اکتوبر 2025ء

قطر پر اسرائیلی جارحیت، مسلم ممالک کی سالمیت پر سوالیہ نشان

مشترکہ مسلم فوج کا اسلامی نظریہ اور وطن عزیز کے لیے پاسبان حرم کا اعزاز

پچھلے دنوں  پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاملات میں تعاون اور سلامتی سے متعلق ’باہمی دفاع کا سٹریٹجک معاہدہ‘ ہوا ہے جس کے تحت ’کسی ایک ملک کے خلاف بیرونی جارحیت کو دونوں ملکوں کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا‘۔ پاکستان کے ساتھ سعودی عرب کایہ نیا مشترکہ دفاعی معاہدہ ’تقریباً آٹھ دہائیوں پر محیط تاریخی شراکت داری، بھائی چارے اور اسلامی یکجہتی کے بندھن پر مبنی ہے۔ یہ دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ سٹریٹجک مفادات اور قریبی دفاعی تعاون کا بھی عکاس ہے۔

اس معاہدے کا خاص پہلو یہ ہے کہ یہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب خطہ اور عالمی برادری انتہائی پیچیدہ سیاسی صورتحال سے گزر رہی ہے۔اس مشترکہ دفاعی معاہدے کے بعد خطے پر اس کے اثرات اور بین الاقوامی سیاست میں اس کے مضمرات کا معاملہ عالمی سطح پر موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ یہ سٹریٹجک معاہدہ طاقت کے علاقائی توازن میں ایک بڑی تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے اور خطے سے متعلق اسرائیل کی حکمت عملی کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔

پاکستان واحد مسلم ملک ہے جس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اور سعودی عرب مالی اور معاشی اعتبار سے مضبوط ہے ۔ بلومبرگ کے مطابق، سعودی فنڈ فار ڈویلپمنٹ پاکستان میں معدنیات اور پیٹرولیم کے شعبوں میں اربوں ڈالر کی سعودی سرمایہ کاری کرنے   اورپاکستان کے مرکزی بینک میں اپنے ڈپازٹ دو ارب ڈالرز تک بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے  ۔

یورپ کی ریاستیں 1948ء میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ’’نیٹو‘‘ جیسے فوجی اتحاد پر جمع ہوئیں، پس مسلمانوں کے لیے بدرجہ اولیٰ لازم ہے کہ وہ اس طرح کے اقدامات کو امت کے اتحاد اور صفوں کی مضبوطی کا ذریعہ بنائیں۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’مومنوں کی آپس کی محبت، شفقت اور مہربانی کی مثال ایک جسم کی مانند ہے کہ اگر اس کا ایک عضو تکلیف میں ہو تو سارا جسم بے خوابی اور بخار میں اس کا ساتھ دیتا ہے۔‘‘

سعودی عرب کے روحانی پیشوا، امام مفتی شیخ عبد العزيز بن باز ﷫ نے 1989ء میں مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے پلان پیش کرتے ہوئے کہا تھا:  

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

﴿وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ ...﴾ [الأنفال: 60]

’’جہاں تک ہوسکے اپنی طاقت کو جمع کریں اور اپنے اسلحہ کو تیار کریں‘‘۔

’’(اس کا عملی طریقہ یہ ہے کہ ) ایک ایسا مشترکہ مضبوط متحد اور ہر طرح کے اسلحہ سے مالا مال اسلامی لشکر تشکیل دیا جائے جو سب مسلمانوں کی رضا سے بنائی ہوئے امین قیادت کے تابع ہو۔یہ اسلامی لشکر تمام عربی واسلامی ممالک کے وزراے دفاع اور سپہ سالاران پر مشتمل مجلس شورٰی  پر انحصار کرے ۔ اس میں تمام مسلم ممالک کو شامل کرنے کی دعوت دی جائے تاکہ یہ مشترکہ اسلامی سپاہ مضبوط اساسات پر تشکیل اور ہر لحاظ سے دیکھی بھالی بنیادوں پر قائم ہو تاکہ ان کے پیش نظر مقاصد بخوبی پورے ہوسکیں۔ آپ سب حضرات پر ایسے عسکری اتحاد کے عظیم ووسیع فوائد اورشریعتِ اسلامیہ کی ہدایت و تعلیمات پر چلنے کی برکت کبھی مخفی نہیں۔[1]‘‘

