کیا تیسری جنس حقیقت ہے؟

    قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’ ہم نے تمہاری جنس میں باہم جوڑے بنادیے تاکہ تمہاری نسل زمین میں پھیلے۔‘‘[الشوریٰ]اور اس جوڑے بنانے کوکئی جگہ اپنی نشانی کے طور پر ذکر کیا ہےکیونکہ اس کے ذریعے خدا نے انسان اور دیگر مخلوقات کی زمین میں بقا کا بندوبست کیا ہے۔ انسان چونکہ اشرف المخلوقات ہے تو اسے اس تعلق کے لیے نکاح کا پابند کیا ہے تاکہ نئے آنے والے انسان کو محفوظ اور محبت بھرے ماحول کی ضمانت ملے۔قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ خدا نے دو اصناف نر اور مادہ بنائی ہیں [اللیل]۔یہ بھی بتایا کہ لڑکے اور لڑکی میں فرق ہے[آل عمران]۔ سوال یہ ہے کہ پھر تیسر ی جنس کہاں سے آئی؟اس کوسمجھنے کے لیے طبی،معاشرتی،اور نفسیاتی تینوں پہلوؤں کو الگ  الگ کرنا ضروری ہے۔ یہ انسان جنہیں تیسری جنس،خنثی ، خواجہ سرا ،ہیجڑایا ایسے ہی دیگر ناموں سے پکارا جاتا ہے تاریخ میں ہر معاشرت اورہر خطے میں موجود رہے ہیں، بےشک ان کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم رہی ہو۔

