اگست 2024ء

مغربی پروپیگنڈے کی کامیابی کا راز

مغربی پروپیگنڈے کی کامیابی کا راز

مِلک بینک کے متعلق جاری حالیہ بحث کے تناظر میں

 

مغربی پروپیگنڈے کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ انہوں نے جن بنیادوں پر اپنا بیانیہ اٹھانا ہوتا ہے ان بنیادوں کی شجر کاری پہلے سے ہی اپنے پروپیگنڈا کے ذریعے ہر ذہن میں کر چکے ہوتے ہیں، یہاں تک کہ وہ بنیادیں (Universal Truth) یا مسلمہ حقائق کے طور پر تسلیم کر لی جاتی ہیں، اس کے بعد جب وہ بیانیہ لاتے ہیں تو مسلمان مفکرین عام طور پر ان کی بنیادوں کو چیلنج نہیں کرتے کیوں بنیادوں کو  وہ  مسلمہ حقائق کے طور پر قبول کر چکے ہوتے ہیں اس لیے وہ اس  بیانیے کے شرعی، اخلاقی وسماجی مسائل پر سوچ و بچار کرتے اور انہی کے متعلق جواب دیتے ہیں   ، یہی حربہ استشراقی فکر سالوں سے استعمال کرتی چلی آ رہی ہے۔

مثلا مِلک بینک سے متعلق جاری حالیہ بحث میں اس بیانیہ کی بنیاد درجِ ذیل مقدمات پر رکھی گئی:

  • پاکستان میں ہر سال اڑھائی تین لاکھ شیر خوار بچے دودھ نہ ملنے کی وجہ سے فوت ہو جاتے ہیں۔
  • ان کی ماؤں میں ان کے لیے دودھ کی ضرورت پوری کرنے کی اہلیت نہیں ہوتی۔
  • اس لیے مِلک بینک کا قیام اس وقت کی بہت بڑی انسانی ’ضرورت‘ ہے۔
  • شریعت اسلامیہ میں ’’ضرورت‘‘ کی بنیاد پر بہت سے ممنوعات کو بھی جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔

اس میں سوشل میڈیائی تحریروں میں ہر کس و ناکس نے اپنا حصہ ڈالا، اینکروں نے اچھل اچھل کر فتوے پر تنقید کی، مدافعین نے ان کو جواب دینے کی کوشش کی، لیکن کوئی تحریر میری نظر سے ایسی نہیں گزری جس میں ان مقدمات کو چیلنج کیا گیا ہو، بلکہ بالعموم اس بیانئے کی بنیادیں مسلمہ طور پر قبول کی گئیں، آئیے اب ان مقدمات پر باری باری غور کرتے ہیں :

پہلا مقدمہ : ہر سال پاکستان میں اڑھائی تین لاکھ بچے شیر خوارگی میں فوت ہو جاتے ہیں، سوال یہ ہے کہ یہ اعداد وشمار کہاں سے حاصل کیے گئے ہیں؟ مثلا میں پاکستان کے ایک شہر کا باسی ہوں، ایک محلے میں رہتا ہوں، ایک خاندان سے وابستہ ہوں، میں اسی معاشرے کا ایک حصہ ہوں، میں اس مقدمے کو اپنے حالیہ تناظر میں دیکھتا ہوں، میرے گھر میں کسی بچے کی وفات اس بناء پر نہیں ہوئی، میرے بہن بھائیوں ، چچازاد  ، ماموں زاد ، خالہ زاد اور خاندان کے قرب وجوار کے گھروں میں کسی بچے کی وفات اس بناء پر نہیں ہوئی، محلے میں بھی کوئی ایسی خبر نہیں ملی، شہر بھر کی خبریں مجھے حاصل نہیں ہوتیں لیکن شہر کے بڑے ہسپتالوں کا ڈیٹا حاصل کیا جا سکتا ہے کہ کتنے بچوں کی وفات اس بنیاد پر ہوئی، لیکن پھر بھی یہ تعداد میرے مطابق درست نظر نہیں آتی، ممکن ہے کوئی کہے کہ تھر اور صحرائی علاقوں میں جہاں ماؤں کے لیے درست غذا کا انتظام نہیں ہوتا وہاں ان اموات کی کثرت ہوتی ہو! لیکن پھر میرا یہ سوال ہے کہ جو ادارے خود کہتے ہیں کہ بچے کم ہونے چاہییں، پیدائش کو کنٹرول کرنے کے جائز و ناجائز طریقے جھونپڑی جھونپڑی جا کر تلقین کرتے ہیں ان کے لیے سالانہ تین لاکھ بچوں کی وفات تو اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہونا چاہئے!!! صحیح بات یہ ہے کہ یہ اعداد وشمار چیلنج ہونے چاہئیں اور غیر جانبدار سروے کے بغیر ان کو قبول نہیں کیا جانا چاہئے۔

