جنوری 2023ء

ٹرانس جینڈر ازم پر ایک نظر

بات چیت یا تحریر میں جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں ان کے مطالب کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ اہم گفتگو یا تحریر بھی سامع اور قاری کے لیے بے اثر رہتی ہے ۔  الفاظ مطالب و مفاہیم کے محتاج ہوتے ہیں ان کے بغیر کسی لفظ کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس تحریر میں موجود چند اہم اصطلاحات اور الفاظ (جن کا زیر بحث مسئلے سے خاص تعلق ہے)کا مطلب ذہن میں ہوگا تو مسئلہ سمجھنے میں آسانی ہوگی ۔

خنثیٰ (Hermaphrodite) ایسا فرد جس میں پیدائشی طور پر مرد و عورت دونوں کے تناسلی آلات ہوں۔

مخنث:(Effiminate)مرد جو گفتگویا چال یادیگر حرکتوں میں عورتوں کی مشابہت کرے ۔

مترجلہ: (Butch) مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورت ۔

خصی:(Eunuch)مرد جس کے خصیے نکال دیے گئے ہوں۔

خواجہ سرا:(Title for a slave eunuch)خصی غلام کے لیے اعزازی لقب۔

ہیجڑا: پیدائشی مرد جو عورتوں کا لباس پہننے کے ساتھ گفتگو، چال اور حرکتوں میں عورتوں کی نقل کرے[بعض ان صفات کے ساتھ خصی بھی ہوتے ہیں]۔

فرج :(Vagina)عورت کی شرم گاہ جہاں سے پیشاب جاری ہوتا ہے ۔

ذکر:(phallus)  مرد کا عضو تناسل جہاں سے پیشاب جاری ہوتا ہے۔

” ٹرانس جینڈر “Transgender کا مطلب

Transgenderism کے سارے فلسفے کی بنیاد دو چیزوں پر ہے (۱) الفاظ کے مفہوم کو بدلنا اور معاشرے میں غلط مفہوم کورائج کرنا؛ بھلے وہ مفہوم مذہب ، سائنس ، لغت یا عقل کے خلاف ہو۔(۲)بعض گمراہ Sociologists (ماہرین عمرانیات)کے گمراہ کن نظریات( Theories ) کو دلیل بنانا۔

یہ بات مشہور ہے کہ ٹرانس جینڈر(Transgendar)  کی  اصطلاح  Virginia prince  (سابق Amold Lowman ) نے وضع کی ۔ Virginiaنے  Transvestia  (دو ماہی رسالہ جو اس کی ملکیت اور زیر ادارت جنوری ۱۹۶۰ء میں  Los Angeles سے جاری ہوا تھا ، اس میں دسمبر ۱۹۶۹ء کے شمارے میں  پہلی دفعہ لفظ Transgenderal استعمال کیا جب کہ john F. oliven  نے لفظ  Transgenderism  ا پنی کتاب ‘‘Sexual Hygiene and Pathology’ ( طبع دوم۱۹۶۵ء) میں استعمال کیا تھا ۔ یہ کتاب پہلی دفعہ ۱۹۵۵ ء میں شائع ہوئی،  طبع اول  میں یہ لفظ موجود نہیں تھا البتہ طبع دوم (صفحہ ۵۱۴) میں یہ لفظ استعمال ہوا۔ یہ بات  واضح ہے کہ اس اصطلاح کا موجد John F. Oliven ہے۔

’’ ٹرانس جینڈر‘‘ Transgender دراصل علم طب کی اصطلاح تھی۔ شروع میں یہ اصطلاح بعض کے نزدیک جنس باز تفویض (Sex reassingment) سے خاص تھی ،وقت گزرنے کے ساتھ اس میں وسعت ہوتی گئی اور  ایک وقت آیا  کہ اس نے معاشرتی شکل بھی  اختیار کر لی ،اس کے بعد نتیجہ یہ نکلا کہ اس اصطلاح کے فلسفے میں یہ چیز شامل ہو گئی کہ بغیر Surgery  (جراحت ) Gender (جنس)میں تبدیلی بھی ہو سکتی ہے، یعنی کوئی مرد ہے تو وہ بس عورتوں کا حلیہ اختیار  کر لے یا عورت ہے تو وہ مردوں کا روپ دھار لے۔ Transgenderism کو فروغ دینے والوں نے قول و عمل سے اس اصطلاح میں اضافوں کا سلسلہ جاری رکھا ۔ تقریباً ۱۹۹۰ء سے اس اصطلاح نے Umbrella term (وسیع تر اصطلاح) کی شکل اختیار کی ہوئی ہے۔اب یہ  Medical boundaries(حدود طب )سے نکل کر سیاسی لباس میں دکھائی دے رہی ہے۔

 Transgenderism کو فروغ دینے والے مختلف معاشروں میں اس اصطلاح کو ایک خاص شکل میں داخل کرتے ہیں، جب اس اصطلاح کو کسی معاشرے میں جگہ مل جاتی ہےپھر اس اصطلاح کے مفہوم کو حسب ضرورت بڑھاتے رہتے ہیں۔سیکولر ریاستوں میں مذہب کو سیاست اور سماج میں سے سرکاری سطح پر بے دخل کر دیا جاتا ہے اور عوام کو ذاتی طور پر کسی بھی مذہب پر عمل کرنے یا لامذہب رہنے کا مکمل اختیار ہوتا ہے، ایسی ریاستوں میں Transgenderismکو ذرا سی جگہ ملنے پر بہت آسانی سے پھیلنے کا موقع ملتا ہے اور آزادی اظہارِ رائے سے اسے خوب فائدہ پہنچتا ہے ۔ غیر سیکولر ریاستوں میں اسے اور شکل دے کر داخل کیا جاتاہے۔ سیاسی ایوانوں کے ذریعے اس کو فروغ دینے والے کبھی لحاف میں لپیٹ کر تو کبھی الگ لباس پہنا کراس کی جگہ معاشرے میں بناتے ہیں۔

  جب اس اصطلاح کو طب سے خاص رکھا جاتا ہے تو اس کا دائرہ بھی محدود   ہوتاہے لیکن جیسے ہی اس نے Sociology(عمرانیات) کے اصولوں کے سہارے ظاہر ہونا ہے تو اس کے مفہوم میں وسعت پیدا ہو  جاتی ہے اور جب یہ سیاسی لبادہ بھی اوڑھ لے تواس میں مزید اضافے ہو جانے کے بعد اس کی کوئی متفقہ تعریف بھی نہیں رہتی؛ یعنی ایک معاشرے میں اس کا مطلب کچھ ہوگا تو دوسرے معاشرے میں اس کے معنی اور ہوں گے۔  اسی لیے آئی سی جے (International commission of jurists)کے مطابق: ”بین الاقوامی معیارات میں ٹرانس جینڈر فرد کی کوئی ایک ( متفقہ)تعریف نہیں“

(Pakistan Transgender persons (Protection of rights) Act, 2018.P:7)

ہمارے ملک میں اس وقت Transgenderismکو سرکاری ایوانوں سے اس طرح قوم کے سامنے پیش کیا گیا کہ سننے والا کہے کہ یہ ایک مظلوم طبقے کو حقوق دینے کی آواز ہے جو معاشرے میں افراد کے برے سلوک کی وجہ سے سخت اذیت میں مبتلا ہے۔اس تحریر میں اس طبقے کی حقیقت اور Transgenderism کے اصولوں کا جائزہ لیتے ہوئے موضوع سے متعلق مسائل کا حل پیش کیا جائے گا۔

 وسیع تراصطلاحات (Umbrella terms)میں ایک سے زائد چیزیں داخل و مخاطب ہوجاتی ہیں ، اس لیے سلسلہ کلام واضح اور متعین ہونا ضروری ہے ورنہ ایسی کسی بھی اصطلاح پر گفتگو یا تحریر کا کبھی کلی تو کبھی جزوی لحاظ سے بے نتیجہ رہنے کا قوی امکان ہوتا ہے، لہذا ضروری ہے کہ پہلے اس کے مفہوم کو سمجھا جائے ۔ 

اس بحث میں ” ٹرانس “Trans کا مطلب Across/ Beyondیعنی ” پار“ ہے۔ یہ لفظ اپنے استعمال کے لیے ایک حد کا محتاج ہے، جب حد سے چیز باہر نکل جائے تو اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ ہم عام طور پر کہتے ہیں فلاں حد پار کر گیا۔ یہاں حد کوئی بھی چیزمثلا سرحد، دریا، سٹرک وغیرہ ہو سکتی ہے۔

”   جینڈر “Genderکا اطلاق مرد (مذکر) Male یا عورت (مؤنث) Female یا (خنثی) Hermaphrodite  میں سے کسی ایک پر ہوتا ہے ۔

” ٹرانس جینڈر“Transgender کی ضدCisgender (یک طرفہ جنس) ہے لیکن اس پر بعض حلقوں کی جانب سے کافی تنقید بھی ہوئی ، قطع نظر ان تنقیدی مباحث سےTransgenderکی ضد Non transgender (غیر ٹرانس جینڈر) بھی ہے۔

معنوی طور پر Transgender کی تعریف یوں ہے : جس کی جنسی پہچان(Gender indentity)بوقت پیدائش تفویض شدہ جنس ( Gender /Sex assigned at birth  )کے مطابق نہ ہو ؛یعنی ولادت کے وقت جنس (مذکر یامؤنث) متعین ہو جانے کے بعد عمر کے کسی حصے میں فرد کو احساس ہو کہ اس کی حالیہ جنسی کیفیت پیدائش کے وقت تفویض شدہ جنس کے برعکس ہے اور اس خیال کو وہ ظاہر کرے تو ایسے فرد کو”ٹرانس جینڈر“ Transgender کہتے ہیں۔

وسیع تر اصطلاح میں اس کا اطلاق کس کس فرد پر ہوتا ہے اس کو سمجھنے کے لیے مذکورہ بالا تعریف میں ان افراد کا اضافہ ہوتا ہے:(۱) خنثی (۲) خصی (۳)’’ٹرانس جینڈر وومن‘‘Transgender woman [پیدائشی مرد جو خود کو عورتوں کی جنس میں داخل کر لے ] (۴)’’ٹرانس جینڈر مین‘‘Transgender man[پیدائشی عورت جو خود کو مردوں کی جنس میں داخل کر لے ](۵) خواجہ سرا (۶) ہر وہ فرد جس کی جنسی شناخت اور اپنی جنس کے اظہار کا طریقہ(یا ان دونوںمیں سے کوئی ایک) ان معاشرتی معمولات اور ثقافتی توقعات کے خلاف ہوں جن کی اصل فرد کی پیدائش کے وقت تفویض شدہ جنس پر ہوتی ہے۔‘‘

[ٹرانس جینڈر ایکٹ ۲۰۱۸ء]

اس ایکٹ میں ’’خنثی‘‘ کے لیے Intersex ’’خصی‘‘ کے لیے Eunuch اور ’’خواجہ سرا‘‘ کا انگریزی ترجمہ کرنے کے بجائے Khawaja Sira لکھا ہے۔ یہ ایکٹ دراصل ٹرانس جینڈروں کے لیے ہے لیکن عوام میں مشہور اس بات کو کیا گیا کہ یہ تو ہیجڑوں کو حقوق دینے کے لیے بنایا گیا ہے جو ہمارے معاشرے کا نہایت مظلوم طبقہ ہے۔ لہذا مناسب ہے کہ یہاں اس گروہ پر ایک نظر ڈالی جائے۔

ہیجڑا؍ مخنث

عام طور پر ہیجڑا پیدائشی مرد ہوتا ہے جو کسی بھی سبب سے خود کو عورت بتاتا ہے اور اپنی آواز، چال، اٹھنا، بیٹھنا، پہننا وغیرہ سب عورتوں کی طرح کرتا ہے ۔اس کا رہن سہن معاشرے کے عام افراد سے مختلف ہوتا ہے۔ عموماً یہ ڈیروں میں رہتے ہیں، وہاں ان کا ایک سرپرست ہوتا ہے جسے’ ’ گرو  ‘‘  کہتے ہیں۔ ہیجڑے اپنے  ’’گرو‘‘  کو معلم، مرشد،بزرگ مانتے ہیں اس لیے ان کے مطابق گرو ہونا ضروری ہے، گرو اپنے چیلوں کے تمام مسائل کی دیکھ بھال کرتا ہے اور چیلوں سے معاوضہ بھی لیتا ہے۔ ایسا ہیجڑا جو کسی کا چیلہ نہ ہو اسے ان کی دنیا میں گمراہ سمجھا جاتا ہے ۔ان کا ذریعہ معاش جسم فروشی ، بھیک مانگنا، شادی بیاہ اور کسی کی ولادت یا کسی اور خوشی کے موقعے پر  ناچنے گانے پر منحصر ہے۔ وہ مرد جو اپنی خواہش سے اس گروہ میں داخل ہوتے ہیں دو میں سے ایک صورت میں رہتے ہیں:            (۱) خصی ہو جاتے ہیں                (۲) خصی نہیں ہوتے ۔

 ’’گیاتری ریڈی‘‘Gayatri Reddyکی کتاب With respect to sex سے بالاختصار چند باتیں نقل کی جاتی ہیں۔

 ہیجڑے آپس میں اصلی اور نقلی کا فرق رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق اصلی ہیجڑے وہ ہوتے ہیں جن کے جنسی اعضا بے جان ہوں اور ان میں ذہنی اور جسمانی طور پرذرا بھی مردوں سے جنسی تعلقات کی خواہش نہیں ہوتی ۔ بعض ہیجڑوں کے مطابق ہر ہیجڑے میں مرد وں سے جنسی تعلق قائم رکھنے کی تمنا ہوتی ہے ورنہ اسے ہیجڑا ہونے کی ضرورت نہیں۔وہ ہیجڑے جو اپنے خصیوں اور ذکر کو جراحت سے نکلوا دیتے ہیں وہ مرتبے میں ان ہیجڑوں سے بڑے ہوتے ہیں جو اس عمل سے نہیں گزرتے بلکہ یہ عمل ان کے مطابق اپنے گروہ سے باہر بھی باعث عزت ہوتا ہے تاکہ بغیر ہچکچاہٹ یہ اپنا ہیجڑا ہونا ثابت کر سکیں۔کسی بھی مذہب کا فرد ان میں شامل ہو سکتا ہے ۔

ان کا بچوں کے اغوا میں ملوث ہونا مشہور ہے ، یہ بچوں کو اغوا کر کے ان کے جنسی اعضا کو ختم کر دیتے ہیں پھراپنے گروہ میں شامل کر کے دھندے پر لگاتے ہیں، ایسے واقعات کتب و اخبار میں  بہت بار نشر ہوئے ہیں۔یہاں مذکورہ بالا کتاب سے ایک واقعہ اختصار سے پیش کیا جاتا ہے۔ایک چودہ سال کے مجبور لڑکے کو ہیجڑوں نے اپنے ساتھ ملایا اور اسے قائل کر نے کے بعد اس کی ناک اور کان کی لوؤں کو چھید دیا لیکن جب انہوں نے اس لڑکے کو کہا کہ اس چیر پھاڑ کے مرحلے سے گزرے جو اسے خصی اور مقطوع الذکر کر دے تو اس بچے نے ایسا کروانے سے بالکل انکار کر دیا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ اس کاروائی سےوہ ہمیشہ کے لیے اپنی مردانگی کھو دے گا ، ہیجڑوں نے سوجی کے حلوے میں نشہ آور شے ملا کر بے ہوش کیا اور اس دوران اس کے تناسلی اعضا کاٹ دیے ،اس لڑکے کو جب ہوش آیا تو ارد گرد ہیجڑوں کا ہجوم  اور وہ  سخت تکلیف میں بھی مبتلا تھا ، اس نےجب  اپنے ہاتھ کو خاص اعضاکے مقام پر رکھا تو اسے معلوم ہوا کہ  وہ ان اعضا سے محروم ہوچکا ہے۔

[ صفحہ ۷۹، ۹۴۔۹۵، ۱۰۰]

بر عظیم پاک و ہند میں برطانوی حکومت کے مطابق یہ گروہ لواطت ، بچوں کے اغوا، خصی کرنے اور انسانی خرید و فروخت میں ملوث تھا۔ان پر کئی مقدمات دائر ہوئے جن میں انہیں سزائیں ملیں۔یہاں چند مقدمات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ ۱۸۶۰ء میں پانچ افراد کو نو سالہ گبپو نامی بچے کو اغوا اور خصی کرنے کے جرم میں سزا ہوئی۔ اسی سال بوہیمانام کا ہیجڑا دو بچوں کو خصی کر کے فتح پور میں الگ الگ خریداروںکو فروخت کرنے کے جرم میں گرفتار ہوا۔شاہجہان پور کی عدالت (سیشن کورٹ) نےصرف۱۸۶۴ءتا ۱۸۶۵ءمیں اکتیس (۳۱) افراد کو اغوا اور انسانی خرید و فروخت میں سزا دی۔تفصیل کے لیے Power, Preservation and Panic: Eunuchs, Colonialism and Modernity in North India کی طرف رجوع کریں۔

