’’مسئلہ شہادت اور مُدیر محّدث‘‘

قارئین کرام کو یاد ہوگا ، پچھلے دنوں جب قانون شہادت کامسّودہ مجلس شوریٰ میں زیربحث تھا، چندمغرب زدہ خواتین نے مسئلہ شہادت کے بعض پہلوؤں کو ''مرد و زن کی مساوات'' کے منافی قرار دیتے ہوئے ملک میں ایک طوفان کھڑا کردیا تھا۔سیاستدانوں کی شہ پر تو یہ ہوا ہی تھا، لیکن جس طرح مغربیت کے ہمنوا ، اخبارات و جرائد میں اس علمی مسئلہ پر بے بنیاد خیال آرائیاں کرتے رہے، ان کی بناء پر بعض دین پسند ذہن بھی ان سےمتاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ تاہم یہ بات راقم الحروف کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ اس سلسلہ میں معذرت خواہانہ انداز ایک ایسے پختہ کار عالم دین کی طرف سے بھی اختیار کیا جائے گا جن کے حلقہ فکر میں مداہنت کو آج تک رسائی حاصل نہ ہوسکی تھی بلکہ یہ حلقہ تعبیر دین میں بدنامی کی حد تک محتاط رہا۔ لیکن افسوس، یہ سانحہ رونما ہوا، او رقارئین یہ جانتے ہیں کہ اپریل 1983ء کے شمارہ ''محدث'' میں اس خاکسار نے اپنے ایک آرٹیکل میں جہاں حقوق نسواں کے نام نہاد علمبرداروں کی ان خیال آرائیوں پر تبصرہ کیا تھا وہاں صاحب مضمون کا نام لیے بغیر ''مرد وزن کی مساوات'' کے مغربی نظریہ کی تائید میں ان کے ایک مقالہ کا تذکرہ بھی کیا تھا، جس کا ماحصل یہ تھا کہ قرآن کی رو سے جب دو مردوں کی غیر موجودگی میں ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بن سکتی ہیں تو ان دو عورتوں میں اصل گواہ صرف ایک عورت ہے، دوسری محض یاد دلانے والی یا بغور سننے والا ہے۔ جس سے مغربیت کے ان ہمنواؤں کے اس مؤقف کو بے پناہ تقویت حاصل ہوئی کہ شہادت میں مرد وزن کی مساوات ہے۔

راقم الحروف کو یہ اعتراف ہے کہ علمی میدان میں اس کی حیثیت ایک طالب علم کی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ احساس بھی ہے کہ خود اہل علم کے نزدیک محض چھوٹائی کے خیال سے شرم میں رہنا کسی ایسے معاملہ میں مستحسن نہیں جس کا تعلق دینی غیرت سے ہو او ربالخصوص جس کی بناء پر فرامین رسول اللہ ﷺ پر زد پڑتی ہو۔ چنانچہ اس آرٹیکل میں ابتداء سے آخر تک راقم الحروف کو صرف ایک ہی اطمینان حاصل رہا، (اور اب بھی حاصل ہے) کہ اس کا مؤقف اس مبارک ہستی کے انتہائی غیر مبہم اور واضح ارشادات سے عبارت ہے، جس کے ذریعے قرآن مجید نہ صرف ہمیں پڑھنے کو ملا، بلکہ اس کی تفہیم و تبیین بھی ہمیں عطاء ہوئی۔ لہٰذا چاہیے تو یہ تھا کہ صاحب مضمون ''انظروا إلیٰ ما قال ولا تنظروا إلیٰ من قال'' کے مصداق راقم کے شکر گزار ہوتے کہ اس نے حدیث رسول اللہ ﷺ کے حوالہ سے ان کی اصلاح کا فریضہ سرانجام دیا تھا، لیکن ہوا یہ کہ انہوں نے ایک جوابی مضمون میں اپنی بڑائی کے زعم میں نہ صرف اپنے دل کی بھڑاس نکالی، طعن و تشنیع سے راقم کو سرفراز فرمایا او رزیر بحث مسئلہ وارد شدہ انتہائی واضح اور صریح احادیث رسول اللہ ﷺ کو اگر مگر کی بھینٹ چڑھایا، بلہ اسی بہانے انہوں نے ''محدث'' اور ''مدیر محدث'' سے اپنی کدورتوں کی تکمیل کا بہانہ بھی تلاش کرلیا، جو اس مضمون کے عنوان سے ہی ظاہر ہے، کیونکہ مضمون نگار تو راقم الحروف تھا، جبکہ ''مسئلہ شہادت اور مدیر محدث'' کے عنوان سے اس مضمون میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان کے مخاطب ''مدیر محدث'' حافظ عبدالرحمٰن مدنی ہیں ، جو ان دنوں ملک سے باہر تھے او ران کی اس عدم موجودگی کا موصوف کو بھی تھا۔ لہٰذا راقم الحروف اس اظہار کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ وہ ادارہ تحریر کا رکن تو ضرور ہے، مدیر مسئول محدث نہیں ۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنے اس جوابی مضمون کو اسی عنوان کے تحت اہل حدیث کے تقریباً تمام رسائل و جرائد میں خصوصی اہتمام سے چھپوایا ہے۔