نبی کریمﷺ کے دور میں یہ نماز پڑھتے ،جہاد اور دیگر امورِ خیر میں شریک ہوتے تھے، جب معاشرت کے احکامات آچکے، محرم نامحرم کی تہذیب انسانیت کو مل گئی،تب یہ اندرون خانہ آتے جاتے تھے یہاں تک کہ اِدھر کی باتیں اْدھر کرنے پر انہیں عورتوں میں بے روک ٹوک آنے سے منع فرما دیا گیا۔اس کے سوا شریعت ان کے انسانی حقوق، معاشرے میں کردارکے لیے کوئی فرق روانہیں رکھتی، یہ کسی بھی انسان کی طرح مکمل، باصلاحیت، ذمہ داراور خدا کو جواب دہ ہیں۔یہ اسی طرح ہیں جیسے پیدائشی طور پر ماں کے پیٹ میں جنین کے بعض اعضا نارمل طریقے سے نشونما نہیں پاتے اور پیدا ہونے والے بچے کو یا تو اس نقص کے ساتھ جینا پڑتا ہے یا پھر علاج ممکن ہو تو کروا لیا جاتا ہے۔مگر چونکہ یہ نقص جنسی بناوٹ یا تولیدی نظام سے متعلق ہوتا ہے اس لیے ایسے انسان کو خوامخواہ تیسری جنس سے موسوم کردیا جاتا ہے۔ پرانے زمانوں میں بہت سے پیدائشی نقائص کا علاج نہیں ہوتا تھاجو اب میڈیکل سائنس کی ترقی سے سرجری اور علاج سے ٹھیک ہو جاتے ہیں یا نقص کی شدت کم ہو جاتی ہے اورنارمل زندگی کسی حد تک ممکن ہوتی ہے۔ جنسی یا تولیدی نظام کا مسئلہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔ میں ڈاکٹر انصر جاوید کا ذکر کرنا چاہوں گی جو اپنے رفاہی ادارے میں ایسے بچوں کا علاج کرتے ہیں اور بے شمار دعائیں لیتے ہیں۔ ایک مقامی چینل پر ان کی گفتگو سنی جس نے بہت سی گتھیوں کو سلجھایا۔ جو بات سمجھ میں آئی وہ یہ ہے کہ یہ انٹر سیکس (Intersex)  یا ہیجڑاپن چار قسم کا ہوتا ہے۔ پہلے وہ جو بطور جنین اپنی شناخت رکھتے تھے خواہ لڑکی یا لڑکا، مگر پیدائش کے وقت تک اپنی جنس کے مطابق ان کے اعضا ٹھیک سے نہ بن سکے۔یہ افزائش نسل کے قابل نہیں ہوتے اوران کا معاملہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے دیگر بانجھ مردو خواتین کا ہے، ان کے لیے اپنی جسمانی ساخت کے مطابق اپنی شناخت اختیار کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔یہ اس طبقے کا محض دو فیصد ہیں۔ دوسرے وہ جو دوہرے نظام کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ ایک خاص عمر کو پہنچ کر ٹیسٹ کے ذریعے پتہ لگایا جاتا ہے کہ ان کا کارآمد نظام کون سا ہے، اسے رکھ کر دوسرے کمزور نظام کو سرجری اور علاج کے ذریعے جسم سے ختم کر دیا جاتا ہے اور وہ ایک متعین جنس کے ساتھ نارمل زندگی گزارتے ہیں۔ تیسری قسم میں اسّی سے نوے فیصد لڑکیاں ہوتی ہیں جو مکمل تولیدی نظام کے ساتھ پیدا ہوتی ہیں مگر نسوانی حصے کی بناوٹ نامکمل رہ جاتی ہے۔ سرجری کے ذریعے ان کا نقص بھی دور کرکے ان کو شادی اور ماں بننے کے قابل بنا دیا جاتا ہے۔ چوتھی قسم وہ ہے جس میں پیدائش پر ظاہری اعضا واضح نہ ہونے کی وجہ سے ماں اپنا اندازہ لگاتی ہے اور ایک جنس کی شناخت دے کر بچے کو پالتی ہے۔ بلوغت کے قریب پہنچنے پر جسم میں ہارمونزبنتے ہیں اور اصل جنس واضح ہونے لگتی ہے جو ماں کی دی ہوئی شناخت سے مختلف ہو سکتی ہے۔ ایسی صورت میں ٹیسٹ کے ذریعے ایکس وائے کروموسومز کا تناسب جانا جاتا ہے، دو یا تین سرجریاں ہوتی ہیں، کچھ عرصہ ٹریٹ منٹ ہوتی ہے ، بالآخر اس بچے کی اصل جنس واضح ہو جاتی ہے، وہ بھی اس کے بعد نارمل زندگی گزارنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ڈاکٹر انصر نے بتایا کہ اب تک ان کے رفاہی ادارے کے تحت ۱۷۱ایسے افراد سرجری کے بعدواضح جنس کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم اکثرسنتےہیں کہ لڑکی لڑکا بن گئی ہے ، ایسے تمام کیسز میں جنس تبدیل نہیں ہوتی ، درست ہوتی یا متعین ہوتی ہے۔جتنا اس معاملے میں آگاہی پھیلے گی اور علاج کے ادارے موجود ہوں گے جو اس مہنگے علاج کوزکوٰۃ فنڈ سے ممکن بنا رہے ہیں،ایسے افراد صحت مند اور نارمل زندگی گزاریں گے اور معاشرے میں ان کا تناسب مزید کم ہوتا جائے گا۔ اس تفصیل کو جان لینے کے بعدواضح ہوا کہ ہیجڑاہونا دوسرے  پیدائشی نقائص کی طرح ایک نقص ہے اور زیادہ تر صورتوںمیں قابل علاج ہے،اور جن کا علاج نہیں ہوتا (جن کی تعداد بہت ہی کم ہے)وہ بھی اپنی ایک صنف متعین کرکے معاشرے کا کار آمدحصہ بن سکتے ہیں۔

 تیسری جنس کی اصطلاح بے کار معلوم ہوتی ہے اور فطری سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس وقت جو ساری دنیا کو ایل جی بی ٹی نام کا ’وختا‘ ڈال دیا گیا ہے اس کی حقیقت کیا ہے؟بیرونی دنیا سے کسی بھی معاملے میں اپنا ڈیٹا بھرتے ہوئے جنس کے خانے میں مردعورت کے ساتھ کوئی اور((other یا غیر متعین (unspecified) کاآپشن کیوں آتا ہے؟ اور ہمارے ہاں کچھ لوگ اس معاملے میں بڑھ چڑھ کر کیوں بول رہے ہیں؟اس کے لیے ہمیں ایک اور اصطلاح کے بخیے ادھیڑنے ہوں گے اور وہ ہے’’ ٹرانس جینڈر ‘‘ یا  ’’مخنث‘‘۔  

