عید غدیر

عید غدیر کے نام سے شیعہ ۱۸ ذو الحجہ کو ایک عید مناتے ہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غدیر خُم کے مقام پر نبی کریمﷺ نے سیدنا علی﷜ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :

«مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَهٰذَا عَلِيٌّ مَوْلَاهُ »

’’جس کا میں مولا ہوں،اس کا علی مولا ہے۔‘‘

اس فرمان نبوی کو سیدنا علی﷜ کی خلافت بلا فصل کے ثبوت پر پیش کیا جاتا ہے۔ حالانکہ خود سیدنا علی ﷜ یا اہل بیت میں کسی فرد بشر نے اس فرمان نبوی کو خلافت علی﷜ کے ثبوت پر بطور دلیل پیش نہیں کیا، چہ جائیکہ کہ اسے خلافت بلا فصل پر دلیل بنایا جائے!

سیدنا ابو ہریرہ﷜ کہتے ہیں:

مَنْ صَامَ یَوْمَ ثَمَانِ عَشْرَةَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ کُتِبَ لَه صِیَامُ سِتِّینَ شَهْرًا، وَهُوَ یَوْمُ غَدِيْر خُمٍّ لَمَّا أَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِیَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، فَقَالَ : أَلَسْتُ وَلِيَّ الْمُوْمِنِینَ؟، قَالُوا: بَلٰی یَا رَسُولَ اللهُ ، قَالَ:« مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: بَخٍ بَخٍ لَكَ یَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ أَصْبَحْتَ مَوْلايَ وَمَوْلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ، فَأَنْزَلَ اللهُ: اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ »[1]

’’جس نے اٹھارہ ذو الحجہ کا روزہ رکھا، اس کے نامہ اعمال میں ساٹھ مہینوں کے روزوں کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے، وہ غدیر خم کا دن تھا، رسول اللہﷺ نے سیدنا علی ﷜کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: کیا میں مومنوں کا دوست نہیں ہوں، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیوں نہیں، ضرور۔ تو آپؐ نے فرمایا : جس کا میں دوست ہوں، علی بھی اس کا دوست ہے، اس پر سیدنا عمر فاروق﷜ نے سیدنا علی ﷜ و فرمایا : واہ اے ابن ابی طالب! آپ نے اس حال میں صبح کی کہ آپ میرے اور تمام مسلمانوں کے دوست ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ ۔

تبصرہ:

یہ روایت ضعیف ومنکر ہے۔اس میں

  • علی بن سعید رملی ’’ضعیف‘‘ہے۔اسے امام دارقطنی نے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔[2]
  • مطر بن طہمان ابو رجاء وراق اگرچہ صدوق ہے، مگر اس کے حافظہ میں کمزوری تھی۔ ممکن ہے کہ اس روایت میں اس کا حافظہ اثر انداز ہو گیا ہو۔ اہل علم نے اس کے حافظہ پر کلام کیا ہے۔مثلا ً:

 امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں:

«کَانَ یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ یُشَبِّهُ مَطَرَ الْوَرَّاقَ بِابْنِ أَبِي لَیْلٰی فِي سُوئِ الْحِفْظِ»[3]

’’امام یحییٰ بن سعید ﷫ مطر وراق کو سیء الحفظ ہونے میں ابن ابی لیلیٰ کے مشابہ قرار دیتے تھے۔‘‘

امام ابن حبان﷫ نے اسے  ’’ردیء الحفظ‘‘ [4]، حافظ ابن حجر﷫نے ’’کثیر الخطا‘‘ [5]  قرار دیا ہے ۔

  • شہر بن حوشب ’’کثیر الارسال والاوھام‘‘ ہے[6]۔

اس حدیث کے بارے میں :

  • حافظ جورقانی﷫ فرماتے ہیں:

«هٰذَا حَدِیثٌ بَاطِلٌ»[7]  ’’یہ حدیث باطل ہے۔‘‘

  • حافظ ابن الجوزی﷫ فرماتے ہیں:

«هٰذَا حَدِیثٌ لَا یَجُوزُ الْاِحْتِجَاجُ بِه» [8]

’’اس حدیث سے حجت لینا جائز نہیں۔‘‘

  • حافظ ابن دحیہ کلبی﷫ فرماتے ہیں:

« هٰذَا حَدِیثٌ لَا یَصِحُّ »[9] ’’یہ حدیث ثابت نہیں۔‘‘

  • حافظ ذہبی﷫ فرماتے ہیں:

«هٰذَا حَدِیثٌ مُنْکَرٌ جِدًّا»[10] ’’یہ حدیث سخت منکر ہے۔‘‘

  • حافظ ابن کثیر﷫فرماتے ہیں:

