اگست 2024ء

ہیومن ملک بینک کے قیام کی شرعی حیثیت

ہیومن ملک بینک کے قیام کی شرعی حیثیت

( علماء فتویٰ کونسل پاکستان)

پچھلے دنوں کراچی میں حکومتِ سندھ نے یونیسیف (UNICEF ) کے تعاون  سے پاکستان میں پہلا  ہیومن مِلک بینک کا آغاز کیا ،تو مسلم معاشرے میں ایک بھونچال سا آگیا ، دیندار طبقے نے اس حوالے سے علماء کرام سے راہنمائی کا مطالبہ  کیا ۔بعض علماء کرام نے انفرادی طور پر اور بعض فتویٰ کے اداروں اور کونسلز (جن میں علماء کرام کی جماعت اجتماعی طور پر فتویٰ دیتی ہے)   نے مسئلہ کی اہمیت اور حالات کی نزاکت کے پیش نظر مسئلہ کے مختلف پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن و سنت کی روشنی میں اس کا جائزہ لیا اور اپنے فتاویٰ جاری کیے۔ ایسے ہی اداروں  میں ایک ’’علماء فتویٰ کونسل پاکستان ‘‘ہے ، جس میں کسی خالص فقہی مسلک کی نمائندگی کی بجائے براہِ راست   قرآن وسنت سے مسئلہ اخذ کرنے کی روایت ہے ۔ اس فتویٰ میں نہ صرف شریعت کے احکام واضح کیے گئے ہیں بلکہ جواز کے قائلین کے سوالا ت و اعتراضات کے جوابات بھی دیئے گئے ہیں  [ادارہ محدث ]

سوال  :

پچھلے دنوں پاکستان میں ’ہیومن ملک بینک’ کے نام سے ماؤں کا دودھ اکٹھا کرنے کا ایک سلسلہ سامنے آیا ہے، کیا یہ جائز ہے؟

جواب                  :

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده،أما بعد !

سب سے پہلے تو یاد رکھیں کہ  شریعتِ اسلامیہ میں دیگر حلال و حرام کے مسائل کی طرح رضاعت کا مسئلہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ محض دودھ پینے پلانے کی بات نہیں ہے، اس پر باقاعدہ شرعی احکام مرتب ہوتے ہیں۔چنانچہ رضاعت سے باقاعدہ اسی طرح حلت و حرمت ثابت ہوتی ہے جس طرح  نسبی اور خونی رشتوں سے ثابت ہوتی ہے۔ جیسا کہ قرآنِ کریم میں اس کی صراحت ہے، ارشادِ باری تعالی ہے:

﴿ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ اُمَّهٰتُكُمْ وَ بَنٰتُكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ وَ عَمّٰتُكُمْ وَ خٰلٰتُكُمْ وَ بَنٰتُ الْاَخِ وَ بَنٰتُ الْاُخْتِ وَ اُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِيْۤ اَرْضَعْنَكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ ﴾ [النساء: 23 ]

یعنی جس طرح تمہارے نسبی رشتوں سے ماں، بیٹیاں، بہنیں تم پر حرام ہیں، اسی طرح تمہاری رضاعی مائیں اور بہنیں بھی تم پر حرام ہیں۔

اسی طرح نبی کریم ﷺ نے فرمایا   :

« يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ »[1]

’’رضاعت سے بھی وہی حرمت حاصل ہوتی ہے، جو نسب سے ہوتی ہے۔‘‘

نبی کریم ﷺ  کو کہا گیا کہ اپنے چچا حمزہ ﷜  کی بیٹی سے شادی کر لیں،  توآپ  ﷺ نے فرمایا:

«إنَّهَا لا تَحِلُّ لِي،إنَّهَا ابْنَةُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ، وَيَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَةِ ما يَحْرُمُ  مِنَ  الرَّحِمِ» [2]

