كُل جماعتی اعلاميہ دفاعِ شعائر اللہ
مملکت اسلامیہ پاکستان میں پچھلے چند سالوں سے توہین مذہب اور اہانت رسول ﷺکے واقعات میں اضافہ اور تسلسل دیکھنے میں آرہا ہے ، جو اہل دانش کے لیے یقیناً تکلیف دہ امر ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت مختلف عدالتوں میں توہین رسالت ، توہین قرآن بلکہ اللہ تعالیٰ کی توہین کے کوئی چار سو کیس چل رہے ہیں جن میں سات سو سے زیادہ لوگ ملوث ہیں ۔اس سے بھی بڑھ کر تکلیف دہ امر یہ ہے کہ نظام ، قانون اور عدالتیں ایسے مجرموں کو فیور دے رہی ہیں ۔ اس چیز کو دیکھتے ہوئے مؤرخہ8 صفر 1447ھ بمطابق 3 اگست 2025ء، بروز اتوار قرآن و سنہ موومنٹ پاکستان ، جامعہ لاہور الاسلامیہ اور الحکمہ انٹرنیشنل کے اشتراک سے مرکز قرآن وسنہ (53 لارنس روڈ) لاہور،میں ’’رسول کریمﷺ، صحابہ کرام واہل بیت عظام اور شعائر اسلامیہ کی توہین، تنقیص اور تعریض کی شرعی وقانونی حیثیت‘‘ کے عنوان سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا ، جس میں مام مکاتب فکر کے علماء ومشائخ ، جماعتوں کے قائدین اور دانش وروں نے شرکت کی ، آخر پر سب کی طرف سے یہ متفقہ اعلامیہ پیشِ کیا گیا ۔یہ اعلامیہ دین اسلام کی ان بنیادی چیزوں پر مشتمل ہے جنہیں جاننا اور اپنے ایمان و عمل کا حصہ بنانا ہر مسلمان پر فرض ہے ، ان میں سے کسی ایک کا انکا کرنا کفر ہے ۔ یہ نکات کسی بھی اسلامی معاشرے کے لیے بنیادی اصول اور ٓئین کی حیثیت رکھتے ہیں ، انہیں اپنے یہاں نافذ کرنا اور ان کا تحفظ اور دفاع کرنا ہر اسلامی حکومت کا بنیادی فرض ہے، ان کے بغیر نہ کوئی معاشرہ اسلامی ہوتا ہے نہ کوئی حکومت مسلم حکومت کہلانے کی حقدار ہے۔ یہ اسلام کا ایک مکمل تعارف ہے جس کا مقصد ایک طرف قوم کی تعلیم و تربیت ہے اور دوسری طرف ذمہ داران اور قانون ساز اداروں کے لیے ایک پیغام ہے ۔ یہ اعلامیہ ملک میں امن و استحکام کا ضامن ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ دوسری قرار داد مقاصد ہے جسے پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے اتفاق سے پیش کیا گیا ہے اور اس کا حق ہے کہ اسے آئین پاکستان کا حصہ بنایا جائے ۔ ( ادارہ ) |
اَلْحَمْدُ ِللهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ ، وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلٰى خَاتَمِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ ، وَعَلٰى آلِه وَأَصْحَابِه أَجْمَعِيْنَ، أَمَّا بَعْدُ:
اسلام کتاب وسنت کا نام ہے[1]۔ کتاب وسنت پرعمل پیرا ہونا، اس کی نشر واشاعت اور غالب کرنے کی کوشش کرنا ہر مسلمان کا بنیادی دینی فریضہ ہے۔ فروغِ اسلام اور حفاظتِ دین کے لیے کتاب وسنت کی روشنی میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر ملتِ اسلامیہ کا منہاج ہے[2] ۔ حفاظتِ دین کے پیش نظر تحفظِ ناموسِ رسالتﷺ ، دفاعِ صحابہ و اہلِ بیت اور تعظیم شعائرِ اسلام کی جدوجہد واجباتِ شرعیہ میں سے ہے۔
1 - ناموسِ رسالتﷺ اورمنصبِ نبوت کا تحفظ
خاتم الرسل و الانبیاء ﷺ کو ہر قسم کے نظریات و شخصیات پر مقدم رکھنے، غیر مشروط محبوب ومطاع [3] ماننے اور ثابت کرنے کی جدوجہد؛ ناموسِ رسالت و منصبِ رسالت پر ایمان کا بنیادی تقاضا ہے۔
عقل، فطرت، لغت اور تاریخ کے بالمقابل حدیثِ نبوی کی حجیت کاصراحتاً و ارادتاً انکار کرنا [4]، کلی انحراف یا استہزا کرنا ، توہینِ نبوت کے مترادف اور منصب ِ نبوت پر ڈاکہ زنی ہے۔ ایسا کرنے والا ملتِ اسلامیہ سے خارج ہے۔ اسی طرح کتاب وسنت کے مسلّمات اور اجماعِ اُمت [5]کے خلاف محاذ آرائی سراسرگمراہی ہے۔ جبکہ کنایتاً ًجزوی طور پر انکار کرنے والا گمراہ ہے۔
کتاب وسنت اور اجماعِ اُمت کی روشنی میں مسلمانوں کا یہ بنیادی عقیدہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے برحق آخری رسول ہیں۔ آپ ﷺ کے بعد سلسلۂ نبوت اور وحیِ نبوت نہ صرف منقطع ہوا ہے بلکہ مکمل ختم ہو چکا ہے۔ لہٰذا اب جو شخص عقیدہ ختمِ نبوت کاانکار کرے اور یہ سمجھے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نیا رسول یا نبی آ سکتا ہے اُس کے کافر، مرتد اور زندیق ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے[6]۔
شانِ رسالت میں صراحتاًوارادتاً توہین، تنقیص اور تعریض [7] کرنا کفر، ارتداد، عہد شکنی اور دین دشمنی ہے، جس کا مرتکب شرعی اعتبار سے سزائے موت [8] کامستحق ہے، البتہ اس سزاکااختیارعدالت و حکومت کوحاصل ہے[9]۔
2 - توہینِ رسالت کے مجرموں کی فوری سزا
- حالیہ بلاسفیمی سازش کا سدباب کرنا ، پاکستانی مسلم حکومت کی آئینی وقانونی ذمہ داری ہے۔
- توہینِ ناموسِ رسالتﷺ کو روکنے اور عالمی سطح پر اسے جرم تسلیم کروانے کے لیے حکومت کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔
- جن مجرموں کوسزا سنائی جاچکی ہے، ان پر قانون وشریعت کی رو کے مطابق فوری عمل کیا جائے۔
- توہینِ مقدسات سے متعلقہ زیرِسماعت مقدمات کا بلا تاخیر فیصلہ کیا جائے۔
- قانون توہینِ رسالت کو غیرمؤثر بنانے اور ترمیم کرنے والے پروٹیکشن گروپ کی اندرونی وبیرونی فنڈ نگ کو بند کیا جائے، سوشل میڈیا وغیرہ پر ایسے توہین آمیز مواد اوراس کو پھیلانے والے عناصر پر فوری پابندی لگائی جائے اور قرار واقعی سزا دی جائے۔
- توہینِ رسالت کیسز کی غیرمعمولی اہمیت کے پیش نظر بین المسالک تحفظ ”شعائر اللہ فورم“ قائم کرکے متحرک کیا جائے۔