اسی عظیم پلان کے تحت سعودی عرب نے 2017ء میں، جنرل راحیل شریف کی قیادت میں  اسلامی ممالک کا 39 رکنی فوجی اتحاد بھی تشکیل دیا تھا، جو بعد میں شیعہ سنی نزاع کی نذر ہوگیا۔ اس سعودی وژن  پر عرصہ دراز سے کام جاری تھا، جس کو مرحلہ وار اب حاصل کیا جائے گا۔ یہی مسلم امہ کے مسائل کا حل ہے۔

فریقین کواس حوالے سے ہوشیار رہنا چاہیے کہ اس مبارک اقدام کو ہرطرف سے شبہات میں  ڈالا جائے گا، خاص طور پر جو ممالک اس سے متاثر ہیں،مثلاً امریکہ، بھارت، اسرائیل اور ایران وغیرہ ... لیکن ایک اہم ترین نقطہ آغاز  ہونے کے ناطے اس میں ترقی اور بہتری کے بے پناہ اور قوی امکانات ہیں۔

جامعہ لاہور اسلامیہ، مملکتِ سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مابین دفاعی حکمتِ عملی کے اس تاریخی معاہدے پر دستخط کو خوش آئند اور مبارک قدم قرار دیتی ہے۔ یہ عظیم اقدام درحقیقت تمام اسلامی ممالک کے درمیان ہمہ جہتی تعاون کے لیے نقطۂ آغاز ہے، تاکہ دین کی حفاظت، سرزمینوں کا دفاع اور امت کے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔

سعودی عرب کو   خدمت حرمین شریفین اور پاکستان کو  حرمین شریفین کی حفاظت اور پاسبانی  مبارک ہو۔ مذکورہ مبارک معاہدے کے تناظر میں  آئندہ سے پاکستان کو پاسبان حرم سمجھنا اور لکھنا چاہیے۔

ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ اس قدم کو امت کے لیے خیر و برکت کا سبب بنائے، اور اسے ایک ہمہ گیر اسلامی اتحاد کی بنیاد قرار دے۔                                                           (ڈاکٹر حافظ حسن مدنی )

ـــــــــــــــــــ

قطر پر اسرائیلی جارحیت، مسلم ممالک کی سالمیت پر سوالیہ نشان

قومی حکومتوں (Nation States)کا خمار اتر رہا ہے اور دنیا میں  بڑے بڑے بلاک ابھر رہے ہیں۔ ایک طرف امریکا، برطانیا اور یورپ ہیں تو دوسری طرف چین، روس اور کچھ ایشیائی ممالک۔  باہمی کشاکشی کے باوجود عالمی سطح پر دنیا ان دو حصوں میں واضح طور پرتقسیم ہو چکی ہے۔ قومی حکومتوں نے جان لیا ہے کہ بقا انفرادیت میں نہیں، اس لیے ہر ملک کسی نہ کسی بڑےبلاک کا حصہ بننا اپنے وجود کے لیے لازم خیال کررہا ہے۔ مسلم بالخصوص عرب ممالک واضح طور پر امریکی بلاک کا حصہ رہے ہیں لیکن زمانہ گواہ ہے کہ امریکی دوستی ہمیشہ دشمنوں سے بڑھ کر نقصان دہ ثابت ہوئی۔

