جنوری 2023ء

خواجہ سرا؛ شناخت اور حقوق و فرائض

قرآن وسنت کی روشنی میں

زندگی گزارنے اور ضروریات پوری کرنے کے لیے شناخت بنیادی حیثیت رکھتی ہے ۔اسی ضرورت اور خواہش کے پیش نظر اللہ تعالیٰ انسان  کو اس کی پیدائش سے پہلے ہی  والدین اور خاندان عطافرما تا ہے ، جو اسے شناخت ، پرورش اور اس کے حقوق کا تحفظ فراہم کرتا ہے ۔

﴿ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ﴾ [الحجرات:13]

’’ اے لوگو! بے شک ہم نے تمھیں ایک نر اور ایک مادہ سے پیدا کیا اور ہم نے تمھیں قومیں اور قبیلے بنا دیا، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بے شک تم  میں سب سے عزت والا اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے، بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا، پوری خبر رکھنے  والا ہے۔ ‘‘

ذرا سوچئے ! اس بچے کے جذبات اور احساسات کیا ہوں گے جوشناخت اور حقوق سے اس لیے محرو م کردیا جاتا ہے کہ وہ نامکمل جنسی اعضا   لے کر پیدا ہوا ہے ،جس کی پیدائش پر  شفقت اور  فخر کرنے والا باپ ٹھنڈی سانس لے کر منہ پھیر لیتا ہے ، جسے دیکھ کر مامتا نچھاور کرنے والی ماں خوشی کی بجائے غم کے سمندر میں ڈوب جاتی ہے  ۔بالآخراس معصوم کو  خاندانی شناخت سے محروم کرکے گھر سے نکال دیا جاتا ہے ۔ اس حوالے سے ہر ایک کی داستان ظلم مختلف ہے ، سنیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ ایک خواجہ سرا نے بتایا کہ بہن بھائیوں نے اسے گھر سے نکال دیا ۔ جب میری والدہ فوت ہوئیں تو میں گھر گیا ، تو  بھائیوں نے دھکے دے کر نکال دیا کہ آپ کے آنے سے ہماری بدنامی ہوتی ہے ۔

اگر والدین دل پر پتھر رکھ کر اس بچے کی پرورش کرتے اور محبت وہمدردی سے نوازتے ہیں تو خاندان اور معاشرہ جینے نہیں دیتا۔ اس سے اظہارہمدردی کرنے کی بجائے اسے تمسخر اور تضحیک کا نشانہ بناتا ہے۔حالانکہ یہ لوگ بھی دوسرے  انسانوں کی طرح محترم ہیں ۔

ایسے  لوگوں کو  ہیجڑا ،خنثیٰ ،  مخنث ،کھسرا اور  خواجہ سرا  جیسے ناموں سے پکارا جاتا ہے ۔

ہمارے ہاں ان ناموں میں کوئی فرق نہیں کیا جاتا  ، اسی وجہ سے ان سے متعلق شرعی احکام سمجھنے میں لوگوں کو مشکل پیش آتی ہے ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ان ناموں اور خصوصیات کی وضاحت کی جائے :

خنثی : ایسا شخص جس  کے جنسی اعضا  پیدائشی طور پر ناقص ہوں یا بالکل ناپید ہوں۔

مخنث/ ہجڑا  : اایسا مرد  جو جسمانی طور پرمرد  ہو لیکن نفسیاتی طور پر عورتوں والے احساسات رکھتا ہو۔

خواجہ سرا : وہ مرد جنہیں مغل بادشاہ خصی کرکے اپنے زنان خانہ میں خدمات کے لیے رکھتے تھے ۔

ٹرانس جینڈر:  وہ مرد یا عورت جو میڈیکل ٹریٹمنٹ کے ذریعے اپنی صنف تبدیل کرالیتے ہیں ۔

برصغیر میں مغل بادشاہ اور امراء سلطنت اپنے حرموں کی نگرانی اور اندرونِ خانہ خدمات کے لیے ایسے افراد مقرر کرتے تھے جو پیدائشی طور پر نامرد ہوتے تھے ، یا انہیں خصی کردیا جاتا تھا ،  ایسے لوگ طاقت ور بھی ہوتے ہیں اور  بے ضرر بھی  ۔ انھیں ’خواجہ سرا ‘ کا نام بھی مغلوں نے دیا تھا ۔ وہ اسے اپنے لیے سنہرا دور قرار دیتے ہیں اوریہی نام اپنے لیے  پسند کرتے ہیں  ۔ بعد میں انگریز حکومت آئی تو چونکہ یہ لوگ فوجی خدمات کے قابل نہیں تھے ، مزید ان کی طرف سے بچوں کو اغوا کرکے خصی کرنے اور اپنی جماعت میں شامل کرنے جیسے واقعات سامنے آئے تو انگریز حکومت نے ان کے لیے بعض سخت قوانین بنائے ، جس سے یہ طبقہ معاشرے سے کٹ کر رہ گیا ۔ دوسری طرف لوگ بھی  انہیں گھر ، خاندان اور وراثت سے محروم کرنے لگے ، جس سے یہ طبقہ تعلیم حاصل کرنے سے بھی محروم ہوتا چلا گیا ، اوران کی اخلاقیات تباہ ہو کر رہ گئیں ۔  آج خواجہ سرا تقریبات میں ناچ گا نے سے پیسے کماتے ہیں ، یا بھیک مانگتے ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ  اب ’خواجہ سرا ‘اور ’طوائف ‘ ہم معنی اور ہم مشغلہ بن کر رہ گئے ہیں۔

خنثیٰ کی شناخت :

ہمارے معاشرے میں انہیں  مرد اور عورت سے ہٹ کر ایک  تیسری شے  سمجھا جاتا ہے ، حالانکہ یہ  بھی مکمل انسان ہوتے ہیں ، سوائے جنسی اعضا  کے ، ان میں  نقص ہوتا ہے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے  انسان سمیت ہر مخلوق کی دو صنفیں (Genders)  مذکر و مؤنث ہی بنائی ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

﴿ وَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ ﴾ [الذاريات: 49]

’’  اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے پیدا کردئیے ، شائد تم  (ان سے ) سبق حاصل کرو۔‘‘

مزید انسان کے متعلق فرمایا:

﴿ وَ اَنَّهٗ خَلَقَ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَ الْاُنْثٰى مِنْ نُّطْفَةٍ اِذَا تُمْنٰى ﴾  [النجم: 45، 46]

’’ اور یہ کہ اسی نے  نر اور مادہ دونوں  قسمیں پیدا  کیں نطفہ سے جبکہ وہ (رحم میں ) ٹپکایا جاتا ہے۔‘‘