3 - مقامِ صحابہ واہل بیت
- انبیاء کرام oکے بعد جملہ صحابہ کرام واہل بیت عظام واجب الاحترام اور افضل ترین نفوسِ قدسیہ[10] ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے سید المرسلین ﷺ کی رفاقت [11]وصحبت، تبلیغ اور اقامتِ دین کے
لیے چنا[12]۔ - وہ رسول اللہ ﷺ کی تربیت کا بہترین ثمر، اللہ تعالیٰ کی جماعت[13] اور معیارِ ایمان [14]ہیں۔
- ان کو مغفرتِ ذنوب [15] اورجنت کی حتمی بشارتوں، الفائزون، المفلحون، رضي الله عنهم [16] اور وکُلًّا وَّعَدَ اللهُ الحُسْنٰی [17] کی سندیں حاصل ہیں۔
- اگرچہ ان کے ایمانی اور اُخروی درجات میں تفاوت ہے، جیسا کہ خلفائے راشدین [18]، عشرہ مبشرہ [19]، اہلِ بیت [20]، اصحابِ بدر اور اصحابِ شجرة ] وغیرہ۔ یہ سب کے سب اللہ تعالیٰ سے راضی اور اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہے۔
- وہ تفسیر، حدیث، فقہ اور علم وعمل کے ہر شعبہ میں سب سے بڑے اور اوّلین امام [21] ہیں۔
- صحابہ کرام واہل بیت yنبوت کے عینی گواہ اور سفیر ہیں، نزول ِ قرآن کے اولین مخاطب، حاضرینِ مجلس اور براہِ راست دین سمجھنے والے اور عدالت وامانت کے ساتھ اسےآگے نقل کرنے والے ہیں۔
- ملتِ اسلامیہ کو انہی کی بیان کردہ روایاتِ دین کے ذریعے اسلام اور اس کے جملہ احکام واعمال کی نعمت ملی۔ لہٰذا ان کے بعد ہونے والی تمام نیکیوں کا اجر اُن کو ملتا [22] ہے۔
- صحابہ کرام واہل بیت y کی اتباع کرنے والے محدثین ، مفسرین، فقہاء، زُہاد؛ اہل السنّہ والجماعہ اور ملتِ اسلامیہ کے مقتدیٰ و رہنما ہیں۔
- صحابہ کرام واہل بیت y کا روایتِ دین اور فکر وعمل میں منہج اختیار کرنا اسلام کی اساس ہے[23]۔
- جنتی گروہ صرف وہی ہے جو صحابہ کرام واہل بیت عظام y کے راستے [24] پر رہے۔
4 - صحابہ واہلِ بیت y کے متعلق اہل السنّہ والجماعہ کا اجماعی عقیدہ
- تمام صحابہ کرام اور اہلِ بیت y عادل [25]اور امین ہیں۔
- ان سے محبت کرنا دین [26]، ایمان، احسان [27] اور شرعی فریضہ ہے۔
- وہ رسول کریم ﷺکو سب سے زیادہ محبوب [28] ہیں، ان سے بغض رکھنا اللہ کے غیظ وغضب اور قہرو عذاب کا موجب ہے۔
- سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، سیدنا عثمان، سیدنا علی، سیدنا طلحہ، سیدنا زبیر، سیدنا حسن، سیدنا حسین، سیدنا ابوسفیان، سیدنا معاویہ، سیدنا عمروبن عاص، سیدنا مغیرہ بن شعبہ، سیدنا عمار بن یاسر، سیدنا ابو موسیٰ اشعری، سیدہ عائشہ و دیگر اُمہات المومنین اور جمیع صحابہ کرام و اہلِ بیت عظام y [29]میں سے کسی کی شان میں کسی بھی پلیٹ فارم پر صراحتاًیا اشارۃً توہین، تنقیص [30]اور تعریض کرنا بدعت، نفاق، طغیان اور اسلام میں طعنہ زنی و دین دشمنی ہے [31]۔
- ان پر تبرّا کرنا، تہمت لگانا [32]، تکفیر کرنا، اعتراضات اٹھانا اور ان کی عدالت و ثقاہت کی بابت شبہات [33] پیدا کرنا؛ ایمان کے منافی، اُمتِ مسلمہ کے اجماعی عقیدہ سے انحراف، موجبِ فسق ونفاق اور بدعت و
ضلال ہے۔
5- مشاجراتِ صحابہ سےمتعلق اہل السنّہ والجماعہ کا عقیدہ ومنہج
- صحابہ کرام واہلِ بیت عظام y کا باہمی اختلاف کتاب وسنت کی اطاعت و اتباع اور عقائد واُصول میں نہیں تھا بلکہ انتظامی اجتہادی امور میں تھا جو کہ فقہ الواقع کا تجزیہ کرنے کی بنا پر تھا [34]، لہٰذا مشاجراتِ صحابہ کے بارے صرف خیر کی بات کرنا یا خاموش رہنا [35] اہل السنّہ والجماعہ کا اجماعی عقیدہ ومنہج [36]ہے جبکہ مشاجراتِ صحابہ میں بحث ونظر کرنا امت کو اعتقادی وعملی فتنہ میں مبتلا کرنا ہے [37] ۔
صحابہ کرام واہلِ بیت عظام y کے اختلاف کو بنیاد بناکر ان میں سے کسی کی توہین ،تنقیص ، تعریض کرنا، کسی بھی قسم کا تجزیہ وتبصرہ یا تحقیقات پیش کرنا اور زبان درازی کرنا سراسر باطل عمل اور واضح گمراہی ہے [38] کیونکہ اختلافات میں ہر دو طرف کے صحابہ کرام واہلِ بیت عظام y علم ،اخلاص اور خیر خواہی کی بنیاد پر مجتہد ہونے کے ناطے سے اکہرے یا دوہرے اجر سے کبھی محروم نہیں رہے [39]۔
6 - صحابہ کرام واہلِ بیت کی توہین وتنقیص کرنے والا سنگین سزا کا مستحق ہے!
- صحابہ کرام و اہل بیت عظام y کی صراحتاًو کنایتاً توہین و تنقیص ، شرعی [40] قانونی سزا کی موجب ہے۔
- تاریخ اسلامیہ میں ایسے بدبختوں کو ہمیشہ سنگین سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
- اکثر بلادِ اسلامیہ میں نافذ العمل قوانین کی طرح پاکستان میں قانونی عمل کو مکمل کیا جائے۔
- پاکستانی اسمبلیوں میں ناموسِ صحابہ واہل بیت بِل 1993ء، تحفظِ بنیادِ اسلام بِل 2020ء پیش ہوئے ہیں۔ تحفظِ ناموسِ صحابہ واہلِ بیت ایکٹ 2023ء وغیرہ منظوری کے بعد ایوان صدر میں دستخط نہ ہونے کی بنا پر دوسالوں سے التوا کا شکار ہے، جس کو مکمل کرکے صحابہ کرام y کے گستاخوں پرشرعی اور قانونی سزا فوری نافذ کی جائے۔
7 - صحابہ واہل بیت کی توہین، تنقیص اور تعریض کرنے والا، اہل السنّہ والجماعہ کے منہج، مسلَّمات اور اجماعی عقائد سے منحرف اور گمراہ ہے، اس کا اہل السنّہ سے کوئی تعلق نہیں!
- خواہ وہ کوئی عام آدمی ہو یا کوئی خطیب وواعظ اور ذمہ دار ہو، یا کسی ادارے، تنظیم اورجماعت کا فرد ہو۔
- ایسے ہر شخص کی تمام اہلِ سنت مکاتبِ فکر ہر مجلس میں خوب سرزنش اور مکمل بائیکاٹ کریں۔
- نصیحت کے لوازمات مکمل کرکے توبہ پر آمادہ کیا جائے، بصورت دیگر شرعی وقانونی سزا کے اقدامات کریں ۔
8 - اہل السنّہ والجماعہ کا منہاج افراط و تفریط سے پاک ہے!
