حافظ عبداللہ محدث روپڑی کا فتویٰ اور مولانا عزیز زبیدی کا تعاقب
قبر میں رسول اللہ ﷺ کی بابت میت سے سوال کیا جاتا ہے کیا اس وقت آپ کا وجود مبارک میات کے سامنے ہوتا ہے ؟ یا صرف اوصاف پر کفایت ہوتی ہے ؟
شعبان 1354 ہجری کی بات ہےکہ اے ۔ای پٹیل از جوہانسبرگ افریقہ نے حضرت محدث روپڑی کی خدمت میں ایک استفتاء بھیجا کہ قبر میں منکر نکیر میت سے پوچھتے ہیں ’’ما هذا الرجل الذي بعث فيكم ‘‘
یعنی یہ شخص جو تم میں مبعوث ہوا ہے وہ کیا ہے ؟ فيقول محمد ﷺ حدیث مذکورہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ وجود مبارک میت کے سامنے ہوتا ہے جس کی وجہ سے کہا جاتا ہے ’’ ماہذا الرجل الذی بعث فیکم ‘‘ کیونکہ لفظ ہذا ‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول الہل ﷺ وہاں موجود ہوتے ہیں ۔ اگر لفظ ہذا کا دوسرا کوئی معنی ہے ،مع دلیل و حوالہ بیان کیجیے ۔
یہ سوال انہوں نے اپنے ایک عالم سے کیا ۔ انہوں نے جو جواب دیاوہ حسب ذیل ہے ۔
جواب ۔1: لفظ ہذا اس مذکور موجود شے کی طرف اشارہ کرنے کےلیے موضوع ہے جو قریب ہو عام اس سے مذکر حقیقی ہو حکمی اور موجود خارجی ہو یا ذہنی ۔
روایت مذکورہ فی السوال نیز دیگر روایات مختلفہ فی الباب کے مجموعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضو ر ﷺ کے اوصاف ذکر کیئے جاتے ہیں اور پھر اشارہ کر کے کہا جاتاہے تو اگر بندہ مومن ہے تو تام اوصاف کوسن کر جواب دے گا ’’ عبداللہ و رسولہ ‘‘ پس لفظ ہذا ‘‘ سے مراد نبی کریم ﷺ ہیں ۔ اور بعضوں نے روایت مذکورہ فی السوال کی بنا پر یہ بھی کہا ہے کہ ممکن ہے کہ نبی کریم ﷺ کا چہرہ مبارک مکشوف ہوتا ہو اور مکشوف ہونے کے بعد کہا جاتا ہو کہ ما تقول فی ہذا الرجل ‘‘ مگر اس بارہ میں کوئی صریح روایت نہیں ملی ۔ وهذا بشارۃ عظمی ٰ للمومن و ما ذالک علی اللہ بعزید واللہ سبحانه و تعالیٰ اعلم فقط (محمد نا عفا اللہ عنه سملاکی )
جواب 2: حدیث شریف میں ہذا ‘‘کے ساتھ ‘‘ الذی بعث بھی آیا ہے اس کا مطلب یہ کہ رسول مبعوث سے سوال ہے معنی ٰ یہ ہیں کہ جو شخص تم میں رسول کر کے بھیجا گیا تھا اس کو کیا کہتے ہو ہذا ‘‘ کے ساتھ جب الذی آئے تو وہاں موجود و مراد نہیں ہوتا بلکہ موصول معہ صلہ کی طرف کلام کا رخ ہوتا ہے ۔ اس کی مثالیں قرآن مجید میں بکثرت ہیں آمین ہذا لذی ہو جند لکم ‘‘ اسی قسم سے ہے جن لوگوں نے کہا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی شکل دکھائی جاتی ہے ۔ یہ ان کا اپنا خیال ہے جس کی ذمہ دار وہی ہیں (اے ۔ ای پٹیل )
حضرت محدث روپڑ نے جو جواب دیا ہے وہ حسب ذیل ہے ۔
الجواب ۔حدیث شریف میں ’’ہذا ‘‘ کے ساتھ ‘‘ الذی بعث ‘‘ بھی آیاہے اس کا مطلب یہ ہے کہ رسو ل مبعوث سے سوال ہے ۔ معنی ٰ یہ ہیں ۔ کہ جو شخص تم میں رسول کر کے بھیجا گیا تھا اس کو کیا کہتے ہو؟ ہذا ‘‘ کے ساتھ جب ’’الذی‘‘ آئے تو وہاں موجود مراد نہیں ہوتا بلکہ موصول معہ صلہ کی طرف کلام کا رخ ہوتا ہے ۔ اس کی مثالیں قرآن مجید میں بکثرت ہیں ’’آمن هذ الذي هو جندلكم اسی قسم سے ہے جن لوگوں نے کہا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی شکل دکھائی جاتی ہے ۔ یہ ان کا اپنا خیال ہے جس کے ذمہ دار وہی ہیں (اے ۔ای پٹیل )
حضرت محدث روپڑی نے جو جواب دیا ہے وہ حسب ذیل ہے :
الجواب :
