اس کے علاوہ آپ کا حاضر فی الذہن ہونا ان لوگوں کی نسبت تو درست ہو سکتا ہے جنھوں نے آپ کو دیکھا ہے کیونہ ان کےذہن میں آپ کی خاص صورت و شکل حاضر ہو سکتی ہے ۔ لیکن جنھوں نےآپ کو نہیں دیکھا ان کے ذہن میں تو آپ کی صفات ہیں جو کلیات ہیں جن میں تعین اور تشخص نہیں تو پھر آپ بعینہ حاضر کس طرح ہوئے اور جب آپ بعینہ حاضر نہ ہوئے اور صرف آپ کی صفات ہوئیں ۔ جو کلیات ہیں تو ان کے نزدیک بھی حاضر فی الذہن ہذا کاحقیقی معنی نہ ہو ا اس سے بھی معلوم ہو اکہ عنی کا خیال درست ہے اور اگر بالفرض مان لیا جائے کہ حاضر فی الذہن ہذاکا حقیقی معنی ہو گا۔ پس اس صورت میں عنی اورحافظ ابن حجر برابر ہوں گے کیونکہ لفظ جب دو معنوں کے درمیان مشترک ہو تو بغیر دلیل کےکسی کو نہیں لے سکتے نہ حافظ ابن حجر کا مذہب ثابت ہوا نہ عینی کا ۔ ہاں عنی کے مذہب کو اایک اور طرح سے ترجیح ہو سکتی ہے وہ یکہ حاضر فی الذہن کو ہذا کا حقیقی معنیٰ ماننے کی صورت میں لازم آتا ہے کہ ہذا دومعنوں میں مشترک ہوا اور اگر حاضر فی الذہن کو مجازی معنیٰ قرار دیں تو اس صورت میں ہذا حقیقت مجاز ہوگا اور عربیت کا یہ قاعدہ ہےکہ جب ایک لفظ اشتراک اور حقیقت مجاز کے درمیان دائر ہو تو حقیقت مجاز کی کثرت ہے ۔ پس کثرت پر حمل ہو گا ۔ اس بنا پر بھی عینی کے مذہب کو ترجیح ہوئی اور رسو ل اللہ ﷺ کا مثکوف ہونا ہی غالب رہا ۔
اس عبارت میں قریب نظر آنے لگتا ہے ایسا ہی ہے جیسا ذولقرنین کے قصہ میں قرآن مجید میں مذکورہ ہے وجد ہا تعزب فی عین حمئۃ‘‘ یعنی ذولقرنین نے سورج کو سمندر میں غروب ہوتے پایا اس پر مفسرین نے لکھاہے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ واقعی سورج سمندر میں غروب ہوتا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ذولقرنین کو اسی طرح دکھائی دیا ۔ ٹھیک اسی طرح ہماری عبارت ہے ۔ اس میں یہ کہاں ہے کہ رسول اللہ ﷺ فی الواقعہ ہر ایک قبر میں حاضر ہوتے ہیں ۔
وکم من غائب قولا صحیحا فافته من الفہم السقیم ‘‘
مسئلہ مذکورہ کے بارے میں محدث روپڑی نے اس بات کو ترجیح دی کہ سوال ہذا الرجل میں ہذا کا مشار الیہ رسول اللہ ﷺ کی ذات ہے صفات نہیں۔ محدث روپڑی کی اس تحقیق پر جہاں مولانا عبدالجلیل سامرودی نے تعاقب کیا ہے وہاں مولانا محمد جونا گڑھی مرحوم نے بھی چند اعتراضات کیے ہیں ۔
مولانا محمد جونا گڑھی :
محدث روپڑی کی اس تحقیق پر مولانا محمد جونا گڑھی نے حسب ذیل اعتراضات کیے ہیں ۔
1)محترم مولانا حافظ صاحب ذرا ایک بات تو بتلائیں کہ چودہ سوسال کے بعد کے آنے والے کے سامنے چودہ سو برس پہلے کا کوئی شخص جسے کبھی اس نے دیکھا نہ ہو کھڑا کر دیا جائے اور اس سے پوچھا جائے کہ یہ کون ہے ؟ تو کیا عقل بادر کرتی ہے کہ وہ صحیح جواب دے گا ۔