دوحہ، قطر میں اسرائیل کے حالیہ حملے سے نئے اور پرانے تمام زخم تازہ  ہوگئے ہیں۔ ان حملوں میں مبینہ طور پر حماس کے چھے افراد شہید ہوئے ہیں  جن میں خلیل الحیہ کے بیٹے بھی شامل ہیں، تاہم مرکزی قیادت کے محفوظ رہنے کی خبریں ہیں۔ یہ حملہ قطر کی  خودمختاری اورعلاقائی سالمیت  پر ایک سوالیہ نشان ہے جس کا اظہار بجا طور پر اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی کیا  ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب، ترکی، متحدہ عرب امارات، ایران، عراق، پاکستان اور کویت سمیت کئی ممالک نے اس بلا جواز اشتعال انگیزی کی شدید مذمت کی ہےاور علاقے کے لیے عدم استحکام کا باعث قرار دیا ہے۔ عرب ممالک یقیناً جانتے ہیں کہ امریکا کے اسلحے اور اس سے کیے گئے دفاعی معاہدے مسلمانوں کو باہمی جنگوں میں اتارنے کے لیے تو کارگر ہیں لیکن خود امریکا اور اس کے بغل بچے اسرائیل کے خلاف ان کی کوئی حیثیت نہیں اور اگر اب بھی نہیں جان پائے تو شاید ہی وہ کبھی جان پائیں۔ اس حملے کے بعد  امریکا اور قطر کے تعلقات پر بھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان اٹھ کھڑا ہوا ہے، جہاں امریکا کا سب سے بڑا فوجی اڈا موجود ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آیا قطر امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرے گا یا نہیں؟ اگر اب بھی علاقے کی سلامتی سے متعلق امریکی ضمانت کو کافی سمجھا گیا تو یہ  تاریخی غلطی شمار کی جائے گی۔ یہ حملہ قطر کی ثالثی کوششوں پر بھی پانی پھیرنے کو کافی ہے حالاں کہ قطر کا کردار ہمیشہ ثالثی کا رہا ہے؛ امریکا طالبان کے درمیان ثالثی ہو یا حماس اور اسرائیل کے درمیان، قطر کی کوششیں ہمیشہ قابلِ ستایش رہی ہیں۔  مذاکرات کرنے والوں کا قتل مذاکرات کی تمام کوششوں کو صفر کرنے کے مترادف ہے؛ باوجودے کہ اس سے قبل اسرائیل اپنا کوئی بھی قیدی مذاکرات کے بغیر چھڑوا نہیں سکا۔اس سے  زمین پر چلتی چیونٹی کو دیکھنے کی ٹکنالوجی کا پول کھلنے کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے ناقابل ِ شکست تصور کیے جانے کا خیال بھی چکنا چور ہوجاتا ہے۔ اس صورت حال میں سب سے اہم سوال ان معاہدوں کی بقا کا ہےجو ابراہم اکارڈ کے نام سے عرب اسرائیل تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔آیا اب بھی یہ تعلقات پروان چڑھیں گے یا قطر حملے سے عرب کچھ سیکھ پائے ہیں؟

ایران پر اسرائیلی حملے کے بعد جوابی کارروائی سے اسرائیل کے آئرن ڈوم کی حقیقت بھی کافی حد تک آشکارا ہو گئی ہے، اس لیے اس سے ڈرنے کے بجاے جراَت مندانہ اقدام کی ضرورت ہے۔  ان حالات میں کم زوری دکھانا مستقبل میں مستقل ذلتوں اور رسوائیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ اقدام کسی ملک کی انفرادی حیثیت کے بجاے امت کی سطح پر کیا جانا چاہیے اور اس کی واحد صورت یہی ہے کہ اسلامی ممالک مشترکہ پلیٹ فارم پر جمع ہوں؛ ایک ایسا پلیٹ فارم جو  اسلامی ممالک کے دفاع کے ساتھ ساتھ اسلامی مقبوضات کو واپس لینے اور امت کے مفادات کے تحفظ کا ضامن بھی ہو۔ اس سے قبل اگرچہ مسلمانوں کی ایک تنظیم  او آئی  سی موجود ہے لیکن وہ ایک نام سے بڑھ کر شاید کچھ بھی نہیں: ﴿ اِنْ هِيَ اِلَّاۤ اَسْمَآءٌ سَمَّيْتُمُوْهَاۤ ﴾۔

