اگست 2024ء

مِلک  بینک شریعت اور قانون کی نظر میں

مِلک  بینک شریعت اور قانون کی نظر میں

مقدمہ:

اقوام متحدہ  کے عالمی ادارہ صحت کے اطباء نے متفقہ طور پرماؤں کے دودھ سے بچوں کی پرورش کرنے اور مصنوعی دودھ سے حتی الامکان بچنے کی تلقین کی ہے اور تمام طبی اداروں کو اس کی پابندی کرانے پر زور دیا ہے۔ لہٰذامغربی ممالک میں بعض رفاہی اداروں نے ناقص الخلقت،کم وزن یا  ماں کے دودھ کے متحمل نہ ہونے والے بچوں کی پرورش کے لیے دودھ   والی عورتوں سے دودھ کا چندہ اکٹھا کرنا شروع کر دیاتاکہ کم ازکم پہلے چھ ماہ تک بچہ صرف عورت کے دودھ سے صحت مند پرورش پا سکے اور اگر دودھ وافر مقدار میں نہ مل سکے تو اسے خرید کرتازہ، فریزیاخشک حالت میں ضرورت مند بچوں کی پہنچ میں لا یا جا سکے،جسے’’مِلک  بینک‘‘ کا نام دیا گیا۔چند ہی دہائیوں میں یہ ادارے مغربی ممالک کے بعد مشرقی ممالک میں بھی اسپتالوں سے ملحقہ اورغیر ملحقہ اس طرح کے  تجارتی وفلاحی ادارے قائم ہونا شروع ہوگئے۔

اسلام نے ایسے بچوں کے لیے رضاعت کا باب کھلا رکھا ہے جن کی مائیں کسی بھی سبب سے اپنے بچوں کو دودھ نہ پلا سکتی ہوں۔لیکن اسلام نے دودھ پینے والے بچے اور دودھ پلانے والی عورت کے درمیان حر مت میں ماں اور حقیقی بچے جیسا رشتہ قائم کیا ہے اور بعینہ نسب جیسی حرمت رشتہ رضاعت میں مقرر کی ہے۔مِلک  بینک سے سینکڑوں نا معلوم عورتوں کا مخلوط دودھ پینے والے بچوں  کا ان عورتوں اور ان کی اولاد سے رشتہ رضاعت وحرمت قائم ہوگا یا نہیں؟ اگر ہوگاتو مِلک  بینک سے استفادہ کرنے والا بچہ بڑا ہو کر اپنے ہی معاشرے سے اپنے لیے شریک حیات کیسے تلاش کر پائے گا؟

دودھ پینے کی تعداد میں اختلاف کے ساتھ فقہاء اس امر میں متفق ہیں کہ شیر خوارگی کی عمر میں کسی دوسری عورت کا دودھ پینے سے رضاعی رشتہ قائم ہو جاتا ہے لیکن چھاتی سے لگا کر دودھ پلانے اوردودھ نکال کر پلانے میں اختلاف ہے۔فقہاء کی ایک تعداد نے رشتہ رضاعت کے لیے چھاتی سے لگا کر دودھ پلانے کوضروری قراردیا ہے اورکہاہے کہ دودھ نکال کر پلانے سے دونوں کے درمیان رشتہ رضاعت وحرمت قائم نہیں ہو گا،کیوں کہ ماں کی ممتا ثابت نہیں ہوتی اور مجرد دودھ حرمت کے لیے ناکافی ہے کیوں کہ عمرِ رضاعت کے بعد یہی دودھ حرمت کا سبب نہیں ہوتااور پھر مِلک  بینک کا دودھ سینکڑوں نامعلوم عورتوں کا ہوتا ہے جس میں عورت کی ذات ، دودھ کی مقدار اور رضعات کی تعداد کے متعلق شک کا پہلو بھی نمایاں ہوتا ہے۔ اس موقف کو بعض فقہاء  اورمفکرینِ سلف و عصر نے ترجیح دی ہے،  جس کو بنیاد بناتے ہوئے اسلامی ممالک میں مِلک  بینک کے قیام اور اس سے استفادہ کی اجازت دی جا سکتی ہے ۔ اس مقالہ میں فریقین کے دلائل کو تنقیدی نگاہ سے دیکھتے ہوے حالاتِ حاضرہ میں اسلام سے رہنمائی لینے کی کوشش کی جائے گی ۔

مِلک  بینک کی تعریف

«هي مراکز مخصصة لجمع الحلیب من أمَّهات متبرعات أومن أمهاتٍ یعطین حلیبهُنَّ مقابل ثمن معین، ومن ثم تبیع هذه البنوک الحلیب المجموع لأمهات للواتی یرغبن  فی ارضاعة لاطفالهن»[1]

’’جہاں مختلف ماؤں کا دودھ جمع کیاجاتاہے ان مراکز کو مِلک  بینک کہتے ہیں۔وہ مائیں یاتو اجروثواب کے حصول کی نیت سے اپنا دودھ عطیہ کریں یا پھر مقررہ قیمت کے عوض اپنا دودھ دینے پر رضا مند ہوں، پھر یہ بینک وہ دودھ ان ماؤں  کو فروخت کریں جو اپنے بچوں کو دودھ پلوانے کاارادہ رکھتی ہوں۔‘‘

Human milk Bank- A donor milk bank is a service established to screen donors, collect, process, store and distribute donated human milk which is used to meet the needs of vulnerable infants in the community or in hospital settings[2].

 مِلک  بینک کے وجود میں آنے کے اسباب:

ماں کے دودھ میں اللہ تعالیٰ نے ایسے فوائد رکھ دیے ہیں کہ جو کسی بھی مصنوعی دودھ سے حاصل نہیں ہوتے ،اسی لیے اللہ تعالیٰ نے بچے کے لیے ماں کا دودھ لازم قرار دیا ہے اور اطباء نے خاص طور پر اس کی تاکید کی ہے کیونکہ یہ زچہ وبچہ ہر دوکے لیے نہایت مفید ہے، لیکن بعض عورتیں اپنے بچوں کو کسی نہ کسی عذر کے باعث دودھ پلانے سے قاصر ہوتی ہیں۔مثلاً ما ں ملازم پیشہ ہویا   وفات پاگئی ہو یا  بچے عمومی تعداد سے ہٹ کر زائد پیدا ہوئے  ہوں۔ گرے پڑے بچے ملے ہوں اور حکومتی تحویل میں ہوں۔ بچہ ماں کے دودھ بارے حساسیت کا شکار ہو۔بچہ کاوزن کم ہو یا وقت سے پہلے پیداہوا ہو اور طبعی طور پر دودھ پینے کے قابل نہ  ہو۔ ماں کو ایسا مرض لا حق ہو کہ وہ مرض بذریعہ دودھ بچے میں منتقل ہونے کا خدشہ ہو۔ ماں ایسی ادویات استعمال کرتی ہو جن کے اثرات دودھ کے ذریعے بچے میں منتقل ہو سکتے ہوں۔ بچے کوماں کے دودھ کی مقدار کفایت نہ کرتی ہو یاماں کا دودھ کلی طور پر خشک ہو۔[3]

تو ایسی صورت میں بچے کو انسانی دودھ کے فوائد سے محروم نہ رکھنے کے لیے اورمصنوعی دودھ (یعنی ڈبہ کے دودھ ) اور جانوروں کے دودھ کے نقصانات سے بچانے کے لیے  مِلک  بینک کی طرف نظر اٹھتی ہے اور ایسی صورت حال میں دودھ کے یہ مراکزبڑی اہمیت کے حامل ہوجاتے ہیں۔

مِلک  بینک کی تاریخ:

اللہ تعالیٰ نے ماں پر فطری ڈیوٹی عائد کی ہے کہ وہ   بچے کو اپنا دودھ پلائے ۔البتہ زمانہ قدیم سے یہ سلسلہ جاری تھا کہ اگر ماں اپنے بچے کو اپنا دودھ پلانے سے قاصر ہوتی  یا پلانا نہ چاہتی  تو متبادل ماں کا بندوبست کیا جاتا تھا، جو نومولود کو دودھ پلاتی تھی۔   لیکن مغربی انقلاب کے بعد عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہونے لگیں تو دوران ڈیوٹی دن بھر  اپنے بچے کو دودھ پلاناممکن نہ رہا اور متبادل کے طور پر دوسری عورتیں بطور رضاعی مائیں ملنا مفقود ہوگئیں تو گائے ،بھینس ،بکری اور اونٹ کے دودھ کو متبادل کے طور  پر اختیار کیا جانے لگا  اس کے علاوہ  مصنوعی دودھ بھی مارکیٹ میں میسر ہونے لگا۔رفتہ رفتہ مصنوعی دودھ اور جانوروں کے دودھ کے نقصانات سامنے آنے لگے  تو ’’ مِلک  بینک ‘‘ نعم البدل کے طور پر سامنے آیا۔

