مساجد میں غیر مسلم کو اپنی عبادت کی اجازت دینے کا مسئلہ
مساجد میں غیر مسلم کو اپنی عبادت کی اجازت دینے کا مسئلہ
کچھ عرصہ پہلے فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں ایک عیسائی شر پسند نے قرآن مجید کے اوراق جلائے ، مسلمانوں کو خبر ہوئی تو ان کا طیش میں آنا ایک فطری بات تھی، البتہ انہوں نے قانونی راستہ اختیار کرنے کی بجائے عیسائی کمیونٹی سے اس کا بدلہ لینے کا پروگرام بنالیا، ان کے گرجوں اور بعض گھروں کو آگ لگا دی ، جس سے کافی مالی نقصان ہوا لیکن فریقین جانی نقصان سے بچ گئے ۔ الحمد لله علی ذلک گرجا گھر جلنے کے سبب کرسچن کمیونٹی کو ہفتہ وار سروس (عبادت) کرنے کا مسئلہ درپیش تھا ، تو وہاں کی ایک اہل حدیث مسجد کی انتظامیہ نےرواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عیسائی کمیونٹی کو اپنی مسجد میں عبادت کرنے کی پیش کش کردی ، جس پر علماء کرام میں یہ بحث چھڑ گئی کہ آیا غیر مسلم (اہل کتاب) کو مسجد میں عبادت کی اجازت دی جاسکتی ہے یا نہیں ؟ بعض لوگ اس حق میں تھے اور بعض اس کے خلاف ہیں۔ جائز کہنے والوں کی دلیل یہ تھی کہ موجودہ حالات ایسی ہی رواداری کا تقاضا کرتے ہیں، مزید یہ کہ ایک روایت میں آتا ہے کہ نجران سے عیسائی علماء کا ایک وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ،جس کا تذکرہ سورۃ آل عمران میں موجود ہے ، اراکین وفد کئی دنوں تک مدینہ میں رہے ، اتوارکے دن انہیں اپنی عبادت کرنی تھی تو نبی ﷺ نے انہیں مسجد نبوی میں عبادت کرنے کی پیش کش کی ، یا دوسری روایت کے مطابق انہوں نے از خود عبادت شروع کی لیکن رسول اللہ ﷺ نے منع نہیں کیا۔دوسرے گروہ کا موقف یہ تھا کہ ان کی عبادت میں شرکیہ الفاظ استعمال ہوتے ہیں ، اس لیے انہیں مساجد میں عبادت کرنے کی پیش کش کرنا درست نہیں ہےاور مذکورہ بالا روایت سنداً ثابت نہیں ہے ۔اس میں شک نہیں کہ اسلام مسلمانوں کو اپنی الگ شناخت قائم رکھنے کا حکم دیتا ہے ، لہٰذا مستقل طور پر مسلمانوں کا غیر مذہب کی عبادت گاہوں میں عبادت کی غرض سے جانا یا ان کا اس مقصد کے لیے مسجد کو استعمال کرنا قطعاً درست نہیں ہے ، لیکن عارضی طور پر ایمرجنسی والے حالات میں ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، جیساکہ امام شافعی اور امام ابو حنیفہ اس کی اجازت دیتے ہیں اور سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ کی رائے کے مطابق کسی خاص مصلحت پر ہی کافروں کو مساجد میں عبادت کی اجازت دی جا سکتی ہے ، جیسا کہ نجرانی عیسائیوں کے مسجد نبوی میں اپنی عبادت کرنے کے واقعہ سے علماء کرام نے استدلال کیا ہے ۔اس روایت کو سنداً ضعیف قرار دے کر ردّ کرنا درست نہیں ہے ، کیونکہ محدثین کا مشہور اصول ہے کہ تاریخ ، سیرت اور اخلاقیات کے باب میں آنے والی روایت کے لیے وہ شروط نہیں ہیں جس قدر سخت شروط روایات ِ احکام کے لیے ہیں۔اس روایت کا تعلق بھی سیرت اور تاریخ سے ہے، یہی وجہ ہے کہ امام ابن قیم سمیت کئی آئمہ نے اسے قبول کیا ہے ۔ البتہ اس طرح کی اجازت دینے سے پہلے وہاں کے ماحول کو ضرور دیکھ لینا چاہیے ، جیساکہ ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب﷾(ماہنامہ محدث کے مدیر) نے نقطہ اٹھایا کہ مسلمان جماعتوں کے مقابلے میں اہل حدیث خود اقلیت میں ہیں ، اس طرح کی پیش کش کے نتیجہ میں گرجا گروں کو آگ لگانے والے جوشیلے گروہ اہل حدیث مساجد پر بھی حملہ آور ہوسکتے ہیں ۔ مفتی جماعت شیخ عبد الستار حماد ﷾نے بڑی صائب رائے پیش کی کہ ایسی صورتحال میں عیسائی کمیونٹی کو عبادت کے لیے مسجد سے ہٹ کر شادی ہال جیسی عمارت لے کر دی جاسکتی ہے ۔ مضمون نگار کا ذاتی رجحان اگر چہ نفی اور انکار کی طرف ہے ، لیکن درست بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ غیر مسلم کا مستقل طور پر مسجد میں اپنی عبادت انجام دینا دست نہیں ہے ، اور مسجد میں ان کے دخول کو قطعی ممنوع سمجھنا بھی غلط ہے ، ہاں حالات کے تقاضے کے مطابق عارضی طور پر اس کی اجازت دی جاسکتی ہے ۔(اداہ محدث) |
مساجد، شعائر ِاسلام میں سے ہیں، روئے زمین پر مقدس ترین جگہیں اور اللہ تعالی کے محبوب ترین مقامات ہیں ۔ ان کی تعمیر کا مقصد خالص عبادتِ الٰہی بجا لانا ہے، دنیا میں آج ایک طرف مادہ پرستی، بے عملی و بد عملی کا دور ہے اور دوسری طرف مختلف ادیان کو ماننے والے عبادت کے نام پر باطل وخود ساختہ طریقۂ عبادت اور غیر اللہ کی پوجا میں مگن ہیں ، وہاں یہ مساجد توحید وسنت کے درخشندہ ستارےاور اسلام کے روشن مینارہیں کہ جن سے نورِ ایمان کی روشنی چہار سو پھیلتی ہے اور ذکر الٰہی بلند کیا جاتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے :
﴿ فِيْ بُيُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ وَ يُذْكَرَ فِيْهَا ٱسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيْهَا بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ﴾]النور: ٣٦[
”(یہ) ان گھروں (مساجد ) میں ہوتے ہیں جن کے متعلق اللہ نے حکم دیا ہے کہ ان میں اللہ کا نام بلند کیا جائے اور اس کا ذکر کیا جائے ان (مساجد) میں صبح و شام ایسے لوگ اللہ کی تسبیح کرتے رہتے ہیں۔“
اسی طرح نبی کریم ﷺ نے مسجد میں پیشاب کرنے والے اعرابی سے فرمایا تھا:
«إِنَّ هٰذِهِ الْمَسَاجِدَ لَا تَصْلُحُ لِشَيْءٍ مِنْ هَذَا الْبَوْلِ وَلَا الْقَذَرِ، إِنَّمَا هِيَ لِذِكْرِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَالصَّلَاةِ وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ»[1]
’’یہ مساجد اس طرح پیشاب یا گندگی پھیلانے کے لیے نہیں ہیں ، یہ تو بس اللہ تعالیٰ کے ذکر، نماز اور تلاوت ِقرآن کے لیے ہیں۔ ‘‘
یعنی مساجد کی تعمیر کا مقصد خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت،اس کا ذکر،نماز اورقراءت قرآن ہے اور یہی ان کے قیام کی غرض وغایت اور مطلوب و مقصود ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿ اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ وَ لَمْ يَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ فَعَسٰۤى اُولٰٓىِٕكَ اَنْ يَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِيْنَ۰۰۱۸﴾ [التوبة: 18]