- ہم رافضیوں (شیخین یا کسی بھی صحابی سے بغض و عداوت رکھنے والوں) اور ناصبیوں (اہلِ بیت سے بغض اور دشمنی رکھنے والوں) اور ان کے ہم نواؤں کے فکر و عمل سے کھلا اظہارِ براء ت [41] کرتے ہیں اور ان کی مجلسوں میں شرکت کی سختی سے نفی کرتے ہیں۔
- اہل السنّہ والجماعہ سیدنا عمر فاروق، سیدنا عثمان غنی اور سیدنا علی المرتضیٰ y کے قاتلوں، ان کے معاونین اور ان کی شہادت پر راضی ہونے والوں سے مکمل براءت کا اظہار کرتے اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے قاتلوں نے خلافتِ اسلامیہ اور اُمتِ مسلمہ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
- نواسۂ رسول اور نوجوانانِ جنت کے سردار سیدنا حسین پر ظلم وستم ڈھانے والوں کے بارے میں ہمارا وہی موقف ہے جو اہل السنّہ والجماعہ کے سرخیل شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ V نے فرمایا ہے:
"وَأَمَّا مَنْ قَتَلَ الْحُسَیْنَ أَوْ أَعَانَ عَلٰی قَتْلِه أَوْ رَضِیَ بِذٰلِكَ فَعَلَیْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَلَائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ؛ لَا یَقْبَلُ اللهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا."(مجموع الفتاوی: 4/487)
’’جس نے بھی سیدنا حسین کو شہید کیا، یا ان کی شہادت میں کسی طرح کی کوئی مدد کی، یا ان کی شہادت پر وہ کسی درجے میں خوش ہوا تو اس پر اللہ تعالیٰ ، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔ اللہ تعالیٰ اس کی کوئی فرضی اور نفلی عبادت قبول نہ فرمائے۔‘‘
9 - تحفظِ شعائرِ اسلام
- شعائر اللہ اسلام کے ستون اور نظریاتی سرحدیں ہیں۔ قرآن مجید ، حرمین شریفین، مساجد، ارکانِ اسلام، قربانی، داڑھی اور حجاب و پردہ وغیرہ دین اسلام کی پہچان اور امتیازی علامتیں ہیں، جن کی تعظیم تقویٰ کا تقاضا [42]اور ان کی بے حرمتی صریحاً گمراہی اور بہت بڑی نافرمانی ہے [43]۔
- شعائر اسلام میں سے کسی ایک کی بھی صراحتاً وارادتاً تحقیر وتضحیک اور استہزا وتمسخر [44] اسلام کی اساسیات پر حملہ اور اُنہیں مسمار کرنا ہے جو کہ موجبِ ارتداد وکفر [45]یا باعثِ فسق ونفاق ہے۔
- بالخصوص قرآنِ کریم کی اہانت کرنا صریح کفر ہے [46]، جیسے اسے گندگی میں پھینکنا، روندنا، مذاق اُڑانا، شرمناک جگہوں پر لکھنا وغیرہ۔
- اسی طرح مساجد میں فلمیں بنانا، اُنہیں تفریحی مقام سمجھنا [47] اور ان میں مرد و زن کا فحش حرکات کرنا [48] مسجد کے تقدس کے منافی ہے۔
- موجودہ عالمی ماحول میں آزادی اظہار کے نام پر اسلام اور اس کے شعائر کو تضحیک، تحقیر اور تمسخر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو دراصل امتِ مسلمہ کی دینی شناخت پر حملہ ہے۔ جبکہ مسلمانوں نے ہر دور میں شعائرِ دین کے تحفظ کو جان و مال سے مقدم رکھا؛ یہ صرف جذباتی غیرت نہیں بلکہ ایمانی ذمہ داری اور اسلامی شعور کا مظہر ہے۔ لہٰذا اس کا دفاع واجب ہے، کیونکہ ان کی بے حرمتی سے تعلیماتِ شرعیہ کے تشخص کا خاتمہ ہوتا ہے، تہذیبِ اسلامی کا وقار ختم ہوتا ہے اور دین کے اصولوں اور اساسیات میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔
تجاویز وسفارشات
- بین المسالک تحفظِ شعائرِ اسلام فورم بنایا جائے جو شرعی قانون سازی کروانے اور پہلے سے موجود قوانین پر عمل درآمد کی مؤثر تحریک چلائے۔
- اس حوالے سے عوامی سطح پر موجود شکوک وشبہات کے تدارک کےلیے علماء وداعیانِ دین کی تحقیقی مجالس کا انعقاد کرے۔
- علمائے کرام رفع شبہات کی بابت علمی و تحقیقی کتب، مضامین اور تعلیمی اداروں کے لیے نصابی لٹریچر
تیار کریں ۔ - جبکہ داعیانِ دین دفع شبہات کے لیے تمام اسباب و ذرائع؛ خصوصاً سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر رِیلز، شارٹ کلپس اور پوڈ کاسٹس کے ذریعے مضبوط جدوجہد کریں۔
اہم قرار دادیں
- توہینِ رسالت کے مرتکبین کی سہولت کاری اور قانونِ توہینِ رسالت کو غیرمؤثر بنانے کے لیے عدالتی کمیشن بنانا، سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کی ہم نوائی ہے۔
- مسجد اقصیٰ اور اس کے گرد ونواح میں ہونے والے ظلم کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی نسل کشی کے ساتھ ساتھ مسجد اقصیٰ پر یہود کا تسلط ناقابلِ قبول ہے۔ اسی طرح دنیا بھر کی مساجد کے تقدس کی حفاظت اُمتِ مسلمہ اور مسلم حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔
- ٹرانس جینڈر بِل، عورت مارچ اور دیگر ذرائع سے پھیلائے جانے والی بے حیائی کی مذمت کرتے ہیں۔
- پرائیویٹ یا سرکاری تعلیمی اداروں میں طلبہ پر تشدد ناقابل تلافی نقصان ہے۔
- جرگے اور پنچایت کے حکم پر غیرت کے نام پر قتل کرنا ظلم و زیادتی ہے، جس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔
دفاعِ شعائر اللہ سیمینار میں پریس اور میڈیا کے لیے پیش کی جانے والی
تجاویز و سفارشات
- تحفظ ناموسِ رسالتﷺ، دفاعِ صحابہ و اہل بیت اور تعظیم شعائر اسلام کی جد و جہد واجباتِ شرعیہ میں سے ہے اور ہمارے ایمان کا تقاضا ہے۔
- رسول کریمﷺ کی توہین،تنقیص اور تعریض کرنا ملت اسلامیہ سے خارج ہونے کا سبب ہے، مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے اور وطن عزیز کے امن کو خراب کرنے کا باعث ہے۔
- صحابہ کرام و اہلِ بیت عظام اور شعائرِ اسلام کی توہین، تنقیص اور تعریض کرنا صریحاً گمراہی ہے اور بین المسالک فساد پیدا کرنے کی ناپاک کوشش ہے۔
- حالیہ بلاسفیمی کیسز میں سازش کا سد باب کرنا پاکستانی مسلم حکومت کی ذمہ داری ہے۔
- توہین ناموسِ رسالت کو روکنے کے لیے عالمی سطح پر اسے جرم تسلیم کروانے کے لیے حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
- بلاسفیمی کیسز میں جن مجرموں کوسزا سنائی جاچکی ہے، ان پر فوری عمل کیا جائے۔
- توہین سے متعلقہ زیرِ سماعت مقدمات کا فوری فیصلہ کیا جائے۔
- جن مقدمات کے بارے میں شکوک وشبہات کا اظہار کیا جارہا ہے ان کے بارے میں علماء کمیٹی کی موجودگی میں غور کرکے ان کے تحفظات کو دور کرنے کا اہتمام کیا جائے۔
- توہینِ رسالت کیسز کے ملزمان کو عدالت کے فیصلے سے پہلے گستاخ قرار دینا اور قتل کرنا شرعاً و قانوناً بہت بڑا جرم ہے۔
- قانون توہینِ رسالت کو غیرمؤثر بنانے اور ترمیم کرنے والے پروٹیکشن گروپ کی اندرونی وبیرونی فنڈ نگ کو بند کیا جائے اور سوشل میڈیا وغیرہ پر ایسے توہین آمیز مواد اور اس کو پھیلانے والے عناصر پر فوری پابندی لگائی جائے اور قرار واقعی سزا دی جائے۔
- اس مسئلے کی غیرمعمولی اہمیت کے پیش نظر بین المسالک ’’تحفظ شعائر اللہ فورم‘‘ قائم کر کے متحرک
کیا جائے۔ - حکومت سے اپیل کی جاتی ہے کہ اس مسئلے کی حساسیت کے پیش نظر اسی قدر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جائے اور شعائر اللہ کی تعظیم و تقدیس کو یقینی بنایا جائے۔
داعیان:
{ علامہ حافظ ابتسام الٰہی ظہیر (چیئرمین قرآن و سنہ موومنٹ پاکستان)
{ شیخ الحدیث مولانا محمد شفیق مدنی (مفتی ٔ قرآن و سنہ موومنٹ پاکستان)
{ڈاکٹرحافظ حمزہ مدنی(وائس چیئرمین قرآن و سنہ موومنٹ ، مدیر جامعہ لاہور الاسلامیہ ،پاکستان)
{ڈاکٹرحافظ انس نضر (ناظم دعوت و تبلیغ قرآن و سنہ موومنٹ، مدیر مجلس التحقیق الاسلامی، پاکستان)
{ڈاکٹرحافظ شفیق الرحمن زاہد(چیئرمین قرآن و سنہ موومنٹ ،پنجاب، مدیر الحکمہ انٹرنیشنل ، پاکستان
