دسمبر 2024ء

شرح كتاب التوحيد (صحيح بخاری)   قسط (7)

شرح كتاب التوحيد (صحيح بخاری) قسط (7)

 7380 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ: « مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ كَذَبَ، وَهُوَ يَقُولُ»:]لاَ تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ[[الأنعام: 103] «وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ يَعْلَمُ الغَيْبَ فَقَدْ كَذَبَ، وَهُوَ يَقُولُ»: لاَ يَعْلَمُ الغَيْبَ إِلَّا اللهُ.

’’ ہمیں  محمد بن یوسف نے بیان کیا ، کہ ہمیں  سفیان نے بیان کیا ،  اسماعیل سے ، انہوں نے  شعبی سے ، انہوں نے مسروق سے کہ سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا: اگر تم سے کوئی یہ کہے کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا  ہے ،تو وہ غلط کہتا ہے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بارے میں خود کہتا ہے:’’ نظریں اس کو دیکھ نہیں سکتیں ‘‘۔ اور جو کوئی کہتا ہے کہ آنحضرت ﷺ غیب جانتے تھے، تو وہ  غلط کہتا ہے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ  خود فرماتا  ہے کہ غیب کا علم اللہ کے سوا اور کسی کو نہیں ۔‘‘

شرح الحدیث

 مذکورہ حدیث میں دو چیزوں کی وضاحت کی گئی ہے :

  • رسول اللہ ﷺ نے اپنی دنیوی حیات میں اللہ تعالیٰ کی زیارت نہیں کی ۔
  • رسول اللہ ﷺ غیب نہیں جانتے ۔

رؤیت باری تعالیٰ  کامسئلہ

زیر بحث حدیث ایک واقعہ کا حصہ ہے ، جسے  امام ابن خزیمہ نے مفصلاً نقل کیا ہے ، امام شعبی فرماتے ہیں :

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: اجْتَمَعَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَكَعْبٌ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّا بَنُو هَاشِمٍ، نَزْعُمُ أَوْ نَقُولُ: «إِنَّ مُحَمَّدًا رَأَى رَبَّهُ مَرَّتَيْنِ» ، قَالَ: فَكَبَّرَ كَعْبٌ حَتَّى جَاوَبَتْهُ الْجِبَالُ، فَقَالَ: إِنَّ اللهَ  قَسَمَ رُؤْيَتَهُ وَكَلَامَهُ بَيْنَ مُحَمَّدٍ، وَمُوسَى، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِمَا وَسَلَّمَ فَرَآهُ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَلْبِهِ، وَكَلَّمَهُ مُوسَى.

قَالَ مُجَالِدٌ: قَالَ الشَّعْبِيُّ: فَأَخْبَرَنِي مَسْرُوقٌ أَنَّهُ قَالَ لِعَائِشَةَ: أَيْ أُمَّتَاهُ هَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ رَبَّهُ قَطُّ؟ قَالَتْ: إِنَّكَ تَقُولُ قَوْلًا، إِنَّهُ لَيَقِفُ مِنْهُ شَعْرِي، قَالَ: قُلْتُ: رُوَيْدًا، قَالَ: فَقَرَأْتُ عَلَيْهَا: ] وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰى ۙ۰۰۱ [ إِلَى قَوْلِهِ:] فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰىۚ۰۰۹[ [النجم: 7-9] فَقَالَتْ: أَيْنَ يُذْهَبُ بِكَ؟ إِنَّمَا رَأَى جِبْرِيلَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صُورَتِهِ، مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ كَذَبَ[1].

’’عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ  حضرت ابن عباس ﷜اور کعب احبار﷫ ایک جگہ اکٹھے ہوئے تو ابن عباس ؓ نے کہا : ہم بنو ہاشم سمجھتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا ہے ۔تو کعب احبار نے اتنی زور سے تکبیر کہی کہ پہاڑ گونج اٹھے ، پھر کہنے لگے : بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے رؤیت اور کلام کو محمد ﷺ اور موسیٰ﷤ کے درمیان تقسیم کردیا ہے ۔ محمد ﷺ نے اپنے دل سے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے اور موسیٰ﷤ نے  اللہ تعالیٰ سے کلام کیا ہے۔

