رؤیتِ ہلال او رمطالع کا اختلاف

'' درج ذیل مقالہ حضر ت مولانا ابوالسلام محمد صدیق جامعہ علمیہ سرگودھا نے ، جمعیت اہلحدیث کورٹ روڈ کراچی کے زیراہتمامایک مجلس مذاکرہ (منعقدہ 17نومبرتا 20نومبر 1968ء) میں پڑھا، جسے افادہ عام کے لیے محدث میں شائع کیا جارہا ہے۔ (ادارہ)

 

الحمدللہ وکفیٰ وسلام علیٰ عبادہ الذین اصطفیٰ أما بعد !

﴿يَسْـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلْأَهِلَّةِ ۖ قُلْ هِىَ مَوَ‌ٰقِيتُ لِلنَّاسِ وَٱلْحَجِّ...﴿١٨٩﴾...سورۃ البقرۃ''

''اے نبیؐ، آپؐ سے سوال کرتے ہیں اھلّہ (چاند) کے بارہ میں ، کہہ دیجئے یہ لوگوں کے (کاموں کی میعادیں)او رحج کے اوقات (معلوم کرنے) کا ذریعہ ہیں۔''

کواکب : علم ہیئت میں یہ بات مسلّمہ ہے کہ کواکب میں سے بعض کواکب، سیّارے ہیں۔ جو آسمان میں گردش کرتے ہیں اوربعض ایسے ہیں جو گردش نہیں کرتے وہ اپنی جگہ پر ثابت ہیں۔

کواکب، جو گردش کرتے ہیں، ان کی تعداد سات ہے۔

(1) زحل (2) مشتری (3) مریخ (4) شمس (5) زہرہ (6) عطارد (7) قمر شمس اور قمر کے ماسوا باقی پانچ کواکب کو ''خنس۔ جوار۔ کنس'' نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔حقیقت میں اس بحث کا تعلق علم افلاک سے ہے، جس کا تعلق ہمارے موضوع سے نہیں ہے۔ سطور بالا سے صرف اتنا بتانا مقصود ہے کہ علم افلاک کے ماہرین کا یہ نظریہ ہے کہ قمر بھی دوسرے سیّاروں کی طرح آسمان میں گردش کرتاہے: ''كل في فلك يسبحون'' آیت بھی بتلا رہی ہے کہ سورج چاند وغیرہ آسمان میں تیر رہے ہیں۔

ہلال اور قمر : ''ہلال'' واحد ہے ''اھلّہ'' اس کی جمع ہے۔ چاند اگرچہ ایک ہے۔ مگر چونکہ وہ گھٹتا بڑھتا رہتا ہے، اسلیے وہ گویا کئی چاند ہوئے۔ پہلی یا دوسری رات کا چاند ہو تو اسے ہلال نام سے پکارا جاتا ہے۔ ابوہیثم  کا قول ہے کہ مہینہ کے آخری دو رات کے چاند کو بھی ہلال کہا جاتاہے۔ درمیانی وقت کا جو چاند ہے اسپرقمر کا اطلاق ہوتا ہے۔

ہلال نام کی وجہ : پہلی دوسری تاریخ کے چاند کو ہلال اس لیےکہا جاتا ہے کہ چاند نظر آنے پر بغرض اطلاع لوگ آواز بلند کرتے ہیں۔''ہلال'' کا لغوی معنی ''آواز بلند کرنا'' ہے:
''استھل الصبي حین یولد''
یعنی ''پیدائش کے وقت بچہ نے آواز بلند کی۔''

یوم : رات دن کے مجموعہ کا نام یوم ہے۔ عربوں کے نزدیک یہ غروب آفتاب سے غروب آفتاب تک ہے۔اہل روم او راہل فارس کے نزدیک یوم، طلوع آفتاب سے طلوع آفتاب تک ہے۔ فرق یہ ہے کہ عربوں کے نزدیک رات پہلے اور دن بعد میں جبکہ اہل روم او راہل فارس کے نزدیک دن پہلے اور رات بعد میں آتی ہے

چاند کا پورا ہونا او رکم ہونا : پہلی تاریخ چاند چھوٹا ہوتا ہے روشنی بھی زیادہ ہوتی جاتی ہے حتٰی کہ چودہویں رات کو تکمیل تک پہنچ جاتا ہے۔ پھر پندرہویں رات سے گھٹنا شروع ہوجاتا ہے۔ آخر میں کھجور کی ٹہنی جیسا ہوجاتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَٱلْقَمَرَ‌ قَدَّرْ‌نَـٰهُ مَنَازِلَ حَتَّىٰ عَادَ كَٱلْعُرْ‌جُونِ ٱلْقَدِيمِ ﴿٣٩....سورۃ یس
یعنی ''چاند کے لیے اس کی منزلوں کا ہم نے اندازہ لگایا ہے۔حتیٰ کہ وہ اپنی منازل طے کرتا ہوا کھجور کی پرانی ٹہنی جیسا ہوجاتا ہے۔''