’’اللہ کی مساجد کو وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ پراورقیامت پر ایمان لاتے ہیں، نماز پڑھتے ، زکوة دیتے ہیں اوراللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ امید ہے یہی لوگ ہدایت یافتہ لوگوں میں (داخل) ہوں‘‘
مزید ایک مقام پر فلسفہ جہاد بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِيَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ يُذْكَرُ فِيْهَا اسْمُ اللّٰهِ كَثِيْرًا﴾ [الحج: 40]
’’اور اگر خدا لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا تو (راہبوں کے) صومعے، (عیسائیوں کے) گرجے، (یہودیوں کے) عبادت خانے اور مسجدیں جن میں خدا کا بہت زیادہ ذکر کیا جاتا ہے ویران ہوچکی ہوتیں۔‘‘
اس کے علاوہ قرآن مجید میں جہاں بھی مساجد کا تذکرہ ہوا ہے وہاں ان میں اللہ کا بکثرت ذکر کرنے کا لازماً تذکرہ ہواہے ۔ اس کے علاوہ ایک جگہ پر واشگاف الفاظ میں مساجد کے اندر غیر اللہ کی پکار سے منع کیا گیا ہے، فرمایا:
﴿ وَّ اَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًاۙ۰۰۱۸﴾.[ الجن : ١٨ ]
’’اور یہ مسجدیں صرف اللہ ہی کے لئے خاص ہیں لہٰذا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔‘‘
یہ آیتِ کریمہ صریح نص ہے کہ مساجد خالص اللہ تعالی ٰ کی عبادت کے لیے ہیں ،یہاں دین ِاسلام کی حقیقی تعلیمات کے مطابق ہی اقوال وافعال کی اجازت ہے،دیگر ادیان چاہے اہلِ کتاب ہی کیوں نہ ہوں ان کی عبادات سے انہیں پاک رکھا جائے گا ۔
لہٰذا اگر مساجد میں غیر اللہ کی عبادت کی جائے یا اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کے پیروکار بھی عبادت کریں جو کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بعد سراسر کفر ہےتو یہ مساجد کے اصل مقصد کی خلاف ورزی ہوگی۔ نیز یہ کہ جب مساجد میں ظاہری نجاست سے رسول اللہ ﷺ نے منع کردیا ہے تو باطنی نجاسات یعنی کفریہ وشرکیہ افعال کا ارتکاب مساجدمیں بالاولیٰ منع ہو گا۔
امام قتادہ بن دعامہ تابعی (١١٧هـ) مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
« كَانَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَىٰ إِذَا دَخَلُوا كَنَائِسَهُمْ وَبِيَعَهُمْ أَشْرَكُوا بِاللهِ، فَأَمَرَ اللَٰهُ نَبِيَّهُ أَنْ يَخْلِصَ لَهُ الدَّعْوَةَ إِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ»[2]
’’یہود و نصاریٰ جب اپنےکلیساؤں اور عبادت گاہوں میں جاتے تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو حکم دیا کہ وہ جب مسجد میں جائیں تو خالص اللہ تعالی کو پکاریں۔‘‘
اسی طرح امام ابن جریج سے مروی ہے :
«إنّ اليهود والنصارى إذا دَخلوا بِيَعهم وكنائسهم أشركوا بربّهم، فأمَرهم أن يُوَحِّدوه»[3]
’’یہود و نصاریٰ جب اپنے گرجا گھروں اور معبد خانوں میں جاتے تو اپنے رب کے ساتھ شرک کرتے تھے تو اللہ تعالی نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ اللہ تعالی کی وحدانیت پر کاربند رہیں۔‘‘
