<p>روٴیت ِہلال اور مطالع کا اختلاف</p>

رؤیت ِہلال کا مسئلہ ان چند مسائل میں سے ہے جن سے عامة المسلمین اکثر متاثر ہوتے ہیں اور علم نہ ہونے کی بنا پر اہل علم کے متعلق مختلف شبہات بھی پیدا کرتے رہتے ہیں۔رؤیت ِہلال کا مسئلہ جہاں رؤیت یا شہادت سے تعلق رکھتا ہے، وہاں اس مسئلہ کا 'قضا' سے بھی گہرا تعلق ہے جوشہادتیں وصول کرکے ان کے معتبر ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرتی ہے۔مزید برآں اس مسئلے میں مسلمانوں کی اجتماعیت کی واضح رعایت بھی موجود ہے۔اسی طرح اختلافِ مطالع کی بنا پر تمام مسلمان ایک مخصوص فاصلے تک ہی ایک رؤیت کی پابندی کرسکتے ہیں، اور یہ مزید مطالعہ

<p>&rsquo;&rsquo;مسئلہ شہادت اور مُدیر محّدث&lsquo;&lsquo;</p>

قارئین کرام کو یاد ہوگا ، پچھلے دنوں جب قانون شہادت کامسّودہ مجلس شوریٰ میں زیربحث تھا، چندمغرب زدہ خواتین نے مسئلہ شہادت کے بعض پہلوؤں کو ''مرد و زن کی مساوات'' کے منافی قرار دیتے ہوئے ملک میں ایک طوفان کھڑا کردیا تھا۔سیاستدانوں کی شہ پر تو یہ ہوا ہی تھا، لیکن جس طرح مغربیت کے ہمنوا ، اخبارات و جرائد میں اس علمی مسئلہ پر بے بنیاد خیال آرائیاں کرتے رہے، ان کی بناء پر بعض دین پسند ذہن بھی ان سےمتاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ تاہم یہ بات راقم الحروف کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ اس سلسلہ میں معذرت خو مزید مطالعہ

<p>مسئلہ &rsquo;&rsquo;عول&lsquo;&lsquo; کے بارہ میں اہل تشیّع اور منکرین ِ حدیث کا نظریہ اور اس پر تبصرہ</p>

'' کہتے ہیں کہ انسان کی سعادت و شقاوت کا دارومدار انجام پر ہوتا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی اپنی ابتدائی علمی زندگی میں ذہین ہونے کی وجہ سے اچھی شہرت کے حامل رہے ہیں۔اسی بناء پر ''تدبر قرآن'' میں انکار حدیث کی نیو کو عام علماء نے نظر انداز بھی کیا۔ لیکن اپنی اس تفسیر کی تکمیل کے بعد وہ جس طرح نہ صرف سنت و حدیث کی جڑوں پر کلہاڑے چلا رہے ہیں، بلکہ اس کے لیے چن چن کر چند شاگردوں کو تربیت بھی دے رہے ہیں، اس سے ان کی اسلاف دشمنی کھل کر سامنے آرہی ہے۔ ان کے ایسے ہی شاگردوں میں سے ''افلاطونیت'' کے ایک مزید مطالعہ

<p>رؤیتِ ہلال او رمطالع کا اختلاف</p>

'' درج ذیل مقالہ حضر ت مولانا ابوالسلام محمد صدیق جامعہ علمیہ سرگودھا نے ، جمعیت اہلحدیث کورٹ روڈ کراچی کے زیراہتمامایک مجلس مذاکرہ (منعقدہ 17نومبرتا 20نومبر 1968ء) میں پڑھا، جسے افادہ عام کے لیے محدث میں شائع کیا جارہا ہے۔ (ادارہ) الحمدللہ وکفیٰ وسلام علیٰ عبادہ الذین اصطفیٰ أما بعد !﴿يَسْـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلْأَهِلَّةِ ۖ قُلْ هِىَ مَوَ&zwnj;ٰقِيتُ لِلنَّاسِ وَٱلْحَجِّ...﴿١٨٩﴾...سورۃ البقرۃ''''اے نبیؐ، آپؐ سے سوال کرتے ہیں اھلّہ (چاند) کے بارہ میں ، کہہ دیجئے یہ لوگوں کے (کاموں کی میعادیں)او رحج ک مزید مطالعہ

<p>رؤیت ِہلال اور مطالع کا اختلاف</p>

شکی دن کا روزہ :چاند نظر نہ آنے کی وجہ سے یہ فیصلہ نہیں کیاجاسکتا کہ شعبان کی تیسویں تاریخ ہے یانہیں؟ بعض لوگ احتیاط کے طور پر شکی روزہ رکھتے ہیں۔جس کی شریعت اجازت نہیں دیتی۔ حضرت عمارؓ نے فرمایا:''من صام الیوم شك فيه فقد عصٰی أبا القاسم''کہ '' جس شخص نے شکی دن کا روزہ رکھا، اس نے ابوالقاسم ؐ کی نافرمانی کی ہے۔''شہراعید لاینقصان:یہ حدیث کے الفاظ ہیں۔بروایت ابوبکرؓ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''شھر اعید لا ینقصان رمضان و ذوالحجة'' 1''یعنی عید کے دو مہینے کم نہیں ہوتے ایک رمضان اور دوسرا ذوالحج''امام ا مزید مطالعہ