’’سیرینا نیندا‘‘   Serana Nandaنے اپنی کتاب Niether Man nor Woman میں بتایا ہیجڑوں کے اپنے علاقے ہوتے ہیں، ان حدود میں اگر باہر سے ایسا ہیجڑا جس کا کوئی گرو نہ ہو یا جسے اس علاقے میں دھندا کرنے کی اس علاقے کے گرو کی طرف سے اجازت نہ ہو آئے اور وہ پکڑا جائے تو اس پر جرمانہ عائد ہوتا ہے یا اسے پیٹا جاتا ہے یا وہ جرمانہ اور مار دونوں کا سامنا کرتاہے ۔

اسی کتاب میں ایک ہیجڑے سے واقعہ نقل ہوا کہ غیر علاقے میں داخل ہونے کی وجہ سے ہیجڑوں کا جھگڑا ہوا جس کے نتیجے میں کسی کی ٹانگ ٹوٹی ،کسی کا ہاتھ ٹوٹا ، کسی کا سر پھٹا اور یہ سب انہوں نے اپنی حدود کی حفاظت کے لیے کیا تاکہ کوئی دوسرا اس جگہ دھندا نہ کر سکے (صفحہ ۴۴)۔

انڈیا ٹائمز کے ایک آرٹیکل کے مطابق دہلی میں ہر سال ۱۰۰۰ (ایک ہزار) افراد اس گروہ میں بھرتی ہوتے ہیں۔ خیراتی لال بھولا کے مطابق اکثر ہیجڑے پیدائشی طور پر نہ تو خنثی ہوتے ہیں اور نہ ہی شروع سے جنس مخالف کے کپڑے پہننے والے ہوتے ہیں۔ نوجوان اور نشے کے عادی لڑکوں کو اغو ا کیا جاتا ہے اور ان کو ہم جنس پرستی میں لگایا جاتا ہے۔ہیجڑا مافیا کی خفیہ منڈی ہوتی ہے جہاں نئے خصی کیے گئے لڑکوں کی قیمت لگتی ہے، اس بھیانک جرم کا نشانہ بننے والے لڑکوں کو ڈرایا جاتا ہے کہ اگر انہوں نے خاموشی توڑی تو ان کو قتل کر دیا جائے گا۔خیراتی لال بھولا کہتا ہے کہ جن کو زبردستی خصی کیا جاتا ہے ان میں کئی صاحب اولاد بھی ہوتے ہیں۔

خلاصہ یہ کہ اکثر ہیجڑے پیدائشی طور پر مرد ہوتے ہیں ، ہم جنس پرستی کی ہوس ان کو عورتوں کا روپ اختیار کر نے پر ابھارتی ہے لیکن ظاہر ہے ہم جنس پرستی سے پیٹ تو نہیں بھرتا اس لیے یہ جسم فروشی کے بدلے میں پیسے بھی وصول کرتے ہیں اور دوسرے جرائم کے مرتکب بھی ہوتے ہیں۔ وہ افعال جن کا ذکر ہوا ہر مہذب معاشرے میں جرم ہیں، اس لیے جب ہیجڑے ان جرائم کو اختیار کرتے ہیں تو انہیں تحفظ بھی درکار ہوتا ہے اور اکثر ہیجڑا بننے والوں کو ان کے گھر والے اپنی سوسائٹی سے بے دخل کر چکے ہوتے ہیں یا یہ خود ان کو چھوڑ چکے ہوتے ہیں اس لیے انہیں سر چھپانے کے لیے چھت کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کے دھندے کا نظام سرپرست کے بغیر  نہیں چل سکتا اس لیے’’  گرو  ‘‘کی بھی حاجت ہوتی ہے جو انہیں ہر جرم ادا کرنے کی تربیت دینے کے ساتھ ان کو تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔

اسلام کی نظر میں یہ جنس مخالف کی مشابہت اختیار کرنے کی وجہ سے اللہ کی رحمت سے دور ہوتے ہیں، مخنث ہونے کی وجہ سے حاکم کو اختیار ہوتا ہےکہ وہ معاشرے کی بہتری کے لیے ان کو جلا وطن کر دے،اگر یہ خصی ہو ں تومزید اسلامی احکام کی مخالفت کرتے ہوئے ہم جنس پرستی میں بھی مبتلا ہوتے ہیں، صحیح قول کے مطابق اسلامی حکومت کے لیے ان کا قتل کرنا جائز ہو جاتا ہے۔

اس طبقے کو مظلوم سمجھنا سخت غلطی بلکہ مجرموں کا حوصلہ بڑھانا ہے۔ ان مجرموں کو مظلوم سمجھا جائے گا تو معاشرے میں بچے اور نو جوان ان کو بے ضررسمجھیں گے اور اس برائی سے واقف نہیں ہو سکیں گے جب کہ ہمیں چاہیے کہ بچوں کو اچھے انداز اور مناسب الفاظ میں اس برائی سے آگاہ کریں تاکہ وہ ان کے شر سے محفوظ رہ سکیں۔عجیب بات یہ ہے کہ ان کو پہلے سمجھانے اور نہ سدھرنے پر سزا دے کر صحیح راہ پر لانے کے بجائے ان کو سرکاری و غیر سرکاری دفاتر میں بھرتی کرنے پر زور ہے۔ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ جنسی درندے جن اداروں میں بھرتی ہوں گے وہاں کیسے کیسے فساد اٹھیں گے۔

ایکٹ میں لفظ Eunuch (خصی)اور Khawaja sira(خواجہ سرا) بھی ذکر ہے لہذا ایک نظر ان پر بھی ڈال لیتے ہیں۔

خصی(Eunuch)

مردوں اور بچوں کو خصی کرنے کا سلسلہ ہزاروں سال پرانا ہے۔غلاموں کو خصی کر کے فروخت کیا جاتا تھا، ان کی تجارت بڑے پیمانے پر ہوتی تھی۔ بعض غلاموں کے صرف خصیے نکال دیے جاتے تھے، بعض کو خصی کرنے کے ساتھ مجبوب (مقطوع الذکر) بھی کر دیا جاتا تھا ۔ غلام ہو یا آزاد کسی کوبطور سزا خصی کر دیا گیا ہو یا کوئی فرد کسی حادثے کے سبب خصی ہو گیا ہو سب پر خصی ہی کا اطلاق ہوتا ہے۔ہزاروں سال سے اب تک ایسے افراد کوجنسی لحاظ سے مردوں ہی میں شامل رکھا گیا ہے اور خصی افراد بھی خود کو مرد ہی بتاتے آئے ہیں۔

خواجہ سرا

یہ اعزازی لقب ا ن خصی افراد کے لیے تھا جو محل میں بغیر حجاب و رکاوٹ آتے جاتے تھے۔ خواجہ سرا بادشاہوں کے حرم سرامیں بحیثیت سربراہ بھی ہوتے تھے، اس منصب پر ان کو رکھنے کی وجہ ان پر اعتماد تھا۔ خصی ہونے کی وجہ سے ان میں جنسی شہوت نہیں ہوتی تھی اس لیے حرم میں موجود خواتین اس خطرے سے محفوظ سمجھی جاتی تھیں جو ایک اجنبی غیر خصی مرد سے لاحق ہو سکتا تھا۔

مختلف ریاستوں میں ان کو اہم عہدے ملنے کے علاوہ مختلف بادشاہوں کا خاص قرب بھی حاصل تھا، بادشاہ ان پر اعتماداس لیے بھی کرتے تھے کہ یہ خانہ آبادی کے نظام سے آزاد ہوتے تھے یعنی  ان کے آگے پیچھے کوئی نہیں ہوتا تھا اس لیے یہ بادشاہ کے ساتھ مخلص ہوتے تھے۔ ایسے بھی ہوا کہ ان سے متعلق بادشاہوں کا خیال غلط ثابت ہوا ، ان کی سازشوں کی وجہ سے ریاستوں کو بہت نقصان پہنچا لیکن عموما ًخصی غلا م وفادار ہوتے تھے۔

بر عظیم پاک و ہند کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو کئی خواجہ سرا نظر آتے ہیں جو سیاسی اعتبار سے اہم عہدوں پر فائز رہے؛ مثلا بادشاہ علاؤ الدین خلجی کا مقرب خاص ’’ملک کافور‘‘خواجہ سرا تھا جس نے کئی اہم جنگی محاذوں میں سالاری کے فرائض انجام دیے اور کئے علاقے فتح کیا۔ اس کا انتقال ۱۳۱۶ء میں ہوا۔اودھ میں خواجہ سرا ’’الماس علی خان‘‘ ایسی فوج کا کماندار تھاجو وہاں کے نواب کو بھی میسر نہیں تھی، الماس علی خان اور ہندو راجہ بھوانی سنگھ اودھ کے آدھے سے زیادہ ذرائع آمدن پر قابض تھے۔ اس کا انتقال ۱۸۰۸ء میں ہوا۔آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا وزیر ’’محبوب علی خان ‘‘ بھی خواجہ سراتھا، یہ بادشاہ کے خاص معاملات حل کرتا تھا ۔ اس کا انتقال ۱۸۵۷ء میں ہوا۔

ہیجڑے اور خواجہ سرا میں فرق

 تمام خواجہ سرا خصی ہوتے تھے لیکن ان کا لباس مردوں والا اور ان کی بول چال اور پہچان معاشرے میں مردوں کے موافق ہوتی تھی۔ بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ مدینہ میں خصی خادم (جن میں سے اب صرف تین باقی ہیں)مخنث ہیں۔ عرض ہے یہ ہرگز مخنث نہیں، یہ خصی ہوتے ہیں ، ان کو سب مرد سمجھتے ہیں، ان کی زبان، آواز، چال و لباس کسی چیز میں خواتین سے مشابہت نہیں بلکہ ان کو دیکھنے والا یہ کہہ ہی نہیں سکتا کہ یہ خصی ہیں، ان کو سب مرد ہی مانتے ہیں اور یہ بھی خود کو مرد ہی بتاتے ہیں     ۔ یہ سلاطین ترک کے زمانے سے اس خدمت کے لیے چلے آرہے ہیں۔ پہلے یہ تعداد میں زیادہ تھے (اب صرف تین باقی ہیں) ان کا کام حرم میں صفائی، خواتین کے مسائل دیکھنا اور ان کی رہنمائی کرنا تھا۔ خصی ہونے کی وجہ سے ان میں شہوت نہیں ہوتی تھی اس لیے یہ خواتین کو حرم میں مسائل آسانی سے بتا دیا کرتے تھے۔ اب ان کا سلسلہ بھی ختم ہونے والا ہے کیوں کہ نئے خصی افراد ان  خدمات کے لیے موجود نہیں اور جو تین آدمی باقی ہیں وہ بہت بوڑھے ہو چکے نیز حرمین میں اب خواتین کی رہنمائی کے لیے خواتین ہی کو رکھا گیا ہے ۔ ہیجڑوں کا معاملہ ان سے الٹ ہوتا ہے، عموما ًمرد ہوتے ہیں لیکن خود کو عورت بتاتے ہیں اور خواتین کی مشابہت اختیار کرتے ہیں۔

’خواجہ سرا‘اور ’ہیجڑا‘ مترادف کیسے ہوئے

  ہیجڑوں کو خواجہ سرا سمجھنے کی غلطی  پاک و ہند میں فرنگی حکام کو لگی، اس غلط فہمی میں مزید اضافہ لفظ Eunuch نے کیا۔ فرنگی حکام نے جس وقت معاشرے کا امن ہیجڑوں کی بدکاریوں اوران کی خلاف قانون و فطرت حرکتوں کی وجہ سے برباد ہوتے دیکھا تو ان کے خلاف قانون سازی کی،فرنگی حکام غلط فہمی کے سبب ہیجڑوں اور خواجہ سراؤں کو ایک سمجھ بیٹھے( یہاں سے ہیجڑوں کو خواجہ سرا سمجھنے کی غلطی نے پیر جمائے اور وقت گزرنے کے ساتھ اب یہ زمانہ ہے کہ خواجہ سرا ہیجڑےکے لیے اعزازی نام بن چکا ہےحالانکہ خواجہ سرا خصی غلاموں کا اعزازی نام تھا جو نہ مخنث تھے اور نہ ہی جنس مخالف کا لباس پہنتے تھےبلکہ یہ خود کو مرد سمجھتے اور معاشرے کے افراد بھی ان کو مرد ہی مانتے تھے)اس غلط فہمی پر اسی زمانے میں کئی حلقوں کی جانب سے رد عمل آیا کہ خواجہ سرا اور ہیجڑا دو الگ چیزیں ہیں ان کو ایک نہ سمجھا جائے۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کےلیے  سر سید احمد خان نے بھی فرنگی حکام کو ان دونوں میں جو فرق ہے اس سے آگاہ کیا تھا۔

اس تفصیل سے یہ بات معلوم ہوئی کہ خصیوں(Eunuchs) کو ٹرانس جینڈروں کی فہرست میں شامل کرنا  اور انہیں یہ حق دینا کہ وہ اپنی جنس بدل لیں سخت غلطی ہے ، یہ مرد ہوتے ہیں لہذا ان کو کسی بھی صورت عورت کا درجہ دینا یا عورت کا روپ اختیار کرنے کی اجازت دینا غلط ہے۔ اسی طرح خواجہ سرا کو ہیجڑا سمجھنا بھی غلط فہمی ہے اور خواجہ سرا کو Transgender قرار دینا اس سے بھی زیادہ غلط ہے۔ ہیجڑوں کو ٹرانس جینڈر (Transgender) بنانا بھی درست نہیں کیوں کہ ان میں سے اکثر پیدائشی طور پر مکمل مرد ہوتے ہیں لیکن عورتوں کا روپ اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ ہیجڑوں کو خناث (خنثی کی جمع) سمجھنا اور ان کو مظلوم سمجھ کر حقوق دینے کی بات بھی درست نہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی مجرم کو سزا کی جگہ انعام دیا جائے ۔

Sexاور Gender میں تفریق

 Transgenderismمیں ”جینڈر“ Gender کا اظہار لباس، بالوں کی بناوٹ، حرکتوں ، معاشرے میں خاص انداز سے ملنے جلنے وغیرہ پر منحصر ہے جب کہ Sex کا تعین Biological attributes (حیاتیاتی صفات )سے ہوتا ہے؛ یعنی مرد و عورت کے وہ خاص اندرونی و بیرونی اعضا جن سے کسی کا مرد یا عورت ہونا ثابت ہو۔اسی لیے ٹرانس جینڈروں کی جانب سے Gender expression (جنسی اظہار) یا  Gender identity (جنسی شناخت) جیسی اصطلاحات (Terminologies) سننے پڑھنے میں آتی ہیں۔Gender expressionسے مراد جنس کے اظہارکا طریقہ جس سے دوسرے کچھ اخذ کریں۔ Gender indentity سے مراد فرد کی اپنی جنس سے متعلق عمیق سوچ جس سے وہ اپنا مذکر ، مؤنث یا ان دونوں کا مرکب ہونا یا ان میں سے کچھ نہ ہونا طے کرے ؛بھلے یہ ذاتی خیال اس کی پیدائش کے وقت تفویض شدہ جنس کے مطابق ہو یا نہ ہو ۔

اس فلسفے کی بنیاد صرف ایک خیال’’ Genderاور Sex ‘‘میں فرق کے تصور پر ہے۔اگر ان میں تفریق ثابت ہو تو مسئلہ کچھ اور دکھائی دے گا لیکن تفریق ہی باطل نکلے تو اس فلسفے اور اس کی بنیاد پر تعمیر شدہ ہر چیز باطل قرار پائے گی ۔

کیا سیکس Sexاور جینڈر Genderمیں فرق ہے؟

لفظ Sex قدیم ہے اس کے معنی میں کوئی اختلاف نہیں۔ قدیم الایام سے بغیر اختلاف Sexاور Genderمذکر و مونث ، نر و مادہ کی تعیین کے لیے ایک دوسرے کے قائم مقام مستعمل تھے اور اب تک اکثر افراد کا  یہی نظریہ ہے۔

اردو میں Sex کا ترجمہ لفظ جنس اور Gender کیلئے تین لفظ آتے ہیں: (۱) جنس (۲) قسم (۳) صنف۔

انگریزی میں جنس کے لیے دو لفظ استعمال ہوتے ہیں(1)  Sex (2)   Gender۔  مقدم الذکر کا تعلق خاص الخاص نر و مادہ، مذکر و مؤنث سے ہے۔ مؤخر الذکر کا مطلب خاص سیاق و سباق میں بالکل مقدم الذکر کا ہے اور سلسلہ کلام میں تبدیلی کے ساتھ Gender کے دو اضافی معانی ہیں(۱)قسم(۲)صنف۔

