصداق بننے والے صحابہ کرام ہی اگر کسی آیت کو سمجھ نہیں پائے اور کم وبیش ساڑھے چودہ سو سال کے بعد کسی محقق کو اس آیت کا ایسا درست مطلب دریافت ہوا جس سے صحابہ کرام ہی کی تغلیط ہو رہی ہے (فہم سلف کے منکرین در حقیقت یہی کہہ رہے ہوتے ہیں ) تو یقیناً یہ فکر فصاحت قرآن مجید پر ایک سوال کھڑا کرتی ہے!!!
گمراہی اوربدعات سےحفاظت کی ضمانت
فہم سلف چونکہ قرآن وسنت کی صحیح تعبیرہی کادوسرانام ہے۔اس لیےیہ گمراہی سے حفاظت کی ضمانت فراہم کرتاہے،یہ انسان کوبدعات سےبچاتاہے۔ کیونکہ جن کو سکھانےکےلیے جبریل انسانی شکل میں آسمان سےنازل ہوتارہااورپیغمبراسلام خودان کی تربیت کرتے رہے، بھلاان سے بھی بہترکسی کاعقیدہ ہوسکتاہے۔
ملائکہ،وحی،آسمانی کتب اور تقدیر پر ایمان انہی کے منہاج پر ،عذاب قبر،یوم آخرت ،حوض کوثر، شفاعت، جنت و جہنم ،ایمان کی حقیقت ،مقام صحابہ کرام اور ان کے درجات ان سب کے متعلقہ نصوص کو سمجھنے میں جتنے بھی گم راہ فرقوں نے گم راہیاں ایجاد کیں ،سب کی بنیادی وجہ فہم سلف سے دوری ہے۔
شرک کی دلدل میں وہی لوگ جا گرے جنہوں نے توحید وشرک سے متعلق آیات بینات کو سلف کی راہ سے ہٹ کر سمجھا ۔کسی نے عقل کو معیار بنایا ،کسی نے مخصوص اہل بیت کو فہم نصوص میں حرف آخر سمجھا، اور کسی نے اپنے اپنے اکابر تراش لیے ،اور کچھ تجددپسندوں نے اپنی خود ساختہ ،تحریف پر مبنی ،جدیدیت سے مرعوب غلامانہ ذہنیت کو ہی خالص قرآن کا نام دے ڈالا۔ ان سب اندھیروں میں اہل السنہ نے ہی ایک قندیل روشن کی۔خوارج ،نواصب،روافض،معتزلہ،قدریہ اورجہمیہ وغیرہ جیسے گمراہ فرقوں نے تبھی جنم لیا،جب انہوں نےصحابہ وتابعین کے فہم سے دوری اختیارکی اورسبیل المؤمنین سے اپناراستہ الگ کرلیا۔
فہم سلف پربعض اشکالات کاازالہ
پہلااشکال:قرآن وسنت کےساتھ تیسرےمصدرتشریع کااضافہ کیوں؟
فہم سلف پرمنکرین کی طرف سےسب سےپہلااوربنیادی اعتراض یہ اٹھایاجاتاہےکہ قرآن وسنت کےساتھ ایک تیسرےمصدرتشریع کااضافہ درست نہیں ہے۔حالانکہ قرآن وسنت کے بالمقابل فہم سلف کو کھڑا کرنا ،اس موضوع کے ساتھ بدترین نا انصافی ہے۔
اس معنی میں فہم سلف کو حجت کہنا جس کی وضاحت ہم کرآئےہیں،دین میں کسی تیسرے مصدر تشریع کا اضافہ نہیں ،بلکہ قرآن وسنت کے صحیح فہم تک رسائی کے لیے درست منہاج کی نشان دہی ہے۔
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآنی الفاظ کی تشریح کے لیے عربی لغت کا فہم ضروری ہے تو کوئی ذی عقل یہ نہیں کہتا کہ یہ قرآن وسنت کے متوازی ایک تیسری چیز کا اضافہ ہے !! بلکہ ہر صاحب شعور کہے گا کہ عربی زبان کی ضرورت در حقیقت قرآن وسنت کی خدمت کی حیثیت سے ہے ،نہ کہ ایک متوازی تیسری وحی کے طور پر۔ بعینہ اسی طرح قرآن وسنت کی نصوص کو سمجھنے کے لیے صحابہ کرام اور تابعین کی تشریحات ہمارے نزدیک ایک تاریخی ضرورت ہے اور لسانی بھی،ایک بدیہی تقاضا ہے اور ایمانی وروحانی بھی۔
فہم سلف کو قرآن وسنت کے متوازی کھڑا نہیں کیا جارہا بلکہ متأخرین کے اس فہم کے بالمقابل کھڑا کیا جا رہا ہے جو انہوں نے فتنوں کے دور میں ،ایمان ویقین کے ضعف کے ساتھ حاصل کیا ہے ۔اس صورت حال میں اصل سوال یہ بنتاہے: آپ کی تشریح مقدم ہے یا صحابہ وتابعین کی؟!