’’ہذا ‘‘ کی وضع محسوس مبعصر مذکر کے لیے ہے جو قریب ہو ۔ یہ اس کی حقیقی معنیٰ ہے ۔ اس معنیٰ کی بنا پر ترجیح اس کو ہے کہ میت کے اور رسو اللہ ﷺ کے درمیان سے پردہ اٹھ جاتا ہے اور میت کو آپﷺ کاوجود قریب نظر آنے لگتا ہے ۔ پھر ہذا‘‘ کے ساتھ سوال ہوتا ہے اور یہ کہنا کہ مکشوف ہونے پر کوئی دلیل صحیح نہیں ۔ کیونکہ دلیل یہی ’’ہذا ‘‘ کا لفظ ہے جب اس کا حقیقی معنیٰ یہی ہے تو مکشوف ماننا پڑے گا ۔ تاکہ حقیقی معنی ٰ بن سکے کیونکہ حقیقی معنیٰ مقدم ہے جب تک حقیقی معنی نہ بن سکے مجازی نہیں لیا جا سکتا اور یہ کہنا کہ جب ’’هذا ‘‘ کے ساتھ ’’الذی‘‘ ہو تو کلام کا رخ موصول مع صلہ کی طرف ہوتا ہے ۔ یہ کوئی کلیہ قاعدہ نہیں قرآن مجید میں ہے :
﴿وَإِذا رَءاكَ الَّذينَ كَفَروا إِن يَتَّخِذونَكَ إِلّا هُزُوًا أَهـٰذَا الَّذى يَذكُرُ ءالِهَتَكُم... ﴿٣٦﴾...الأنبياء
’’یعنی اے محمد ﷺ !کفار جب تجھے دیکھتے ہیں تو مذاق سے کہتے ہیں کیا یہ وہی شخص ہے جو تمہارے معبودوں کو برائی سے ذکر کرتا ہے ؟
اس آیت میں رسو ل اللہ ﷺ سامنے ہیں پھر ’’الذی ‘‘ بھی ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ موصول میں ضروری نہیں کہ کلام کا رخ موصول مع صلہ کی طرف ہو ۔ ہاں اگر خارجی دلیل سے ثابت ہو کہ شے سامنے نہیں تو اس صورت میں کلام کا رخ صلہ کی طرف ہو سکتا ہے ۔ جیسے آیت کریمہ ’’امن هذا الذی هو جند لکم‘‘ میں ایسا ہی ہے ۔ کیونکہ خدا کی ذات دنیا میں کسی کے سامنے نہیں اور نہ خدا کی ذات کو دنیا میں کوئی دیکھ سکتا ہے ۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام کو خدا نے فرمایا ’’لن ترانی ‘‘ یعنی اے موسی تو مجھے ہرگز نہیں دیکھے گا ۔ اس لیے اس آیت میں’’ہذا ‘‘ کا رخ موصول مع صلہ کی طرف ہے اور حدیث ’’هذا الذی بعث ‘‘ میں رسو ل اللہﷺ کی روئیت سے کو ئی مانع نہیں ۔ درمیان سے پردہ مکشوف ہوکر روئیت ہو سکتی ہے ۔ پس اس میں کلام کا رخ موصول مع صلہ نہیں ہو سکتا ۔
بعث کا معنیٰ
اس کے علاوہ ’’الذی بعث ‘‘ کے یہ معنی کرنا کہ جو تم میں رسول بنا کر بھیجا گیا یہ بھی صحیح نہیں کیونکہ ’’جواب کی عبارت ہے ‘‘ وہ خدا کا رسول ہے ‘‘ تو جواب فضول گیا اس لیئے ’’الذی بعث ‘‘ کے معنی جو تم میں رسو ل بنا کر بھیجا گیا نہ کرنے چاہئیں ۔بلکہ اس کے معنی جو تم میں اٹھایا گیا یا پیدا کیا گیا کے کرنے چاہئیں ۔
دفع دخل
شاید کہا جائے کہ پہلے معنی ٰ(جو تم میں بھیجا گیا ) لینے کی صورت میں یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ جو تم میں رسول بنا کر بھیجا گیا تم اس کو رسول مانتے ہو ؟ مومن جواب دے گا کہ وہ خدا کا رسول ہے اور کافر کوئی جواب نہیں دے گا ۔ اور یہ مطلب صحیح ہے ۔
جواب
اس کا جواب یہ ہےکہ کیا کافر اس لیے جواب نہیں دے گا کہ اس کو جواب کا علم نہیں ہو گا ۔ یا اس لیے جواب نہیں دے گا کہ وہ انکار پر اڑ جائے گا پہلی صورت تو ٹھیک نہیں کیونکہ سوال سے اس کو علم ہو چکا ہے کہ وہ خدا کا رسول ہے تو پھر یہ کس طر ح کہا جا سکتا ہے کہ جواب کا اس کو علم نہیں اور دوسری صورت بھی ٹھیک نہیں کیونکہ عذاب کے وقت اڑی کیا ؟ نیز احادیث میں صاف آیا ہے کہ کافر کہے گا ۔ ہا ہ ہا ہ لا ادری ‘‘ یعنی ہائے ہائے مجھے پتہ نہیں ۔ یہ بے علمی کا ظہار بتا رہا ہے کہ پہلے معنی جو تم میں رسو ل بنا کر بھیجا گیا ہے )ٹھیک نہیں ۔
