اسلام آباد میں گرین بیلٹ پر واقع
مساجد کی شرعی حیثیت اور چند غور طلب پہلو
نو اور دس اگست 2025 کی درمیانی شب اسلام آباد میں واقع مدنی مسجد کو راتوں رات جدید مشینوں سے مسمار کر دیا گیا اور اس قدر پھرتی دکھائی گئی کہ ملبہ غائب کرکے اس کی جگہ نئے پودے بھی لگا دئیے گئے ۔
یہ سب کچھ سی ڈے اے اور حکومت کے ان کارندوں نے کیا جو کئی عشروں سے نہ اسلام آباد کے پانی کا مسئلہ حل کر سکے ،نہ بڑھتی ہوئی غیر قانونی سوسائٹیوں کو روک سکے ،نہ صفائی کا قابل ذکر انتظام کر سکے اور نہ ہی اپنے ذمے عائد دیگر فرائض کو خوش اسلوبی سے سر انجام دے سکے لیکن مسجد کو منہدم کرنے کی کارروائی میں میں اتنے چاق وچوبند اور مستعد ثابت ہوئے کہ دنیاکو حیران کردیا!
حکومت کے اس اچانک ، غیر متوقع ،سنگین اور حساس اقدام نے ملک بھر میں بے چینی کی لہر پیدا کر دی ہے اور مختلف حلقوں سے مختلف رد عمل سننے کو مل رہے ہیں ۔لبرلز اور سیکولرز کو تو ویسے ہی مساجد سے خار ہے۔ لیکن بعض دیندار اور مخلص احباب بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ چونکہ گرین بیلٹ سرکاری جگہ ہے لہٰذا حکومت کی اجازت کے بغیر اگر وہاں مساجد تعمیر کی گئی ہیں تو ایسی مساجد غیر شرعی اور غیر قانونی ہیں لہذا انہیں گرانے میں حرج نہیں ۔
میں چونکہ خود اسلام آباد میں ایک عرصہ رہا ہوں اور گرین بیلٹ پر قائم مسجد دارالسلام آئی ٹین ٹو ، میں کم وبیش چار سال خطابت کے فرائض بھی انجام دیے ہیں ، مجھے اس صورت حال کا کسی حد تک ادراک ہے،کہ گرین بیلٹ پر مساجد کی تعمیر کیوں ہوتی ہے ؟اور محرکات کیا ہوتے ہیں؟اس بنا پر چند سطور لکھ رہا ہوں تاکہ سادہ لوح لوگ غیر شعوری طور پر مسجد کے خلاف استعمال نہ ہو سکیں۔
ہر ذی شعور جانتا ہے کہ مساجد مسلمانوں کی بنیادی ترین ضرورت ہیں ، اسلامی معاشرے کی پہچان ،سکون کے مقامات اور عبادت کے مراکز ہیں۔ان کی تعظیم و توقیر اور تقدیس مسلمانوں کے ایمان وتقویٰ کا شعار ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مساجد کی تعمیر اور ان کی رفعت وعظمت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿فِيْ بُيُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ وَ يُذْكَرَ فِيْهَا اسْمُهٗ يُسَبِّحُ لَهٗ فِيْهَا بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِۙ۰۰۳۶ رِجَالٌ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوةِ وَ اِيْتَآءِ الزَّكٰوةِ يَخَافُوْنَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيْهِ الْقُلُوْبُ وَ الْاَبْصَارُۗۙ۰۰۳۷﴾ [النور:37-36]
’’ان گھروں میں جن کے بارے میں اللہ نے حکم دیا ہے کہ وہ بلند کیے جائیں اور ان میں اس کا نام یاد کیا جائے، اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں ان میں صبح و شام۔ وہ مرد جنھیں اللہ کے ذکر سے اور نماز قائم کرنے اور زکوۃ دینے سے نہ کوئی تجارت غافل کرتی ہے اور نہ کوئی خریدو فروخت، وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی۔ ‘‘