’’وہ میرے لیے حلال نہیں ، کیونکہ وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے، رضاعت کے سبب وہ تمام رشتے  حرام ہوتے ہیں جو رشتے رحم (اورخون )کے سبب حرام ہوتے ہیں۔‘‘

کیونکہ حضرت حمزہ﷜ اور آپ ﷺ نے ایک ہی خاتون کا دودھ پیا تھا۔

اسی طرح سیدنا عقبہ بن حارث  ﷜ نے ام یعقوب بنت ابی اہاب بن عزیز ؓ  سے شادی کی، لیکن ایک سیاہ فام عورت نے کہا  کہ میں نے  تم دونوں کو دودھ پلایا ہے ۔سیدنا  عقبہ  ؓ  یہ مسئلہ لے کر رسول اللہ ﷺ  کے پاس حاضر ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ رشتہ کیسے قائم رہ سکتا ہے جب رضاعت کی بات کر دی گئی ہے۔ چنانچہ عقبہ  ؓ  نے ام یعقوب سے علیحدگی اختیار کر لی اور اس خاتون نے کہیں اور شادی کی[3]۔ 

اس کے علاوہ اور کئی ایک واقعات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ رضاعت ہونے یا نہ ہونے سے شرعی احکامات میں کس قدر فرق پڑتا ہے۔

لہذا ایک مسلمان کو ان مسائل کو اس طرح نہیں لینا چاہیے، جس طرح کہ غیر مسلم یا آزاد خیال لوگ دیکھتے ہیں۔ کیونکہ جن کے نزدیک مرد و عورت کے تعلقات میں حلال و حرام کی کوئی تمیز نہیں، تو وہ دودھ پینے پلانے میں یہ تکلف کیوں کریں گے؟

جبکہ  رضاعت سے حرمت کا ثبوت مسلمانوں کے ہاں ایک اجماعی اور متفق علیہ مسئلہ ہے، جس سے قرابت داری اور حلت و حرمت کےثبوت میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے[4]۔

ہیومن مِلک بینک کا قیام اسلامی تعلیمات و قوانین کے ہم آہنگ نہیں، اس بات کو درج ذیل نکات میں واضح کیاجا سکتا ہے:

  • مِلک بینک کے قیام سے رضاعت اور اس سے ثابت ہونے والے شرعی احکام متاثر ہوں گے، رشتوں اور قرابت داریوں سے متعلق انسان کم ازکم شک و شبہ کا ضرور شکار ہو گا۔ لہذا ہر وہ چیز جو شرعی احکام کے تعطل کا باعث بنے یا انسان کو اس حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار کرے، اس سے گریز لازمی ہے۔
  • بچے کا براہ راست ماں کی چھاتی سے دودھ پینے کے ساتھ بچے اور ماں کی صحت کے کئی ایک مسائل جڑے ہوئے ہیں، مِلک بینکس کی وجہ سے ماں اور بچہ دونوں صحت کے حوالے سے کئی مفاسد کا شکار ہوں گے۔
  • عالم اسلام میں عرصہ دراز سے شیرخوار بچوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے رضاعت کا جو سلسلہ رائج ہے، اس کی موجودگی میں ایسے معاشروں سے ایک نیا سسٹم لے کر آنا، جن کا اپنا خاندانی نظام تباہ ہو چکا ہو، اس کی قطعا کوئی ضرورت نہیں ہے۔

مِلک بنک کے جواز کے لیے بعض مصالح اور ضروریات کا ذکر کیا جاتا ہے، حالانکہ اصول یہ ہے کہ الضرر لا يزال بالضرر اور  درء المفاسد أولى من جلب المصالح    یعنی کسی ایک نقصان کو ختم کرنے کے لیے مزید نقصان کرنا درست نہیں، اسی طرح جہاں مصالح و مفاسد کا ٹکراؤ ہو ، وہاں مزید سہولیات  اور مصالح حاصل کرنے کے لیے نئے مفاسد کا دروازہ کھولنا جائز نہیں ہے۔

