مسئلہ ’’عول‘‘ کے بارہ میں اہل تشیّع اور منکرین ِ حدیث کا نظریہ اور اس پر تبصرہ

'' کہتے ہیں کہ انسان کی سعادت و شقاوت کا دارومدار انجام پر ہوتا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی اپنی ابتدائی علمی زندگی میں ذہین ہونے کی وجہ سے اچھی شہرت کے حامل رہے ہیں۔اسی بناء پر ''تدبر قرآن'' میں انکار حدیث کی نیو کو عام علماء نے نظر انداز بھی کیا۔ لیکن اپنی اس تفسیر کی تکمیل کے بعد وہ جس طرح نہ صرف سنت و حدیث کی جڑوں پر کلہاڑے چلا رہے ہیں، بلکہ اس کے لیے چن چن کر چند شاگردوں کو تربیت بھی دے رہے ہیں، اس سے ان کی اسلاف دشمنی کھل کر سامنے آرہی ہے۔ ان کے ایسے ہی شاگردوں میں سے ''افلاطونیت'' کے ایک دعویدار۔ جاوید احمد بھی ہیں۔ جنہیں کتاب اللہ کی اصل مراد سے ناواقفی تو خیر ورثے میں ملی ہی تھی، فلسفہ و نحو اور ادب و بلاغت سے بھی وہ بالکل کورے ہیں۔ اگرچہ اپنے پیش روؤں مرزا غلام احمد قادیانی اور غلام احمد پرویز کی طرح اپنی عام تقریروں میں ان کا انداز یہی ہوتا ہے کہ سارے مفسرین ، جن بعض قرآنی مفاہیم سے بے خبر رہے، ان کے اصل رموز و اسرار صرف انہی پر منکشف ہوتے ہیں۔ گویا آج تک بشمول صحابہ کرام ؓ جملہ فقہاء، نحو و بلاغت کے علاوہ قرآن کے ادبی اسلوب سے تو ناآشنا رہے او رقرآن مجید کے جو معنی انہوں نے بالاتفاق مراد لیے وہ سب کے سب غلط تھے، البتہ اصل مراد الٰہی کو پہنچنا صرف حلقہ فراہی کا حصہ ہے۔ جیسے ان کا لکھا او رحلقہ فراہی کا فرمایا ہوا الہام الٰہی کی طرح قطعی ہوتا ہے، بلکہ ان کی جرأت یہاں تک بڑھی ہوئی ہے کہ وہ اپنے تفسیری نکات کو قرآن سے قطعی الدلات شمار کرتے ہیں جبکہ سنت رسولؐ کو ،جو وحی الٰہی اور عصمت رسالت کی بناء پر کتاب اللہ کا جامع او رمکمل عملی نمونہ ہے، بھی ان کے ہاں اللہ تعالیٰ کی حتمی مراد نہیں ہے۔ کیونکہ اپنے نام نہاد ''تدبر قرآن'' کو فیصل قرار دے کر ، اس طعن سے کہ کتاب و سنت باہمی متعارض ہیں، یہ مشغلہ جاری رکھے ہوئے ہیں کہ ہم صرف وہی حدیث قبول کریں گے جو ہمارے قرآنی فہم کے خلاف نہ ہو۔ اسی طرح سنت کی عملی شروط و قیود کو بھی قرآن پر اضافہ بتا کر اس کا مذاق اڑاتے رہتے ہیں۔ اسی زعم میں میدان فقہ کے شاہسوار حضرت عمر بن خطابؓ پر، انہوں نے یہ حملہ کیا ہے کہ علم وراثت میں ''مسئلہ عول'' کا وجود آپؓ کے کتاب و سنت سے (معاذ اللہ) بےبہرہ ہونے کی دلیل ہے۔ بلکہ اس سلسلہ میں اپنے استاد کے علاوہ دیگر منکرین حدیث اور شیعہ سے بھی دو ہاتھ آگے بڑھ کر انہوں نے میراث کے دو اہم اصولوں ''عول'' اور ''ردّ'' کا انکار کردیا ہے اور شیعہ اور معتزلہ کی تفسیروں کے ساتھ لغت کی کتابوں کو سامنے رکھ کر نئے علم میراث کی ایجاد کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ جسے اپنی مزعومہ عربی دانی کے تحت ''دیوبندی عربی'' کے انداز میں، انہوں نے پمفلٹ کی صورت میں بھی شائع کیا ہے۔مسئلہ ''ردّ'' کا انکار تو ان کی ایجاد نو ہے او روہ ابھی اس قابل نہیں کہ انہیں علمی تبصروں سے متعارف کروایا جائے کہ آج کل شہرت حاصل کرنے کا آسان ذریعہ یہ بھی ہے اور شاید ان کی ایسی نادر ایجادات کا اصل محرک یہی جذبہ ہے۔ تاہم ''مسئلہ عول'' کے لیے ان کی اصل بنیاد منکرین حدیث اور بعض شیعہ ہیں او راسی لیے مولانا محمد صدیق صاحب نے زیر نظر مضمون میں اس کانوٹس لیا ہے۔اگرچہ علم وراثت کا سب سے پہلے اٹھ جانا رسول کریم ﷺ کی پیشگوئی ہے، لیکن ہمارے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ یہ سعادت اصلاحی صاحب یا ان کے شاگردان رشید کے حصہ میں آئے گی۔ '' (ادارہ)