موصوف نے یہ مضمون اشاعت کی خاطر خود ''محدث'' کوبھی بھجوایا اور جسے ہم اپنی کوشش کی حد تک بہتر سےبہتر صورت میں ہدیہ قارئین کررہے ہیں ، تاہم یہ وضاحت ضروری ہے کہ:
1۔ موصوف کے اس جواب پر راقم کا آئندہ تبصرہ صرف علمی نکات تک محدود رہے گا اور اسے ذاتیات سے ملوث نہ کرتے ہوئے اس میں موصوف کی ذات و علم کومحفوظ رکھنے کی پوری کوشش کی جائے گی۔ إن شاء اللہ!
2۔ قارئین کرام ! اس مضمون کا مطالعہ کرتے ہوئے اس طرف توجہ ضرور فرمائیں کہ جس تعلّی و تفوّق کا طعنہ موصوف نے راقم کو دیا ہے، کہیں وہ خود ہی اس کا شکار تو نہیں ہوگئے۔ اس پر طرّہ یہ کہ مسئلہ کی حد تک اپنے اس مضمون میں موصوف ہمارے اصل درست مؤقف کے قریب آنے کی کوشش بھی فرما رہے ہیں ۔ جذباتیت کا طعنہ ہمیں دینے کے باوجود ہجوم جذبات میں ہمارے مؤقف کی تائید میں مزید دلائل فراہم کررہے ہیں اور جابجا اپنے سابقہ مؤقف کی تردید خود ہی کرتے نظر آتے ہیں لیکن اسی مؤقف پر قائم رہنے کے موقع بہ موقع دعویدار بھی ہیں ! چنانچہ اس مضمون میں انہوں نے نہ صرف ایک مرد کی بجائے دونوں عورتوں کی بحیثیت ''شاہدہ من وجہ'' تسلیم کیا ہے بلکہ دونوں کو ملا کر شہادت کی تکمیل کا اعلان بھی فرما دیا ہے۔

لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر عزت نفس مانع نہ ہوتی تو شائد اپنے سابقہ فکر کہ ''شاہدہ صرف ایک ہے، دوسری مذکرہ'' کو اپنے جدید فکر سے تطبیق دینے کی لاحاصل کوشش کا شکار نہ ہوتے!

قارئین کرام! یہ مضمون ملاحظہ فرمائیں اور راقم کے آئندہ تبصرہ کا انتظار فرمائیں ۔
وما توفیقي إلاّ باللہ العلي العظیم، علیه توکلت وإلیه أنیب !


خاکسار: اکرام اللہ ساجد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


محدث کا تازہ شمارہ مجریہ جمادی الآخر 1403ھ ہمارے سامنے ہے۔ اس میں ''فکرونظر'' عنوان کے تحت ''فشهادة امرأتین تعدل شهادة رجل'' ''پس دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کی شہادت کے برابر ہے۔'' اس موضوع پر ایک طویل و عریض مضمون شائع ہواہے۔ اس میں زیادہ تر ہمارے ایک مضمون کونشانہ تعاقب بنایا گیا ہے، جو روزنامہ جنگ ، ہفت روزہ اہلحدیث، ہفت روزہ الاعتصام میں چھپا ہے۔اہل علم کے نزدیک تعاقب ایک مستحسن امر ہے جبکہ اس میں اخلاص و اصلاح پیش نظر ہو اور علم و تحقیق کا ولولہ کارفرما ہو۔ اگر تفوق و تعلّی مقصود ہو تو پھر ایسے تعاقب سے حقیقت حال کا کھل کر سامنے انا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ جب ہم زیر نظر مضمون کو اس اصول پر جانچتے ہیں تو پورا اترتا دکھائی نہیں دیتا۔ علم و تحقیق تو ایک طرف رہا ، جذباتی رنگ زیادہ دکھائی دیتا ہے۔

مسئلہ شہادت قرآن مجید کی روشنی میں :
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَٱسْتَشْهِدُواشَهِيدَيْنِ مِن رِّ‌جَالِكُمْ ۖ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَ‌جُلَيْنِ فَرَ‌جُلٌ وَٱمْرَ‌أَتَانِ مِمَّن تَرْ‌ضَوْنَ مِنَ ٱلشُّهَدَآءِ أَن تَضِلَّ إِحْدَىٰهُمَا فَتُذَكِّرَ‌ إِحْدَىٰهُمَا ٱلْأُخْرَ‌ىٰ ۚ...﴿٢٨٢﴾...سورۃ البقرۃ
''تم اپنے مردوں سے دو گواہ بناؤ اگر وہ نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ، ان گواہوں سے جن کو تم پسند رکھتے ہو (دو عورتیں اس لیے) ک ایک ان دونوں میں سے بھول جائے تو دوسری عورت اس کو یاد دلائے گی۔''

اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا تقاضا ہے کہ دو عورتوں میں سے ایک شاہدہ ہوگی اور دوسری مذکرہ۔ شاہدہ ہی شہادت دے گی او رمذکرہ تذکار کی ذمہ داری ادا کرے گی۔