دوسرا مقدمہ:   کیوں یہ کوشش نہیں کی جا رہی کہ ان شیر خوار بچوں کی ماؤں کے لیے دورانِ حمل اچھی غذا پہنچانے کا اہتمام کیا جائے، جس حاملہ کے پاس اچھی غذا کی گنجائش نہ ہو اس کے لیے ادارہ بنایا جائے، وہ اس ادارے میں جا کر درخواست دے اور اچھی غذا حاصل کرے، تا کہ وہ زچہ و بچہ دونوں کی صحت کی بھی ضامن ہو بلکہ ولادت کے دوران اور اس  کے بعد ماں کی تکالیف کو بھی کم کر سکے اور اس  کے دودھ میں اضافے کا باعث بھی بنے، ایسے ہی ولادت کے بعد ان ماؤں کے علاج اور دواء کی کوشش کی جائے جو بچے کی ضرورت کے مطابق دودھ پیدا نہیں کر سکتیں، اس میں ماں اور بچے دونوں کا فائدہ ہے بنسبت مِلک بینک کے جس میں صرف بچے کے فائدے کو ملحوظ رکھا جا رہا ہے۔

تیسرا و چوتھا مقدمہ :  ’ضرورت‘ اصولِ فقہ کی ایک خاص اصطلاح ہے، جس کے ثابت ہونے کی کچھ شروط ہیں، سادہ لفظوں میں اس کو اضطراری حالت کہا جا سکتا ہے، یہ درست ہے کہ اضطراری حالت میں بہت سے حرام بھی جائز ہو جاتے ہیں لیکن اس ضرورت کے ثبوت کا پراسیس اتنا آسان نہیں جتنا پاکستان میں  قانون دان طبقے نے سیاسی مسائل میں ’نظریہ ضرورت‘ کے عنوان کے تحت بے جا فائدہ اٹھایا  اور اب مغربی پروپیگنڈہ فائدہ اٹھا رہا ہے۔

راقم کی اس تحریر کی بنیادی فکر یہ ہے کہ ہمیشہ کسی بھی بیانیے کے اساسی مقدمات کو چیلنج کیا جائے،  اگر یہ مقدمات واقعی ثابت ہوجائیں تو اس کے بعد اس کے قیام کے نتیجے میں متوقع شرعی، سماجی اور اخلاقی مسائل کے حل کے بارے میں سوچا جائے، لیکن اگر بنیادی مقدماتِ فکر ہی درست ثابت نہ ہوں تو جان لیجئے کہ ’بہانے ‘اور  ’ نشانے ‘  میں فرق ہے۔

امریکہ سے آئے ہوئے ایک مفکر سے بات کرتے ہوئے یہ بات سامنے آئی  کہ ’مِلک بینک‘ ان کا ہدف نہیں ہے، اس کے بعد ’ سپرم بینک‘بنائے جائیں گے، اس کے بعد’ ہیومن ایگ بینک‘ بنائے جائیں گے، اس کے بعد ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے ’ لیب فرٹیلیٹی ‘ سے کام لیا جائے گا، ’جینڈر سلیکشن‘ کے پراسیس کے ذریعے خواہش مند شخص کو لڑکا یا لڑکی جو چاہیے وہ حسبِ منشاء اس کا تعین کر سکے گا، ’سیروگیسی‘ کے عنوان سے غریب خواتین کے رحم کرائے پر لیے جائیں گے، اور ایسے میں کوئی بھی کسی بھی نکاح جیسی شرعی واخلاقی قید کے بغیر بچے پیدا بھی کر سکے گا اور پہلے سے قائم کردہ  ’مِلک بینک ‘ کے ذریعے ان کے لیے شیرِ مادر کا بند وبست بھی ہو سکے گا، مستقبل میں ایسے بچوں کی زندگی اپنی لیب کی پیدائش کے اخراجات اٹھانے والے پیرنٹ کے ’غلام‘یا  ’باندی‘ سے زیادہ نہیں ہو گی، اور وہ پیرنٹ اس کے ساتھ کیا سلوک کرے گا اس کی کوئی ضمانت نہیں ہو گی، اس طرح ہزار دو ہزار ڈالر کی لاگت سے تیسری دنیا میں ’نئی غلامی‘ کی بنیاد رکھی جائے گی، باقی رہا ’خاندانی نظام‘  تو مکمل ماڈرن ازم کی راہ میں وہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اسی کو ختم کرنا بنیادی ہدف ہے۔

کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ سب خیالات کی حد تک ہے، مغرب میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے، کچھ دن قبل ہی امریکہ میں ایک مسلمان لڑکی  نے صرف ماں باپ سے لڑائی کی بناء پر اپنا  ’ایگ‘  کسی غیر مسلم خواہش مند کو چند ہزار ڈالر میں فروخت کیا ہے۔   اسی طرح سپرم بینک ، ایگ بینک ، سیروگیسی وغیر کے تصورات پر عمل ہورہا ہے۔

اگر اس تناظر میں آپ   غور و فکر کریں  گے تو سمجھ آئے گا کیوں سوشل میڈیا پر ہر اینکر کو یہ پریشانی کھائے جا رہی ہے کہ ایک فتوے کی بنیاد پر یہ کاروائی کیوں روک دی گئی؟ کیوں یونیسیف کو پاکستان میں شیر خوار بچوں کی وفات پر اتنی بے چینی ہو رہی ہے اور غزہ میں جہاں سب سے زیادہ بچے اور خواتین   روزانہ بموں کا سامنا کر رہے ہیں، ان کی ان اموات پر کسی کے پیٹ میں درد کیوں نہیں اٹھتا :

پیتے ہیں لہو، اور دیتے ہیں تعلیمِ مساوات

 

[1]              استنبول، ترکیا