نومبر 1987ء

تقسیم وراثت کا ایک مسئلہ اور اس کا حل

سیف اللہ خالد ریلوے روڈ بھکر سے لکھتے ہیں:

"مندرجہ ذیل سوال درپیش ہے، جواب قرآن و سنت کی روشنی میں دیا جائے، زید نے اپنے ترکہ میں نقد دو لاکھ روپیہ چھوڑا ہے۔ جبکہ پس ماندگان میں اس کی ایک بیوی، چار لڑکے اور پانچ لڑکیاں ہیں۔ ہر ایک کے حصہ میں کتنی کتنی رقم آئے گی؟"

الجواب:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال سے ظاہر ہے کہ زید کے ورثاء ایک بیوی، چار لڑکے، پانچ لڑکیاں ہیں۔ اس صورت میں بیوی کے لئے آٹھواں حصہ ہے۔ کیونکہ میت کی اولاد موجود ہے۔ قرآن مجید میں ہے:

﴿فَإِن كانَ لَكُم وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمّا تَرَ‌كتُم...﴿١٢﴾... سورةالنساء

"اگر تمہاری اولاد ہے تو عورتوں کے لیے آٹھوان حصہ ہے، اس میں سے جو تم نے چھوڑا ہے۔"

باقی سات حصے لڑکے اور لڑکیوں کے لیے ہیں، جو ان کے درمیان "(عربیمِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ (السناء:11))" کے اصول پر تقسیم ہوں گے۔ چونکہ سات حصے، چار لڑکے اور پانچ لڑکیوں میں برابر تقسیم نہیں ہوتے اس لئے اصل مسئلہ آٹھ کو تیرہ رؤس سے صرف دی اور حاصل ضرب 104 مسئلہ کی تصحیح ہوئی۔ اس میں سے 13 حصے بیوی کے لیے ہیں اور باقی 91 حصے چار لڑکوں اور پانچ لڑکیوں میں دو ایک کی نسبت سے تقسیم ہوں گے۔ یعنی لڑکے کو دو (2) (14 حصے) اور لڑکی کے لیے ایک (7 حصے) ہوں گے۔ تقسیم کی حسب ذیل صورت ہے:

مافی الید دولاکھ روپیہ

چار لڑکے، پانچ بیٹیاں اور بیوی

بیوی کے لیے تیرہ حصے 104 میں سے............. 25 روپے

ہر لڑکی کے لیے سات حصے 91 میں سے13461 روپے، پانچ لڑکیوں کے لیے 6730 روپے۔ کل میزان 200000 روپے