نیز حافظ ابن رجب (٧٧٥ھ) فرماتے ہیں :
«فالجمع بين فعل الصلاة التي وضعت لأجلها المساجد، بين الكفر المفعول في الكنائس في بقعة واحدة أولى بالنهي عنه، فكما أنهم لا يُمكّنون من فعل عباداتهم في المساجد ، فكذا لا ينبغي للمسلمين أن يصلوا صلواتهم في معابد الكفار التي هي موضع كفرهم »[4]
’’نماز کہ جس کے لیے مساجد بنائی گئی ہیں اس کی ادائیگی اور کلیساؤں (چرچوں) میں کیے جانے والے کفر کو ایک ہی جگہ جمع کر دینا ممنوع ہونے کے زیادہ لائق ہے ۔لہذا جس طرح کفار کو اجازت نہیں دی جاتی کہ وہ اپنی عبادات مساجد میں ادا کریں اس طرح مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ کفار کے عبادت خانوں میں جو کہ کفر کا گڑھ ہیں وہاں اپنی نماز نہ ادا کریں۔‘‘
یہاں پر اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اسلامی ریاست میں اگرچہ غیر مسلم اقلیتوں کو مذہبی آزادی ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود مسلمان عوام اور نسلِ نو کےدین کی حفاظت اور ان کے فتنے میں پڑنےسے حفظِ ماتقدم کے طور پر انہیں اپنی عبادات علی الاعلان کرنے یا اپنے مقدسات کو ظاہر وعام کرنے سے روکا گیا ہے،اسی لیے سیدنا عمر نے نصاریٰ (عیسائیوں) سے معاہدہ کرتے وقت جو شروط رکھی تھیں، ان میں سختی کے ساتھ تنبیہ تھی کہ وہ اپنی عبادت کو چھپا کر رکھیں گے، چنانچہ اس میں شرط تھی:
«أَنْ لا نَضْرِبَ نَوَاقِيسَنَا إِلا ضَرْبًا خَفِيفًا فِي جَوْفِ كَنَائِسِنَا، وَلا نُظْهِرَ عَلَيْهَا صَلِيبَنَا، وَلا نَرْفَعَ أَصْوَاتَنَا فِي الصَّلاةِ، وَلا الْقِرَاءَةِ فِي كَنَائِسِنَا فِيمَا يَحْضُرُهُ الْمُسْلِمُونَ، وَأَنْ لا نُخْرِجَ صَلِيبَنَا وَلا كِتَابَنَا فِي سُوقِ الْمُسْلِمِينَ»[5]
’’ہم اپنے ناقوس پست وہلکی آواز میں اپنے کلیساؤں کے اندرونی حصے میں بجائیں گے، اپنی صلیب ظاہر نہیں کریں گے، مسلمانوں کی موجودگی میں اپنے چرچ میں بھی اپنی عبادت وقراءت کی آواز بلند نہیں کریں گے، اپنی صلیب اور کتاب مسلمانوں کے بازار میں نہیں لائیں گے۔‘‘
ان شروط پر علمائے امت مثلاً حافظ ابن حزم اور امام ابن تیمیہ نے اجماع نقل کیا ہے[6]۔
سیدنا عمر کے اس معاہدے اور اس پر مسلمانوں کے اجماع سے معلوم ہوا کہ مسلم ریاست میں یہود ونصاریٰ عبادت صرف اپنی عبادت گاہوں میں کریں گے لہٰذا مساجد کے دروازے ان کے لیے کھولنا اور ان میں اپنی باطل وشرکیہ عبادت کو سرانجام دینے کے مواقع فراہم کرنا سیدنا عمر کے مذکورہ بالا معاہدے میں ملحوظ رکھی گئی حکمت کے بھی خلاف ہےاور ہماری آئندہ نسل کے لیے خطرے کا باعث بھی ہے۔
یہاں یہ بات بھی ملحوظِ خاطر رہنی چاہیے کہ بعض اہلِ علم جیسے حافظ ابن قیم (751ھ ) نےوفدِ نجران کے مسجد نبوی میں عبادت کرنے کے کتبِ سیرت میں وارد شدہ واقعے کو صحیح قرارد یا [7] اور اس کی بنیاد پر اس معاملے میں جواز کی رائے اپنائی ہے ، انہوں نے بھی بامر مجبوری اور کسی عارضی ضرورت کے پیشِ نظر ہی اس کی اجازت دی ہے ، چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
