پاکستان میں قانون سازوں کی ترجیحات
وطن عزیز کے ذمہ داران اس سے محبت کے دعوے تو بہت کرتے ہیں، لیکن قانون سازی میں ان ترجیحات کا تعین حیران کردیتا ہے ۔ آج کل ٹرانس جینڈر(Transgender) اور اس سے متعلق ایک ملکی قانون زیر بحث ہے ، یعنی قوم کے ووٹ پر بننے والے قومی اسمبلی کے تین سو سے زیادہ ممبران نے اکٹھے ہوکر قوم کا وقت اور پیسہ ایک ایسے قانون کی تیاری پر صرف کیا جو پاکستانی قوم کا مسئلہ ہی نہ تھا ۔اگر ہم اپنے ارد گرد کے ہمسایہ ممالک اور قوموں کو دیکھیں تو جی ڈی پی ، برآمدات ، شرح خواندگی اور ملکی انتظام و انصرام میں وہ ہم سے کہیں آگے نکل گئے ہیں ،حتیٰ کہ انڈیا ، چین اور اسرائیل جوتقریباً پاکستان کے ساتھ ساتھ آزاد ہوئے تھے ، بلکہ بنگلہ دیش جسے ہمارے ذمہ داران نے جان چھڑانے کے لیے الگ کیا تھا سب ہم سےبہت آگے ہیں، بلکہ افغانستان جو مسلسل عالمی طاقتوں کی یورشوں کی آماج گاہ رہا ہے ، ضروریات زندگی کی قیمتوں میں پاکستان سے بہتر مقام پر کھڑا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہےکہ وطن عزیز کی باگ دوڑ سنبھالنے والوں نے ہمیشہ قومی مفاد کی بجائے ذاتی یا غیر بلکہ بعض دفعہ دشمن ممالک کے مفاد کےلیے بھی کام کیا ہے ۔
پاکستان ایک ایسے ملک کے طور پر جانا جاتا ہے جہاں عورت ابھی تک پسماندہ ترین طبقوں میں شامل ہوتی ہے ۔Dender Discrimination and Equality پر کام نہ ہونے کے برابر ہے ، جب کہ ہمارا دستور اسلامی ہے جو عورت کو برابر کے حقوق دیتا ہے بلکہ بعض معاملات میں مرد پر سبقت دیتا ہے ۔
ملک کے ذمہ داران سے سوال ہے کیا درج ذیل مسائل کا حل ہم نے ڈھونڈ لیا ہے کہ اس جدید مسئلے پر قانون سازی کررہے ہیں ؟:
- ونی ، کاری اور غیرت کے نام پر عورتوں اور لڑکیوں کا قتل
- گھریلو تشدد ، شوہروں اور سسرال والوں کے ہاتھوں عورتوں کی موت اور جلا دینے کے واقعات
- وراثت میں عورت کو حصہ دینے کے بارے میں جو قانون ہے اس کے عملی نفاذ کی کوشش
- خواندگی کی شرم ناک حد تک گرتی ہوئی شرح اور بیٹی کے لیے تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کرنا
- حمل اور زچگی کے دوران خواتین کی قابل علاج وجوہات کی بنا پر کثرت اموات ، نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات ، ان کے لیے رائے عامہ میں شعور پیدا کرنا اور ایسی نرسریاں بنانا جہاں نوزائیدہ بچوں کا اچھے طریقے سے علاج ہوسکے۔
- بجلی ، پانی اور گیس کی فراہمی
- عوام کے لیے سستی روٹی
ان سب کو چھوڑ کر ایک ایسے مسئلے پر قانون بنانا جو ابھی مغرب میں بھی نیا ہے کچھ قابل فہم نہیں ہے ۔اس سے دو ہی باتیں سمجھ میں آتی ہیں ، دولت اور اخلاقی انحطاط ۔
