محدث عبدالوکیل ہاشمی کا سانحۂ ارتحال
٢٢صفر المظفر ١٤٤٧ھ بہ مطابق 25 اگست 2025ء کو مکہ مکرمہ کے کنگ عبداللّٰہ میڈیکل کمپلیکس میں برصغیر کے نام ور فرزندِ علم شیخ الحدیث علامہ عبدالوکیل بن عبدالحق ہاشمیؒ اس دارِ فانی سے رخصت ہو گئے۔ قریب نو دہائیوں پر پھیلی زندگی کا ہر ورق علم، عبادت اور خدمتِ دین سے لبریز تھا۔ اگلی صبح مسجدِ حرام میں فجر کے بعد ان کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ ان کے جانے سے علمی دنیا ایک گراں قدر سرمایے سے محروم ہو گئی ہے اور ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا ہے جس کا پُر ہونا قریب قریب ناممکن لگتا ہے۔
علامہ عبد الوکیل ہاشمیؒ کی ولادت 1938ء میں احمد پور شرقیہ، ضلع بہاول پور میں ہوئی جو اُس وقت ریاستِ بہاول پور کا حصہ تھا۔ ان کا تعلق ایک ایسے خانوادے سے تھا جس کی رگ رگ میں علمِ حدیث رچا بسا تھا۔ ان کے والدِ گرامی شیخ عبد الحق محدث ہاشمیؒ اور دادا شیخ عبد الواحد ہاشمیؒ، دونوں شیخ الکل میاں سید محمد نذیر حسین محدث دہلویؒ کے تلامذہ میں شامل تھے۔ اس نسبت نے ان کے خاندان کو بہ راہِ راست اس عظیم دہلوی مدرسۂ فکر سے وابستہ کر دیا تھا جس نے برصغیر میں علمِ حدیث کی تجدید کی۔ شیخ عبد الحق محدث ہاشمیؒ صحیح بخاری کے حافظ تھے؛ اسے تیس حصوں میں تقسیم کر کے ہر روز ایک حصہ پڑھتے اور ہر ماہ ختم کرتے؛ یہی ذوق و شغف بیٹے کے دل میں بھی پیوست ہو گیا۔ احمد پور شرقیہ میں ان کی ابتدائی تعلیم کی بنیاد رکھی گئی جہاں انھوں نے اپنے جدِ محترم سے قرآن کریم کا درس لیا۔ جب شیخ عبد الحق ہاشمیؒ کی علمی شہرت حجازِ مقدس تک پہنچی تو سعودی سلطان کی دعوت پر وہ مکہ مکرمہ منتقل ہو گئے۔ علامہ عبد الوکیلؒ بھی اپنے والد کے ساتھ ہجرت کر کے حجازِ مقدس میں جا بسے۔ مکہ کی مقدس فضا میں والد کی قربت اور فیضِ صحبت نے ان کے علمی و روحانی تشخص کی تعمیر کی اور وہ اپنے والد ہی کی طرح حدیثِ رسول ﷺ کے عاشق و خادم بن گئے۔
علامہ عبدالوکیل ہاشمیؒ کو عرب و عجم کے کبار مشایخ اور جلیل القدر علما سے شرفِ تلمذ حاصل تھا۔ انھوں نے اپنے والدِ ماجد شیخ عبدالحق محدث ہاشمیؒ سے بہ راہِ راست صحیح بخاری اور دیگر کتبِ حدیث پڑھیں اور ان کے فیضانِ علم و عمل سے بہرہ ور ہوئے۔ انھیں برصغیر کے عظیم علما سے استفادے کے مواقع بھی میسر آئے جن میں بالخصوص شیخ عبدالسلام بستویؒ، شیخ عبیداللّٰہ رحمانی مبارک پوریؒ اور شیخ سلطان محمود جلال پوریؒ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ انھوں نے شیخ محمد عبداللّٰہ بڈھی مالوی اور شیخ شمس الحقؒ سے بھی فیض پایا۔ بعد ازاں عالمِ عرب کے اجِلَّہ مشایخ سے بھی انھوں نے اکتسابِ علم کیا اور بعض احادیث کی قراَت کر کے اجازت حاصل کی۔ ان میں بالخصوص شیخ تقی الدین الہلالیؒ، شیخ محمد عبدالرزاق حمزہؒ اور شیخ احمد شاكرؒ قابلِ ذکر ہیں۔ اسی طرح مدینہ منورہ میں عصرِ حاضر کے نام ور محدث علامہ ناصر الدین البانیؒ سے اجازتِ حدیث حاصل کی اور ان سے علمی مباحثے بھی کیے۔ اس طرح ان کا علمی سلسلہ برصغیر کے اکابر محدثین سے ہوتا ہوا حجاز و عرب کے جلیل القدر ائمۂ حدیث تک جا پہنچا اور ایک ایسی جامع روایت وجود میں آئی جس میں عرب و عجم کے علوم کی خوشبو یک جا ہو گئی۔
شیخ عبدالوکيل ہاشمیؒ کی زندگی کا سب سے تاب ناک اور روشن باب تدریسِ حدیث تھا۔ مسجدِ حرام کے ستونوں تلے ان کے حلقہ ہاے درس برسوں آباد رہے جہاں علم و اخلاص کی روشنی بکھرتی تھی۔ انھوں نے صحیح بخاری، جامع ترمذی اور موطأ امام مالک کی بارہا تکمیل کی۔ ان کا اندازِ تدریس خطیبانہ شور و غوغا، عقلی موشگافیوں اور فلسفیانہ پیچیدگیوں سے بالکل الگ نہایت دل نشین، سادہ اور باوقار تھا۔ جب حدیث پڑھاتے تو سند کی باریکیاں، متن کے لطائف اور فقہی نکات سب کچھ ایک ساتھ سامنے آ جاتا مگر اس سادہ اور رواں اسلوب کے ساتھ کہ مبتدی بھی سمجھ لیتا اور اہلِ فن بھی اپنی علمی پیاس بجھاتے۔
ان کی مجلسِ درس کا رنگ ایسا تھا کہ اس میں صرف علمی نکتے ہی زیرِ بحث نہیں آتے تھے بل کہ ایک ایسی روحانی فضا قائم ہو جاتی تھی جس میں علم، ادب اور احترامِ نبوی ساتھ ساتھ جلوہ گر ہوتے۔ وہ اپنے طلبہ کو خصوصیت کے ساتھ اس پہلو کی طرف متوجہ کرتے کہ علم کا اصل ثمر ادب اور شعورِ مقامِ رسالت ہے۔ جب وہ اپنے والدِ گرامی محدّثِ کبیر شیخ عبدالحق الہاشمیؒ کے طریقِ تدریس کا ذکر کرتے تو بڑے ادب سے بیان فرماتے کہ والد ماجد جب صحیح مسلم کے اس مقام پر پہنچتے جہاں یہ الفاظ آتے ہیں: إِنَّ أَبِي وَأَبَاكَ فِي النَّارِ.، تو محض سند پر اکتفا کرتے اور متن کو ترک کر دیتے کہ کوئی شخص ان مقامات کو فتنہ انگیزی کا ہتھیار نہ بنا سکے۔ شیخ اپنے والد مرحوم کی تائید میں قرآنِ مجید کی یہ آیت تلاوت کرتے:
﴿ يَوْمَ لَا يُخْزِي اللّٰهُ النَّبِيَّ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ﴾۔ یہی ان کا اپنا مزاجِ تدریس بھی تھا کہ وہ مشکل اور نازک مقامات پر غیر معمولی احتیاط برتتے۔ وہ علم کو محض معلومات کی ترسیل نہیں سمجھتے تھے بل کہ اسے ایمان، ادب اور محبتِ رسول ﷺ کا ذریعہ بناتے تھے۔