یہ ٹرانس جینڈر یا خواجہ سرا وہی مخنث حضرات ہیں جو بقول اکبر ’’نہ ہییوں میں نہ شییوں میں‘‘ ،فرق یہ کہ ہوتے مرد ہیں مگر عورتوں کی سی چال ڈھال اپناتے ہیں ، یا عورت ہیں مگر مردانہ پن اختیار کیے ہوئے ہیں۔نتیجہ یہ کہ جنسی تعلق کے لیے اپنی ہی صنف کی طرف راغب ہوتے ہیں۔اس کی وجہ کوئی جسمانی کمی نہیں بلکہ یہ امریکی نفسیات دانوں کے نزدیک جینڈر ڈس فوریا (Gender dysphoria)یعنی صنفی شناخت کی خرابی پر مبنی رویہ ہے،ایک ایسی نفسیاتی بیماری جس میں متاثرہ شخص خود کواپنی پیدائشی جنس کے الٹ جنس میں محسوس کرتا ہے اور اپنی ہی صنف کے افراد میں جنسی کشش محسوس کرتا ہے۔عموماًتین سے چار سال کی عمر کے بعددماغ میں کوئی ایسی رطوبت خارج ہوتی ہے جو بچے میں یہ الجھن پیدا کردیتی ہے کہ اس کی صنف وہ نہیں جس کے ساتھ وہ ہوا ہے بلکہ دوسری ہے۔ایسے بچے کو کئی طرح کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ اپنے اندر اپنے ہی جسم کے خلاف ایک جنگ لڑرہاہے، اپنے گھر، خاندان، تعلیمی ادارے میں اس کو قبولیت نہیں مل رہی،نہ معاشرے میں،وہ ایسی شدید کشمکش کا شکار ہے جو اسے خودکشی تک لے جاسکتی ہے۔وہ ہمدردی اور علاج کا مستحق ہے۔ڈاکٹر انصر جاویدبتاتے ہیں کہ بارہ سال تک کی عمر میں ایسے مریضوں کاعلاج بہت آسانی سے ہو جاتا ہے، اس کے بعد یہ مسئلہ سنگین ہو سکتا ہے۔ ٹرانس جینڈر (Transgender) میں سر فہرست یہی جینڈر ڈس فوریا  (Gender dysphoria) کے مریض ہیں جن میں ایک قسم وہ ہیں جو ٹھیک ہونا چاہتے ہیں، اس بیماری سے لڑتے ہیں، مسلسل اپنے اس غیر فطری نفسیاتی رجحان کا مقابلہ کرتے رہتے ہیں اور نارمل زندگی جینا چاہتے ہیں۔مختلف تھیراپیز موجود ہیں جو ان کی مدد کرتی ہیں اور یہ مرض ٹھیک بھی ہو جاتا ہے۔امریکی ماہرین نفسیات نے اس کی تشخیص اور علاج پر تفصیلی رہنمائی مہیا کررکھی ہے۔اسلام سمیت سب ابراہیمی مذاہب نے  ہم جنس پرستی کو غیر فطری قرار دے کر شدت سے ممنوع کررکھا ہے،تو یہ ممانعت بھی ایسے مریضوں کو صحت یاب ہونے میں مدد کرتی ہے۔

اسلام نے تو اپنی پیدائشی صنف کو’ٹرانس‘ (Trans)کرنے کا تصور ہی یہ کہہ کر منع کردیا ہے کہ وہ مرد جو عورتوں جیسی چال ڈھال اور وہ عورتیں جو مردوں جیسی وضع قطع اختیار کریں اللہ کے ہاں ملعون ہیں[ صحیح بخاری ]۔ دوسرے وہ ہیں جو اتنی ہمت کرنے کے قائل نہیں یاخود پرکنٹرول نہیں کرسکتے اور اس کشمکش کے آگے ہتھیار ڈال کر خود کو علی الاعلان ظاہر کردیتے ہیں اور صنفی شناخت کی خرابی کو ہی اپنا طرزِ زندگی بنا لیتے ہیں بلکہ اس کو قابلِ فخر ظاہر کرتے ہیں۔بعض کیسز میں یہ اپنی پیدائشی صنف سے اس قدربیزار ہوتے ہیں کہ سرجری کے ذریعے اسے ختم کرنے اور دوسری صنف بننے پر تل جاتے ہیں نتیجہ یہ کہ بے جنس رہ جاتے ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جن کے بہانے زمانہ قدیم میں بھی اور آج بھی نئے نئے ناموں سے انسانیت گمراہی کے راستے پر چل رہی ہے۔ اس پر ہم آگے بات کریں گے۔

