دفاعِ شعائر اللہ سیمینار
پاکستان ایک نظریاتی اسلامی ریاست ہے جس کی بنیاد کلمۂ طیبہ ہے۔ تحریک پاکستان کے قائدین نے برصغیر کے طول وعرض میں ایک ہی نعرہ لگایا تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا: لا الٰه الا الله۔ قیام پاکستان کے لیے لاکھوں لوگوں نے ہجرتیں کیں‘ اپنے گھربار کو خیرباد کہا، ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں پر حملے ہوئے ، کثیر تعداد میں نوجوانوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دیں پھر جاکر پاکستان کا قیام ممکن ہوا۔ قیا م پاکستان کے بعد ملک کے اسلامی تشخص کو واضح کرنے کے لیے آئینی سطح پر بھرپور جدوجہد کی گئی ، بالآخر پاکستان کا آئین اسلام کے سانچے میں ڈھالا گیا۔ اس وقت پاکستان کا آئین کتاب وسنت کی عملداری کی ضمانت دیتا ہے۔ قراردادِ مقاصد میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی غیر مشروط حاکمیت کو تسلیم کیا گیا ہے اورعوام کی حکمرانی کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکامات کے تابع قرار دیا گیا۔ آئین پاکستان کی بعض شقیں ایسی ہیں جن کا تعلق نبی کریمﷺ کی حرمت اور ختم نبوت کے ساتھ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مقدسات اور شعائر اسلامیہ کی ناموس کے تحفظ کے لیے بھی پاکستان میں قانون سازی کی گئی ہے۔ چنانچہ پاکستان کے قوانین میں 295 سے لے کر 298 تک کئی شقیں ہیں جو مقدسات کی ناموس کے تحفظ کی ضمانت دیتی ہیں۔ پاکستان کے آئین میں 295 سی کی شق ایک ایسا قانون ہے جس میں ناموسِ رسالت کے تقدس کو تحفظ دیا گیا ہے۔
ستمبر 1974ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ جو نبی کریمﷺ کی ختم نبوت کو تسلیم نہیں کرتا، وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ سابقہ انبیاء کرام اور مقدسات کی ناموس کے تحفظ کےلیے بھی پاکستان میں قانون سازی کی جا چکی ہے۔ تاہم ’’ناموس صحابہ و اہلِ بیتؓ بل‘‘ جس کے مطابق صحابہ کرام و اہل بیت کی ناموس پر حملہ کرنے والے کی سزا 10سال ہونی چاہیے، کو ملک کے قانون کا حصہ بنانے کے لیے جدوجہد تاحال جاری وساری ہے۔
عالمی ضمیر انسانوں اور اداروں کی حرمت کو تسلیم کر چکا ہے۔ چنانچہ ہتکِ عزت اور توہین عدالت کے قوانین بنائے گئے ہیں کہ بعض لوگ جو ضابطے اور اخلاق کی پابندی کو قبول نہیں کرتے، ان کو ان قوانین کے ذریعے پابند بنایا جا سکے؛ چنانچہ مشرق ومغرب میں اگر کوئی شخص کسی بھی انسان کی کردار کشی کرتا ہے تو اس کو اپنے دفاع کی جنگ لڑنے کا مکمل حق حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح عدالتوں کی توہین کے حوالے سے بھی احتسابی عمل جاری وساری ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب عالمی ضمیر نے انسانوں اور اداروں کی ناموس کی اہمیت کو تسلیم کیا تو نبی کریمﷺ کی حرمت کو تسلیم کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ موجودہ دنیا میں تہذیبوں کے تصادم کو روکنے کے لیے نبی کریم حضرت محمدﷺ کی حرمت اور ناموس کو تسلیم کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے اور اس پر کسی بھی قسم کے سمجھوتے کی کوئی گنجائش نہیں۔ بین الاقوامی سطح پر بعض عاقبت نااندیش عناصر نبی کریمﷺ کی ناموس کے بارے میں جس نامناسب رویے کا اظہار کرتے ہیں وہ کسی بھی طور پر قابلِ قبول نہیں۔ اس طرح کے واقعات سے جہاں مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں وہیں ماورائے عدالت اقدامات کے امکانات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ بدنصیبی سے پاکستان میں وقفے وقفے سے ایسی باتیں اور مؤقف سننے کو ملتے رہتے ہیں جن کا مقصد حرمتِ رسالت اور ختم نبوت سے متعلقہ قوانین کو مجروح کرنا ہوتا ہے لیکن اہلِ اسلام کی مشترکہ کاوشوں کے نتیجے میں یہ سازشیں کبھی بھی پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکیں۔ دینی تحریکوں، اداروں اور جماعتوں نے ان سازشوں کے تانے بانے بُننے والوں کو ہمیشہ ناکام اور نامراد کیا ہے۔
اسی مناسبت سے مرکز قرآن وسنہ لارنس روڈ، لاہور میں قرآن سنہ موومنٹ کے زیر اہتمام کل جماعتی دفاعِ شعائر اللہ سیمینارکا انعقاد کیا گیا جس میں محترم لیاقت بلوچ صاحب ، امیر العظیم صاحب ،معتصم الہی ظہیر صاحب، مولانا حافظ مسعود عالم صاحب، مولانا محمد شفیق مدنی صاحب، مفتی عبدالرحمان عابد صاحب، قیصر احمد راجہ صاحب ، عبدالوارث گل صاحب، مولانا اختر علی محمدی صاحب، ابوبکر قدوسی صاحب، ڈاکٹر حسن مدنی صاحب، ڈاکٹر حمزہ مدنی صاحب، ڈاکٹر انس نضر صاحب ،مولانا عبدالغفار اعوان صاحب، مولانا عبدالغفار روپڑی صاحب، علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری صاحب، مولانا محمد یوسف طیبی صاحب، مولانا زاہد الراشدی صاحب، مولانا اللہ وسایا صاحب ،مفتی عاشق حسین صاحب، قیم الہی ظہیر صاحب، عبد القیوم ظہیر صاحب اور دیگر جید علماء و مشائخ نے شرکت کی۔ نقابت کے فرائض ڈاکٹر شفیق الرحمان زاھد صاحب اور ڈاکٹر صلاح الدین صاحب نے انجام دیے ۔اس موقع پر مقررین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ 295C ہماری ریڈ لائن ہے اور حرمت رسولﷺ، ناموس صحابہ اور ناموس شعائر اللہ پر کسی بھی قسم کے سمجھوتے کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ مقررین نے اس موقع پر نبی کریمﷺ سے وابستگی اور آپﷺ کی ناموس اور حرمت کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کا عزم صمیم کیا۔
بلاسیفمی کیسز کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں جس طرح حقائق کو مسخ کیا گیااور اس کیس کے حقائق کو چھپانے کے لیے ذرائع ابلاغ کو استعمال کیا گیا اس پر ایڈو وکیٹ قیصر راجہ اور عبدالوارث گل صاحبان (جو اس کیس کا باقاعدہ حصہ ہیں) نے تفصیل سے روشنی ڈالی ، تو بہت سارے علماء کرام اور اہل دانش نے برملا اعتراف کیا کہ اس کیس کی حقیقت حال کا ہمیں ابھی پتہ چلا ہے ، تو ذراسوچیے عوام کو کیونکر خبر ہوگی ۔
اکابر علماءکی مشاورت سے اس موقع پر ایک اعلامیہ بھی پیش کیا گیا جس کی نظر ثانی کے فرائض مولانا ارشاد الحق اثری ،مولانا عبداللہ ناصر رحمانی ،مولانا حافظ مسعود عالم ،ڈاکٹر عبدالرحمان مدنی اور مولانا شفیق مدنی صاحبان نے انجام دیے اور ابھی تک الحمد للہ تمام مکاتیب فکر کے نوے سے زائد جید علماء اس کی توثیق کرچکے ہیں ۔
مختلف مکاتب فکر کے جید علما اور دینی شخصیات کی نمائندگی نے سیمینار کو چار چاند لگادیے اس دوران بعض اہم قراردادیں پیش کی گئیں اور کئی اہم سفارشات پر اتفاق کیا وہ درج ذیل ہیں:
- توہینِ رسالت کے مرتکبین کی سہولت کاری اور قانونِ توہینِ رسالت کو غیرمؤثر بنانے کے لیے کی جانے والی کوئی بھی کوشش سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کی ہم نوائی ہے۔
- مسجد اقصیٰ اور اس کے گرد ونواح میں ہونے والے ظلم کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی نسل کشی کے ساتھ ساتھ مسجد اقصیٰ پر یہود کا تسلط ناقابلِ قبول ہے۔ دنیا بھر کی مساجد کے تقدس کی حفاظت اُمتِ مسلمہ اور مسلم حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔
- ٹرانس جینڈر بِل، عورت مارچ اور دیگر ذرائع سے پھیلائی جانے والی بے حیائی کی مذمت کرتے ہیں۔
- پرائیویٹ یا سرکاری تعلیمی اداروں میں طلبہ پر تشدد قبول نہیں ، ذمہ داران کا احتساب ہونا چاہیے۔
- جرگے اور پنچایت کے حکم پر غیرت کے نام پر قتل کرنا ظلم و زیادتی ہے، جس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔
قرآن و سنہ موومنٹ پاکستان کی طرف سے دفاعِ شعائر اللہ سیمینار میں پریس اور میڈیا کے لیے پیش کی جانے والی تجاویز و سفارشات
- تحفظ ناموسِ رسالتﷺ، دفاعِ صحابہ و اہل بیت اور تعظیم شعائر اسلام کی جد و جہد واجباتِ شرعیہ میں سے ہے اور ہمارے ایمان کا تقاضا ہے۔
- رسول کریمﷺ کی توہین،تنقیص اور تعریض کرنا ملت اسلامیہ سے خارج ہونے کا سبب ہے، مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے اور وطن عزیز کے امن کو خراب کرنے کا باعث ہے۔
- صحابہ کرام و اہلِ بیت عظام اور شعائرِ اسلام کی توہین، تنقیص اور تعریض کرنا صریحاً گمراہی اور بین المسالک فساد پیدا کرنے کی ناپاک کوشش ہے۔
- حالیہ بلاسفیمی کیسز میں سازش کا سد باب کرنا پاکستانی مسلم حکومت کی ذمہ داری ہے۔
- توہین ناموسِ رسالت کو روکنے کے لیے عالمی سطح پر اسے جرم تسلیم کروانے کے لیے حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
- بلاسفیمی کیسز میں جن مجرموں کوسزا سنائی جاچکی ہے، ان پر فوری عمل کیا جائے۔
- توہین مذہب سے متعلقہ زیرِ سماعت مقدمات کا فوری فیصلہ کیا جائے۔
- جن مقدمات کے بارے میں شکوک وشبہات کا اظہار کیا جارہا ہے ان کے بارے میں علماء کمیٹی کی موجودگی میں غور کرکے ان کے تحفظات کو دور کرنے کا اہتمام کیا جائے۔
- توہینِ رسالت کیسز کے ملزمان کو عدالت کے فیصلے سے پہلے گستاخ قرار دینا اور قتل کرنا شرعاً و قانوناً بہت بڑا جرم ہے۔
- قانون توہینِ رسالت کو غیرمؤثر بنانے اور ترمیم کروانے کی کوشش کرنے والے عناصر کی اندرونی وبیرونی فنڈنگ کو بند کیا جائے اور سوشل میڈیا وغیرہ پر ایسے توہین آمیز مواد اور اس کو پھیلانے والے عناصر پر فوری پابندی لگائی جائے اور قرار واقعی سزا دی جائے۔
- اس مسئلے کی غیرمعمولی اہمیت کے پیش نظر بین المسالک ’’تحفظ شعائر اللہ فورم‘‘ قائم کر کے اس کی اہمیت و حیثیت کو اجاگر کیا جائے۔
- حکومت سے اپیل کی جاتی ہے کہ اس مسئلے کی حساسیت کے پیش نظر اسی قدر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جائے اور شعائر اللہ کی تعظیم و تقدیس کو یقینی بنایا جائے۔
سیمینار میں اکابر علما اور دینی جماعتوں کے رہنماؤں کے خطابات کو سامعین نے بڑی توجہ کے ساتھ سنا اورہر شخص نے پختہ ارادہ کیا کہ زندگی کے آخری سانس تک دفاع شعائر اللہ کے لیے کی جانے والی کوششوں کی تائید جاری رکھی جائے گی۔ یوں یہ سیمینار اپنے جلو میں بہت سی اہم یادوں کو لیے اختتام پذیر ہوا۔