﴿ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُيَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ الذُّكُوْرَ ﴾[الشورى: 49]

’’  آسمانوں  اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے ، جو وہ چاہے پیدا کرتا ہے جسے چاہے لڑکیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہے لڑکے  ۔‘‘

لہٰذا خنثیٰ اور  خواجہ سرا  کوئی  الگ فطری خلقت نہیں  کہ انہیں تیسری صنف  کہا جائے یا   کوئی الگ شناخت دی جائے  ،  بلکہ یہ ایک  پیدائشی نقص ہے جس طرح بعض بچے پیدائشی طور پر اندھے ، لولے ، لنگڑے یا پاگل ہوتےہیں۔

اعضاء تناسل میں نقص کے  اعتبار سے ان کی دو اقسام ہیں :

  1. جو جسمانی ساخت اور  اعضاء کے اعتبار سے  مردہوتے ہیں، مگران کا  آلہ تناسل  ناقص ہوتا ہے یا بالکل نہیں ہوتا ، اسی طرح بعض جسمانی ساخت اور اعضاء تناسل کے اعتبار سے عورت ہوتی ہیں مگر اندام نہانی کی بناوٹ میں  نقص رہ جاتا ہے ۔

مردانہ جسمانی ساخت اور آلہ تناسل والے کو (چاہے ناقص یا بالکل معمولی ہو )مرد اور زنانہ ساخت اور  اندام نہانی والی  کو(چاہے معمولی آثار اور نشان ہوں ) عورت سمجھا جائے گا۔

امام ابن منذر فرماتے ہیں :

أجمع كل من يحفظ من أهل العلم أن الخنثى يورث من حيث يبول إن بال من حيث يبول الرجل ورث ميراث رجل، وإن بال من حيث تبول المرأة ورث ميراث امرأة[1].

’’جن اہل علم سے  ہم نے علم حاصل کیا ہے ، ان کا اجماع ہے کہ خنثیٰ اپنے پیشاب کے راستوں کی بنیاد پر وراثت میں حصہ دار ہوگا ۔ اگر وہ مرد کی طرح پیشاب کرتا ہے تو وہ مرد والا حصہ لے  گا،  اگر وہ عورت کی طرح پیشاب کرتی ہے تو وہ عورت والا حصہ لے گی  ۔‘‘

  1. لاکھوں خنثیٰ لوگوں میں سے ایک دو ایسے ہوتے ہیں جن میں مرد کا آلہ تناسل اور عورت کی اندام نہانی دونوں اعضا ہوتے ہیں  یا دونوں میں سے کوئی بھی عضو نہیں  ہوتا ۔یعنی ان میں مرد یاعورت ہونے کی کوئی واضح علامت  نہیں  ہوتی ،  اسے فقہ کی اصطلاح میں’خنثیٰ مشکل ‘  کہا جاتا ہے ۔

امام حسن بصر ی  کا مشہور قول ہے :

(لم یکن الله عزوجل لیضیق علی عبده من عبیده حتیٰ لایدری أذکر هو أم أنثیٰ)

’’ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے کسی بندے پر ایسی تنگی نہیں کرتا کہ وہ پہچانا ہی نہ جاسکے کہ وہ مرد ہے یا عورت ۔‘‘

ایسے لوگوں  کا فیصلہ دوسرے جسمانی اور نفسیاتی علامات کے مطابق کیا جائے گا مثلاً جسم کی ساخت میں  چہرہ مہرہ ، داڑھی ، مونچھیں ،قد کاٹھ، آواز ، چھاتیوں کا ابھار ،   احتلام اور حیض ہے ۔

اور نفسیاتی علامات میں دیکھا جائے گا کہ  وہ مردوں کی طرح شجاع اوربہادر ہے یا عورتوں کی طرح بزدل  ، اس کا جنسی میلان مردوں کی طرف ہے یا عورتوں کی جانب  ؟ اس کے علاوہ آج کل میڈیکل ٹیسٹ  کے ذریعے بھی اس کے مرد یا عورت  ہونے کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے ۔ 

 اس کے برعکس بعض  لوگ سمجھتے ہیں کہ خنثیٰ انسان   کے مسائل کا حل انہیں الگ شناخت دینے میں ہے ، یعنی ان کے شناختی کارڈ   پر صنف کے خانے میں خواجہ سرا لکھوانے کی اجازت دی  جائے ، انہیں ووٹ کا حق دیا جائے  ، ان کے لیے صوبائی و قومی اسمبلیوں  اور سینٹ میں نشستیں مختص کی جائیں ۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے23دسمبر 2009ء میں خواجہ سراؤں کی مردم شماری کرکے انھیں سرکاری ملازمتیں دینے اور وراثت میں حصہ دلانے کا حکم دیا ، بعد ازاں نومبر 2011ء   کو سپریم کورٹ نے ان کے سیاسی حقوق تسلیم کرتے ہوئے ان کے ووٹ کے اندراج کے لیے الیکشن کمیشن کو ہدایات جاری کیں ، انہیں اپنے شناختی کارڈ میں صنف کے خانے میں ’ خواجہ سرا ‘ لکھوانے کی اجازت دی گئی ۔

 غور کریں تو  معاشرے کا ان کے ساتھ غیر اخلاقی رویہ اور ناروا  سلوک کا سب سے بڑا سبب ان کا موجودہ گٹ اپ اور غیراخلاقی ذریعۂ معاش ہے ۔

میر بھی کیا سادہ ہیں ، بیمار ہوئے جس کے سبب                                اسی  عطار  کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

درست طریقہ یہ ہے کہ اسلامی اصولوں کے مطابق انہیں مرد یا عورت کی صنف میں شامل کیا جائے ۔  مرد کو مرد بن کر اور عورت کو عورت کی شکل میں زندگی گزارنے کا پابند کیا جائے ۔ چونکہ عذر کی بنا پر وہ ناقص الخلق ہیں لہٰذا طبی ماہرین ہی جنسی عذر کا فیصلہ کریں ۔

  حکومت کی ذمہ داری :