سب سے پہلے 1910ء میں متحدہ ریاست ہائے امریکہ کے شہر بوسٹن میں پروفیسرٹالبوٹ(Talboot) نے دودھ جمع کرنے کا مرکز بنایا۔ اس کے بعد ڈاکٹر ماری ایلیز کایزر (Marie-Elise Kaiser)  نے المانیا کے شہر  Magdeburyمیں ایک مرکز بنایا پھر 1947 ء میں پروفیسر  Lelong نے پیرس میں پہلا مِلک  بینک بنایا۔[4]

 لندن میں1935 ءمیں پہلا مِلک  بینک ’’کوئین چارلٹ بریسٹ مِلک‘‘ (Queen Charlate Breast Milk Bank) کے نام سے قائم کیا گیااور  پہلے تین ماہ میں سینکڑوں بچوں کی جانوں کو بچایا گیاتھا۔ تو اس بنا پر اسے’’ قومی اہمیت کا حامل ادارہ‘‘  (Institution of national importance)  قرار دیا گیا۔[5]

 ایشیاء میں سب سے پہلا مِلک  بینک لقمانیہ تلک میونسپل جنرل ہوسپٹل(Lokmanya Tilak Municipal General Hospital) ممبئی میں1989 ء میں ڈاکٹر ارمیڈا   فرنانڈیز (Dr.Armida Fernandez) نے قائم کیا اور ہر ضلعی ہوسپٹل میں ایک ایک مِلک  بینک قائم کرنے کی  سفارش کی۔[6]

 1985ء میں ایک تنظیم Human Milk Banking Association of North America قائم ہوئی جو USA,Canda اورMoxico  میں  موجود مِلک  بینک بارے پالیسی وضع کرنے ، تمام مِلک   بینک کے درمیان رابطہ کا ر بڑھانے اور عوام کو مِلک  بینک بارے شعور اجاگر کرنے اور ریسرچ کا کام کرتی ہے۔ [7]

مشرقی اور مغربی ممالک میں اس وقت سینکڑوں مِلک  بینک کام کر رہے ہیں  ایک اندازے کے مطابق مغربی ممالک میں 30 ملین سے زائد مسلمان بستے ہیں، جن کی ایک بڑی تعداد مِلک  بینک سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ [8]

مصر میں مِلک  بینک کے علاوہ عام مارکیٹ میں بھی انسانی دودھ دستیاب ہے۔ لیکن ایک ڈبہ میں ایک عورت کا دودھ پیک ہوتا ہے جس پر اس عورت کا نام اور شناختی نمبر درج ہوتا ہے تاکہ رضائی نسبت کا خیال رکھا جاسکے۔ ترک حکومت کے زیر اہتمام مذہبی اتھارٹی کی اجازت سے ۲۰۱۳ء میں ازمیر میں ملک بینک قائم کیا گیا۔ مسلم اکثریتی ملک ملائشیا میں ملک بینک قائم ہیں۔ ۲۰۲۲ء میں ایران میں شروع ہونے والے ملک بینکوں کی تعداد 20 تک پہنچ چکی ہے۔ بنگلہ دیش میں 2019 میں پہلا ملک بینک قائم کیا گیا تھا لیکن مذہبی حلقوں کے احتجاج کے باعث ایک ماہ بعد ہی بند کر دیا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان  کا شمار نومولود بچوں کی سب سے زیادہ شرح اموات والے ممالک میں شامل ہے ۔ ایک ہزار میں سے ۵۴ بچے فوت ہو جاتے ہیں لیکن پاکستان نے یہ تعداد ۱۲ تک لانے کا عہد کیا ہے۔اس کے لیے پاکستان میں جون ۲۰۲۴ء میں سندھ انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیوناٹولوجینے یونیسف کے تعاون سے پہلا ہیومن ملک بینک قائم کیا تھا۔ اس مل بینک کے قیام کے لیے جامعہ دارالعلوم کراچی نے مذہبی رہنمائی دی تھی کہ ۳۴ ہفتوں سے کم عمر وہ بچے جو قبل از وقت پیدا ہو جاتے ہیں اور ان کا وزن دو کلو گرام سے بھی کم ہوتا ہے ماؤں کا دودھ ان کے لیے کافی نہیں ہوتا اور ماں کے دودھ کے علاوہ تمام دودھ مختلف پیچیدگیاں اور انفیکشن کے ساتھ ساتھ اموات کے خدشات پیدا کر دیتے ہیں لہذا نومولود بچوں کی زندگیاں بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ان  بچوں کو ماں کا دودھ فراہم کیا جائے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے صرف مسلم ماؤں سے دودھ لیا جائے، دودھ کی خرو خرید و فروخت نہ کی جائے بلکہ مفت سروس فراہم کی جائے۔ دودھ فراہم کرنے والی ماؤں اور بچوں کا ریکارڈ بھی مرتب رکھا جائے لیکن چند دنوں بعد ماہ جون میں ہی دارالعلوم نے اپنا فتوی منسوخ قرار دے دیا کہ ملک بینک کے لیے شروط پوری کرنا ممکن نظر نہیں آتا اور اب یہ معاملہ شرعی رہنمائی کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل میں زیر بحث ہے۔ [9]

فطری رضاعت کی اہمیت:

رضاعت طبعیہ ماں اور بچے کے درمیان محبت اور شفقت پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ طبعی رضاعت کے علاوہ کسی بھی اورطریقہ رضاعت سے  ماں اور بچے کے درمیان محبت میں فطری طورپر کمی آجاتی ہے، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿وَٱلْوَٰلِدَٰتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَٰدَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ ٱلرَّضَاعَةَ﴾ [البقرة: 233]

’’ اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں ۔یہ حکم اس کے لیے ہے، جو رضاعت کی مدت کو پورا کرانے کا ارادہ رکھتا ہو۔‘‘

مزید فرمایا:

﴿وَإِنْ أَرَدتُّمْ أَن تَسْتَرْضِعُوٓا۟ أَوْلَٰدَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ﴾ [البقرة: 233]

’’ اوراگر تمہارا  خیال اپنی اولاد کو کسی غیر عورت سے دودھ پلانے کا ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔‘‘

﴿ وَإِن تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُۥٓ أُخْرَىٰ ﴾ [الطلاق: 6]

’’ اور اگر تمہارا باہم اختلاف ہوجائے تو کوئی دوسری عورت بچے کو دودھ پلادے۔‘‘

   جو عورتیں اپنے بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتیں اُن کے متعلق حضورﷺنے سخت تنبیہ فرمائی۔ واقعہ معراج بیان کرتے ہوئے فرمایا:

« ثُمَّ انْطَلَقَ بِي، فَإِذَا أَنَا بِنِسَاءٍ تَنْهَشُ ثُدِيَّهُنَّ الْحَيَّاتُ، قُلْتُ: مَا بَالُ هَؤُلَاءِ؟ قَالَ: هَؤُلَاءِ يَمْنَعْنَ أَوْلَادَهُنَّ أَلْبَانَهُنَّ»[10]

’’ پھر حضر ت جبریل ؑ مجھے اورآگے لے چلے تو اچانک میں دیکھتا ہوں کہ کچھ عورتوں کی چھاتیوں کو سانپ نوچ رہے ہیں میں نے پوچھا یہ عورتیں کون ہیں ؟ کہاگیا کہ یہ وہ عورتیں ہیں جو اپنے بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتی تھیں۔‘‘

ماں کے دودھ کے فوائد:

بچے کے لیے  ماں کے دودھ کا کوئی متبادل نہیں ہے ۔ناگزیر وجوہات کی بنا پر جومائیں بچوں کو اپنا دودھ پلانے سے قاصر ہو تی ہیں ایسے بچوں کے لیے مِلک  بینک بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ماں کے دودھ کے چند ایک فوائد درج ذیل ہیں:

  • ماں کا دودھ صحیح درجہ حرارت پر ہوتا ہے، اسے ٹھنڈا یا گرم کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
  • ماں کا دودھ پینے والے بچے زیادہ تندرست  او ر توانا ہوتے ہیں، ان کی یادداشت بھی تیز ہوتی ہے۔
  • پیدائش کے فوراً بعد ماں کا دودھ پیلے رنگ کا ہوتا ہے اور بہت کم مقدار میں ہوتا ہے ۔اس دودھ کو ’’لوسٹرم‘‘ کہتے ہیں  جوبچے میں قوتِ مدافعت پیدا کرتاہے اور اسے بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔
  • ماں کا دودھ زود ہضم ہوتاہے اس کی وجہ سے بچے میں پیٹ کی بیماریاں کم ہوتی اور وہ پرسکون سوتے ہیں۔
  • ماں کا دودھ صاف ستھرا ہوتا ہے ، بوتل اور نپل کی گندگی سے محفوظ ہوتاہے۔
  • بچے اور ماں میں مضبوط بندھن پیدا ہوتاہے۔[11]
  • ماں کے دودھ میں ایسے اجزاء پائے جاتے ہیں جو بچے کو ہیضہ ،پولیو،انفلوئنزا جیسی بیماریوں سے بچاتےہیں.
  • ماں کا دودھ پینے والے بچوں میں شرح اموات کا خدشہ دوسرے بچوں کی نسبت 14گنا کم  ہوتاہے اور پہلے دن سے ہی نومولود کے   ہلاک ہونے کے امکانا ت 45 فیصد کم ہوجاتے ہیں[12] دنیا میں فی گھنٹہ95 بچوں کو ماں کا دودھ بچا سکتاہے۔ [13]
  • گائے کے دودھ میں فاسفورس زیادہ ہوتا ہے لہذا کیلشیم اور فاسفورس کا توازن بگڑنے کی وجہ سے بچوں کی ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں اور فاسفورس کی زیادتی  سے بچے کے گردے متاثر ہوسکتے ہیں۔[14]
  • ماں کا دودھ پینے والے بچے دوسرے بچوں کی نسبت زیادہ ذہین ،مضبوط اعصابی نظام رکھنے والے ،زیادہ سمارٹ اور پھر تیلے ثابت ہوتے ہیں۔[15]
  • ماں کا دودھ پینے والے بچوں میں ذیابیطس کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔
  • بچوں کو سینہ ، کان کے انفیکشن   اور الرجی نہیں ہوتی۔
  • بچوں میں خون کا دباؤ ٹھیک رہتا ہےاور وہ بہت موٹے بھی نہیں ہوتے۔[16]
  • انسانی دودھ بچے کو اس سوزش اور ورم سے محفوظ رکھتا ہے جو مصنوعی دودھ پینے سے معدے اور سانس کی نالیوں میں پید ا ہوجاتی ہے۔
  • انسانی دودھ بچے کو کینسر کے خلیات اور بہت سے وائرسز اور بیکٹیریا زسے محفوظ رکھتاہے۔
  • انسانی دودھ سے بچے کو وہ دھاتی عناصر بھی حاصل ہوتے ہیں جوکسی اور دودھ سے حاصل نہیں ہو پاتے[17]
  • یونیورسٹی کا لج آف لندن ، برطانیہ نے 1958 ء تا 1970ء کے درمیان پیدا ہونے والے بچوں کے ایک گروپ پر سماجی تحقیق کے بعد رپورٹ پیش کی کہ ماں کا دودھ پینے والے بچے ،ماں کا دودھ نہ پینے والے بچوں کی نسبت معاشرے میں زیادہ کامیاب رہے ،انہیں ملازمتیں، روزگار اور ترقی کے بہتر مواقع ملے[18]-
  • رضاعت کاقدرتی عمل ماں کے لیے بھی نہایت مفید ہے،اسے رحم کے کینسر سے بچاؤ میں ممد و معاون ہے جبکہ  رضاعت نہ ہونے کی صورت میں دودھ پستانوں میں منجمد ہو کرچھاتی کے کینسر کا سبب بن سکتاہے۔ دورانِ رضاعت آکسی ٹوسن[19]کے اخراج سے رحم اپنی اصلی حالت پر آ جاتا ہے جس سے عورتوں کا جسمانی ڈھیلاپن ختم ہو جاتا ہے اور پھراکثر ماؤں کے لیے مانع حمل بھی ہے جو انہیں مانع حمل ادویات اور دیگر ذرائع کے مضر اثرات سے محفوظ رکھتا ہے۔

مِلک  بینک سے متعلقہ مسائل

 مِلک  بینک سے استفادہ اوراسے عام کرنے سے متعلق بحث سے پہلے مِلک  بینک سے متعلقہ مسائل کو زیربحث لایا جائے گا۔

انسانی دودھ کی خرید وفروخت کا حکم

مِلک  بینک انسانی دودھ کی خریدوفروخت کا مرکز ہے۔اس لیے  سب سے پہلا مسئلہ یہ ہے کہ شریعت انسانی دودھ کی خریدوفروخت کی اجازت دیتی ہے یا نہیں؟فقہا ء کا اتفاق ہے کہ دودھ پلانے والی عورت  دودھ پلانے کی اُجرت وصول کرسکتی ہے ۔قرآن میں صراحت ہے کہ جو اپنے بچوں کو کسی اور عورت سے دودھ پلوائیں وہ اس کی اجرت اداکریں۔[20]، لیکن فقہا نے اس امر میں اختلاف کیا ہے کہ اگر عورت کا دودھ نکال لیا جائے تو کیا اس کی بیع جائز ہو گی یا نہیں؟ امام مالک [21]،  امام شافعی[22] ،  اور امام احمد بن حنبل [23]﷭کے نزدیک جائز ہوگی۔لیکن امام ابوحنیفہ ؒ  [24] کے نزدیک ناجائز ہو گی۔امام ا حمد بن حنبل  ؒ  [25]  کا ایک قول کر اہت کا بھی ہے ۔

قائلینِ جواز کے دلائل:

  • یہ جانوروں کے دودھ کی طر ح پاک دودھ یا مشروب ہے اوراس لیے کہ یہ اہل دنیا کی غذا ہے، پس تمام غذاوں کی طرح اس کا فروخت کرنا بھی جائز ہو گا۔  یہ دودھ ایسا مال ہے جو قیمت رکھتا ہے تو اس کا مال ہونا اور قیمت رکھناشرعاً و عرفاً اس کے قابل انتفاع  ہونے پر دلالت کرتا ہے۔[26] کیونکہ اللہ تعالی ٰ کے فرمان سے ثابت ہے کہ رضاعت کی اجرت ادا کر و اور اگر وہی دودھ کسی برتن میں نکال  لیا جائے  تو اس کی قیمت دینے کا بھی جواز مہیا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿ فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَكُمْ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ ﴾ [الطلاق: 6]

’’اگر وہ تمہار ے لیے رضاعت کی ذمہ داری نبھائیں تو ان کی اجرت دو۔‘‘

  • رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

« إِنَّ اللَّهَ إِذَا حَرَّمَ عَلَى قَوْمٍ أَكْلَ شَيْءٍ حَرَّمَ عَلَيْهِمْ ثَمَنَهُ»[27]

’’ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم پر ایک چیز کا کھا نا حرام  كرتا ہے تواُن پر اس کی قیمت کو بھی حرام کر دیتا ہے۔‘‘

اس حدیث کے مفہوم مخالف سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ جس چیز کا کھانا حرام نہیں ، اس کی قیمت بھی حرام نہیں  ،لہذا انسانی دودھ جانوروں کے دودھ اور پانی کی طرح ہے لہٰذا     اس کی فروخت بھی جائز ہوگی۔ [28]

مانعین جواز کے دلائل:

  • دودھ انسان کا جزو ہے مال نہیں ہے اورنہ ہی عام طور پر لوگ اسے مال کہتے ہیں، اس لیے اس کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے۔ انسان اپنے تمام اعضاء سمیت مکرّم ہے ،لہذا اس کے کسی ایک بھی جزو کو بیچ کر اس کی تذلیل و تحقیر نہیں کی جاسکتی[29]، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرمان ہے:

﴿ وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْۤ اٰدَمَ ﴾ [الإسراء: 70]

  • انسانی دودھ بچے کی ضرورت کی وجہ سے حلال کیا گیاہے ورنہ اصل میں وہ حرام ہے کیونکہ ابن آدم کا گوشت حرام ہےاور دودھ گوشت کے تابع ہے  چونکہ  انسان کا گوشت بھی نہیں کھا یا جاتا لہذا اس کا دودھ بیچنا بھی جائز نہیں ہے۔ جیسے خنز یر اور گدھی کاگوشت اوردودھ۔[30]

ترجیح:

حنبلی دبستانِ فقہ کے مشہور ترجمان الشیخ ابن قدامہؒ کے نزدیک راجح دلائل عورت کے دودھ کی خرید و فروخت کے جواز پر ہیں[31] ۔کیونکہ قرآن  مجید کے مطابق ایک عورت کسی دوسرے کے بچے کی رضاعت کرنے کے صلہ میں معاوضے کی حقدار ہے تو اگروہ عورت وہی دودھ نکال کر فروخت کرے تو بھی معاوضے کی حقدار ہونی چاہیے۔دوسری بات یہ کہ اگر عورت فی سبیل منفعت اپنا دودھ کسی بچے تک پہنچاتی  ہے تو اس کو زیادہ خوراک کی ضرورت ہوتی ہے اوراس معاوضہ سے وہ اپنی خوراک زیادہ بہتر کر سکتی ہے۔ تیسری بات کہ دوسرے لوگ جب اس دودھ  سے فائدہ اٹھائیں تو دودھ دینے والی کو بھی فائدہ ملنا چاہیے۔ چوتھی بات کہ انسانی دودھ کو کسی حرام جانور کے دودھ پر قیاس کر کے دلیل نہیں لی جاسکتی کیونکہ ان کا دودھ تو بذات خود حرام اور ناپاک ہے لیکن انسانی دودھ حلال اور پاکیزہ ہے اور عمر کے ایک خاص حصہ میں بچے کوغذا فراہم کرتاہے۔اور پھر مِلک  بینک کے لیے لوگوں کی طرف سے دودھ عطیۃًفراہم کیا جاتا ہے اور دودھ مہیا کرنے والوں کی تحائف کی شکل میں حوصلہ افزائی کی جا سکتی ہے، تا ہم بوقتِ ضرورت دودھ خریدا بھی جا سکتا ہے۔

رضاعت میں غیرِرضاعت کا حکم:

فقہا ء کا اس امر میں اتفاق ہے کہ عورت کے پستان سے بچے کو دودھ پلانا اپنی شروط کے مطابق حرمت واقع کر دیتا ہے، لیکن وجور[32] سعوط[33] اورحقنہ [34] کے بارے اختلاف کیاگیا ہے۔حنفیہ[35] مالکیہ[36] اور شافعیہ[37] کہتے ہیں کہ غیرِ رضاعت کو رضاعت میں شامل کیا جاسکتاہے جبکہ ظاہر یہ اور امام احمد بن حنبل ؒ کی ایک روایت کے مطابق پستان سے  دودھ پینا رضاعت سے تحریم کے ثبوت کے لیے  شرط ہے ،اس کے برعکس کسی اور طریقے سے رضاعت ثابت نہیں ہوسکتی ۔

قائلین کے دلائل:

جو فقہا ء کہتے ہیں کہ رضاعت میں غیرِ رضاعت کو شامل کیا جاسکتاہے ان کے دلائل درج ذیل ہیں۔

  • حضورﷺ کا فرمان ہے :

 « لَارِضَاعَ إِلَّا مَا شَدَّ الْعَظْمَ وَأَنْبَتَ اللَّحْمَ»[38]

’’رضاعت صرف وہی معتبر ہوگی جو ہڈیوں کو مضبوط کرے اور گوشت کو بڑھائے۔‘‘

  • نبی مکرّم ﷺ کا فرمان:

« لَا يُحَرِّمُ مِنَ الرِّضَاعَةِ إِلَّا مَا فَتَقَ الأَمْعَاءَ فِي الثَّدْيِ، وَكَانَ قَبْلَ الفِطَامِ»[39]

’’صرف اُس رضاعت سے حرمت واقع ہوتی ہے جو انتڑیوں کو کھولے اور  دودھ چھڑانے  سے پہلے ہو۔‘‘

 ان احادیث سے پتا چلتا ہے کہ جو دودھ انتڑیوں تک پہنچے ، ہڈیوں کو مضبو ط کرے اور گوشت کو بڑھائے تو وہ اس رضاعت کی طرح ہے جو بچے نے اپنے منہ سے ماں کی چھاتی سے کی ہے ۔جیسے ناک کے راستے پانی جانے سے روزہ ٹوٹ جاتاہے ،اسی طرح دودھ کا انتڑیوں تک پہچنا ضروری ہے نہ کہ منہ کے ساتھ رضاعت کرنا[40]۔

مانعین کے دلائل:

جو کہتے ہیں کہ غیر رضاعت کو رضاعت میں شامل نہیں کیا جا سکتا ان کے دلائل درج ذیل ہیں۔

(۱)                                    اللہ تعالیٰ کا فرمان :

﴿ وَ اُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِيْۤ اَرْضَعْنَكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ ﴾ [النساء: 23]

’’اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہے اور تمہاری رضاعی بہنیں۔‘‘

(۲)                                   حضور ﷺ کا فرمان :

« یَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا یَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ»[41]

’’ نسب سے جو رشتے حرام ہیں وہ رضاعت کی رو سے بھی حرام ہیں۔‘‘

(۳)                                   ابن حزم ؒ لکھتے ہیں:

«لَمْ یُحَرِّمْ اللهُ تَعَالَی وَلَا رَسُولُهُ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی هَذَا الْمَعْنَی نِکَاحًا، إلَّا بِالْإِرْضَاعِ وَالرَّضَاعَةِ وَالرَّضَاعِ فَقَط-وَلَا یُسَمَّی إرْضَاعًا إلَّا مَا وَضَعَتْهُ الْمَرْأَةُ الْمُرْضِعَةُ مِنْ ثَدْیِهَا فِی فَمِ الرَّضِیعِ، یُقَالُ أَرْضَعَتْهُ تُرْضِعُهُ إرْضَاعًا. وَلَا یُسَمَّی رَضَاعَةً، وَلَا إرْضَاعًا إلَّا أَخْذُ الْمُرْضَعِ، أَوْ الرَّضِیعِ بِفِیهِ الثَّدْیَ وَامْتِصَاصُهُ إیَّاهُ، تَقُولُ: رَضِعَ یَرْضَعُ رَضَاعًا وَرَضَاعَةً.وَأَمَّا کُلُّ مَا عَدَا ذَلِکَ مِمَّا ذَکَرْنَا فَلَا یُسَمَّی شَیْءٌ مِنْهُ إرْضَاعًا، وَلَا رَضَاعَةً وَلَارَضَاعًا، إنَّمَا هُوَ حَلْبٌ وَطَعَامٌ وَسِقَاءٌ، وَشُرْبٌ وَأَکْلٌ وَبَلْعٌ، وَحُقْنَةٌ وَسَعُوطٌ وَتَقْطِیرٌ، وَلَمْ یُحَرِّمْ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهَذَا شَیْئًا»[42]

’’  اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ نے اس معنیٰ میں نکاح کو حرام نہیں کیا مگر رضاعت سے ، اور رضاعت رضاعت سے ہی ثابت ہوتی ہے ،اور  اس پر رضاعت کا نام اسی صورت میں صادق آئے گا کہ دودھ پلانے والی عورت اپنی چھاتی سے بچے کے منہ میں ڈالتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کو رضاعت یا دودھ پلانا نہیں کہا جاتا ، سوائےاس کے کہ   بچہ دودھ پلانے والی عورت  کی چھاتی کو منہ میں لے اور اس سے چوسے ۔اس کو دودھ پلانا کہا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے، اس میں سے کسی چیزکو بھی رضاعت نہیں کہا جاسکتا ہے ، بلکہ اسے حلب ، طعام ، سقاء ، شرب ، اکل ، بلع ، حقنہ، سعود ، تقطیر جیسے مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے ، اور ان کے سبب اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کو حرام قرار نہیں دیا۔

(۴) حضورﷺنے فرمایا:

  «لَا تُحَرِّمُ الْمَصَّةُ وَالْمَصَّتَانِ»[43]

’’ چھاتی سے ایک مرتبہ دودھ چوسنے یادو مرتبہ چوسنے سے حرمت  ثابت نہیں ہوتی۔‘‘

رضاعت کے معنی صرف یہ ہیں کہ  بچہ ماں کے پستان سے دودھ اپنے منہ سے پیئے اور  چوسے، اس کے علاوہ کو رضاعت نہیں کہا جاسکتا اورنہ اس سے حرمت واقع ہوگی۔[44]

 (۵) اگر رضاعت کی علت  صرف ہڈیاں مضبوط ہو نا اور گوشت بڑھنا ہے تو پھر اگر کوئی عورت کسی بچے کو اپنا خون دے دے تو وہ اس کی ماں بن جانی چاہے ،کیونکہ دودھ کی نسبت خون سے ہڈیا ں زیادہ مضبوط ہوتی ہیں اور جسم تقویت پکڑتا ہے ۔صرف ہڈیوں اور گوشت کی تقویت کی علت کی بنیاد ظن پر ہے اور احکام دین ظن کی بنیاد پر فرض نہیں کئے جاسکتے اور ظن سب سے جھوٹی بات ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿ وَ اِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَيْـًٔاۚ۰۰۲۸﴾ ]النجم :28[