قطر پر اسرائیلی حملہ بجا طور اقوامِ عالم کی بے توقیری ہے؛ مزید یہ کہ اقوامِ متحدہ اور اس کے قوانین کو بھی جوتے  کی نوک پر رکھا گیا ہے۔ اس سب پر مستزاد محض انسانی بنیادوں پر دیکھا جائے تو میزبان، ثالث اور امن کی کوشش کرنے والے پر حملہ اس حقیقت پر مہر ثبت کرتا ہے کہ اس کا علاج طاقت کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ اللہ تعالیٰ  نے یہود کے اسی کردار کے پیش نظر کوہِ طور ان پر بلند کرکے ان سے وعدہ لیا تھا جس میں اس بات کی طرف رہ نمائی ہے کہ یہ قوم صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے:

 ﴿وَ اِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَكُمْ وَ رَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَخُذُوْا مَاۤ اٰتَيْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّ اذْكُرُوْا مَا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾

 (البقرۃ: 63)

قطر کانفرنس میں (منعقدہ 15 ستمبر 2025ء) ملایشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم نے بجا طور سے یہ  جرأت مندانہ اعلان کیا ہے مذمت سے نہ تو میزائل رکیں گے، نہ ہی سرزمین عزیمت آزاد ہوگی؛ غاصب اسرائیل کو اس کے جرائم پر سخت سزاؤں کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے بھی کہا ہے کہ اسرائیل کو اس کے انسانیت سوز جرائم کی پاداش میں فوری سزا دینے کی ضرورت ہے اور ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کی اقوام متحدہ کی رکنیت معطل کی جائے۔

اس حملے  کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں امریکی بلاک کو نقصان پہنچنے کے واضح امکانات ہیں؛ البتہ ایک تیسرے بلاک کی امید کی کرن بھی دکھائی دے رہی ہے اور وہ ہے ’’مسلم بلاک‘‘۔ یہ اتحاد ہی اسرائیل کی خود سری، متکبرانہ اقدامات، انسانیت کے ساتھ بہیمانہ سلوک اور وحشیانہ پیش قدمی کو لگام ڈالنے کا واحد راستاہے؛ یہ راستا عزت و توقیر کا راستا ہے۔  اس سے جہاں سلامتی کو درپیش خطرات سے نبٹنا ممکن ہوسکتا ہے، وہاں باہمی تجارت کے ذریعے معاشی مشکلات پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔ یہی وہ راستاہے جو ملتِ اسلامیہ کو عالمی اوباشوں کے شکنجوں سے نجات دلا سکتا ہے۔                                                               ( ڈاکٹر جواد حیدر)

ـــــــــــــــــــ

سیلاب کی آزمایش اور ہماری ذمہ داریاں

اس سال وطنِ عزیز نے بارشوں کا ایک ایسا موسم دیکھا جو گذشتہ کئی دہائیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ شدید اور طویل تھا۔ جولائی اور اگست میں ہونے والی غیر معمولی بارشوں نے سندھ، بلوچستان، جنوبی پنجاب اور خیبر پختونخوا کے بعض اضلاع کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دریا بپھر گئے، پشتے ٹوٹ گئے، بند بکھر گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں بستیاں پانی میں ڈوب گئیں۔ لاکھوں افراد بےگھر ہوئے؛ کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں؛ مویشی بہہ گئے اور مال و اسباب کا اتنا بھاری نقصان ہوا جس کا ازالہ برسوں میں بھی مشکل نظر آتا ہے۔ یہ مناظر دل کو دہلا دینے والے   ہیں۔ اہلِ ایمان کے لیے یہ محض ایک قدرتی حادثے سے بڑھ کر ایک لمحۂ فکریہ ہے جو ہمیں متوجہ کرتا ہے کہ ہم جہاں اس کے طبعی اسباب و  عوامل کو سمجھنے کی کوشش کریں، وہیں اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی پر بھی نظر ڈالیں اور یہ سوچیں کہ ان حالات میں ہمارا رویہ کیا ہونا چاہیے۔