«وفيها: تمكين أهل الكتاب من صلاتهم بحضرة المسلمين وفي مساجدهم أيضًا إذا كان ذلك عارضًا، ولا يمكَّنون من اعتياد ذلك»[8]
”اس قصے سے مسلمانوں کی مساجد اور ان کی موجودگی میں اہل ِ کتاب کو عبادت کی اجازت دے دینا بھی ثابت ہوا ،جب یہ عارضی طور پر ہواور انہیں مستقل عادت بنانے کی اجازت نہ دی جائے۔ “
لیکن جس روایت کو یہاں بنیاد بنایا جاتا ہے وہ عام کتبِ احادیث واحکام میں وارد نہیں ہوئی، بلکہ بعض مؤرخین و مفسرین نے اسے معضل ومنقطع اسانید کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس کی تین بنیادی اسانید ہیں:
پہلی سند
«قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: وَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: لَمَّا قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم الْمَدِينَةَ... »[9]
یہ سند معضل یعنی سخت منقطع ہے،محمد بن جعفر بن زبیر اتباع تابعین میں سے ہیں ان کی صحابۂ کرام سے روایت منقطع ہوتی ہے اور نبی کریم ﷺ تک تو کم از کم دو راویوں کا واسطہ ہوتا ہے، حافظ ابن حجرنے انہیں طبقۂ سادسہ میں ذکر کیا ہے کہ جن کی صحابہ کرام سے ملاقات نہیں ہے[10]۔ ان کی روایت صحابہ سے مرسل ہوتی ہے[11]۔لہٰذا ان کا بلاواسطہ عہد نبوی کا یہ واقعہ بیان کرنے میں صریح انقطاع ہے۔
دوسری سند
علامہ ابو اسحاق ثعلبی نے اسے یوں روایت کیا ہے:«أحمد بن نصر، ثنا يوسف بن بلال، عن محمَّد بن مروان ، عن الكلبي... »
یہ سند کئی ایک وجوہات کی بنا پر سخت ضعیف ہے، مثلاً احمد بن نصر اور یوسف بن بلال کی کوئی توثیق نہیں ملتی، اور محمد بن مروان سدی اور محمد بن سائب الکلبی دونوں متہم بالکذب راوی ہیں۔اس سند میں انقطاع بھی ہے۔
تیسری سند
علامہ ثعلبی نے ہی اسے یوں روایت کیا ہے : «أحمد بن محمَّد بن منصور، ثنا أحمد بن إسحاق بن إبراهيم، ثنا الحسن بن محمَّد بن موسى، عن عمار بن الحسن، عن عبد الله بن أبي جعفر الرازي، عن أبيه، عن الربيع بن أنس ... »
یہ سند بھی کئی وجوہ سے ساقط الاعتبار ہے:
احمد بن محمد بن منصور،احمد بن اسحاق بن ابراہیم اور حسن بن محمد بن موسیٰ تینوں غیر معروف راوی ہیں ، ان کی توثیق نہیں ملتی،عیسی بن ابی عیسی ابو جعفر رازی سيّءالحفظ ہیں اور ان کی ربیع بن انس سے بیان کردہ روایت مضطرب ہوتی ہے[12]۔نیز ربیع بن انس تابعی صغیر ہیں اور اس روایت کو مرسل بیان کر رہے ہیں۔
کئی ایک علماء نے اس قصے پر ضعف کا حکم لگایا ہے، چنانچہ حافظ ابن رجب فرماتے ہیں :
«هذا منقطع ضعيف، لا يحتج بمثله »[13]
’’یہ ضعيف ومنقطع ہے، اس جیسی روایت کو دلیل نہیں بنایا جاتا۔‘‘
اسی طرح زاد المعاد کے محققین،ابن اسحاق والی روایت کے متعلق فرماتے ہیں:
«رجاله ثقات، لكنه منقطع»[14] ” سند کے راوی ثقہ ہیں لیکن یہ سند منقطع ہے۔“
شیخ محمد ضیاء الاعظمی فرماتے ہیں:
«وأما قصة صلاة وفد نجران في مسجد رسول الله ﷺَ....فهو ضعيف» [15]
”رہاوفدِ نجران کا مسجدنبویﷺ میں نماز پڑھنے کاقصہ۔۔۔۔ تو وہ ضعیف ہے۔“