حکومت کی ذمہ داری ہے کہ خنثیٰ  کے حقوق کا تحفظ کرنے کے  لیے ماہرین کے سپرد کیا جائے ۔ البتہ جس گھر میں ایسا بچہ پیدا ہو تو  والدین پابند ہیں کہ دوسرے بچوں کی طرح اسے  بھی گھر میں رکھیں اور اس کی تعلیم وتربیت کا بندوبست کریں ، ان کی عزت نفس کا خیال رکھا جائے ، اسلامی شریعت  کے مطابق انہیں  فقہاء کے اجتہادات کے ذریعے  حق وراثت دیا جائے۔ اس کے علاوہ انہیں عام شہریوں کے برابر حقوق دیئے جائیں، مزید لوگوں کی اخلاقی تربیت کی جائے تاکہ ان کے متعلق عوام میں پائی جانے والی منفی سوچ کا قلع قمع ہو اور انہیں عزت کے ساتھ جینے کے مواقع حاصل ہوں ۔

خنثی اور شرعی احکام :

جب یہ بات طے ہوگئی ہے کہ خنثیٰ بھی اللہ تعالیٰ کی تکریم ِ انسان  میں شامل  ہیں ، لہٰذا ان پر بھی شریعت کے احکام لاگو ہیں ،مثلاً نماز روزہ ، حج و زکوۃ اور دیگر شرعی احکام جس طرح عام مسلمان مرد وزن پر فرض ہیں  اسی طرح مسلمان خنثیٰ  پر بھی فرض ہیں ۔  اسی طرح حقوق کا مسئلہ بھی حل کیا جاسکتا ہے ۔

شریعت کی نظر میں ہر خنثیٰ  مرد ہے یا عورت ، تیسری کوئی  صنف  نہیں ہوتا ۔لہٰذا  جب کسی کے مرد یا عورت ہونے کا فیصلہ ہوجائے تو پھر اس پر فرض ہے کہ وہ اسی صنف سے متعلق احکام پر عمل کرے،  اس سے ہٹ کرزندگی بسر کرنا ہرگز جائزنہیں۔اور معاشرے کو بھی اس کے ساتھ ویسا ہی رویہ اختیار کرنا چاہئے۔

 مرد خنثیٰ  کے لیے سارے احکام (عبادات ، نکاح ، لباس ، میک اپ ، شہادت ،حجاب وراثت اور امامت وغیرہ) مردوں والے ہیں، سوائے اجنبی عورتوں سے خلوت اور حجاب کے احکام کے (تفصیل آگے  آرہی ہے) لہٰذا مرد ہیجڑوں کو مردوں کی طرح زندگی بسر کرنی چاہئے ۔

اسی طرح عورت خنثیٰ  تمام شرعی احکام ، مثلا حجاب ، میک اپ ،لباس، بالوں کے سٹائل وغیرہ میں عورتوں سے ملحق ہے۔

یہی وجہ ہے کہ فقہاء امت نے خواجہ سراکے الگ سے احکام بیان نہیں کئے ۔کتب فقہ میں صرف خنثیٰ مشکل کے حوالے سے جزوی بحث ملتی ہے ، کہ وہ کب مردوں کے حکم میں شمار ہوگا ، اور کب اس پر عورتوں والے  احکام لاگو ہوں گے ۔

خنثیٰ اور وراثت  میں حصہ :

ہمارے معاشرے میں  عام طور پر والدین یا بہن بھائی خنثیٰ  کو گھر سے نکال دیتے ہیں ، ا س کا  ایک سبب اسے  حق وراثت سے محروم کرنا ہوتا ہے ، ان کا یہ عمل حرام اور ظلم ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ اِنَّ الَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْيَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِهِمْ نَارًا١ؕ وَ سَيَصْلَوْنَ سَعِيْرًا ﴾[النساء:10]

’’بے شک جو لوگ یتیموں کے اموال ظلم سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ کے سوا کچھ نہیں کھاتے اور وہ عنقریب بھڑکتی آگ میں داخل ہوں گے۔ ‘‘

مرد یا عورت خنثیٰ  اپنے رشتہ داروں کی وراثت میں اسی طرح حصہ دار  ہیں  جس طرح دوسرے مرد وزن کا حصہ ہوتا ہے ۔ اگر وہ مرد  خنثیٰ ہے تو وہ مردوں والے حصے کا حق دار ہے ، اور  عورت خنثیٰ عورتوں والے حصے کی مستحق ہے ۔

تجہیز وتکفین اور تدفین :

خنثیٰ انسان   کی  تجہیز وتکفین اور تدفین کے حوالے سے کئی طرح کی کہانیاں معاشرے میں  مشہور ہیں۔اولاً ان میں کچھ صداقت نہیں ہے ۔ بالفرض اگر اسی سوسائٹی میں شرعی طریقے سے ہٹ کر کوئی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے یا کوئی رسم انجام دی جاتی ہے تو وہ غلط اور ناجائز ہے ۔ شریعت میں خنثیٰ  کے لیے تجہیز وتکفین اور تدفین کا وہی طریقہ ہے جو عام مرد وزن کا ہے ، اس کے علاوہ کچھ  ثابت نہیں ہے ۔ 

خنثیٰ اور میک اپ :

اللہ تعالیٰ نے مرد وزن کی جسمانی ہیئت بالکل ایک دوسرے سے مختلف بنائی ہے ، مرد کی خوبصورتی وجاہت اور رعب  سےہے ، جبکہ عورت کی خوبصورتی نزاکت اور ملائمت میں ہے ۔ مرد کی زیب وزینت وہ ہے جو اس کی وجاہت میں اضافہ کرے ، اور عورت کا میک اپ جو اس کی نزاکت  کو  بڑھائے ۔ شریعت اسلامیہ نے دونوں کی تزئین وآرائش میں فرق رکھا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:  مرد کی خوبصورتی (میک اپ ) کی وہ چیزیں ہیں جن میں خوشبو ہو ، رنگ نہ ہو ، اور خواتین ان چیزوں سے میک اپ کرے جن میں رنگ ہو ، خوشبو نہ ہو [2]۔  

 خواتین گھر میں خاوند اور محرم لوگوں میں رہتے ہوئے خوشبولگاسکتی ہیں ، البتہ باہر جاتے ہوئے عورت کے لیے خوشبو لگانا حرام ہے[3] ۔  

اسی اصول کے تحت عورت خنثیٰ  خواتین والا میک اپ کرسکتی ہے،اورمرد خنثیٰ خوبصورتی کے لیے مردوں والی چیزیں استعمال کرسکتے ہیں ،  انہیں ہاتھوں پر  مہندی  بطور زینت لگانے کی اجازت نہیں ہے  ۔ سیدنا انس﷜ بیان کرتے ہیں :

(( نهي النبی صلی الله علیه وسلم أن یتزعفر الرجل[4] ))

’’ نبی اکرم ﷺ نے مردوں کو زعفرانی رنگ لگانے سے منع فرمایاہے ۔‘‘

چونکہ مہندی میں بھی تقریباً  یہی رنگ ہوتا ہے لہٰذا مرد خنثیٰ  کے لیے یہ جائز نہیں ہے ۔