ان کے علاوہ ہمارے ہاں خود ساختہ ٹرانس جینڈر(Transgender)بھی ہیں جو خواجہ سرا ہیں ہی نہیں،نہ جسمانی نہ نفسیاتی ، چنگے بھلے مرد ہیں مگر روزگار کی خاطر زنانہ روپ دھار کر گداگری یا ناچ گانے کا پیشہ اختیار کرتے ہیں۔ان کی وجہ سے خواجہ سراکمیونٹی کا حجم خواہ مخواہ بڑا نظر آنے لگتا ہے۔پھراس قسم میں وہ نارمل لوگ بھی آتے ہیں جنہیں ان کے ماں باپ اپنی کم علمی یا خواہش کی بنا پر بچپن ہی سے دوسری صنف کی طرح پرورش کرتے ہیں۔ بیٹے کو بیٹیوں کی طرح پالنا اور بیٹی کو بیٹوں کی طرح۔ نوجوانی کی دہلیز پر آکرایسا بچہ اپنی جسمانی شناخت کے مطابق زندگی کے تقاضے نبھانے سے انکاری ہوجاتا ہے کیونکہ اس کی conditioning دوسری صنف کے مطابق ہو جاتی ہے۔یوں والدین اپنے اچھے بھلے نارمل بچے کو نفسیاتی مریض بنا ڈالتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہیجڑا پن کوسنگین معاشرتی مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔

حل یہ ہے کہ ایک توصنفی نقائص کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کوان کے گھروں میں دیگر پیدائشی نقائص والے بچوں کی طرح قبولیت دی جائے، انہیں اس مظلوم کمیونٹی کے نیٹ ورک کا حصہ نہ بننے دیا جائے جہاں وہ سیکس ورکرکے طور پہ کام کرنے پر مجبور ہوں اور ایک اذیت بھری زندگی گزاریں۔ان کا علاج کرنے والے ادارے اور تنظیمیں قائم کی جائیں،جو ان کی بہبود کے بارے میں معاشرتی آگاہی پھیلائیں۔وہ تعلیم اور روزگار حاصل کریں اور ایک نارمل زندگی جیئیں۔پاکستان میں اس کمیونٹی پر کی گئی تحقیق بتاتی ہے کہ ان کے گرو چیلا کے نظام میں اپنے تابع رکھنے کے لیے ہیجڑوں پر بہت ظلم کیا جاتا ہے۔اگر ان کے علاج اور بحالی کے ادارے فعال ہوں تو انہیں اس مافیا قسم کے نیٹ ورک کا حصہ نہ بننا پڑے۔ اسلام آباد میں ان کے لیے ایک ہیجڑا رانی نے قرآن کی تعلیم اور ہنر سکھانے کے لیے مدرسہ بنایا ہے جو بہت اچھا قدم ہے۔

چوکوں ،چوراہوں پر مصنوعی یا اصلی ہیجڑوں کی ٹولیوں کو گداگری سے ہٹا کر کام پر لگایا جائے تاکہ اس طبقے کا مبالغہ آمیز تأثر قائم نہ ہو۔مناسب قانون سازی بہت اہم ہے تاکہ ان کے جنسی استحصال اوران پرظلم وتشدد کا راستہ بندہو۔2011ء میں سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ نادرا میں ہیجڑوں کی شناخت ’’تیسری جنس‘‘کے طور پر کی جا ئے نیز ووٹ کاحق، شناختی کارڈ ،حکومتی اداروں میں ملازمت کے مواقع دیے جائیں۔ اس کے  بعد 2018ء میں  اس طبقے کے لیے جو قانون بنایا گیا وہ تحفظ حقوق ٹرانس جینڈرافرادایکٹ کہلاتا ہے۔اس میں اچھے نکات ہیں مگراس قانون پر آگاہی کی بہت ضرورت ہے کیونکہ اس کا ایک اہم بین الاقوامی تناظر ہے۔

پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ قرآن و سنت سے متصادم کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی جبکہ یہ ایکٹ تو صریحاً   آئین سے بھی متصادم ہے،بلکہ اصولی اور تکنیکی طور پرٹرانس جینڈر کا نام ہی آئین سے متصادم ہے۔