مدیر محدث کا تعاقب:
تعاقب او راس پر تبصرہ سے پہلے ہم اس مؤقف کو بیان کرنا مناسب سمجھتے ہیں جو انہوں نے دو عورتوں کی شہادت کی کیفیت کے بارہ میں اختیار کیا ہے، وہ فرماتے ہیں :
''خود قرآن مجید کی نظر میں عورت کا کسی بات کو بُھول جانا ظاہر و باہر ہے او راسی بناء پر شہادت ک لیے اس کے ساتھ دوسری عورت کا ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے جس سے ایک تو دو عو رتوں کی شہادت ایک مرد کی شہادت کے برابر ہونے کی واضح طور پر نشاندہی ہوتی ہے اور دوسرے اس سے عورت کی عقل کے نقصان کی حقیقت پر استدلال ہوتا ہے۔'' 1

اس عبارت سے مدیر محدث کا مؤقف آشکارا ہوجاتا ہے کہ ہر دو عورتیں الگالگ شہادت دیں گی دونوں شہادتیں جمع ہوکر ایک مرد کی شہادت کے برابر ہوں گی۔

ہمارا نظریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن دو عورتوں کی شہادت کے بارہ میں ہمارا نظریہ یہ ہے کہ ایک عورت شاہدہ ہے دوسرا مذکرہ۔ جیسا کہ قرآن مجید کی آیت دلالت کرتی ہے۔ مذکرہ عورت شاہدہ کے ساتھ ہوکر گواہی کو بغور اس لیے سن رہی ہے کہ شہادت کا کوئی حصہ بھولنے یا چھوڑنے پراسے یاد دلا کر گواہی کو مکمل کرسکے او راس کی الگ شہادت نہیں ہوگی بلکہ وہ تذکار اور تائید کی وجہ سے شہداء کے زمرہ میں داخل ہے۔ شہادت کی اس کیفیت سے ''فَرَ‌جُلٌ وَٱمْرَ‌أَتَانِ'' پر پورا پورا عمل ہوجاتا ہے۔اتنی ظاہر بات بھی آپ کی عقل میں نہ سما سکی، اور شہادت کی جو صورت آپ نے بیان کی ہے، مفسرین خصوصاً حافظ ابن کثیر نے تو سخت ردّ کیا ہے۔ تعاقب کرتے ہوئے لکھا گیا ہے:
''جہاں تک شاہدہ اور مذکرہ کا معاملہ ہے کہ گواہی صرف ایک ہی عورت دے گی دوسری صرف بھُول جانے پر یاد دلائے گی یا بغور سنے گی تو یہ قرآن مجید کی کس آیت کا ترجمہ او رکس حدیث رسولؐ کی تشریح ہے؟''

اگر قرآن مجید کا لفظی ترجمہ بھی آپ کی راہنمائی نہیں کرتا کہ ایک عورت شاہدہ دوسری مذکرہ ہے تو پھر خدا ہی حافظ ہے ؎


گرنبیند بروز شپرہ چشم .......... چشمہ آفتاب راچہ گناہ


ہم نے اپنے نظریہ کی تائید میں ابن کثیر کی یہ عبارت بیان کی تھی:
''إن شهادتها معها تجعلها کشهادة رجل فقد أبعد الصحیح ھو الأوّل''یعنی ''جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایک عورت کی شہادت دوسری عورت کی شہادت سے مل کر مرد کی شہادت کے برابر ہوتی ہے۔ ان کا یہ قول عقل و نقل کے خلاف ہے، صحیح ورت وہی ہے جو پہلے بیان ہوچکی ہے یعنی دونوں میں سے ایک شاہدہ ہے دوسری مذکّرہ۔''

تعاقب میں ایک سہو کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ابن کثیر کی عبارت میں ''رجل'' نہیں ''ذکر'' ہے۔ حقیقت یہی ہےکہ عبارت نقل کرنے میں ہم سے سہو ہوا ہے۔ اس اطلاع پر ہم ان کے ممنون و مشکور ہیں لیکن امام ابن کثیر جس نظریہ کو بیان کررہے ہیں اس تبدیلی سے اس میں کوئی اہم تغیر واقع نہیں ہوا۔ مدیر محدث کا یہ واویلا کرنا خلاف واقعہ ہے کہ ''یہیں سے معاملہ کچھ کا کچھ ہوگیا، گویا یہی وہ نقطہ ہے جس نے محرم سے مجرم کردیاہے۔'' بایں ہمہ وہ یہ نہ بتا سکے کہ اس سہو سے کون سی اہم تبدیلی ہوئی؟ یہ بات پتہ دیتی ہے کہ ان کاویویلا جذبات تک ہی محدود تھا۔

شہادت کے مسئلہ میں حافظ ابن کثیر کا مؤقف:
انہوں نے آیت''فَتُذَكِّرَ‌ إِحْدَىٰهُمَا ٱلْأُخْرَ‌ىٰ'' کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے:
''إذا نسیت الشهادة فتذکرإ حداھما الأخریٰ أي یحصل لها ذکر بمن وقع به من الإشهاد وبهذا قرأ آخرون فتذکر بالتشدید من التذکار ومن قال إن شهادتها معها تجعلها کشهادة ذکر فقد أبعد والصحیح الأوّل'' 2
یعنی '' جب شہادت کا ایک حصہ عورت بھُول جائے گی تو ان میں ایک دوسری کو یاد دلائے گی۔ دوسرے قاریوں نے بھی اس کے ساتھ قراءت کی ہے۔ فتذکر کاف کی تشدید کے ساتھ ہے جو تذکار سے ہے اور جس نے کہا ہے کہ اس کی شہادت دوسری کے ساتھ مل کر مذکر کی شہادت جیسی بنا دے گی، اس کا یہ قول عقل و نقل کے خلاف ہے۔ صحیح بات پہلی ہی ہے کہ ایک شاہدہ ہوگی اور دوسری مذکرہ۔''