خنثیٰ اور حجاب :

مرد خنثیٰ جو خواتین کے معاملے میں دلچسپی نہیں رکھتے ،انہیں خواتین سے میل جول رکھنے اور ان کے سامنے خواتین کو حجاب اتارنے میں کچھ حرج نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ نے آیت حجاب میں خواتین کو محرم مردوں کے علاوہ جن مردوں سے پردہ نہ کرنے کی آزادی دی ہے ، ان میں ایک خنثیٰ  یعنی مرد می طاقت  سے محروم شخص بھی شامل ہے :

﴿ وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ يَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُيُوْبِهِنَّ  وَ لَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآىِٕهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآىِٕهِنَّ۠ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْۤ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْۤ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَآىِٕهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِيْنَ غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ ﴾ [النور :۳۱]

’’اور مومن عورتوں سے کہہ دیں  کہ وہ ا پنی   نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر جو اس میں سے ظاہر ہو جائے اور اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں اور اپنی زینت کو  ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں کے لیے …... یا تابع رہنے والے مردوں کے لیے جو شہوت والے نہیں ہیں۔‘‘

 علماء کرام نے ﴿ اَوِ التّٰبِعِيْنَ غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ﴾  سے مراد مندرجہ ذیل لوگ قرار دیئے ہیں :

  • دیوانہ ، جسے خواتین کی حاجت نہ ہو ۔
  • بوڑھا اور ضعیف جسے جماع کی اشتہا نہیں ہوتی ۔
  • نامرد ، خصی اور ہیجڑا وغیرہ ۔

اسی اجازت کے پیش نظر دور نبوی میں ایسے لوگ بلا روک ٹوک اندرون خانہ  خواتین کے پاس  آجاتے تھے،  سیدہ ام سلمہ﷝ فرماتی ہیں :

أَنَّ مُخَنَّثًا كَانَ عِنْدَهَا وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْبَيْتِ، فَقَالَ لِأَخِي أُمِّ سَلَمَةَ: يَا عَبْدَ اللهِ بْنَ أَبِي أُمَيَّةَ إِنْ فَتَحَ اللهُ عَلَيْكُمُ الطَّائِفَ غَدًا، فَإِنِّي أَدُلُّكَ عَلَى بِنْتِ غَيْلَانَ، فَإِنَّهَا تُقْبِلُ بِأَرْبَعٍ وَتُدْبِرُ بِثَمَانٍ، قَالَ فَسَمِعَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «لَا يَدْخُلْ هَؤُلَاءِ عَلَيْكُمْ[5]»

’’  ان کے پاس  ایک مخنث بیٹھا تھا ، جبکہ رسول اللہ ﷺ بھی گھر میں ہی تھے ،تو وہ ام سلمہ کے بھائی  سے کہہ رہا تھا : اے عبداللہ بن امیہ ! اللہ تعالیٰ نے اگر کل تمھیں طائف کی فتح عطاکردی تو میں تمھیں غیلان کی بیٹی دیکھاؤں گا جو آتی ہے تو اس کے چار بل پڑتے ہیں اور جاتی تو پیچھے آٹھ بل پڑتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے اس کی یہ گفتگو سننے کے بعد  فرمایا: یہ تمہارے پاس نہ آیا کریں ۔‘‘

بعض علماء کرام اسی حدیث کی بنیاد پر ہر قسم کے  خنثیٰ اور مخنث  مردوں کا عورتوں کے ہاں  دخول کو ناجائز قرار دیتے ہیں [6]۔   لیکن اس حوالے سے دو باتیں ذہن میں رہنی چاہئے :

  • مذکورہ حدیث میں مخنث کا لفظ آیا ہے،اس سے مرااد وہ شخص ہے جو جسمانی طور پر مرد ہے لیکن احساسات عورتوں والے رکھتا ہے۔ چونکہ شرعی احکام ظاہری اور جسمانی حالت پر لاگو ہوتے ہیں ،  ان میں باطنی احساسات کا اعتبار نہیں کیا جاتا،لہٰذا مخنث  جو کامل مرد  ہو،اس کےلیے غیر محرم عورتوں کے پاس جانا جائز نہیں ہے ۔
  • اکثر علماء کرام کا کہنا ہے کہ مذکورہ بالا واقعہ میں رسول اللہ ﷺ کا مخنث کے زنان خانہ میں داخلے پر پابندی کسی سزا کے طور پر نہیں مصلحت اور احتیاط کے طور پر تھی ، کیونکہ قانون حجاب کا مقصد ہی یہ ہے کہ اجنبی مردوں تک خواتین کے حسن وجمال اور داخلی معاملات کی اطلاعات نہ پہنچیں ، اس معاملے میں براہ ِراست اپنی آنکھ سے دیکھنا یا کسی دیکھنے والے کی زبان سے سننا یکساں خطرناک ہے ۔ یہ پابندی محض خنثیٰ  یا مخنث  پر نہیں،  عام مرد و زن پر بھی ہے ، جیساکہ رسول اللہ ﷺ نے خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

’’ کوئی عورت اپنے خاوند کے سامنے کسی خاتون کے حسن وجمال کا اس طرح تذکرہ نہ کرے کہ گویا وہ اسے دیکھ رہا ہے‘‘[7]۔

اسی طرح رسول اللہ  ﷺ نے مردوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

’’ کوئی مرد اپنی بیوی کی خفیہ اور پردے والی باتیں دوسرے مردوں کے سامنے بیان نہ کرے‘‘ [8]۔ 

اسی لیے علماء کرام نے لکھاہے :

 المخنث الذی لاشھوة له فحکمه حکم ذوی المحرم فی النظر ، فان کان المخنث ذا شھوة ویعرف أمر النساء فحکمه حکم غیره [9].

 ’جس  مخنث میں شہوت نہیں ہوتی ، اس کا خواتین کو دیکھنا ویسا ہی ہے جیسا کہ محرم خاتون کو دیکھناہے ، اور جو مخنث شہوت رکھتا اور عورتوں کے معاملات میں دلچسپی لیتا ہو ، اس کا خواتین کو دیکھنا غیر محرم خواتین کو دیکھنے کی مانند ہے ۔‘‘

مزید لکھا ہے :

المخنث الذی له ارب فی النساء ، لا خلاف فی حرمة اطلاعه علی النساء ونظره الیهن ، لأنه فحل فاسق[10].