بعض احادیث و آثار سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ مرضعہ کے دودھ کا باقاعدہ بچے کی طبیعت پر اثر ہوتا ہے، اسی وجہ سے اہلِ علم نے  مرضعہ کے انتخاب میں احتیاط کا حکم دیا  ہے اور ایسی عورتوں سے اجتناب کا حکم دیا گیا ہے جن کی عادات و اطوار اور حرکات درست نہ ہوں۔  [5]

جبکہ مِلک بنک میں عملا ً کوئی  ایسی  صورت نہیں ہوتی کہ عورتوں اور ان کے  دودھ میں فرق کیا جا سکے۔

عالمی افتاء کمیٹیوں کے فتاوی:

ہمارے ہاں جسے’مدرز ملک بینک‘ یا ’ہیومن ملک بینک‘ کہا جاتا ہے، عربی میں اسے  بنك حليب الأمهات کہا جاتا ہے۔ جس پر مجمع الفقه الاسلامی میں تفصیلی گفتگو ہوئی، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ عالم اسلام میں عرصہ دراز سے شیرخوار بچوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے رضاعت کا جو سلسلہ رائج ہے، وہ بہترین ہے، مسلمانوں کو   مدرز ملک بنکس جیسے مغربی اقدامات کی قطعا کوئی حاجت نہیں ہے۔ لہذا اسلامی ممالک میں اس پر پابندی عائد کی جائے۔ [6]

لجنۃ دائمہ سعودی عرب نے بھی اس کے حرام اور ناجائز ہونے کا فتوی جاری کیا ہے۔ [7]

 شیخ ابن عثیمین ، شیخ بکر ابو زید رحمہما اللہ جیسے  اہلِ علم نے بھی اس کی حرمت و  عدم جواز کا ہی فتوی دیا ہے۔

بعض اعتراضات کا جائزہ اور اشکالات کی وضاحت

بعض لوگ اہلِ علم کے فتاوی اور شرعی مسائل کے بیان پر اعتراضات اور اشکالات پیش کرتے ہیں، ذیل میں ان میں سے بعض کا ذکر کرکے ان کا مختصر جواب عر ض کیا جاتا ہے:

  • ملک بینکس میں دودھ نکال کر بچوں کو دیا جاتا ہے، وہ براہ ِراست عورتوں کی چھاتی سے دودھ نہیں پیتے تو یہ اشکال پیدا ہوا کہ کیا رضاعت کے ثبوت کے لیے براہِ راست عورت کی چھاتی سے دودھ پینا لازمی ہے؟

جواب:اس میں جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے کہ رضاعت کے ثبوت کے لیے براہ راست چھاتی  سے پینا ضروری نہیں، اگر کسی برتن وغیرہ میں دودھ نکال کر بھی پی لیا تو رضاعت ثابت ہو جاتی ہے، کیونکہ اصل اعتبار دودھ کا معدے میں پہنچ کر خوراک اور غذا بننا ہے وہ کسی بھی طریقے سے حاصل ہو جائے تو رضاعت ثابت ہو جائے گی۔ [8]  

بعض فقہاء نے اس پر  اتفاق نقل کیا ہے، جیسا کہ ابن نجیم  ﷫ لکھتے ہیں:

«إنَّ ‌الْوَجُورَ، وَالسَّعُوطَ تَثْبُتُ بِهِ الْحُرْمَةُ اتِّفَاقًا» [9]

’’وجور اور سعوط دونوں سے بالاتفاق حرمتِ رضاعت ثابت ہو جاتی ہے۔‘‘

وجور کا مطلب ہے کسی برتن  میں دودھ نکال کر   منہ میں ڈال کر پلانا اور سعوط کا مطلب ہے کہ ناک کے ذریعے دودھ ڈالنا۔[10] 