امام ابن کثیر کا مؤقف اس اعتبار سے واضح ہے کہ ''فتذکر'' تذکار سے بنا ہے جس کا معنی یاد دلایا ہے اور ذکر بالفتح سے نہیں بنا جس کا معنی مذکر جننا یا مذکر بنانا آتا ہے۔ درحقیقت امام ابن کری ان لوگوں کا رد فرما رہے ہیں جو کہتے ہیں کہ ''فتذکر'' ذکر بالفتح سے بنا ہے جس کا معنی ہے کہ ایک عورت کی شہادت دوسری عورت کی شہادت سے مل کر اس کو مذکر بنا دے گی ۔ یعنی مذکر کی شہادت جیسی بنا دے گی بلکہ فتذکرہ تذکار سے ہے جس کا معنی یاد دلانا ہے ۔ یعنی ایک عورت شاہدہ ہوگی اور دوسری مذکرّہ۔

مدیر محدث کی سطحی نظر:
انہوں نے لکھا ہے :
''جب ایک عورت بھُول جائے گی تو دوسری اس کے ساتھ شامل ہوکر اسے مذکر ّبنا دے گی او ریہ اس صورت میں ہے جب ''فتذکر'' کو بغیر ''شدید'' ''تذکر'' پڑھا جائے گا۔''

یہ عبارت بتاتی ہے کہ مدیر محدث کی سطحی نظر ہے۔ ان کو اتنا بھی پتہ نہیں کہ فتذکر تشدید سے ہو یا فتذکر تخفیف سے۔ یہ دونوں لفظ جن معانی میں مستعمل ہیں ان میں یاد دلانا اور مذکر جننا یا بنانا بھی آتا ہے۔ تفسیر کشاف میں ہے۔ فتذکر بالتخفیف والتشدید ھما لغتان و فتذاکر۔ یعنی فتذکر تخفیف کے ساتھ بھی اور تشدید کے ساتھ لغت ہے او رایک لغت فتذاکر بھی ہے۔ تفسیر جلالین میں ہے۔ ''فتذکر بالتخفیف و التشدید إحداھما الذاکرة والأخریٰ الناسیة'' یعنی فتذکر تخفیف اور تشدید دونوں کے ساتھ ہے اور ہر دو کے معانی میں یاد دلانا، مذکر جننا یا بنانابھی شامل ہے۔ پھر یہ کہنا کہ تذکر پڑھنا غلط ہے۔ یہ کس قدر بے خبری ہے، حافظ ابن کثیر نے فتذکرہ تشدید کے ساتھ ذکر کرنے کے بعد من التذکار کا قید لگا دی تاکہ یاد کرانے کے ماسوا کوئی دورا معنی مراد نہ لیا جاسکے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ فتذکر کے معنی تذکار (یاد کرانے کے ماسوا اور بھی ہیں او ریہی حال فتذکر تخفیف کے ساتھ قراء ت کا ہے اس کا معنی مذکر جننا یا مذکر بنانے کے علاوہ یاد دلانا بھی ہے۔ جب یہ حقیقت ہے کہ فتذکر تخفیف سے اس کا استعمال مذکربنانے کے علاوہ دوسرے معنوں میں بھی ہوتا ہے تو پھر فتذکر تخفیف سے پڑھنا غلط کس طرح ہوسکتا ہے؟ بلکہ قراء میں سے ابن کثیر اور ابوعمرو کی قراء ت بھی یہی ہے۔ أحکام القرآن للجصاص میں ہے یعنی فتذکر کی قراء ت تشدید سے بھی ہے اور تخفیف سے بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہر دو کا معنی ایک ہی ہے۔ یہ قول ربیع بن انس ، سدی اور ضحاک کا ہے۔ قاری ابوعمرو جن کا شمار قراء سبعہ میں ہے ان کا قول ہے کہ جس نے فتذکر تخفیف سے پڑھا ہے اس کی مراد ہے کہ دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کی شہادت کے منزلہ ہے اور جس نے تشدید سے پڑھا ہے انہوں نے تذکیر یعنی یاددہانی مراد لی ہے۔ ابوبکر کا قول ہے کہ جب کوئی بات دو امر کا احتمال رکھتی ہو تو دونوں قراء توں میں سے ہر قراءت کو جدید فائدہ او رمعنی پر مجمول کرنا واجب ہے۔ ''فیکون قوله تعالیٰ فتذکر بالتخفیف تجعلهما جمیعا بمنزلة رجل واحد في ضبط الشهادة و حفظها وإتقانها'' یعنی ''فتذکر تخفیف کے ساتھ معنی یہ ہے کہ ''ان دونوں کوایک آدمی کے بمنزلہ ضبط شہادت اور اس کے حفظ و اتقان میں کردے گی۔ ''وقوله تعالیٰ فتذکر من التذکیر عند النسیان'' یعنی ''فتذکر'' جو تذکیر سے ہے نسیان کے وقت یاد دلانا ہے۔ پھر فرماتے ہیں :''واستعمال کل واحد منهما علیٰ موجب دلالتهما أولیٰ من الاقتصار بھا علیٰ موجب دلالة أحدھما''3''ان دونوں میں سے ہر ایک کا استعمال ان کی اپنی دلالت کے موجب زیادہ بہتر ہے۔ اس بات سے کہ دونوں میں سے ایک کی دلالت کے موجب اس پر اقتصار کرلیا جائے اور دوسری کو چھوڑ دیا جائے۔'' اس کے باوجود کسی امام تفسیر یا امام قراء ت نے فتذکر تخفیف کے ساتھ قراء ت کو غلط نہیں کیا۔ البتہ اذکار کا لفظ مادہ کے اعتبار سے مختلف معانی میں مستعمل ہے۔ سفیان بن عینیہ نے فتذکر کا مادہ ذکر بفتح ذال پیش نظر رکھا ہے۔ اس بناء پر ائمہ تفسیر نے اس قراء ت کی تردید کی ہے اس لیے کہ اس قراء ت کی رُو سے معنی یہ ہےکہ ہر دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کی شہادت جیسی ہے۔ ائمہ تفسیر میں سے کسی اما نے فتذکر تخفیف کے ساتھ قراء ت کی مطلق تردید نہیں کی ہے۔