’’ البتہ جس مخنث میں عورتوں کی شہوت ہے ، اس کے عورتوں پر داخل ہونے اور ان کی طرف دیکھنے کی حرمت میں کوئی اختلاف نہیں ہے ، اس لیے کہ وہ بلاشبہ نر فاسق ہے ۔‘‘

خنثیٰ  اور نکاح :

مخنث   / ہجڑا جو جسمانی طور پر مکمل مرد ہوتا ہے اس کے لیے  شادی  کے جائز ہونے میں تو کوئی اختلاف نہیں  ہے۔   باقی رہا خنثیٰ تو جب یہ واضح ہوگیا ہے کہ مرد خنثیٰ   کے تمام احکام مردوں والے اور عورت خنثیٰ کے سب معاملات عورتوں والے ہیں ، تواسی اصول کے تحت خنثیٰ   بھی اپنی مخالف صنف  سے شادی کرسکتے ہیں، بشرط یکہ عورت بھی خنثیٰ ہو یا  اس کی رضا مندی سے  ہو ۔اور وہ زندگی بھر پاک دامن دہنے کا عہد کرے ۔

باقی رہا  کہ خنثی سے شادی کرنے کا فائدہ کیاہے ؟، تو گزارش ہے کہ جنسی  آسودگی کے علاوہ  بھی شادی کے  کئی مقاصد ہوتے ہیں ، مثلا ًمرد وزن کا ایک دوسرے سے نفسیاتی سکون حاصل کرنا ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :

﴿ وَ مِنْ اٰيٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَيْهَا وَ جَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةً﴾[الروم :21]

’’ اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہی  میں سے بیویاں پیدا کیں، تاکہ تم ان کی طرف (جاکر) آرام پاؤ اور اس نے تمھارے درمیان دوستی اور مہربانی رکھ دی۔‘‘

اور یہ سکون صرف جنسی ہی نہیں  نفسیاتی بھی ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر ایام حیض میں مرد اپنی عورت سے جماع  نہیں کرسکتا ہے ،ا س کے باوجود اس سے کئی طرح کے اسالیب محبت اختیار کرتا ہے ، اور نفسیاتی سکون  حاصل کرتا ہے ، اسی طرح خنثیٰ  مرد اور خنثیٰ  عورت  شادی کرکے نفسیاتی لطف اٹھا  سکتے ہیں  ۔

اس کے علاوہ  بھی کئی اقسام کی خدمات ہیں جو مرد و زن ایک دوسرے سے حاصل کرتے ہیں ، مثلاً مرد کو گھریلو خدمات کے لیے عورت کی اور خاتون کو نان ونفقہ ،علاج معالجہ اور سکونت کی سہولیات حاصل کرنے کے لیے مرد کی ضرورت ہوتی ہے ۔کسی بھی شخص کے لیے تنہا زندگی گزارنا مشکل ہے، اسی  وجہ سے عموماً  ہیجڑے مل کر  رہتے ہیں ۔ لہٰذا اگر کوئی مرد کسی مخنث عورت سے یا کوئی عورت کسی مخنث مرد سے شادی کرکے یہ فوائد حاصل کرلیتے ہیں تو قطعاً کوئی حرج نہیں ہے ۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک نامرد اور جنسی طور پر کمزور آدمی شادی کرلیتا ہے ، یا شادی کے بعد اس  کی جنسی قوت ختم ہوجاتی ہے ،تو اس کا نکاح ٹوٹ نہیں جاتا ہے ، البتہ عورت خلع لینا چاہئے تو اسے اجازت ہے۔ اسی طرح ہیجڑا مرد یا عورت اپنے ساتھی کو بتا کر شادی کرلیتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔  علماء کرام  نے بلاتفاق ہیجڑے کو  صنف مخالف سے شادی کی اجازت دی ہے ۔ البتہ خنثیٰ مشکل (جب تک اس کی صنف کا تعین نہ ہو) کی شادی کرنا جائز نہیں ہے ۔ کیونکہ معلوم نہیں کہ وہ مرد ہے یا عورت، اس لیے اس کی  شادی   ہم  جنس پرستی کے مشابہہ ہے[11] ۔

خنثیٰ اور ناچ  گانا      :

آج کل دنیا بھر میں خنثیٰ لوگوں  نے ناچ گانے کو مشغلہ بنا لیا ہے ، یہ قطعی طور پر حرام  ہے ۔امام صنعانی  فرماتے ہیں :

(وأما الرقص والتصفیق فشأن أھل الفسق والخلاعة، لا شأن من یحب الله ویخشاه [12])

’’ رہا رقص کرنا اور تالیاں بجانا تو یہ اہل فسق اوربے حیا لوگوں کا کام ہے ، اللہ سے محبت کرنے اور اس سے ڈرنے والوں کا یہ طریقہ نہیں ہے ۔‘‘

 خنثیٰ لوگوں کا کہنا ہے کہ معاشرہ ہمیں اچھا اور باعزت روز گار دینے کے لیے تیار نہیں تو ہم کیا کریں ؟۔ مگر یہ آدھا سچ ہے ۔پورا سچ یہ ہے کہ خنثیٰ اور  مخنث لوگوں    نے از خود  اس پیشہ کو اپنے کے لیے خاص کرلیا ہے اور اس حلیے میں انہیں وافر آمدن ہوتی ہے ،جس کا نتیجہ ہے کہ صحیح،  تندرست اور کامل لوگو ں نے  بھی مانگنے کے لیے یہی روپ دھار لیا ہے  ۔ حقیقت یہ ہےکہ مخنث لوگوں کو معاشرےمیں جو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا اس کی وجہ ان کا یہی مخصوص گٹ اپ ہے ، اگر وہ یہ بہروپ ترک کرکے   مرد ، مردانہ اور عورتیں زنانہ حلیہ اختیار کرلیں تو ان کی مشکلات میں کافی حد تک کمی آسکتی ہے ۔ جو خنثیٰ لوگ اپنے جسم کے مطابق مرد یا عورت کا حلیہ میں رہتے ہیں ، انہیں معاشرے سے کوئی تکلیف ہے نہ کوئی شکوہ ہے ۔

خنثیٰ اور معاشی مسائل :