[1] «تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ اللّٰهِ وَسُنَّةَ رَسُولِهِ»(مؤطا امام
مالك: 3338)
” میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، جب تک تم ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے کبھی گمراہ نہیں ہوگے: اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ۔“
[2] ﴿ وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾
(آل عمران: 104)
”اور لازم ہے کہ تم میں ایک ایسی جماعت ہو جو بھلائی کی طرف بلائے، نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔“
[3] ﴿ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَ لَا تُبْطِلُوْۤا اَعْمَالَكُمْ﴾ (محمد: 33)
” اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال ضائع نہ کرو۔“
¯ عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ المُعَلَّى t، قَالَ: كُنْتُ أُصَلِّي فَمَرَّ بِي رَسُولُ اللهِ صلی الله علیه وسلم فَدَعَانِي، فَلَمْ آتِهِ حَتَّى صَلَّيْتُ ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقَالَ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تَأْتِيَ؟ أَلَمْ يَقُلِ اللهُ: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ﴾(صحیح البخاری: 4647)
’’سیدنا ابو سعید بن معلّیؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نماز پڑھ رہا تھا کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس سے گزرے اور مجھے بلایا،لیکن میں آپ کے پاس نہ آیا، یہاں تک کہ اپنی نماز مکمل کر لی، پھر آپ کے پاس آیا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: تمہیں میرے پاس آنے سے کس چیز نے روکا؟ کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: ”اے ایمان والو! اللہ اور رسول کے بلانے پر لبیک کہو جب وہ تمہیں بلائے۔“
[4] أَلَا هَلْ عَسَى رَجُلٌ يَبْلُغُهُ الْحَدِيثُ عَنِّي وَهُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى أَرِيكَتِهِ فَيَقُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ كِتَابُ اللّٰہِ فَمَا وَجَدْنَا فِيهِ حَلَالًا اسْتَحْلَلْنَاهُ وَمَا وَجَدْنَا فِيهِ حَرَامًا حَرَّمْنَاهُ وَإِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ كَمَا حَرَّمَ اللَّهُ. (جامع الترمذی: 2664)
”سن لو! ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ایک شخص تک میری حدیث پہنچے اور وہ اپنی مسند پر ٹیک لگائے ہوئے یہ کہے: ہمارے اور تمہارے درمیان کتاب اللہ ہے، جو ہم اس میں حلال پائیں گے اسے حلال سمجھیں گے اور جو اس میں حرام پائیں گے اسے حرام قرار دیں گے۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے جو چیز حرام کی ہے وہ اسی طرح حرام ہے جیسے اللہ نے حرام کی۔“
[5] ﴿ وَ مَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَ يَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَ وَ
سَآءَتْ مَصِيْرًا﴾(النّساء: 115)
” اور جو ہدایت واضح ہوجانے کے بعد بھی رسول کی مخالفت کرے اور مومنوں کے علاوہ کسی راستے کی پیروی کرے، تو ہم اسے اسی طرف پھیر دیں گے جدھر وہ پھرا ہے، اسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔“
[6] ﴿ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ﴾(الأحزاب: 40)
” محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول اور سب نبیوں کے آخری ہیں۔“
¯ «أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ، لَا نَبِيَّ بَعْدِي» (سنن أبي داؤد: 4252)
” میں سب نبیوں کے آخر میں آنے والا ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔“
[7] ابن تيمية: ما هو السبّ؟: الكلام الذي يُقصد به الانتقاص والاستخفاف وهو ما يفهم منه السبّ في عقول الناس على اختلاف اعتقاداتهم كاللعن والتقبيح ونحوه.(الصارم المسلول: 561)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں: ”سَبّ سے مراد وہ کلام ہے جس کا مقصد تنقیص اور حقارت ظاہر کرنا ہو اور ایسا کلام جس سے عام لوگوں کی سمجھ میں سبّ (گالی یا توہین) کا مفہوم آئے، چاہے ان کے عقیدے مختلف ہی کیوں نہ ہوں، جیسے لعنت کرنا، برا بھلا کہنا اور اس جیسی دیگر باتیں۔“
"والكلمة الواحدة تكون في حال سبّا وفي حال ليست بسبّ فعُلم أن هذا يختلف باختلاف
الأقوال والأحوال وإذا لم يكن للسب حد معروف في اللغة ولا في الشرع، فالمرجع فيه إلى عرف الناس فما كان في العرف سبا للنبي فهو الذي يجب أن ننزل عليه كلام الصحابة والعلماء وما لا فلا." (الصارم المسلول لابن تیمیة: 540، 541)
”اور ایک ہی لفظ کسی حالت میں سبّ ہوتا ہے اور کسی حالت میں سبّ نہیں ہوتا۔ پس معلوم ہوا کہ یہ بات اقوال اور حالات کے اختلاف سے بدلتی ہے۔ جب سبّ کی کوئی متعین حد نہ لغت میں ہے اور نہ ہی شریعت میں، تو اس کا معیار لوگوں کا عرف ہے۔ لہٰذا جو بات عرف میں نبی ﷺکی توہین شمار ہو، اسی پر ہمیں صحابہ اور علماء کے کلام کو منطبق کرنا چاہیے اور جو بات عرف میں توہین نہ ہو، وہ اس میں شامل نہیں۔“
[8] ابن المنذر: "أجمع عوام أهل العلم على أن من سبّ النبي ﷺ القتل".(الإشراف:8/60)
” ابن المنذر فرماتے ہیں: عام اہلِ علم کا اجماع ہے کہ جو شخص نبی ﷺ کو سبّ کرے، اسے قتل کیا جائے۔“
¯ أبوبكر الفارسي:"أجمعت الأمة على أن من سبّ النبي ﷺ يقتل حدًا" (السيف المسلول للسبكي: 156)
ابو بکر الفارسی فرماتے ہیں: ”امت کا اجماع ہے کہ جو شخص نبی ﷺ کو سبّ کرے، اسے بطور حد قتل کیا جائے۔“
[9] الإمام الشافعي: "لا يقيم الحد على الأحرار إلا الإمام ومن فوض إليه الإمام ."
امام شافعی فرماتے ہیں: ”آزاد لوگوں پر حد امام ہی قائم کر سکتا ہے یا وہ شخص جسے امام نے یہ اختیار دیا ہو۔“
¯ الإمام النووي: "لا يقيم الحد على الأحرار إلا الإمام ومن فوض إليه الإمام، لأنه لم يقم حد على حرّ على عهد رسول الله ﷺ إلا بإذنه ولا في أيام الخلفاء إلا بإذنهم، ولأنه حق لله تعالىٰ يفتقر إلى الاجتهاد ولا يؤمن في استيفائه الحيف فلم يجز بغير إذن الإمام." (’المجموع‘ للنووي:20/34، 18/448)
امام نووی فرماتے ہیں: ”آزاد لوگوں پر حد امام ہی قائم کر سکتا ہے یا وہ شخص جسے امام نے یہ اختیار دیا ہو، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں کسی آزاد شخص پر حد صرف آپ کی اجازت سے قائم کی گئی اور خلفاء کے زمانے میں بھی صرف ان کی اجازت سے، اس لیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حق ہے جس میں اجتہاد کی ضرورت پڑتی ہے اور اس کے نفاذ میں زیادتی کا اندیشہ رہتا ہے، لہٰذا امام کی اجازت کے بغیر یہ جائز نہیں۔“
¯ أبوبكر الكاساني الحنفي: "وأما شرائط جواز إقامتها يعني الحدود ... فهو الإمامة أن يكون
المقيم للحد هو الإمام أو من ولاه الإمام." (بدائع الصنائع:7/57)
ابو بکر الکاسانی الحنفی فرماتے ہیں: ”جہاں تک حدود قائم کرنے کے جواز کی شرائط کا تعلق ہے... تو وہ امامت ہے، یعنی حد قائم کرنے والا امام (حاکم) ہو یا وہ شخص ہو جسے امام نے مقرر کیا ہو۔“