اگر کہا جائے کہ کشوف مراد لینا ٹھیک نہیں کیونکہ صحابہ جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے ان کے سامنے رسو ل اللہ ﷺ کا وجود کرنا تو مفید ہو سکتا ہے ۔ کیونکہ وہ پہچان سکتے ہیں ۔ جنہوں نے نہیں دیکھا ان کے سامنے آپ کا وجود کرنا کیا فائدہ ؟ نیز جن کافروں نے آپ کو دیکھا ہوا ہے ۔ جیسے ابو جہل وغیرہ تو وہ پہچان کر کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ خدا کا رسول ہے ۔ ان کے ’’ہاہ ہاہ لا ادری ‘‘ کہنے کا کیا معنی ٰ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جنہوں نے رسو ل اللہ ﷺ کو نہیں دیکھا ۔ وہ بھی رسو ل اللہ ﷺ کے وجود باوجود کو دیکھ کر پہچان لیں گے کہ یہ خدا کے رسول ہیں تو وہ جواب میں کہے گا کہ میں نے اللہ کی کتاب پڑھی پس میں ان پر ایمان لایا اور ان کی تصدیق کی یعنی اللہ کی کتاب میں جو ان کے اوصاف ہیں یا ان کا حلیہ بتایا گیا ہے ۔ اسے دیکھ مومن فراست ایمانی سے اندازہ کر بے گا کہ یہ وہی رسو ل اللہ ﷺ ہیں جن پر میں ایمان لایا ہوں -----رہے کفار جنہوں نے رسو ل اللہ ﷺ کو دیکھا ہے ۔ سو وہ صرف رسو ل اللہ ﷺ کی شکل مبارک سے واقف ہیں آپ ﷺ یک رسالت سے واقف نہیں کیونکہ ان کو ایمان نہیں ۔ اگر بالفرض وہ دنیا میں رسالت سے واقف بھی ہوں تو ایمان نہ لانے کی وجہ سے ناواقفوں میں اٹھتے ہیں ۔ پس ترجیح اسی کو ہے کہ رسو اللہ ﷺ کشوف ہو کر سامنے ہوتے ہیں ‘‘
قسط اول میں قارئین کرام نے پڑھ لیا ہے کہ قبر میں میت سے لظف ہذا الرجل سے جو سوال ہوتا ہے ہذا اسم اشارہ کا مشار الیہ ذات ہے ۔ محدث روپڑی نے اس معنیٰ کو ترجیح دی ہے اس کی جو وجہ انہوں نے بیان کی ہے وہ ہے کہ لفظ ’’ہذا ‘‘ کی وضع محسوس مبصر کے لیے ہے یہ ہذا کا حقیقی معنیٰ ہے قبر میں ہذا کا حقیقی معنی مراد لینے میں کوئی مانع نہیں ہے ۔
بعض علماء نے کہا ہے کہ جب ’’ہذا ‘‘ کے ساتھ ’’الذی‘‘آئے تو کلام کا رخ موصول معہ صلہ کی طرف ہوتا ہے ۔ محدث روپڑی علیہ نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ ہر جگہ یہ ضروری نہیں ہےکہ کلام کا رخ موصول معہ صلہ کی طرف ہو جیسا کہ قرآن مجید کی اس آیت سے ظاہر ہے ﴿وَإِذا رَءاكَ الَّذينَ كَفَروا إِن يَتَّخِذونَكَ إِلّا هُزُوًا أَهـٰذَا الَّذى يَذكُرُ ءالِهَتَكُم... ﴿٣٦﴾...الأنبياء
یعنی اے محمد ﷺ! جب کفار تجھے دیکھتے ہیں تو مذاق سے کہتے ہیں ۔ کیا یہ وہی شخص ہے جو تمہارے معبودوں کو (برائی) سے ذکر کرتا ہے ۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ رسول ﷺ سامنے ہیں پھر ’’الذی ‘‘بھی ہے ۔ اس سے معلوم ہواکہ موصول مع صلہ میں ضروری نہیں کہ کلام کارخ موصول سے صلہ کی طرف ہو ۔
محدث روپڑی کے اس جواب پر مولانا عبدالجلیل سامرودی کا تعاقب !
مولانا عبدالجلیل عامردوی نے محدث روپڑی کے اس جواب پر تعاقب کیا ہے وہ اخبار محمد ی اور اخبار اہل سنت و الجماعت امر تسر میں شائع ہوا انہوں نے تعاقب کرتے ہوئے لکھا ہے ۔
’’تعجب ہے اڈیٹر تنظیم روپڑی پر ایک امر موہوم کو ترجیح دے رہے ہیں اگر کتب احادیث کو کھول کر مطالعہ فرماتے تو اس ترجیح کو مرجوح قرار دیتے دیکھیے صحیح البخاری
باب المیت یسمع خفق النعال میں بروایت انس ٓ ملاحظہ ہو :
’’فیقولان له ما کنت تقول فیه ذا الرجل محمد ﷺ ‘‘
باب عذاب القبر میں ہے فی ہذا الرجل محمدﷺ اسی حضرت انس کی روایت میں ابن مریہ نے یہ لفظ بیان کئے ہیں ’’فی ہذا الرجل الذی کان بین ایدیکم یقال لہ محمد کما فی شرح الصدور ص 48 الدر المنشور صر81
مسند احمد میں حضرت اسماء کی حدیث میں حسب ذیل لفظ ہیں :