علمی حلقوں میں انھیں ’’مُسندِ مکة‘‘ کا لقب دیا گیا جو علم حدیث میں ان کے مقام رفیع اور صحیح بخاری سے ان کے خصوصی شغف کی روشن دلیل ہے۔شیخؒ نے صرف مسجدِ حرام ہی کو اپنی تدریسی خدمت کا مرکز نہیں بنایا بل کہ مختلف ممالک میں بھی حدیث کی شمعیں روشن کیں؛ خصوصاً کویت میں ان کی مجالسِ حدیث متعدد مرتبہ منعقد ہوئیں، جہاں ہزاروں طلبہ ان کے حلقۂ درس میں شریک ہوتے اور حدیثِ رسول ﷺ کے نور سے اپنی روحوں کو منور کرتے۔
تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی شیخ عبدالوکيل ہاشمیؒ نے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ وہ ایک کثیرالتصانیف عالم تھے جن کی محنتوں سے اسلامی علوم بالخصوص فنِ حدیث کی ثروت میں اضافہ ہوا۔ ان کی قلمی کاوشوں کا سب سے اہم موضوع صحیح بخاری سے متعلقہ موضوعات تھے۔ اس عظیم کتاب کے رجال، ابواب، اسانید اور متابعات پر انھوں نے ایسے دقیق کام کیے جو بعد کے محققین کے لیے بیش بہا رہ نمائی فراہم کرتے رہیں گے۔ صحیح بخاری کے حوالے سے ان کی چند نمایاں تصانیف یہ ہیں: عناية الباري (صحیح بخاری میں رواة کے ناموں کا تعین اور مقامات کی نشان دہی)، مفتاح القاري (صحیح بخاری کے ابواب، رواة، متابعات اور معلقات کی جامع فہرست)، عناية الوهاب (ان صحابہ اور رواة پر تحقیق جن سے بخاری نے روایت کی یا جن کا ذکر کیا۔)، إنعام الباري (شیوخِ بخاری کی احادیث کا معجم)، البحر الزاخر اور فتح الواحد (ان روایات کی وضاحت جو بخاری نے دو مختلف شیوخ کے واسطے سے نقل کیں۔)
صحیح بخاری کے علاوہ دیگر حدیثی اور فقہی موضوعات پر بھی ان کی متعدد کتابیں ہیں جیسے:
مسند القزوینی، الحطة، التعداد، أربعين أثرًا للسعادة، البطشة الكبرى في غزوة بدر الكبرى، دعاء المضطرين، يا أهل الفرش لذوا بأسماء ذي العرش، القول الصحيح، بدائع المنن، مختصر عناية الباري اور أقوال المحدثين وجمهور الفقهاء على أن يغسل الزوج زوجته بعد موتها،
جو سب کی سب بیش بہا اور نادر تحقیقی نکات کا گنجینہ ہیں۔
محدث عبد الوكيل ہاشمیؒ علم و تحقیق کے ساتھ ساتھ زہد و عبادت میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ قیام اللیل میں ان کا معمول یہ تھا کہ روزانہ پندرہ پارے تلاوت کرتے اور دو راتوں میں پورا قرآن ختم فرما لیتے۔ مسنون اذکار کی پابندی کرتے اور انھیں کبھی ترک نہ فرماتے۔ عمر بھر میں75 حج اور ہزاروں عمرے ادا کیے جو ان کی غیر معمولی عبادت گزاری اور شوقِ بندگی کا آئینہ دار ہیں۔
شیخ مرحوم نے اپنی علمی خدمات اور دعوتی مساعی کے ذریعے تالیفات و تصنیفات اور ہزاروں شاگردوں کی صورت میں قیمتی ورثہ چھوڑا ہے جو ان کے لیے صدقۂ جاریہ ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے؛ ان کی مغفرت کرے اور بلندیِ درجات سے نوازے؛ آمین۔