مساجد کی تعمیر اور آباد کاری اسلامی ریاست کا اولین فریضہ ہے۔قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
﴿اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَ لِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ۰۰۴۱﴾ [الحج: 41]
’’وہ لوگ کہ اگر ہم انھیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوۃ دیں گے اور اچھے کام کا حکم دیں گے اور برے کام سے روکیں گے۔ اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے قبضہ میں ہے۔ ‘‘
اس آیت مبارکہ میں مسلمان حکومت کے چار فرائض بیان ہوئے ہیں اور ان میں سب سے پہلا فریضہ معاشرے میں نماز کا نظام قائم کرنا ہے اور یہ مساجد بنائے بغیر ممکن نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو اپنے گھر بعد میں تعمیر کیے سب سے پہلے مسجد تعمیر کی ۔بلکہ راستے میں جہاں مدینہ تشریف آوری سے پہلے چند دن قیام کیا تو مسجد قبا کی بنیاد رکھی۔مزید اپنی امت کو مساجد بنانے کی ترغیب دی۔ سیدہ عائشہ بیان کرتی ہیں:
أَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُتَّخَذَ الْمَسَاجِدُ فِي الدُّورِ، وَأَنْ تُطَهَّرَ وَتُطَيَّبَ[1].
’’رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا:” محلوں میں مسجدیں بنائی جائیں اور انہیں پاک و صاف رکھا جائے، اور ان میں خوشبو لگائی جائے۔ “
پاکستان تو قائم ہی اسلام کے نام پر ہوا ہے اور اس کے دار الخلافہ کا نام بھی اسلام آباد ہے۔اس لیے پاکستان کے دارالخلافہ اور اس کے حکمرانوں کی اولین ذمہ داری اسلام کی عمل داری کو قائم کرنا ہے۔
کیپٹل سٹی کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری وہاں کے ادارے سی ڈی اے کےپاس ہے ۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سی ڈی اے اس عظیم فریضے میں ہمیشہ سنگین غفلت کا مرتکب رہا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے مطابق ہر ہر محلے میں مسجد ہونی چاہیے ،اس لحاظ سے سی ڈی اے کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر محلے میں مسجد کا مناسب انتظام کرے ۔ لیکن اسلام آباد کی آبادی بڑھتی رہی ،نئے سیکٹرز قائم ہوتے رہے لیکن مساجد کے لیے منظم منصوبہ بندی نہیں کی گئی ۔
اگرحکومت اس فریضے سے غافل رہی ہے تو کیا اسلام آباد کے مکین نماز باجماعت ترک کر دیتے؟ یہ ناممکن تھا ۔لہٰذا مسلمانوں سے جیسے ممکن ہوا قیمتی جگہیں اپنی گرہ سے خریدیں اور مساجد اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر کیں۔جہاں ایسا مناسب پلاٹ نہ مل سکا یا وہاں کے مکینوں کے پاس اتنی مالی گنجائش اور وسعت نہیں تھی وہاں دیندار لوگوں نے گرین بیلٹ پر عبادت کا فریضہ ادا کرنا شروع کر دیا ۔
یاد رہے گرین بیلٹ کوئی چھوٹی سی جگہ نہیں، بعض اعداد وشمار کے مطابق اسلام آباد کا کم وبیش بیس فیصد گرین بیلٹ پر مشتمل ہے۔ مختلف سیکٹرز میں اس کی چوڑائی ڈیڑھ سو فٹ سے تین سو فٹ کے درمیان ہوتی ہے ۔