چاند کا یہ چکر ایک مہینہ میں پورا ہوتا ہے، سال میں بارہ چکر ہوتے ہیں۔

آیت کا شان نزول: حضرت ابن عباسؓ نے بیان کی معاذؓ بن جبل اور ثعلبہؓ دونوں نے آنحضرتﷺ سے دریافت کیاکہ چاند جب چڑھتا ہے تو دھاگے کی طرح باریک ہوتا ہے پھر بتدریج بڑھتا ہے حتیٰ کہ وہ گول ہوجاتا ہے ۔ پھر بتدریج پہلی حالت پر لوٹ آتا ہے۔ سورج کی طرح وہ ایک حالت پر نہیں رہتا۔ جواب میں اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی:
﴿يَسْـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلْأَهِلَّةِ ۖ قُلْ هِىَ مَوَ‌ٰقِيتُ لِلنَّاسِ وَٱلْحَجِّ...﴿١٨٩﴾...سورۃ البقرۃ
یعنی ''چاند کے بڑا چھوٹا ہونے کے بارہ میں سوال کرتے ہیں۔آپؐ فرما دیجئے، یہ لوگوں کے لیے او رحج کے لیے اوقات ہیں۔''

یہ آیت بتاتی ہے کہ چاند کا بڑا چھوٹا ہونا اوقات معلوم کرنے کا ذریعہ ہے۔

گنتی : قمری مہینے تیس دن کے بھی ہوتے ہیں اور انتیس دن کے بھی، لیکن زیادہ انتیس دن کے ہوتے ہیں۔ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں:
''ما صمت مع النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تسعا و عشرین أکثرمما صمنا ثلٰثین'' 1
کہ ''میں نے رسول اللہ ﷺ کی معیت میں جتنےماہ روزے رکھے ہیں، ان میں اکثر، دنوں کی گنتی تیس دن کے مقابلہ میں، انتیس دن کی تھی۔''

بخاری کی ایک روایت میں ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا:
''الشھر ھٰکذا وھٰکذا وخنس الإبھام في الثالثة''
''مہینہ اتنے (دس)اتنے (دس) دن کا ہے، تیسری مرتبہ انگوٹھےکو نیچے کرلیا (یعنی نو دن۔کل انتیس دن ہوئے)''

اسی حدیث میں بتایا گیا ہے کہ ماہ رواں انتیس دن کا ہے یا مطلق بیان فرمایا کہ مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں:
''الشھریکون تسعة و عشرین و یکون ثلاثین''
کہ''مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے او رتیس دن کا بھی۔''

انتیس دن والےمہینے: حافظ ابن حجر ن ےبعض حفاظ سےنقل کیا ہے کہ ''رسول اللہ ﷺ نے نو برس روزے رکھے ہیں، ان میں دو رمضان تیس تیس دن کے تھے۔''

امام نووی نے بیان کیا ہے کہ پے در پے دو تین یا حد چارمہینے انتیس دن کے ہوتے ہیں۔ چار سے زیادہ مہینوں میں لگاتار نقص نہیں آتا کہ وہ انتیس دن کے ہوں۔

قمری مہینے طبعی او رفطری ہیں: قمری مہینے کا آغاز او راس کی انتہاء رؤیت ہلال پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قمر ی مہینے طبعی اور فطری ہیں۔ مہینہ کا انتیس دن کا بھی ہونا او رتیس دن کابھی ہونا، یہ اختلاف بھی طبعی ہے۔