’’ماتقول فیه ذا الرجل قال ای رجل قال محمد ‘‘
نیز شرح الصدور ص 57 کتا ب الروح صفحہ 74 الدر المنشور صحفہ 95 جل 4 مستدرک حاکم صفحہ 380 جلد 1 میں یہ لفظ ہیں:
’’ارایت هذا الرجل الذی کان فیکم ما تقول فیه و ما ذ اتشهد به علیه فیقول امحمد فیقال لا نعم ‘‘
مستدرک حاکم کے یہ لفظ ہیں : فیقال ای رجل فیقولون الرجل الذی کان فیکم قال فلا يهتدی فیقول لون محمد (الحدیث )
یہ رواستیں ببانگ دہل بتارہی ہیں کہ نبی ﷺ کا مکثوف ہر کر سامنے ہونا کسی اجنبی کا مقولہ ہے ، محدثین کا ہرگز اعتقاد نہیں ۔ آپ ﷺ کابذات خود سامنے ہونا لغو محض ہے اگر کسی نص نبوی سے بالتنصیص ثابت کہ نبی کریم ﷺ بدات خود مکثوف ہو کر سامنے ہوئے تو مع حوالہ کتاب ظاہر فرمائیں و الا اس فیال شینع سے رجوع فرمائیں (اخبار محمدی 15 دسمبر 1935ء اخبار اہل سنت و الجماعت 16 دسمبر 1935ء جواب محدث روپڑی بظاہر یہی ہے کہ کشف ہوتا ۔ کیونکہ لفظ ہذا اس کو چاہتا ہے اس سوال میں جو لفظ ہذا کے ساتھ ہوتا ہے کئی طرح کے الفاظ آتے ہیں ۔ بعض سوال میں ’’محمد ‘‘ کالفظ آیا ہے چنانچہ مولوی عبدالجلیل کی پیش کردہ عبارت سے پہلی اور تیسری عبارت میں ہے ۔ بعض نہیں ہے چنانچہ دوسری ،چوتھی اور پانچویں میں نہیں ۔ چوتھی اور چھٹی میں تو ظاہر ہے کیونکہ اگر سوال میں لفظ محمد ﷺ ہوتا تو میت ای رجل ‘‘ یا محمد کے ساتھ سوال کیوں کرتی اور دوسری عبارت میں فی ہذا الرجل محمد ‘‘ ہے ۔منکر نکیر کے سوال میں نہیں ۔ بلکہ منکر کے سوال میں ہذا الرجل کا مشارالیہ بتایا گیا ہے خواہ بتانے والے رسول اللہ ﷺ ہوں یا کوئی اور راوی ہو ۔
تفسیر ابن کثیر میں مومن کے سوال میں لکھا ہے ماتقول فی ہذا الرجل یعنی النبی ﷺ قال من قال محمد یعنی نبی کریم ﷺ کے حق میں تو کیا کہتا ہے ‘‘ مردہ کہتا ہے کون فرشتہ کہتا ہے محمدﷺ۔فاجر یا کافر کہتا ہے کے سوال میں لکھا ہے ما تقول فی ہذا الرجل قال ای رجل قال محمد ﷺ یعنی اس شخص کے حق میں تو کیا کہتا ہے مردہ کہتا ہے کونسا شخص فرشتہ کہتا ہے محمد ﷺ (جلد 5ص 296)
ان مختلف الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ کا چہرہ مبارک مکثوف ہو کر سامنے آتا ہے ۔ تو بعض میتیں صرف چہرہ کو دیکھ کر معلوم کر لیتی ہیں کہ یہ محمد ﷺ ہیں اور بعض میتوں کو اس میں تردد رہتا ہے تو وہ محمد یا ای رجل کہہ کر سوال کرتی ہیں ۔ یعنی کیا یہ محمد ہے یا یہ کونسا آدمی ہے ؟فرشتے اس کے جواب میں ’’نعم ‘‘ کہتے ہیں یعنی ہاں یہ محمد ﷺ ہیں ‘‘
بہر صورت یہ تمام الفاظ ہمارے موید ہیں کیونکہ یہ پورا جملہ نہیں ۔ اس کے آگے پیچھے کچھ عبارت مقدر ہے زیادہ مناسب یہ ہے کہ ہذا مقدر ہو کیونکہ اس سے پہلے منکر نکیر کے سوال میں ہذا ہے ۔ اس بنا پر پہلے سوال کی عبارت اصل یوں ہوئی اہذا محمد ہذا یعنی کیا یہ محمد یا کیا محمد ہے یہ اور دوسرے سوال کی اصل عبارت یوں ہوئی ۔ ای رجل ہذا ‘‘ یعنی یہ رجل کونسا ہے ؟ گویا ان سوالوں سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ کوئی میت کے سامنے ہے ۔ اس کی طرف وہ شارہ کرکے سوال کرتی ہے ۔
ناظرین !خیال فرمائیں کہ جن دالائل کو مولوی عبدالجلیل ہمارے مقابلہ میں پیش کر رہے ہیں ۔ وہ دراصل ہمیں مفید ہیں مگر مولوی عبدالجلیل غلط فہمی سے اسے اہلحدیث کا مسلک ہی نہیں سمجھتے خدا ایسی غلط فہمی سے بچائے اور عبارات میں غورو تدبر کی توفیق بخشے ۔ آمین ثم آمین !