 ’’یہ روایت منکر، بلکہ جھوٹ ہے، کیونکہ سیدنا عمر فاروق﷜  کی متفق علیہ روایت کہ اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ جمعہ کے روز عرفہ میں نازل ہوئی، کے خلاف ہے۔ اسی طرح اٹھارہ(۱۸)ذی الحجہ غدیر خم کا روزہ جو ساٹھ ماہ کے روزوں کے برابر ہے، بھی غلط اور باطل ہے۔ کیونکہ صحیح بخاری میں ہے کہ رمضان کے روزے دس ماہ کے برابر ہیں تو پھر بتائیے، ایک دن کا روزہ ساٹھ ماہ کے برابر کس طرح ہو سکتاہے، ہمارے شیخ حافظ ذہبی﷫نے ساٹھ مہینے والی روایت ذکر کر نے کے بعد اسے سخت ’منکر‘ کہا ہے، اس روایت کو حبشون خلال اور احمد بن عبداللہ بن احمد نیری (کلاهما صدوق) نے علی بن سعید رملی عن ضمری کی سند سے بیان کیا ہے۔ یہ روایت سیدنا عمر فاروق،سیدنا مالک بن حویرث، سیدنا انس بن مالک اور سیدناابو سعید خدری﷜کی روایت سے نہایت کمزور اور ضعیف اسناد سے مروی ہے۔اس کے ابتدائی الفاظ من کنت مولاہ فعلی مولاہ تو یقینا رسول اللہ کافرمان ہے : اللّٰهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ   کا اضافہ بھی مضبوط سند سے مروی ہے، رہا روزے کا مسئلہ، تو یہ بالکل درست نہیں اور اللہ کی قسم یہ آیت بھی غدیر خم کے دن نازل نہیں ہوئی، یہ تو غدیر خم سے کئی دن پہلے یوم عرفہ میں نازل ہو چکی تھی۔اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔‘‘ [11]

  • حافظ سیوطی﷫نے اس کی سندکو ’’ضعیف ‘‘قرار دیا ہے[12]۔

خلافت بلا فصل اس سے ثابت نہیں :

اس سے سیدنا علی﷜ کی خلافت ثابت نہیں ہوتی، بالفرض مان لیں کہ اس آیت سے خلافت علی﷜ ثابت ہوتی ہے، توخلافت ہم بھی مانتے ہیں، سیدنا علی﷜ اسلام کے چوتھے خلیفہ ہیں۔خلیفہ بلافصل والی بات پھر بھی ثابت نہیں ہوتی۔

سیدنا ابو سعید خدری﷜بیان کرتے ہیں :

« لما نصب رسول الله (صلى الله عليه وسلم) عليا بغدير خم فنادى له بالولاية هبط جبريل عليه السلام عليه بهذه الاية:{اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَ رَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا { [المائدة : 3]»[13]

’’رسول اللہﷺ نے غدیر خم کے مقام پر علی﷜ کو کھڑا کرکے ان کی ولایت کا اعلان فرمایا، تو سیدنا جبریل﷤ یہ آیت لے کر نازل ہوئے:﴿ اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَ رَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ﴾ [المائدة : 3] آج میں نے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے،تم پر اپنی نعمت تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کیا ہے۔‘‘

تبصرہ:

یہ جھوٹی روایت ہے۔

  • یحییٰ بن عبدالحمید حمانی ضعیف ہے۔

حافظ ابن ملقن﷫فرماتے ہیں: « ضَعَّفَهُ الْجُمْهُوْرُ»[14] ’’جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔‘‘

حافظ ہیثمی﷫فرماتے ہیں:

 «ضَعَّفَهُ الْأَکْثَرُوْنَ »[15] ’’اسے اکثر محدثین نے ضعیف کہا ہے۔ ‘‘

  • ابو ہارون عمارہ بن جوین عبدی کذاب اور متروک ہے۔

حافظ ابن کثیر﷫فرماتے ہیں:« مُضَعَّفٌ عِنْدَ الْأَئِمَّةِ»[16]

’’ائمہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔‘‘

حافظ ذہبی﷫کہتے ہیں:«اَلْأَکْثَرُ عَلٰی تَضْعِیْفِه أَوْ تَرْکِه»[17]

’’اکثر محدثین کے نزدیک ضعیف یا متروک ہے۔‘‘

  • امام حماد بن زید﷫فرماتے ہیں:

«کَذَّابًا یَرْوِي بِالْغَدَاةِ شَیْئًا وَبِالْعَشِيِّ شَیْئًا» [18]

’’یہ جھوٹا ہے، گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا رہتا تھا۔‘‘