میڈیا میں اس چیز کا آغاز اس وقت کھٹکا تھا جب ایک پروگرام ’ بیگم نوازش علی ‘ کے نام سے دکھایا گیا تھا ، جس میں ایک مرد عورت کے روپ میں اس پروگرام کو کنڈکٹ کرتا تھا ۔
یہ غیر فطری رویہ ہر انسانی معاشرے میں موجود رہا ہے ، لیکن اس کو آج کے دور میں میڈیا نے شہرت کے بام عروج تک پہنچا دیا ہے۔ جو کوئی چیز عام کردی جاتی یا ہوجاتی ہے تو اس کے برے یا اچھے پہلو کافی حد تک معاشرے میں جذب ہوجاتے ہیں ۔ یہی اس معاملے میں بھی ہوا ہے ۔
اسلام نے اپنے اور دوسروں کے عیبوں کو ڈھانپنے کا حکم دیا ہے ، اس کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ برائی عام نہ ہو ، جب عام ہوگی تو اس پر سزا اور قانون بھی بنے گا ۔ تمام معاشروں میں یہ غیر فطری رویہ کچھ ہی عرصہ قبل ناقابل برداشت تھا ۔ جو اسے ناقابل برداشت نہیں سمجھتے تھے ، وہ بھی اسے نفسیاتی بیماری کہتے تھے ۔ لیکن اب یہ ایک نارمل رویہ سمجھا جانے لگا ہے ۔ شادی کا رشتہ دو اصناف کو آپس میں باندھ کر ان پر بہت سی ذمہ داریاں ڈال دیتاہے تاکہ انسانی معاشرہ احسن طریقے سے چلتا رہے اور غیر ذمہ داری کا مرض انسانی نسل میں نہ بڑھے ۔
LGBTQ رویے نے انسانی احساس ذمہ داری پر ایک گہری ضرب لگائی ہے۔ ایک قانونی رشتے کی نفی کرکے، اولاد پیدا نہ کرکے اپنی حدودبلکہ و جود کو بدل کر اور اپنی شناخت کو تبدیل کر کے بھی اکثر اوقات ایسے رویے پائیدار نہیں ہوتے ، ایک وقت گزرنے کے بعد ان میں پچھتاوا اور تنزل شامل ہوجاتاہے ۔ جب اولاد قدرتی طریقے کی بجائے دیگر طریقوں سے حاصل کی جاتی ہے تو ایک مکمل اور فطری خاندان وجود نہیں پاسکتا۔ بچے بہت سی چیزیں اپنے والدین سے وراثت میں حاصل کرتے ہیں اور بہت سی چیزیں ماحول سے ۔ ایسے جوڑوں کے جو بچے لے پالک ہوں گے ، ضروری نہیں کہ وہ بڑے ہو کر اپنے ان والدین کے رول کو قبول کرسکیں ، اس بات کے بھی امکانات ہیں کہ اس جوڑے کے ساتھ رہ کر بچوں کے نفسیاتی مسائل شروع ہوجائیں ۔
دوسرے طریقے میں اگر بچے سروگیسی(Surrogacy) کے ذریعے پیدا کئے جاتےہیں تو اس میں بھی والدین میں سے ایک کا Gamete ’’ تولیدی خلیہ ‘‘ بچے کے اندر نہیں آئے گا اور بچے کا تیسرا والدین میں سے اس کی سروگیٹ ماں ہوگی ۔ اب سروگیسی (Surrogacy)ایک کاروبار کی شکل اختیار کرچکی ہے ، جس میں ایک خاتون کئی بچوں کی سروگیٹ ماں (Surrogate mother)ہوسکتی ہے ۔ اسی طرح سپرم (Cell) ڈونیشن (Donation)بھی اب ایک کاروبار کی حیثیت حاصل کر چکا ہے، جسےاقوام متحدہ کی تائید حاصل ہے ۔ اس صورت میں ایک مرد بے شمار بچوں کا باپ ہوسکتا ہے جن کا تعلق مختلف خاندانوں سے ہوگا۔