  • دودھ شریک تب ہوتا ہے جب بچہ ایک ماں کا دودھ پیئے اور کئی ماہ اس خاندان میں رہے۔ حالانکہ مِلک  بینک میں ایسی کوئی صورت حال نہیں ہے، بلکہ کوئی عورت اپنا دودھ جمع کروا دیتی ہے، اور وہاں دوسری عورتیں بھی جمع کروا دیتی ہیں۔ اس میں سے کوئی فرد دودھ خرید کر اپنے بچے کو پلا دیتا ہے۔ دوسری دفعہ وہ جس کا خریدتا ہے وہ پتہ نہیں کس ماں کا ہے؟ تو  اس سے رضاعت کیسے ثابت ہو سکتی ہے؟

جواب: یہ انوکھا اور منفرد مسئلہ فقہ وحدیث کی کس کتاب سے اخذ کیا گیا ہے کہ کسی ایک ہی ماں کا دودھ پینے اور کئی ماہ خاندان میں رہنے کی شرط پر رضاعت ثابت ہوگی ورنہ نہیں۔

اس میں کسی خاندان میں رہنے کی شرط یا کسی خاص مدت کا کہیں کوئی ذکر نہیں، البتہ اس بات میں قدرے اختلاف ہے کہ کتنی دفعہ دودھ پینے سے رضاعت ثابت ہوتی ہے؟

بعض اہل علم کے نزدیک ایک بار سیر ہو کر دودھ پی لینا کافی ہے، لیکن کئی ایک اہل علم کے نزدیک قرآن وسنت کی رو سے راجح یہی ہے کہ کم از کم پانچ بار دودھ پینا ضروری ہے، ایک دو بار دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔ سیدہ  عائشہ ؓ  فرماتی ہیں:

« كَانَ فِيمَا أُنْزِلَ مِنَ الْقُرْآنِ: عَشْرُ رَضَعَاتٍ مَعْلُومَاتٍ يُحَرِّمْنَ، ثُمَّ نُسِخْنَ، بِخَمْسٍ مَعْلُومَاتٍ » [11]

شروع میں دس رضاعتیں حرام کرتی تھیں، پھر پانچ رضاعتوں سے حرمت کا حکم نازل ہوا، نبی کریم ﷺ جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو یہی فیصلہ تھا۔

ایک اور حدیث میں ہے:

«لا تحرم المصة ولا المصتان»[12] ’’ ایک دو دفعہ دوددھ پینے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔‘‘

لہٰذا  اگر کوئی بچہ ایک دن میں پانچ مرتبہ دودھ پی لیتا ہے تو  ایک دن میں ہی رضاعت ثابت ہو جائے گی۔ رہا یہ مسئلہ کہ مِلک  بینک میں تو ایک ماں کا دودھ نہیں ہوتا، بلکہ مختلف خواتین کا دودھ ہوتا ہے تو اس حوالے سے بھی  اہلِ علم نے وضاحت کی ہوئی ہے، جو کہ درج ذیل ہے:

ایک ہی بچے کو جب مقررہ مقدار یعنی کم از کم پانچ مرتبہ ایک سے زیادہ ماؤں کا دودھ ملا کر پلایا جائے، تو اس سے ثبوتِ رضاعت کے حوالے سے تین صورتیں ہو سکتی ہیں:

ا۔  تمام سے ہی رضاعت ثابت ہو جائے۔ یہ حنابلہ اور  اکثر حنفیہ اور بعض شافعیہ کا موقف ہے۔

ب۔ غالب کا اعتبار کیا جائے لہذا جس کا دودھ زیادہ ہو اس سے حرمت رضاعت قائم ہو جائے گی ۔ یہ مالکیہ اور بعض احناف وشوافع کا موقف ہے۔دونوں اقوال کی تفصیل کے لیے دیکھیں[13]۔

ج۔ تیسرا احتمال یہ بھی ہے کہ جب ایک سے زیادہ خواتین کا دودھ ملا کر پلایا جائے تو کسی سے بھی حرمت ثابت نہ ہو۔ یہ موقف کسی کا بھی نہیں ہےلہذا یہ احتمال ساقط الاعتبار ہے۔