مذکورہ بالا واقعہ کی واحد دلیل یہ روایت سنداً ضعیف ومنقطع ہونے کےساتھ درایۃً بھی درست نہیں کیوں کہ یہ مذکورہ بالا قرآنی آیات کے صریح مخالف ہے کہ جن میں مساجد میں غیر اللہ کی عبادت سے روکا اور اہل ِکتاب کی مخالفت کا حکم دیا گیا ہےاور ان صحیح احادیث کے بھی خلاف ہے جن میں عیسی کے صلیب توڑنے کا ذکر ہے ۔
یہاں منکرینِ حدیث کے لیے بھی قابلِ غور بات یہ ہے کہ ان کے ہاں صحیحین کی مستند ترین احادیث قرآن کے خلاف نظر آنے پر نا قابلِ عمل قرار پاتی ہیں ، لیکن یہاں واضح قرآنی آیت کے خلاف خبر ِواحد جو تاریخی، منقطع و معضل سند سے ہے درایتًا بھی درست نہیں اسے مذہبی رواداری کے نام پر پیش کیا جا رہا ہے ۔
صورت حال کا تجزیہ
آخر میں بہتر معلوم ہوتا ہے کہ ایک خاص واقعے کے پسِ منظر میں سوشل میڈیا پر اس مسئلے کے متعلق جوبعض آراء سامنے آئی ہیں ،ان کا مختصرًا تجزیہ بھی پیش کر دیا جائےتاکہ کوئی اشکال باقی نہ رہے۔
پہلی رائے یہ سامنے آئی کہ موجودہ عالمی صورت حال اور مسلمانوں کے رواداری کے تاثر کو سامنے رکھتے ہوئےاس مسئلے کو مصالح عامہ کی نظر سے دیکھنا چاہیے، اس وقت اسلام کی جو تصویر دنیا میں پیش کی جا رہی ہے اور مسلمانوں کو تشدد پسند ظاہر کر کے لوگوں کو اسلام سے متنفر کیا جا رہا ہے،دشمنانِ اسلام کی طرف سے مسلمانوں کے چہرے سے ڈالی گئی اس گرد کو صاف کرنےاور اس غلط پروپیگنڈا کے منفی اثرات کو زائل کرنےکی خاطر کچھ خاص وقت کے لیےغیر مسلموں کو مساجد میں داخلے کی اجازت دینا اچھا پیغام پہنچائے گا، مظلوم غیر مسلموں کی تالیف قلبی اور اسلام سے قرب کا باعث بنے گا ۔
اگر موجودہ عالمی صورت حال پر نظر ڈالی جائے تویہ رائے درست معلوم نہیں ہوتی ،وجہ یہ ہے کہ اگر اس فعل کے مفاسد دیکھے جائیں تو معلوم ہو گا کہ اس کے مفاسد اس کے مصالح سے بڑھ کر ہیں، لبرلز اور سیکولرز لوگ پہلے سے ہی پوری قوت کے ساتھ وحدتِ ادیان اور تقارب ادیان کی کوششوں میں مگن ہیں، وہ اس سعی میں ہیں کہ ملت ابراہیمی کے نام پر اسلام ، یہودیت اور نصرانیت کو ملا کر ایک دین بنا دیا جائے اور بیت ابراہیمی کے نام پر ان کے لیے مشترکہ عبادت گاہیں بنادی جائیں۔ کئی علاقوں میں باقاعدہ اسلام کے تشخص کو نقصان پہنچانے کے لیے اس پر عمل درآمد بھی ہو چکا ہے ۔ لہٰذا مسلمانوں کی نسل نو کی فکری بے راہ روی کے لیے ایسے اقدامات اب نہ سہی مستقبل میں خطرناک حد تک نقصان دہ ہیں ۔
یاد ر ہے کہ کسی مسئلے میں مصالح و مفاسد کا فیصلہ اتنا آسان نہیں بلکہ مصالح و مفاسد میں موازنہ کرتے وقت دو شرطیں لازم اور اہم ہیں: مصالح و مفاسد کا برابر ہونا اور مصلحت کا شرعی ہونا۔ جبکہ یہاں دونوں مفقود ہیں، کفار سے خیر سگالی کوئی شرعی مصلحت نہیں اور نہ ہی یہ مصالح اوپر بیان کردہ مفاسد کے برابر ہیں بلکہ فساد کا پلڑا زیادہ وزنی ہے ۔ لیکن اگر بر سبیل تنزل مصالح و مفاسد کا موازنہ بھی کیا جائے تو معروف قاعدہ ہے :
«دفع المفاسد أولى من جلب المصالح »’’مفاسد کو دور کرنا مصالح کے حصول پر مقدم ہے۔‘‘
ایک دوسری را ئے ہے کہ مسلمان فرقوں میں سے بعض کے افعال شرک پر مبنی ہوتے ہیں توجب انہیں مساجد میں آنے سے منع نہیں کیا جاتا تو اسی اصول پر اگر غیر مسلموں کو اجازت دی جائے تو اس میں کیا حرج ہے؟