’’اور بے شک وہم و گمان حق کے مقابلے میں کچھ کام نہیں دیتا۔‘‘[45] 

ترجیح:

راجح موقف یہ ہے کہ رضاعت وہی معتبر ہوگی جو بچہ ماں  کی چھاتی سے حاصل کرے گا کیوں کہ اسی سے ماں کی ممتا حاصل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی صورت کورضاعت نہیں کہا جاسکتا،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جہاں بھی رضاعت کا ذکر کیاہے وہاں ماں کے ساتھ کیا ہے۔ اور احادیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ باقی ظن اور حدسے تجاوز کرناہے اور یہی حضرت لیث بن سعدؒنے فرمایا کہ:

«إنَّمَا الرَّضَاعُ مَا مُصَّ مِنْ الثَّدْیِ»[46]

 ’’رضاعت صرف وہی معتبر ہوگی جو دودھ پلانے والی کی چھاتی سے چوسنے سے ہوگی۔‘‘

رضاعت کی علت صرف غذا قرار نہیں دی جاسکتی ، غذا تو دودھ کی بجائے خون سے زیادہ حاصل ہوتی ہے لیکن اس سے حرمت واقع نہیں ہوتی، لہذا بچے کابذاتِ خود ماں کی چھاتی سے بطورغذا دودھ کا حصول دوسری شروط کے ساتھ حرمت کا سبب بنے گا ،ورنہ نہیں۔

خلیط دودھ کاحکم:

مِلک  بینک کے دودھ میں کئی ایک عورتو ں کا دودھ شامل ہوتا ہے اور اس دودھ کو محفوظ رکھنے کے لیے فریز کر لیا جاتا ہے یا پھر خشک کر لیا جاتا ہے اور بوقت ضرورت پانی ملا کرا ستعمال کر لیا جاتا ہے۔ عورتوں کے خلیط دودھ کے بارے میں ا مام ابو حنیفہؒ [47] ، امام ابو یوسفؒ[48] اور شافعیہ[49] کے ایک قول کے مطابق تحریم اس عورت سے متعلق ہوگی جس عورت کا دودھ غالب ہو ۔

جبکہ اما م ابو حنیفہؒ [50] کے ایک قول ،اما م محمدؒ[51]  ،مالکیہ[52]  ،شافعیہ کے ایک موقف [53]  اور حنابلہ[54] کے نزدیک حرمت دونوں سے ثابت ہو جائے گی۔

صرف غالب دودھ سے حرمت کے قائلین کے دلائل :

غالب کے مقابلے میں مغلوب شئے کو شریعت میں معتبر نہیں مانا جاتا  جیسے پانی میں دودھ ملا کر بچے کو دیا جائے تو ان دونوں میں سے جو چیز غالب ہوگی صرف اسی کا اعتبار ہوگاجیسے بہت زیادہ پانی میں معمولی نجاست گرنے سے پانی نا پاک نہیں ہوتا[55]۔

خلیط دودھ میں غالب اور مغلوب ،ہردو قسم کے دودھ سے حرمت کے قائلین کے دلائل:

  • دونوں عورتوں کا دودھ ایک جنس سے تعلق رکھتا ہے اور ایک جنس دوسری جنس پر غالب نہیں آسکتی، ایک جنس کی قلیل مقدار اسی جنس کی دوسری چیز میں شامل ہوکر اس کی مقدار میں اضافہ کرتی ہے اور ایک ہی جنس کی کثیر مقدارقلیل مقدار کا اثر زائل نہیں کرتی۔ لہذا بچہ دونوں سے غذا پاتا ہے ۔
  • اگر کوئی شخص قسم کھالے کہ میں اس گائے کا دودھ نہیں پیئوں گا اور اگر اس گائے کا دودھ کسی دوسری گائے کے دودھ کے ساتھ ملا دیا جائے اور وہ پی لے تو قسم ٹوٹ جاتی ہے، ایسے دوعورتوں کے خلیط دودھ کی صورت میں دونوں عورتوں سے حرمت واقع ہو جائے گی[56]۔

ترجیح:

راجح موقف یہ ہے کہ یہ تمام دودھ ایک ہی جنس سے تعلق رکھتے ہیں مِلک  بینک میں دوعورتوں کا نہیں بیسیوں عورتوں کا خلیط دودھ ہو سکتا ہے اور بچہ ہر ایک دودھ سے نفع حاصل کرے گا لیکن ظاہریہ کے  ہاں تو امتصاص ثدی(پستان سے دودھ چوسنا)  نہ ہونے کی بنا پرحرمت ثابت نہ ہو گی اور شوافع کے ہاں جب تک پانچ رضعات نہ ہوں تب تک حرمت ثابت نہ ہو گی۔احناف کے ہاں غالب دودھ سے حرمت واقع ہو گی لیکن مِلک  بینک کے دودھ میں غالب و مغلوب دودھ کا اندازہ لگانا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔ صرف حنابلہ کے ہاں خلیط دودھ ہر عورت سے حرمت واقع کر دیتا ہے لیکن آخر الذکر دونوں فقہاء کی آراء کے مطابق اگر ساتھ ساتھ شک کا پہلو بھی پایا جائے تو حرمت واقع نہیں ہو گی کیوں کہ ﴿ اِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَيْـًٔا ﴾ [يونس: 36]    لہذا مختلط دودھ سے حرمت واقع نہیں ہو گی۔

رضاعت میں شک کا حکم:

رضاعت میں شک کے مختلف پہلو ہیں مثلاً بچے کو کس عورت نے دودھ پلایا ؟ فلاں عورت نے دوودھ پلایا ہے یانہیں ؟بچے نے دودھ پیا بھی ہے یا نہیں؟ جو دودھ پیا ہے وہ عورت ہی کا تھا،کسی جانور وغیرہ کا تو نہیں؟بچے نے جوخلیط دودھ پیا ہے وہ کس کس عورت کا تھا؟ بچے نے دودھ وقت رضاعت میں پیا ہے یا  عمرِ رضاعت کے بعد؟ یہ شک دودھ پینے  کی تعد اد کے بارے میں بھی ہو سکتا ہے؟  سوال یہ ہے کہ رضاعت کے کسی بھی معاملے میں شک واقع ہو جائے تو حرمت واقع ہو سکتی ہے یا نہیں؟ احناف[57]، شافعیہ [58]  اور حنابلہ[59] کا موقف ہے کہ امورِرضاعت میں جب شک پید اہو جائے تو حرمت واقع نہیں ہوگی، لیکن مالکیہ [60] کہتے ہیں کہ احتیاط کا پہلو ملحوظ رکھتے ہوئے حرمت واقع ہو جائے گی۔

مانعینِ حرمت کے دلائل:

  •       اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

﴿ وَاِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَيْـًٔا ﴾ [النجم: 28]

’’ اور بےشک وہم وگمان حق کے مقابلے میں کچھ کا م نہیں دیتا۔‘‘

  • سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کر تی ہیں کہ:

«کَانَ فِیمَا أُنْزِلَ مِنَ الْقُرْآنِ:عَشْرُ رَضَعَاتٍ مَعْلُومَاتٍ یُحَرِّمْنَ، ثُمَّ نُسِخْنَ، بِخَمْسٍ مَعْلُومَاتٍ»[61]

’’ قرآن میں جو حرمت واقع کرنے کے بارے میں حکم نازل ہو ا تھا وہ دس معلوم رضعات تھے ۔ پھر اس حکم کو پانچ معلوم رضعات کے حکم سے منسوخ کر دیا گیا۔‘‘

  • اصول فقہ کا قاعدہ ہے:

«اِنَّ الْیَقِین لَا یَزُول بِالشَّک»[62]

’’ یقین کو شک زائل نہیں کرتا ۔‘‘

  •         رضاعت بارے اصول فقہ کا ایک اور قاعدہ ہے:

«بُنِیَ عَلَی الْیَقِینِ لِأَنَّ الْأَصْلَ عَدَمُ الرَّضَاعِ»[63]

’’ یقین پر بنیاد رکھی جائے گی کیونکہ اصل رضاعت کا نہ ہونا ہے ۔‘‘

قائلین حرمت کے دلائل:

  • نبی مکرم ﷺ نے فرمایا:

 «دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لاَ يَرِيبُكَ »[64]

’’ شک والی بات کو چھوڑ کر اس بات کو اختیا ر کرو جس میں شک نہ ہو۔‘‘

  •  آپ ﷺ نے فرمایا:

«فَمَنِ اتَّقَی الشُّبُہَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِینِهِ، وَعِرْضِهِ»[65]