2)یہ مان لینے سے کہ حضور ﷺ قبر میں لائے جاتے ہیں آپ کی تشبیہ پیش کی جاتی ہے ۔
سوال وجواب میں وہ لطافت ہی باقی نہیں رہتی ۔ جو شریعت نے رکھی ہے ۔
3)جناب من صرف لفظ ہذاکو ج اس موقع پر مثل متشابہ کے لیے لے کر صراحت کو جو من نبیک وغیرہ میں مثل محکمات کے ہے چھوڑ دنیا تو شائد آپ اتباع سلف میں داخل نہ کرسکیں ۔
4)کیا جناب نے یہ بھی خیا ل کیا کہ جو پہلے ہی حضور کو ہر جگہ حاضر ناظر مانتے ہیں آپ کیسا کچھ ہتھیار دے رہے ہیں ۔
5)کیا اس قسم کے الفاظ ایسے مسائل کے استخراج کے لیے کافی ہیں ؟ کیا قبرستان کے سلام کا خطاب مردوں کے حساس اور سننے والے مثل زندوں کے ہونے کےلیے بس ہے ۔
6)کیا ’’ربی و ربک الله کا ‘‘خطاب چاند سے کرنا اس لیے بھی کوئی کمال قدرت ثابت کرنے کے لیے کافی ہے ۔
7)اگر نہیں تو کیا جناب کے پاس قرآن وحدیث سے مذہب سلف سے کوئی ایسی دلیل ہے جس سے حضور ﷺ کا ہر گورے کالے ۔مسلم ،کافر ۔ عربی عجمی کی قبر میں پھیرے کرنا اور موجود ہونا ثابت ہوتا ہو ۔
8)لفظ ہذا ‘‘ اگر موجود شے کی طرف اشارہ کے لیے ہی ہے تو پھر اوصاف بیان کرنے کی چنداں ضرورت ہی نہ تھی جو اتنا لمبا سوال ہو جائے ۔
9)لفظ ہذا پر اتنا اصرار کرنا صرف اس کے لفظی معنیٰ کی وجہ سے ہے کہ عقائد اسلام اور اجماع صحابہ اور ضروریات دین کے فوت ہونے پر بھی اس لفظ کو اس معنیٰ سے نہ ہٹایا جائے تو پھر اسی کے سوال کے جواب کے لفظ ’’ہو ‘‘ پر بھی اعتماد کیوں نہیں کرتے وہ تو غائب کی ضمیر ہے پس مان لیجیے کہ حضور ﷺ غائب ہو جاتے ہیں ۔ موجود نہیں ہوتے ۔
10)آخری ایک اور چیز سن لیجیے اور مجھے محترم حافظ صاحب کی انصاف پسندی اور راستی والی طبعیت سے امیدہے کہ اس کے بعد آپ اپنی جملہ تحریروں کو واپس لے لیں گے وہ یہ ہے کہ یہاں لفظ ’’ہذا‘‘ معنیٰ میں ’’ذالک ‘‘ کے ہے ۔ یعنی اسم اشارہ قریب کے لیے نہیں بلکہ بعید کے لیے ہے اور اسم اشارہ قریب کا بعید کے لیے اور بعید کا قریب کے لیے لغت عرب میں مستعمل ہے ۔ قرآن میں ہے ’’ذالک الکتب لا ریب فیہ ‘‘ اس کی تفسیر میں ابن عباس سے مروی ہے کہ ’’ذالک ‘‘معنیٰ میں ’’ہذا‘‘ کے ہے ۔ ملاحظہ ہو تفسیر محمد ی ترجمہ ابن کثیر پارہ اول 44 پس جیسے ’’ذالک ‘‘ معنیٰ میں ’’ہذا‘‘ کے آتا ہے ویسے ہی ’’ہذا‘‘ معنیٰ میں ذالک کے ہے ۔ چنانچہ تفسیری محمد ترجمہ ابن کثیر کے اسی صفحہ میں ہے یہ دونوں لفظ قائم مقام عربی زبان میں اکثر آتے رہتے ہیں ۔ حضرت امام بخاری نے ابو عبیدہ سے بھی یہی نقل کیا ہے ۔ عربی کی تفسیر کے الفاظ بھی ملاحظہ فرمالیں ’’فتستعملان کل منها مكان الاخرو هذا معروف ف كلامهم وقد حكاه البخاري عن معمر المثني ٰ عن ابي عبيدة جلد اول مصري ص67-