¯ ابن تيمية: "خاطب الله المؤمنين بالحدود والحقوق خطابًا مطلقًا... هُوَ فَرْضٌ عَلَى الْكِفَايَةِ مِنْ الْقَادِرِينَ و"الْقُدْرَةُ" هِيَ السُّلْطَانُ؛ فَلِهَذَا: وَجَبَ إقَامَةُ الْحُدُودِ عَلَى ذِي السُّلْطَانِ وَنُوَّابِهِ. (مجموع الفتاوی: 34/176)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں: ”اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو حدود اور حقوق کے بارے میں مطلق خطاب کیا... یہ ان لوگوں پر فرضِ کفایہ ہے جو اس پر قادر ہوں اور ’قدرت‘ سے مراد اقتدار ہے۔ اسی وجہ سے حدود کا قائم کرنا صاحبِ اقتدار (حاکم) اور اس کے نمائندوں پر واجب ہے۔“
¯ نابینا صحابی کا اپنی باندی کو توہین کرنے پر خود سزاے قتل دینے کی شیخ ابن تیمیہؒ نے چھ توجیہات پیش کی ہیں، ملاحظہ ہو : الصارم المسلول: 285
[10] قال النبی ﷺ يَومَ الحُدَيْبِيَةِ: «أَنْتُمْ خَيْرُ أَهْلِ الأَرْضِ» وَكُنَّا أَلْفًا وَأَرْبَعَ مِائَةٍ... (صحيح البخاري: 4154)
حدیبیہ کے دن نبی ﷺ نے فرمایا: ’’تم تمام اہل زمین سے افضل ہو ‘‘ ہم اس وقت چودہ سو (1400) افراد تھے۔
¯ جاءَ جِبْرِيلُ إلى النَّبيِّ ﷺ، فَقالَ: ما تَعُدُّونَ أهْلَ بَدْرٍ فِيكُمْ؟ قالَ: «مِن أفْضَلِ المُسْلِمِينَ» (صحیح البخاري: 3992)
” جبریل ؑ نے نبی ﷺ کے پاس آ کر پوچھا: آپ اہل بدر کو اپنے ہاں کیا مقام دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’وہ سب مسلمانوں سے افضل ہیں۔‘‘
¯ سَأَلَ رَجُلٌ النَّبيَّ ﷺ: أَيُّ النّاسِ خَيْرٌ؟ قالَ: «الْقَرْنُ الَّذِي أَنَا فِيهِ، ثُمَّ الثَّانِي، ثُمَّ الثَّالِثُ» (مسلم: 2536)
” ایک آدمی نے نبی کریم ﷺ سے سوال کیا کہ کون سے لوگ سب سے بہتر ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس دور کے جس میں مَیں ہوں، پھر دوسرے (دورکے)، پھر تیسرے (دور کے۔)‘‘
[11] عبد الله بن مسعود رضي الله عنه: " إِنَّ اللهَ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ ﷺ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ، فَابْتَعَثَهُ بِرِسَالَتِهِ، ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ، فَوَجَدَ قُلُوبَ أَصْحَابِهِ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَجَعَلَهُمْ وُزَرَاءَ نَبِيِّهِ، يُقَاتِلُونَ عَلَى دِينِهِ " (مسند أحمد: 1/ 379 ، 3600)
”سیدنا عبد الله ابن مسعود فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں پر نظر فرمائی تو قلب محمد ﷺ کو سب سے بہتر پایا اس لیے اللہ نے ان ہی کو اپنے لیے منتخب فرما لیا اور انہیں پیغمبری کا شرف عطا کر کے مبعوث فرمایا، پھر قلب محمدﷺ کے علاوہ بندوں کے دلوں پر نظر فرمائی تو نبی ﷺ کے صحابہ کرام کے دل کو سب سے بہترین پایا، چنانچہ اللہ نے انہیں اپنے نبی کا وزیر بنا دیا، جو ان کے دین کی بقا کے لیے اللہ کے راستہ میں قتال کرتے ہیں۔“
¯ ابن تيمية: وخيارُ هذه الأمة هم الصحابة، فلم يكن في الأمة أعظم اجتماعًا على الهدى ودين الحق، ولا أبعد عن التفرق والإختلاف منهم، وكل ما يُذْكَر عنهم مما فيه نقص، فهذا إذا قيس إلى ما يوجد في غيرهم من الأمة كان قليلاً من كثير، وإذا قيس ما يوجد في الأمة إلى ما يوجد في سائر الأمم كان قليلاً من كثير، وإنما يغلط من يغلط أنه لينظر إلى السواد القليل في الثوب الأبيض وينظر إلى الثوب الأسود الذي فيه بياض.(منهاج السنة:3/242)
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں: ”اس امت کے بہترین لوگ صحابہ ہیں، امت میں ان سے بڑھ کر ہدایت اور دینِ حق پر مجتمع ہونے والے اور تفرقہ و اختلاف سے دور رہنے والے کوئی نہیں تھے۔ ان سے جو بھی کوئی کمی یا نقص منقول ہے، اگر اسے امت کے باقی لوگوں میں پائے جانے والے حالات سے موازنہ کیا جائے تو وہ کمی بہت کم ہے اس کے مقابلے میں جو دوسروں میں زیادہ ہے۔ اور اگر امت کے حالات کا موازنہ دیگر امتوں سے کیا جائے تو بھی وہ کمی بہت کم ہے اس کے مقابلے میں جو دوسری امتوں میں زیادہ ہے۔ غلطی کرنے والے کی غلطی یہ ہے کہ وہ سفید کپڑے میں موجود چھوٹے سے سیاہ دھبے کو دیکھتا ہے اور سیاہ کپڑے کو دیکھتا ہے جس میں کچھ سفیدی ہو۔“
[12] عبد الله بن عمر رضي الله عنهما:"أولئك أصحاب محمد ﷺ كانوا خير هذه الأمة أبرها قلوبًا وأعمقها علمًا وأقلها تكلفًا،قوم اختارهم الله لصحبة نبيه ﷺ ولإقامة دينه ..."(حلیة الأولیاء لأبي نعيم أحمد الأصبهانی: 1/305، وجامع بیان العلم وفضله لابن عبد البر: 2/948)
سیدنا عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں: ”یہ محمد ﷺ کے صحابہ ہیں، جو اس امت کے سب سے بہترین لوگ تھے، دل کے سب سے زیادہ نیک، علم میں سب سے گہرے اور بناوٹ و تکلف میں سب سے کم تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے اپنے نبی ﷺ کی صحبت اور اپنے دین کے قیام کے لیے منتخب فرمایا۔“
[13] ﴿ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ اُولٰٓىِٕكَ حِزْبُ اللّٰهِ اَلَاۤ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ (المجادلة:22)
”اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے۔ یہ لوگ اللہ کا گروہ ہیں، یاد رکھو! یقیناً اللہ کا گروہ ہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔“
[14] ﴿ وَ اِذَا قِيْلَ لَهُمْ اٰمِنُوْا كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ ﴾ (البقرة: 13)
”اور جب ان سے کہا جاتا ہے ایمان لاؤ جس طرح لوگ ایمان لائے ہیں“
[15] لَعَلَّ اللهَ قَدِ اطَّلَعَ على أهْلِ بَدْرٍ فَقالَ: اعْمَلُوا ما شِئْتُمْ، فقَدْ وجَبَتْ لَكُمُ الجَنَّةُ (البخاري: 6259)
” اللہ تعالیٰ اہل بدر پر مطلع تھا اس کے باوجود اس نے کہا: تم جو چاہو کرو، تحقیق تمہارے لیے جنت واجب ہو چکی ہے۔“
[16] ﴿ وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ
اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَاۤ اَبَدًا ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ﴾ (التوبة: 100)
”اور مہاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے سب سے پہلے لوگ اور وہ لوگ جو نیکی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ہمیشہ۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔“
[17] ﴿ لَا يَسْتَوِيْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَ اُولٰٓىِٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِيْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوْا وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى ﴾ (الحديد: 10)
”تم میں سے جس نے فتح (مکہ) سے پہلے خرچ کیا اور جنگ کی وہ (یہ عمل بعد میں کرنے والوں کے) برابر نہیں۔ یہ لوگ درجے میں ان لوگوں سے بڑے ہیں جنھوں نے بعد میں خرچ کیا اور جنگ کی اور ان سب سے اللہ نے اچھی جزا کا وعدہ کیا ہے اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو، خوب باخبر ہے۔“
¯ ﴿ اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ اَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللّٰهِ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفَآىِٕزُوْنَ۠﴾ (التوبة: 20)
”جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے ہجرت کی اور اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کیا، اللہ
کے ہاں درجے میں زیادہ بڑے ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہیں۔“