حسی علامت: چاند بذات خود تاریخ او رمہینہ کے لیے حسی علامت ہے۔ ہر واقف اور ناواقف چاند دیکھ کر تاریخ او رمہینہ کی ابتداء اور انتہاء کا اندازہ آسانی سے لگاسکتا ہے۔ اس کے برعکس سورج، مہینہ او رسال معلوم کرنےکی غیر حسی علامت ہے۔ اس سے سال او رمہینہ کا اندازہ ایک باخبر انسان تو حساب سےکرسکتا ہے، مگر جو شخص ناواقف او ربے علم ہے، اس کے مہینہ کی تاریخ اور سال سے خود بخود باخبر ہونا ایک مشکل امر ہے۔ اس لیے قیاس یہ چاہتا ہے کہ ابتداء آفرینش میں لوگ چاند ہی کے مہینے جانتے تھے او ربارہ مہینوں کا سال شمار کرتے تھے چنانچہ تقسیم تاریخی کے مصنفین میں سے بعض نے لکھا ہے:
''قمری سال حقیقی ہے، یعنی چاند کے بارہ مرتبہ عروج و زوال کو ایک سال شمار کیا جاتا ہے، اس میں موسم کا کوئی لحاظ نہیں۔ کبھی یہ سال سردیوں سے شروع ہوتا ہے او رکبھی گرمیوں میں، کبھی بہار میں او رکبھی خزاں میں۔ چاند زمین کے گر چکر لگاتا ہے۔ وہ دائرہ جس پر چاند زمین کے گرد چکر لگاتا ہے، بالکل گول نہیں ہے۔ اس لیے چاند کبھی زمین سےقریب تر ہوتا ہے او رکبھی بعید تر۔ اسی طرح چاند کی رفتار ہرجگہ برابر نہیں ہوتی۔کبھی تیز ہوتی ہے کبھی سست۔ اس لیے زمین کے گرد چاند کاچکر کبھی تیس دن میں مکمل ہوتا ہے او رکبھی انتیس دن میں۔اسی طرح چاند کے مہینے انتیس دن کے ہوتے ہیں او رکبھی تیس دن کے ۔ زمین کےگرد چاند کے بارہ چکروں کی مجموعی مدت قریباً تیس سو چوّن (354) دن ہوتی ہے۔اس لیے ہرقمری سال اتنی ہی مدت کا ہوتا ہے۔ اس میں کسی حسابی کے زحمت اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ کسی ایک مقام پر تیرہویں بار چاند اس سے کم مدت میں نظر آہی نہیں سکتا۔ یہ تو ممکن ہے کہ مطلع غبار آلود ہو یا بادل چھائے ہوں تو چاند وقت پرنظر نہ آئے لیکن یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ اس سے کم مدت میں چاند نظر آجائے۔'' 2

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّ عِدَّةَ ٱلشُّهُورِ‌ عِندَ ٱللَّهِ ٱثْنَا عَشَرَ‌ شَهْرً‌ا فِى كِتَـٰبِ ٱللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَ‌ٰتِ وَٱلْأَرْ‌ضَ مِنْهَآ أَرْ‌بَعَةٌ حُرُ‌مٌ ۚ ذَ‌ٰلِكَ ٱلدِّينُ ٱلْقَيِّمُ...﴿٣٦﴾...سورۃ التوبہ
''اللہ تعالیٰ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں اس دن سے مقرر ہیں جب سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے۔ ان میں سے چار مہینے حرمت کے ہیں۔ یہ دن قیم ہے۔''

یہ آیت صراحت کرتی ہے کہ ابتداء ہی سے لوگ اوقات اور تواریخ کااندازہ قمر کی نسبت سے لگاتے تھے۔ بعد میں لوگوں نے ، جس طرح دین کے بعض مسائل میں تحریف کی، اسی طرح تبدیلی کرکے شمس کی طرف نسبت سے شمسی ماہ و سال کی طرح ڈالی۔ جس کی وجہ سے عوام کے لیے مشکلات پیداہوگئیں۔

اسلام دین فطر ت ہے : اسلام ایک فطری دین ہے، اس نے قمری ماہ و سال کو اپنایا ہے۔اس کی ایک وجہ تو پہلے بیان ہوچکی ہے کہ قمر بذاتہ مہینہ کی ابتداء اور انتہاء کی حسی علامت ہے او رکسی شخص کو تاریخ معلوم کرنے میں کسی بڑی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قمری ماہ و سال کی ابتداء ہر موسم میں ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ سال کا ہر مہینہ او رمہینے کا ہر دن عبادات الٰہیہ کی برکات سے بہر ور ہوتا ہے او رہر مسلمان ہرموسم او رہر دن میں احکام شریعت بجا لانے کی سعادت حاصل کرتا ہے او رکسی کے لیے یہ عذر باقی نہیں رہ جاتا کہ گرمی یا سردی، چھوٹے یا بڑے دن ہونے کی وجہ سے وہ شریعت کے کسی حکم پر عمل نہیں کرسکا۔