مولوی عبدالجلیل نے اس پر دوبارہ تعاقب کیا ہے جو پرچہ محمد یکم مارچ 1936 میں شائع ہوا ہے لیکن اس میں کوئی نئی بات نہیں لکھی تو اس میں بھی ہماری تائید ہوتی ہے ۔ انہوں نے لکھا ہے ۔
آپ (محدث روپڑی) کی کل سعی اور آپ کا راس المال صرف لفظ ’’ہذا ‘‘ ہے آپ کے الفاظ اور یہ کہنا کہ کشوف ہونے پر کوئی دلیل نہیں ۔کیونکہ دلیل یہی ہذا کا لفظ ہے ۔ یہ عبارت ببانگ دہل پکاری رہی ہے کہ کل پونجی آپ کی اس لفظ ہذا میں مضمر ہے فاضل روپڑی کونسائی وغیرہ کے ایک مقلد کے حاشیہ نے دھوکا دیا ہے ۔ عاجز نے صاف لکھا تھا کہ نص نبوی حاضر کریں ۔کیا خوب نص نبوی حاضر کی ۔ اگر عبدالمصطفیٰ بریلوی والی جماعت کو خبر لگ جائے گی تو حافظ صاحب کو پالکیوں میں لیئے پھریں گے ۔ جل جلالہ حافظ صاحب یہ تو فرما دیجیئے رسول کریم ﷺ بعد وفات بھی مکثوف حاضر کیے جاتے ہیں ۔ آن واحد میں بے حساب اموات سے سوال ہوتا ہے تو آپ ﷺ کی ذات کو تو اسی حاضری سے فرصت نہ ملتی ہو گی ۔
حافظ صاحب ! اب بخاری شریف وغیرہ میں حدیث ہرقل کو بھی کھول کر ملاحظہ فرمائیں ہر قل نے اپنے ترجمان سے کہا ’’انی هذا عن هذا الرجل ‘‘ آپ تو ہرقل کے پاس بھی مکثوف ہو کر حاضر کئے گئے ہوں گے ۔کیونکہ ’’هذا الرجل ‘‘ حاضر کے لیے ہوتا ہے ابن مردو یہ والی حدیث جس میں موجود ہے ’’ماكنت تقول في هذ الرجل الذي كان بين اظهر كم الذي يقال له محمد ‘‘ بلکہ حاکم ص 380 جلد 1 کی روایت فيقال له ما تقول في هذا الرجل الذي كان فيكم و ما ذاتشهد به عليه فيقول اي رجل فيقولون الرجل الذي كان فيكم قال لا يعتدي له قال فيقولون محمد‘‘
حضرات لفظ حدیث ’’ہذا الرجل ‘‘ یہ شخص کےبعد ہی کہا جاتاہے ‘‘ وہ جو تم میں تھے ‘‘وہ جنہیں محمد ﷺ کہا جاتا تھا ‘‘ نیز دوسری روایت مں وہ جو تم میں تھے تیری گواہی ان کی بابت کیا ہے ‘‘ پھر اس کا سوال کہ کو شخص ؟ ملائکہ کا جواب وہ جو تم میں تھے ‘‘ اتنا کہتے ہوئے بھی نہ سمجھا ۔ تو ملائکہ کہیں گے محمد وہ محمد ہیں ﷺ کیا یہ عدم حضور ﷺ نہیں ؟ اس قدر واضح ہوتے ہوئے حافظ صاحب روپڑی نے وہی ایک ہذا کی ٹانگ اڑا رکھی ہے ۔ بات یہ ہے کہ حلق سے بات کیسے اتر ے ؟ آپ لوگوں کے اصول مخترعہ کے پابند روہ کر کلام نبی کا اس پر موازنہ کرنا چاہتے ہیں ۔ مکثوف ہو کر آپ ﷺ کا حاضر کیا جانا کسی حنفی کا مسلک تھا ۔ مثل عنی وغیرہ فاضل قسطلانی نے لکھا ہے : ’’قیل یکشف للمیت ير ي النبي ﷺ و حي بشريٰ عظمة للمؤمن ان صح ذالك ولا نطم حديثا مرويا في ذالك و القائل به ان استند لمجرد ان الا شارة لاتكون لا للحاضر لكن يحمل ان تكون الاشارة لما في الذهن فيكون مجازا –کہاگیا ہے کہ میت کے لیے پر دہ اٹھ جاتا ہے یہاں تک کہ نبی ﷺ کو دیکھ لیتی ہے ،یہ اگر صحیح ہو تو مومن کے لیے بڑی خوشخبری ہے اور ہمیں اس بارہ میں کوئی صحیح حدیث معلوم نہیں ۔ اور جو اس کا قائل ہے ۔ اس کی دلیل صرف یہی ہے کہ اشارہ حاضر کے لیے ہوتا ہے ۔ لیکن احتمال ہے کہ اشارہ حاضر فی الذہن کی طرف ہو پس یہ مجاز ہو گا ۔
خاتم المحدثین حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اپنے فتاوٰی کے ص 14 سوال 8 کے جواب میں فرماتے ہیں ۔ سوال کی سرخی یہ ہے :
’’وهل يكشف له في الحال حتي يرالنبي ﷺ ويقول له ما تقول في هذا لرجل فاجاب لقوله بعد ان اعادا لسوال فقال اما الثامن من وهو هل يكشف له حتي ير النبي ﷺ فالجواب ان هذا لم يرد في خبر صحيح و نما ادعاه من لا يحتبح به بغير مستند الا من جهة قوله في هذا الرجل وان لا شاره بلفظة لا تكون الا للحاضر و هذا الا معني له لانه حاضر في الذهن
’’بہر حال یہ سوال کہ کسی صحیح حدیث مں یہ نہیں آیا ، صرف اس شخص نے بلا دلیل اس کا دعویٰ کیا ہے ۔ جس کی بابت حجت نہیں صرف یہ دلیل پیش کی ہے کہ ’’ہذا ‘‘ کا اشارہ حاضر کے لیے ہوتا ہے حالانکہ حاضر کے لیے ہونے سے کشف لازم نہیں آتا کیونکہ رسو اللہ ﷺ ذہن میں حاضرہیں ۔
میں کہتا ہوں یہ چوٹ ہے ابن حجر کی عنی پر شرح الصدور کے ص 60 میں بھی یہ سوال مع الجواب مسطور ہے ۔ حافظ کا فتویٰ 134ھ میں طبع ہوا ہے ۔ خلاصہ ترجمہ یہ ہے کہ حافظ ابن حجر سے سوال ہواکہ آپ ﷺ مشکوف کر دئیے جاتے ہیں ۔ کہ جس سے میت آپ کو دیکھ لیتی ہے اور پھر کہا جاتا ہے ’’ماتقول في هذا الرجل ‘‘ حافظ ابن حجر نے جواب دیا کہ کسی ایک بھی صحیح حدیث میں نہیں آیا ۔ یہ ایک مہمل لا ییجتبح بہ ‘‘ نے یہ دعویٰ کیا ہے بلا دلیل صرف حضورﷺ کے فرمان کو اپنا مستنبط بنا لیا ہے اور بنا ہے کہ ہذا ‘‘ کا اشارہ صرف حاضر کے لیے ہی ہوتا ہے ‘‘حافظ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ کوئی بات نہیں ۔ کیونکہ پ حاضر فی الذین ہیں ۔