مجالد کہتے ہیں کہ مجھے شعبی نے بتایا کہ مجھے مسروق نے بتایا کہ انہوں نے  سیدہ عائشہؓ سے کہا اے ماں جی!  کیا محمد ﷺ نے اپنے رب کو کبھی دیکھا ہے ؟ وہ کہنے لگیں : تیری اس بات نے تو میرے رونکٹےکھڑے کردیئے ہیں ۔میں نے کہا :ذرا ٹھہریں ۔ پھر میں نے ان کے سامنے دلیل کے طور پر سورۃ النجم کی ابتدائی  آیات پڑھیں : ] وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰى ۙ۰۰۱... فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰىۚ۰۰۹[ [النجم: 1۔9]  تو وہ فرمانے لگیں : یہ تمہیں کہاں لے کر جارہی ہے ، اس سے مراد تو یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جبریلؑ  کو اس کی اصل شکل میں دیکھا ہے ۔  جو تجھے یہ بتائے کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے اس نے غلط بات کہی ۔‘‘

اس روایت سے درج ذیل چیزوں کا علم ہوتا ہے :

  • بنو ہاشم کا خیال ہے کہ محمد ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے ۔
  • حضرت ابن عباس نے جب یہ بات کعب احبار سے کہی تو انہوں نے اس کی تائید کی۔
  • سیدہ عائشہ ؓ نے رؤیت باری تعالیٰ کا انکار کیا ، اور سورۃ النجم کی آیات  کو  جبریلؑ  کی حقیقی  رؤیت پر محمول کیا ۔

رؤیت باری تعالیٰ کے حوالےسے مختلف مواقف

مذکورہ بالا حدیث کی شرح کرتے ہوئے علامہ عبدالحق ہاشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

و في المسألة ثلاثة  مذاهب:

المذهب الأول : اثبات الرؤية ، و اليه جماهير الصحابة ، و التابعين ،و من بعدهم من الائمة .

و المذهب الثاني :نفي الرؤية و هو مذهب عائشة الصديقة و ابن مسعود وغيرهما من الصحابة و التابعين .

و المذهب الثالث: اثبات الرؤية  القلبية و نفي الرؤية العينية و اليه ذهب كثير من الائمة  و هو رواية عن ابن عباس و المسألة بالدلائل في سورة النجم [2].

’’ اس حدیث  میں  رؤیت باری تعالیٰ  کی تکذیب کی طرف اشارہ ہے۔ اس مسئلہ میں تین نظريات  ہیں:
پہلا نظریہ : رؤیت کے اثبات کا ہے ، یہ عقیدہ جمہور صحابہ، تابعین اور ان کے بعد کے ائمہ کا ہے۔
دوسرا عقیدہ: بصارت کا انکار ہے ، یہ عائشہ صدیقہ، ابن مسعود اور دیگر صحابہ و تابعین کا عقیدہ ہے۔
تیسرا مکتب فکر: قلبی بصارت کا اثبات اور جسمانی بصارت کا انکار ہے، بہت سے ائمہ اس کی طرف گئے ہیں، اور ابن عباس سے  یہی روایت ہے۔‘‘

پہلا موقف اور اس کے دلائل

رسول اللہ ﷺ رؤیت باری تعالیٰ سے مشرف ہوئے۔علامہ عبدالحق ہاشمی نے اسے جمہور صحابہ کا موقف قرار دیا ہے ۔ان کے دلائل درج  ہیں :

  • اللہ تعالیٰ نے سفر معراج کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:

[ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى ۙ۰۰۸ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰىۚ۰۰۹فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰى ؕ۰۰۱۰مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى۰۰۱۱اَفَتُمٰرُوْنَهٗ۠ عَلٰى مَا يَرٰى۰۰۱۲وَ لَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰىۙ۰۰۱۳عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى ۰۰۱۴عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَاْوٰى ؕ۰۰۱۵اِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشٰى ۙ۰۰۱۶مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰى ۰۰۱۷] [النجم :18،1] 

’’ پھر وہ نزدیک ہوا پھر اور آگے بڑھا پھر دو کمانوں کا یااس سے کم فاصلہ رہ گیا ۔ پھر اللہ نے اپنے بندے کی طرف وحی کی جو کرنا تھی ۔ جو کچھ اس نے آنکھ سے دیکھا تھا دل نے اسے جھوٹ ن ہیں سمجھا۔ اب کیا تم اس بات میں جھگڑا کرتے ہو جو ا س نے آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ اور ایک مرتبہ اور بھی اس نے اس کو  سدرۃ المنتہی ٰ کے پا س دیکھا جس کے پاس ہی جنت الماویٰ ہے جبکہ اس سدرہ پر چھا رہا تھا جو (نور ) چھارہا تھا نہ (اس کی ) نظر چندھیائی اور نہ آگے نکل گئی ۔ ‘‘   