فشہادة امرأتین تعدل شہادة رجل:
یہ رسول خدا ﷺ کا ارشاد ہے۔ اگر اس کا یہ مطلب ہو کہ ہر عورت کی شہادت الگ الگ ہوگی، پھر دونوں مل کر ایک مرد کی شہادت کے برابر ہوں گی تو ائمہ تفسیر میں سے اس معنی کو کسی امام نے قبول نہیں کیا بلکہ امام ابن کثیر نے اس معنی کی سخت تردید کی ہے۔ وہ فرما تے ہیں : ''ومن قال إن شهادتها معها تجعلها کشهادة ذکر فقد أبعد'' ، ''اور جس نے کہا کہ اس کی شہادت دوسری عورت کی شہادت سے مل کر اس کو ایک مرد کی شہادت کے برابر کردے گی تو یہ عقل و نقل سے بعید ہے۔'' صحیح بات یہ ہے کہ ایک شاہدہ ہوگی اور دوسری مذکرّہ۔ امام ابن کثیر نے قطعاً یہ نہیں لکھا کہ فتذکر تخفیف کے ساتھ قراء ت غلط ہے۔ فانہم ولا تعجل۔

شہادت اور تذکار:
مشاہدہ سے جو علم حاصل ہوتا ہے اس کو بیان کرنے کا نام شہادت ہے۔ شاہدہ سے شہادت کا کوئی ضروری حصہ رہ جائے، اسے جو عورت یاددہانی کراتی ہے وہ مذکرّہ ہے۔ مذکرّہ جب تک شاہدہ کے ساتھ نہ ہو تو ایسی شاہدہ کی شہادت قابل قبول نہیں ۔ شاہدہ ہو یا مذکرّہ، ان کا واقعہ سے پوری طرح باخبر ہونا لازمی امر ہے۔ دونوں مل کر شہادت کو مکمل کریں گی۔ البتہ ان کی حیثیت مختلف ہے ایک شاہدہ جو شہادت دے رہی ہے اور دوسری مذکرّہ ہے جس کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھُول جانے والے شہادت کے حصہ کو یاد کرائے ۔ اگر دیکھا جائے تو مذکرّہ بھی من وجہ شاہدہ ہے۔ اس لیے کہ شاہدہ سے شہادت کا جو حصہ رہ گیا ہے اس کو پورا کرنا مذکرّہ کا کام ہے۔

قرآن مجید ہے:
فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَ‌جُلَيْنِ فَرَ‌جُلٌ وَٱمْرَ‌أَتَانِ مِمَّن تَرْ‌ضَوْنَ مِنَ ٱلشُّهَدَآءِ أَن تَضِلَّ إِحْدَىٰهُمَا فَتُذَكِّرَ‌ إِحْدَىٰهُمَا ٱلْأُخْرَ‌ىٰ ۚ...﴿٢٨٢﴾...سورۃ البقرۃ
یعنی ''دو مرد گواہ نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ان گواہوں سے جن کو تم پسند کرتے ہو یہ اس لیے کہ ایک ان کی بھول جائے تو دوسری اس کو یاد کرائے گی۔''