حضرت حافظ صاحب یا تو کوئی صحیح حدیث پیش کریں یا ’’ہذا‘‘ کا پیچھا چھوڑ دین ۔ ابن حجر قسطلانی سیوطی بڑے زور وں سے کہتے ہیں کہ اس میں کوئی حدیث صحیح نہیں ۔ صرف یہی ہذا ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہے ۔
حضرات اہل حدیث بیدار ہوں کہ جو مولانا روپڑی نے طریقہ اختیار کیا ہے وہ اہلحدیتوں کا ہرگز نہیں مولانا روپڑی نے ایک شکایت درح فرمائی ہے وہ یہ ہےکہ آپ براہ راست ہمیں مضمون نہیں بھیجتے آپ کی شکایت بالکل بے جا ہے تنظیم کے ایڈیٹرگو لائق ہیں ۔۔ مگر مدرک رکوع کے مضامین آپ نے حاجز نے مضمون دنیا موقوف کر دیا تنظیم اخبار ہے ۔ اخبار محمد ایک دینی اخبار اور مبلغ حق ہے ۔ میں نے اپنا مضمون صرف اخبار محمد کو دیا تھا ۔ اخبار اہلسنت نے اس سے نقل کیا ہے بندہ ممنون ہے ۔ (ابو عبدالکبیر محمد عبدالجلیل سامرودی)
محدث روپڑی کا جواب :
مولوی عبدالجلیل کا مقصد یہ ہے کہ ان کے مضمون پر کوئی تنقیدی نظرنہ ڈالے بلکہ جو ں کا توں شائع کر دیا جائے حالانکہ تنقیدی نظر فریقین کے لیے مفید ہے کیونکہ تبادل خیالات سے حقیقت آشکارا ہو جاتی ہے ۔ اگر بالفرض فریقین کی سمجھ میں نہ آئے یا خدانخواستہ کو ئی اپنی ہٹ نہ چھوڑے تو کم از کم ناظرین کو غورو تدبر کا موقع مل سکتا ہے آپ نے حدیث کے الفاظ کی بے ادبی کرتے ہو ئے گستاخانہ لہجہ میں کہا ہے کہ :حافظ صاحب روپڑی نے وہی ایک ’’ہذا ‘‘ کی ٹانگ اڑا رکھی ہے ‘‘
ناظرین خیال فرمائیں کہ رسول اللہ ﷺ کے الفاظ کو کس برے لہجہ میں بیان کیا گیا ہے معاذ اللہ ! ہم تو خیر برے تھے رسو اللہ ﷺ کا ادب تو ملحوظ رکھیے ۔ پھر آب کے حسب زعم اڈیٹر تنظیم نے ہذا کی ٹانگ اڑا رکھی ہے ‘‘ تو آپ نے اس کے مقابلہ میں پیش کیاہے صرف ابن مروویہ یا حاکم کی روایت حالانکہ ان میں بھی یہی ’’ہذا ‘‘ کا لظف ہے باقی الفاظ مثلا ‘‘ الذي كان بين اظهر كم الذي يقال له محمدوہ جو تم میں تھے اور جنہیں محمد ﷺ کہا جاتا تھا ‘‘وغیرہ یہ روائتیں کسی طرح ہمارے خلاف نہیں ۔ چنانچہ آپ کے پہلے تعاقب کے جواب میں تفصیل ہو چکی ہے۔ لیکن دوسرے تعاقب میں آپ کا ان کو دہرانا ۔اس سے معلوم ہوتا ہےکہ آپ کو ضمیر غائب سے دھوکا لگا ہے ۔ آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ضمیر غائب اس کی طرف لوٹ رہی ہے جو کلام کے وقت مخاطب کے سامنے نہ ہو حالانکہ یہ ڈبل غلطی ہے اور یہی غلطی ایڈیٹر اہل سنت والجماعت کو لگی ہے چنانچہ انہوں نے اپنے پرچہ 14 جنوری و یکم فروری 1936ء میں ہمیں الفاظ حدیث پر توجہ دلاتے ہوئے ضمیر غائب ہی سے رسو ل اللہ ﷺ کا عدم حضور ثابت کیا ہے ۔خیر اس غلطی کی تفصیل سنئے ۔
1)ضمیر کے لوٹانے میں کبھی ل فظ کی رعایت ہوتی ہے کبھی معنی کی ۔ قرآن مجید میں ہے ’’ومن الناس من يقول آمنا بالله و باليوم الاخر وما هم بمؤمنين ‘‘ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور روز آخر ت پر ایمان لائے اور درحقیقت وہ ایمان والے نہیں اس آیت میں من کا لفظ مفرد ہے اور معنیٰ اس کا جمع کا ہے لفظ کی رعایت کریں تو اس کی طرف مفرد کی ضمیر لوٹے گی ۔ اگر معنی کی رعایت کریں ۔ توجمع کی لوٹے گی ۔چنانچہ اس آیت میں ’’یقول ‘‘ کی ضمیر مفرد کی طرف ہے عربی میں چونکہ نفس کافظ مونث ہے اس لیے اس کی ضمیر مؤنث کی لوٹتی ہے خواہ مراد اس مرد ہو یا عورت اسی طرح قرآن مجید میں ہے ۔:وَإِذا رَءاكَ الَّذينَ كَفَروا إِن يَتَّخِذونَكَ إِلّا هُزُوًا أَهـٰذَا الَّذى يَذكُرُ ءالِهَتَكُم ... ﴿٣٦﴾...الأنبياء
’’اے محمد ﷺ ! کفار جب تجھے دیکھتے ہیں تو مذاق سے کہتے ہیں کیا وہ ہی شخص ہے جو تمہارے معبودوں کو برائی سے ذکر کرتا ہے ؟ اس آیت میں رسول اللہ ﷺ سامنے ہیں ۔مگر ضمیر غائب لوٹ رہی ہے گویا الذی ‘‘ کےلفظ کی رعایت کی گئی ہے بلکہ ایسے مقام میں ’’الذی ‘‘ کے لفظ کی رعایت زیادہ فصیح ہے ۔ چنانچہ قواعد عربیہ میں اس کی تصریح کی ہے حالانکہ متکلم سامنے ہوتا ہے مگر الذی کے لفظ کی رعایت مقدم کی گئی ہے ۔مولوی عبدالجلیل اور ایڈیٹر اہل سنت دونوں بیچار ے ضمیر غائب کی الجھن میں پھنس کر راجح بات سے غائب ہو گئے ۔ انا اللہ !