ماہرینِ موسمیات متفق ہیں کہ حالیہ سیلاب محض ایک اتفاقی حادثہ نہیں ہے بل کہ عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں (Climate Change) کا بہ راہِ راست نتیجہ ہے۔ گلوبل وارمنگ نے بارشوں کے پیٹرن کو بدل دیا ہے؛ درجۂ حرارت میں اضافے اور گلیشیئرز کے پگھلنے سے ہمارے دریاؤں میں غیر متوقع طغیانی پیدا ہوئی ہے۔لیکن اس کے ساتھ یہ تلخ حقیقت بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ بھارت اپنے آبی ذخائر اور ڈیموں کو بہ طور ہتھیار استعمال کرتا ہے۔ وہ جب چاہے پانی روک لیتا ہے اور جب چاہے اچانک چھوڑ دیتا ہے جس کے نتیجے میں ہمارے دریا مزید بپھر جاتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل بددیانتی ہی نہیں،  آبی دہشت گردی ہے جو ہمارے کسانوں، ہماری معیشت اور ہمارے شہروں کے لیے مستقل خطرہ بنی ہوئی ہے۔

خارجی اسباب کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ ان بارشوں کے نقصانات میں ہمارے اپنے اجتماعی رویوں کا بڑا دخل ہے۔ ہم نے برساتی نالوں کو بند کر کے رہایشی اسکیمیں کھڑی کر لیں؛ دریا کے کناروں پر تجاوزات قائم کر دیں؛ جنگلات کاٹ ڈالے اور نکاسیِ آب کا مناسب انتظام نہ کیا۔ یوں جو بارشیں قدرتی طور پر زمین کو سیراب کرنے اور رحمت بننے کے لیے آتی ہیں، وہ ہماری غلط منصوبہ بندی کے باعث آفت بن جاتی ہیں۔ یہ منظرنامہ ہمیں متنبہ کرتا ہے کہ اگر ہم نے اپنی شہری اور زرعی منصوبہ بندی میں فوری اصلاح نہ کی تو آنے والے برسوں میں ایسی آفات مزید تباہ کن ثابت ہوں گی۔

اہلِ ایمان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ان آفات کو محض سائنسی زاویے سے نہ دیکھیں بل کہ اُن میں ربانی حکمت کو بھی تلاش کریں۔ قرآن مجید ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زمین و آسمان میں کوئی حادثہ بلا سبب نہیں ہوتا؛ یہ سب اللّٰہ کے اذن سے ہے۔ یہ آفات کبھی آزمایش ہوتی ہیں تاکہ صابرین کو پرکھا جائے اور کبھی تنبیہ کہ انسان اپنی غفلت سے جاگے اور اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لے۔ قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ زمین پر مختلف قسم کے بگاڑ  انسانی اعمال  کا نتیجہ ہوتے ہیں:

 ﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ۰۰۴۱﴾ (الروم: 41)

 ’’خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ہے تاکہ خدا اُن کو اُن کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے؛ عجب نہیں کہ وہ باز آجائیں۔‘‘

یہ الفاظ ہمیں متنبہ کرتے ہیں کہ اجتماعی گناہوں اور بداعمالیوں کے اثرات صرف اخروی سزا تک محدود نہیں رہتے، وہ دنیا میں بھی ظاہر ہوتے ہیں اور ان کا مقصود خدا کی طرف لوٹنے کی دعوت دینا ہے۔ اس لیے ان سیلابوں کو ہمیں محض قدرتی حادثہ نہیں سمجھنا چاہیے بل کہ خدائی تنبیہ سمجھ کر اپنے اعمال اور اجتماعی رویوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ یہ وقت دلوں کو خدا کی طرف متوجہ کرنے، دعا اور استغفار میں لگنے اور اپنی زندگیوں میں خدا کی اطاعت کو مرکزی حیثیت دینے کا ہے۔