راقم کے سامنے اس وقت Johnson's English Dictionary(Published by Perkins and Marvin...)ہے، اس میں Gender کا مطلب Sexبھی درج ہے (صفحہ۴۲۰)۔  Oxford Dictionary میں بھی Gender سے متعلق لکھا ہے: Usually reffered to masculine, feminine and neuter.  نیز ایک مطلب یہ بھی لکھا ہے: The member of one or other sex.یعنی عام نسبت مذکر، مونث یا بے جنس کی طرف۔ بلحاظ Sex]سیکس] کسی ایک (جنس) کا فرد۔ یاد رہے مقدم الذکر لغت۱۸۳۰ء میں شائع ہوا۔

اردو لغت پر کام کرنے میں اہل یورپ کو سبقت حاصل ہے، انہیں اس کی ضرورت تھی، تجارت ، حکومت یا قیام جس جگہ ہو تو وہاں کی زبان سیکھنی پڑتی ہے۔لہذا ایک نظر ان افراد پر بھی ڈال لیتے ہیں۔ John Shakespear(جان شیکسپئیر) نے  A Dictionary, Hindustani And English And......  میں Gender کا معنی ’’جنس، قسم، نوع، تذکیر و تانیث‘‘ کیا ہے۔ یہ لغت پہلی دفعہ ۱۸۱۷ء میں شائع ہوا(بعد کی اشاعتوں میں اضافے ہوتے رہے)۔ D r S.W Fallon(ڈاکٹر فیلن) نے English-Hindustani Dictionary میں لفظ Gender کا مطلب Sex اور مزید وضاحت کے لیے  ’’تذکیر تانیث۔ مذکر مؤنث‘ ‘لکھا۔ یہ مشہور زمانہ لغت ۱۸۸۳ءمیں شائع ہوا۔

ان حوالوں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ باعتبار لغت دونوں لفظ  Sexاور Gender خاص سیاق و سباق میں ایک دوسرے کے قائم مقام ہیں۔

بالفرض[ سیکس] Sex اور [جینڈر] Gender میں کیے گئے جدید فرق کو تسلیم کر لیں تو سوال ہے کہ اگر Genderمحض سماجی ساخت ہے تو اس میں گڑبڑ ہونے پر کسی بھی قسم کے Medical treatment (طبی علاج)کی ضرورت پڑتی ہے؟  مثلا اگر کسی عورت نے مرد ہونا ہو تو اسےHormone replacement  (استبدال ہارمون) ،Mastectomy (پستان براری) Hysterectomy(رحم براری  ) Vaginectomy(مہبل تراشی)  Phalloplasty(آلہ تناسل کی تشکیل) وغیرہ سے گزارنا پڑے گا ۔ ان مراحل سے میڈیکل سائنس کی مدد سے گزرا جائے گا یا محض کپڑے بدلنے، بال عورتوں کی طرح بنانے ، آواز بھاری وغیرہ کرنےسے Treatment(علاج) ہو جائے گا ؟

 اگراس من گھڑت فرق کو درست مان لیں تو Gender dysporia(جنسی بے چینی) کا تعلق ٹرانس جینڈروں کے مطابق Biological sex (حیاتیاتی جنس) سے ہے، اگرGender صرف معاشرے میں پہچان ہے تو اس کے لیے جراحت وغیرہ کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ Sex اور Gender ایک ہی چیز کے دو نام ہیں لہذا ان میں تفریق ایک لحاظ سے ٹرانس جینڈروں کے اصولوں سے بھی بے دلیل ہے۔

اس تناقض کی وجہ یا تو یہ ہے کہ Sexاور Genderمیں فرق کو کسی خاص مقصد کے حصول کے لیے گھڑا گیا ہے یا کم از کم بغیر سوچے سمجھے ایک صحیح بات کو ختم کر کے دوسری کو رائج کرنے کی کوشش ہوئی ہے جسے ایک طبقہ آنکھیں بند کر کے قبول و مشہور کر نے میں مگن ہے ، اس محنت کے نتیجے میں آج دنیا میں بسنے والے افراد کا ایک حصہ(ان میں یا تو Transgenderism کے داعی ملیں گے یا اس مسئلے سے ناواقف )Sex اور Gender میں فرق کر رہا ہے۔

ایک مدت سےہمارےپاسپورٹ میں Sex کے آگے Male (مذکر) یا   Female(مؤنث)  درج ہوتا آرہاہےلیکن ہم اپنے Identity cards پر نظر ڈالتے ہیں تو اس میں مذکر یا مؤنث کی شناخت و تفریق کے لیے Sex کی جگہ Genderلکھا ہوا ہے  دراصل Transgenderism کے وجود اور اس کے من گھڑت و خلاف فطرت انکشاف سے پہلے یہ فرق تھا ہی نہیں۔

گزشتہ بحث کی روشنی میں ہم بلا جھجک کہتے ہیں کہ جس طرح Sex کا تعلق جسم کے ظاہری و اندرونی اعضا سے ہے ٹھیک اسی طرح خاص سیاق و سباق سے Gender کا تعلق بھی ہے لہذاGender اور Sex میں فرق برتنا بے دلیل ہے۔ اس تفریق کی تائیدنہ تو Transgenderismکے ایک خاص دور سے قبل کی تاریخ سے ہوتی ہے نہ از روئے طب اور نہ ہی عقل سلیم اس تفریق کو ماننے کے لیے تیار ہے ۔

دماغی خلل یا شرارت جسے ذاتی احساس کا نام دے دیا

کسی بالغ شخص کو اچانک احساس ہو کہ میں فلاں کا نہیں بلکہ فلاں کا بیٹا ہوں تو ایسے شخص کواپنے دعوے کے ثبوت میں بہت قوی دلائل پیش کرنے کی ضرورت پڑے گی،  اگر دعوی جھوٹ پر مبنی ہو تو ایسا شخص معاشرے میں فساد اور جس فرد کی طرف اس نے اولاد ہونے کی نسبت کی اس کے خاندان میں بگاڑ کا بہت بڑا ذریعہ ہوگا۔ اگر مدعی  ثبوت پیش نہیں کرتا اور نہ ہی بحث کے ذریعے اپنا مدعا ثابت کرے لیکن تمنا یہ رکھتا ہو کہ جو یہ کہتا ہے اسے معاشرہ فورا قبول کر لے تو ہر سمجھدار فرد اس حرکت کو پاگل پن سے تعبیر کرے گا۔ٹرانس جینڈروں کا مسئلہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ عمر کا ایک حصہ مرد یا عورت کی حیثیت سے گزار لیا اب اچانک دعوی رکھا کہ میں اصلا ً مخالف جنس سے ہوں بوقتِ پیدائش میری نسبت غلط جنس کی جانب کی گئی ۔ ظاہر ہے ایسا دعوی کرنے سے معاشرے میں کئی مسائل میں اضافہ لازمی چیز ہے۔ ایسا دعوی آنکھیں بند کر کے کوئی قبول نہیں کرے گا خاص کر اس وقت جب مدعی کا دعوی دوسرے فرد پر اثر انداز ہو، لہذا مدعی ثبوت لائے گا،کسی بھی زندہ معاشرے میں اس پر یہ لازم بھی ہے اور فریق مخالف کو بھی اختلاف کرنے کا حق حاصل ہے ۔

ٹرانس جینڈر ازم Transgenderism سے یہ فلسفہ بھی پیش ہوتا ہے کہ Trans man یا Trans woman ہونے کے لیے کسی Medical checkup (طبی معائنہ)کی ضرورت نہیں بلکہ اس مسئلے کو محض فرد کے ذاتی خیال کے مطابق ہونا چاہیے۔ مطلب یہ کہ اگر کسی مرد کو یہ احساس ہو کہ وہ عورت ہے اور پیدائش کے وقت جو اسے مرد بتایا گیا وہ ایک غلطی تھی تو اسے عورت کہلانےکا حق دیا جائے نیز Transgenders اس خیال و احساس کو سب پر مسلط کرنے کی خواہش رکھتے ہوئے معاشرے اور ہر متعلقہ ادارے کو اس کاپابند بھی کرنا چاہتے کہ یہ سب بھی ایسے شخص کو عورت مانیں۔

اہل عقل کے نزدیک یہ تحریک و مطالبہ بھی محض جہالت کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس کو یوں سمجھیں کوئی عام شخص اچانک اس خیال کا اظہار کرے کہ میں فلاں سرکاری ادارے کا سربراہ ہوں اور مطالبہ کرے کہ اب اس ادارے سے متعلقہ تمام افراد مجھے اس عہدے کے مطابق عزت دیں نیز جو احکام میری طرف سے جاری ہوں وہ لاگو بھی ہوں اور ریاست اور معاشرہ مجھے فلاں سرکاری ادارے کا سربراہ بھی مانیں۔ یقیناً Transgenders اور ان کے سہولت کار  اس حرکت کو ذہنی مرض تعبیر کریں گے بھلے اس کے لیے اصطلاح Gender dysphoria(جنسی بے چینی) [جسے پہلے   Gender indentity disorder (جنسی شناخت میں [عارضہ] بے نظمی) کہتے تھے] کو استعمال کر لیں یا کچھ اور چن لائیں۔ اس مسئلے سے یہ لوگ کیسے نمٹیں گے اندازہ لگانا مشکل نہیں۔اسی طرح اچانک کوئی جنسی لحاظ سے صحیح مرد یا عورت محض ذاتی احساس کو بنیاد بنائے اور مخالف جنس اختیار کرنے کا دعوی کرے تو ایسے فرد سے بھی اسی طرح نمٹا جائے جس طرح مذکور بالا شخص سے پیش آنے کا حق ہے لیکن یہاں ٹرانس جینڈروں کا رویہ ” آپ دھاپ اپنا منہ اپنا ہاتھ “ ۔

سماجی ساخت  Social construct

ٹرانس جینڈروں Transgenders نے اپنے باطل فلسفے کو ثابت کرنے کے لیے  Social construct(سماجی ساخت)  [جس کا مفہوم یہ ہے کہ معاشرے میں رائج کوئی تصور جس کا حقیقی وجود نہ ہو (یعنی خیالی ہو) دراصل انسانوں کے تعامل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ لوگ اس تصور کو تسلیم کرتے ہیں اس لیے اسے مانا جاتا ہے، اگر لوگ اس تصور کو تسلیم کرنا چھوڑ دیں تو اس تصور نے بے حیثیت ہو جانا ہے]کو بکثرت استعمال کر رہے ہیں۔ یہ Theory (نظریہ) بعض گمراہ ماہرین عمرانیات (Sociologists) کے خیالات میں سے ہے،ٹرانس جینڈر ازم  Transgenderism کوفروغ دینے والوں نے اسے اپنے مقصد کو عام کرنے کے لیے اہم جانا پھر اس کے ذریعے منزل مقصود تک پہنچنے کا سفر شروع کیالیکن اس فلسفے میں موجود تناقضات سے دانستہ طور پر لا پرواہی برتتے رہے   اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں اس بات کا علم تھا کہ دنیا میں مسائل و حقائق سے بے وقوف رہ کر الٹے فلسفوں کو قبول کرنے والے افراد بھی اچھی تعداد میں موجود  ہیں لہذا نہیں بھی اپنے حصے کے بے وقوف مل ہی جائیں گے اورایسے ہوا بھی۔

سوشل کنسٹرکٹ کی بنیاد پر ان کا ماننا یہ ہے کہ Genderمعاشرے کی عطا ہے ۔ لیکن انہوں نے یہ بات نہیں سمجھی کہ اگر Gender سماج کی عنایت ہے تو کسی Transgender کوذاتی طور پر یہ حق حاصل نہیں کہ وہ پیدائش کے وقت تفویض شدہ جنس سے انحراف کرے اور مخالف جنس سے خود کو متعارف کرائے۔ یہ عجیب تضاد ہے کہ ایک طرف کسی کا مرد یا عورت ہونا ان کے مطابق معاشرے کی عطا ہے لیکن دوسری طرف Transgender  کو معاشرے سے ہٹ کر ذاتی احساس کی بنیاد پر اپنی جنس تبدیل کرنے کا حق ہے؛ حالاں کہ ان کے فلسفے کے مطابق تو اس مسئلے کو معاشرے ہی نے طے کرنا ہوتاہے لیکن یہاں ان کو معاشرے حتی  کہ اس فلسفے کی بھی کوئی پروا نہیں اور محض ذاتی احساس کو دلیل بنا کر جنس بدلنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔

 کوئی Transgender بوقت پیدائش Male (مذکر)متعین ہوا اور عمر کے کسی حصے میں اسے خیال آیا کہ میں تو Female (مؤنث)کہلانے کے لائق ہوں (یا اس کے برعکس) تو اس فرد کو Genderمیں تبدیلی کے لیے کسی بھی Medical Doctor (طبی معالج)سے رجوع کیوں کرنا پڑتا ہے؟ اس کو تو فوراً لباس وغیرہ تبدیل کرکے اپنے احساس کے مطابق معاشرے میں روپ اختیار کرنا چاہیے لیکن یہ لوگ علاج کے لیے ایک طرف ڈاکٹر کے پاس جا تے ہیں اور دوسری طرف متضاد روش اختیار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ Gender کا تعلق تو ہے ہی سماجی ساخت سے۔

کبھی کوئی فرد حجامت یا   سنورنے کے لیے کسی ڈاکٹر سے ملاقات کا وقت(Appointment) نہیں لیتا نہ ہی کوئی ڈاکٹر ان امور کے لیے دنیا میں کہیں دستیاب ہے لیکن Gender کو محض معاشرے کی دین سمجھنے والے اپنی جنس میں تبدیلی کے لیے Medical treatment (طبی علاج) کے متلاشی ہو کر اس خاص شعبے کے ڈاکٹروں کے پاس جاتے ہیں جب کہ دوسری طرف یہی لوگ جن چیزوں کے مرکب کو Gender کہتے ہیں اس کا تعلق ان ہی کے فلسفے (جو تناقضات سے بھر پور ہے)کے مطابق  Medical science (علم طب) سے نہیں ہے۔

کسی مرد یا عورت کو(جسے معاشرہ ایک جنس میں رکھ کر پہچانتاہو) محسوس ہو کہ میں مخالف جنس سےہوں اور وہ بغیر طبی علاج اپنی پیدائشی جنس سے انحراف کر کے خود کو مخالف جنس میں سے ظاہر کس حیثیت سے کر سکتا/ سکتی ہے؟ اس کا احساس تو باطنی چیز ہےجس کا سوسائٹی اور Sexسے کوئی تعلق ہی نہیں تو ایسے فاسد احساس کی بنیاد پر بغیر طبی علاج مرد سے عورت یا عورت سے مرد کہلانا کیسے صحیح ہو سکتا ہے ؟جس شخص کی عقل سلامت ہو وہ اس حرکت کو کیا سمجھے گا؟۔

عام مشاہدہ ہے کہ مختلف علاقوں میں مختلف سوسائٹیاں بستی ہیں، ساری دنیا میں ایک سی سوسائٹی رائج نہیں تو کیسے Gender کو سوسائٹی کی تشریح کہا جا سکتا ہے؟ لہذا  سوال ہے کہ جب Trans man یا Trans woman ہونے کی باری آتی ہے تو یہ لوگ اپنے فلسفے کے  برعکس  معاشرے کی مخالفت ( ان کے مطابق تو معاشرہ ان کو کسی جنس میں رکھتا ہے) کرتے ہوئے ایک جنس ترک کر کے دوسری اختیار کر لیتے ہیں۔ ان کی اس حرکت کے وقت کسی کا بوقت پیدائش لڑکایا لڑکی ہونا کس دلیل سے معاشرے کی تعبیر نہیں رہتا؟

بغیر طبی علاج صرف منہ سے چند جملے نکال دینے سے (یعنی مرد سے عورت ہونے یا عورت سے مرد ہونے کا اعلان کر دیا جائے) یا شناختی کارڈ میں ترمیم کے لیے صرف ایک کاغذ میں خانہ پوری سے اس مرض سے کسی مریض کو کیسے نجات حاصل ہو سکتی ہے؟

 Gender identity (جنسی شناخت) کا مسئلہ معاشرے سے تعلق رکھے گا یا میڈیکل سائنس سے، ایک ہی وقت میں اسےدو مخالف سمتوں میں گھسیٹنا حماقت و تناقض ہے۔اس قدرآسان بات آخر ٹرانس جینڈروں کی عقل میں کیوں نہیں آرہی؟

 جنس کی بنیاد پر نر و مادہ ہونا محض معاشرے کی عطا نہیں کیوں کہ یہ چیزیں عملا ًبھی دنیامیں کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ عام مشاہدہ ہے کہ بچوں کی پرورش و تربیت مادہ کے حوالے ہے۔ تحریک حقوق نسواں (Feminineism) سے پہلے مرد خواراک کا انتظام کرتا تھا، عورت گھر کی بہتری میں مشغول اور بچوں کی نگہداشت وغیرہ میں وقت لگاتی تھی۔ جب سے دنیا بنی ہے  انسان اسی فطری تقسیم کے مطابق زندگی بسر کررہے ہیں۔