سال کے دن : سماوی کوئی ایسی علامت نہیں جس سے سال کے دنوں کی گنتی معلوم ہو، البتہ اس کا اندازہ عدد اور حساب سے کیا جاتا ہے۔ سال قمری ہو یا شمسی، عدد برج کےمطابق ایک سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَقَدَّرَ‌هُۥ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ ٱلسِّنِينَ وَٱلْحِسَابَ...﴿٥﴾...سورۃ یونس
کہ '' اللہ تعالیٰ نے اس کی منزلوں کا اندازہ لگایا، تاکہ تم کو سالوں اور حساب کا پتہ چل جائے۔''

قمری سال قریباً تین سو چون (354) دن کا ہوتا ہے۔کسر کو توڑ کر بیان کیا جاتا ہے کہ سال کے تین سو ساٹھ دن (360) دن ہیں، جیسا کہ عربوں کی عادت ہے۔ 3

رؤیت او رشہادت: احادیث میں یہ بات واضح ہے کہ روزہ رکھنے او رافطار کرنےکا انحصار رؤیت ہلال پر ہے۔ دیکھئے بغیر نہ روزہ رکھا جائے اور نہ افطار کیا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے:
''صوموا لرؤیته و أفطروالرؤیته فإن غمي علیکم فأکملوا عدة شعبان ثلاثین'' 4
''چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔اگر چاند پوشیدہ ہو جائے تو شعبان کی گنتی تیس دن پوری کرو۔''

اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
''لیس المراد به أنه لا یصومه أحد حتی یراہ بنفسه''
''اس حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کوئی شخص خود چاند دیکھے بغیر روزہ نہ رکھے۔''

بلکہ اس حدیث کا یہ معنی ہے:
''لا یصومه أحد حتی یراہ أو یراہ غیرہ''
''کہ کوئی شخص روزہ نہ رکھے جب تک خود چاند نہ دیکھ لے یا اس کاغیر نہ دیکھے۔''

اگر حدیث کا یہ مفہوم ہو کہ جو شخص چاند دیکھے، وہی روزہ رکھے، تو نابینا یا وہ شخص جو نگاہ کی کمزوری کی بناء پر چاند نہین دیکھ سکتا، وہ روزہ رکھنے کا مکلف نہیں ہوگا۔جبکہ ﴿فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ ٱلشَّهْرَ‌ فَلْيَصُمْهُ...﴿١٨٥﴾...سورۃ البقرۃ'' آیت کا تقاضا ہے کہ وہ روزہ رکھے۔ مختصر یہ کہ جن کو چاند نظر نہ آئے، شہادت ملنے سے روزہ اور افطار ان پر لازم ہوجاتاہے۔ اگرمطلع ابر آلود ہے یا غبار کی وجہ سے چاند نظر نہیں آیا تو پھر شعبان کے تیس دن پورے کرنے کی ہدایت ہے۔جیسا کہ حدیث کے الفاظ سے ظاہر ہے۔

نصاب شہادت : جمہور آئمہ  کا قول ہے کہ رمضان کے بارے میں ایک عادل مسلمان کی شہادت کافی ہے۔ چنانچہ آنحضرتﷺ نے ایک شخص کی شہادت پر روزہ رکھا اوردوسروں کو روزہ رکھنےکا حکم دیا۔نیز ابن عمرؓ نے بیان کیا:
''فأخبرت النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أني رأیته فصام وأمر الناس بصیامه''5
کہ''میں نے نبیﷺ کو خبر دی کہ میں نے چاند دیکھا ہے، تو آپؐ نے روزہ رکھا اور لوگوں کوروزہ رکھنے کا حکم دیا۔''

اس حدیث کو ابن حبان او رحاکم نے صحیح کہا ہے:
دوسری حدیث: حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے، ''ایک اعرابی نےرسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آکر بیان کیا کہ ''میں نے رمضان کا چاند دیکھا ہے۔'' آپؐ نے اس سے پوچھا ''کیا تو کلمہ توحید اور رسالت کی شہادت دیتا ہے؟'' اس نے اعتراف کیا۔ آپؐ نے بلالؓ کو حکم دیا کہ وہ اعلان کریں، لوگ روزہ رکھیں۔'' 6

اس حدیث کو ابن حبان او رابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے۔ ہر دو احادیث سے ظاہر ہےکہ رمضان کےبارہ میں ایک مسلمان عادل کی شہادت کافی ہے۔ امام نووی نے اس کی صحت کا اعتراف کیا ہے۔