کچھ مساجد تو بہت قدیم ہیں شاید اسلام آباد سے بھی پہلے کی ۔لیکن کچھ مساجد شدید دینی ضرورت کے تحت بنتی ہیں ،جب کہ سی ڈی اس ضرورت کی تکمیل میں ناکام رہتی ہے۔بعض مساجد کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ سیکٹر میں قریب مسجد نہ ہونے کی بنا پر اہل محلہ گرین بیلٹ میں نماز باجماعت شروع کر دیتے ہیں ،شروع میں سی ڈی اے والے رکاوٹ ڈالتے ہیں ،اہل محلہ مطالبہ کرتے ہیں کہ مسجد ہماری ضرورت ہے آپ ہمیں متبادل پلاٹ دے دیں ،اس پر سی ڈے اے والے لاجواب ہو جاتے ہیں اور اہل محلہ اسی عارضی مسجد کو وقت کے ساتھ ساتھ پختہ اور مستقل بنیادوں پر کھڑا کرتے ہیں اور یہ سب کچھ سی ڈی اے کےعلم میں ہوتا ہے ۔
یہ سرکاری زمین اگر عبادت کے لیے استعمال ہوئی ہے تو یہ خود سی ڈی اے کی ناکام منصوبہ بندی، مساجد کی تعمیر میں اپنے فریضے سے غفلت کا نتیجہ ہے۔ اگر اہل محلہ نے مسجد بنائی ہے تو یہ سی ڈی اے کے فرض کی تکمیل کی ہے ۔
کسی شخص کی ذاتی زمین پر اس کی رضامندی کے بغیر مسجد تعمیر کرنا فقہ اسلامی کے مطابق غصب شدہ زمین پر مسجد کی تعمیر کہلاتا ہےاور یہ سراسر ناجائز ہے ۔اسی طرح سرکاری جگہ پر بھی بلا وجہ اور بلا اجازت مسجد کی تعمیر اصولی طور پر درست نہیں ہے ۔لیکن گرین بیلٹ کی سرکاری زمین پر اس وجہ سے مسجد تعمیر کرنا کہ خود سرکار اپنے فریضے سے غافل ہے یہ اور نوعیت کا مسئلہ ہے۔
مدنی مسجدکے بارے میں یہ سمجھنا کہ وہ سرکاری جگہ پر قبضہ کرکے بنائی گئی تھی اور قبضہ والی جگہ پر مسجد بنانا جائز نہیں ہے ، تو یہ قطعاً درست نہیں ہے۔ بعض لوگوں کے بقول یہ مسجد اسلام آباد کے دار الحکومت بننے سے پہلے کی ہے ، جب کسی جگہ پر مسجد بن چکی ہے تو اسے خریدنا یا اس پر قبضہ کرنا نہ عام آدمی کے لیے جائز ہے اور نہ حکومت کے لیے درست ہے ۔ اگر یہ مسجد اسلام آباد پلان کے بعد کی ہے تو بھی اسے پچاس سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے اور جنرل ضیاء الحق مرحوم کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ وہ یہاں سے گزرتے ہوئے اسی مسجد میں نماز ادا کرتے تھے ۔ اس کے علاوہ بھی حکومتی وزراء اس میں نماز ادا رکرتے رہے ہیں ، ان میں سے بعض ایسی مساجد کی سرپرستی بھی کرتے رہے ہیں ۔تو ایسی صورت میں ایک طرح سے اسےحکومتی اور قانونی جواز بھی مل جاتا ہے ۔ لہٰذا سی ڈی اے کا بلاوجہ اسے گرانا درست اقدام نہیں ہے ۔
خود یہ مظلوم مدنی مسجد کا تاریخی پس منظر ہمارے خدشات کو تقویت دیتا ہے کہ اصل مسئلہ مسجد کے قانونی اور غیر قانونی ہونے کا نہیں بلکہ کچھ اور ہی ہے۔مقامی ذرائع کے مطابق شہید کی گئی مدنی مسجد کو سرکار کی اپنی سرپرستی حاصل رہی ہے۔خطیب ومؤذن کو سرکار کی طرف سے تنخواہ ملتی رہی ہے۔پھر راتوں رات غیر قانونی ہو گئی ہے ؟!چہ بولہبی است۔
گرین بیلٹ مفاد عامہ اور عوامی مصلحت کے لیے وسیع جگہ کا نام ہے اور مسجد بھی مفاد عامہ اور عوامی مصلحت کے لیے ہی بنائی جاتی ہے۔