مرد قدرتی طور پر عورت کے مقابلے میں محنت کش اور جسمانی طور پر مضبوط ہوتاہے، اس میں یہ چیز بھی فطری ہے کہ وہ زوج و اولاد پر خرچ کرے اور انہیں تحفظ فراہم کرے ۔ عورت کی فطرت میں ہے کہ وہ مرد کی غیر موجودگی میں گھر اور عزت کی حفاظت کرے۔ بچہ جننے کے بعد ماں کے پستان سے دودھ کااترنا ، نومولود کو بھی اس کا علم ہونا کہ اسے کس مقام سے غذا ملے گی۔ بچے کو کس معاشرے نے یہ سمجھ دی کہ وہ پستان سے غذا حاصل کرے تاکہ اس کی ضرورت پوری ہو؟۔ ظاہر ہے عورت کا حمل سے ہونا، پستان میں دودھ اترنا، بچے کا اس سے پیٹ بھرنا، مردو عورت کے درمیان باہمیت جس سے گھریلو زندگی چلتی رہے وغیرہ وغیرہ سب چیزیں بغیر شکل و جسم عقل میں آنے کے ساتھ عملی طور پر بھی موجود ہیں ۔ بعض چیزیں تو اس قدر مستحکم ہیں کہ وہ انسانوں اور جانوروں میں بھی یکساںہیں، مثلا انسانوں کے دائرے سے باہر نکل کر دیکھیں تو بچوں کی پرورش پرندوں اور جانوروں میں بھی مادہ ہی کے حوالے ہے۔

کسی تہذیب(Civilization)کا مختلف علاقوں اور معاشروں پر اپنا اثر چھوڑنا اور ایک ہی سوسائٹی میں تہذیبوں(Civilizations) کا ٹکراؤ تاریخی ہونے کے علاوہ مشاہداتی حقیقت بھی ہے؛ کوئی سمجھدار اس سے انکار ی نہیں۔ یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ Gender معاشرے کی دین نہیں کیوں کہ ہر سوسائٹی میں مرد و عورت کو Biologically (حیاتیاتی اعتبار سے)نر و مادہ مانا جاتا ہے اور یہ سلسلہ ہزاروں لاکھوں سال سے ہے حتی کہ جب کسی Society کا وجود بھی نہیں تھا اس سے پہلے بھی نر و مادہ کی تفریق کو مرد/لڑکا و عورت/لڑکی کے مخصوص جنسی آلات ہی کے ذریعےجنس مذکر (Gender:Male) یاجنس مؤنث (Gender:Female)سمجھا، بتایا اور مانا جاتا تھا اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔

سوسائٹیوں کا بننا، بگڑنا یا اجڑ جانا کسی صاحب بصیرت سے پوشیدہ نہیں بلکہ بڑے اور ذرخیز ذہن تو ان امور کے اسباب کی نشان دہی کرتے ہیں اور جہاں وہ سوسائٹی سے کچھ لیتے ہیں تو دوسری طرف وہ اسے بہت کچھ دیتے بھی ہیں بلکہ کئی بار یوں بھی ہوا کہ فرد واحد نے ساری سوسائٹی کو ہی بدل دیا لیکن بعض گمراہ لوگ ہر چیز کو معاشرے کی عنایت سمجھ کر معاشرے کو ایک Force کی شکل دے بیٹھے جو سرا سر غیر منطقی رویہ ہے۔

بغیر طبی علاج  Transgenderکا اطلاق

یہ مسئلہ ثابت ہو چکا کہ خاص سیاق میں SexاورGender ميں کوئی فرق نہیں تو اب Transgender اور Transsexual مترادف ہوئےاور یہ بات تو معلوم ہے کہ Transsexual كا ا طلاق طبی عمل سے گزارے بغیر کسی فرد پر نہیں ہو سکتا۔ اب اگر کوئی پیدائشی نا مکمل فرد Sexual disorder (جنسی عارضہ) سے نجات کے لیے طبی علاج سے گزر کر عورت کے دائرے میں داخل ہو جائے تو آئندہ اسے صرف عورت ہی کہنا چاہیے؛ اسے کوئی تیسرا نام دینا درست نہیں اور اگر وہ مکمل طور سے عورت نہ بن سکے تو اسے پھر تیسری جنس میں داخل مان کر Hermaphrodite(خنثی)کہا جائے گا[بشرط اس میں خنثی کی خصوصیات موجود ہوں) ورنہ وہ پہلی حالت میں ہی رہے یعنی کسی طبی عمل سے گزرے بغیر پیدائشی جنس کے مطابق زندگی گزارے لیکن Medical process (طبی عمل) سے گزرے بغیر عورت بن جانا یا عورت کا مرد بن جانا کسی صورت درست نہیں۔اگر کوئی فرد ایسا کرے تو اسے ذہنی علاج کے لیے کسی ہسپتال میں جمع کیا جانا چاہیے اور اگر اس کا دماغ ٹھیک ہو اور معلوم ہو جائے کہ یہ شرارتی ہے تو ملک کے قانون کے مطابق اس کو سزا دی جائے اگر کوئی قانون نہ ہو تو بنایا جائے۔ رہا ہیجڑوں کا معاملہ تو یہ مرد ہوتے ہیں لیکن پیسے کی خاطر یا جنسی لذت کے لیے یہ عورتوں کا روپ اختیار کر لیتے ہیں، ان کا کردار ہر سمجھدار شخص کے نزدیک مجرمانہ ہے، لہذا ان کو اپنی اصل کی طرف لوٹ آنا چاہیے۔

کسی فرد میں مرد کے خاص جنسی اعضا ہوں (جو مرد ہونے کی علامت ہمیشہ سے سمجھے جاتے ہیں) لیکن وہ خود کو بغیر طبی علاج عورت کہلائے یا کوئی عورت اپنے تمام جنسی اعضا کی موجودگی کے باوجود مرد کہلانا شروع کر دے جب کہ دونوں کو بوقت پیدائش ان کے مخصوص آلات کو سامنے رکھ کر ان کی جنس کا تعین ہو چکا تھا تو کیسے کوئی شخص کسی عورت کو مرد یا مرد کو عورت تسلیم کر سکتا ہے؟ یہ ایسے ہی ہے کہ بلی کو آئندہ کتا کہا جائے اور کتے کو بلا وجہ شیر اور شیر کو چوہا اورچوہے کو ہاتھی اور ہاتھی کو بندر پھر خواہش رکھی جائے کہ دوسرے بھی ایسے ہی مانیں۔

اگر کوئی عورت کسی مرد کی طرح آواز نکالے، مردوں کا لباس پہنے، گنجی ہو جائے نیز جیسے مرد آپس میں ملتے ہیں ویسے ہی ملنے لگے تو بھی یہ عورت”مؤنث“ کے دائرے سے نکل کر مرد ”مذکر“ نہیں کہلا سکتی، اسی کو الٹ کر ”مذکر“ مرد پر لاگو کریں تو ایسا شخص جو عورتوں کا لباس و دیگر چیزیں اختیار کر لے تو بھی ”مذکر“ مرد ہی رہے گا؛ زیادہ سے زیادہ کہا جائے گا فلاں شخص عورت بنا ہوا ہے لیکن ہے مرد ہی، کسی عورت کے لیے بھی ایسے ہی تاثرات ہوں گے۔

ایک طرف  Male or Female (مرد یا عورت) حتی  He or She  بھی ٹرانس جینڈر ازم کے داعیوں کے مطابقDiscrimination  (امتیازی سلوک)کی علامت ہے اس لیے ان کا الفاظ کا استعمال بھی جائز نہیں ؛ لیکن دوسری طرف محض ذاتی احساس پرکوئی  Transgender ہے کوئیTrans man تو کوئی Trans woman کوئی کچھ تو کوئی کچھ لیکن ٹرانس جینڈروں کو یہ فکری تضاد نظر ہی نہیں آتا۔ حیرت اس پر ہے کہ ان کی فضول، متضاد، خلاف عقل و مذہب سوچ کو دنیا بھر میں سرکاری بیساکھیوں اور کہیں سرکاری لاٹھی کے زور سے رواج بخشنے کی کوشش جاری ہے۔

خنثی کے لیے بلا قید لفظ Intersexدرست نہیں

کچھ عرصے سے ” خنثی “ کے لیے لفظ Intersex بکثرت بولا جارہا ہے ۔طبی (Medically) لحاظ سے اس سے مراد وہ فرد ہوتا ہے جس کی جنس (Sex) پیدائش کے وقت مبہم ہونے کی وجہ سے متعین نہ ہوئی ہو یا جس میں مذکر و مؤنث دونوں کے جنسی آلات ہوں۔ایسے فرد کو Non binary کہتے ہیں۔ Binary کا اطلاق ”نر “  و ”مادہ“ (مرد و عورت )کے جوڑے پر ہوتا ہے اور Non Binary اس کی ضد ہے؛ یعنی Intersex کے لیے جوڑانہیں ۔یہ ایک حد تک معنوی طور پر خنثی کی وضاحتی تعریف ہے(یہ بحث ذرا تفصیل آگے پڑھنے میں آئے گی)۔اگر Intersex سے مراد یہی ہو تو اس اصطلاح کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔

 لیکن عجیب بات یہ ہے کہ Transgenderism ميں Intersex(درمیانی جنس) بھی ایک Umbrella term (وسیع تر اصطلاح) ہے۔اس میں Gay (ہم جنس پرست مرد) Lesbian (ہم جنس پرست عورت) وغیرہ کو بھی داخل کیا جاتا ہے، ایسے میں اصطلاح Intersex(درمیانی جنس) خنثی سے خاص نہیں رہتی۔Intersex کے مفہوم کا تعین سیاق و سباق سے یا اس لفظ کو ادا کرنے والے شخص سے اس کی مراد پوچھ کر ہوتا ہے۔ اگر اس لفظ سے مراد خنثی ہی ہو تو ٹھیک لیکن جب اس میں دوسری چیزوں کوداخل کیا جائے تو ایسی صورت میں خنثی کے لیے Intersex کی جگہ لفظ Hermaphrodite  (جس میں نر و مادہ دونوں کے آلات ہوں)استعمال کیا جائے تاکہ خنثی اورغیر خنثی میں تفریق ہو سکے۔Intersex سے پہلےایسے فرد (خنثی)کے لیے لفظ Hermaphrodite بکثرت استعمال ہوتا تھا (آج بھی مستعمل ہے) لیکن Transgenderismسے غیر شعوری طور پر متاثر ہونے والے بعض افراد اس لفظ کو متروک باور کراتے ہیں۔ اس حرکت کی وجہ یہ ہے کہ Hermaphrodite اپنے مطلب میں صاف ہے اور یہ وسیع تر اصطلاح (Umbrella term) بھی نہیں (اس کا غیر خنثی پر اطلاق نہیں ہوتا ) لہٰذا ٹرانسجینڈر ازم Transgenderismکے مقاصد میں یہ اصطلاح رکاوٹ تھی اور یہ لوگIntersex (درمیانی جنس) میں غیر خنثی بھی داخل کرتے ہیں اس لیے انہوں نے اس بات کو شہرت دی کہ Hermaphrodite متروک ہے۔

یہ اصطلاح (Intersex) رچرڈ گولڈ اسمتھ(Richard Goldsmith) نے ۱۹۱۷ء میں وضع کی۔ جنسی بیمار، فحاشی کو عام کرنے والے افراد کی تیس پینتیس سال کی محنت سے یہ اصطلاح اب طبی دائرے سےباہر نکل کر کئی ممالک میں سیاسی شکل اختیار کر چکی ہے بلکہ کچھ عرصے سے یہ لوگ اس اصطلاح کو بھی اپنے مقاصد کے حصول کے لیےDSD(Disorder of Sex Development) (جنسی ترقی کی گڑبڑ)سے بدلنے کے لیے کوشاں ہیں (لوگوں کو مطمئن رکھنے کے لیے بہانہ بناتے ہیں کہ اصطلاح Intersex یا  Hermaphroditeافراد کے لیے باعث شرم ہے ) اور DSDکو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔  خلاصہ یہ کہ خنثی کے لیے سب سے موزوں اصطلاح Hermaphrodite ہی ہے اورIntersex سے مراد خنثی ہی لیں اور اس میں کوئی اضافہ نہ ہو تو ٹھیک ورنہ غلط۔

مغالطہ

یہ باتMedically  (طبی نقطہ نظر)اور Socially (معاشرتی لحاظ سے) ثابت ہےکہ بعض بچے پیدائشی خنثی ہوتے ہیں جنہیں Transgenders  آج کل Intersex کہتے ہیں لیکن ٹرانس جینڈروں سے جب ان کے تسلسل پر سوال پوچھا جاتا ہے تو یہ اپنی تاریخ بیان کرنے کے بجائے خواجہ سراؤں  کی تاریخ سنا کرکے دھوکہ دینے  کی کوشش کرتے ہیں ( گزشتہ سطور سے یہ ثابت ہو چکا کہ خواجہ سراؤں   کا ٹرانس جینڈروں سے کوئی واسطہ نہیں) حالاں کہ ان کے نزدیک تو  Transgender کا اطلاق ہوتا ہی اس فرد پر ہے جس کو عمر کے کسی حصے میں یہ احساس ہو کہ اس کی پیدائش کے وقت تفویض شدہ جنس غلط تھی ۔ جب کہ خوجے تو ہوتے ہی اور چیزہیں۔کیا خنثی یہ دعوی کر سکتا ہے کہ اسے بوقت پیدائش جوخنثی بتایا وہ اس کے علاوہ مرد یا عورت ہے؟ جواب یقینا نفی میں آئے گاتو کسی مرد کو عورت یا عورت کو مرد کہنے کا حق کس اصول سے کسی کو حاصل ہو سکتا ہے؟

معلوم ہوا یہاں بھی ٹرانس جینڈر ازم (Transgenderism)کو فروغ دینے والے یا تو خود مغالطے میں مبتلا ہیں یا دانستہ طور پر دوسروں کو مغالطہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی بھی وجہ ہو لیکن یہ بات تو واضح ہے کہ ان کا فلسفہ حد درجہ بے وقعت ہے۔

دھوکے بازی

ہیجڑوں کو خناث(Hermaphrodites)  باور کرانا ٹرانس جینڈر ازم Transgenderism کی چال ہے، آگے چل کر  Transgendersکہتے ہیں کہ حکومت خناث کو نوکریاں نہیں دیتی اور نہ ان کی شناخت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ خناث کی تعداد دنیا بھر میں اس قدر قلیل ہے کہ حکومتوں کی معمولی توجہ سے ان کے تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ان کی شناخت کا حل تو بہت آسان ہے، یہ خود کو خنثی مان لیں اور اپنے لیے شناختی کارڈ بنا لیں پھر اپنے حقوق کے لیے سب سے پہلے اپنے حلقوں سے جعلی خناث جو دراصل مرد ہیں اور مخنث بنے ہوئے ہیں ان کو باہر کریں تاکہ کوئی دوسرا ان کا حق نہ مار سکے۔

 جس پر الزام ہو جعلی خنثی ہونے کا اس کا طبی معائنہ کیا جائے اور جو حقیقی خنثی ہونے کا دعوی کرے اسے بھی اس عمل سے گزارا جائے۔ یوں کھرے کھوٹے میں فرق واضح ہو جانے کے بعد خناث کو ان کے حقوق حاصل کرنے میں آسانی ہو گی اور حق تلفی کا دروازہ بھی بند ہو جائے گا لیکن اگر یہ ہیجڑوں اور ٹرانس جینڈروں کا روپ اختیار کر کے معاشرے میں فحاشی کو فروغ دیں گے تو اس صورت میں نہ خناث کو حقوق ملنے ہیں اور نہ ہی معاشرے میں بہتری آنی ہے۔

 یہ شیطانی مرض ہے!