کئی بار ایک ماں کا دودھ بچے کو پلایا گیا اور اسی طرح کئی بار کسی دوسری ماں کا دودھ اسی بچہ کو پلایا گیا تو تعدد امهات من الرضاعة  سے رضاعت کی نفی نہیں بلکہ کئی خواتین کی رضاعی اولاد کا خلط ملط ہونا  ثابت ہوتا ہے جو زیادہ خطرناک ہے۔ امام قرافی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

«لو أرضعها أهل الأرض حرمن عليه لأنهن أمهات نسائه»[14]

’’  اگر کسی بچی کو علاقے کی تمام خواتین نے دودھ پلایا ہو تو اس بچی سے شادی کرنے والے شخص پر تمام خواتین حرام ہو جائیں گی کیونکہ وہ اس کی بیوی کی رضاعی مائیں ہیں، جن سے شادی کرنا حرام ہے۔‘‘

فرض کریں کہ اگر اجتماعی مخلوط دودھ پلانے سے رضاعت ثابت نہیں ہو سکتی تو انفرادی طور پر الگ الگ کئی خواتین کے دودھ سے بھی رضاعت ختم شمار ہوگی؟

جب معترض خود یہ کہہ رہا ہے کہ پتہ نہیں کس خاتون کا دودھ کس بچے کو پلایا جائے گا، تو پھر یہ بھی احتمال  ہے کہ  ایک ہی خاتون کا دودھ باربار  ایک ہی بچے کے حصے میں آ جائے.. آخر کس بنیاد پر یہ حتمی رائے دی جا سکتی ہے کہ کسی ایک ماں کا دودھ دوسری بار نہیں خریدا جائے گا؟!

اسی طرح اگر عورت کے دودھ کے ساتھ کوئی اور چیز ملا دی جاتی ہے مثلا پانی یا دوائی یا کوئی کیمیکل وغیرہ تواس میں بھی غالب کا اعتبار کیا جائے گا،  یعنی اگر دودھ زیادہ ہے تو  رضاعت ثابت ہو جائے گی اور یہ نہیں کہا جائے گا کہ مخلوط دودھ سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔

  • ہم غیر مسلم ملکوں کا بنا ہوا  خشک دودھ پلاتے ہیں، اور کبھی تحقیق  نہیں کی کہ وہ حلال ہے یا نہیں؟

جواب: جاپان یا کسی اور ملک کے خشک دودھ پلانے سے رضاعت ثابت نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ خواتین/ماؤں کے دودھ کا دعویٰ نہیں کرتے۔ رضاعت کا تعلق عورت کے دودھ کے ساتھ ہے۔ ایسا نہیں  کہ اگر دو بچے کسی گائے  کا دودھ پی لیں تو وہ آپس میں رضاعی بہن بھائی بن جائیں گے!

دوسری بات یہ ہے کہ جہاں تحقیق نہیں ہو رہی، وہاں تحقیق کرنی چاہیے نہ کہ اس کو آڑ بنا کر مزید اور چیزوں کو بلا تحقیق قبول کرنے پر زور دیا جائے۔

  • اس وقت جب دودھ شریک بھائی بہن کا زمانہ تھا اس وقت خون نہیں لگایا جاتا تھا، اگر یہ اس وقت ہوتا تو خون دینے والا تو سگا بھائی بن جاتا؟

جواب: کسی کی جان بچانے کے لیے خون دینے سے رشتہ خون / یا حلت و حرمت رضاعت کی کوئی دلیل نہیں، رضاعت کے مسائل دودھ پلانے سے وابستہ ہیں اور شریعت نے اس بنیاد پر باقاعدہ حلت و حرمت کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک منصوص مسئلے کو غیر منصوص پر کیسے قیاس کیا جا سکتا ہے؟

  • اگر اعضاء ( گردہ، جگر ،آنکھ وغیرہ) عطیہ کیے جا سکتے ہیں تو دودھ کیوں نہیں؟ کیا یہ چیزیں دودھ  سے اہم نہیں ہیں؟