ان موضوعات پر ہمارے ہمسایہ ملک کی دو فلمیں ہیں : ایک کا نام ’’می می ‘‘ ہے اور دوسری کا نام ’’وکی ڈونر‘‘ ہے ۔ دوسری فلم کو وہاں کا نیشنل ایوارڈ بھی مل چکا ہے اور اقوام متحدہ نے بھی اس کی تحسین کی ہے ۔
ان دونوں مسائل کا تعلق یہ ہے کہ ایک صدی بعد ایسا معاشرہ ہوگا جس میں رشتوں کی حرمت پس پشت چلی جائے گی ، ہوسکتا ہے کہ ایک ہی ماں باپ کی اولادیں آپس میں ازدواجی تعلق استوار کرلیں ۔ اسی سے ملتے جلتے موضوع پر ایک فلم بھی ہمسایہ ملک میں بنی ہے جس کا نام ’ گڈ نیوز ‘ ہے ، اس میں دو مردوں کے سپرم غلطی سے مکس ہوجاتے ہیں اور ان کی اپنی بیوی کی کوکھ کی بجائے دوسری عورت کی کوکھ میں رکھے جاتےہیں ۔
ایسے کاموں کا نتیجہ انسانی دماغی الجھاؤ کی صورت میں نکلے گا ۔ اس وقت LGBTQ کو جس ذہنی صدمے سے بچانے کے لیے میڈیا کام کررہا ہے ، کچھ سالوں کے بعد پوری نسل انسانی اس ذہنی صدمے کے نتائج بھگت کر خود ذہنی انتشار میں مبتلا ہوسکتی ہے ۔
اسی سلسلے کی ایک کڑی Pedophilia ہے ۔ اس کا ذکر آپ نے پڑھا ہوگا جب زینب ریپ کیس کی تحقیق شروع ہوئی تھی ۔ ڈارک ویب کے ساتھ بھی اس کا گہرا تعلق تھا۔ LGBTQکے مطابق تو پھر یہ رویہ بھی قابل تحفظ ہوگا۔ مغرب میں ایسے بہت سے عمر رسیدہ مرد ہیں جو اس میں شامل ہیں ۔ اس سلسلے میں ’’Lolita‘‘ ناول آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ یہ ناول Vladimir Nabokov نے لکھا ہے ۔ سعودی عرب میں کچھ ہی دن پہلے ایک خبر شائع ہوئی ہے کہ وزارت کی طرف سے قوس قزح کے حامل رنگوں والے سب کھلونے مملکت میں ممنوع قرار دئیے گئے ہیں ، کیونکہ یہ ٹرانس جینڈر اور ان رویوں کی نمائندگی کرتے ہیں جو ہمارے دین کی روح اور عقیدے کے خلاف ہے ۔
چند دن پہلے قطر کے نمائندہ سے فیفا فٹ بال کے استقبال کے لیے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے ایک سوال کیا گیا کہ کیا آپ ٹرانس جینڈر ز(Transgenders) کو اپنے ملک میں ہونے والے اتنے بڑے ایونٹ میں خوش آمدید کہیں گے ؟ نمائندہ نے کہا کہ ہم سب کو خوش آمدید کہتے ہیں لیکن آنے والوں کو بھی ہماری اقدار کا خیال رکھنا ہوگا۔
پاکستان میں اس کے لیے قانون سازی کی سمجھ نہیں آسکی ۔ ایک وجہ فنڈنگ ہوسکتی ہے ، اور دوسری وجہ طبقہ اشرافیہ کے لیے آزادانہ تعلقات ہوسکتے ہیں ۔ اس صورت میں ان کے پکڑے جانے کے امکانات کم سے کم ہوجائیں گے، اگر چہ اس طبقے کے افراد کی ایک تعداد پہلے ہی ان سدومی برائیوں میں ملوث ہے ۔