دوسرااشکال:سلف کے دورمیں مبتدعین بھی موجودتھے
بعض لوگوں نے فہم سلف کا انکار کرتے کرتے صحابہ کرام اور تابعین کے مقام و مرتبہ پر افسوس ناک طریقے سے ہاتھ صاف کردیا ہےاور یہاں تک لکھ مارا ہے کہ بڑے بڑے گم راہ فرقے عہد سلف ہی میں پروان چڑھے تھے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔۔ یہ سلفیت کا بغض ہے ،علم کا خمار ہے یا قائلین فہم سلف کے زور خطابت کے رد عمل میں اندھا دھندقلمی زورآزمائی ہے،اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔لیکن کسی صاحب علم اور احترام سلف کو ملحوظ رکھنے والے ادنی طالب علم سے بھی اس بلنڈر کی توقع نہ تھی۔شاید سلف کے اصطلاحی مفہوم اور لغوی مفہوم میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے یہ سطحی اور جذباتی الفاظ نکل گئے ہیں ، سلف سے مراد حضرات صحابہ کرام اور ان کے نقش پا پر چلنے والے تابعین و تبع تابعین ہیں ۔کیاصحابہ کرام میں کبھی کوئی بدعتی فرقہ بھی رہا ہے ؟ کہاں سلف کی مقدس تعبیر اور کہاں اہل بدعت کے گروہ۔ذو الخویصرہ،معبد جہنی ،واصل بن عطاء،جیسے لوگ اس دور کے سلف کی نمائندگی نہیں کرتے ،نہ ہی وہ صحابہ کرام کے منہج پر تھے ۔یہ اس دور کے شاذ اور گم راہ لوگ ہیں ۔ ان کو سلف میں شامل کرکے سلف صالحین پر چڑھائی کرنا ایسے ہی جیسے صحابہ کرام کے تقدس پر بعض روافض جھٹ سے کہتے ہیں کہ ’’صحابہ کرام ‘‘ میں تو منافقین بھی شامل تھے۔ (والعیاذباللہ)۔جس طرح ابن ابی وغیرہ کی آڑ میں صحابہ کی پوری مقدس جماعت کو مشکوک بنانا سخت بدتہذیبی ہے،اسی طرح سلف صالحین کے عہد مبارک میں چند گمراہ فرقوں کا نام لے کر سلف صالحین کی پوری جماعت کو کٹہرے میں کھڑا کرنا نا انصافی اور بد اخلاقی ہے ۔(والعیاذ باللہ )علم کی دنیا میں اصطلاحات کے ساتھ یہ کھلواڑ افسوس ناک اور باعث حیرت ہے۔
تیسرااشکال:بعض سلف کی شاذآراءپراعتراض
اسی طرح فہم سلف پر اعتراض کرتے ہوئے سلف کی بعض شاذ آراء اور اجتہادی اخطاء کو پیش کرنا بھی ، بالکل سطحی اعتراض ہے۔
ہر منصف مزاج شخص اس نتیجے پر پہنچ جائے گا کہ ایسی شاذ آراء اس کیٹیگری میں آتی ہیں جو قرآن وسنت سے متصادم ہیں ...ان شاذآراء کو شاذ آراء ہی کہیے ، یہ بعض سلف کا انفرادی فہم ہے ،نمائندہ فہم سلف نہیں۔
چوتھااشکال:فہم سلف کی اصطلاح میں ابہام
بعض لوگوں کویہ اعتراض ہےکہ فہم سلف کی اصطلاح متفق علیہ اورواضح اصطلاح نہیں ہے۔بلکہ اس کی تعریف میں اختلاف ہے،کوئی اس سے صحابہ کاطبقہ مرادلیتاہے،کوئی اسے پانچویں صدی تک کھینچ لاتاہے۔
ہمیں یہ تسلیم ہے کہ بعض اصطلاحات ایک بدیہی حقیقت ہونے کے باوجود ان کی منطقی وفنی تعریف میں کچھ اختلاف واقع ہو جاتا ہے۔لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس اصطلاح کی عملی حقیقت ہی کوئی نہیں ۔