ہلال عید: ہلال عید کی شہادت کےلیے کم از کم دو گواہ ہوں۔ چنانچہ آخر رمضان میں ایک مرتبہ ہلال عید کے متعلق جھگڑا ہوا۔ دو اعرابی آئے، انہوں نے شہادت دی کہ بخدا ہم نے عید کا چاند کل دیکھا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ روزےرکھنے بند کردیں اور صبح عید گاہ کی طرف نکلیں۔ عید کے بارہ میں کوئی ایسی صحیح حدیث نہیں جس میں ایک شہادت کا ذکر ہو۔

اعتراض : امام مالک، لیث، اوزاعی، ثوری او رامام شافعی سےمروی ایک قول میں ہے کہ ہلا ل رمضان کے لیے ایک شہادت کافی نہیں۔ بلکہ دو کی شہادت کا اعتبار ہوگا۔ ان ائمہ نے اپنےمؤقف کے بارہ میں جو احادیث بیان کی ہیں، ان میں سے ایک وہ حدیث ہے جو عبدالرحمٰن بن زید سے مروی ہے۔الفاظ یہ ہیں:
''فإن شھد شاھدان مسلمان فصوموا وأفطروا''7
''اگر دو مسلمان شہادت دیں تو روزہ رکھو اور افطار کرو۔''

دوسری حدیث وہ ہے جو امیرمکہ حارث بن حاطب سے مروی ہے۔ اس حدیث کے الفاظ حسب ذیل ہیں:
''فإن لم نرہ و شھد شاھد اعدل نسکنا بشھادتھما''
''(رسول اللہﷺ نے فرمایا) اگر ہم چاند نہ دیکھ پائیں او ردو گواہ عادل شہادت دے دیں، تو ان کی شہادت پر شرعی احکام یعنی روزہ اور عید ادا کریں گے۔''

بظاہر ان احادیث سےمعلوم ہوتا ہے کہ ہلال رمضان کے لیے کم از کم دو گواہ ہوں اور جن احادیث میں ایک گواہ کا ذکر ہے، ان میں دوسرے گواہ کی نفی نہیں ہے بلکہ اس بات کا احتمال ہےکہ اس سے پہلے کسی دوسرے شخص سے بھی رؤیت ہلال کا علم ہوگیا ہو۔

جواب: ابن مبارک او راحمد بن حنبل نے اس کا یہ جواب دیا ہےکہ جن احادیث میں دو گواہوں کی تصریح ہے، زیادہ سے زیادہ ان سے ایک شہادت کی ممانعت بالمفہوم ثابت ہوتی ہے۔ مگر ابن عمرؓ اور ابن عباسؓ ہر دو کی احادیث میں ایک شہادت کی قبولیت کا مامنطوق بیان ہے۔ مسلّمہ اصول ہے کہ دلالت مفہوم سے دلالت منطوق راجح ہے۔لہٰذا یہ قول درست ہے کہ رؤیت ہلال رمضان کے بارہ میں ایک مسلمان عادل کی شہادت کافی ہے۔ یہ احتمال پیدا کرنا کہ کسی دوسرے شخص سے رؤیت ہلال کا علم ہوگیا ہوگا، شریعت کے بیشتر احکام کو معطل کردینے کے مترادف ہے۔ البتہ عبدالرحمٰن او رامیر مکہ کی احادیث سے یہ بات تو ضرور واضح ہوتی ہے کہ ہلال عید کے لیے کم از کم دو گواہ ہونے ضروری ہیں۔

تیسرا قول: شہادت کے بارہ تیسرا قول یہ ہے کہ ہلال رمضان کے لیے ایک شہادت اس وقت کفایت کرتی ہے جبکہ مطلع صاف نہ ہو۔ یہ اس لیے کہ ممکن ہے مطلع صاف نہ ہونے کی بناء پر سب کو چاند نظر نہ آیا ہو۔ اگرمطلع صاف ہے تو پھر ایک جماعت کی شہادت کا اعتبار ہوگا۔ اس لیے کہ دریں حالات خفاء ہلال کا تصور بعید از عقل ہے۔ یہ قول امام ابوحنیفہ کا ہے۔

ہلال شعبان: رمضان کی یکم تاریخ معلوم کرنے کے لیے ہلال شعبان کی نگرانی اور اس کا تحفظ کیا جائے۔ بروایت ابوہریرہؓ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
''أحصوا هلال شعبان لرمضان''
کہ ''رمضان کے لیے ہلال شعبان کا احصاء کرو۔''
(جاری ہے)


حوالہ جات
1. ترمذی
2. تقویم تاریخی مرتبہ ہاشمی
3. فتاویٰ ابن تیمیہ ج25 ص 138
4. منتقیٰ
5. ابوداؤد
6. منتقیٰ ج4 ص184
7. مسنداحمد