’’کیٹلن جینر‘‘Caitlyn Jennerسابق’’ولیم بروس جینر‘‘William Bruce Jenner  ۱۹۴۹ءمیں پیدا ہوا، اس نے تین شادیاں کیں، پہلی بیوی سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی، دوسری بیوی سے دو بیٹے اور تیسری بیوی سے دو بیٹیاں ہوئیں۔ چھ بچوں کا باپ Hormone replacement therapy اور Cosmetic surgeryکروا کر ۲۰۱۷ء میں عورت بن گیا۔یہ کوئی عام آدمی نہیں؛ اس نے امریکہ کے لیے اولمپک گیمز میں گولڈ میڈل لیاتھا ۔آج کل یہ امریکہ میں ری پبلکن پارٹی کا رکن ہے۔

’’مے ری الیزبتھ کلارک‘‘Mary Elizabeth Clark  سابق’’مکہل کلارک‘‘ Michelle Clarkکا سال پیدائش ۱۹۳۸ء ہے۔ US Navy میں ملازمت اختیار کی۔ شادی ہوئی اور ایک بچے کا باپ بنا۔ شادی کے گیارہ سال بعد اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ پھر دوسری شادی کی اور کچھ عرصے بعد اسے Gender dysphoria (جنسی بے چینی) کی شکایت ہوئی، ۱۹۷۰ء میں  Transsexual کے حقوق کے لیے کافی حرکت میں رہا۔ ۱۹۷۵ء میں یہ شخص  sex reassignment surgery کے مرحلے سے گزر کر عورت بن گیا۔ ایک بچے کا باپ یعنی مکمل مرد اپنی جنس بدل بیٹھا۔

’’ورجینیا پرنس‘‘Virginia Prince سابق’’آرنلڈ لومین‘‘ Arnold Lowman کو کئی لوگ اصطلاح Transgenderوضع کرنے والا سمجھتے ہیں۔عدالتی بیان (جو اس وقت کے اخبار میں شائع ہوا) کے مطابق چودہ پندرہ سال کی عمر سے یہ شخص موقع پاتے ہی عورتوں کے کپڑے پہن لیتا، اس فعل سے اسے راحت حاصل ہوتی تھی۔ اس کی شادی ہوئی تو اس کی بیوی اس شوق سے ناواقف تھی۔ اس کا ایک بیٹا بھی ہوگیا لیکن اس میں مخالف جنس کے کپڑے پہننے کا مرض زیادہ بڑھا تو اس کی بیوی نے کورٹ سے رجوع کر کے طلاق مانگی۔ عدالت نے علیحدگی کا حکم جاری کرنے کے ساتھ ہر ماہ بیوی کے لیے ۵۰ڈالر اور اس کے بیٹے کے لیے الگ سے اتنی ہی رقم ادا کرنے کا پابند کیا۔ چند سال بعد اس نے دوسری شادی کی ،اس دور میں اس نے ہر وقت جنس مخالف کے لباس میں رہنا شروع کر دیا حتی کہ اپنی بیوی کے ساتھ بھی جب گھر سے باہر نکلتا حتی کسی دوسرے شہر بھی جاتا تو دونوں عورتوں کے حلیے میں جاتے ۔Transgendersکی دنیا میں یہ بہت بڑا نام ہے، اس نے ساری زندگی ایک خاص نظریے کی خدمت میں گزار دی اور اسے عام کرنے کے لیے بہت سی کتابیں بھی لکھیں اور اس کے فروغ کے لیے ان تھک محنت کی۔

 ایک بچےکا باپ ہو نے سے یہ مسئلہ واضح ہے کہ جنس (Sex)کے لحاظ سے یہ شخص مکمل مرد تھا لیکن اس کے دماغ میں خود کو عورت بنانا سوار تھا۔ یہ خود کو Sex کے لحاظ سے مرد اور کردار کے اعتبار سے عورت ظاہر کرتااور کہتا تھا کہ یہ بالکل ممکن ہے بلکہ ہر شخص اس پٹڑی پر چل سکتا ہے۔اس کا مشہور قول Gender is between two ears not the legs(یعنی  جینڈر (جنس) کا تعلق کانوں کے درمیان (دماغ) سے ہے ٹانگوں کے درمیان( شرم گاہ ) سے نہیں)۔اندازہ لگائیں یہاں جوش آرہا ہے ہیجڑوں کو تحفظ اور حقوق دینے پر اور یہ خدمت Transgenderism کی چھتری تلے ہو رہی ہے جس کا خناث سے کوئی واسطہ ہی نہیں۔ دوسری طرف مکمل مرد اور مکمل خواتین جنہیں biologically(حیاتیاتی اعتبار سے) کوئی مرض لاحق جنس بدلنے میں مصروف ہیں۔

 دنیا بھر میں ایسے واقعات ہزاروں کی تعداد میں ہیں، کئی گھروں کا سکون برباد اور بہت سے خاندان بری طرح متاثر ہوئے، معاشرے میں سخت خرابیوں نے جنم لیا ، بچوں کی تربیت میں شدید خرابیاں واقع ہوئیں اور نوجوان بچوں کے والدین بھی سخت اذیت سے گزرے۔ 

ٹرانس جینڈر ایکٹ (۲۰۱۸ء) پر ایک نظر

یہ ایکٹ ہیجڑوں کے تحفظ، امداداور بھلائی کے نام پر بنایا گیا لیکن اسے نام ٹرنس جینڈر ایکٹ کا دے کر ٹرانس جینڈروں میں خنثی، مخنث، ٹرانس جینڈرمرد، ٹرانس جینڈر عورت، خواجہ سراکے علاوہ Genderاور Sex میں فرق کی بنیاد پرGender identity اور Gender expression جیسی اصطلاحات کی مدد سے مکمل مرد و عورت کو بھی جنس بدلنے کا موقع دے کر ٹرانس جینڈروں میں داخل کر دیا، یہ بہت افسوس ناک ہے۔  لفظ Transgender مغربی ممالک میں جس طرح  استعمال ہوتا ہے ویسے ہی یہاں بھی اسے Umbrella trem (وسیع تر اصطلاح)کے طور پر استعمال کیا نیز اس میں کہیں GenderاورSex میں فرق کیا گیا ہے تو کہیں ان دونوں لفظوں کو ایک دوسرے کے مترادف بنایا گیا جو بذات خود تناقض ہے(اس پر پہلے بحث ہو چکی)۔

ایکٹ ۲۰۱۸ ء کے مطابق تو ہر فرد کو یہ اختیار دے دیا کہ وہ اپنے تصور کے مطابق اپنی جنس بدل لے(مرد سے عورت یا عورت سے مرد ہو جائے) اور سرکاری محکموں کو اس فرد کے تصور کے مطابق اس سے رویہ اختیار کرنے اور اس کی بتائی ہوئی جنس کے مطابق پیش آنے کا پابند بھی کیا (یعنی دوران مخاطبت مذکر و مؤنث کے صیغوں کا استعمال اس فرد کے تصور کے مطابق ہو جو وہ اپنے لیے رکھتا اور دوسروں کو بتاتا ہے) لیکن Rules 2020 کے مطابق شناختی کاغذات (شناختی کارڈ (CNIC)، گاڑی و اسلحہ وغیرہ کے لائسنس، کسی ادارے میں تعلیم یا ملازمت کی سند وغیرہ)میں جنس و نام کی تبدیلی کو معقول وجہ سے مشروط رکھا ہے(یہ شرط نادرا (Nadra) سے خاص ہے کیوں کہ باقی تمام کاغذات میں تبدیلی شناختی کارڈ (CNIC) میں ترمیم سے مشروط ہے)۔ اس مطالبے پر کیسی معقولیت درکار ہے اس پر بہت حد تک پیچھے بحث ہو چکی ہے؛ مزید بحث اسلامی تناظر میں آگے بھی آئے گی جس سے اس مسئلے کا حل نکالنا کوئی مشکل نہیں۔

Rules 2020 میں جنس کے لیے مذکر و مؤنث کےعلاوہGender:X  کا اضافہ بھی ہے (جو ہیجڑوں کی جنس سے خاص( شناختی) علامت تھی) ۔Rules 2020 ميں ٹرانس جینڈر کو وسیع تر اصطلاح کی حیثیت سے لائے ہیں یعنی اسے ہیجڑوں سے خاص نہیں کیا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ Gender:X میں اصلی مرد و عورت کے علاوہ ہیجڑوں کے ساتھ دوسرے افراد بھی خود بخود داخل ہو جائیں گے جو معاشرے میں مسائل کے اضافے کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ Rules 2020 میں کسی ملزم یا مجرم ٹرانس جینڈرکو تفتیش یا سزا کے لیے ہم جنس افراد گرفتار کریں گے۔ تمام اداروں سے قطع نظر صرف پولیس پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے پولیس میں ہیجڑے ہیں ہی نہیں۔ اگر خنثی کو حراست میں لینا ہو تو پولیس میں خنثی ملنا ہی نہیں۔ اب اس کام کے لیے پولیس میں خناث کو بھرتی کریں ؟(خنثی پر بحث پہلے گزر چکی مزید بحث آگے آتی ہے)۔ مزید یہ کہ ان کے مطابق تو ہیجڑا Gender:X میں آتا ہے، اب کسی ہیجڑے کو گرفتار کرنا ہوگا تو ہیجڑا پولیس افسر یا سپاہی کہاں سے لایا جا سکتا ہے۔ (ہیجڑا کون ہوتا ہے اور اس کا حکم کیا ہے اس پر بحث ہو چکی مزید آگے آئے گی)۔

ٹرانس جینڈر کو جب لائے ہی Umbrella term (وسیع تر اصطلاح) کی حیثیت سے (جو بلا شبہ بےدلیل ہےجس پر پہلے بحث ہوچکی ، کچھ حصہ آگے آتا ہے) اس میں ہم جنس پرست مرد  و عورت اور بے جنس (Gay, Lesbian and Asexual)سب شامل ہیں۔ اب پولیس میں ان کی بھی بھرتی ہوگی؟ان کے لیے حراست خانوں، جیل خانوں، طہارت خانوںکا ذکر تو Rules و Act میں آ گیا لیکن بات پھر وہیں ہے کہ وسیع تر اصطلاح میں صرف ٹرانس مرد (Trans man) ٹرانس عورت (Trans woman) خصی (Eunuch) نہیں سے خاص نہیں، اس میں تو ہم جنس پرست مرد (Gay)، عورت (Lesbian)  اور بے جنس (ASexual) وغیرہ بھی شامل ہیں ۔ مسائل یوں ہی چلے تو یقینا چند دنوں بعد قوانین و سہولیات میں اضافوں کے لیے وطن عزیز کے قانون ساز سر جوڑ کر بیٹھے ہوں گے ۔

 اپنے ہاتھوں سے قوم کے لیے نئے مسائل گھڑنا

مسئلہ جیسے چل رہا ہے اس سے الجھنوں میں اضافہ ہوگا اور حالات آئندہ بہت گھمبیر صورت اختیار کریں گے۔یہاں چندمسائل کی طرف اشارہ ضروری ہے۔

کوئی مرد عمیق سوچ پر مبنی اپنے ذاتی خیال و احساس کے سبب عورت ہو گیا، اب وہ کسی مرد سے شادی کر لے تو معاشرے میں ہم جنسیت کا مسئلہ اٹھ جائے گا جو اسلام میں ممنوع اور پاکستان کے قانون دفعہ 377 کے مطابق اس جرم کی سزا کم از کم ۲ سال اور زیادہ سے زیادہ ۱۰ سال ہے۔

کھیلوں Sports میں جب کوئی فرد مردوں کے خانے میں یا خواتین کے دائرے میں داخل ہو گا تو قوانین میں سخت تصادم واقع ہونا ہے پھر نئے قوانین کے لیے مغز پر دباؤ بڑھے گا لیکن مسائل بڑھنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

 کوئی عورت مرد ہو گئی ہو اور وہ مردوں کے ساتھ بحیثیت مرد مقابلے میں اترے تو مردوں کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی کیوں کہ ان کے Muscels, hormones, homoglobin وغیرہ میں پیدائشی فرق ہوتا ہے اور مرد خواتین کے مقابلے میں زیادہ وقت والے ہوتے ہیں ۔ لیکن عورتوں کے مقابلے میں کسی مردنے عورت کا روپ اختیار کر کے آنا ہے تو خواتین کو سخت پریشانی ہوگی ۔ اس کا حل اس کے علاوہ کوئی نہیں نکلے گا کہ خواتین کا مقابلہ کسی  Transgender woman(ٹرانس جینڈر عورت) سے ہو ہی نہیں اور ٹرانس جینڈروں کو خواتین کے کھیلوں سے بالکل باہر رکھا جائے لیکن ایسے ہو ا تو ٹرانس جینڈر اپنے حقوق کا رونا رو رو کر آنسوؤں کا سیلاب لے آئیں گے۔یہ کوئی نئی باتیں نہیں بلکہ یہ مسائل International olympics وغیرہ میں اٹھ چکے ہیں اور وہ لوگ قانون سازی پر قانون سازی کر نے میں مصروف ہیں لیکن کوئی ایسا حل ان کے ہاتھ نہیں آتا جس سے مسائل ختم ہو ں۔

اسکول، کالج، یونیورسٹی، کوچنگ سینٹر وغیرہ میں سیٹوں ، شناختوں حتی کہ Toilets میں مسئلے ہوں گے۔

جائیداد کی تقسیم میں مسائل اٹھیں گے، عورت مرد ہو جائے تو اس کا شرعی حصہ بڑھ جائے گا ، ہمارے معاشرے میں تو ایسے فرد کوPhysical Torture (جسمانی تشدد)سے ہی صحیح یا موقف سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا جائے گا ، جب یہ ہوگا تو تھانوں اور عدالتوں میں نئے مقدمات (Cases) میں ٹرنس جینڈروں کی تعداد کے حساب سے اضافہ ہوگا اور پریشانیاں بڑھیں گی۔

تعلیمی نشستوں اور سرکاری ملازمتوں میں حق تلفی ہوگی اور کوٹا سسٹم بری طرح متاثر ہوگا، اس کے علاوہ سرکاری محکموں اور اسکول، کالج وغیرہ میں زنا نے کیسے بڑھنا ہے  وہ تو بتانے کی ضرورت ہی نہیں۔ قوم کی تربیت بھی سب کے سامنے ہے اور مغربی ممالک میں جو ہوا اس سے بھی سبق مل سکتا ہے۔

کوئی آدمی چوری یا قتل کرےایسا شخص مجرم ہوتا ہے، اس کو قانون کے مطابق سزا دی جاتی ہے لیکن کوئی شخص جرم کر کے نادرا کے دفتر(Nadra office) جائے اور خود کو مرد سے عورت کر لے ؛ نام بھی بدل کر عورتوں والا رکھ لے ، جب پولیس اس کو مجرم کی حیثیت سے گرفتار کرنے آئے تو یہ کہے مجرم تو کوئی اور ہوگا میری شناخت تو یہ ہے۔۔ اب ایسے شخص سے پولیس کیسے پیش آئے اور عدالت اسے کس حساب سے سزا دے گی اس سب کے لیے قانون ساز سر جوڑ کر بیٹھے ہوں گے لیکن مسائل بڑھنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

کسی آدمی کو مردوں کی جیل میں احساس ہو کہ پیدائش کے وقت اسے جو جنس تفویض ہوئی وہ غلط تھی اور وہ اپنی جنس بدل کر عورت ہو جائے تو ایسے شخص کومردوں کی جیل کے بجائے عورتوں کی جیل میں ڈالا جائے؟ اگر اس طرح ہوا تو وہاں ایسا شخص جو خرابیاں پیدا کرے گا وہ تو بتانے کی ضرورت ہی نہیں۔ مغربی ممالک میں ایسے ہوا ہے بلکہ ایسے افراد نے جیل خانوں میں خواتین کو زنا کے ذریعے حاملہ کر دیا۔

جنس کی تبدیلی کا مسئلہ بطور فیشن بھی اختیار کیا جائے گا جیسے امریکہ، کینیڈا ، برطانیہ وغیرہ میں ہوا اور معاشرے کے مسائل میں بہت تیزی سے اضافہ ہوگا، جیسے ان ممالک میں ہوچکا ہے۔ ایسے ممالک جن میں مردوں اور عورتوں نے Hormones therapy و دیگر طبی طریقوں سے بطور فیشن یا لا علمی یا معاشرے کے برے افراد کے وسوسوں میں آکر جنس میں تبدیلی کی کوشش کی انہوں نے اپنی زندگیاں برباد کر ڈالیں اور اب ان کے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں، ان کی داستان سن کر روح کانپ اٹھتی ہے۔ جن افراد سے یہ غلطی سرزد ہوئی ان میں سے بہت سارے اس قبیح فعل سے سختی سے دوسروں کو روکتے ہیں۔

بچوں کوبہت آسانی سے کسی برائی میں دھکیل دیا جاتا ہے اور وہ ناسمجھ ہونے کی وجہ سے اچھائی و برائی میں فرق نہیں کر تے۔ کئی ممالک میں بچوں نے Sex (جنس) میں تبدیلی کی جس سے ان کے والدین اور خاندان والے سخت پریشانیوں میں مبتلا ہوئے اور اس غلط و خلاف فطرت قانون کی وجہ سے سب کی زندگیاں بری طرح متاثر ہوئیں۔ ایسے قانون کو یہاں لاگو کرنے سے مذہب کی مخالفت ہوگی اور ساتھ ہی دوسروں کی تباہی کی وجہ جان کر بھی سبق حاصل نہ کر کے جہالت کا مظاہرہ بھی ہوگا۔

کچھ لوگ معاشرے میں جنس بدلیں گے تو دوسرے کم علم افراد ذہنی پریشانی میں مبتلا ہوں گے اور اس پریشانی میں مبتلا ہونے والوں کی بڑی تعداد کم عمر نوجوان لڑکوں/ لڑکیوں کی ہوگی جیسا کہ مغربی ممالک میں یہ ہوا اور آج وہ لوگ سخت پریشانی میں مبتلا ہیں۔