اس وقت سب سے پہلا فریضہ یہ ہے کہ ہم متاثرہ اہل وطن کی فوری مدد کے لیے آگے بڑھیں۔ لاکھوں خاندان بے گھر ہو چکے ہیں جنھیں کھانے، پینے کے پانی، کپڑوں، علاج اور محفوظ پناہ گاہوں کی ضرورت ہے۔ یہ حکومت یا چند اداروں ہی کی ذمہ داری نہیں ہے بل کہ ہر صاحبِ حیثیت مسلمان کا دینی و اخلاقی فرض ہے کہ وہ ایثار و ہم دردی کا پیکر بن کر اپنے مال اور وقت میں سے حصہ نکالے اور ان مصیبت زدہ ہم وطنوں کے دکھ درد میں شریک ہو۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ بحالی کے کام وقتی نہ ہوں بل کہ پاے دار ہوں؛ متاثرین کو از سرِ نو آباد کیا جائے؛ ان کے روزگار کا بندوبست ہو اور ان کے بچوں کی تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا جائے۔

ان عملی اقدامات کے ساتھ ساتھ ہمیں اجتماعی توبہ کی طرف بھی متوجہ ہونا چاہیے۔ ہماری عدالتوں، بازاروں، دفاتر اور گھروں میں جو بے انصافی، جھوٹ، دھوکا اور کرپشن عام ہے، اسے ختم کرنے کی سنجیدہ کوشش کرنا ہی اصل رجوع الی اللّٰہ ہے۔ یہی رجوع آفات کے رخ کو رحمت میں بدل سکتا ہے۔

ان کڑے وقتوں میں ایک خوش آیند پہلو یہ ہے کہ اسلامی رفاہی تنظیمیں، دینی ادارے اور ہزاروں دین دار نوجوان خدمتِ خلق کے جذبے کے ساتھ میدانِ عمل میں پیش پیش ہیں۔ کہیں کھانا اور راشن فراہم کیا جا رہا ہے؛ کہیں خیمے لگ رہے ہیں؛ کہیں میڈیکل کیمپس قائم ہو رہے ہیں اور کہیں سیلاب زدہ علاقوں میں کشتیوں کے ذریعے امدادی سامان پہنچایا جا رہا ہے۔ یہ وہی دینی غیرت اور ایمانی حرارت ہے جو ایک زندہ امت کی پہچان ہے۔ ان کا یہ کردار نہ صرف مصیبت زدگان کے لیے سہارا ہے بل کہ باقی قوم کے لیے بھی پیغام ہے کہ جب امت اجتماعی طور پر کسی خیر کے کام کے لیے اُٹھتی ہے تو اللّٰہ کی مدد نازل ہوتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کوششوں کو محض وقتی سرگرمی نہ رہنے دیں بل کہ مستقل خدمت اور رفاہی نظام کا حصہ بنائیں تاکہ ایسے بحرانوں میں قوم ہر بار نئے سرے سے ٹوٹنے نہ لگے بل کہ مضبوط ہو کر کھڑی ہو۔

ایمانی بصیرت کے روزن سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ سیلاب ایک عمومی سانحہ نہیں ہے بل کہ  ایک پیغام ہے۔ یہ ہمیں متنبہ کرتا ہے کہ ہم اپنی اجتماعی زندگی کے ہر شعبے پر غور کریں اور دیکھیں کہ کہاں کہاں ہم نے اللّٰہ کے احکام سے روگردانی کی ہے۔ یہ آزمایش ہمیں تباہ کرنے اور مٹانے کے لیے نہیں بل کہ ہمیں متنبہ کرنے کے لیے آئی ہے۔ اگر ہم نے اسے نظرانداز کیا تو شاید آیندہ اس سے بھی سخت آزمایشیں ہمیں اپنی لپیٹ میں لے لیں۔ لیکن اگر ہم نے اس سے سبق سیکھا تو یہی مصیبت ہمارے لیے خیر کا سبب بن سکتی ہے۔ آج ہمیں یہ عہد کرنا ہو گا کہ ہم سیلاب زدگان کی مدد میں پیچھے نہیں رہیں گے؛ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو احکامِ خداوندی کی اطاعت کے سانچے میں ڈھالیں گے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک محفوظ اور رحمت بھرا پاکستان چھوڑیں گے۔                                                (ڈاکٹر حافظ محمد زبیر)

 

[1]       مجموع فتاوىٰ الشيخ عبد العزيز بن باز:4/295