یہ صرف فہم سلف کی اصطلاح کا مسئلہ نہیں ،ہر واضح ترین چیز میں بھی جزوی اختلاف رونما ہوسکتا ہے اور اس پر چند سطحی اشکالات اٹھائے جا سکتے ہیں ۔جیسا کہ منکرین حدیث ،حجیت حدیث کے باب میں کبھی موضوع احادیث کا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں اورکبھی اختلاف روایات کا۔ لیکن جب ہم حجیت حدیث کو تسلیم کرتے ہیں تو ایک مجموعی حیثیت سے ارشادات نبویہ کی حجیت کی بات کرتے ہیں ۔تطبیق کے لحاظ سے پھر احادیث کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔بعینہ ہر صاحب عقل کو کم از کم یہ تو تسلیم کرنا چاہیے کہ جس دور کو نبی کریمﷺ نے خیر القرون کہا ہے اور جس جنریشن کی نبی کریم ﷺ نے رب کریم کی نگرانی میں تربیت کی ہے ،ان کا قرآن وسنت کے ساتھ تعامل میں مخصوص مزاج ،خاص منہج ،لگے بندھے اصول وضوابط ،عقائد اور افکار اور طرز عمل تھا۔ یہ توشمس النہارکی طرح ایک تاریخی حقیقت ہے ،جسے ہرسلیم الفطرت تسلیم کرتاہے۔بس اسی تاریخی حقیقت کو ہم فہم سلف کہتے ہیں اور قرآن وسنت کی تشریح میں بعد کے لوگوں کی تعبیرات پر اسے مقدم سمجھتے ہیں۔
اگرچہ تطبیق کے میدان میں پھر اس کی درجہ بندی اور الگ تفصیلات ہیں ۔
پانچواں اشکال:اجماع کی اصطلاح کی بجائے فہم سلف کی اختراع کیوں؟
بعض لوگوں کے ذہن میں یہ اشکال ہےکہ فہم سلف سے جب اجتماعی فہم ہی بنیادی طورپرمرادہے تواس کے لیے اجماع کی اصطلاح استعمال کیوں نہیں کرتے؟ایک نئی اصطلاح گھڑنےکی کیاضرورت ہے؟
پہلی بات تویہ ہےکہ فہم سلف بعدکے لوگوں کی اختراع اورایجادنہیں ،قرآن مجیدنے جسےسبیل المؤمنین کہاہے،حدیث میں جسے’’ما انا علی واصحابی ‘‘ کہاگیاہے،اسی کادوسرانام فہمِ سلف ہے۔اوریہ خودان صحابہ وتابعین سےشروع ہونےوالاتصورہے،بعدکے سلفیوں کی ایجادنہیں، ہاں اس کامقدمہ سلفیوں نے لڑا ہے اور اسے نکھارنےکی کوشش کی ہے۔
دوسری بات یہ ہےکہ فہم سلف اوراجماع میں بعض اشتراکات یقیناًموجودہیں بلکہ اجماع کی حجیت پرتمام دلائل ،فہم سلف کی حجیت پربالاولیٰ دلیل ہیں۔لیکن ان دونوں اصطلاحات میں چند اہم فروق بھی ہیں ،جن کی بناپراجماع کےلفظ سے وہ مفہوم ادانہیں ہوتاجوفہم سلف سے اداہوتاہے۔ان میں سے چندبنیادی فروق یہ ہیں:
- اجماع بالعموم فقہی اجتہادی مسائل کےلیے استعمال ہونےوالی اصطلاح ہے۔جبکہ فہم سلف میں توسع ہےاوریہ پورے دین پرمحیط ہے۔ایمان وعقائد،اخلاق وآداب اورفقہیات سب اس میں شامل ہیں۔
- اجماع بالعموم غیرمنصوص مسائل میں مجتہدین کااجتہادہوتاہے۔جبکہ فہم سلف میں بنیادی طور پر نصوص کی تشریح وتعبیراوران سے تعامل کامنہج پیش نظرہوتاہے۔
چھٹااشکال:فہم سلف کی پابندی اورتقلیدآباءکاشوشہ
بعض لوگ فہم سلف پریہ اعتراض کرتےہیں کہ یہ توتقلیدآباءہی کادوسرانام ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فہم سلف تقلیدآباءاورذہنی آوارگی کے درمیان راہ اعتدال کادوسرانام ہے۔اتباع قرآن وسنت کاصحیح منہج اوردرست طرز عمل ہے۔گمراہی سے حفاظت کی ضمانت ہے۔
تقلیدآباءبغیردلیل کےہوتی ہے۔جبکہ فہم سلف کی توبنیادہی دلیل کوصحیح اندازمیں سمجھنےپرہے۔