خنثیٰ ایک فطری نقص کے علاوہ ہر لحاظ سے مرد اور عورت کے برابر صلاحیتیں  رکھتے ہیں، لہٰذا حکومت کو چاہئےکہ وہ نظام وضع  کرے کہ ایسے بچے اپنے  اصل خاندانوں اور حقیقی گھروں میں رہیں ، کوئی انہیں وہاں سے بے دخل نہ کرسکے ۔ دوسرے شہریوں کی طرح ان کے لیےبھی  تعلیم کا بندوبست کیا جائے،   ان کی صلاحیتوں کے مطابق انہیں ہنر اور دست کاری سیکھائی جائے ۔ ان کے لیے حلال اور باعزت روزگار کے موا  قع  فراہم کرکے غیراخلاقی ذریعہ معاش پر پابندی لگا ئی جائے ، تاکہ وہ مفید شہری بن کر اور باعزت زندگی گزار سکیں ۔

خنثیٰ  اور لواطت:

دنیا بھر میں ہیجڑے لواطت کے حوالے سے مشہور ہیں ، الا ماشاء اللہ ۔ اسی وجہ سے بہت سارے علماء سلف نے مخنث کی تعریف میں لواطت اور فواحش کے ارتکاب کو بطور علامت  کے بیان کیا ہے ۔

 امر یکہ کے قومی ادارہ برائے صحت کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق امریکا میں ایک تہائی ہیجڑوں میں ایڈز کا مرض پایا جاتا ہے ۔ چونکہ سیاہ فام امریکیوں میں یہ مرض نسبتاً زیادہ ، سیاہ فام ہیجڑوں میں سے چھپن فیصد (%56) ایڈز کا شکار ہیں ۔لواطت ہر حالت میں حرام ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لعن الله من عمل عمل قوم لوط ، لعن الله من عمل عمل قوم لوط، ثلاثا[13].

’’  اللہ تعالیٰ لعنت کرےاس شخص پر جو  قوم لوط والا کام کرتا ہے، اللہ تعالیٰ لعنت کرےاس شخص پر جو  قوم لوط والا کام کرتا ہے ۔ آپ ﷺ نے یہ بات تین بار ارشاد فرمائی ۔‘‘

مزید فرمایا:

من وجدتموه یعمل عمل قوم لوط فاقتلوا الفاعل والمفعول به[14].

’’ جسے تم قوم لوط والا کام کرتے پاؤ ، فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کردو ۔‘‘

رسول اللہ ﷺ نے منکوحہ بیوی  کےساتھ بھی لواطت کرنے  کو حرام قرار دیا ہے[15]۔

خواجہ سرااور عوام :

خنثیٰ ، مخنث اور ہیجڑوں کو بھی انسانی تکریم حاصل ہے   ، ان کے  تخلیقی نقص میں ان کا کوئی گناہ نہیں ، لہٰذا ان کا مذاق اڑانا ، آوازیں کسنا ، تذلیل کرنا ،یاان کی تحقیرکرنا جائز نہیں ۔ امریکہ میں ہیجڑوں کے مسائل کے حوالے سے 2011ء میں ایک سروے  رپورٹ شائع ہوئی ، جس میں انکشاف کیا گیا کہ 6000افراد میں سے 90فیصد بدسلوکی ، نسلی تعصب اور خوف و ہراس کا شکار پائے گئے[16]۔  

عجیب بات ہے کہ دوسرے معذور  افراد کو دیکھ کر ہمارے دلوں میں ہمدردی کے جذبات  پیدا ہوتے ہیں لیکن  خنثیٰ یا ہیجڑوں  کو دیکھ کر ہماری رگ ِظرافت بھڑک اٹھتی ہے۔  ان کا مذاق اڑانا دراصل اللہ تعالیٰ کی صناعی اور تخلیق کا مذاق اڑانا ہے ، شرعی طور پریہ حرام  اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہے۔

ذرا سوچئے ! کیا معذور اور بیمار بچوں کووالدین  باہر پھینک دیتے ہیں ، یقینا نہیں ، بلکہ ایسے بچے خصوصی ہوتے ہیں ، ان کی نگاہ داشت بطور خاص کی جاتی ہے ، تو پھر جنسی طور پر معذور بچوں کو گھر سے نکال کر گناہوں کی دلدل میں کیوں پھینک دیا جاتا ہے ؟۔ ایسے بچے کے معاملے میں معاشرے سے نہیں اللہ سے ڈرنا چاہئے ۔

علاج  اور اصلاح

خنثیٰ   کے اعضاء تناسل میں کسی نقص کی اصلاح ، تصحیح ،علاج  اور تبدیلی کرنا دوائی سے ہو یا اپریشن سے  جائز ہے، اس میں کچھ ہرج  نہیں ہے، یہ ایسے ہی ہے جیسے آنکھ ، ناک ، کان وغیرہ کا کوئی نقص اپریشن سے  دور کیا جاتا ہے ،   شریعت کسی بھی تکلیف اور نقص کے علاج سے منع نہیں کرتی ۔

مخنث :

بعض لوگوں کے  جنسی اعضا کے اعتبار سے صنف  بالکل واضح ہوتی ہے ، مگر ان کے جینز میں دوسری صنف کے  جینز  بھی کچھ مقدار میں پائے جاتے ہیں ،  جن کے اثرات ان کی چال ڈھال اور انداز تکلم میں  ظاہر ہوتے ہیں،   جیسے ایک مرد ہے مگر اس کی چال ڈھال ، اٹھنےبیٹھنے ، انداز تکلم یا سینے کے ابھار  کے اعتبار سے اس  میں زنانہ پن ہے ،ایسے لوگوں کو عربی میں مخنث کہا جاتا ہے، جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ  ایسے لوگوں پر لازم ہے کہ کوشش کرکے بتدریج اس پر قابو پائیں اور مخالف جنس کی مشابہت سے بچیں[17]۔

ایسے لوگوں کا آج کل جینز تھراپی کے ذریعے  علاج  کیا جاتا ہے ۔ان پر فرض ہے کہ اپنی حقیقی  صنف کے اعتبار سے زندگی بسر کریں ، ان کے لیے زنانہ کپڑے  پہننا اور میک اپ کرنا شرعاً حرام اور ملعون کام ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((لَعَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المُخَنَّثِينَ مِنَ الرِّجَالِ، وَالمُتَرَجِّلاَتِ مِنَ النِّسَاءِ، وَقَالَ: «أَخْرِجُوهُمْ مِنْ بُيُوتِكُمْ [18]))

’’ نبی اکرمﷺ نے لعنت کی مخنث بننے والوں مردوں اور  مرد بننے والی عورتوں پر۔‘‘

دوسری روایت میں الفاظ یہ ہیں :

((لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ، وَالمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ[19] ))

’’ رسول اللہ ﷺ نے لعنت کی عورتوں کی مشابہت کرنے والے مردوں، اور مردوں کی مشابہت کرنے والی عورتوں پر ۔‘‘