  • مشہور تابعی عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں :

قُلْتَ لِأَبِي ذرٍّ، لَوْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: عَنْ أيِّ شيْءٍ كُنْتَ تَسْأَلُهُ؟ قَالَ: كُنْتُ أَسْأَلُهُ هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ؟ قَالَ أَبُو ذَرٍّ: قَدْ سَأَلْتُ، فَقَالَ: «رَأَيْتُ نُورًا» [3].

’’ میں نے ابو ذر سے کہا : اگر میں رسول اللہ ﷺ سے ملا ہوتا تو آپ ایک سوال ضرور پوچھتا ۔ابو ذر ؓ کہنے لگے:کس چیز کے متعلق  پوچھنا تھا    ؟ تو میں نے کہا : میں نے پوچھنا تھا کہ آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ ابوذر فرمانے لگے :میں نے یہ پوچھا تھا ،تو آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے نور دیکھا ہے  ۔‘‘

قرآن و حدیث کے بےشمار دلائل سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نور ہے ، اور رنبی اکرم ﷺ نے نور کو  دیکھا ہے ، تو اس سے واضح ہے کہ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی زیارت کی ہے ۔

  قرآن مجید اور حدیث دونوں میں دیکھنے کاتذکرہ ہے  ، اور دیکھنے کا اطلاق بالعموم آنکھوں سے دیکھنے پر ہوتا ہے ، لہٰذا آپ ﷺ نے آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے ۔

دوسرا موقف اور اس کے دلائل

رسول اللہ ﷺ نے دل سے اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا ہے آنکھوں سے نہیں ۔

  • حضرت ابن عباس ﷠ نے اسے بنو ہاشم کا موقف  قرار دیا۔
  • کعب احبار نے اس کی تصدیق کی ۔
  • دوسری روایت میں حضرت ابن عباسؓ کے اپنے الفاظ سے بھی یہ واضح ہے :
    عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: [ مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى  ][النجم: 11]، [ وَ لَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى] [النجم: 13]، قَالَ: «رَآهُ بِفُؤَادِهِ مَرَّتَيْنِ»[4].

 ’’حضرت ابن عباس﷜ آیت : [ مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى][اور ] وَ لَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى] کے متعلق فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے دو مرتبہ اپنے رب کو اپنے دل سے  دیکھا۔‘‘

  • امام دار قطنی اپنی کتاب ’’ رؤية الله ‘‘ میں ابن عباس سے اس معنی میں بہت ساری روایات لائے  ہیں۔

تیسرا  موقف  اور اس کے دلائل

حضرت  عائشہ ؓ    نے مطلق طور پر رؤیت باری تعالیٰ کا انکار کیا ہے ، ان کے دلائل درج ذیل ہیں :

  • [لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَوَ هُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ۰۰۱۰۳] [الأنعام: 103]

’’  نگاہیں اسے پا نہیں سکتیں جبکہ وہ نگاہوں کو پالیتا ہے اور وہ بڑا باریک بیں ہر چیز کی خبر رکھنےوالا ہے۔‘‘

  • حضرت عائشہ کے موقف  کی تائید حضرت موسیٰ﷤کے واقعہ سےبھی  ہوتی ہے :

[وَ لَمَّا جَآءَ مُوْسٰى لِمِيْقَاتِنَا وَ كَلَّمَهٗ رَبُّهٗ قَالَ رَبِّ اَرِنِيْۤ اَنْظُرْ اِلَيْكَ قَالَ لَنْ تَرٰىنِيْ وَ لٰكِنِ انْظُرْ اِلَى الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهٗ فَسَوْفَ تَرٰىنِيْ فَلَمَّا تَجَلّٰى رَبُّهٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَهٗ دَكًّا وَّ خَرَّ مُوْسٰى صَعِقًا فَلَمَّاۤ اَفَاقَ قَالَ سُبْحٰنَكَ تُبْتُ اِلَيْكَ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِيْنَ۰۰۱۴۳] [الأعراف: 143]