نون لیگ کی حکومت میں پیپلزپارٹی کے سید نوید قمر نے یہ بل پیش کیااور سارے ہاؤس نے منظور کیا۔اس ایکٹ میں ٹرانس جینڈر کی تعریف میں تین اقسام درج ہیں:

۱)انٹر سیکس (Intersex)  یا ہیجڑا (جسمانی طور پہ) ،              ۲) یونک (حادثاتی  یا رضاکارانہ نامرد)اور

۳)ٹرانس جینڈر یاخواجہ سرا کوئی بھی ایسا شخص جس کی صنفی شناخت یا صنفی اظہارمعاشرتی اقداراورکلچر کی توقعات کے برعکس ہو، اس بنا پر کہ اس کی پیدائشی صنف کوئی دوسری  ہے۔

اب ذرا دوسری اور تیسری قسم پرغور کریں! ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ قانون محض ہم جنس پرستی کے حامیوں کی خاطر بنایا گیا ہے ورنہ آئین پاکستان پہلے ہی ہر شہری کو بلاتفریق تمام بنیادی انسانی اور شہری حقوق کی ضمانت دیتا ہے، اور2011ء کی رولنگ خاص ہیجڑا کمیونٹی کے لیے حقوق کی مزید ضمانت دیتی ہے۔تعزیرات پاکستان میں ہم جنس پرستی جرم ہے۔سینیٹر مشتاق خان نے ترمیمی بل پیش کیا کہ جنس کی تبدیلی کے لیے طبی اور نفسیاتی ماہرین کے بورڈ سے سند لینا ضروری ہو، اور جینڈر ڈس فوریا  (Gender dysphoria) کے مریض جنس تبدیل نہ کراسکیں،اس پر شیریں مزاری صاحبہ نے مخالفت کی۔چار سال ہوگئے،عوام کو تو ابھی تک علم نہیں کہ کوئی  ایسا قانون پاس ہوا ہے جس پر نہ صرف خود پاکستان کے نام نہاد ’لبرل‘طبقے حیران ہوئے کیونکہ یہ ان کی توقعات سے بھی بڑھ کر’پروگریسو‘ تھا بلکہ بین الاقوامی میڈیانے بھی اس کو ایک ’’قدامت پسند‘‘معاشرے کے لیے حیران کن اور تاریخی قرار دیا۔ایمنسٹی  (Amnesty) نے یہ کہہ کر بغلیں بجائیں کہ پاکستان ایشیا کا پہلا اوردنیا کے چند ممالک میں سے ہے جس نے خودساختہ صنفی پہچان کو قانونی طور پہ تسلیم کرلیا ہے۔یہ ہے وہ رویہ جو ابھی مغربی ممالک کے باشندوں کو بھی ہضم نہیں ہورہا اور کئی ادارے اور تنظیمیں اپنے طور پہ بے چینی کا اظہار کرتے رہتے ہیں، اس کابیج پاکستان سمیت دیگر اسلامی ممالک میں لگانے کی سر توڑ کوششیں جاری ہیں۔انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس نے پاکستان میں اس ایکٹ کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ بین الاقوامی قانون کی پابندی کے لیے بناہے   ۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو  کوئی مجبوری نہیں تھی، یہ محض ایل جی بی ٹی (LGBT) پلس ہم جنس پرستی کی عالمی تحریک کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے بنایا گیاہے۔ اہلِ مغرب میڈیکل سائنس کی تمام تر ترقی کے باوجودجینڈر ڈس فوریا  (Gender dysphoria) کے مریضوں کے بہانے اس انتہا کو پہنچے۔پہلے پیدائشی ابنارمل قسم کونفسیاتی قسم کے ساتھ ملا کر ایک کلب بنا دیا اور پھران کے جنسی حقوق کی تحریک چلا دی۔ الہامی مذاہب کے اثرات کی بنا پرجدید دنیا میں بیسویں صدی کے آغاز تک ہم جنس پرستی کو ایک معاشرتی برائی سمجھا جاتا تھا اور یہ ایک قابلِ سزا  جرم تھا۔1895 ءمیں مشہور ڈرامہ نگار آسکر وائلڈ کے مقدمے نے یورپ اور امریکہ میں بے حد شہرت پائی تھی۔