جواب:  اعضاء کی پیوندکاری/عطیہ کرنا بذات خود ایک اختلافی مسئلہ ہے، اس کو جائز بھی مان لیں پھر بھی اس کی حیثیت رضاعت جیسی نہیں ہے۔

  • اس موقع پر بعض لوگوں کی طرف سے رضاعتِ کبیر کا مسئلہ چھیڑا گیا ہے، لہذا اس کی وضاحت بھی مناسب معلوم ہوتی ہے۔

رضاعت کبیر کا مسئلہ اگرچہ قدرے مختلف فیہ ہے، لیکن اس میں ہمارے نزدیک راجح موقف یہی ہے کہ رضاعتِ کبیر  سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ نبی کریم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:

«إنما الرضاعة من المجاعة»[15] ’’رضاعت  بھوک سے ہے ۔‘‘

یعنی  رضاعت اسی عمر میں ثابت ہوتی ہے، جب وہ دودھ براہ راست بچے کی غذا بنتا ہو، او ر اس کی بھوک مٹاتا ہو۔ ایک اور روایت میں ہے:

«لا رضاع إلا في الحولين»[16] ’’رضاعت صرف دو سال کی عمر میں ثابت ہوتی ہے۔‘‘

  سالم مولی ابی حذیفہ ﷞والے واقعہ کو ایک استثنائی  صورت پر محمول کیا گیا ہے، اسے عمومی اصول نہیں بنایا جائے گا۔ اصولی بات یہی ہے کہ رضاعتِ کبیر سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔اکثر صحابہ کرام ؓ اور عموماً اہل ِ علم کا بھی یہی موقف ہے ۔ امام ابن المنذر ﷫نے صراحت فرمائی ہے:

«وأكثر أهل العلم غير قائلين بقصة سالم هذا، ويحتجون في هذا بظاهر كتاب الله عز وجل وبالأخبار الثابتة عن نبي الله صلى الله عليه وسلم، وبأخبار أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم. وهو قول عوام أهل العلم، من أهل الحجاز، والعراق، والشام، ومصر، وغيرهم»[17]

اگر چہ  راجح قول کے مطابق رضاعت کبیر ثابت نہیں ہوتی، لیکن   مِلک  بینک سے مستفید ہونے والے بچے’صغیر‘ اور ’شیر خوار‘ کے زمرے میں ہی آئیں گے، لہٰذا اس حوالے سے رضاعت اور اس بنا پر حلت و حرمت کے سنگین مسائل پیدا ہوں گے۔

  • کچھ لوگ بعض اہلِ علم کے فتاویٰ ذکر کرتے ہیں کہ انہوں نے مِلک بنک کے قیام کو جائز قرار دیا ہے؟

جواب: اس حوالے سے گزارش ہے کہ ہم نے اوپر ا س کے عدم جواز اور اس کے دلائل کی وضاحت کردی ہے، بلکہ جواز کے لیے پیش کیے جانے والے اشکالات کی بھی وضاحت کر دی ہے۔

دوسری بات: جن علمائے کرام نے جواز کی بات کی ہے، انہوں نے اس کے لیے جو شروط اور احتیاطیں ذکر کی ہیں، کیا کسی ملک بینک میں ان شرائط و ضوابط کا خیال رکھا جاتا ہے؟

جیسا کہ ہم پہلے انٹرنیشنل فتاوی کمیٹیوں کے حوالے سے ذکر کر چکے ہیں کہ یہ مسئلہ کبھی بھی مسلم معاشروں کی ضرورت نہیں رہا،  بلکہ لبرل قسم کے لوگ اسے اسلامی معاشروں میں دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔تو یہ کیسی عجیب بات ہے کہ آپ جواز کی بات ان علمائے کرام کی لے لیں جو شریعت کے  اصول و ضوابط کی بنیاد پر اس کی گنجائش کی بات کریں، لیکن عملا سسٹم اور نظام ان لوگوں کا نافذ کر دیں جو آزاد خیال اور لبرل قسم کے لوگ ہیں اور جن سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ رضاعت جیسے دقیق اور پیچیدہ مسئلہ میں شریعت کا خیال رکھنے کی زحمت گوارا کریں گے۔