ساتواں اشکال:فہم سلف سے تدبرکی راہیں محدودہوتی ہیں
بعض لوگ یہ سمجھتےہیں کہ فہم سلف کی پابندی کرنےسے قرآن وسنت میں غوروفکراوراستنباط واجتہادکی راہیں محدودہوتی ہیں ۔جبکہ حقیقت یہ ہےکہ فہم سلف کی پابندی سے درست تدبرکی راہیں آسان ہوتی ہیں ، معیاری تہادواستنباط کا میزان قائم ہوتاہے،درحقیقت تدبر کی راہ نہیں بلکہ فکری آوارگی کی راہیں بندہوتی ہیں ۔
ایک اہم تنبیہ اورغالی نقطہ نظر سےبراءت
بعض لوگوں نے فہم سلف کی اہمیت واضح کرنے کے لیے جو اس طرح کا انداز اپنایا ہے کہ ہزار آیات بھی فہم سلف کے خلاف ہوں تو تسلیم نہیں ،یا قرآن وسنت پر نظر نہیں کریں گے،سلف کے قدموں میں اپنی عقل رکھ دیں گے،وہ کہیں پورےپاؤں نہیں ،بس صرف ناخن ہی وضومیں دھونے ہیں توصرف ناخن دھونے پر اکتفا کریں گے،یہ مبالغہ زبانی دعووں کےسواکچھ نہیں، یہ جوش خطابت میں ہوش کھونےوالے الفاظ ہیں ۔ بہر حال ایسے غلو پر مبنی ا قوال سراسر غلط ہیں ، نصوص قرآن و سنت کے تقدس کے بھی شایان شان نہیں ۔بلکہ اس طرح کی باتیں خود منہج سلف کے بھی خلاف ہیں ۔ آئندہ ان سے اجتناب اور سابق سے رجوع ضروری ہے،اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی فہم دین اور شرعی بصیرت واخلاص کی نعمت سے مالا مال فرمائے ۔آمین
[1] الحجرات: 1 ، 2
[2] معجم کبیرطبرانی: 11 / 339
[3] صحیح بخاری :1569
[4] صحیح بخاری:1563
[5] مسند احمد: 3121
[6] صفۃ صلاۃ النبی ،للالبانی: 27
[7] جامع ترمذی:824
[8] لسان العرب :12/ 459
[9] فتح الباري لابن حجر :1/ 165
[10] ملاحظہ ہو: النساء: 22،23، المائدہ: 95، الانفال: 38
[11] مقدمہ صحیح مسلم ،باب الاسناد من الدین
[12] ترتیب المدارک، لقاضی عیاض2 /93، بحوالہ : فهم السلف الصالح للنصوص الشرعیة،
للدکتورعبدالله بن عمرالدُّمیجی:32
[13] التحف من مذاهب السلف، شوکانی:7 - 8 بحوالہ: فهم السلف للدمیجی:32
[14] فهم السلف الصالح للنصوص الشرعیة:48
[15] اعلام الموقعین :4/104
[16] فتاویٰ ابن تیمیہ ،14/20
[17] الفقیه والمتفقه،الخطیب البغدادی :1/175
[18] فتاویٰ ابن تیمیہ :13/124
[19] فتاو ی ٰابن تیمیہ :13/370
[20] اعلام الموقعین 4/140وبعد
[21] مقدمہ اصول تفسیر: 9
[22] تفسيرطبری (1/ 90)ح :105
[23] تفسيرطبری (1/ 90)ح :107
[24] مجاز القرآن :١/ ٢٤٢
[25] تفسير الطبري، 9/197، تفسير ابن عطية:13/245، 9/429، معاني القرآن، 4/309، فصول في أصول التفسير، الطيار:46۔7،تفسیر قرآن کے اصول وقواعد،عبید الرحمٰن محسن: 179]
[26] فهم السلف الصالح للنصوص الشرعیة، عبدالله الدمیجی: 49
[27] جامع ترمذی:2641
[28] صحیح بخاری:6658
[29] ابوداؤد ،3659
[30] السنۃ ،لابن ابی عاصم:1481
[31] صحيح مسلم :2531
[32] جامع ترمذی،2167
[33] جامع بيان العلم وفضله لابن عبدالبر (2/ 947): 1810،اس کی سندمیں اگرچہ ضعف ہے،تاہم معنی درست اورطےشدہ ہے ۔
[34] سنن بیہقی :۱۷۱۸۶
[35] سنن الدارمی : 210
[36] الشريعہ،للآجري،539
[37] مجموع الفتاوى:4/157