ہمارے رجحان کے مطابق عوام کے دینی اور دنیاوی مصالح کا بیک وقت تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ لہٰذا کوشش یہ ہونی چاہیے تھی کہ ماحولیاتی تحفظ کی بھی ضمانت دی جاتی اور کئی عشروں سے جاری اس کشمکش کو ختم کرنے کے لیے حکومت کوئی ایسی مؤثر منصوبہ بندی کرتی ،جس سے مساجد کے لیے ایک مؤثر ضابطہ اخلاق طے ہو جاتا اور ماحولیاتی تحفظ کی بھی ضمانت ہوتی۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ حکومتی لسٹ کے مطابق فیصل مسجد جیسی وسیع وعریض اور بین الاقوامی شہرت یافتہ مسجد بھی گرین بیلٹ پر واقع ہے۔ خدا نہ کرکل کلاں حکومت اس قومی ورثے پر بھی بلڈور چلا دے۔ بعض حلقوں کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ حکومتی فہرست میں مذکور فیصل مسجد معروف فیصل مسجد نہیں بلکہ کوئی اور فیصل مسجد ہے جو اسی نام سے ہے۔لیکن فہرست میں امام مسجد کا نام معروف فیصل مسجد والے امام صاحب ہی ہیں اور فون بھی انہی کو کیا گیا ہے ۔اس سے آپ حکومتی نا اہلی کا اندازہ کر سکتے ہیں!
گرین بیلٹس پر ہوٹلز ،کیفے ، دیگر تجاوزات بھی موجود ہیں ، لیکن تجاوزات کا خاتمہ کرنے کی ابتدا ایک قدیم مسجد سے کرنا اور ہمارے حکومتی کارندوں کا ماضی جیسے قرائن بتاتے ہیں کہ اصل مسئلہ گرین بیلٹ اور ماحولیاتی تحفظ نہیں بلکہ دال میں کچھ کالا ہے ۔ اسلام آباد کا دینی تشخص ہی بعض حلقوں کے لیے ناقابل قبول ہے۔
مدنی مسجد کے قریب ہی وہ ہوٹل بھی ہے جسے انہی دنوں شراب کا اجازت نامہ میسرآیا ہے ۔یہ کس چیز کی غمازی ہے ؟کیا لبرل چہرہ دنیا کو دکھانا مقصود ہے ؟ یا ماحول کے تحفظ کے نام پر کسی بیرونی فنڈنگ کو ہڑپ کرنا پیش نظر ہے ؟یا کوئی اور مخصوص لابی ہے ؟اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ سب گرہیں کھلتی جائیں گی ۔
جو بھی حقائق ہوں، راتوں رات ایک مسجد کو مسمار کرنے کا یہ عمل سخت تکلیف دہ اور افسوسناک ہے۔ ہمارے دین میں تو کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ کو بھی گرانے کی اجازت نہیں، چہ جائیکہ مسلمانوں کی مسجد کو ایک اسلامی ملک میں منہدم کیا جائے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام نے ہمیشہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کا احترام سکھایا ہے۔
مسجد کی عظمت اور تقدس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اسے ’’بَیْتُ الله‘‘ یعنی اللہ کا گھر قرار دیا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ایک مسلمان اپنی جبین نیاز کو رب العالمین کے سامنے جھکا کر اس سے قرب حاصل کرتا ہے۔ اسی لیے مسجدیں صرف پتھر اور اینٹوں کا ڈھانچہ نہیں ہوتیں بلکہ یہ امت مسلمہ کی روحانی، فکری اور معاشرتی زندگی کا مدار ہوتی ہیں۔
قرآن مجید کے مطابق، اللہ کی مساجد میں عبادت کرنے سے روکنا اور انہیں ویران کرنے کی کوشش کرنا بدترین ظلم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ اَنْ يُّذْكَرَ فِيْهَا اسْمُهٗ وَ سَعٰى فِيْ خَرَابِهَا اُولٰٓىِٕكَ مَا كَانَ لَهُمْ اَنْ يَّدْخُلُوْهَاۤ اِلَّا خَآىِٕفِيْنَ۬ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَّ لَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۰۰۱۱۴﴾