[18] عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ الحَنَفِيَّةِ، قالَ: قُلتُ لأبِي: أيُّ النّاسِ خَيْرٌ بَعْدَ رَسولِ الله ﷺ؟ قالَ: أبو بَكْرٍ، قُلتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قالَ: ثُمَّ عُمَرُ، وخَشِيتُ أنْ يَقُولَ: عُثْمانُ، قُلتُ: ثُمَّ أنْتَ؟ قالَ: ما أنا إلّا رَجُلٌ مِنَ المُسْلِمِينَ. (صحيح البخاري: 3671)
”حضرت محمد ابن حنفیہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے اپنے والد گرامی(حضرت علی ؓ)سے پوچھا: نبی ﷺ کے بعد سب سےافضل کون ہیں؟توانھوں نے جواب دیا: حضرت ابوبکر ؓ ۔ میں نے پوچھا: پھر کون؟توا نھوں نے فرمایا: اس کے بعد حضرت عمر ؓ ۔ مجھے اس بات کا اندیشہ ہوا کہ اب آپ حضرت عثمان ؓ کا نام ذکر کریں گے تو میں نے کہا: اس کے بعد پھر آپ(افضل) ہیں؟یہ سن کر انھوں نے فرمایا: میں تو صرف عام مسلمانوں جیسا ایک آدمی ہوں۔“
¯ سمع النبي ﷺ يقول يوم خيبر:«لأعطين الراية رجلا يفتح الله على يديه، فقاموا يرجون لذلك أيهم يعطى، فغدوا وكلهم يرجو أن يعطى، فقال : أين علي؟...» (البخاري: 2942)
’’خیبر کے دن نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”میں اب جھنڈا اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ فتح دے گا۔‘‘ اس پر صحابہ کرام ؓ اس امید میں کھڑے ہو گئے کہ ان میں سے کس کو جھنڈا ملتا ہے؟ اور دوسرے دن ہر شخص کو یہی امید تھی کہ جھنڈا اسے دیا جائے گا مگر آپ نے فرمایا: ’’علی ؓ کہاں ہیں؟ (پھر انہیں جھنڈا دیا)۔‘‘
[19] قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «أَبُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ وَعُثْمَانُ فِي الْجَنَّةِ وَعَلِيٌّ فِي الْجَنَّةِ وَطَلْحَةُ فِي الْجَنَّةِ وَالزُّبَيْرُ فِي الْجَنَّةِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فِي الْجَنَّةِ وَسَعْدٌ فِي الْجَنَّةِ وَسَعِيدٌ فِي الْجَنَّةِ وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ فِي الْجَنَّةِ. (سنن الترمذي: 3747)
”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ابوبکر جنتی ہیں، عمر جنتی ہیں، عثمان جنتی ہیں، علی جنتی ہیں، طلحہ جنتی ہیں، زبیر جنتی ہیں، عبدالرحمن بن عوف جنتی ہیں، سعد جنتی ہیں، سعید (بن زید) جنتی ہیں اور ابوعبیدہ بن جراح جنتی ہیں()۔“
[20] عَنْ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَ: "ارْقُبُوا مُحَمَّدًا ﷺ فِي أَهْلِ بَيْتِهِ" (صحيح البخاري: 3713)
” سیدنا ابوبکر ؓنے فرمایا: محمد ﷺ کی وجہ سے آپ کے اہلِ بیت کے بارے میں خاص خیال رکھو، یعنی بہرصورت ان کااحترام بجا لاؤ۔“
[21] الإمام ابن أبي العز الحنفي: فَإِنَّهُمْ لَمْ يَنْقُلُوا نَظْمَ الْقُرْآنِ وَحْدَهُ، بَلْ نَقَلُوا نَظْمَهُ وَمَعْنَاهُ، وَلَا كَانُوا يَتَعَلَّمُونَ الْقُرْآنَ كَمَا يَتَعَلَّمُ الصِّبْيَانُ، بَلْ يَتَعَلَّمُونَهُ بِمَعَانِيهِ. وَمَنْ لَا يَسْلُكُ سَبِيلَهُمْ فَإِنَّمَا يَتَكَلَّمُ بِرَأْيِهِ... (شرح العقيدة الطحاوية: 120)
امام ابن ابی العز الحنفی فرماتے ہیں: ”انہوں نے صرف قرآن کا الفاظی نظم ہی نہیں منتقل کیا بلکہ اس کا نظم اور اس کا معنی دونوں منتقل کیے اور وہ قرآن کو اس طرح نہیں سیکھتے تھے جیسے بچے سیکھتے ہیں بلکہ وہ اسے اس کے معانی کے ساتھ سیکھتے تھے۔ اور جو شخص ان کے طریقے پر نہ چلے تو وہ محض اپنی رائے سے بات کرتا ہے۔“
[22] «من دعا إلىٰ هدي کان له من الأجر مثل أجور من تبعه لا ینقص ذلك من أجورهم شیئا» (صحیح مسلم: 2674)
’’جس شخص نے ہدایت کی دعوت دی اسے اس ہدایت کی پیروی کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہو گی“
[23] ﴿فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا هُمْ فِيْ شِقَاقٍ﴾ (البقرة: 137)
”پھر اگر وہ اس جیسی چیز پر ایمان لائیں جس پر تم ایمان لائے ہو تو یقیناً وہ ہدایت پا گئے اور اگر پھر جائیں تو وہ محض ایک مخالفت میں (پڑے ہوئے) ہیں۔“
[24] «تَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً»، قَالُوا وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ «مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي».(جامع ترمذی :2641 )
” میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، ایک فرقہ کو چھوڑ کرباقی سبھی جہنم میں جائیں گے، صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول! یہ کون سی جماعت ہوگی؟ آپ نے فرمایا:' یہ وہ لوگ ہوں گے جو میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر ہوں گے۔“
[25] "الصحابة كلهم عدول من لَابَسَ الفتنَ وغيرهم بإجماع من يعتدّ به'' . (تقریب النواوی مع تدریب: 2/214و ’مقام صحابہ ‘ از مفتی محمد شفیع عثمانی: ص 77)
”صحابہ سب کے سب عادل ہیں، چاہے انہوں نے فتنوں کا زمانہ پایا ہو یا نہ پایا ہو، اور یہ بات اُن اہلِ علم کے اجماع سے ثابت ہے جن کے اجماع کا اعتبار کیا جاتا ہے۔“
[26] قال رسول الله ﷺ:«الأَنْصَارُ لا يُحِبُّهُمْ إِلاَّ مُؤْمِنٌ، وَلا يُبْغِضُهُمْ إِلاَّ مُنَافِقٌ فَمَنْ أَحَبَّهُمْ أَحَبَّهُ الله ُ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ أَبْغَضَهُ الله ُ» (صحيح البخاري:3783)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”انصار سے صرف مومن ہی محبت رکھے گا اور ان سے صرف منافق ہی بغض رکھے گا ۔ پس جو شخص ان سے محبت رکھے گا اس سے اللہ محبت رکھے گا اور جوان سے بغض رکھے گا اس سے اللہ تعالیٰ بغض رکھے گا (معلوم ہوا کہ انصار کی محبت نشان ایمان ہے اور ان سے دشمنی رکھنا بے ایمان لوگوں کا کام ہے )۔“
¯ قال أنس: فَأَنَا أُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ، فَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ مَعَهُمْ وَإِنْ لَمْ أَعْمَلْ بِأَعْمَالِهِمْ . (صحیح مسلم: 2639)
سیدنا انس بیان کرتے ہیں: ” چونکہ میں، اللہ ، اس کے رسول اور ابو بکر و عمر سے محبت کرتا ہوں، لہٰذا مجھے امید ہے کہ میں ان کے ساتھ ہوں گا، اگرچہ ان جیسے اعمال نہیں کر سکا۔“
[27] الإمام أبو جعفر الطحاوی(م321ھ):"وَنُحِبُّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ، وَلَا نُفَرِّطُ فِي حُبِّ أَحَدٍ مِنْهُمْ، وَلَا نَتَبَرَّأُ مِنْ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَنُبْغِضُ مَنْ يُبْغِضُهُمْ وَبِغَيْرِ الْخَيْرِ يَذْكُرُهُمْ وَلَا نَذْكُرُهُمْ إِلَّا بِخَيْرٍ وَحُبُّهُمْ دِينٌ وَإِيمَانٌ وَإِحْسَانٌ، وَبُغْضُهُمْ كُفْرٌ وَنِفَاقٌ وَطُغْيَانٌ."(شرح العقیدة الطحاوية:57)
امام ابو جعفر طحاوی فرماتے ہیں:” ہم رسول اللہ ﷺ کے صحابہ سے محبت کرتے ہیں، ان میں سے کسی کی محبت میں حد سے آگے نہیں بڑھتے اور نہ ہی ہم ان میں سے کسی سے براءت کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم اس شخص سے دشمنی رکھتے ہیں جو ان سے دشمنی رکھے اور ان کا ذکرِ خیر نہ کرے جبکہ ہم ان کا تذکرہ خیر ہی کرتے ہیں۔ ان سے محبت دین، ایمان اور احسان ہے اور ان سے بغض کفر، نفاق اور سرکشی ہے۔“
[28] قال النبي ﷺ: «اللَّهُمَّ أَنْتُمْ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ» قَالَهَا ثَلاَثَ مِرَار».(صحیح البخاری:3785)
” اللہ ( گواہ ہے ) تم لوگ مجھے سب سے زیادہ عزیز ہو “، تین بار آپ نے ایسا ہی فرمایا ۔
[29] الإمام أحمد: "رحمهم الله أجمعين، ومعاوية وعمرو وأبو موسى الأشعري والمغيرة كلهم