’’ جو شخص شبہات سے بچ گیااس نے اپنے دین و عزت کو بچالیا ۔‘‘

  •        حضرت  عقبہ ﷜ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ابواہاب بن عزیز کی بیٹی سے شادی کی توان کے پاس ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے تجھے اور تیری بیوی دونوں  کو دودھ پلایا ہے۔ تو حضرت عقبہ ؓ نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ تم نے مجھے دودھ پلایا ہے ۔ پھر انہوں  نے ابواہاب کے گھر سے پتا کر وایا تو انہوں نے بھی کہا کہ ہمیں معلو م نہیں کہ اُس نے ہماری بچی کو دودھ پلایا ہے  یا نہیں؟ چنانچہ حضرت عقبہ ؓ ؓ نے مدینہ میں حضور ﷺ  کی خدمت میں حاضر  ہو کر پوچھا توآ پ ﷺ  نے فرمایا:  " کیف و قد قیل؟"   جب ایسا کہہ دیا گیا تو پھر تم اسے اپنے عقد میں کیسے رکھ سکتے ہو؟ چنانچہ حضرت عقبہ ﷜ نے اس کو چھوڑ دیاتو اس عورت نے کسی اور مرد سے شادی کرلی[66]-

ترجیح:

راجح مسلک جمہور کا ہے کیونکہ رضاعت کے معاملات میں نص آ چکی ہے کہ معاملہ یقینی ہو لہٰذا شک کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ حضرت عقبہ ؓکے معاملے میں جب عورت نے یقین  کے ساتھ کہہ دیا کہ میں نے اسے اور اس کی بیوی کو دودھ پلایا ہےتو حضور ﷺ  نے اس یقین کی پاسداری کی ہے۔ فقہاء کی چند ایک فقہی آرا بھی ملاحظہ کیجیے۔ ابن قدامہ ؒ  لکھتے ہیں:

« وإذا وقع الشك في وجود الرضاع، أو في عدد الرضاع المحرم، هل كملا أو لا؟ لم يثبت التحريم؛ لأن الأصل عدمه، فلا نزول عن اليقين بالشك، كما لو شك في وجود الطلاق وعدده»[67]

’’ جب رضاعت یا اس کی مقدار کے بارے میں شبہ واقع ہو جائے تو حرمت ثابت نہیں ہوگی۔کیونکہ اصل حرمت کانہ ہونا ہے۔ تو شک کی وجہ سے حلت ختم نہیں ہوگی ۔جس طرح  طلاق یا اس کی تعداد کے بارے میں شک ہوجانے کا مسئلہ ہے۔‘‘

فقہ حنفی کی مشہورکتاب’’الاختیار لتعلیل المختار‘‘ میں ہے:

« امرأة أدخلت حلمة ثديها في فم رضيع، ولا يدرى أدخل اللبن في حلقه أم لا - لا يحرم النكاح. وكذا صبية أرضعها بعض أهل القرية، ولا يدرى من هو، فتزوجها رجل من أهل تلك القرية - يجوز؛ لأن إباحة النكاح أصل، فلا يزول بالشك»[68]

’’اگر کسی عورت نے اپنی چھاتی بچہ کے منہ میں ڈالدی ہو اور یہ معلوم نہ ہو سکا کہ دودھ بچہ کے حلق میں داخل ہوا یا نہیں تو اس سے حرمت ثابت نہیں ہوگی ۔ اسی طرح اگر کسی بچی نے گاؤں کی ایک یا چند انجان عورتوں کا دودھ پی لیا ہو ا اور تعین کے ساتھ یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے کس کس کا دودھ پیا ہے۔ تواس گاوں کے کسی آدمی کا اس لڑکی سے نکاح کر ناجائز ہوگا کیونکہ محض شبہ کی بنیاد پر نکاح کی حلت ختم نہیں ہوگی۔‘‘

مِلک  بینک کے عام کرنے اوراس سے رضاعت کا حکم:

جن دلائل  کی بنیاد پر مِلک  بینک سے رضاعت   کا حکم لاگو کیا جا سکتاہے ،تفصیلاً بیان کئے جا چکے ہیں۔  چونکہ مِلک  بینک دورِحاضر کا مسئلہ ہے لہذا شریعت کے درج بالا تفصیلی احکامات اور ان کی جزئیات پر مِلک  بینک کی بنیاد رکھی جائے گی۔عصر حاضر کے فقہا ء كے مِلک  بینک کے جواز و منع پر   تین نظریات سامنے آئے:

ڈاکٹر یوسف قرضاوی، شیخ عبدالطیف حمزہ ،شیخ مصطفی ا لز رقا، شیخ علی التسخیری﷭ وغیرھم، اس بات کے قائل ہیں کہ مِلک  بینک سے رضاعت سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔

 بعض فقہا کہتے ہیں کہ اگر مِلک  بینک دودھ دینے والی عورت اور دودھ پینے والے نو مولود کا ریکارڈ رکھے تو مِلک  بینک کی اجازت دی جاسکتی ہے۔

اس کے برعکس شیخ محمد بن صالح العثیمین ،شیخ عبدالرحمن النجار ،شیخ عبدللہ البسام ﷭وغیرہم کہتے ہیں کہ مِلک  بینک سے رضاعت حرام ہے لہٰذا مِلک  بینک کے قیام کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔

مانعین کے دلائل:

  • دودھ بینک کے بنانے اوران سے بچوں کو دودھ دینے کے معاملے میں لاقانونیت اور بدنظمی جنم لیتی ہے، ایک آدمی ایک ایسی لڑکی سے شادی کرلیتا ہے جس نے اس کا یااس کی ماں کا دودھ پیا ہوتا ہے ۔شرعی اعتبار سے ایسے رشتہ کے ساتھ شادی کرنا منع ہے لہذامِلک بینک کے قیام اور اس سے بچوں کی پرورش سدِذریعہ کے طور پر  ممنوع ہے۔
  • مِلک بینک کادودھ غذا کے طور پر استعمال کیا جاتاہے، جس سے حرمت کے وقوع کا اندیشہ ہوتاہے، لہذا احتیاط لازم ہے ۔
  • مِلک  بینک کے منفی پہلو مثبت پہلوؤں پر غالب ہیں اور پھر مثبت پہلوؤں کی کوئی خاص ضرورت بھی نہیں ہے، لہذا غالب کا لحاظ رکھنا ہوگا۔

 دودھ بینکوں سے رضاعت کا اگر کچھ نقصان ہے بھی تو صرف بچے کی ذات تک محدود رہتا ہے، جبکہ مِلک  بینک کے بدترین اثرات پورے معاشرے کو اپنے گھیر ے میں لے لیتے ہیں۔ اصول فقہ کا قاعدہ ہے:

  « إذا تعارضت مفسدتان روعي أعظمهما ضررًا بارتكاب أخفهما»[69]

 ’’جب دو نقصان اکھٹے ہو جائیں تو بڑے نقصان کو ترک کر دیا جائے اور چھوٹے کو اپنا لیاجائے۔‘‘

  • دودھ بینکوں کی وجہ سے حسب ونسب خراب ہوتا ہے اور اختلاط واقع ہوتا ہے، شرعی لحاظ سے ضیاع نسل سے بچنا ضروری ہے۔ مِلک  بینک سے معاشرے میں خرابیاں واقع ہوتی ہیں، اخراجات اٹھتے ہیں، لہذا مِلک  بینک سے منفعت کم اور فساد زیادہ ہے ۔لہذا مِلک  بینک کے ذریعے لاحق ہونے والی بیماریوں اور نقصانات کے پیش نظر اس سے حاصل ہونے والے چند فوائد کو پسِ پشت ڈال دیاجائے گا اوران مفاسد سے اجتناب کو مقدم کیا جائے گا  کیونکہ اصول فقہ کا قاعدہ ہے:

«دَرْء الْمَفَاسِد أولی من جلب الْمصَالح»[70]

’’ مفاسد کو ختم کرنا مصالح کے حصول پر مقدم ہوتا ہے۔‘‘

  • دودھ بینکوں کے قیام میں جس مصلحت کو مدنظر رکھا جاتاہے جو بچے تک محدود ہے اور انہیں ممنوع قرار دینے میں بڑی مصلحت کو مدنظر رکھاجاتا ہے اصول فقہ کا قاعدہ ہے :

«إذا تعارضت مصلحتان روعی أکبرهما بتفویت أدناهما»[71]

’’ جب دو مصلحتیں جمع ہو جائیں تو بڑی مصلحت کا خیال رکھا جائے اور ادنیٰ کو  ترک کر دیا جائے۔‘‘