’’ اور جب موسٰی ہمارے مقرر ہ وقت اور جگہ پر آگیا اور اس  سے اس کے پروردگار نے کلام کیا۔ موسیٰ﷤ نے عرض کیا : پروردگار ! مجھے اپنا آپ دکھلا دیجئے کہ میں ایک نظر تجھےدیکھ سکوں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تو مجھےہرگز نہ دیکھ سکے گا ۔ البتہ اس پہاڑ کی طرف دیکھ ، اگر یہ اپنی جگہ پر برقرار رہا تو تو بھی مجھےدیکھ سکے گا ۔ پھر جب اس کےرب نے پہاڑ پر تجلی کی تو اسے ریزہ ریزہ کردیا اور موسیٰ ﷤ غش کھا کر گر پڑے ۔ پھر جب انہیں کچھ افاقہ ہوا تو کہنے لگے : تیری ذات پاک ہے ، میں تیرےحضور توبہ کرتا ہوں اور میں سب سےپہلا ایمان لانے والا ہوں ۔‘‘

  • سیدہ عائشہ ؓکےموقف کی تائید میں یہ روایت پیش کی جاسکتی ہے :

عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ؟ قَالَ: «نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ»[5].

’’ حضرت ابوذر﷜ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:وہ تو نور ہے ،میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں؟!۔‘‘

دلائل کا تجزیہ

اب ہم تینوں مواقف کے دلائل کا تجزیہ کرتے ہیں :

جمہور صحابہ کرام نے سورۃ نجم کے الفاظ قاب قوسین اور رأی  سے  استدلال کیا ہے کہ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے ، اور دیکھنے کا مطلق معنیٰ آنکھوں سے دیکھنا ہوتا ہے ۔

حضرت ابن عباس نے انہی دلائل کی بنیاد پر رؤیت کو مانا ہے ، لیکن احتیاط کو پیش نظر رکھتے ہوئے قلبی رؤیت  قرار دیا ہے ۔

سیدہ عائشہؓ  نے  مطلق رؤیت کا انکار کیا ہے ، اور جس آیت کو دلیل بنایا ہے  اس میں ادراک کی نفی ہے علم کی نفی نہیں ہے۔ادراک، علم سے ایک زائد چیز ہے ۔ سطحی علم   بھی علم کہلاتا  ہے ،لیکن ادراک کا مطلب  کسی چیز کی گہرائی میں جانا اور اس کی  حقیقت کو پالینا اور یہ بالکل واضح ہے کہ  اللہ کی حقیقت  كو کو ئی نہیں پا سکتا۔  لہٰذا یہ رؤیت سے انکار کی دلیل نہیں بن سکتی ۔

اسی طرح حضرت موسیٰ ﷤کے واقعہ  میں عام حالت میں دیکھنے کا انکار  ہے، جبکہ قائلین معراج میں رؤیت  کی بات کرتے ہیں  ۔معجزہ  ماورائےطبیعات  ہے ، ان پر عام حالات کے اصول لاگو  نہیں ہوتے ، لہٰذا حضرت عائشہؓ  کی پیش کردہ آیت معراج میں دیکھنے کے مخالف نہیں ہے۔

باقی رہی حضرت ابو ذر ؓ   کی روایت ہے ، تو وہ کئی الفاظ سے مروی ہے ۔مثلاً

قَدْ سَأَلْتُ، فَقَالَ: «رَأَيْتُ نُورًا [6].

’’ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تھا (کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟) تو آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے نور دیکھا ہے  ۔‘‘

ایک دوسری روایت میں ہے :

حِجَابُهُ النُّورُ[7].

’’ اس پر نور کے پردے ہیں  ۔‘‘

یہ الفاظ بظاہر متضاد ہیں،لیکن غور کریں تو  مجموعی معنی ایک ہی بنتا ہے کہ میں نے اسے دیکھا ہے ،لیکن چونکہ وہ نور ہے ، اس لیے اس کی حقیقت تک پہنچا نہیں جاسکتا۔

سورۃ النجم میں کس کی رؤیت کا تذکرہ ہے ؟

اللہ تعالیٰ نے سورۃ النجم میں نبی اکرم ﷺ کے سفر معراج کا تذکرہ کرتے ہوئے  فرمایا:

[وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰى ۙ۰۰۱مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غَوٰىۚ۰۰۲وَ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى ؕ۰۰۳اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى ۙ۰۰۴عَلَّمَهٗ شَدِيْدُ الْقُوٰى ۙ۰۰۵ذُوْ مِرَّةٍ فَاسْتَوٰى ۙ۰۰۶وَ هُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰى ؕ۰۰۷ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى ۙ۰۰۸ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰىۚ۰۰۹فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰى ؕ۰۰۱۰مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى۰۰۱۱ اَفَتُمٰرُوْنَهٗ۠ عَلٰى مَا يَرٰى ۰۰۱۲وَ لَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰىۙ۰۰۱۳عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى ۰۰۱۴عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَاْوٰى ؕ۰۰۱۵اِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشٰى ۙ۰۰۱۶مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰى ۰۰۱۷لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰيٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى ۰۰۱۸] [النجم :18،1] 

’’ ستارے کی قسم جب وہ ڈوبنے لگے ۔ تمہارے رفیق (یعنی محمد ﷺ )  نہ تو راہ بھولے اور نہ بے راہ چلے۔ وہ اپنی خواہش نفس سے کچھ بھی نہیں کہتے ، جو کچھ وہ کہتے ہیں وہ وحی ہوتی ہے جو ان پر نازل کی جاتی ہے۔یہ انہیں زبردست قوتوں والے نے سکھائی ہے۔ جو بڑا زور آور ہے ۔ وہ سامنے آکھڑا ہوا، جبکہ وہ بالائی افق پر تھا ۔ پھر وہ نزدیک ہوا پھر اور آگے بڑھا پھر دو کمانوں کا یااس سے کم فاصلہ رہ گیا ۔ پھر اللہ نے اپنے بندے کی طرف وحی کی جو کرنا تھی ۔ جو کچھ اس نے آنکھ سے دیکھا تھا دل نے اسے جھوٹ ن ہیں سمجھا۔ اب کیا تم اس بات میں جھگڑا کرتے ہو جو ا س نے آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ اور ایک مرتبہ اور بھی اس نے اس کو  سدرۃ المنتہی ٰ کے پا س دیکھا جس کے پاس ہی جنت الماویٰ ہے جبکہ اس سدرہ پر چھا رہا تھا جو (نور ) چھارہا تھا نہ (اس کی ) نظر چندھیائی اور نہ آگے نکل گئی ، بلاشبہ اس نے اپنے پروردگار کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔‘‘   

مذکورہ بالا آیات  میں دراصل محمد ﷺ کے اللہ تعالیٰ سے حصول علم  کی سند کی  بحث ہے ، کہ محمدﷺ  جو وحی کا دعویٰ کررہے ہیں  یہ   کسی دیوانے  کے دل میں ابھرنے والے  خیالات  اور توہمات نہیں ہیں ، بلکہ محمد ﷺ وحی بھیجنے اور لانے والے کی زیارت اور  ملاقات کر چکے ہیں ،  تو آپ لوگ  کیونکر اس کا انکار کرسکتے ہیں   ؟

قاب قوسین کا معنیٰ

قرآن مجید نے ملاقات اور قربت کے لیے[ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰىۚ۰۰۹]  کا محاورہ استعمال کیا ہے ۔ قوس کا معنی ہوتا ہے کمان  اور قاب اس جگہ کو کہتے ہیں    جہاں سے ہم اسے پکڑتے ہیں ،  وہاں سے لے کر کونے تک  کے حصے کو قاب کہتے ہیں ،اور دونوں حصوں کو قابین کہا جاتا ہے ، درمیان سے ایک کونے تک ایک قاب ، دوسرے کونے تک دوسری قاب ۔  عربوں میں  جب لڑائیوں کے بعد صلح ہوتی تھی تو   وہ صلح کے لیے بطور علامت دونوں افواج کے  سالار  اپنی کمانیں باہم ملاتے تھے ۔ بعد میں یہ ملاقات اور ملنے کے لیے بطور محاورہ استعمال ہونے لگا ۔

اس حوالےسے علماء کا اتفاق ہے کہ اس میں سفر معراج کا تذکرہ ہے ،لیکن سفر معراج میں  نبی ﷺ کی ملاقات  کس سے ہوئی تھی ، جبریل سے یا اللہ تعالیٰ سے یا دونوں سے ؟