وصفهم الله تعالى في كتابه فقال:﴿ سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ﴾(مناقب :221)
امام احمد فرماتے ہیں: ”اللہ ان سب پر رحم فرمائے اور معاویہ، عمرو، ابو موسیٰ اشعری اور مغیرہ، ان سب کا وصف اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں یہ بیان فرمایا ہے: ﴿ان کی پیشانیوں پر سجدے کے اثرات کے نشان ہیں﴾۔“
قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: "يَا أَبَا الْحَسَنِ إِذَا رَأَيْتَ رَجُلًا يَذْكُرُ أَحَدًا مِنَ الصَّحَابَةِ بِسُوءٍ فَاتَّهِمْهُ عَلَى الْإِسْلَامِ. " (البداية والنهاية: 8/148)
امام احمد بن حنبل نے فرمایا: ”اے ابو الحسن! جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ صحابہ میں سے کسی کو برے لفظ سے یاد کرتا ہے تو اس کے اسلام پر شک کرو۔“
[31] أبو زرعة الرّازيّ: "إذا رأيت الرجل ينتقص أحدا من أصحاب رسول اللَّه ﷺ فاعلم أنه
زنديق، وذلك أن الرسول حقّ، والقرآن حق، وما جاء به حق، وإنما أدى إلينا ذلك كلّه
الصحابة، وهؤلاء يريدون أن يجرحوا شهودنا ليبطلوا الكتاب والسنّة، والجرح بهم أولى،
وهم زنادقة. "(الإصابة في تمييز الصحابة لإبن حجر: 1/162، 163)
ابو زرعہ رازی فرماتے ہیں: ”جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے کسی صحابی کو کم تر سمجھتا ہے تو جان لو کہ وہ زندیق ہے، کیونکہ رسول برحق ہیں، قرآن برحق ہے، جو کچھ آپ لائے وہ سب برحق ہے اور یہ سب کچھ ہم تک صحابہ نے پہنچایا ہے۔ یہ لوگ دراصل ہمارے گواہوں کو مجروح کرنا چاہتے ہیں تاکہ کتاب و سنت کو باطل کر سکیں، اس لیے یہ جرح کے زیادہ حق دار ہیں اور یہ لوگ زندیق ہیں۔“
[32] قال رسول الله ﷺ: «لَا تَسُبُّوا أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِي، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَوْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيفَهُ»(صحيح مسلم: 2541 واللفظ لمسلم، وصحيح البخاري: 3673)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”میرے اصحاب کو برا بھلامت کہو ۔ اگر کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ( اللہ کی راہ میں ) خرچ کرڈالے تو ان کے ایک مد غلہ کے برابر بھی نہیں ہوسکتا اور نہ ان کے آدھے مد کے برابر ۔“
¯ عن عبد الله بن عباس رضي الله عنهما، قال النبي ﷺ: «مَنْ سَبَّ أَصْحَابِي فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَلائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ» (المعجم للطبرانی: 12541، صحیح الجامع: 5111)
عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے ، نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس نے میرے اصحاب کو برا بھلا کہا تو اس پر اللہ تعالیٰ ،
فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔“
[33] الحافظ ابن حجر: "وقد اتفق أهل السنة على أن الجميع عدول، ولم يخالف في ذلك إلا شذوذ من المبتدعة." (الإصابة في تمييز الصحابة: 1/ 131)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: ا”ہلِ سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام صحابہ عادل ہیں اور اس مسئلے میں صرف چند گمراہ بدعتی لوگوں نے ہی مخالفت کی ہے۔“
[34] الإمام قرطبي: "لَا يَجُوزُ أَنْ يُنْسَبَ إِلَى أَحَدٍ مِنَ الصَّحَابَةِ خَطَأٌ مَقْطُوعٌ بِهِ، إِذْ كَانُوا كُلَّهُمُ اجْتَهَدُوا فِيمَافَعَلُوهُ وَأَرَادُوا اللهَ عَزَّ وَجَلَّ، وَهُمْ كُلُّهُمْ لَنَا أَئِمَّةٌ، وَقَدْ تَعَبَّدْنَا بِالْكَفِّ عَمَّا شَجَرَ بَيْنَهُمْ، وَأَلَّا نَذْكُرَهُمْ إِلَّا بِأَحْسَنِ الذِّكْرِ، لِحُرْمَةِ الصُّحْبَةِ وَلِنَهْيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ سَبِّهِمْ، وَأَنَّ اللهَ غَفَرَ لَهُمْ، وَأَخْبَرَ بِالرِّضَا عَنْهُمْ." (تفسير القرطبي: 16/ 321)
’’امام قرطبی فرماتے ہیں:” کسی بھی صحابی کی طرف کسی قطعی خطا کی نسبت کرنا جائز نہیں، کیونکہ انہوں نے جو کچھ کیا اس میں اجتہاد کیا اور اللہ عزوجل کی رضا ہی چاہی۔ وہ سب ہمارے لیے پیشوا ہیں اور ہمیں اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ ہم ان کے درمیان پیش آنے والے معاملات میں خاموش رہیں اور انہیں صرف اچھے انداز میں یاد کریں، صحابیت کی حرمت اور اس لیے بھی کہ نبی ﷺ نے ان کو گالی دینے سے منع فرمایا ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے ان کو بخش دیا ہے اور ان سے اپنی رضا کا اعلان فرمایا ہے۔“
[35] عن عبد الله بن مسعود t قال النبي ﷺ: «إذا ذُكر أصحابي فأمسكوا» (المعجم الکبیر للطبرانی:10296 و تخریج الاحیاء للعراقی: 1/50، حسن)
سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: ”جب میرے صحابہ کا ذکر ہو تو (اپنے آپ کو) روک لو (یعنی احتیاط سے بات کرو)۔“
¯ الإمام ابن تیمیه:"ولهذا كان من مذاهب أهل السنة الإمساك عما شجر بين الصحابة فإنه قد ثبتت فضائلهم ووجبت موالاتهم ومحبتهم..."(منهاج السنة النبوية: 4/ 448، 449)
ابن تیمیہ فرماتے ہیں: ”اسی وجہ سے اہلِ سنت کے مذاہب میں سے یہ ہے کہ صحابہ کے درمیان جو معاملات پیش آئے ان میں خاموشی اختیار کی جائے، کیونکہ ان کی فضیلتیں ثابت ہیں اور ان سے دوستی اور محبت واجب ہے۔“
[36] امام ابوزرعہ، عبدالله بن عبدالکریم، رازی ، ابوحاتم اور شافعی اہل سنت کا اجماعی عقیدہ بیان فرماتے ہیں :
"أدركنا العلماء فى جميع الـأمصار حجازا، وعراقا، ومصرا، وشاما، ويمنا، فكان من مذهبهم … والترحم علٰي جميع أصحاب محمد، صلى الله عليه وسلم، والكف عما شجر بينهم"
(شرح أصل السنة واعتقاد الدين لابن أبي حاتم: 7، 61]
”ہم نے حجاز، عراق، مصر، شام اور یمن کے تمام علاقوں کے علماء کو پایا تو ان کا مذہب یہ تھا... کہ وہ محمد ﷺ کے تمام صحابہ پر رحمت بھیجتے اور ان کے درمیان جو معاملات پیش آئے ان میں خاموشی اختیار کرتے تھے۔“
¯ الإمام محمد بن عبدالوهاب:"وأجمع أهل السنة على السكوت عما شجر بين الصحابة رضي الله عنهم. ولا يقال فيهم إلا الحسنى. فمن تكلم في معاوية أو غيره من الصحابة فقد خرج عن الإجماع."(مختصر سيرة الرسول ﷺ: 318)
امام محمد بن عبدالوهاب فرماتے ہیں: ”اہلِ سنت کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے درمیان جو معاملات پیش آئے ان میں خاموشی اختیار کی جائے اور ان کے بارے میں صرف اچھے الفاظ ہی کہے جائیں۔ پس جو شخص معاویہ یا کسی اور صحابی کے بارے میں (برا) کلام کرے تو وہ اجماع سے خارج ہو گیا۔“
[37] الإمام ابن تیمیة:فَمَنْ تَكَلَّمَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ - وَقَدْ نَهَى اللهُ عَنْهُ: مِنْ ذَمِّهِمْ أَوْ التَّعَصُّبِ لِبَعْضِهِمْ بِالْبَاطِلِ- فَهُوَ ظَالِمٌ مُعْتَدٍ.(مجموع الفتاوی: 4/432)
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں: ”جو شخص صحابہ کے درمیان پیش آنے والے معاملات میں بات کرے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے، چاہے وہ ان کی مذمت ہو یا کسی کے ساتھ باطل طور پر تعصب ہو، تو وہ ظالم اور حد سے بڑھنے والا ہے۔“
[38] حافظ ابن حجر: وَاتَّفَقَ أَهْلُ السُّنَّةِ عَلَى وُجُوبِ مَنْعِ الطَّعْنِ عَلَى أَحَدٍ مِنَ الصَّحَابَةِ بِسَبَبِ مَا
وَقَعَ لَهُمْ مِنْ ذَلِكَ وَلَوْ عَرَفَ الْمُحِقَّ مِنْهُمْ لِأَنَّهُمْ لَمْ يُقَاتِلُوا فِي تِلْكَ الْحُرُوبِ إِلَّا عَنِ اجْتِهَادٍ وَقَدْ