امام یحییٰ بن معین، امام ابو حاتم اور امام ابو زرعہ رازی﷭ نے  اسے ضعیف کہا ہے۔

  • امام شعبہ﷫ فرماتے ہیں:

« كنت أتلقى الركبان أيام الجرام أسأل عن أبي هارون العبدي فلما قدم أتيته فرأيت عنده كتابا فيه أشياء منكرة [في علي] فقلت ما هذا الكتاب؟ قال هذا الكتاب حق. »[19]

’’میں قافلوں سے ملاقات کرکے ابو ہارون عبدی کے بارے میں پوچھا کرتا ، جب وہ آیا، میں نے اس کے پاس ایک کتاب دیکھی، جس میں سیدنا علی﷜ کے بارے میں منکر روایتیں تھیں، میں نے پوچھا:  یہ کیا ہے؟ اس نے کہا:یہ کتاب حق ہے۔ ‘‘

امام احمد بن حنبل﷫[20]اور امام نسائی﷫[21] نے اسے  ’’متروک الحدیث ‘‘ ور امام جوزجانی﷫[22] نے اسے ’’جھوٹا، افترا باز‘‘قرار دیا ۔اس پر اس کے علاوہ بھی ڈھیروں جروح ہیں ۔یہ غالی شیعہ تھا۔

اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ یہ آیت کریمہ جمعہ کے دن یوم عرفہ کو نازل ہوئی، غدیر خم کا واقعہ حجۃ الوداع کے بعد مدینے کے راستے میں پیش آیا، نہ کہ یوم عرفہ کو۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ یہ آیت غدیر خم کے موقع پر نازل ہی نہیں ہوئی، اس سے سیدنا علی  ﷜کا خلیفہ بلافصل ہونا بھی ثابت نہیں ہوتا۔

  • شیخ الاسلام ابن تیمیہ﷫ (۷۲۸ھ) فرماتے ہیں :

’’اس مہینے میں ایک حادثہ پیش آیا، جیسا کہ دیگر مہینوں میں بھی بہت سے حادثے پیش آئے۔لیکن اس کو ایک خاص موسم نہیں بنا لیا گیا اور نہ اسلاف ان مہینوں کی تعظیم کرتے ہیں، جیسے ۱۸ذی الحجہ کو رسول اللہﷺ نے غدیر خم سے واپسی پر خطبہ دیا، آپ نے اس میں وصیت کی کہ کتاب اللہ کو لازم پکڑیں اور اہل بیت کو لازم پکڑیں، جیسا کہ امام مسلم نے اپنی صحیح میں سیدنا زید بن ارقم﷜سے روایت کیا ہے۔ تو بعض اہل بدعت نے اس میں اضافہ کر دیا، کہنے لگے : آپﷺ نے اس وقت سیدنا علی﷜ کی خلافت پر واضح نص ارشاد فرمائی تھی۔ آپ نے ان کا بستر بچھایا، انہیں اونچی جگہ پر بٹھایا اور پھریہ اہل بدعت ایسا کلام اور عمل بیان کرتے ہیں، جس کے اضطرارسے واضح ہوتا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ صحابہ نے یکساں ہو کر یہ نص چھپا لی، وصی سے اس کا حق چھین لیا اورفسق وکفر کے مرتکب ہوگئے، سوائے ایک چھوٹی سی جماعت کے۔ تو بنو آدم کی فطرت اور صحابہ کی امانت و دیانت دیکھیں اور یہ دیکھیں کہ رسول اللہﷺنے ان پر بیان حق واجب کیا تھا، تو قطعی طور پر یہ پتہ چل جاتا ہے کہ نص وغیرہ چھپا لینا ممکن ہی نہیں ہے۔ تو یہاں مسئلہ امامت کا بیان مقصود نہیں ہے، بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ اس دن کو عید بنانا بدعت ہے، جس کی کوئی اصل نہیں۔ سلف اور اہل بیت میں سے کسی نے اس دن کو عید نہیں بنایا، کیونکہ عیدمنانا شریعت ہے اور شریعت میں اتباع واجب ہے۔ نئی عید نکالنا درست نہیں۔

 رسول اللہﷺنے مختلف ایام میں کئی خطبے دیئے، کئی عہد کئے، کئی واقعات پیش آئے، جیسے غزوہ بدر، غزوہ حنین، خندق، فتح مکہ، دخول مدینہ، ہجرت وغیرہ کے واقعات ہیں، اسی طرح کئی ایسے خطبے ہیں، جن میں آپﷺنے قواعد دین بیان کئے، لیکن ان دنوں میں عید نہیں بنائی گئی۔ یہ نصاریٰ کی سنت ہے، جو عیسیٰ﷤ کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو عید بناتے ہیں، یہود کا بھی طریق کار ہے۔ عید منانا شریعت ہے اور شریعت کی پیروی کی جاتی ہے، دین میں اس چیز کا اضافہ نہیں کیا جاتا، جو اس میں ہے ہی نہیں۔‘‘[23]