سیدہ  عائشہ ؓ  کا ماننا ہے کہ سفر معراج میں نبی اکرم ﷺ نےجبریل سے ملاقات کی تھی ، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ   [8] بھی اس سے مراد جبریل سے ملاقات ہی لیتے ہیں  ۔ ان کے برعکس حضرت  ا بن عباس ؓ کا مؤقف  ہے کہ  نبی اکرم ﷺ اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور رؤیت سے مشرف ہوئے تھے ۔

اس حوالے سے سب سے پہلی بات یہ ذہن میں رہے کہ نبی اکرم ﷺْ سے اس کی وضاحت روایت نہیں کی گئی ۔ باقی رہا عبارت کا  سیاق و سباق تو   اس میں تین رؤیتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے ، فرمایا:

[عَلَّمَهٗ شَدِيْدُ الْقُوٰى ۙ۰۰۵ذُوْ مِرَّةٍ فَاسْتَوٰى ۙ۰۰۶وَ هُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰى ؕ۰۰۷] [النجم: 5 - 7]

’’یہ انہیں زبردست قوتوں والے نے سکھائی ہے۔ جو بڑا زور آور ہے ۔ وہ سامنے آکھڑا ہوا، جبکہ وہ بالائی افق پر تھا ۔‘‘

یہ بالکل واضح ہے کہ یہاں جبریل﷤ کی رؤیت مراد ہے ۔کیونکہ سورۃ التکویر میں یہ صفات جبریل کی بیان کی گئی ہیں ، مزید اس صفات کو اللہ تعالیٰ پر منطبق نہیں کیا جاسکتا ہے۔

 اس کے بعد   ثُمَّ کے لفظ سے نئی بات شروع کی گئی ہے :

[ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى ۙ۰۰۸ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰىۚ۰۰۹فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰى ؕ۰۰۱۰مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى۰۰۱۱ اَفَتُمٰرُوْنَهٗ۠ عَلٰى مَا يَرٰى ۰۰۱۲وَ لَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰىۙ۰۰۱۳عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى ۰۰۱۴ ][النجم: 8 - 18]

’’ پھر وہ نزدیک ہوا پھر اور آگے بڑھا پھر دو  کمانوں کا یااس سے کم فاصلہ رہ گیا ۔ پھر اللہ نے اپنے بندے کی طرف وحی کی جو کرنا تھی ۔ جو کچھ اس نے آنکھ سے دیکھا تھا دل نے اسے جھوٹ نہیں سمجھا۔ اب کیا تم اس بات میں جھگڑا کرتے ہو جو ا س نے آنکھوں سے دیکھا ہے ۔اور ایک مرتبہ اور بھی اس نے اس کو  سدرۃ المنتہی ٰ کے پا س دیکھا ۔‘‘

اگر یہ کہیں کہ  یہ پہلی ملاقات ہی کا تسلسل ہے تو  یہ بات  نہیں بنتی ، کیونکہ  ثُمَّ وقفے کا تقاضا کرتا ہے، مزید  [ فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰى ؕ ۰۰۱۰] میں عبدہ  کی ضمیر  اللہ کی طرف لوٹ سکتی ہے ، جبریلؑ  کی طرف نہیں ۔  اس لیے  یہی درست معلوم ہوتا ہےکہ سفر معراج میں  رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ ہی کا قرب حاصل کیا  اور اللہ تعالیٰ ہی کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ جیساکہ   ابن عباسؓ  اور کعب احبار  کی روایات سے معلوم ہوتا ہے۔

مزید شریک بن عبداللہ کی حضرت انسؓ سے روایت حدیث معراج   بھی اس کی تائید کرتی ہے:

ثُمَّ عَلاَ بِهِ فَوْقَ ذَلِكَ بِمَا لاَ يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ، حَتَّى جَاءَ سِدْرَةَ المُنْتَهَى، وَدَنَا لِلْجَبَّارِ رَبِّ العِزَّةِ، فَتَدَلَّى حَتَّى كَانَ مِنْهُ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى، فَأَوْحَى اللَّهُ فِيمَا أَوْحَى إِلَيْهِ: خَمْسِينَ صَلاَةً عَلَى أُمَّتِكَ كُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ[9].

