جنوری 2023ء

2018ء کے نام نہاد حفاظتی ایکٹ کی فریب کاری

2018ء کے نام نہاد حفاظتی ایکٹ کی فریب کاری

حضرت انسان کی مخفیات کے مغالطے

Sex انگریزی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’شہوت ‘کے ہیں” SEXI “اس عورت کو کہتے ہیں جس کی شہوت کسی طرح ٹھنڈی نہ ہو اور SEXY   ’قوۃ شہوانیہ ‘کو کہتے ہیں ،زبان ہمیشہ تہذیب کی ترجمان ہوتی ہے اس لئے ’علم نفسیات ‘کے امام ’فرائڈ ‘نے جب تمام انسانی قُویٰ میں اصل ’شہوت ‘کو قرار دیا تو انگریزی زبان میں SEX کا مفہوم جنسی امتیاز کے لئے مشہور ہو گیا ۔ اب عام طور پر SEX کے سوال کے بالمقابل  جواب ’نر ‘ Maleیا ’مادہ ‘ Femaleدیتے ہیں حالانکہ SEX وہ قوت جاذبہ ہے جو  نرو مادہ میں کِشش کی صورت ابھرتی ہے  ۔

بطور مثال چند ایک الفاظ ملا حظہ ہوں :

1-  Sexual Organs   (شہوانی اعضاء)      ۲-  Sexual Intercourse  (جماع)

3-Sexual Appetite (شہوانی خواہش)  4-Sexual Indulgence(شہوانی  لذت )

5- Sexualist (شہوانی علم کا ماہر)

مغربی تہذیب کو تو چھوڑیے خود لارڈ میکالے کے وضع کردہ نظام تعلیم نے برصغیر پاک وہند میں جو الفاظ کو غلط معنوں میں استعمال کیا ہے، اس کی مثال محبت اور عشق کا مترادف ہونا ہے چنانچہ استقلال پاکستان کے چند سال بعد ایک سکھ ایک ’مسلمان عورت‘ کے پیچھے پاکستان پہنچ گیا لیکن اسے حاصل نہ کر سکا اور اسی دکھ میں ریل گاڑی کے سامنے کود کر اس نے خود کشی کر لی تو ہمارے میڈیا نے اسے ’شہید محبت‘ قراردیا۔ ہماری عدالتیں معاشقوں کو محبت قرار دے کر جس طرح مغربی تہذیب کو فروغ دے رہی ہیں، اس سے ہمارا معاشرہ کس قدر بے غیرت ہو چکا ہے؟ اس کا ذکر ہی فضول ہے۔ یہی روش بڑھتے بڑھتے اب یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ عوام وخواص کی غفلت میں ہی چار سال قبل 2018ء میں   Transgender Protection Act(صنفی تبدیلی کی حفاظت کا قانون) بن چکا ہے اور اس کے خلاف آواز اٹھانے والے کی پکار ابھی تک صدا بہ صحراء ہے۔ 75سال سے ہمارےآئین اور قوانین کو  بدیسی زبان میں رکھنے کی بناء پر ہمارا معاشرہ ’وزارت قانون‘ کی ہیرا پھریوں سے آگاہ نہیں۔

بقول حافظ ابن قیم            عشق ایک’  نفسیاتی بیماری‘ ہے لیکن ہم اسے ’سچی محبت‘ قرار دیتے ہیں حالانکہ گھر میں ہی ماں، بہن اور  بیٹی کو اپنی سچی محبت بتانے کے لیے ماں سے عشق، بہن سے عشق اور بیٹی سے عشق کا اظہار کرکے دیکھ لیں تو سچی محبت کا سارا نشہ اتر جائے گا۔

مغربی مادر   پدر آزاد معاشرہ سے جو الفاظ چھن چھن کرکے آر ہے ہیں۔ ان کو ہمارے دانشور بھی سمجھنے سے قاصر ہیں۔ چند ماہ قبل جب معاشرہ میں TG PAپر کا رنر  میٹنگ  میں گفتگو شروع ہوئی تو اہل علم ودانش کی طرف  سے کچھ آوازیں بلند ہوئیں، ابھی چند ایک  تبصرے ہی نظر نواز  ہوئے تو معلوم ہوا کہ اکثر اہل علم ودانش اس قانون کے مفہوم سے ہی  نا واقف ہیں۔

ماہنامہ محدث لاہور نے  تعارف کی غرض جب ایسے مقالات کا جائزہ لیا تو اندازہ ہوا کہ ہمیں بہت  معمولی سی،انگریزی اصطلاح سے بھی واقفیت نہیں۔ معروف لفظ  SEX سے اکثریت نا واقف ہے البتہ لیڈی ڈاکٹروں کی تحریریں کسی حد تک اس اعتبار سے بہتر ہیں کہ ’گائنی‘ سے واسطہ  پڑنے کی بنا پر ناقص  الخلقۃ        بچوں سے لیکر کر بڑوں تک اس نقص وخلل کے بارے میں نئی اصطلاحات کا کچھ تعارف  ضرور ہواہے۔ محدث نے اس بیماری کی بعض کیفیتوں سے متعارف کروانے کے لیے صنفی تبدیلی کی حفاظت پر خاص نمبر نکالنے کا پروگرام بنایا ہے اور ابتداء اس لفظ SEX سے کی ہے جو اصل مغالطہ  کا باعث بنا ہے۔

محدث میں ہماری خواہش تھی کہ پہلے صرف طبی معلوماتی والے مضامین شائع کیے جائیں پھر انہی پر وحی ربانی کی روشنی میں تجزیے اور تبصرے ہوں۔ لیکن ایسی صورت حال کے لیے وسیع وقت چاہیے  جبکہ مسلمان  ڈاکٹروں نے فوری طور پر اپنی اسلامی معلومات کو پیش کرنا بھی ضروری سمجھا ہے۔ مناسب تو تھا کہ فقہ الواقع (واقعاتی صورتحال) کے درست تعین کے بعد فقہ الاحکام (شرعی رائے اور تبصرے) لائے جاتے لیکن عام ناواقفیت کی بناپر مسئلہ خلط مخلط ہو رہا ہے جس سے اضطراب مزید کا اندیشہ ہے۔ لہذا فوری پر "ما لا يدرك كله لا يترك كله"(سب کچھ نہیں تو کچھ پر اکتفاء)ہی کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ کما حقہ کی توفیق بخشے۔آمین             (ڈاکٹر حافظ عبدالرحمن مدنی)