اس لعنت  اوروعید میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو  مردانہ وجاہت  رکھنے کے باوجود خواتین والا گٹ اپ اپناتے ہیں ، یا  زنانہ  ساخت پانے کے باوجودمردوں والا گٹ اپ اپناتی اور مردانہ زندگی اختیار کرتی  ہیں ۔

ٹرانس جینڈر (Transgender)

ٹرانس (Trans) کا  معنی ہے تبدیل کرنا جیسے گردے یا جگر  کا ٹرانس پلانٹ کرنا ، اور جنڈر(Gender)  کا معنی ہے صنف ، تو ’’ ٹرانس جینڈر ‘  کا معنی ہوا صنف تبدیل کرنا ۔

مغرب میں ان لوگوں  کی  جسمانی علامات کے برعکس داخلی احساسات کی بنیاد پر صنف طے کی جاتی ہے، بلکہ ایسے لوگوں کو اپنی خواہش کے مطابق صنف تبدیل کرنے اور ہم صنف سے شادی کرنے  کی کھلی آزادی دی گئی ہے ۔ اقوام متحد ہ نے 2008ء میں ایک قانون پاس کیا تھا جس کے مطابق  تمام رکن ممالک پر ہم جنس پرستی  Homo Sexualityکی اجازت دینا لازمی ہے۔ اس کے تحت  کافر ممالک کے ساتھ ساتھ بعض مسلم ممالک مثلاً ترکی ، بوسنیا اور مالدیپ نے بھی ہم جنس پرستی کی اجازت دےدی  ۔ اب جب کہ حکومت پاکستان نے ٹرانس جینڈر (Transgender)کے حقوق کے نام پر ایک قانون پاس کیا ہے جس کی ایک شق یہ ہے کہ جو شخص  اپنے اندر مخالف صنف کے احساسات پاتا ہے تو وہ نادرا کے پاس جا کر اسی صنف کا شناختی کارڈ بنوا سکتا ہے ، اور نادرا اس قانون کی رو سے انکار نہیں کرسکتا بلکہ ان کی طبی جانچ کا بھی مطالبہ نہیں کرسکتا ۔ اس   قانون سے فائدہ اٹھاتےہوئے نادرا کی اپنی رپورٹ کے مطابق کوئی اٹھائیس ہزار لوگ اب تک اپنی شناخت تبدیل کرا چکے ہیں ۔ جبکہ شرعی اعتبار سے ایسا شخص  قطعاً خنثیٰ   کے زمرےمیں نہیں آتا، لہٰذا اس  کا صنف تبدیل کرانا یا ہم صنف سے شادی کرنا ہرگز جائز نہیں ہے ، اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ قوم لوط والے عمل کا مرتکب ہے ۔

خنثیٰ یا مخنث کی ظاہری صنف کو اپریشن کے ذریعے تبدیل کرنا یا محض صنف مخالف کے  احساسات  کی وجہ سے دوسری   صنف کا سرٹیفکیٹ جاری کرنا قطعاً حرام ہے ، یہ اللہ کی تخلیق کو تبدیل کرنا اور شریعت کے احکام و مسائل اور حقوق و فرائض میں الجھن پیدا کرنا ہے ، یہ خالص شیطانی ایجنڈا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے شیطان کی زبان سے اس کے  ایجنڈے کا تذکرہ  ان الفاظ میں کیا ہے :

﴿ لَّعَنَهُ اللّٰهُ وَ قَالَ لَاَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا وَلَاُضِلَّنَّهُمْ۠ وَ لَاُمَنِّيَنَّهُمْ وَ لَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ۠ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَ لَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ۠ خَلْقَ اللّٰهِ وَ مَنْ يَّتَّخِذِ الشَّيْطٰنَ وَلِيًّا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِيْنًا ﴾ [النساء: 118، 119]

’’  اس (شیطان)پر اللہ نےلعنت کی ہے اور اس نے اللہ سے کہا تھا: میں تیرے بندوں میں سےایک مقررہ حصہ لے کر رہوں گا اور میں انہیں گمراہ کرکے چھوڑوں گا ، (اس طرح کہ ) انہیں آرزوئیں دلاؤں گا اور انہیں حکم دوں گا کہ وہ چوپایوں کے کان پھاڑ ڈالیں اور انہیں یہ بھی حکم دوں گا کہ وہ اللہ کی پیدا کردہ صورت میں تبدیلی کر ڈالیں اور جس شخص نے اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا سرپرست بنا لیا اس نے صریح نقصان اٹھایا۔‘‘

اس میں اللہ کی  تخلیق کو تبدیل کرنے کو شیطانی ہتھکنڈا قرار دیاہے ۔ شریعت اسلامیہ فطر ی تخلیق میں معمولی سی تبدیلی کو بھی برداشت نہیں کرتی ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود  فرماتے ہیں :

«لَعَنَ اللَّهُ الوَاشِمَاتِ وَالمُسْتَوْشِمَاتِ، وَالمُتَنَمِّصَاتِ، وَالمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ، المُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّهِ[20]»

’’اللہ تعالیٰ نے لعنت کی جسم میں سرمہ بھرنے اور بھروانےوالیوں پر ، بال اکھاڑنے والیوں پر اور خوبصورتی  کے لیے دانتوں میں خلا کرنےوالیوں پر ، اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کرنے والیوں پر ۔‘‘

جب اسلام  تخلیق خدا میں ایسی   معمولی تبدیلی کو برداشت نہیں کرتا ہے جس سے نہ جسم میں کوئی بڑی تبدیلی آتی ہےاور نہ شرعی حقوق و فراض میں کوئی الجھن پیدا ہوتی ہے ، تو وہ  اس تبدیلی کو کیونکر قبول کرسکتا ہے جس سے  کلی طور  انسانی صنف ہی تبدیل ہوجائے  ، حقوق و فرائض، ستر و حجاب ،  حلت و حرمت کا سارا نظام درہم برہم  ہوجائے۔