  • حافظ ابن کثیر﷫ (۷۷۴ھ) فرماتے ہیں:

«في عَاشُورَاءَ عَمِلَتِ الرَّوَافِضُ بِدْعَتَهِمْ،وَفِي یَوْمِ غَدِیرِ خُمٍّ عَمِلُوا الْفَرَحَ الْمُبْتَدَعَ»[24]

’’عاشوراء میں روافض نے بدعات جاری کیں، غدیر خم والے دن  وہ عید مناتے ہیں، جو بدعت ہے۔‘‘

  • علامہ ابن دقیق العید﷫ ( ۷۰۲ھ)فرماتے ہیں :

’’ہم شعارِ دین میں نئے نئے کام ایجاد کرنے سے روکتے ہیں، جیسا کہ رافضیوں نے ’’عید الغدیر‘‘کے نام سے تیسری عید گھڑ لی ہے۔ بطور شعار کسی خاص وقت اور ہیئت پر کوئی اجتماع قائم کرنا بدعت ہے، اسی طرح کسی خاص ہیئت اور طریقہ پر مشروع عبادت میں اس خیال سے زائد چیز داخل کردیناکہ یہ عمومی دلائل سے ثابت ہے، بالکل درست نہیں، کیونکہ عبادات تعبدی ہیں اور ان کے دلائل توقیفی ہیں[25]۔‘‘

  • علامہ مقریزی﷫ (۸۴۵ھ) لکھتے ہیں :

«اِعْلَمْ أَنَّ عِیْدَ الْغَدِیرِ لَمْ یَکُنْ عِیدًا مَّشْرُوعًا، وَلَا عَمِلَه أَحَدٌ مِنْ سَالِفِ الْأمَّةِ الْمُقْتَدٰی بِهمْ، وَأَوَّلُ مَا عُرِفَ فِي الْإِسْلَامِ بِالْعِرَاقِ أَیَّامَ مُعِزِّ الدَّوْلَةِ عَلِيِّ بْنِ بَوَیْهٍ، فَإِنَّه أَحْدَثَه فِي سَنَةِ اثْنَتَیْنِ وَخَمْسِینَ وَثَلَاثِمِائَةٍ فَاتَّخَذَهُ الشِّیعَةُ مِنْ حِینَئِذٍ عِیدًا»[26]

’’یاد رکھئے کہ عید غدیر شرعی عید نہیں ہے، اسلاف امت میں سے کسی نے یہ عید نہیں منائی، حالانکہ وہ قدوہ تھے۔ یہ عید سب سے پہلے اسلام میں معز الدولہ نے عراق کے اندر متعارف کروائی، یہ بدعت اس نے ۳۵۲ھ میں جاری کی، اس وقت سے لے کر آج تک شیعہ یہ عید مناتے ہیں۔‘‘

 

[1]              تاریخ بغداد للخطیب:8/290، الأمالي للشّجري : 259,146,42/1.

[2]                من تکلم فیه الدارقطني لابن زُرَیق : 2/93

[3]                 العِلل ومعرفة الرجال : 852

[4]                مشاهیر علماء الأمصار، ص 153

[5]              تقریب التهذیب : 6699

[6]                تقریب التهذیب لابن حَجَر : 2830

[7]               الأباطیل والمَناکیر :2/367

[8]                  العِلل المُتناهیة :1/223

[9]               أداء ما وجب:49

[10]              البِدایة والنّهایة لابن کثیر :7/680

[11]              البدایة والنّهایة:5/ 214

[12]               الدر المنثور:2/457، وفي نسخة :3/ 19

[13]             تاریخ دِمَشق لابن عساکر :42/ 237

[14]              البدر المنیر :3/ 224

[15]                فیض القدیر للمَناوي :6/ 69

[16]               تفسیر ابن کثیر :3/ 21

[17]               میزان الاعتدال:3/ 173

[18]               الجرح والتّعدیل لابن أبي حاتم :6/ 364

[19]               الجرح والتّعدیل لابن أبي حاتم :6/ 363، وسنده صحیحٌ کالشمس

[20]               سوالات ابن هاني : 2270

[21]               کتاب الضّعفاء والمتروکین : 476

[22]              أحوال الرّجال : 146

[23]              اِقتضاء الصّراط المستقیم: 2/ 123-122

[24]             البِدایة والنِّهایة :15/ 317

[25]              إحکام الأحکام شرح عمدة الأحکام :1/ 200

[26]              المَواعظ والاعتبار بذکر الخِطَط والآثار :2/ 255-254