دنیا بھر کے مذاہب میں سے اسلام ہی ایک ایسا دین ہے، جس نے تقسیم ترکہ کے وقت کسی مستحق رشتہ دار کو وراثت سے محروم نہیں ہونے دیا۔ جو میت کے ساتھ نسبی یا سببی تعلق رکھتا ہے، خواہ وہ مرد ہے یا عورت ، بچہ ہے یا بوڑھا، بہرحال حصہ رسدی سے اس کو نوازا گیا ہے۔

کون وارث ہے؟ ترکہ میں اس کے لیے حصہ کی مقدار کیا ہے؟ اس کا دارومدار انسان کی عقل و دانش پر نہیں بلکہ اس کا تعین اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ءَابَآؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ لَا تَدْرُ‌ونَ أَيُّهُمْ أَقْرَ‌بُ لَكُمْ نَفْعًا ۚ فَرِ‌يضَةً مِّنَ ٱللَّهِ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴿١١...سورۃ النساء
کہ ''باپ دادوں اور بیٹوں پوتوں کے بارہ میں تم نہیں جانتے کہ کون نفع کے اعتبار سے تمہارے زیادہ قریب ہے۔ یہ فریضہ اللہ کی طرف سے ہے۔بیشک اللہ تعالیٰ ہی علم والا حکمت والا ہے۔''

تقسیم ترکہ کے وقت تین صورتوں میں سے ایک صورت کا پیش آنا ناگزیر امر ہے:
(الف) ترکہ اور حصص میں تماثل کی نسبت ہے یعنی ترکہ حصص پر پورا پورا تقسیم ہوجاتا ہے۔
(ب) ایسابھی ہوتا ہے کہ ترکہ کے حصص و رثاء کے حصص سے کم ہیں یعنی ترکہ حصص پر پورا تقسیم نہیں ہوتا۔
(ج) ذی فرض ورثاء کو ان کے مقررہ حصے دینے کے بعد ترکہ کے کچھ حصص باقی بچ جاتے ہیں۔

پہلی صورت کی مثال :
مثلا وارث خاوند، ماں، باپ ہیں۔ ا س صورت میں خاوند کے لیے نصف تین حصہ دے کر باقی میں سے ماں کےلیے تہائی ایک حصہ، باپ کے لیے باقی دو حصے ہیں اس لیے کہ وہ عصبہ ہے۔ اس مسئلہ میں نصف اور تہائی حصص جمع ہوگئے اس کا اقل مخرج چھ ہے جس سے یہ حصص نکل سکتے ہیں۔ مخرج بھی چھ ہے او رحصص بھی چھ ہیں ۔ اس حالت میں ترکہ ورثاء کے حصص پر پورا پورا تقسیم ہوگیا ہے۔

دوسری صورت کی مثال:
ترکہ کے حصص ورثاء کے حصص سے کم ہیں اور ترکہ پورا پورا تقسیم نہیں ہوتا۔ مثلاً وارث خاوند اور دو بہنیں ہیں۔ اس صورت میں خاوند کے لیے نصف اور د وبہنوں کے لیے دو تہائی حصہ ہے۔ (سورة نساء آیت 11۔12۔176)

