دودھ بینک یا رضاعت سینٹر ؟

انسانی دودھ بینک سے مراد ایک ایسا ادارہ  ہے جو ماؤں کے دودھ کو جمع کرتا ہے، اس کی جانچ پڑتال کرتا ہے اور اسے   حرارتی تطہیر کے عمل (processing and pasteurizing) سے گزار کر ڈبے میں پیک کر کے تقسیم کرتا ہے۔ پہلے انسانی دودھ بینک کی بنیاد تھیوڈور اشیریش (Theodor Escherich) نے  1909ء میں آسٹریا میں رکھی۔ اشیریش کا تعلق یونیورسٹی آف ویانا سے تھا اور  یہ وہاں بچوں کے امراض اور حفاظت کے امور (pediatrics) میں  پروفیسر تھے۔ انہوں نے 1902ء سے لے کر 1911ء تک بچوں کی غذائیت  (nutrition)کے مختلف ذرائع اور نوزائیدہ بچوں (neonates)پر ان کے اثرات کے موضوع پر تحقیق کی اور اس نتیجے تک پہنچے کہ ماں کا دودھ پینے والے بچوں میں آنت کا بیکٹیریا  ، غذائیت کے دوسرے ذرائع سے پرورش پانے والے بیکٹیریا سے نمایاں طور مختلف تھا۔    اس کے اگلے ہی سال امریکہ میں بھی  ایک ہسپتال میں  انسانی دودھ بینک کی شاخ کھول لی گئی۔

 1970ء کی دہائی میں بچوں کی  غذائیت کے کمرشل  فارمولاز  کے مارکیٹ میں آنے کے سبب سے انسانی دودھ بینک نظر انداز ہوتے گئے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ہسپتالوں میں موجود نوزائیدہ  بچوں کو  فری میں یا بہت ہی سستے داموں دودھ فراہم کرنا شروع کر دیا تھا لیکن 1980ء میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے بچوں کے لیے ماں کے دودھ کی فراہمی کو اپنے ایجنڈے پر رکھا تو پھر دنیا کی اس طرف توجہ ہوئی۔ پچھلی کئی دہائیوں میں امریکہ، یورپ، جنوبی افریقہ، آسٹریلیا اور انڈیا میں ہزاروں کی تعداد میں انسانی دودھ کے بینکوں کی بنیاد رکھی گئی۔  ترقی یافتہ ممالک میں  دودھ فراہم کرنے والی ماں کی صحت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے چھاتیوں کے ایکسرے کے علاوہ  ہیپاٹائیٹس، ایچ آئی وی (HIV) اور وی ڈی آر ایل (VDRL)کے ٹیسٹ بھی کروائے جاتے تھے۔

اب ملٹی نیشنل کمپنیوں نے بھی دودھ کے کمرشل فارمولاز کے علاوہ ہیومن  مِلک بینکوں کی طرف توجہ دینا شروع کی ہے اور نیسلے  نے انڈیا میں 2017ء میں  تقریباً 1000 ہیومن  مِلک بینکوں کی بنیاد رکھی تا کہ مارکیٹ کی ضرورت کو پورا کر سکیں۔ پس  اس طرح   انسانی دودھ کے جن بینکوں نے ساٹھ کی دہائی میں کیپٹلزم کی چھتری تلے سے نکلنا شروع کیا تھا وہ اکیسویں صدی میں دوبارہ اس کے تحت آنا شروع ہو گئے ہیں۔