ایسے بے شمار مسائل جنم لیں گے اور معاشرہ ناقابل تلافی نقصان اٹھائے گا جیسا کہ دوسرے ممالک میں ہوااور آج سوسائٹی کو بہتر کرنےکے معاملات ان ممالک کے ہاتھوں سے نکل چکے ہیں ، کوئی تدبیر ان کی سوسائٹی کو تباہی و بربادی سے نہیں بچا رہی۔

یہاں مسائل کی فہرست دینا مقصد نہیں بلکہ صرف پیغام دینا ضروری ہے کہ صرف ایک غلطی سے اپنے کمزور معاشرے کو کس طرح مزید خراب کر دیا جائے گا۔

نوٹ: جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ Transgenders کے نام پر ہیجڑوں کو حقوق دیے جائیں گے وہ سخت غلط فہمی میں مبتلا ہیں، Trasngenderism کی چھتری تلے)Gayہم جنس پرست مرد(، Lesbian(ہم جنس پرست عورت)، Asexual(بے جنس)وغیرہ بھی آتے ہیں۔ ٹرانس جینڈروں کے حقوق میں یہ امرا بھی پوشیدہ ہے جو آنے والے وقت میں اسی طرح ظاہر ہوگا( جیسے مغربی ممالک میں ہوا) کہ ہم جنس پرست عورت ہو یا ہم جنس پرست مرد؛ انہیں معاشرے میں ان کی پسند کے مطابق جسمانی لذت حاصل کرنے کا اختیار حاصل ہو ۔

زیر بحث مسئلہ اور اسلام

جنس کی تبدیلی دراصل شیطانی ہتھکنڈا ہے، قرآن مجید میں ہے:

﴿وَّ لَاُضِلَّنَّهُمْ۠ وَ لَاُمَنِّيَنَّهُمْ وَ لَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ۠ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَ لَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ۠ خَلْقَ اللّٰهِ وَ مَنْ يَّتَّخِذِ الشَّيْطٰنَ وَلِيًّا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِيْنًا﴾ (سورۃ النساء ١١٩)  

’’ (شیطان نے کہا)اور ضرور ان کو گمراہ کروں گا اور امیدیں دلاؤں گا اورسیکھاؤں گا جانوروں کے کان کاٹنا اور حکم کروں گا کہ اللہ تعالی کی بناوٹ کو بدل دیں۔ جو کوئی اللہ کے علاوہ شیطان کو دوست بنائے گا وہ بلا شبہ واضح نقصان میں ہوگا   ۔‘‘

اللہ کی تخلیق کو بدلنا قرآنی تعلیمات کے مطابق شیطانی فعل ہے۔خصی یا مخنث وغیرہ ہونا بھی ہے اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کرنا ہے ۔

رد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی عثمان بن مظعون التبتل و لو اذن له لاختصینا[1].

  ’’ رسول اللہ ﷺ نےعثمان بن مظعون کو  عورتوں سے الگ رہنے سے منع کیا اور( سعد بن ابی وقاص ﷜ کہتے ہیں  اگر ان کو )اجازت مل جاتی تو یقینا ہم خصی ہو جاتے  ۔‘‘

دراصل صحابہ کرام ﷢  نے سوچا تھا کہ خانہ داری ایک بڑی ذمے داری ہے جس کی ادائیگی سے اللہ کی عبادت میں کمی آتی ہے اس لیے اگر عورتوں سے الگ رہنے کی اجازت مل جائے تو ہمیں نہ خواتین سے کسی قسم کی رغبت رہے گی نہ خانہ آبادی تک معاملہ پہنچے گا اور ہم اس بڑی ذمے داری سے بےپرواہ ہو کر اپنے رب کی عبادت و رضا میں مشغول ہو جائیں گےلیکن یہ معاملہ خلاف فطرت و مقصد تھا تو نبی ﷺ نے انہیں ایسا کرنے سے منع کر دیا۔

صحابہ کرام ﷢ کی نیت صاف اور مقصد زیادہ سے زیادہ عبادت میں مشغول رہنا تھا لیکن شریعت نےپھر بھی اس فعل سے منع کر دیا، اجازت تو صرف عورتوں سے الگ رہنے کی مانگی تھی جس سے منع کر دیا گیا تو غلط نیت یا شیطان کے بھکاوے میں آکر جنس میں تبدیلی کا عمل کس قدر غلط ہوگا۔

سوشل کنسٹرکٹ اور اسلام

﴿اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا﴾  (الدهر: 6)

یقینا ہم نے انسان کوپیدا کیا (عورت و مرد کے) ملے ہوئے نطفےسےآزمائش کے لیےبنایا اس (انسان) کو دیکھنے اور سننے والا بنایا۔ 

﴿ وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىِٕكَةِ فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِيْ۠ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ﴾                                    (البقرة: ٣١)

اور آگاہ کیا آدم کو تمام اشیا کے ناموں سے پھر ان اشیا کو فرشتوں کے سامنے رکھا اور کہا بتاؤ مجھے ان چیزوں کے نام اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔

﴿ وَ قُلْنَا يٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَ كُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِيْنَ ﴾ (البقرة: ٣٥)

اور ہم نے کہا اے آدم تم اور تمھاری بیوی جنت میں رہو اور اس (جنت) میں جہاں سے چاہو خوب کھاؤ اور اس درخت کے نزدیک بھی نہ پھٹکنا  ورنہ ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔  

﴿ فَدَلّٰىهُمَا بِغُرُوْرٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَ طَفِقَا يَخْصِفٰنِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ وَ نَادٰىهُمَا رَبُّهُمَاۤ اَلَمْ اَنْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَ اَقُلْ لَّكُمَاۤ اِنَّ الشَّيْطٰنَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ ﴾ (الأعراف ٢٢)

گرا دیا (شیطان نے) دونوں (آدم و حوا) کو دھوکے سے پھر جیسے ہی (انہوں نے)درخت سے چکھا تو دونوں کے ستر ظاہر ہو گئے اور انہوں نے اپنے ستر جنت کے پتوں سے ڈھانکنے شروع کیے ایسے میں ان سے مخاطب ہوا ان کا رب اور فرمایا کیا میں نے تمھیں اس درخت سے نہیں روکاتھااورنہیں بتایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔

﴿ قُلْنَا اهْبِطُوْا مِنْهَا جَمِيْعًا فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّنِّيْ هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ﴾ (البقرة: ٣٨)

ہم نے کہا تم سب اتر جاؤ (جنت سےدنیا میں ) پھر جب آئے گی تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت تو جو اس ہدایت کی تابع داری کریں گے وہ نہ تو خوف میں مبتلا ہوں گے اور نہ غمگین ہو ں گے۔

ان آیات سے معلوم ہوا کہ آدم ﷤   کو چیزوں کے نام بتائے، کسی چیز کا نام جاننا پہلا مرحلہ ہے ؛ معرفت اس کے بعد کی چیز ہے نیز اسم کے ساتھ مسمی کا علم بھی ضروری ہے، آدم ﷤ اس سے بھی واقف تھے۔اللہ تعالی نے انسان کو دیکھنے اور سننے والا بنایا، انسان کو اچھائی و برائی کا علم بھی عطا کیا اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ علم کا تعلق دیکھنے اور سننے کے ساتھ ہے۔ آدم ﷤  کو اشیا کا علم تھا اسی لیے ان کو درخت کے پاس جانے سے منع کیاگیا تھا۔  حیا اور جسم کو چھپانا  انسانوں میں فطری ہے اسی لیے ستر کھلتے ہی آدم و حوا علیھما السلام انہیں ڈھانکنے لگے۔جنت سے جب دنیا میں بھیجا تو بتا دیا کہ آسمانی ہدایت آئے گی اسی کی پیروی میں انسانوں کی دنیا اور آخرت میں فلاح ہے۔

خلاصہ یہ کہ اسلامی میزان میں اس سماجی ساخت کی کوئی حیثیت جو بعض گمراہ لوگ چند ماہرین عمرانیات سے آنکھیں بند کر کے وصول کررہے ہیں اور معاشرے میں اس گمراہی کو ایسی اہم چیز بنا کر پیش کرتے ہیں کہ کہ اس کے  بغیر انسانوں کا گزارا نا ممکن ہے۔

مسلمانوں کا تو صاف ماننا ہے کہ جس دن سے انسان دنیا میں بسنا شروع ہوئے ہیں اسی وقت سے آسمان سے ہدایت پہنچنے کا سلسلہ قائم ہو چکا تھا اور ہر نبی کو اللہ کی طرف سے ہدایات بذریعہ وحی ملتی رہیں حتی کہ یہ سلسلہ خاتم النبیین جناب محمد ﷺ تک ایسے ہی چلا ۔ اللہ تعالی نے جناب محمد ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا:

﴿ اِنَّاۤ اَوْحَيْنَاۤ اِلَيْكَ كَمَاۤ اَوْحَيْنَاۤ اِلٰى نُوْحٍ وَّ النَّبِيّٖنَ مِنْۢ بَعْدِهٖ ﴾ [ النساء: ۱۶۳]

’’اور بلا شبہ ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی کی جیسے نوح (﷤) اور ان کے بعد آنے والے تمام بنیوں کی طرف وحی کی‘‘ ۔

اب انسانوں کے لیے ہر قسم کی رہنمائی قیامت تک کے لیے کتاب و سنت میں محفوظ و موجود ہے۔ اسلامی تعلیمات میں سے ہے کہ سوسائٹی کی بنیادیں حضرت محمد ﷺکی سیرت سے لیں اور سوسائٹی اللہ کے پیغمبر کے طریقے کے مطابق بنائیں اور چلائیں ۔ دوسرے الفاظ میں اسلام کا اپنا معاشرتی نظام ہے جس میں سوسائٹی بنانے اور چلانے کے اصول موجود ہیں۔

سوسائٹی سے قبل مذکر و  مونث کامتعین ہونا

اللہ تعالی نے آدم ﷤  کو تخلیق  کیا پھر ان کے سکون کے لیے ان ہی کی پسلی سے حوا علیہا السلام کو پیدا کیا۔ آدم ﷤  کو مرد  بنایا اور حوا علیہا السلام کو عورت۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب سوسائٹی کا عملی وجود تو دور اس کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ دنیا آباد ہونے سے پہلے ہی مذکر و مونث کی تقسیم موجود تھی اور یہ من جانب اللہ تعالی تھی۔آج کل Transgenderismنے Socail construction of reality کے سہارے باطل فلسفے کو پروان چڑھانے کے لیے جو کوشش جاری رکھی ہوئی ہے وہ سرا سر اسلام سے متصادم ہے۔

  جنس کا مسئلہ مقدر کی بات ہے

کسی کا مرد ہونا اور کسی کا عورت ہونا دراصل قسمت ہے۔ یہ مسئلہ بھی ان مسائل میں سے ہے جن میں انسانوں کے پاس کوئی اختیار نہیں ۔ مثلا ًکوئی سوچے میں اب کیوں پیدا ہوا؛ پہلے کیوں نہیں پیدا ہوا یا بعد میں کیوں دنیا میں نہیں آیا؟، میرے والدین یہی کیوں ہیں؛ فلاں فلاں کیوں نہیں؟میں اس علاقے ہی میں کیوں پیدا ہوا  فلاں علاقے میں کیوں نہیں پیدا ہوا؟ میری عمر اگر تریسٹھ سال تقدیر میں لکھی ہے تو وہ اس سے زیادہ کیوں نہیں؟ میرے والدین کے بھائی بہن فلاں فلاں کیوں ہیں فلاں فلاں کیوں نہیں؟ میرے دادا اور پر دادا وغیرہ یہی کیوں ہیں وہ کیوں نہیں؟۔۔۔ ان باتوں کے علاوہ بہت سی باتیں انسانوں کے اختیار سے باہر ہیں۔ یہ سمجھنا کہ جنس کا مسئلہ معاشرے اور انسانوں کی عقل و قبولیت و اثر کا نتیجہ ہے اسی لیے کسی کو  مذکر اور کسی کو مونث ٹھہرایا جاتا ہے تو یہ فلسفہ مذہب سے صریح لا علمی پر مبنی ہونے  کے ساتھ ساتھ عقل سلیم کے بھی خلاف ہے۔ آج کل لادین افراد جو خدا، آخرت و مذہب میں یقین نہیں رکھتے انہیں یہ فلسفہ بہت اچھا لگتاہے۔

جسم مذکر اور روح مؤنث

 ہیجڑوں کا ماننا ہے کہ ان کا جسم مذکر(مرد) کا ہوتا ہے لیکن ان میں روح مؤنث (عورت) کی ہوتی ہے اس لیےانہوں نے اپنے جسم کو اپنی روح کے مطابق کر لیا۔ ان کی اس بات سے پہلی چیز تو یہ واضح ہوئی کہ ارواح میں بھی مذکر و مؤنث کی تقسیم ہے۔ مزید یہ کہ ہم کوئی برا کام کرتے ہیں تو اس میں روح کو دست اندازی کا کوئی اختیار نہیں ہوتا ، ہمارے ہاتھ پیر و دیگر اعضا ہی حرکت میں ہوتے ہیں۔ مثلا کوئی کسی کو بلا وجہ تھپڑ مارےیا کسی کو نقصان پہنچائے یا کوئی بھی جرم صادر ہو ، جب مواخذہ ہو تو کہا جائے جسم نے کچھ نہیں کیا جوکیا روح نے کیا ہے پھر اس پر خواہش یہ ہو کہ جسم کو بے قصور سمجھتے ہوئے سزا نہ دی جائے؛ ظاہر ہے ایسے کسی فلسفے کو کوئی سمجھدار شخص تسلیم نہیں کرتا نہ کرے گا۔ روح تو یہاں دراصل جسم کے تابع ہے ، دنیوی قوانین میں جزا و سزا کے لیے روح کی کوئی جگہ نہیں ان کا تعلق جسم سے ہے۔ کسی نے کسی کے جسم کو نقصان پہنچایا تو انتقاما جسم ہی کو یکساں نقصان پہنچایا جاتا ہے یا بدلے میں قانون کے مطابق کوئی اور جرمانہ عائد ہوتا ہے؛ یہ نہیں ہوتا کہ کوئی کسی جسم کو نقصان پہنچائے تو اس کے عوض نقصان پہنچانے والے کی روح کو پکڑا جائے یا روح سےجرمانہ وصول کرنے کا مطالبہ رکھا جائے۔اگر کوئی کسی کی ہڈی توڑ دے اور قانون کی زد میں آنے سے قبل مر جائے تو بدلے میں کسی دوسرے شخص کی ہڈی نہیں توڑی جاتی نہ اس فعل پر جرمانہ کسی دوسرے سے وصول کیا جاتا ہےاور نہ ہی مرنے والی کی روح کو تلاش کرنے میں وقت برباد کیاجاتا ہے۔

ہیجڑوں کے اس فلسفے سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ ان کے مطابق روح باشعور ہے اسی لیے انہوں نے اپنے جسم کو روح کے مطابق کر لیا۔ ان کو کرنا تو یہ چاہیے تھا کہ اپنی روح کو جسم کے مطابق ڈھالتے۔ اگر یہ ویسے کر سکتے ہیں تو یہ ایسے بھی کر سکتے ہیں اور ایسے کرنا ہر طرح سے زیادہ آسان بھی ہے۔

  کیسے احساس ہوا کہ آپ کے اندر عورت کی روح ہے؟ تو جواباً کہتے ہیں بچپن میں گڑیا سے کھیلنا، کپڑے سینے کا شوق ،مزید وہ معاملات جن کا تعلق خواتین سے ہوتا ہے ہم میں پائے جاتے تھے۔غور کریں ان کے اس جواب میں کوئی تسکین نہیں، ان چیزوں کا تعلق روح سے بالکل نہیں، مختلف وجوہ سے یوں ہوتا ہے۔مثلا معمول کے مطابق بچوں کا چھوٹی عمر میں زیادہ وقت ماں کے ساتھ گزرتا ہے اور اگر بچہ ایک ہی ہو تو وہ ماں سے زیادہ اثر لیتا ہے، چھوٹے بچوں میں دیکھ کر سیکھنے کی عادت ہوتی ہے اسی لیے وہ دوسروں کو جس طریقے سے کچھ کرتے دیکھتے ہیں وہی کرنے لگتے ہیں، ماں کے ساتھ زیادہ وقت گزرتا ہے تو ماں کی حرکات و عادات اپناتے ہیں۔