اس صورت میں خاوند کے لیے تین حصے او ردو بہنوں کے لیے چار حصے ، کل سات حصے ہوئے۔

مخرج (ترکہ) 6 ہے ترکہ کے حصص ورثاء کے حصص سے کم ہیں، اس صورت میں مسئلہ کا حل کیا ہے؟ اہل تشیع وغیرہم کا نظریہ یہ ہے کہ وہ ورثاء ، جو کسی وجہ سے اپنا حصہ نہ پاسکیں او ران کے لیے دوسرا متبادل حصہ موجود ہے، ایسے ورثاء کے حصص میں کمی نہیں کی جائے گی۔ مثلاً خاوند کے لیے نصف حصہ ہے، جبکہ بیوی کی اولاد نہ ہو۔ اگربیوی کی اولاد ہے تو خاوند کے لیے چوتھائی حصہ ہے۔اسی طرح بیوی کے لیے چوتھائی حصہ ہے، جبکہ خاوند کی اولاد نہ ہو۔ اگر اولاد ہو تو بیوی کے لیے آٹھواں حصہ ہے۔ ماں کے لیے تہائی حصہ ہے، جبکہ میت کی اولاد نہ ہو۔ اگر اولاد ہو تو ماں کے لیے چھٹا حصہ ہے۔ جن ورثاء کے لیے متبادل حصہ نہیں۔ ان کے حصصص میں کمی کرکے ترکہ کو ورثاء پر تقسیم کیا جائے گا۔ ان کے نزدیک اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ ترکہ میں سے خاوند کو پورے تین حصے ملیں گے او ردو بہنوں کو تین حصے ملیں گے جبکہ ان کے حصص دو تہائی یعنی چار ہیں۔ اہل انصاف کے نزدیک تقسیم ترکہ کی یہ صورت ظالمانہ ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے دو بہنوں کے لیے دو تہائی یعنی چار حصے کردیئے ہیں، تو چار کی بجائے ان کو تین حصص دینا اس میں ایک تو اللہ تعالیٰ کی صریحاً نافرمانی پائی جاتی ہے، دوسرے بعض ورثاء کی حق تلفی ہے کہ صرف ان کے حصص میں کمی کی گئی ہے۔

حل کی منصفانہ صورت :
مخرج (ترکہ )6 ہے۔ ورثاء کے حصص سات ہیں۔ ورثاء کے حصص میں کمی کرنا یہ اس لیے غیر مناسب ہے کہ ورثاء کے حصص کا تعین اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا ہے۔ اس میں تغیر تحریف احکام کے مترادف ہے۔ اس مسئلہ کے حل کی منصفانہ صورت یہ ہے کہ ترکہ کے چھ حصص کو ورثاء کے ساتھ حصص پر پھیلا دیا جائے۔ اس میں ورثاء کے حصص کا تحفظ بھی ہے اور کسی ایک وارث کے ساتھ بے انصافی بھی نہیں ہونے پاتی۔ سب کے ساتھ یکساں سلوک ہوتا ہے۔ علم وراثت کی اصطلاح میں اس کا نام ''عول'' ہے۔

اگر حضرت عمرؓ نے اس کو ایجاد کیاہے، جیسا کہ مستدرک حاکم کی روایت اس طرف اشارہ کرتی ہے۔تو ان کا یہ کارنامہ ان کے عدل و انصاف کی روشن دلیل ہے۔ ہرعدل پسند انسان داد تحسین دیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جزاہ اللہ عنا وعن سائر المسلمین عول کے مسئلہ پر علامہ جاوید احمد غامدی نے اہل تشیع او رمنکرین حدیث کے نظریہ کی حمایت کرتے ہوئے تنقید کی ہے، لکھا ہے:

''دوسرے فقہاء نے بھی یہی قاعدہ بیان کیا ہے، لیکن اس کا طرفہ پہلو یہ ہے کہ لڑکیوں کو اس قاعدہ سے مستثنیٰ کردیا گیا ہے۔ فقہاء کرام اس بات پر متفق ہیں کہ لڑکیوں کے حصے بہرصورت پورے ترکہ میں سے دیئے جائیں گے۔ ان حضرات کی یہی تو غلطی ہے۔جس کی وجہ سے عول کا وہ عجیب و عریب قاعدہ ایجاد کرنا پڑا ہے جس کو ماہرین فقہ و قانون کی بوالعجبیوں میں قیامت تک بلند ترین مقام حاصل رہے گا۔'' 1