عَفَا اللّٰهُ تَعَالَى عَنِ الْمُخْطِئِ فِي الِاجْتِهَادِ بَلْ ثَبَتَ أَنَّهُ يُؤْجَرُ أَجْرًا وَاحِدًا وَأَنَّ الْمُصِيبَ يُؤْجَرُ أَجْرَيْنِ. (فتح الباري: 20/ 87, 6556)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: ”اہلِ سنت اس بات پر متفق ہیں کہ صحابہ میں سے کسی پر بھی اس وجہ سے طعن کرنا حرام ہے جو ان سے ان واقعات میں پیش آیا، چاہے کسی کو ان میں سے حق پر ہونے کا علم بھی ہو، کیونکہ انہوں نے ان جنگوں میں صرف اجتہاد کی بنیاد پر حصہ لیا، اور اللہ تعالیٰ نے اجتہاد میں خطا کرنے والے کو معاف فرما دیا ہے، بلکہ یہ ثابت ہے کہ خطا کرنے والے کو ایک اجر ملتا ہے اور درست رائے والے کو دو اجر ملتے ہیں۔“
[39] الإمام ابن تیمیة: إمَّا مُجْتَهِدُونَ مُصِيبُونَ وَإِمَّا مُجْتَهِدُونَ مُخْطِئُونَ... إنْ أَصَابُوا فَلَهُمْ أَجْرَانِ وَإِنْ أَخْطَئُوا فَلَهُمْ أَجْرٌ وَاحِدٌ وَالْخَطَأُ مَغْفُورٌ لَهُمْ.(مجموع الفتاویٰ: 3/ 155)
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں: ”وہ یا تو اجتہاد کرنے والے درست رائے والے ہیں یا اجتہاد کرنے والے خطا کرنے والے... اگر وہ درست ہوں تو انہیں دو اجر ملیں گے اور اگر وہ خطا کریں تو انہیں ایک اجر ملے گا اور ان کی خطا معاف کر دی گئی ہے۔“
¯ الإمام النووي: أَمَّا الْحُرُوبُ الَّتِي جَرَتْ فَكَانَتْ لِكُلِّ طَائِفَةٍ شُبْهَةٌ اعْتَقَدَتْ تَصْوِيبَ أَنْفُسِهَا بِسَبَبِهَا وَكُلُّهُمْ عُدُولٌ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَمُتَأَوِّلُونَ فِي حُرُوبِهِمْ وَغَيْرِهَا وَلَمْ يُخْرِجْ شئ مِنْ ذَلِكَ أَحَدًا مِنْهُمْ عَنِ الْعَدَالَةِ لِأَنَّهُمْ مُجْتَهِدُونَ اخْتَلَفُوا فِي مَسَائِلَ مِنْ مَحَلِّ الِاجْتِهَادِ كَمَا يَخْتَلِفُ الْمُجْتَهِدُونَ بَعْدَهُمْ فِي مَسَائِلَ مِنَ الدِّمَاءِ وَغَيْرِهَا وَلَا يَلْزَمُ مِنْ ذَلِكَ نَقْصُ أَحَدٍ مِنْهُمْ.(شرح النووی علی المسلم: 15/ 149)
امام نووی فرماتے ہیں: ”جہاں تک ان جنگوں کی بات ہے جو رونما ہوئیں، تو ہر گروہ کے پاس ایک ایسا شبہہ تھا جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو حق پر سمجھتا تھا، وہ سب عادل ہیں، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اپنی جنگوں اور دیگر معاملات میں مؤول تھے۔ ان میں سے کسی کو بھی اس وجہ سے عدالت سے خارج نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ مجتہد تھے جنہوں نے اجتہاد کے محل میں اختلاف کیا، جیسے بعد کے مجتہدین خون کے مسائل اور دیگر امور میں اختلاف کرتے ہیں اور اس سے ان میں سے کسی میں نقص لازم نہیں آتا۔“
[40] الإمام مَالِكٍ بن أنس:مَنْ سَبَّ أَبَا بَكْرٍ جُلِدَ، وَمَنْ سَبَّ عَائِشَةَ قُتِلَ...قِيلَ لَهُ: لِمَ؟ قَالَ: مَنْ رَمَاهَا فَقَدْ خَالَفَ الْقُرْآنَ.(الشفا بتعريف حقوق المصطفي للقاضي عياض: 2/ 654)
امام مالک بن انس ؒ : ”جس نے ابوبکر ؒ کو برا بھلا کہا اسے کوڑے لگائے جائیں اور جس نے عائشہؒ کو برا بھلا کہا اسے قتل کیا جائے ، ان سے پوچھا گیا : ایسا کیوں ؟ فرمایا: عائشہ ؒ کو برا بھلا کہنے والا قرآن کی بھی مخالفت کررہا ہے۔“
¯ امام أحمد بن حنبل: ’’کسی کےلیے صحابہ کرام y کا ذکرِ سُو یا ان پرطعن و تشنیع کرنا جائز نہیں۔ حاکم وقت پر فرض ہے کہ ایسا کرنے والے کو سزا دے، کیونکہ یہ جرم ناقابل معافی ہے۔ سزا دینے کے بعد اس سے توبہ کروائی جائے، اگر توبہ کرے تو بہتر وگرنہ اسےدوبارہ سزا دی جائے اور اسے قید میں رکھا جائے جب تک کہ وہ توبہ کرکے اس فعل مذموم سے باز نہ آئے۔‘‘(الصارم المسلول: و رسالہ قیرانویہ: 419)
[41] الإمام ابن تيمية: وَيَتَبَرَّءُونَ مِنْ طَرِيقَةِ الرَّوَافِضِ الَّذِينَ يُبْغِضُونَ الصَّحَابَةَ وَيَسُبُّونَهُمْ. وَمِنْ طَرِيقَةِ النَّوَاصِبِ الَّذِينَ يُؤْذُونَ أَهْلَ الْبَيْتِ بِقَوْلِ أَوْ عَمَلٍ. (العقيدة الواسطية: 119)
’’امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں: ”اور وہ (اہلِ سنت) روافض کے طریقے سے براءت کا اظہار کرتے ہیں جو صحابہ سے بغض رکھتے اور انہیں گالیاں دیتے ہیں ۔اور نواصب کے طریقے سے بھی براءت کرتے ہیں جو اہلِ بیت کو قول یا عمل کے ذریعے تکلیف پہنچاتے ہیں۔“
[42] ﴿ وَ مَنْ يُّعَظِّمْ شَعَآىِٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ﴾ (الحج: 32)
” اور جو اللہ کے نام کی چیزوں کی تعظیم کرتا ہے تو یقیناً یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے۔“
[43] ﴿ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآىِٕرَ اللّٰهِ﴾ (المائدة: 2)
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! نہ اللہ کی نشانیوں کی بے حرمتی کرو۔“
¯ قوله تعالى: ﴿ لَا تُحِلُّوْا شَعَآىِٕرَ اللّٰهِ﴾، لأن الله نهى عن استحلال شعائره ومعالم حدوده وإحلالها نهيًا عامًّا. (تفسیر طبری: 9/465)
”اللہ تعالیٰ کا فرمان: ﴿اللہ کے شعائر کو حلال نہ ٹھہراؤ﴾، کیونکہ اللہ نے اپنے شعائر اور اپنی حدود کی علامات کی توہین کی اور خلاف ورزی کرنے سے بہر صورت منع فرمایا ہے۔“
[44] ﴿قُلْ اَبِاللّٰهِ وَ اٰيٰتِهٖ وَ رَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُوْنَ۠۰۰۶۵لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ..﴾ (التوبة:65، 66)
”کہہ دے کیا تم اللہ اور اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ مذاق کر رہے تھے؟ بہانے مت بناؤ، بے شک تم نے اپنے ایمان کے بعد کفر کر لیا ہے۔“
[45] ﴿ لَقَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّذِيْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ فَقِيْرٌ وَّ نَحْنُ اَغْنِيَآءُ سَنَكْتُبُ مَا قَالُوْا وَ قَتْلَهُمُ الْاَنْۢبِيَآءَ۠ بِغَيْرِ حَقٍّ وَّ
نَقُوْلُ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِيْقِ﴾(آل عمران: 181)
”بلاشبہ یقیناً اللہ نے ان لوگوں کی بات سن لی جنھوں نے کہا بے شک اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں، ہم ضرور لکھیں گے جو انھوں نے کہا اور ان کا نبیوں کو کسی حق کے بغیر قتل کرنا بھی اور ہم کہیں گے جلنے کا عذاب چکھو۔“
شعائر اللہ میں اللہ تعالیٰ کی توہین، انبیاء کی توہین اور قتل سے بھی بڑا جرم ہے۔
[46] وَقَدْ اتَّفَقَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى أَنَّ مَنْ اسْتَخَفَّ بِالْمُصْحَفِ مِثْلَ أَنْ يُلْقِيَهُ فِي الْحُشِّ أَوْ يَرْكُضَهُ بِرِجْلِهِ
إهَانَةً لَهُ إنَّهُ كَافِرٌ. (مجموع الفتاوى: 8/425)
”مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جو شخص مصحف کی بے حرمتی کرے، جیسے اسے بیت الخلا میں پھینک دے یا اسے پاؤں سے روندے توہین کی نیت سے، تو وہ کافر ہے۔“
[47] ﴿ وَ مَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ اِلَّا مُكَآءً وَّ تَصْدِيَةً﴾ (الأنفال: 35)
”اور ان کی نماز اس گھر کے پاس سیٹیاں بجانے اور تالیاں بجانے کے سوا کبھی کچھ نہیں ہوتی۔“
[48] ﴿ اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ فِي الدُّنْيَا وَ الْاٰخِرَةِ﴾ (النور: 19)
”بے شک جو لوگ پسند کرتے ہیں کہ ان لوگوں میں بے حیائی پھیلے جو ایمان لائے ہیں، ان کے لیے دنیا اور آخرت
میں دردناک عذاب ہے۔“