(سورۃ البقرہ: 114)
’’اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ کی مسجدوں میں اس کا نام لینے سے روکے اور ان کی ویرانی کی کوشش کرے؟ ایسے لوگوں کو ان مسجدوں میں داخل ہونے کا کوئی حق نہیں تھا مگر ڈرتے ہوئے۔ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔‘‘
اس میں اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لیے دنیا اور آخرت دونوں میں سخت وعید سنائی ہے۔ دنیا میں رسوائی اور آخرت میں عذابِ عظیم ، ان کے اس جرم کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اسلام آباد کی انتظامیہ کا یہ اقدام ایک عام عمارت کی مسماری نہیں بلکہ یہ اسلامی تعلیمات کی سنگین خلاف ورزی اور مسجد کی توہین ہے۔ اس مذموم اقدام سے مسلمانوں کے جذبات سخت مجروح ہوئے ہیں ،اور غم وغصے سے بھرے ہوئے ہیں ۔
کچھ لوگ اس مسماری کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ مسجد اسلام آباد کے قدرتی مناظر میں رکاوٹ تھی اور اسے ماحولیاتی تحفظ کی خاطر گرایا گیا۔ اسلامیان پاکستان کے نزدیک اس دلیل سے ایک مسجد کو شہید کرنے کا جواز پیش کرنا ’’ عذر گناہ بدتر از گناہ ‘‘ کے مترادف ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام آباد کے قدرتی حسن کو بڑی بڑی سوسائٹیز، ٹاورز اور پلازوں نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ جب بھی میں اس شہر میں جاتا ہوں، 1997 کے سرسبز و شاداب اسلام آباد کو یاد کرتا ہوں۔ سی ڈی اے کی نااہلی کا عالم یہ ہے کہ قدرتی برساتی نالوں کی گزرگاہوں پر بھی غیر قانونی تعمیرات ہو چکی ہیں، جس پر ماہرین مستقبل کے حوالے سے فکرمند ہیں۔
ان تمام سنگین مسائل کو نظرانداز کر کے ایک قدیم مسجد کو راتوں رات مسمار کرنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس کارروائی کے پیچھے محض قدرتی مناظر کا تحفظ نہیں، بلکہ کچھ اور محرکات کارفرما ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ غصب شدہ زمین پر مسجد بنانا شرعاً درست نہیں ، فقہاء کے ہاں یہ ایک مسلمہ اصول ہے۔ اسی طرح تجاوزات پر قائم شدہ مساجد کی بھی علماء عمومی تائید نہیں کرتے۔ تاہم، اسلام آباد میں گرین بیلٹ پر قائم یا دیگر مقام پر قدیم مساجد کا معاملہ ذرا مختلف ہے ، ان پر عام حکم نہیں لگایا جاسکتا ۔
ابن تیمیہ نے ’’الفتاوی الکبری‘‘ میں سرکاری زمین پر حکومت کی اجازت کے بغیر مسجد بنانے سے متعلق امام احمد کا فتویٰ نقل کیا ہے :
قَالَ إسْمَاعِيلُ بْنُ سَعِيدٍ الشَّالَنْجِيُّ: سَأَلَتْ أَحْمَدَ عَنْ طَرِيقٍ وَاسِعٍ وَلِلْمُسْلِمِينَ عَنْهُ غِنًى وَبِهِمْ إلَى أَنْ يَكُونَ مَسْجِدًا حَاجَةٌ، هَلْ يَجُوزُ أَنْ يُبْنَى هُنَاكَ مَسْجِدٌ؟ قَالَ: لَا بَأْسَ إذَا لَمْ يَضُرَّ بِالطَّرِيقِ[2].