اس کے بعد رفتہ رفتہ پہلے اس کے لیے معاشرے میں قبولیت پیدا کی گئی، پھر ایک طویل جدوجہد کے بعد اس کوجرم قرار دینے والے قوانین سے چھٹکارا حاصل کیا گیا۔ امریکہ میں یہ سلسلہ 2003ء  تک مکمل ہوا۔ اس کے باوجود ایسے لوگوں کو اسّی کی دہائی کے آغاز تک جسمانی یا نفسیاتی مریض کے زمرے میں رکھا جاتا تھابلکہ امریکی نفسیات دانوں کے نزدیک یہ آج بھی صنفی شناخت کی خرابی پر مبنی رویہ ہے۔پھراسّی کی دہائی میں برطانیہ اور امریکہ میں ان پر ٹی وی soaps چلانے  کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد شور مچنے کے باوجود اس سلسلے نے رکنے کا نام نہیں لیایہاں تک کہ میڈیا کی برکات سے یہ مغرب میں نہ صرف لائف سٹائل بن گیا، بلکہ اس طرزِ زندگی کی حمایت کرنا آپ کے موڈرن ا ور روشن خیال ہونے کی علامت ٹھہرا۔اب جب اپنی ہی جنس سے تعلق کوقانونی بنا دیا گیا تو پھر جینڈر ڈس فوریا  (Gender dysphoria) ہی کے مریض کیوں ،سب کو اس سے موقع دستیاب ہونے لگا ۔ چنانچہ اس قبیح عمل کی خاطر ٹرانس جینڈر سے بڑھ کر مزید نام گھڑے گئے جو پچھلے دس برسوں میں دیکھتے ہی دیکھتے دو چار سے کوئی دس بارہ ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے، اس دروازے کو کھلا رکھنے کے لیے ان اقسام کو گنوانے کے بعد otherیعنی کوئی اور کا بھی اضافہ کردیا جاتا ہے تاکہ یہ بھی تشنہ نہ رہ جا ئیں۔پھر فطری طور پہ اگلا قدم خاندان کی نئی تعریف تھا۔ سروے میں ا    ٓد ھے امریکیوں نے یک صنفی ’’شادی‘‘ کو قانونی حیثیت دینے کی حمایت کی جبکہ مخالفت کرنے والوں کی اکثریت اسے مذہبی اور اخلاقی بنیادوں پر غلط اور خاندانی نظام کی جڑیں کاٹنے کے مترادف سمجھتی تھی۔ بہرحال امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا کے تقریباً تمام ملکوں میں یک صنفی شادی کو قانونی حیثیت دے دی گئی البتہ جاپان کے وزیرا عظم ابھی تک ڈٹے ہوئے ہیں، جس پر انہیں قدامت پرستی کا طعنہ ملتا ہے۔قوانین بن گئے، کلچر ڈھال دیا گیا، ہر جگہ صنف کی ورائٹی کا اندراج کردیا گیا، جینڈر دو نہیں بلکہ پورا سپیکٹرم ہو گیا یعنی قوسِ قزح اور علامت بھی قوسِ قزح مقرر ہوگئی۔دو پھیلے ہوئے پر آزادی بلکہ آزاد روی کی علامت کے طور پہ ساتھ شامل ہو گئے۔ Heteronormativity اور ہوموفوبک (Homophobic )جیسے الفاظ کاطعنہ بنا کر دنیا بھر کو ان مٹھی بھر افراد کی خاطر مجرم ڈکلیئر کردیا گیا۔ ہم جنس پرستی کوایک نارمل بلکہ پسندیدہ عمل سمجھنے کے اس رجحان نے جدید مغربی معاشرے کوتمام تر جدت پسندی کے باوجود قدیم عذاب یافتہ قوموں سے جوڑ دیا ہے۔انسانی حقوق کے نام پر بننے والا معاشرہ انسانی ہوس کے ہاتھوں کس قدر  قعر مذلت میں گر سکتا ہے یہ اس کی بدترین  مثال ہے اوراس آیت کی جیتی جاگتی تفسیر کہ’’ہم نے ان کے برے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا دیے‘‘۔انسانی عقل کتنی بھی ترقی کرلے، الہامی ہدایت کی کمی پوری نہیں کرسکتی۔