جون 1982ء

<p>ہبہ کے سلسلہ میں ایک ضروری وضاحت</p>

مکرمی مولانا محمد عطاءاللہ صاحب حنیف زید مجدکم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!مورخہ 16 اپریل سئہ 1982 کا پرچہ "الاعتصام" زیرِ نظر ہے۔ اس میں احکام و مسائل کے عنوان کے تحت سوال نمبر2 ہے۔ اس کے الفاظ حسب ذیل ہیں۔اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اپنے ورثاء میں تقسیم کر دے تو شرعا یہ جائز یا نہیں؟اس کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا ہے:"ہمارے زمانہ میں یہ نرواج عام ہوتا جا رہا ہے کہ زندگی میں اپنی جائیداد تقسیم کر دیتے ہیں لیکن صحابہ رضی اللہ عنھم، تابعین و ائمہ کے دور میں اس کا ثبوت نہیں ملتا مزید مطالعہ

نومبر 1987ء

<p>تقسیم وراثت کا ایک مسئلہ اور اس کا حل</p>

سیف اللہ خالد ریلوے روڈ بھکر سے لکھتے ہیں:"مندرجہ ذیل سوال درپیش ہے، جواب قرآن و سنت کی روشنی میں دیا جائے، زید نے اپنے ترکہ میں نقد دو لاکھ روپیہ چھوڑا ہے۔ جبکہ پس ماندگان میں اس کی ایک بیوی، چار لڑکے اور پانچ لڑکیاں ہیں۔ ہر ایک کے حصہ میں کتنی کتنی رقم آئے گی؟"الجواب:بسم اللہ الرحمن الرحیمسوال سے ظاہر ہے کہ زید کے ورثاء ایک بیوی، چار لڑکے، پانچ لڑکیاں ہیں۔ اس صورت میں بیوی کے لئے آٹھواں حصہ ہے۔ کیونکہ میت کی اولاد موجود ہے۔ قرآن مجید میں ہے:﴿فَإِن كانَ لَكُم وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمّا تَ مزید مطالعہ

حافظ عبداللہ محدث روپڑی کا فتویٰ اور مولانا عزیز زبیدی کا تعاقب

قبر میں رسول اللہ ﷺ کی بابت میت سے سوال کیا جاتا ہے کیا اس وقت آپ کا وجود مبارک میات کے سامنے ہوتا ہے ؟ یا صرف اوصاف پر کفایت ہوتی ہے ؟ شعبان 1354 ہجری کی بات ہےکہ اے ۔ای پٹیل از جوہانسبرگ افریقہ نے حضرت محدث روپڑی کی خدمت میں ایک استفتاء بھیجا کہ قبر میں منکر نکیر میت سے پوچھتے ہیں ’’ما هذا الرجل الذي بعث فيكم ‘‘ یعنی یہ شخص جو تم میں مبعوث ہوا ہے وہ کیا ہے ؟ فيقول محمد ﷺ حدیث مذکورہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ وجود مبارک میت کے سامنے ہوتا ہے جس کی وجہ سے کہا جاتا ہے ’’ ماہذا الرجل الذی ب مزید مطالعہ

حافظ عبداللہ محدث روپڑی کا فتوی ٰ اور مولانا عزیز زبید ی کا تعاقب

اس کے علاوہ آپ کا حاضر فی الذہن ہونا ان لوگوں کی نسبت تو درست ہو سکتا ہے جنھوں نے آپ کو دیکھا ہے کیونہ ان کےذہن میں آپ کی خاص صورت و شکل حاضر ہو سکتی ہے ۔ لیکن جنھوں نےآپ کو نہیں دیکھا ان کے ذہن میں تو آپ کی صفات ہیں جو کلیات ہیں جن میں تعین اور تشخص نہیں تو پھر آپ بعینہ حاضر کس طرح ہوئے اور جب آپ بعینہ حاضر نہ ہوئے اور صرف آپ کی صفات ہوئیں ۔ جو کلیات ہیں تو ان کے نزدیک بھی حاضر فی الذہن ہذا کاحقیقی معنی نہ ہو ا اس سے بھی معلوم ہو اکہ عنی  کا خیال درست ہے اور اگر بالفرض مان لیا جائے کہ حاضر مزید مطالعہ

حافظ عبداللہ محدث روپڑی کا فتویٰ اور مولانا عزیز زبیدی کا تعاقب

او رایک حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں لا تصدقوا اھل الکتاب ولا تکذبوھم (مشکوٰة باب الاعتصام) اہل کتاب کوئی بات سنائیں تو ان کو سچا کہو اورنہ جھوٹا۔ اس حدیث سے معلوم ہواکہ جو شے ہم سے غائب ہے اس کا وجود اور عدم اعتقاد کے لحاظ سے برابر ہے یعنی محتمل ہے ہو یا نہ ہو۔ جب دونوں طرف برابر ہوئے تو بتلائیے۔ آپ نے آج تک کون سی دلیل پیش کی ہے۔ جہاں تک ہم نے آپ کے تعاقبات پر نظر کی ہے۔ صفر ہی پایا۔ آپ کوئی صریح حدیث پیش کریں یا کسی سلف کا قول پیش کریں تو کچھ آپ کے تعاقب کی قدر بھی مزید مطالعہ