مانا کہ جاوید احمد غامدی اپنے ماحول میں علامہ ہوں گے او رجملہ علوم و فنون پر ان کو دسترس حاصل ہوگی، مگر جہاں تک وراثت اسلامیہ کا تعلق ہے، اس کے رموز و اشارات تو دور کی بات ہے، اس کے حروف ابجد سے بھی آپ ناآشنا دکھائی دیتے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ :
''اولاد میں تقسیم وراثت کےلیے قرآن مجید نے﴿لِلذَّكَرِ‌ مِثْلُ حَظِّ ٱلْأُنثَيَيْنِ...﴿١١﴾...سورۃ النساء'' کا اصول بیان کیاہے، اس میں یہ تصریح نہیں کہ یہ تقسیم ترکہ کے کس حصہ میں ہوگی؟'' 2

حالانکہ مدرسہ کے مبتدی طالب علم بھی جانتے ہیں کہ ترکہ اصحاب الفروض میں تقسیم ہوتا ہے۔ باقی بچ جائے تو وہ عصبہ کے لیے۔ چونکہ بیٹی اپنے بھائی کے ساتھ عصبہ ہوتی ہے اس لیے ان میں تقسیم کا تعلق ترکہ کے بقایا حصہ سے ہے۔ ''اس میں تصریح نہیں'' یہ بات تو وہی کہہ سکتا ہے جو علم فرائض میں ادنیٰ مہارت بھی نہیں رکھتا۔

موصوف نے جودوسری بات کہی ہے، وہ پہلی سے بھی زیادہ تعجب خیز ہے۔ فرماتے ہیں:
''دو بیٹیوں کو باقی ترکہ کا دو تہائی حصہ دیا جانا چاہیے۔''

ان کی یہ رائے قران مجید کی ہدایت کے سراسر خلاف ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَ‌كَ...﴿١١﴾...سورۃ النساء
یعنی ''بیٹیوں کے لیے ترکہ کی دو تہائی ہے۔''

''ثلثا'' کی اضافت ''ماترک'' کی طرف ہے۔ یعنی میت نےجو ترکہ چھوڑا ہے۔ اس کا دو تہائی د وبیٹیوں کے لیے ہے۔

ایک اور جگہ ہے:
﴿فَلَهُمَا ٱلثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَ‌كَ...﴿١٧٦﴾...سورۃ النساء
یعنی ''دو بہنیں ہوں تو ان کے لیے دو تہائی اس ترکہ میں سے ہے جو اس (میت) نے چھوڑا ہے۔''

ان ہر دو آیات سے ظاہر و باہر ہے کہ ایک سے زیادہ بیٹیاں یا بہنیں ہوں تو ان کے لیے کل ترکہ کی دو تہائی ہے۔ اس کی تائید اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت سعدؓ جب شہید ہوئے تو انہوں نے ایک بیوی اور دو بیٹیاں اور ایک بھائی وارث چھوڑے بھائی نے تمام ترکہ پر قبضہ کرلیا۔ آپؐ کے پاس ذکر ہوا تو آپؐ نے سعدؓ کے بھائی کو بلا کر ہدایت فرمائی کہ دو بیٹیوں کو دو تہائی او رآٹھواں حصہ بیوی کو دیا جائے۔ باقی جو بچے وہ تیرے لیے ہے۔ اس واقعہ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ جن آیات میں بیٹیوں او ربہنوں کو دو تہائی حصہ دینے کا بیان ہے اس سے مراد کل ترکہ کی دو تہائی ہے، نہ کہ باقی ترکہ کی۔ اپنے خانہ ساز نظریہ کو تحفظ دینے کے لیے قرآن و حدیث کی غلط توجیہات او رباطل تاویلات کرنا اچھے لوگوں کا شیوہ نہیں ہے۔

جاوید صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ:
''بھائی ایک بھی ہو، والدین کا حصہ کم ہوجائے گا۔''

مسٹر موصوف کا یہ نظریہ بھی خود ساختہ ہے او رقرآن مجید کے مخالف ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَإِن كَانَ لَهُۥٓ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ ٱلسُّدُسُ...﴿١١﴾...سورۃ النساء
اگر ''میت کے بھائی ہوں تو اس کی ماں کے لیے چھٹا حصہ ہے۔''