مولانا كا سارا مدار اس لفظ پر تھا اور یہ لفظ دور کے اشارہ کے لیے بھی آتا ہے ۔ اب وہ نیو ہی نہ رہی جس پر کشف کی یا شبیہ کی یا حاضری کی عمارت کھڑی کی جائے ۔
11)قرآن میں ہے’’ذالکم اللہ ربکم ‘‘ تو کیا اس میں بھی اللہ تعالیٰ کاوجود سامنے موجود تھا جس کی طرف اشارہ ہوا ۔
12)حاشیہ تہذیب میں صراحت ہے کہ لفظ ’’ہذا ‘‘سے اشارہ کبھی غیر موجود و غیر محسوس غیر شاہد کی طرف بھی ہوتا ہے ۔ امید ہے کہ ان درجن پھر دلیلوں پر مکرم حافظ مزید غور فرمائیں گے ۔ والسلام اخبار محمد یکم مارچ 1936ء
محدث روپڑی کا جواب
1)چودہ سو برس کے بعد آنے والے کا پہچاننا ، اس کا حل ہم نے پہلے ہی کر دیا تھا غالبا آپ کی نظر سے وہ مضمون نہیں گزرا ۔ ہم نے لکھا تھا ۔
’’جنھوں نے رسول اللہ ﷺ کو نہیں دیکھا وہ بھی رسول اللہ ﷺ کے وجود باجود کو دیکھ کر پہچان لیں گے کہ یہ خدا کے رسول ہیں ۔ کیونکہ احادیث میں آیا ہے کہ مومن جب کہے گا کہ یہ اللہ کے رسو ل ہیں تو منکر نکیر کہیں گے کہ تجھے کس طرح معلوم ہوا کہ یہ اللہ کے رسول ہیں تو وہ جواب میں کہے گا کہ میں نے اللہ کی کتاب پڑھی پس اس پر ایمان لایا اور ان کی تصدیق کی یعنی اللہ کی کتاب میں جو ان کے اصاف یا ان کا حلیہ بتایا گیا ہے اسے دیکھ کر مومن فراست ایمانی سے اندازہ کرلے گا کہ یہ وہی رسو ل ہین جن پر میں ایمان لایا ہوں ‘‘
ہاں بعض میتوں کو اس میں تردد ہوتا ہے تو ہ ’’امحمد یا ای رجل ‘‘ کہہ کر سوال کرتی ہیں چنانچہ ابن مردو یہ وغیرہ کی حدیث کے ذیل میں اس کی تفصیل ہو چکی ہے ۔
2)حضور قبر میں نہیں لائے جاتے بلکہ درمیان سے پردہ اٹھایا جاتا ہے جس سے آپ میت کے سامنے ہو جاتے ہیں۔
3)تنظیم مورخہ 17 جنوری 1936 میں تفصیل ہو چکی ہے کہ سوال کی چار صورتیں ہیں ۔ ایک ’’ہذا الرجل ‘‘ (معرفہ ) کے ساتھ خواہ اس کے ساتھ آپ کا نام یا کوئی صفت ہو یا نہ ہو ۔ دوم رجل نکرہ کے ساتھ اس میں نام یا صفت کا ہونا ضروری ہے جیسے ۔
رجل يقال له محمد ماهو سوم من کے ساتھ جیسے من نبيك يا من الرسول الذي بعث اليكم چہارم شہادت کے ساتھ ماشهادتك تفسیر ابن کثیر جلد 5 ص 295،296 یہ چاروں صورتیں الگ الگ ہیں ۔ اگر ان سے من نبيك وغیرہ محکمات سے ہو تو اس سے یہ کس طرح ثابت ہواکہ ’’ہذا ‘‘ کی صورت میں کشف نہیں پھر ہذا کو متشابہ کہنا یہ بھی ٹھیک نہیں ۔ کیونکہ متشابہ وہ ہے جس کے معنیٰ میں اشتباہ ہوا اور اس یک تعین نہ ہو اور ’’ہذا‘‘ کا معنیٰ معلوم ہے ۔ اس میں کوئی اشتباہ نہیں ۔
4)اس کا جواب نمبر 2 میں آگیا ہے کہ آپ قبر میں نہیں لائے جاتے ۔