حال ہی میں سندھ حکومت کے تحت سندھ انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیونیٹولوجی نے کراچی میں ایک ہیومن مِلک بینک قائم کیا۔ اس کا افتتاح سندھ کی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے 8 جون 2024ء کو کیا۔ اس مِلک بینک کے قیام کا مقصد یہ بتلایا گیا کہ جو بچے کسی وجہ سے ماں کا دودھ پینے سے محروم رہ جاتے ہیں تو وہ  یہاں  سے ماؤں کا دودھ حاصل کر سکتے ہیں۔  وزارت کی طرف سے میڈیا میں یہ دعوی بھی کیا گیا کہ اس دودھ بینک کا قیام  شریعت کے مطابق ہے۔ اس پر  ملک بھر میں اس حوالے سے ایک علمی بحث چھڑ گئی اور مختلف مکاتب فکر کے علماء نے اس کے عدم جواز کا فتوی جاری کیا ۔ اس کے نتیجے میں حکومت سندھ نے اپنے فیصلے کو واپس لے لیا  ۔

رواں   مجلے میں انسانی دودھ کی خرید وفروخت اور ان کے اداروں کے حوالے سے شرعی اور فقہی ابحاث کو شامل کیا گیا ہے کہ جس میں اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں کونمایاں کیا گیا ہے۔ قارئین ان ابحاث کو ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ انسانی دودھ کے بینکوں میں ممانعت اور حرمت  کی اصل وجہ رضاعت کا مسئلہ ہے۔ جس طرح نکاح کی حرمتیں نسب سے ثابت ہوتی ہیں، اسی طرح رضاعت سے بھی ثابت ہوتی ہیں۔ جو رشتے نسب کے سبب سے حرام قرار پاتے ہیں، وہی رضاعت کے سبب سے بھی محرم بن جاتے ہیں۔ سب سے بڑا اعتراض یہ پیدا ہوا کہ اس طرح کے اداروں کے قیام سے رضاعت کی حرمتیں پامال ہوں گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ادارے بچوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے قائم کیے جاتے ہیں اور خاص طور پران بچوں کی جو آٹھ ماہ سے پہلے پیدا ہو جاتے ہیں اور ان کی مائیں انہیں دودھ نہیں پلا پاتیں ۔

 رضاعت کی عمر دو سال ہے یعنی دو سال کی عمر میں بچے کو دودھ پلانے سے رضاعت ثابت ہو جاتی ہے۔ اس میں بعض فقہاء  مثلاً احناف کے نزدیک محض ایک مرتبہ یا ایک گھونٹ دودھ پلانے سے بھی رضاعت ثابت ہو جاتی ہے اور یہ فقہاء  قرآن کے ظاہر کو دلیل بناتے ہیں جبکہ بعض فقہاء  مثلاً شوافع کے نزدیک کم از کم پانچ مرتبہ دودھ پلانے سے حرمت ثابت ہوتی ہے۔ بہر حال ان دونوں میں سے کسی بھی قول کو لیا جائے تو ایک بچے کے لیے  ایک علاقے میں موجود انسانی دودھ کے بینک سے جب دودھ لیا جائے گا اور مسلسل لیا جائے گا یعنی چھ آٹھ ماہ تک یا ایک ڈیڑھ سال تک تو اس میں غالب امکان یہی ہے کہ وہ بچہ ایک ہی خاتون  کا دودھ پانچ مرتبہ پی لے۔  یا  اگر بچے کے لیے ایک فیڈر دودھ خریدا گیا   اور وہ فیڈر بچے نے پانچ مرتبہ میں ختم کیا تو اس سے بھی دوسرے قول کے مطابق بھی رضاعت ثابت ہو جاتی ہے۔