''اخوة'' جمع کا لفظ ہے۔ اس سے مراد ایک سے زیادہ بھائی وغیرہ ہیں۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ کم از کم تین بھائی ہوں تو وہ ماں کے لیے نقصان کا باعث ہیں مگر جمہور ائمہ کے نزدیک کم از کم دو کی تعداد ہے۔ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے کسی ایک مفسر نے ''اخوة'' کےلفظ کا اطلاق ایک فرد پر نہیں کیا۔ سلف کی تفسیر کے خلاف تفسیر کرنا الحاد اور بے دینی کی علامت ہوتی ہے۔

موصوف کا خانہ ساز ایک اور نظریہ یہ ہے کہ:
''والدین کی موجودگی میں بھائی بہن وارث ہیں۔''

یہ نظریہ بھی اجماع امت کے خلاف ہے۔اُمت کا اجماع ہے کہ باپ کی موجودگی میں بھائی بہن وارث نہیں۔ نیز یہ وراثت کے اس مسلّمہ اصول کے بھی مخالف ہے کہ:
''جو شخص کسی وارث کے واسطہ سے میت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، اس واسطہ کی موجودگی میں یہ شخص وارث نہیں ہوگا۔''

مثلاً :
دادا باپ کی موجودگی میں وارث نہیں۔اس لیے کہ دادا کا تعلق میت سے باپ کے واسطہ سے ہے۔لہٰذا باپ کی موجودگی میں دادا وارث نہیں ہوگا۔

پوتا بیٹے کی موجودگی میں وارث نہیں،اسلیے کہ پوتا کا تعلق میت سے بیٹے کے واسطہ سے ہے۔ لہٰذا بیٹے کی موجودگی میں پوتا وارث نہیں۔

نانی ماں کی موجودگی میں وارث نہیں۔ اس لیے کہ نانی کا تعلق میت سے ماں کے واسطہ سے ہے۔لہٰذا ماں کی موجودگی میں نانی وارث نہیں۔ اسی طرح بھائی بہن، باپ کی موجودگی میں وارث نہیں۔ اس لیے کہ بھائی بہن کا تعلق میت سے باپ کے واسطہ سے ہے۔ لہٰذا باپ کی موجودگی میں بھائی بہن وارث نہیں، اُمت کا اجماع بھی اسی بات پر ہے کہ باپ کی موجودگی میں بھائی بہن وارث نہیں۔ چنانچہ یہ درست ہے کہ موصوف کے قلم میں روانگی ہے، مگر منزل سے بے خبر رہ کر سرپٹ دوڑنے والی بات ہے۔

تیسری صورت کی مثال:
یہ ہے کہ مخرج (ترکہ) کے حصص ورثاء کے حصص سے بڑھ جاتے ہیں مثلاً وارث خاوند، ماں، بیٹی ہیں۔ اس صورت میں خاوند ک لیے چوتھائی تین حصے، ماں کے لیے چھٹا دو حصے او ربیٹی کے لیے نصف چھ حصے ہیں۔ مخرج (ترکہ) کے بارہ حصص ہیں اور ورثاء کے حصص گیارہ ہیں۔ ورثاء کو ان کے حصص دینے کے بعد ترکہ کا ایک حصہ بچ جاتا ہے۔خاوند کو چھوڑ کر بچا ہوا ترکہ ماں اور بیٹی پر ان کے حصص کے تناسب سے ان پر لوٹا دیا جائے۔ علم وراثت کی اصطلاح میں اس عمل کا نام ''ردّ'' ہے، خاوند کو اس سے اس لیے مستثنیٰ کیا گیا ہے کہ خاوند یا بیوی کا تعلق میت سے نسبی نہیں ہوتا، بلکہ سببی ہوتا ہے۔ اس لیے ان کو''ردّ'' سے الگ رکھا جاتا ہے۔ ''ردّ'' کو شیعہ او رمنکرین حدیث مانتے ہیں۔ اس کے مقابل عول ہے۔ اس سے گریز '' افتوء منون ببعض الکتاب وتکفرون ببعض'' کے مصداق ہے۔


حوالہ جات
1. میزان ، جلد1 ص50
2. میزان حصہ اوّل ص 147