’’ پھر وہ آپ کو لے کراس سے مزید  اوپر چڑھا  جسے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا یہاں تک کہ وہ سدرۃ المنتھی تک پہنچ گئے اور اللہ رب العزت کے قریب ہوئے ، پھر مزید قریب ہوئے یہاں تک کہ وہ قاب قوسین ہوگئے یا اس سے بھی زیادہ قریب ، پھر اللہ تعالیٰ  نے اپنے بندے پر وحی کی جو اس نے چاہی ۔ (ان میں ایک بات یہ تھی کہ ) آپ کی امت پر دن رات میں پچاس  نمازیں فرض ہیں۔‘‘

علامہ ابن ابی العز  فرماتے ہیں :سورۃ نجم میں مذکور : الدنو والتدلی   حدیث معراج میں مذکور  : الدنو والتدلی    کے علاوہ ہے ۔ یعنی اگر  سورۃنجم میں مذکورہ واقعہ کو   جبریل کی رؤیت پر محمول کرلیں تو  حدیث شریک  صراحت کے ساتھ رؤیت باری تعالیٰ کا تذکرہ کر رہی ہے اس لیے اس سے انکار ممکن  نہیں ہے[10]۔

مزید براں علامہ عبدالحق ہاشمی نے رؤیت باری تعالیٰ کے اثبات کو جمہور صحابہ کا موقف قرار دیا ہے ۔

حضرت ابن عباس ﷠ کی روایات دو مرتبہ اللہ کو دیکھنے کا تذکرہ ہے ، تو اسے یوں تطبیق دی جاسکتی ہے کہ  ایک مرتبہ  اوپر جاکر قاب قوسین والا  کا قرب اور زیارت  حاصل ہوئی ۔ دوسری مرتبہ جب حضرت موسیٰ﷤  کے کہنے پر رسول اللہ ﷺ نمازیں کم کرنے کی درخواست لے کر دوبارہ اللہ کے حضور پیش ہوئے ۔

قرآن مجید نے جس  اہتمام  کے ساتھ سفر معراج کا تذکرہ کیا ہے وہ اس بات کی دلیل ہے  کہ معراج میں  آپ ﷺ اللہ ہی کی  زیارت سے مشرف ہوئے ہیں  ۔جب کہ جبریل کی زیارت تو آپ پہلے بھی کرچکے تھے۔

بعض علماء کرام   فرماتے ہیں کہ سیدہ عائشہ ؓ نے عام  رؤیت کا انکار کیا ہے ، جبکہ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت میں سفر معراج میں  دل سے دیکھنے کا ذکر ہے ، تو اس میں کوئی امر مانع نہیں ہے اور نہ ہی یہ ایک دوسرے کے خلاف ہیں ۔ ہمارے نزدیک یہی  بات درست ہے اور  یہی محفوظ موقف ہے۔

حدیث کا دوسرے حصہ جس میں رسول اللہ ﷺ کو علم غیب ہونے کی نفی ہے ، اس حوالے سے گذشتہ حدیث میں تفصیل سے بحث ہو چکی ہے ، اسے دھرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔

  اہم فوائد

  • علم اللہ تعالیٰ کی صفت ذاتی ہے ۔
  • علم غیب سے مراد ان چیزوں کا علم ہے جنہیں انسان اپنے حواس خمسہ اور عقل سے نہیں جان سکتا ۔ عام طور پر علم غیب کا تعلق تقدیر اور نظام کائنات سے ہے ۔
  • علم غیب صرف اللہ جانتا ہے ، کوئی دوسرا نہیں جانتا ۔
  • انبیاء ﷩ پر جو وحی نازل ہوتی ہے وہ اللہ کے علم سے تعلق رکھتی ہے ۔ لیکن اس میں صرف ان چیزوں کا تذکرہ ہوتاہے جو اللہ تعالیٰ کو انسان سے مطلوب ہوتی ہیں ۔

اس دنیا میں ظاہری آنکھوں سے  اللہ تعالیٰ کو دیکھنا ممکن نہیں ہے ، جیساکہ حضرت موسیٰ﷤ کے واقعہ میں واضح ہے ۔ البتہ رسول اللہ ﷺ نے معراج میں یا اللہ کو دیکھا ہے ۔ اس کا انکار کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔

 

[1]     التوحيد لابن خزيمة: 2/ 561

[2]     شرح کتاب التوحید (صحیح بخاری) :34

[3]     صحیح مسلم : 178

[4]     صحيح مسلم:176

[5]     صحيح مسلم:178

[6]     صحیح مسلم : 178

[7]     صحیح مسلم :179

[8]     صحيح بخاری:3232،صحيح مسلم :174

[9]      صحيح  بخاری:7517

[10]   شرح العقیدۃ الطحاوية:226 ، طبع المکتب الاسلامی