2)مولوی عبدالجلیل نے بخاری وغیرہ کے حوالے سے ہر قل کی حدیث کا ٹکٹرا نقل کیا ہے ۔’’آنی سائل هذا عن هذا الرجل ‘‘ اس عبارت میں پہلے ’’ہذا ‘‘ سے ابو سفیان کی طرف اشارہ ہے اور دوسرے سے رسول اللہ ﷺ کی طرف یعنی ہرقل روم کے بادشاہ نے ابو سفیان کے ساتھیوں سے اپنے ترجمان کی معرفت کہا کہ میں ابوسفیان سے محمد ﷺ کا حال پوچھنا چاہتا ہوں ۔ مولوی عبدالجلیل کا اس سے یہ مقصد ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ ہر قل کی مجلس میں نہ تھے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ’’ہذا ‘‘ کے استعمال میں سامنے ہونا شرط نہیں ۔ کہ اخروی معاملات کو دنوی معاملات پر قیاس کیا ہے حالانکہ آخرت کا معاملہ عموما ً خرق عادت ہے ۔ مثلاً قبر کا فراخ ہونا یا تنگ ہونا یا قبر کا میت سے باتیں کرنا ،جنت اور دوزخ کی طرف سے کھڑکی کا کھلنا یا سانپ بچھو کا اس پر مسلط ہونا وغیر وغیرہ یہ تمام سلسلہ خرق عادت کی قسم سے ہے ۔ اس بنا پر رسو اللہ ﷺ کا مشکوف ہونا کوئی بعید امر نہیں اور ظاہر ہے کہ لفظ کا جب حقیقی معنی ٰ بن سکے تومجازی معنی جائز نہیں ۔ اس بنا پر ضروریہے کہ رسو ل اللہ ﷺ کو قبر میں مکشوف مانا جائے تاکہ حقیقی معنی ٰ مراد ہو سکے بہ خلاف ہر قل کی حدیث کے کیونکہ یہ دنیوی معاملہ ہے اور دنیوی معاملہ میں خرق عادت کی صورت میں حقیقی معنیٰ متروک ہو سکتا ہے جیسے عرب کہتے ہیں ’’رأیت اسداً یرمی ‘‘ میں نے شیر کو دیکھا کہ وہ تیرا ندازی کرتا ہے ‘‘ ۔ چونکہ شیر کا تیر اندازی کرنا خرق عادت ہے اس لیے شیر کا حقیقی معنیٰ چھوڑ کر اس سے مراد بہادر آدمی لیتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح ہرقل کی حدیث میں ہذا کے لفظ کو سمجھ لینا چاہیے کیونکہ ہرقل کی حدیث میں بھی یہی صورت ہے ،رسول اللہ ﷺ نےہرقل کو خط لکھا جس میں اس کو اسلام کی دعوت دی ۔ اس خط کو پڑھ کر دریافت کیا کہ محمد ﷺ کے رشتہ داروں میں یہاں کوئی موجود ہے پتہ لگا کہ ابو سفیان اور اس کے ساتھی مودود ہیں ۔ اس نے ان کو بلا کر ابوسفیان کو اپنے سامنے بٹھایا اور ساتھیوں کو ابو سفیان کے پیچھے بٹھا کر مذکورہ بالا گفتگو شروع کر کے ابو سفیان سے رسول اللہ ﷺ سامنے موجود نہ تھے اور مشکوف ماننا خرق عادت ہے ۔ اس لیے مجازی معنیٰ مراد ہو گا ۔ غرض آخرت کے معاملہ میں خرق عادت ایسا ہی جیسا دنوی معاملہ میں موافق عادت اور موافق عادت ہونےکی صورت میں حقیقی معنیٰ مجازی پر مقدم ہے ۔ جب حقیق بن سکے تو مجازی جائز نہیں ۔ پس قبر میں سوال کی حدیث میں مشکوف ماننا چاہیے تاکہ ’’ہذا ‘‘ کا حقیقی معنیٰ قائم رہے ۔ ہاں اگر مجازی معنیٰ پر کوئی دلیل ہوتی ۔ جو حقیقی معنیٰ مراد لینے سے مانع ہوتی تو اس صورت میں حقیقی معنیٰ متروک ہو سکتا ۔ جسے آیت کریمہ ’امن ہذا الذی ہو جند لکم ‘‘ میں اوپر گزر چکا ہے اب کو ئی وجہ نہیں ۔
3)مولو ی الجلیل نے لکھا ہے کہ ہرقل نے ترجمان سے کہا انی سائل ہذا عن ہذا ‘‘ حالانکہ ہرقل نے اپنے ترجمان کس وساطت سے ابو سفیان کے ساتھیوں سے یہ کہا ۔