مدیر محدث کا مؤقف قرآن مجید کی اس آیت کے خلاف ہے۔ ان کا قول ہے کہ ہر عورت کی شہادت الگ الگ ہوگی۔ دونوں مل کر ان کی شہادت ایک مرد کی شہادت کے برابرہوگی۔ ان کا یہ مؤقف درج ذیل وجوہات کی بناء پر محل نظر ہے۔
1۔ ان کا یہ مؤقف قرآن مجید کی صراحت کے خلاف ہے۔ چنانچہ آیت ''أَن تَضِلَّ إِحْدَىٰهُمَا فَتُذَكِّرَ‌ إِحْدَىٰهُمَا ٱلْأُخْرَ‌ىٰ'' کا تقاضا ہے کہ عورتوں میں سے ایک عورت شاہدہ دوسری مذکرّہ ہوگی۔ دو عورتوں کے مقرر کرنے کی قرآن مجید نے یہ علت بیان کی ہے۔ ''أَن تَضِلَّ إِحْدَىٰهُمَا فَتُذَكِّرَ‌ إِحْدَىٰهُمَا ٱلْأُخْرَ‌ىٰ'' یعنی '' ایک کے بھولنے پر دوسری اس کو یاد کرائے۔'' دو کی تعداد مقرر کرنے کی اور کوئی علت نہیں ہے او رنہ ہی ان کو یہ ہدایت ہے کہ وہ دونون الگ الگ شہادت دیں ۔ اس سے واضح اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ شہادت کے وقت ایک عورت شاہدہ ہوگی اور دوسری مذکرّہ۔
2۔ مدیر محدث کا جو مؤقف ہے قریباً تمام ائمہ تفسیر نے اس کی تردید کی ہے۔ تفسیر فتح القدیر میں ہے:
(الف) وقال ابن عینیة معنیٰ قوله(فَتُذَكِّرَ‌ إِحْدَىٰهُمَا ٱلْأُخْرَ‌ىٰ) تصيرھما ذکراً یعني أن مجموع شهادة المرأتین مثل شهادة الرجل الواحد۔ ولا شك إن ھٰذا باطل لا یدل عليه شرع ولا لغة ولا عقل'' 4
''سفیان بن عینیہ نے (فَتُذَكِّرَ‌ إِحْدَىٰهُمَا ٱلْأُخْرَ‌ىٰ) کا یہ معنی بیان کیا ہے کہ وہ اس کو مذکرّ بنا دے گی یعنی ہر دو عورتوں کی شہادت جو الگ الگ ہوتی ہے جمع ہوکر ایک مرد کی شہادت جیسی ہوگی۔ بلا شبہ یہ مفہوم و مطلب باطل ہے نہ اس پر شرع دلالت کرتی ہے نہ لغت اور نہ عقل۔''

(ب) تفسیر ابن کثیر میں ہے:
''من قال إن شهادتها معها تجعلها کشهادة ذکر فقد أ بعد''
''اور جس نے کہا ہے کہ اس کی شہادت اس کےساتھ جمع ہوکر اس کو مرد کی شہادت کی طرح کردے گی۔ اس کا یہ قول عقل و نقل سے بعید ہے۔'' 5

(ج) تفسیر خازن میں ہے:
''وحکي عن سفیان بن عینیة أنه قال ھو من الذکرأن تجعل إحداھما الأخریٰ ذکرا والمعنی أن شهادتهما تصیر کشهادة ذکر والقول الأوّل أصح لأنه معطوف علیٰ تضل''6
''سفیان بن عینیہ سے روایت کی جاتی ہے کہ انہوں نے کہا کہ فتذکر کا ماخذ ذکر ذال کی فتح سے ہے یعنی ایک دوسری کو مذکرّ بنا دے گی یعنی دونوں کی شہادت مرد کی شہادت کی طرح ہوجائے گی۔ پہلا قول صحیح ہے، اس لیے کہ فتذکر کا عطف تضل پرہے یعنی تذکار سے ہے۔ایک شاہدہ دوسری مذکرّہ ہوگی۔''

3۔ اگر دونوں عورتوں سے شہادت الگ الگ لی جائے جیسا کہ مدیر محدث کا خیال ہے تو ان کی شہادت میں تضاد او راختلاف کا بھی امکان ہے۔ایسی صورت میں ہر دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کی شہادت کے برابر کس طرح ہوگی؟ لہٰذا شہادت کی وہی صورت صحیح ہے جس کو قرآن مجید نے بیان کیا ہے ائمہ تفسیر نے اس کی وضاحت کردی ہے۔

تذکر اور تضل:
مدیر محدث نے تذکر اور تضل کے بارہ میں تحقیق کی ایک جدید راہ اختیار کی ہے ، فرماتے ہیں :
''تذکر یاد دلانے کے معنی میں پڑھا جائے گا نہ کہ تذکر مذکربنانے کے معنی میں ۔ او ریہی مفہوم دوسری تفسیروں سے بھی ثابت ہے بلکہ بعض نے تو یہ تصریح بھی کی ہے کہ فتذکر تضل کے مقابلہ میں ہے۔'' 7

اگر علم لغت پر توجہ فرماتے تو یہ کہنے کی کبھی جسارت نہ کرتے کہ فتذکر تضل کے مقابلے میں ہے۔ یہ اس لیے کہ تضل کا اطلاق ایک سے زیادہ معنوں پر ہوتا ہے۔ اسی طرح فتذکر کا اطاق ایک سے زیادہ معنوں پر ہوتا ہے ۔ اس لیے مطلق یہ کہنا کہ تذکر تضل کے مقابلے میں ہے غلط ہے، جب تک کہ اس کا ایک معنی نسیان معین نہ کرلیا جائے۔ تذکر کا معنی ''یاددہانی'' لینے کے لیے صاحب تفسیر خازن کو بھی تضل کا معنی ''وھو النسیان'' متعین کرنا پڑا۔ لہٰذا ہم پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ کسی مفسر نے مطلقاً یہ نہیں کہا کہ تذکر تضل کے مقابلے میں ہے۔ یہ مدیر محدث کی اپنی از خود ایجاد ہے۔