5۔6)ہمارا مردوں کو یا چاند کو خطاب کرنا دنیوی معاملہ ہے اور فرشتوں کا ،ہذا کے ساتھ میت سے سوال کرنا اخروی معاملہ ہے ۔ اس لیے اس کا قیاس مردوں کے یا چاند کے خطاب پر صحیح نہیں ہے ۔
7)قبر میں رسول اللہ ﷺ کے پھیرے کرنے کے ہم قائل نہیں ۔
8)بعض میتوں کو آپ کے چہرہ مبارک پر نظر پڑنے سے کچھ تردو رہتا ہے تو ان کے لیے اورصاف کی ضروت پڑتی ہے۔ چنانچہ ابن مردو یہ وغیرہ کی حدیث کے ذیل میں گزر چکا ہے ۔
9۔10)ہمیں معلوم نہیں ہوا کہ ہذا کے لفظی معنیٰ لینے میں کون سے عقائد اسلام اور اجماع صحابہ اور ضروریات دین فوت ہوتے ہیں اور ضمیر غائب سے غائب سمجھنا یہ مولوی عبدالجلیل کی طرح آپ کی ڈبل غلطی ہے ۔ اس طرح اشارہ بعید کےکیے گئے معنیٰ سے غائب سمجھنا ڈبل غلطی ہے ۔ دیکھیے آفتاب کتنی دور ہے مگر دن میں سامنے ہے غائب نہیں ۔ پھر ہذا کو ذلک کے معنیٰ میں لینا مجاز ہے ۔ اس کے لیے آپ نے سا جگہ کوئی قرینہ بیان نہیں کیا ۔ اگرچہ ہمارا یہ خیال نہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ واقعہ میں قریب ہوتے ہیں ۔ ہاں یہ خیال ہے کہ میت کوقریب معلوم ہوتے ہیں لیکن اگر ہذا کو ذلک کے معنیٰ میں لینے پر کوئی قرینہ ہو تو ہم بعید کے قائل ہو جائیں گے ۔ مگر اس سے غائب کا ثبوت کسی طرح نہیں ہوتا ۔
11)ذالکم اللہ ربک کا جواب وہی ہے جو امن ہذالذی ہو جند لکم کا اوپر بیان ہوا ہے ۔
12)تہذیب کے حاشیہ میں جو لکھا ہے وہ مجازی معنیٰ ہےجس کے لیے قرینہ کی ضرورت ہے ۔ حدیث میت میں کوئی قرینہ نہیں ۔ پھر بلا قرینہ کیونکہ مراد ہو سکتا ہے پس درجن بھر دلیلیں نام ہی کی ہیں ۔ کام کی نہیں ۔ (عبداللہ امر تسری)
ناظرین اس بات کو بخوبی یادرکھیں کہ ہم محدثین کے شیدائی ہیں اور ہمارا ہر وقت نصب العین ہی مسئلہ ائمہ محدثین نے ایک مسئلہ میں کلام ہی نہ کی ہو اور کئی صدیوں بعد ایک حدیث کی تشریح میں علماء کاا ختلاف ہوگیا ہو ۔ ایک طرف علامہ عنی وغیرہ ہوں جو مکشوف ہونے کے قائل ہوں اور دوسری طرف حافظ ابن حجر وغیرہ ہوں جو اسکے خلاف ہوں ۔ تو ان سے ایک جانب کو ائمہ حدیث کا مسلک قرار دے کر دوسری جانب اختبار کرنے والے پر مخالف محدثین کا الزام قائم کرنا یہ مولوی عبدالجلیل صاحب کی خوش فہمی ہے ۔ ورنہ کسی اصول کے تحت یہ ائمہ محدثین کا اصول نہیں کہلا سکتا ۔ کیونکہ ائمہ حدیث کا مسلک کوئی جدید امر نہیں بلکہ سلف سے چلا آتا ہے (اگر مولوی عبدالجلیل ) صاحب میں جرأت ہے تو سلف کا مسلک اس میں بتائیں ۔ کیونکہ ائمہ محدثین کا مسلک سلف کی روش ہے ۔ اگرسلف سےکسی ایک کا قول بھی اس حدیث کی تشریح میں ثابت ہو جائے ۔ جس میں میت سے ہذا کے ساتھ سوال کا ذکر ہے یا کسی حدیث میں اس امر کی تصریح ثابت ہو کہ رسو ل اللہ ﷺ قبر میں مکشوف ہو کر سامنے نہیں ہوئے تو ہم آج ہی اپنے خیال سے رجوع کرلیں گیے ۔ لیکن جہاں دونوں باتون میں سے ایک بھی ثابت نہ ہو ۔ نہ کسی حدیث میں ان کی تصریح ہو نہ کسی سلف کا قول اس کی تشریح میں ثابت ہو تو ویسے ہی ائمہ محدثین کے خلاف رٹ لگائے جانا یہ سراسر اپنی خفت کرانا ہے ۔