اصو ل مخترعہ سے مولوی عبدالجلیل کی مراد حقیقت مجاز کا مسئلہ ہے ۔ حالانکہ قسطلانی نے آپ کی نقل کردہ عبارت میں تصریح کی ہے حاضر فی الدین کی طرف اشارہ مجازی ہے اور کتب عربیہ میں ’’ہذا ‘‘ کو اشارہ حسیہ کی قسم سے شمار کرنا اور ہذا کو قریب کے لیے اور ذاک اور ذالک کو بعید کے لیے یا ذاک کو متوسط کے لیے اور ذالک کو بعید کے لیے کہنا اور جب ہذا کا استعمال معقول (حاضرفی الذہن )میں ہو تو اس وقت یہ کہنا کہ اس کو بمنزلہ محسوس کے قرار دے کر اس میں ہذا استعمال کیا گیا ہے ۔ یہ سب کچھ اسی بنا پر ہے کہ حاضر فی الذہن ہذا کا حقیقی معنی نہیں اور حاشیہ خضری شرح ابن عقیل لا لالفیہ کے ص 51 میں : اسم الاشارۃ و ہو ما وضع المشار الیہ ای حسا بالاصبح و نحوہ فلا بد من کونہ حاضر اً محسوسا بالبصرفاستعمالہ فی المعقول والمحسوس بغیرہ مجاز یعنی‘‘ اسم اشارہ وہ اسم ہے جو مشار الیہ کے لیے موضوع ہو جس کی طرف انگشت وغیرہ سے حسی اشارہ ہو پس ضروری ہے کہ وہ حاضر ہو ارو بصر کے ساتھ وہ محسوس ہو پس معقول میں یا محسوس میں اس کا استعمال جس کی طرف انگشت وغیرہ سے اشارہ نہ ہوسکے مجاز ہے تاج العروس شرح قاموس جلد 10 ص 432 میں امام ابو الہیثم سے نقل کیا ہے ؟
’’ذا سم لک مشار الیہ معاین یراہ المتکلم والمخاطب ‘‘ یعنی ذا ‘‘ ہر مشار الیہ کا اسم ہے جس کا مشاہدہ ہو ۔ متکلم مخاطب اس کو دیکھتے ہوں غرض اس قسم کی تصریحات ائم ہ عربیت وغیرہ کی بہت ہیں جن کا اصل یہی ہےکہ ’’حاضر فی الذہن ‘‘ ہذا کا حقیقی معنیٰ نہیں ۔ بلکہ مجازی ہے پس حقیقت مجاز کے مسئلہ کو اصول مخترعہ کہہ کر ہذا کے حقیقی مجاز ی معنیٰ میں فرق نہ کرنا یہ ڈبل غلطی ہے ۔ اگر الفاظ کے معانی میں حقیقت مجاز کا فرق نہ کیا جائے تو سب معالمہ ہی درہم برہم ہو جائے گا ۔ مثلا ً آیت کریمہ ’’نعبد الہک والہ آبائک ابراہیم واسماعیل واسحاق ‘‘میں چچا کو بھی باپ کہا ہے اس بنا پر کوئی کہے کہ آیت وراثت ’’ ولابویہ لکل واحد منہا السدس ‘‘ میں چچا بھی مراد ہے اگر باپ وغیرہ نہ ہو ں تو چچا اس کے قائم مقام ہو گا تو کیا یہ صحیح ہے ؟ ہرگز نہیں کیونکہ چچا حقیقتاً باپ نہیں بلکہ اس کو مجازاً باپ کہا ہے ۔ اس قسم کی بہتیرہی امثلہ ہیں جو مسئلہ حقیقت مجازسے تعلق رکھتی ہیں ۔ اسکو اصول مخترعہ کہنا غلطی ہے ۔
5)قسطلانی کی عبارت اس محل میں پیش کرنا غلطی ہے ۔ کیونکہ قسطلانی نے حاضر فی الذہنت کا احتمال ذکر کر کے اس کومجاز کہہ دیا ہے ۔ گویا اس سے اس ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ یکونکہ حقیقت کے مقابلہ میں مجاز کا استعمال کمرور احتمال ہے جس کا استعمال بلا دلیل درست نہیں پس یہ عبارت در حقیقت ہماری موید ہے ۔مگر مولوی عبدالجلیل غلطی سے اپنی موید سمجھ رہے ہیں اور اس سے معلوم ہواکہ عینی کا خیال اس بارہ میں راجح ہے ۔ اگرچہ حافظ ابن حجر کی تحقیق عموماً بڑی ہوتی ہے مگر بحکم لکل جواد کبوۃ اس مسئلہ میں عنی کی رائے کو ترجیح ہے ۔ اور حافظ ابن حجر کا یہ کہنا کہ آپﷺ حاضر الذہن ہیں اس کی بابت عرض ہے کہ کیا یہ معنیٰ حقیقی ہے یا مجازی اوپر معلوم ہو چکا ہےکہ مجازی ہے ۔پس عنی کا خیال درست ہوا بس ان پر چوٹ کے کچھ معنی نہیں (جاری ہے )