تفسیر مراغی میں ہے:
استاذ احمد مصطفٰی المراغی نے اس مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے کہ ''شہادت میں دو عورتوں کی ضرورت کیوں ہے'' لکھا ہے:
''إذا تركت إحداهما شيئا من الشهادة، كأن نسيته أو ضل عنها تذكرها الأخرى وتتم شهادتها، وعلى القاضي أن يسأل إحداهما بحضور الأخرى، ويعتدّ بجزء الشهادة من إحداهما وبباقيها من الأخرى'' (پارہ 3)
''جب ایک عورت شہادت کا کچھ حصہ بھول کر یا خطأ سے چھوڑ دے تو دوسری عورت اس کو یاد دلائے اور اس کی شہادت کو مکمل کرے اور قاضی کی ذمہ داری ہےکہ دوسری کی موجودگی میں پہلی سے شہادت لے او رجتنا حصہ وہ بیان کرے قاضی اس کو معتبر سمجھے اور بقایا شہادت دوسری سے لے اور اس کا اعتبار کرے۔''

پھر فرماتے ہیں : ''وكثير من القضاة لا يعلمون بهذا جهلا منهم'' یعنی ''بیشترقاضی اپنی جہالت کی وجہ سے شہادت کے اس طریقہ کو نہیں جانتے۔''

استاذ احمد مصطفیٰ المراغی کی عبارت عورتوں کی شہادت کے بارہ میں کسی تفصیل کی محتاج نہیں ، اس سے حسب ذیل صورتیں منصہ شہود پر جلوہ گر ہوتی ہیں ۔
1۔ عورتوں میں سے ایک شاہدہ دوسری مذکرّہ ہے، تکمیل گواہی میں ہر دو شریک ہیں ۔
2۔ یاد دہانی سے پہلی گواہی اور یاددہانی کی گواہی دونوں معتبر ہیں ۔
3۔ دوسری کی حاضری میں پہلی عورت گواہی دے گی۔
4۔ یادہانی سے شاہدہ کی شہادت مسترد نہیں ہوگی۔
5۔ اگر ان کے ساتھ مرد نہیں ہوگا تو صرف ان کی گواہی قابل قبول نہیں ہوگی۔

احادیث:
مدیر محدث نے اپنے مؤقف کی تائید میں چند ایک احادیث بحوالہ بخاری ، مسلم بیان کی ہیں ۔ ان میں سے بعض احادیث کے الفاظ حسب ذیل ہیں ۔ ''ألیس شهادة المرأة مثل نصف شهادة الرجل'' یعنی '' کیا عورت کی شہادت مرد کی شہادت کےنصف جیسی شہادت نہیں ؟'' بعض احادیث کے الفاظ یہ ہیں : ''فشهادة امرأتین تعدل شهادة رجل'' ''دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کی شہادت کے برابر ہے۔'' مگر احادیث کے مذکورہ الفاظ سے مدیر محدث کا مؤقف ثابت نہیں ہوتا ۔ مابہ النزاع یہ مسئلہ نہیں کہ دو مرد نہ ہوں توایک مرد اور دو عورتیں ہوں گی۔ یہ تو سب کے نزدیک متفقہ مسئلہ ہے۔ قرآن و حدیث اس پر شاہد ہیں ۔مدیر محدث او رہمارے درمیان نزاع اس بارہ میں ہے کہ گواہی کی صورت کیا ہوگی؟ مدیر محدث کا مؤقف ہے کہ ہر دو عورتوں کی شہادت الگ الگ ہوگی۔ دونوں شہادتیں جمع ہوکر ایک مرد کی شہادت کے برابر ہوں گی۔ ہمارا مؤقف یہ ہے کہ دونوں میں ایک عورت شاہدہ ہے او راس کے بھولنے پر دوسری عورت اس کو یاددہانی کرائے گی دونوں مل کر ایک شہادت کو مکمل کریں گی۔ جیسا کہ اس کی تفصیل اوپر ہوچکی ہے۔ جو احادیث بیان کی گئی ہیں ان میں سے مدیر محدث کا مدعا ثابت نہیں ہوتا۔جس کی تفصیل یہ ہےکہ بیان کردہ احادیث کے الفاظ میں یہ وضاحت نہیں پائی جاتی کہ شہادت کی کیفیت کیا ہے؟ البتہ اتنا پتہ چلتا ہے کہ دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کی شہادت کے برابر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سائلہ کو اتنا ہی بتانا مقصود تھا کہ عقل میں کمی کس طرح ہے؟ سوال کے مطابق آپؐ نےجواب دے دیا۔ حقیقت یہ ہےکہ آپؐ کے اس ارشاد ''دو عو رتوں کی شہادت ایک مرد کے برابر ہے'' یا ''ایک عورت کی شہادت مرد کی شہادت کے نصف جیسی ہے'' کا مآخذ قرآن مجید ہے۔ چنانچہ صاحب مرعات نے لکھا ہے:''ألیس شهادة المرأة مثل نصف شهادة الرجل إشارة إلیٰ قوله فإن لم يكونا رجلين فرجل و امرأتان''8

''ألیس شهادة المرأة الحدیث'' حضورؐ کا یہ ارشاد اللہ تعالیٰ کے اس قول کی طرف اشارہ ہے جس میں ہے: ''فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَ‌جُلَيْنِ فَرَ‌جُلٌ وَٱمْرَ‌أَتَانِ الاٰیة!''