 کسی گھر میں مرد زیادہ ہوں اور عورت ایک ہی ہو تو اس گھر میں چھوٹی بچی اپنے لیے مذکر کے صیغے استعمال کرتی ہے۔ بڑے بچوں کا اثر چھوٹے بچے فورا قبول کرتے ہیں، لڑکا بڑا ہو اور لڑکی چھوٹی ہوتو لڑکی مذکر کے صیغوں کے علاوہ لڑکے کے کپڑوں میں بھی دلچسپی رکھتی ہےاور عادتیں بھی وہی اختیار کرتی ہے جو لڑکے سے ظاہر ہوتی ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جیسے جیسے شعور بڑھتا ہے یہ چیزیں بچی سے نکل جاتی ہیں۔

 گھر میں مرد کم ہوں اور لڑکے کو مرد سے وقت کم یا ملتا ہی نہ ہو اور لڑکے کے وقت کا اکثر حصہ خواتین کے درمیان گزرتا ہو تو وہ خواتین کی طرح بولنا اور اشارے کرنا شروع کر دیتا ہے،بعد میں  لڑکوں کے درمیان رہنے سے  یہ چیزیں اس سے بہت جلد ختم ہو جاتی ہیں، کبھی ایسے ہوتا ہے کہ گھر والے توجہ نہیں دیتے اور لڑکے کو دوسرے لڑکوں میں وقت گزرانےکے مواقع بھی میسر نہیں آتے اور بچے کی عادتیں ذرا پکی ہو چکی ہوتی ہیں پھر ایسی چیزیں ذرا دیر سے  چھوٹتی ہیں ، مختلف طریقوں سے ان چیزوں کو بچے میں سے نکال دیا جاتا ہے۔ اس سب کے باوجود لڑکے کو لڑکی نہیں کہا جاتا۔

القصہ یہ مسئلہ دراصل کم عقلی اور کبھی ماحول کے اثر سے ہوتا ہے جو عقل میں اضافے اور ماحول صحیح ہونے یا بدلنے سے حل ہوجاتا ہے۔ اس کا عورت کی روح اور مرد کا جسم ہونے والے فلسفے سے کوئی تعلق نہیں ۔

ایسے  بھی ہوتا ہے کہ گھر میں لڑکیوں پر کم اور لڑکوں پر  زیادہ توجہ ہوتی ہے جس کے نتیجے میں لڑکیوں میں احساس کمتری کو جگہ ملتی ہے پھر حسد یا کسی اور خیال سےلڑکی لڑکا بننے کی کوشش کرتی ہے۔ اس صورت میں والدین قصور وار اور سخت غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں، ایسی صورت  میں والدین کو حد درجہ محتاط ہونا  چاہیے ۔ مغربی ممالک میں جن لڑکیوں نے Sex reassingment surgery (جنس باز تفویض جراحت)   کی طرف قدم اٹھا کر اپنی زندگیاں تباہ کیں ان سے جب اس عمل کی وجہ پوچھی گئی تو مختلف وجوہ کے علاوہ (بعض لڑکیوں کے مطابق) والدین کا لڑکوں کی طرف زیادہ متوجہ رہنا اور لڑکیوں پر کم توجہ بھی اہم وجہ تھی ۔

اس بحث سے ایک بات بالکل واضح ہے کہ ہیجڑوں کو حیاتیاتی طور سے (Biologically) اپنا مرد ہونا معلوم ہے۔

خنثی و مخنث

خنثی ” خنث“سے ہے جس کا مطلب نرمی ہے۔اصطلاح میں :

اذا کان للمولود فرج و ذکر فھو خنثی[2].

”کسی بچے میں فرج و ذکر (دونوں ہوں) تو وہ خنثی ہے۔ “

 دوسرے الفاظ میں مزید تفصیل سے:

من له ذکر کالرجل  و فرج کالنساء او لا یکون له ذکر ولا فرج و یکون له ثقب یبول منه[3]۔

”جس کا ذَکر ہو( جس سے پیشاب نکلتا ہے )جیسے مرد کا ہوتا ہے اور ساتھ شرم گاہ بھی ہو جس طرح عورت کی ہوتی ہے یا یہ (ذکر و فرج) دونوں نہ ہوں  صرف ایک سوراخ ہو جس سے پیشاب نکلے۔‘‘

مخنث اسی (خنث)سے اسم مفعول ہے۔ اصطلاح میں مخنث سے مراد وہ مرد ہے جو گفتگویا چال یادیگر حرکتوں میں عورتوں کی مشابہت کرے۔

 مخنث دو طرح کا ہوتا ہے (۱) پیدائشی (۲) بناوٹی۔

 پیدائشی مخنث گناہ گار نہیں لیکن جو بالتکلف ایسا ہو اوہ شرعا ًمجرم ہے۔

خنثی تیسری جنس ہے؟

 خنثی کی تعریف (بااعتبار لغت ، فقہا و ائمہ) پر نظر ڈالنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ خنثی نہ مرد (مذکر) ہے نہ عورت( مؤنث)۔ علم طب اور تاریخ سے اس جنس کا وجود ثابت ہے۔ان چیزوں پر غور کرنے سے جب یقین ہو حاصل ہو جائے تو خنثی کو تیسری جنس ماننے میں کوئی پریشانی نہیں ؛البتہ اسلامی احکام کے اعتبار سے خنثی کی تفتیش کے بعد اس پر مذکر یا مؤنث ہی کے احکام لاگو ہوتے ہیں کیوں کہ ہر انسان کا طبیعی رحجان مذکر یا مؤنث میں سے کسی ایک جنس کی جانب ہی ہوتا ہے۔خنثی سے متعلق چند اسلامی احکام استثنائی صورت اختیار کرتے ہیں باقی تمام احکام مرد و عورت کے دائرے ہی میں رہتے ہیں۔

ایک جماعت کا کہنا ہے کہ خنثی تیسری جنس نہیں، جنس کی صرف دو ہی صورتیں ہیں: مذکر اور مؤنث۔ اس موقف کی تائید میں قرآن مجید سے یہ آیت بھی پیش ہوتی ہے:

﴿اَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَ بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّ نِسَآءً﴾ (النساء: ۱)

”اے لوگو! تقوی اختیار کرتے رہو اپنے اس رب کا جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا (پہلے) اس نے اسی ایک جان(آدم) میں سے اس کا جوڑا(حوا  کو ) پیدا کیا پھر ان دونوں سے پھیلائے بہت سے مرد اور عورتیں ) ۔‘‘

 ان کا کہنا ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالی نے صرف مذکر و مؤنث ہی کا ذکر کیا ہے اگر کوئی تیسری جنس ہوتی تو اللہ اس کا ذکر بھی کرتا۔

 مختصراً عرض ہے کہ بوقت پیدائش کسی کا مذکر یا مؤنث ہونا عام ضابطے کے مطابق شرم گاہ کو دیکھ کر ہی طے ہوتا ہے۔ نومولود میں مرد و عورت دونوں کے تناسلی آلات ہوں تو اس کو ایک نظر میں نہ لڑکا کہا جاتا ہےنہ لڑکی۔ فقہا ایسے معاملے میں دیکھتے تھے کہ اس فرد کا پیشاب کس مقام سے نکلتا ہے (ذکر سے یا فرج سے) ، جس مقام سے پیشاب کا اخراج ہوتا ہے اسی حساب سے مذکر یا مؤنث تصور کرتے ، اگر دونوں جگہ سے پیشاب نکلتا تو دیکھتے کہ پہلے کہاں سے خارج ہوا، اگر دونوں جگہ سے ایک ساتھ پیشاب نکلتا تو مزید انتظار کرتےاور آئندہ ظاہر ہونے والی علامات کو دیکھ کر مسئلہ حل کرتے مثلا داڑھی آ جائے، مردوں جیسی بہادری ہو وغیرہ تو ایسے فرد کو مذکر کے درجے میں رکھتے ، اگر پستان ابھر آتے یا حیض آتا وغیرہ تو مؤنث کے درجے میں رکھتے) ۔ دونوں جنس (مذکر و مؤنث) کی علامتیں پائی جاتیں تو معاملہ اٹکا رہتا ،اس صورت میں ایسے فرد کو فقہا’ خنثی مشکل ‘کہتے ہیں۔

یہ سب فرد پر حکما مذکر یا مؤنث کے اسلامی احکام لاگو کرنے کے لیے ہوتا ہے نہ اس لیے کہ ایسے فرد کو حقیقی مذکر یا مؤنث ہی مانا جائے (ورنہ احکام میں کسی استثنا کی ضرورت ہی نہیں رہتی )۔ ظاہر ہے کسی فرد میں مذکر و مؤنث دونوں کے تناسلی آلات ہوں تو ایسے فرد کو کیسے مذکر یا صرف مؤنث قرار دیا جا سکتا ہے؟۔

رہا اس آیت سے استدلال تو پہلی بات یہ ہے کہ اس آیت میں تیسری جنس کی نفی نہیں۔

 ﴿اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا﴾ (الانسان ٢)

’’یقینا ہم نے انسان کوپیدا کیا (عورت و مرد کے) ملے ہوئے نطفےسےآزمائش کے لیےاور اس(انسان) کو دیکھنے اور سننے والا بنایا۔‘‘

اس آیت کے مطابق انسان کو دیکھنے اور سننے والا بنایا، سوال ہے کیا انسانوں میں اندھے اور بہرے نہیں ہوتے؟ کوئی یہ نہیں کہتا انسانوں میں اندھے اور بہرے نہیں ہوتے اگر ہوتے تو اللہ تعالی ان کا ذکر بھی اس آیت میں کر دیتا۔دراصل انسانوں میں اکثردیکھنے اور سننے والے ہیں اس لیے شمار میں جو زیادہ ہیں آیت میں ان ہی کی بات ہوئی۔ یہی معاملہ اس آیت کا بھی ہے یعنی اکثر انسان مذکر یا مؤنث ہی ہوتے ہیں اس لیے آیت میں جنس مذکر و جنس مؤنث کی بات ہوئی اور تیسری جنس کی کوئی نفی نہیں۔

 جب عام بات ہوتی ہے تو معمول سے ہٹی ہوئی بات کو بیان نہیں کیا جاتا۔مزید یہ کہ اس آیت میں غور کریں تو یہاں بات نفس واحد (آدم ﷤) سے پیدا ہونے پھر اسی سے اس کے زوج (حوا) کا نکلنا پھر ان دونوں (آدم و حوا  علیھما السلام ) سے نسل کے جاری ہونے کا بیان ہے۔ یعنی اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ نسل کا بڑھنا عموما مذکر و مؤنث سے ہے صرف مذکر مذکر یا مؤنث مؤنث یا مذکر خنثی یا مؤنث خنثی سے نسل نہیں بڑھ سکتی۔ آیت میں ’’ بث منھما ‘‘ سے اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ یہ تو معلوم ہی ہے کہ خنثی لاکھوں کروڑوں میں ایک ہوتا ہے۔

 احکام مذکر یا مؤنث: مخنث کا معاملہ مردوں والا ہوگا اور خنثی میں علامات و رحجان وغیرہ کو دیکھا جائے گا پھر ایک جنس کے احکام لاگو ہوں گے۔

وراثت: خنثی کی وراثت میں اس کے غالب رحجان کو دیکھ کر مسئلہ طے ہوگا، اگر ورثا میں اختلاف ہو جائے تو خنثی کی ماضی میں گزاری ہوئی زندگی پر نظر ڈالیں گے، اس کی بول چال، اوڑھنا پہننا وغیرہ بھی پیش نظر رکھیں گے۔خوب تفتیش کے بعد مسئلہ طے ہوگا۔

 رہا مخنث کی وراثت کا مسئلہ تو یہ ہوتا ہی مرد ہے لہذااس کا مردوں کے برابر حصہ ہوگا۔

نمازمیں امامت: خنثی کے پیچھے مردوں کی نماز درست نہیں اور خنثی عورتوں کا امام بنے تو بعض کے نزدیک بلا کراہیت اور بعض کے نزدیک مکروہ لیکن نماز درست ہے۔ مخنث کے پیچھے جمہور کے مطابق نماز جائز نہیں ۔ وہ علما جو ان کے پیچھے مردوں کی نماز کو درست سمجھتے ہیں ان کے مطابق بھی صرف ضرورت کے تحت ہی جائز ہے۔ مخنث کے لیے جائز نہیں کہ وہ عورتوں کی امامت اس حال میں کرے کہ درمیان میں بحیثیت امام کھڑا ہو اور خواتین صف بندی میں اس کے دائیں و بائیں ہوں۔

پردہ:خواتین پر لازم ہے جیسے وہ مردوں سے پردہ کرتی ہیں اسی اہتمام سے  خنثی و مخنث دونوں سے پردہ  کریں۔ خنثی کا مذکر و مؤنث ہونا واضح نہیں، مذکر و مؤنث دونوں میں ایک ہونےمیں احتمال ہوتا ہے لہذا احتیاطاً پردہ ضروری ہے اور مخنث تو ہوتا ہی مرد ہے تو اس سے پردہ کرنا اسی طرح فرض ہےجیسے غیر محرم مرد سے۔

نکاح: خنثی کا نکاح ایک صورت میں درست ہے اور دوسری میں نہیں۔خنثی کی دوصورتیں ہوتی ہے:

(۱) مرد و عورت دونوں کے آلات ہوں(۲) مرد و عورت دونوں کے آلات نہ ہوں بس ایک سوراخ ہو جہاں سے پیشاب جاری ہو۔

پہلی صورت : وہ خنثی جس میں مرد و عورت دونوں کے آلات ہوں اگر طبی علاج سے وہ ایک جنس میں منقلب ہو سکے اور دوسری جنس کے اثرات اس میں سے ختم ہو جائیں ۔ مثلا اگر اس میں Uterus(رحم) ، Ovary ( تخم دان)، Fallopian tubes (بنیض نالیاں؍ رحم کی نالیاں) موجود ہوں تو ذکر (مرد کا آلہ تناسل)وغیرہ کو جراحت سے ختم کر کے Hormones میں مطابقت و ترمیم وغیرہ کے بعد اس کی شادی مرد سے بالکل درست ہے۔ اس کے برعکس اگر علاج کے ذریعے مردانہ جنس اختیار ہو سکے (جس کے امکانات پہلی صورت کے مقابلے میں بہت کم ہوتے ہیں)تو اس کی شادی عورت سے درست ہے۔رہا یہ مسئلہ کہ ایسی عورت یا ایسا مرد بانجھ ہو تو ایسے میں شریعت رغبت دلاتی ہے کہ بانجھ کی جگہ ایسے فرد سے شادی ہو جو بانجھ نہ ہو لیکن بانجھ سے شادی حرام نہیں۔ بانجھ سے نکاح نہ کرنے کے حوالے سے جو حدیثیں ہیں وہ صحیح قول کے مطابق کراہت سے متعلق ہیں ۔

دوسری صورت : وہ خنثی جو پہلی صورت سے خارج ہو اس کی شادی عورت یا مرد سے درست نہیں، کیوں کہ جنسی طور پر یہ نہ مرد ہے نہ عورت [خنثی کی تعریف پر ایک نظر ڈال لیں] ۔ اسے شہوت آتی ہو تو یہ صبر کرے  اوراس کے حصول کے لیے روزے بھی رکھے۔ دراصل یہ مقدر کا مسئلہ ہے جیسے کسی شخص کا پیدائشی اندھایا لنگڑایا بہرا وغیرہ ہونا۔ ایسے تمام افراد جو پیدائشی طور پر کسی نعمت سے محروم ہوں انہیں اللہ کے فیصلوں سے راضی رہنا چاہیے ، ایسی مثبت سوچ کے ساتھ زندگی گزاریں جس سے انہیں اللہ کا قرب ملے،یہ سوچیں کہ جس صلاحیت سے وہ قدرتی طور پر محروم ہیں وہ ان کے حق میں بہتر ہے کیوں کہ ان صلاحیتوں کا وہ غلط استعمال کر سکتے تھے۔ظاہر ہے یہ کام مشکل ہے اور انسان کی فطری بے صبری بھی ہے ۔ دنیا دار العمل اور آزمائش کی جگہ ہے، ہر شخص کی آزمائش اس کی ایمانی و جسمانی طاقت کے مطابق ہی ہوتی ہے ۔ مقدر ہی وہ چیز ہے جس پر ایمان لا کر انسان کسی بھی نقصان یا تکلیف پر فوراً  صبر کر سکتا ہے نیز صابر یہ سوچ رکھتا ہے کہ یہی میرے لیے بہتر تھا۔ اس سوچ کے ساتھ وہ اپنے رب سے راضی بھی رہتا ہے اور اپنے رب کو راضی رکھنے کی کوشش اس امید سے کرتا ہے کہ اس کا رب اسے ہمیشہ کی زندگی میں صبر کی وجہ سے بہترین بدلہ دے گا۔

رہا مخنث کی شادی کا مسئلہ تو اس کا مذکر ہونا واضح ہے البتہ یہ دو میں سے کسی ایک حال میں ہوتا ہے:

(۱) مردانہ صلاحیت موجود  (۲) خصی ۔

مقدم الذکر صورت میں توبہ کے بعد ایسے شخص کا نکاح عورت سے درست ہے ۔ مخنث کے ساتھ یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ ایک مدت عورتوں سے مشابہت میں گزار چکا  ہوتا ہے  ، اس لیے ان کی چال و گفتار میں عورتوں کا اثر رہتا ہے، اس اثر سے فورا باہر نہیں نکلا جا سکتا لہذا مخنث ان عادات کو بدلنے کی نیت کرے اور اللہ سے دعا بھی کرے ۔ معاشرے کے افراد بھی اس کی مدد پیار و محبت اور  خلوص سے کریں۔ معاشرے کے افراد خاص کر اس کے گھر والوں کو اچھے بااخلاق روحانی و جسمانی طبیب کی طرح مخنث کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔ دوران گفتگو مخنث اپنے لیے مؤنث کا صیغہ استعمال کرے یا عورتوںکی مخصوص اشیا استعمال کرنے کی طرف قدم بڑھائے یا خواتین میں داخل ہونے کی کوشش کرے وغیرہ وغیرہ تو اسے اچھے طریقے سے یاد کرائیں کہ وہ مرد ہے ۔

مؤخر الذکر (خصی) صورت میں اس کی شادی درست نہیں کیوں کہ انسانی زندگی میں کھاناپینا ، تن ڈھانکنا، تحفظ اور نسل بڑھانا ضروری ہے۔ کھانے پینے کا بندوبست تو ایسا شخص کر سکتا ہے لیکن آگے نسل کا جاری ہونا ایسے شخص کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ اگر ایسے شخص کی کسی لڑکی سےشادی ہو جائے تو وہ لڑکی اپنی جسمانی ضرورت کو اس سے پورا نہیں کر سکتی  ، ایسے میں جو خرابیاں ہوں گی ان کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں نیز کوئی دین دار لڑکی جو نکاح کے اسلامی فلسفے سے واقف ہو ایسے شخص سے شادی کے لیے کبھی خوشی سے تیار نہیں ہوسکتی۔مردانہ صلاحیت سے محروم شخص جو انسانی ضروریات کو سمجھتا ہو، خوشی اور غم کو محسوس کر تا ہو وہ خود بھی کسی لڑکی کی زندگی خراب کرنےکے لیے کبھی تیار نہیں ہوگا۔ہاں ایسے شخص کی شادی اس عورت سے ہوسکتی ہے جو عمر کی وجہ سے جنسی خواہش نہ رکھتی ہو، اس صورت میں یہ دونوں بذریعہ نکاح ایک دوسرے کا سہارا بن کر نظام خانہ داری بڑھا سکتے ہیں ۔ ایسا شخص اس عورت کے حق میں عنین (جو آلہ تناسل ہونے  کے باوجود صحبت کرنے کے قابل نہ ہو)[ ایسے شخص کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے میں عورت کو اختیار ہوتا ہے]کے حکم میں ہوگا ۔ یہ جواز ان باتوں سے مشروط جن کا ذکر اوپر ہوا۔

نوٹ: ایسا شخص (مؤخر الذکر صورت) بعد توبہ اپنی اصل پر لوٹ کر مخنث نہیں کہلائے گا( بلکہ یہ خصی کے حکم میں ہوگا)۔ مزید یہ کہ ایسا شخص تخنث سے باہر نکل کر اگر کسی کو دھوکے میں رکھ کرنکاح کر لے تو اس لڑکی کو خلع لینے کا مکمل حق ہے ۔ جیسے مجبوب(جس کا ذکر کٹا ہوا ہو)سے کسی عورت کی مرضی کے خلاف شادی نا جائز ہے ایسے ہی کسی خصی شخص سے بھی زبردستی یا دھوکے سے شادی جائز نہیں۔

حج و عمرہ:وہ مخنث جو لباس میں بھی عورتوں کی مشابہت اختیار کرتا ہو اس مخنث پر لازم ہے کہ وہ اپنی اصل پر لوٹ آئے اور عوتوں کی مشابہت ہر چیز میں ترک کر دے، اسے ارکان حج و عمرہ میں مردوں کے طریقے پر عمل کرنا ہو گا۔خنثی کا غالب رحجان اگر مردوں کی جانب ہے تو مردوں کے طریقے سے حج کرے کیوں کہ اس صورت میں اس سے اکثر افعال مردوں کی طرح سر زد ہوتے ہیں اور اگر اس کا غالب رجحان عورتوں کی جانب ہے تو اس کے لیے جائز نہیں کہ بغیر محرم حج کے لیے جائے۔ محرم کی موجودگی میں یہ عورتوں کے طریقے پرارکان حج و عمرہ ادا کرے۔

حراست و جیل خانے:خنثی تعداد میں نہایت قلیل ہوتے ہیں، ان کے لیے تمام تھانوں میں علیحدہ حراست خانوں کا اہتمام یقینا تکلف ہے۔کسی شہر ، گاؤں کے ایک تھانے میں ہی ان کے لیے حراست خانہ بنا دیا جائے تو کافی رہے گا، تفتیش کے لیے اسی جگہ منتقل کر دیا جائے۔جیل خانوں میں بھی ان کی تعداد نہایت قلیل ہونے کی وجہ سے علیحدہ جیل خانے بنانے کی ضرورت نہیں ۔ سینٹرل جیل میں ایک جگہ سزا کاٹنے کے لیے مختص ہو جائے تو کافی ہے۔مخنث تو ہوتا ہی مرد ہے لہذا کسی جرم میں پکڑا جائے تو دوران سزا مناسب طریقے سے اسے اس کی اصل کی طرف لوٹایا جائے، اس دوران اس سے مردوں والا سلوک ہی ہوگا۔

شناختی کارڈ: مخنث کے شناختی کارڈ میں جنس کے لیے مرد ہی کا اندراج ہوگاکیوں کہ یا تو اس نے اپنی اصل کی طرف بعد تربیت یا تحذیر لوٹ آنا ہے یا اس کے لیے جلا وطنی ہےاور اصلاًیہ ہوتا ہی مرد ہے بھلے یہ تخنث کے ساتھ خصی بھی ہو ۔ خنثی شناخت کے اعتبار سے تیسری جنس ہے لہذا یہی اندراج ہو۔

 وہ مخنث جو ہیجڑا بنا ہوا ہو اس کے لیے شناختی کاڑد میں والد کے خانے میں گرو کے اندراج کو ختم کرنا چاہیے اور اس جگہ اس کے والد ہی کا نام درج ہونا چاہیے ۔

مخنث اور سوسائٹی

مخنث عموماً تین میں سے کسی ایک حال میں ہوتا ہے : (۱)جو اپنی خواہش سے خصیوں کو نکلوا چکا ہو(۲)جسے زبردستی خصی کیا گیا ہو(۳)بغیر خصی ہوئے عورتوں کی مشابہت اختیار کرتا ہو۔

پہلا شخص جو اپنی خواہش سے خصیوں کو نکلوا دے اور عورتوں کا روپ اختیار کر لے پھر اس فعل کو پیسے کمانے کا ذریعہ بنا ئے اور فحاشی پھیلائے یا کوئی اور خلاف شرع کام کرے، اول تا آخر سب حرام ہے ۔ ایسے خصی شخص کی مردانگی واپس بحال نہیں ہوگی ، اس کے باوجود اس  پر لازم ہے کہ وہ عورتوں کی وضع قطع ترک کر کے مردوں کی شکل و صورت و عادات اختیار کرے، اس گناہ پر نادم  ہو اور اس خلافِ شرع فعل سے توبہ کرے ،اگر توبہ نہیں کرتا تو حکومت پر لازم ہے کہ جب کوئی تدبیر کام نہ آئے تو ایسے شخص کو جلا وطن کر دیا جائے۔

جس شخص کو جبرا ًخصی کیا گیا ہو (بھلے فاعل کوئی بھی ہو) ایسے شخص کو بھی بہر حال مردوں کی عادات اور لباس ہی اختیار کرنا ہے اور جس نے اس پر یہ ظلم کیا ہو حکومت وقت پر لازم ہے کہ وہ اسے  سخت سزا دے تاکہ آئندہ کوئی ایسی حرکت نہ کرے ۔ ہیجڑوں کے گرو بھی یہ ظلم کرتے ہیں اور پھر اپنے ہاتھوں سے خصی کیے ہوئے لوگوں کو اپنے حلقے میں داخل کر کے بھیک منگواتے ہیں اور ان کے جسموں کو جنسی درندوں کے آگے کر کے پیسہ لیتے ہیں۔صحیح قول کے مطابق خصی کرنے والے کو بدلے میں خصی کرنا یا اس پر دیت واجب ہے۔

 مکمل مرد جس نے شیطانی وسوسوں میں پھنس کر عورتوں کا روپ اختیار کر لیاہو۔ اس شخص پر اسلامی احکام و ہدایات کو پیش کیا جائے گا اور اسے سمجھایا جائے کہ وہ خلاف شرع حرکتیں ترک کر دے۔ اسے بتایا جائے کہ نبی ﷺ نے اس فعل پر لعنت کی ہےجو اس نے اپنایا ہوا ہے۔اگر یہ توبہ کر لے تو ٹھیک ورنہ حکومت بزور اس کو صحیح راستے پر لائے، آخری صورت میں ایسے تمام افراد کو جلا وطن کر دیا جائے گا جیسا کہ حضرت محمد ﷺ اور حضرت عمر ﷜  نے کیا تھا ۔

ٹرانس جینڈروں اور ہیجڑوں کا حال رسول ﷺ کی عدالت میں

لعن النبی ﷺ المخنثین من الرجال و المترجلات من النساء و قال اخرجوھم من بیوتکم[4].

’’نبی ﷺ نے عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والےمردوں اور مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت کی اور فرمایا انہیں (مخنثین اور مترجلات ) کو اپنے گھروں سے نکال دو۔ ‘‘

مترجلہ اس عورت کو کہتے ہیں جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہے۔وہ عورتیں جو پیدائشی طور پر مؤنث ہیں اگر وہ مردوں کا روپ اختیار کریں بھلے خود کو ٹرانس جینڈرعورت  (Transgender woman)کہیں یااپنے لیے کوئی اور نام تجویز کریں لعنت میں ہیجڑوں اور مخنثین کے ساتھ برابر شریک ہیں۔

لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الرجل یلبس لبسة المراة و المراة تلبس لبسة الرجل[5]۔

’’ رسول اللہ ﷺ نے لعنت کی اس مرد پر جو عورتوں کا لباس پہنے اور اس عورت پر بھی لعنت کی جو مردوں کا لباس پہنے۔ ‘‘

اس حدیث میں Cross dressers جنہیں Transvesties (جنس مخالف کا لباس پہننے والے) بھی کہا جاتا ہے ان پر لعنت ہے۔

ان رسول اللہ ﷺ لعن الواصلة و الموصولة و المتشبھین من الرجال بالنساء و المتشبھات من النساء بالرجال[6].

’’ رسول اللہ ﷺ نے لعنت کی مصنوعی بال لگانے اور لگوانے والی پر اور ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کریں اور ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کریں ۔ ‘‘

اس حدیث کے مطابق لعنت کی زد میں وہ تمام طبیب بھی آتے ہیں جو کسی مرد یا عورت کی جنس بدلنے میں معاون ہوتے ہیں۔حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے :

 أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِمُخَنَّثٍ قَدْ خَضَّبَ يَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ بِالْحِنَّاءِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا بَالُ هَذَا؟» فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، يَتَشَبَّهُ بِالنِّسَاءِ، فَأَمَرَ بِهِ فَنُفِيَ إِلَى النَّقِيعِ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا نَقْتُلُهُ؟ فَقَالَ: «إِنِّي نُهِيتُ عَنْ قَتْلِ الْمُصَلِّينَ» قَالَ أَبُو أُسَامَةَ: «وَالنَّقِيعُ نَاحِيَةٌ عَنِ الْمَدِينَةِ وَلَيْسَ بِالْبَقِيعِ»[7]۔

’’  نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک مخنث لایا گیا جس کے ہاتھ اور پیر مہندی سے رنگے ہوئے تھے ، اسے دیکھ کر نبی  ﷺ نے پوچھایہ کیا معاملہ ہے؟ بتایا گیا کہ یہ عورتوں کی مشابہت اختیار کرتا ہے، تو  آپؐ نے  اسے (مدینہ سے جلا وطن کر کے)نقیع کی طرف بھیجنے کا حکم دیا ، صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ کیا ہم اسے قتل کردیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے نمازیوں کو قتل کرنے سے روکا گیا ہے۔  نقیع مدینہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے ، یہ  بقیع قبرستان نہیں ہے ۔‘‘

اس حدیث میں وہ افراد جو خود کو ٹرانس جینڈر کہہ کر مرد سے عورت یا عورت سے مرد ہونا باور کرائیں یا بھلے خود کو کسی دوسرے نام سے متعارف کرائیں سب واپس اپنی اصل پر نہ لوٹیں تو حکو مت پر لازم ہے کہ ان کو جلا وطن کیا جائے اور معاشرے کو ان کے شر سے محفوظ رکھا جائے۔

نابالغ بچوں کی سرجری

بعض بچے پیدا ہوتے ہیں تو ان کی جنس مبہم ہوتی ہے اور کبھی کسی بچےمیں مرد و عورت دونوں کے خاص اعضا ہوتے ہیں، ڈاکٹر کے مشورے سے بذریعہ ادویات اور ضرورت پڑنے پر جراحت (Surgery)سے انہیں مکمل طور سے ایک جنس کی جانب پھیرا جاتا ہے۔ شرعاً اس عمل میں کوئی قباحت نہیں ۔

مخنث اور قوم لوط؟  

مخنث کی قوم لوط سے مشابہت اس اعتبار سے ہے کہ اصلا یہ مرد (مذکر) ہوتا ہے لیکن عورت(مؤنث)کی مشابہت اختیار کر لیتا ہے۔ عورت کی طرح بولنا، چلنا پھرنا،اٹھنا بیٹھنا ، کپڑے پہننا وغیرہ وغیرہ اور خود کو عورت باور کراتا ہے۔مسئلہ یہاں تک ہی رہے تو اس پر قوم لوط والا حکم جاری نہیں ہوگا لیکن جب یہ کسی مرد سے بدفعلی کرے گاتو بلا شبہ یہ( ہم جنس پرست) قوم لوط والے عمل کا مرتکب ہوتا ہے۔اس عمل بد کا مرتکب قرآن مجید کے مطابق’’ مسرف‘‘ (حد سے بڑھ جانے والا)ہے اور نبی ﷺنے ایسے شخص پرایک حدیث میں لعنت کی اور دوسری حدیث میں فرمایا:

من وجدتموه یعمل عمل قوم لوط فاقتلوا الفاعل و المفعول به[8]۔

’’ جسے تم قوم لوط کا عمل کرتے پاؤ تو اس عمل میں ملوث دونوں افراد (فاعل و مفعول) کو قتل کر دو  ۔  ‘‘

یہ ہم جنس پرست مرد کی سزا ہے؛ اسے نافذ کرنا حکومت کا کام ہے، کسی عام فرد کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں۔

 تشکیل معاشرہ اور اسلام

اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے مسلمانوں کے پاس حضرت محمد ﷺ کی ذات ہے، ارشاد باری تعالی:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ( الاحزاب : ۲۱)

’’  بلا شبہ تم لوگوں کے لیےاللہ کے رسول( محمد ﷺ )کی ذات بہترین نمونہ ہے)۔

 محمد ﷺ نے معاشرے کو ریاست مدینہ کی صورت میں قائم کر کے دکھایا اور مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تاریخ انسانی میں جو معاشرہ محمد ﷺ نے بنایا اس کی کوئی مثال نہیں لہذا ہر حال میں محمد ﷺ کی پیروی ضروری اور اسی میں دنیا اور آخرت کی کامیابی ہے۔

سبحانك اللهم وبحمدك  اشهد ان لا اله الا انت استغفرك واتوب اليك.

 

[1]            صحیح بخاری۔کتاب النکاح، باب ما یکرہ من التبتل و الخصاء: ۵۰۷۳۔ سنن ترمذی، کتاب النکاح عن رسولﷺ، باب:ما جاء فی النهی عن التبتل: ۱۰۸۳

[2]            مختصر القدوری، کتاب الخنثی، ص 137،۔ شرح فتح القدیر علی الهداية ۱۰/۵۳۹

[3]            الحاوی الکبیر فی فقه مذھب امام شافعی، باب میراث الخنثی: ۸؍ 168

[4]             صحیح بخاری، کتاب اللباس، باب اخراج المتشبهین بالنساء من البیوت: 5886

[5]            ابو داود، کتاب اللباس، باب لباس النساء: 4098

[6]            مسند احمد، حدیث 3060

[7]            ابو داود، کتاب الأدب ، باب فی الحکم فی المخنثین :4928

[8]     ترمذی ،کتاب الحدود ، باب ما جاء فی حد اللوطی: 1456۔ ابو داود، کتاب الحدود، باب فیمن عمل عمل قوم لوط:4462