  • یہ تو وہ آزاد خیال لوگ ہیں جو  ایک شخص کا مادہ منویہ لے کر دوسرے کی بیوی میں رکھ دیتے ہیں، ایک عورت کا ایگ(انڈا) لے کر دوسری کو ڈونیٹ کروا دیتے ہیں۔ انہوں نے باقاعدہ بچے پیدا کروانے کے لیے کرائے کی مائیں متعارف کرائی ہیں جو سراسر شریعت کی مخالفت بلکہ فطرت کے خلاف جنگ ہے۔

شریعت میں بحالتِ اضطرار انسانی جان بچانے کے لیے خنزیر کھانے کی بھی اجازت ہے، تو کیا بچوں کی جان بچانے کے لیے مِلک بینک کے قیام کی گنجائش نہیں ہوگی؟

جواب: بالکل شریعت میں اضطراری کیفیت میں گنجائش دی جاتی ہے، لیکن پہلے تو اضطرار کا متحقق ہونا ضروری ہے، دوسرا اضطرار کے احکامات اسی حالت کے ساتھ خاص ہوتے ہیں،انہیں باقاعدہ اصول اور ضابطہ بنالینا اور معاشرے میں عام کرنا جائز نہیں۔ مثلاً کسی شخص کو وقتی طور پر جان بچانے کے لیے حرام کھانے کی اجازت ہے، تو  اس بنیاد پر وہ کہے کہ میں ہمیشہ سود خوری یا خنزیر کھانا شروع کردوں، یہ جائز نہیں ہو گا، مزید اس بنیاد پر اگر لوگ خنزیر کے گوشت کے ہوٹلز کھولنے لگیں کہ کوئی مجبور و مضطر بوقت ضرورت جان بچا سکے، تو یہ جائز نہ ہو گا۔

حرفِ اخیر

بچوں کے لیے ماؤں کے دودھ کا مِلک  بینک بنانا درست نہیں لہٰذا اسلامی معاشرے میں اس سے گریز لازم  ہے۔ ورنہ رضاعت اور اس بنا پر حلت و حرمت اور اخلاق و عادات کے  سنگین مسائل پیدا ہوں گے۔

اس مسئلہ میں ہمیں کم از کم سدذریعہ کے طور پر اس قسم کے اقدامات کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیئے اور مسلمانوں کو اس سے دور رکھنا چاہیئے۔

متعلقہ اداروں سے گزارش ہے کہ وہ اس کی روک تھام  کریں  تاکہ معاشرہ ایک نئے فساد کا شکار نہ ہو۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ                فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ   فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ  فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ

 

[1]     صحيح مسلم :1445

[2]     صحيح مسلم :1447

[3]      صحيح بخارى:2640

[4]      الإجماع:82  ،الأوسط 8/ 548 لابن المنذر

[5]      السنن الكبير للبيهقي 16/ 44، المغني لابن قدامة 11/ 346

[6]       مجلة المجمع، العدد الثاني 1/383 

[7]     فتاوى اللجنة الدائمة – المجموعة الأولى 21/44

[8]      صحيح فقه السنة 3/ 88

[9]      البحر الرائق 3/ 246

[10]    بغية المقتصد شرح بداية المجتهد 10/ 5931

[11]   صحیح مسلم:1452

[12]    صحيح مسلم:1451

[13]    النوازل فی الرضاع:226۔230

[14]   الذخيرة للقرافي 4/ 282

[15]   صحيح  بخاری:2647

[16]   موطا مالك:1290 ، سنن الدارقطنی:4/174

[17]     الأوسط لابن  المنذر 8/ 558