دودھ بینکوں کے عدم  قیام سے بچے کو جو نقصان پہنچتا ہے اسے مصنوعی دودھ یاکسی عورت سے رضاعت کے ذریعے پورا کیا جاسکتا ہے، لیکن مِلک بینک  سے جو معاشرے کو نقصان ہوتا ہے اس کا ازالہ ممکن نہیں ۔

  • انٹرنیشنل فقہ اکیڈمی جدہ کے فقہاء نے 22تا28 دسمبر 1985 ء مِلک  بینک سے متعلق سیر حاصل بحث کے بعدطے کیا کہ :

          اول:           عالم اسلام میں مِلک  بینک قائم کرنا ممنوع ہے۔

          دوم:           مِلک  بینک کے دودھ سے حرمت رضاعت ثابت ہو جائے گی[72]-

  • کویت میں منعقدہ کا نفرنس ندوة الانجاب فی ضوء الاسلام  میں بھی پیدائشی لحاظ سے نامکمل بچوں کے لیے   مِلک  بینک کے قیام کی حوصلہ شکنی کی گئی [73]-

قائلین کے دلائل:

  •        دودھ بینک کے قائل فقہاء کا خیال ہے کہ شريعت نے رضاعت  سے  حرمت نکاح کی اصل اساس اور بنیاد دودھ پلانے والی ماں کو بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

﴿ وَ اُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِيْۤ اَرْضَعْنَكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ ﴾ [النساء: 23]

صرف دودھ لینے سے ماں ہونا ثابت نہیں ہوتا بلکہ اصل چیز دودھ چوسنے کے ساتھ ساتھ بچے پر ماں کی شفقت و محبت اور مہربانی ہے۔ وہ عورت صرف دودھ ہی نہیں پلاتی، سینے سے بھی لگاتی ہے، پیار و محبت دیتی ہے۔ یہ مجرد رضاعت نہیں ہے۔ اسی سے ہی وہ ماں بن جاتی ہے اور اس کے بچے  اس کے بھائی بن جاتے ہیں۔ مِلک  بینک سے مامتا ثابت نہیں ہوتی۔

  • رضاعت کا مفہوم لغت میں یہ ہے کہ بچہ عورت کی چھاتی سے اپنے منہ سے دودھ پیئے۔ اسی وجہ سے لیث بن سعد، امام احمد بن حنبل﷮ کے ایک موقف اور امام ابن حزمؒ نے یہ موقف اپنایا ہے کہ رضاعت صرف اسی صورت میں ہو گی جب بچہ اپنے منہ سے ماں کے پستان سے دودھ چوسے۔
  • مجرد دودھ سے حرمت نہیں ہوتی ،اس کے ساتھ کئی شروط ہیں۔ مثلاً بچہ مدتِ رضاعت میں ہو، مدت رضاعت کے بعد جتنا مرضی دودھ پیئے، حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ اسی طرح دودھ کی مقدار میں اختلاف ہے کہ جس دودھ سے اس کا گوشت اور ہڈیاں بنیں۔حدیث ِ  عائشہ ؓ میں پانچ مرتبہ پینے کا ذکر ہے۔
  •        رضاعت کی شروط میں سےکوئی شرط مفقود ہوجائے تو رضاعت ثابت نہیں ہوتی ،مِلک  بینک میں دودھ بطور غذاتو لیا جاتا ہے ، لیکن پستان سے چوسنے کی شرط مفقود ہے، لہٰذاحرمت ثابت نہ ہو گی۔
  •        رضاعت ثابت کرنے کے لیے حتمی علم ہونے کی ضرورت ہوتی ہے ،جو کہ مِلک  بینک میں نہیں ہوتاکیونکہ اس میں مختلف جہات سے شک پیدا ہوجاتا ہے۔امکان ہے کہ لڑکے اورلڑکی نے ایک عورت کا دودھ   پیا ہو ،وہاں اس بات کے بھی بہت زیادہ امکانات ہوتے ہیں کہ ایسانہیں ہوگا ،بلکہ اس کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، لہذا صرف گمان اور شک کی بنیاد پر حرمت ثابت نہیں ہوسکتی۔
  • مِلک  بینک میں خلیط دودھ کو عام طور پر خشک کر لیا جاتاہے اور بوقت ضرورت خشک دودھ میں اتنا پانی ڈالا جاتا ہے کہ اس پر غالب آجاتا ہے اور اعتبار غالب کا ہی ہوتا ہے، لہذا حرمت ثابت نہیں ہوگی۔
  •        مِلک  بینک عارضی ضرورت کے پیش نظر بنائے جاتے ہیں یہ حقیقی رضاعت کے قائم مقام نہیں ہوسکتے۔
  • مِلک  بینک کا تعلق عموم سے ہے اوراس میں معاشرتی مصلحت کا ہی اعتبار کیا جاتاہے تو ایسے معاملے میں فتوی جاری کرتے ہوئے آسانی کو ملحوط رکھنا چاہئے ۔سیدہ  عائشہ  ؓ  کا بیان ہے:

«مَا خُيِّرَ رَسُولُ االلهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ قَطُّ إِلَّا أَخَذَ أَيْسَرَهُمَا، مَا لَمْ يَكُنْ إِثْمًا»[74]

’’ رسول اللہ ﷺ  کو دو معاملوں کے درمیان جب بھی اختیار دیا گیا توآپ نے ان میں جوآسان صورت تھی ،اس کو اختیار کیا،بشرطیکہ وہ گنا ہ نہ ہو۔‘‘

حضور ﷺ  نے  یہ اصول خود ہی نہیں اپنایابلکہ فقیہ ،قاضی اور حکمران طبقے کو اس اصول کی تعلیم دی۔ حضور  ﷺ نے اپنے دو اصحاب کا یمن میں بطور  فقیہ ،قاضی اور حاکم تقر ر کیا تو ان کو روانہ کرتے ہوئے فرمایا:

«يَسِّرَا وَلاَ تُعَسِّرَا، وَبَشِّرَا وَلاَ تُنَفِّرَا»[75]

’’ آسانی فراہم کرنا،سختی نہ کرنا ،خوشخبر ی سنانا،نفرت نہ  پیدا کرنا۔‘‘

  • مصرکی وزارتِ صحت نے دارالا فتاء کو یہ سوال لکھا کہ کیا مِلک بینک حلال ہے یا حرام ؟ واضح رہے کہ یہ بینک مختلف عورتوں کا دودھ اکٹھا کرتے ہیں، وہ عورتیں خواہ اجروثواب کی نیت سے دودھ عطیہ کریں یا اس کامعاوضہ وصول کریں۔ پھر اس دودھ کو فریزکر کے تین ماہ تک محفوظ رکھا جاتا ہے یا اسے خشک کرکے محفوظ کرلیا جاتاہے ،  پھر ان محتاج بچوں کی رضاعت کا عمل  اس سے پورا کیاجاتا ہے جو کسی وجہ سے اپنی ماں کے دودھ سے محروم ہوتے ہیں۔ نیز جو سب سے بڑا اشکال درپیش ہے وہ یہ ہے کہ اس مِلک  بینک سے دودھ پینے والا بچہ اور بچی، اگر بڑے ہو کر آپس میں شادی کر لیں تو کیا ان کی شادی درست ہوگی یا ان میں رضاعی حرمت کا رشتہ بن جائے اور وہ آپس میں رضاعی بہن بھائی ہوں؟

دارا لا فتاء نے اس کا جواب یہ دیا کہ مِلک  بینک سے دودھ پینا حرمت کے واقع ہونے کا باعث نہیں بنتا اورنہ ہی اس کی وجہ سے ایسے لڑکے لڑکی کی آپس میں شادی حرام ہو سکتی ہے ۔کیونکہ امام ابو حنیفہ ؒ  کا مذہب ہے کہ رضاعت تب تک ثابت نہیں ہوتی جب تک کہ اس کی شروط کامل طور پر نہ پائی جائیں۔

پہلی شرط یہ ہے کہ جو دودھ بچے نے پیا ہے وہ عورت کا ہی دودھ ہو (یعنی کسی جانور، گائے، بھینس، بکری وغیرہ کانہ ہو)۔

دوسری شرط یہ ہے کہ وہ دودھ منہ کے راستے پیٹ میں گیا ہو ( یعنی حلق میں ٹپکا نا یا ناک کے ذریعے پیٹ میں اتار نا معتبر نہیں ہوگا) ۔