حافظ ابن حجر نے فتح الباری جز 4 ص 486 میں لکھاہے ۔
لما اختلف الصحابة وجب الرجوع الي المرفوع يعني ‘‘جب صحابہ کا اختلاف ہو تو مرفوع کی طرف رجوع واجب ہوتاہے ۔
جب صحابہ میں اختلاف پیدا ہونے کی صورت میں مرفوع کی طرف رجوع واجب ہوتا ہے تو ساتویں آٹھویں صدی میں اختلاف پیدا ہوتا ہونے کی صورت میں مرفوع کی طرف رجوع واجب نہ ہوگا ۔ اگر واجب ہوگا تو بتائیے آپ نے کون سی مرفوع حدیث اس مسئلہ میں فیصلہ کن پیش کی ہے ۔ تین مرتبہ تعاقب میں فیصلہ کن حدیث ایک بھی پیش نہیں کی نہ سلف سے کسی کا مسلک اس حدیث کی تشریح میں پیش کیا ۔ خود ہی حافظ ابن حجر وغیرہ کے خیال کو ائمہ محدثین کا مسلک بتارہےہیں ۔ اور آپ ہی حافظ ابن حجر کی مخالفت کر رہے ہیں ۔ یہ دورنگی کیسی؟
دورنگی چھوڑکر یک رنگ ہو جا ۔۔۔۔سراسر موم ہو یا سنگ ہو جا
قبر میں میت سے جب ’’ما تقول فی ہذا الرجل ‘‘ الفاظ سے سوال کیا جاتا ہے تو ’’ہذا کا مشار الیہ نبی ﷺ کے اوصاف ہیں یا آپ کی ذات مبارک ہے حضرت محدث روپڑی نے دوسرے معنیٰ کو ترجیح دی ہے ۔ اس لیے کہ ہذا کا مشار الیہ محسوس مبصر اور قریب ہوتا ہے یہ ہذا کا حقیقی معنیٰ ہے ۔ عالم برزخ میں ہذ ا کا یہ حقیقی معنیٰ نہ عادت کے خلاف ہے نہ مشاہدہ کے ۔
زیر نظر مضمون میں محدث روپڑی نے مولانا عبدالجلیل کےتعاقب کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ما تقول فی ہذا الرجل ‘‘ کی تفسیر میں نہ کوئی مرفوع حدیث ہے اور نہ سلف میں سے کسی کا قول جس میں ہوکہ ہذا کا مشارُُ الیہ صفات ہے ذات نہیں۔ چنانچہ آب لکھتے ہیں ۔
اگرمیرے اڑنے کے یہ معنیٰ کہ میں اپنے خیال پر قائم ہوں تو اس معنیٰ سے آپ بھی اڑے ہوئے ہیں ۔پھر آپکا یہ کہنا کہ عدم کشف اصل ہے ۔ اگر اسکا یہ مطلب ہے کہ ممکنات میں پہلے عدم ہوتا ہے اور وجود کے لیے علت کی ضرورت ہے تو یہ درست ہے مگر یہاں ا س کا کوئی تعلق نہیں ۔ اور اگر یہ مطلب ہےکہ وجود دلیل نہ ہو تو عدم کا اعتقاد رکھنا چاہیے تو یہ اس محل میں بالکل غلط ہے کیونکہ آخرت کامعاملہ ہماری آنکھوں سے غائب ہے ہم اپنے خیا ل سے نہ کشف کہ سکتے ہیں نہ عدم کشف اسی بنا پر مولانا اسماعیل شہید فرماتے ہیں ۔
ما اثبته الشارع فہو ثابت و ما نغاہ فهو منفی وما سکت عنه فهو بين ان یکون وبین ان لا یکون ‘‘
یعنی جو شے شارع نے ثابت کی وہ ثابت ہے اور جس شے کی نفی فرمائی وہ غیر ثابت ہے اور جس سے سکوت کیا وہ متحمل ہے ہو یا نہ ہو ۔ (جاری ہے )