’’ اسماعيل بن سعيد الشالنجي کہتے ہیں کہ میں نے امام احمدؒ سے پوچھا کہ’’ اگر ایک چوڑا راستہ ہو اور مسلمانوں کو اس کے علاوہ گزرنے کی سہولت بھی ہو اور انہیں وہاں مسجد بنانے کی ضرورت بھی ہو تو کیا وہاں مسجد بنائی جا سکتی ہے؟‘‘انہوں نے کہا: ’’اس میں حرج نہیں جب تک راستے کو نقصان نہ پہنچے۔‘‘
امام ابن تیمیہ ؒ نے بھی کھلے راستے پر مسجد بنانے کو مطلق طور پر جائز قرار دیا اور حکومت کی اجازت کی شرط نہیں لگائی[3]۔‘‘
ابن قدامہ نے ’’المغنی ‘‘ میں کہا:
وإن بنى في طريق واسع في موضع لا يضر البناء فيه لنفع المسلمين كبناء مسجد يحتاج إليه للصلاة فيه في زاوية ونحوها، فلا ضمان عليه، وسواء في ذلك كله أذن الإمام أو لم يأذن.[4]
’’اگر کسی نے چوڑی سڑک میں ایسے مقام پر تعمیر کی جہاں اس سے کوئی نقصان نہ ہواور اس کا مقصد مسلمانوں کا فائدہ ہو، جیسے ایسی مسجد بنانا جس کی نماز کے لیے ضرورت ہو، کسی کونے وغیرہ میں تو اس پر کوئی جرمانہ نہیں ہے، خواہ حکومت کی اجازت ہو یا نہ ہو ۔ ‘‘
دینی فتاویٰ اور شرعی رہنمائی کی مشہور سعودی ویب سائٹ (www.islamweb.net) پر وہاں کے علماء کرام سے سرکاری زمین پر مسجد بنانے کا فتویٰ پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے لکھا:
’’ ایسی زمین پر مساجد بنانا جو کسی کی ذاتی ملکیت نہ ہو بلکہ ریاست کی ملکیت ہو، اصولی طور پر جائز ہے، جب تک اس سے کسی دوسرے کو نقصان نہ پہنچے، جیسے ان کا راستہ بند کر دینا یا اسے اتنا تنگ کر دینا کہ اس سے انہیں نقصان پہنچے۔ نیز یہ بھی شرط ہے کہ لوگوں کو اس مسجد کی ضرورت ہو تو اس صورت میں حاکم وقت کی اجازت شرط نہیں ہے[5]۔‘‘
اسلام آباد کے تمام علماء نے متفقہ طور پر یہ مطالبہ کیا ہے کہ حکومت اسی جگہ پر مسجد دوبارہ تعمیر کرے۔
رات کے اندھیرے میں مسجد کو منہدم کرنے کا منصوبہ بنانے والے اعلیٰ افسران کے خلاف توہینِ مسجد کی کارروائی کی جانی چاہیے۔ اس کے علاوہ، مسجد کے تقدس کے حوالے سے موجود قوانین کو نہ صرف فعال کیا جائے بلکہ اس میں ایسی نئی دفعات بھی شامل کی جائیں کہ آئندہ کسی کو بھی ایسی جسارت کرنے کی ہمت نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ اہل دین کی مدد فرمائے اور دین دشمنوں کو ذلیل و خوار کرے۔ آمین
[1] ابوداؤد: 455،صحیح
[2] الفتاوى الكبرى ابن تيمية :5/ 111
[3] الفتاوى الكبرىٰ:5/ 113
[4] المغني لابن قدامة :8/ 425
[5] https://www.islamweb.net/ar/fatwa/51887