تیسری شرط یہ ہے کہ اس دودھ میں پانی، دوا یا بکری وغیرہ کا دودھ نہ ملا یا گیا ہو۔اسی طرح کسی اور عورت کا دودھ بھی اس میں ملاہوانہ ہو اور کھانے کی کوئی جامد چیز بھی اس میں نہ ملائی گئی ہو۔چنانچہ اگر اس میں ایسی کوئی چیز ملائی گئی ہو اور اسے آگ پر پکایا گیا ہو تو پھر بالاتفاق  اس سے حرمت ثابت نہیں ہوتی ۔ لیکن امام ابو حنیفہ ؒ کے مو قف کے مطابق اگر اس کو آ گ پر نہ بھی پکایاگیا ہو تب بھی اس سے حرمت ثابت نہیں ہوتی ،خواہ اس کھانے کی چیز کی مقدار کم ہو یا زیادہ ،جو اس میں ملائی گئی ہو۔کیونکہ جب کوئی جامد چیز مائع میں ملائی جاتی ہے تو وہ بھی مائع ہی بن جاتی ہے۔[76]

  • مجلس الأوروبی للإفتاء والبحوث(European Council for Fatwa and Research) نے عالمِ اسلام میں مِلک بینک کے قیام  اور فروغ کی روک تھام کے متعلق انٹر نیشنل فقہ اکیڈمی جدہ کی طرف سے پیش کردہ قرارِ داد پر نظرِ ثانی کی اپیل کی اور قائلینِ حرمت کے رد میں رسالہ لکھا اور آخر میں لکھا کہ :

اس بارے میں ہمارا نقطہ نظر  ڈاکٹر یوسف القر ضاوی ، الشیخ عبداللطیف حمزہ اور الا ستاذ مصطفی الزرقا﷭کی رائے کے موافق ہی ہے( یعنی ہم بھی اس کے جواز  ہی کا فتوی دیں گے) کیونکہ اس کے فوائد بہت عظیم ہیں اور حیات انسانی کے تحفظ کے لیے مِلک  بینک کی خدمات بھی قابل تحسین ہیں۔پھر ایسے مراکز سے بچوں کو دودھ پلانے سے حرمت کا وقوع  بھی نہیں ہوتا کیونکہ اس میں نہ تو دودھ پلانے والی عورت معلوم ہوتی ہے اورنہ رضاعت کی تعدا د کے متعلق کچھ علم ہوتاہے۔[77]

نتائجِ بحث:

تفصیلی بحث کے بعدنتیجتاًیہ بات سامنے آتی ہے کہ مِلک  بینک کے معاملے میں شریعت کا لحاظ رکھا جائے گا اور شرعی لحاظ سے مِلک  بینک رضاعت کی شروط پر پورا نہیں اترتا،مثلاً اس میں :

  • عددِ رضعات کی معرفت معدوم ہے
  • دودھ مختلط ہے
  • مرضعات نامعلوم ہیں
  • دودھ چھاتی سے بھی نہیں پیا گیا

   لہٰذامِلک  بینک سے انتفاع پررضاعت سے ہونے والی تحریم کے احکام مرتب نہیں ہوں گے اور مِلک  بینک سے حرمت ثابت نہیں ہوگی۔واللہ اعلم بالصواب

 

[1]     الموسوعة الطبعیة الفقهیة، لدکتور أحمد محمد:

[2]              Guidelines for the operation of a Donar Human Milk Bank in south

Africa, p:3 www.hmbasa.org.za/HMbASA% 20guidelines.pdf

[3]       مجلة مجمع الفقه الاسلامی،منظمة المؤ تمر الاسلامی، جدة:2/262۔264

[4]       بنوک الحلیب وعلاقتها باحکام الرضاع لدكتور محمدالهواری،المجلس اللأوروبی للإفتاء والبحوث،(European Council for Fatwa and Research) دسمبر۲۰۰۳ م، ص،۳

[5]               www.hmbasaoorg,za/history.history.html

[6]              http://www.bbc/co/uk/urdu/india/ story /2007/11/071120   milk_bank_

awa.shtml

[7]               www.texasmilkban.org//contant/history.milk.banking

[8]      بنوک الحلیب وعلا قتها بأحکام الرضاع :24

[9]    https://www.bbc.com/urdu/articles/ckddd0jgq

[10]   صحيح ابن خزيمة (3/ 237):1986

[11]             http://pakcyber.net/phc.gov.pk/site/primary-health-care-urdu-

                guidelines/15-maan-ka-dudh.html

[12]             http://www.unmultimedia.org/radio/urdu/archives/883/

[13]             http://beta.jang.com.pk/JangDetail.aspx?ID= 88574

[14]             http://www.qalamkarwan.com/2011/07/no-subtitute.of-breast-milk.html

[15]             http://dinafree.do.am/forum/13-20-1

[16]              http://96.0.221.132/ur/index.php?page=SubPage&MasterPageID=13&ID=11

[17]              مجلة مجمع الفقه الاسلامی:2/261

[18]             http://www.express.pk/story/146286 http://www:bbc.co.uk/urdu /

 entertainment/2013/06/130629 breqstfeeding study nj.shtml

[19]             Marieb, Elaine, Humain Anatomy & Psychology, Loose Leaf, 2012, :599

[20]             البقرة:233؛  الطلاق:65

[21]              بدایةالمجتهد و نهایة المقتصد:3/147

[22]              المبسوط:15/125

[23]              مواهب الجلیل فی شرح مختصر خلیل:4/265

[24]              المبسوط: 23/170

[25]             المغنی لابن قدامة :4/196

[26]            المبسوط:15/125

[27]            سنن  ابی داؤد:3488

[28]            الحاوی الکبیر للماوردي :5/333

[29]             العنایة شرح الهدایة لمحمود بن أحمد بن موسىٰ : 6/423

[30]             بدایة المجتهد ونهایة المقتصد:3/147

   [31]            المغنی:4/196

[32]              بچے کے حلق میں دودھ ٹپکانا

[33]              بذریعہ ناک بچے کے پیٹ میں دودھ پہنچانا۔

[34]             انجکشن کے ذریعے بچے کے پیٹ میں دودھ پہنچانا  

[35]             المبسوط:5/134  

[36]             المدونة لامام مالک بن انس:2/95             

[37]             المغنی:8/173

[38]             سنن  ابی داؤد:2059

[39]             سنن الترمذی:1152

[40]             المغنی الابن قدامة:8/173

[41]             صحیح البخاری:2645

[42]             المحلی لابن حزم:10/185

[43]             صحیح مسلم:1150

[44]             التعریفات لجرجانی:1/111؛ معجم مقاییس اللغة:2/400،القاموس الفقهي:1/149

[45]             مجلة مجمع الفقه الاسلامی:2/256

[46]                المحلی:10/185

[47]             المبسوط،۵/۱۴۰ ؛ فتاوی عالمگیری (اردو)، مترجم: مولانا سید امیر علی:        ۲/۲۵۴۔۲۵۵

[48]             روضة الطالبین عمدة المفتین لنووي : 9/6

[49]             المبسوط: 5/140-141

[50]             ایضاً

[51]              حاشیة الدسوقی علی الشرح الکبیر:2/503 

[52]             روضة الطالبین عمدة المفتین:9/6

[53]             المغنی:8/175 

[54]             المبسوط:5/140؛ البحر الرائق شرح کنزالدقائق:3/245؛ الطالبین عمدة المفتین:9/4

[55]             المبسوط:5/140 ؛ البحر الرائق شرح کنزالدقائق:3/245

[56]              المبسوط:5/141

[57]             البحر الرا ئق:3/338

[58]              روضة الطالبین:9/5-9

[59]               المغنی:2/172

[60]             الشرح الکبیر،2/502

[61]             صحیح مسلم:1152

[62]             شرح القواعدالفقهیة لمصطفیٰ احمد الزرقا: 1/79

[63]             کشاف ا لقناع:5/456  

 [64]              سنن الترمذی:2518

[65]             صحیح مسلم:1599

[66]              صحیح البخاری:2640

[67]             المغنی :8/172

[68]             الاختیارلتعلیل المختار:3/120

[69]             القواعد الفقهیة وتطبیقاتها  فی المذاهب الاربعة لزحیلی:1/230

[70]             شرح القواعد الفقهیة:1/205

[71]             تلقیح الافهام ا لعلیة شرح القواعد الفقهیة لولید بن راشد السعیدان:3/11

[72]             مجلة مجمع الفقه الاسلامی:2/290

[73]             فتاوی قطاع الافتاء بالکویت:4/122

[74]             صحیح البخاری:6126

[75]              صحیح البخاری:6124

[76]             جریدة الاهرام المصریة، تاریخ::23/08/1983؛ تاریخ:29/08/1983

[77]               بنوک الحلیب وعلا قتها باحکام الرضاع :24