''فشهادة امرأتین تعدل شهادة رجل''اس حدیث کی شرح میں ابوعبداللہ المازری نے کہا ہے: ''أما نقصان العقل فشهادة امرأتین تعدل شهادة رجل  تنبیه منه صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علیٰ مادراہ وھو ما نبه اللہ سبحانه هو تعالیٰ عليه في کتابه العزیز أَن تَضِلَّ إِحْدَىٰهُمَا فَتُذَكِّرَ‌ إِحْدَىٰهُمَا ٱلْأُخْرَ‌ىٰ''9
''بہرحال عقل کا نقصان یہ ہے کہ دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کی شہادت کے برابرہے۔ یہ اطلاع آپؐ کی طرف سے ہےجس بناء پر اپؐ نے سمجھا ہے اور وہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ سبحانہ نے اپنی کتاب عزیز میں بیان کی ہے کہ ان میں سے ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلائے۔

مذکورہ عبارات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ احادیث ''فشهادة امرأتین'' اور ''ألیس شهادة المرأة'' کا مآخذ قرآن مجید کی یہی آیت: ''فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَ‌جُلَيْنِ فَرَ‌جُلٌ وَٱمْرَ‌أَتَانِ مِمَّن تَرْ‌ضَوْنَ مِنَ ٱلشُّهَدَآءِ أَن تَضِلَّ إِحْدَىٰهُمَا فَتُذَكِّرَ‌ إِحْدَىٰهُمَا ٱلْأُخْرَ‌ىٰ الاٰیة ''ہے۔ اس لیے عورتوں کی شہادت کے بارہ میں وہی صورت صحیح ہے جو اس آیت میں بیان ہوئی ہے۔ یعنی شہادت کے وقت ایک عورت شاہدہ ہوگی اور دوسری مذکرّہ جو یاد دلا کر اس شہادت کو مکمل کرے گی۔

مولانا اشرف علی تھانوی :
''فَتُذَكِّرَ‌ إِحْدَىٰهُمَا ٱلْأُخْرَ‌ىٰ'' کی تفسیر کرتے ہوئے مولانا موصوف لکھتے ہیں :
''اور ایک مرد کی جگہ دو عورتیں اس لیے تجویز کی گئی ہیں تاکہ ان دونوں عورتوں میں سے کوئی ایک بھی شہادت کے کسی حصہ کو خواہ ذہن سے یا شہادت کے وقت بیان کرنے سے بھُول جائے تو ان میں سے ایک دوسری کو یاد دلا دے او ریاددلانےکے بعد شہادت کا مضمون مکمل ہوجائے۔'' 10

بات طول پکڑ گئی۔ خلاصہ کلام یہ ہے ، شہادت کے وقت دو عورتوں میں سے ایک شاہدہ دوسری مذکرّہ ہے، جو شہادت کے کسی حصہ کے بھولنے پراس کو یاد دلائے گی اور دونوں مل کر شہادت کو مکمل کریں گے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہر عورت کی الگ گواہی ہوگی دونوں کی گواہی مل کر ایک مرد کی شہادت کے برابر ہوں گی یہ قول باطل ہے جیسا کہ امام ابن کثیر او رامام شوکانی نے اس قول کی سخت تردید کی ہے۔ او ریہ قول بھی حقیقت کے خلاف ہے کہ ''فتذکر تخفیف کے ساتھ قراء ت غلط ہے۔'' جیسا کہ اس کی تفصیل اوپر ہوچکی ہے۔

ہم نے جو کچھ لکھا ہے وہ کتاب و سنت کی روشنی میں لکھا ہے۔ بایں ہمہ وہ حرف آخر نہیں ۔ اس میں صواب و خطاء کا احتمال ہے۔اصلاحی مشورہ قبول کرنے میں کوئی دریغ نہیں ہوگا۔ تعاقب میں جو انداز اختیار کیا گیاہے وہ اہل علم کی شان کے خلاف ہے۔

مسلک کے ٹھیکیدار بتا سکتے ہین کہ ہم سے کون سا جرم ہوا ہے جس کے انسداد کے لیے اہلحدیث جماعت کے علماء کے دوازوں پر الحذر اور المدد کی دستک دی گئی ہے اور ان جراود کو معتوب گردانا گیا ہے جن پر ہمارا مضمون شائع ہوا ہے۔ کیا اچھا ہوتا کہ تعاقب شائع کرنےسے پہلے مولانامدنی سے مشورہ کرلیا ہوتا۔ مدیر محدث اس فن کے آدمی معلوم نہیں ہوتے۔

خلق اللہ للحروب رجالا
ورجالا للقصعة والثرید

30۔اپریل 1983ء


حوالہ جات
1. ص8
2. ص 335
3. ص512
4. صفحہ 272
5. صفحہ 335
6. ص307
7. ص11
8. مرعات جلد اوّل صفحہ 49
9. مسلم جلد اوّل شرح نووی
10. بیان القرآن