اس کے علاوہ   ٹرانس جینڈر  ایکٹ سے خواتین  کی عزت  خطرے میں پڑ جائے گی ،  کیونکہ ایکٹ میں لکھا ہےکہ اگر کوئی شخص ’نادرا ‘ کو درخواست دیتا ہےکہ میں اپنی ظاہری جسمانی حالت کے برعکس احساسات پاتا ہوں ، تو’ نادرا‘ اسے مطلوبہ صنف کا شناختی کارڈ دینے کا پابند ہے ۔ مثلاً ایک مرد عورت کا شناختی کارڈ بنا کر خواتین کے ہاسٹل میں قیام پذیر ہوسکتا ہے ۔ ہسپتال کے زنانہ وارڈ میں  قیام کرسکتا ہے، خواتین کے باتھ رومز میں جا سکتا ہے۔ ایسی صورت میں خواتین کی عزت کا تحفظ کیونکر ہوسکتا ہے ۔ یہ موہوم خطرات نہیں بلکہ امریکہ میں ہونے والے ایک حالیہ واقعے میں ایک مرد صنف شناخت کی تبدیلی کے بعد کسی جرم کے سبب  زنانہ جیل میں  چلا گیا ، اس نے دو قیدی خواتین کو حاملہ  کردیا ۔  اسی طرح کوئی عورت مرد کا سارٹیفکیٹ  حاصل کرکے وراثت میں زیادہ  حصہ  لے سکتی ہے ۔  گویا ٹرانس جینڈر ایکٹ کے اثرات معاشرے کے ایک ایک پہلو پر پڑتے ہیں ۔

معلوم   ہوتا ہے کہ حکومت نے یہ قانون اگر چہ   مخنثین  کے حقوق کے تحفظ کے  نام پر  بنایا ہے لیکن درحقیقت یہ قانون  اقوام متحدہ کے ہم جنس پرستی کی اجازت دینے والے  قانون   کو اپنے یہاں لاگو   کرنے کے لے  بطور سہولت کار بنایا ہے   ، خصوصاً جب خنثیٰ کمیونٹی  جن کے حقوق  کا تحفظ کرنے کے نام پر یہ قانون بنایا گیا ہے اس قانون کی مخالفت کررہی ہے ۔

  انسانی تاریخ میں حضرت لوط علیہ السلام کی قوم نے ہم جنس پرستی جیسا  غیر فطری  اور قبیح عمل شروع کیا تھا۔  قرآن مجید میں  ان کاتذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے:

﴿ وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ۰۰۸۰ اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّنْ دُوْنِ النِّسَآءِ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ۰۰۸۱وَ مَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْۤا اَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ قَرْيَتِكُمْ اِنَّهُمْ اُنَاسٌ يَّتَطَهَّرُوْنَ۠۰۰۸۲فَاَنْجَيْنٰهُ وَ اَهْلَهٗۤ اِلَّا امْرَاَتَهٗ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِيْنَ۰۰۸۳وَ اَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ مَّطَرًا فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِيْنَ﴾ [الأعراف80۔85]

’’ اور جب لوط کو ( ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا تو )انہوں نے اپنی قوم سے کہا :تم ایسی بے حیائی کا کام کیوں کرتے ہو جسے دنیا میں سے تم سے پہلے کسی نے نہیں کیا۔یعنی خواہش نفسانی پورا کرنے کے لئے عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس آتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم لوگ حد سے نکل جانے والے ہو۔اور ان سے اس کاکوئی معقول  جواب نہ بن پڑا تو بولے کہ ان لوگوں (یعنی لوط کے گھرانے)  کو اپنے گاؤں سے نکال دو کہ یہ لوگ پاک بننا چاہتے ہیں۔تو ہم نے انہیں اور ان کے اہل خانہ کو بچا لیا مگر ان کی بیوی نہ بچ سکی، وہ پیچھے رہنے والوں میں ہو گئ، تو ہم نے ان پر (پتھروں کی ) بارش برسائی ،پس دیکھ مجرموں کا انجام کیسا ہوا!۔‘‘

اگر اس ایکٹ  سے حکومت کا مقصد یہ نہ بھی ہو  ، تب اس کا نتیجہ تو یہی نکل رہا ہے۔ لہٰذا اسے  منسوخ کیا جائے ، خنثیٰ لوگوں کی اصلاح اور  ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے شریعت کی روشنی میں نظام وضع کرنا چاہئے۔

 المختصر !

  1. شریعت اسلامیہ میں خنثیٰ  کوئی الگ نوع یا صنف نہیں ہے ، بلکہ وہ اپنی جسمانی علامات کے اعتبار سے مرد ہیں یا عورت ۔
  2. کسی مرد خواجہ سرا کےلیے جائز نہیں کہ وہ عورتوں والا گٹ اپ اختیار کرے ۔
  3. وہ جسمانی اعتبار سے جو ہیں اسی حساب سے ان کے حقوق و فرائض اور احکام ہیں ۔
  4. ان کے لیے مانگنے یا ناچ گانےکا پیشہ اختیار کرنا حرام ہے ۔
  5. اگر وہ اسلام کے اس حکم پر عمل کرلیں تو انہیں الگ سے کسی نظام کی ضرورت ہی نہیں رہتی ۔
  6. ان میں سے جن لوگوں کے اعضاء تناسل علاج سے  درست ہوسکتے ہیں ، انہیں طبی امداد دینی چاہئے تاکہ وہ نارمل زندگی بسر کرسکیں ۔
  7. جن لوگوں کو جینز پرابلم ہے ، ان کا بھی علاج ہونا چاہئے ، مزید ایسے لوگ کوشش کرکے اپنی فطری صنف کے مطابق زندگی بسر کریں۔
  8. محض اندرونی احساس کی بنیاد پر خود کو دوسری صنف اور مختلف صنف تصور کرنا جائز نہیں ہے ،اسی طرح  ہم جنس سے شادی  کرنا یا لواطت کا مرتکب ہونا حرام ہے ۔

کسی بھی صورت صنف  تبدیل کرنا اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو تبدیل کرنا ہے ، جو قطعاً حرام ہے ۔

 

[1]     الإشراف على مذاهب العلماء لابن المنذر(4/368)،رقم المسئلة:2343

[2]     سنن الترمذی :2787۔ حسن                           

[3]     سنن النسائی: 5117                       

[4]      صحيح البخاری :5846

[5]      صحیح مسلم : 2180

[6]      مغنی المحتاج :128/3۔ المبسوط :382/12

[7]     صحیح بخاری :5240

[8]      صحیح مسلم :1437

[9]      المغنی :462/2

[10]   فتح القدیر :222/22۔ التمهید :273/22۔ مغنی المحتاج :128/3

[11]   الشرح الممتع :160/12                  

[12]              سبل السلام :1/5

[13]   مسند احمد :2915۔ حسنه شعیب الأرنؤوط 

[14]   سنن ترمذی: 1456۔ أبوداؤد :4462

[15]    سنن الترمذی:2980۔ حسن

[16] http://www.express.pk/story/35119

[17]             فتح الباری :332/10

[18]             صحیح بخاری :5886

[19]             صحیح بخاری :5885

[20]              صحيح البخاري :5948