معاصر اہل علم میں انسانی دودھ بینکوں کے بارے تین موقف پائے جاتے ہیں؛ اکثر اہل علم کے نزدیک ان کا قیام کسی صورت جائز نہیں ہے جیسا کہ شیخ بن باز اور شیخ محمد بن صالح العثیمین ﷮  وغیرہ کے فتاویٰ ہیں۔ بعض اہل علم نے ان کے قیام کے جواز کا فتوی دیا ہے جیسا کہ شیخ یوسف القرضاوی ہیں۔ بعض اہل علم نے کچھ شروط کے ساتھ اس کی اجازت دی ہے جیسا کہ ڈاکٹر عمر الاشقر ہیں۔ حکومت سندھ کا کہنا بھی یہی تھا کہ ہم نے  انسانی دودھ  بینکوں کی اجازت کچھ شروط کے ساتھ دی تھی کہ جن میں یہ بھی شامل تھا کہ یہ ادارے  دودھ  ہدیہ کرنے والی  ماں اور دودھ پینے والے بچے دونوں کا ریکارڈ محفوظ رکھیں گے اور رضاعت کا سرٹیفکیٹ بھی جاری کریں گے۔ بعض اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ اگر دودھ ہدیہ کرنے والی ماں اور دودھ پینے والے بچے  کا مکمل بائیو ڈیٹا محفوظ ہو اور ساتھ میں وہ ادارہ ایک رضاعت سرٹیفکیٹ بھی جاری کر دے تو یہ جائز ہے۔  تاکید مزید کے لیے اس ادارے کی ویب سائیٹ پر بھی یہ رضاعت سرٹیفکیٹ اپ لوڈ ہوں اور نادرا کی ویب سائیٹ پر بھی یہ تمام ڈیٹا اپ لوڈ کر کے اسے پبلک کیا جائے۔

اس حوالے سے مزید بہتری کے لیے اگر  حکومت نادرا کو  مزید   انوالو کر لے  کہ  وہ رضاعت سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر   ایک فیملی گروپ بنا کر  اسے اپنے ڈیٹا میں محفوظ کر لے اور نکاح کےوقت اس ڈیٹا کو ویریفائی بھی کر لیا جائے کہ رضاعی بہن بھائیوں کے آپس میں نکاح نہ ہو سکیں تو شاید اس  صورت میں اس میں حرج نہیں ہے۔ البتہ یہ کام ضرورت کے وقت  کرنا چاہیے نہ کہ بلاوجہ اس کو رواج دینا چاہیے۔  مزید ان انسانی دودھ بینکوں کو رضاعت سینٹرز کا نام دیا جائے کہ جہاں اولین ترجیح یہ ہو کہ مائیں اجرت پر دودھ پلانے کے لیے موجود ہوں۔  ان سینٹرز میں ان ماؤں کا ڈیٹا بھی محفوظ کیا جا سکتا ہے جو ضرورت پڑنے پر دودھ پلانے کے لیے تیار ہوں جس طرح کہ بعض آرگنائزیشنز  بلڈ ڈونیشن کے لیے ڈونرز کا ڈیٹا جمع کر کے انہیں ضرورت پڑنے پر کال کر لیتے ہیں۔ یہ رضاعت سینٹرز ہسپتالوں میں ایک کمرہ میں بھی کھولے جا سکتے ہیں اور اس میں ہسپتال میں گائنی کے ڈیپارٹمنٹ میں موجود ماؤں کو بھی  رضاکارانہ طور دودھ پلانے کے لیے رجسٹر کیا جا سکتا ہے۔

  رہی یہ بات کہ ایک فاسق وفاجر عورت کا دودھ پینے سے اس کے اخلاق دودھ پینے والے بچے میں در آئیں گے تو یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ گائے بھینس کادودھ پینے سے ان کی عادتیں انسان میں نہیں آ جاتیں۔ رہی یہ بات کہ ماں کے چھاتی سے لگا کر دودھ پلانے کے اثرات زیادہ ہوتے ہیں تو اس سے انکار نہیں کہ اس سے بچے اور ماں میں ایک جذباتی تعلق پروان چڑھتا ہے جو ان ماں بیٹے کے باہمی حقوق کی ادائیگی میں ممدو معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ انسانی دودھ بینکوں کی حرمت کا سبب نہیں بن سکتا۔ حرمت کی اصل وجہ اور سبب رضاعت کا مسئلہ ہے۔ اگر اسے کسی طرح سے منظم کر لیا جائے تو انسانی دودھ بینک کے قیام  میں سے حرمت کا سبب نکل جاتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب                                                            ( ڈاکٹر حافظ محمد زبیر)