یہ رائے بھی کسی ٹھوس بنیاد پر قائم نہیں،کیونکہ کسی کلمہ گو مسلمان کو جو اہل ِقبلہ میں سے ہے اور کسی شرکیہ فعل کا مرتکب ہے ،وہ اصولاً مسلمان شمار ہوتاہے کیونکہ اس کی تکفیر معین شروط و موانع کی محتاج ہوتی ہے اسے دینِ اسلام کے منکر اور ادیانِ باطلہ ومحرفہ کے حاملین سے ملا دینا نہایت درجے کی بے اصولی ہے ۔
اسی طرح بعض لوگ غیر مسلموں کے مساجد میں داخلے اور ان کا مسجد میں آکر عبادت کرنے کےدرمیان فرق نہیں کر سکے اور غیر مسلموں کے مسجد میں داخلے کے عمومی دلائل اور اس پر عرب علماء کے فتاویٰ جات کو مساجد میں عبادت کے جواز پر پیش کرنا شروع کردیا حالانکہ یہ بات اہلِ علم پر مخفی نہیں کہ غیر مسلم مسجد میں داخل ہو سکتا ہے یا نہیں؟ یہ الگ بحث ہے جو فقہاء کے ہاں معروف و معلوم ہے ۔ جبکہ زیر بحث مسئلہ ان کے مسجد میں آ کر اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے سے متعلق ہے، یہ بالکل الگ مبحث ہے ۔
خلاصۂ کلام
درج بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ مساجد خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے ہیں اور راجح موقف یہی ہے کہ ان میں کفار کو اپنی عبادات یا مذہبی سرگرمیاں سر انجام دینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آخر میں بطورِ خلاصہ مفتی جماعت ،حافظ عبدالستار الحماد ﷾ کی رائے نقل کر دی جائے وہ فرماتے ہیں:ہماری مساجد میں غیر اللہ کی پوجا پاٹ تو نہیں ہونی چاہیے ،نہ کسی کو دعوت دی جائےاور نہ وہ خود آکر ہماری مساجد میں غیر اللہ کی پوجا پاٹ کریں،یہ جو عیسائیوں کا معاملہ ہے جب ہم سمجھتے ہیں کہ ان کاقبلہ ہی الگ ہے ۔۔۔لہٰذا عیسائیوں کے بارے میں ہم یہ نرم گوشہ رکھیں کہ ان کو اپنی مساجد میں آنے کی دعوت دیں یا وہ انفردی طور پرآئیں اور اپنے دین باطل کی آبیاری یا نشوونما ہماری مسجد میں آ کر کریں تو اس کی اجازت تو کسی صورت میں نہیں ہونی چاہیے۔۔۔ اگر کسی نے کوئی رواداری کرنی ہے تو وہ مسجد سے کوئی الگ جگہ لے کردے دے تاکہ جب تک ان کا عبادت خانہ یا گرجا تعمیر نہیں ہوتا، اس وقت تک وہ اپنے طریقہ کے مطابق عبادت کرتے رہیں لیکن اپنی مساجد میں انہیں آنے کی دعوت دینا یا کوئی غیر مسلم انفرادی طور پر مسجد میں آ کر عبادت کرتا ہے تو اس کی بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
[1] صحیح مسلم : ٦٦١/٢٨٥
[2] تفسیر عبد الرزاق: ٣/ ٣٥٤، جامع البيان للطبري: ٢٣/ ٣٤١ وسنده صحیح ، امام شمس الدین قرطبی (٦٧١هـ) نے اس قول کو امام مجاہد تابعی سے نقل کیا ہے۔ (الجامع لأحكام القرآن: ١٩/ ٢٢)
[3] الدر المنثور للسیوطی: ٨/٣٠٦
[4] فتح الباري لابن رجب: ٣/ ٢٤٣
[5] أحكام أهل الذمة والردة للخلال: ١٠٠٠؛ معجم ابن الأعرابی : ٣٦٥، السنن الكبرى للبيهقی : ٩/ ٣٣٩
[6] مراتب الإجماع : ١١٥، إقتضاء الصراط المستقيم : ١/ ٣٦٣
[7] احکام اهل الذمة:1/262
[8] زاد المعاد : 3/ 806
[9] سيرة ابن هشام : ١/ ٥٧٤، تفسیر طبری : 5/ 172، تفسیر ابن المنذر : 1/ 109
[10] تقریب التهذیب:5782
[11] تحفة التحصيل لابن العراقی:275
[12] الثقات لابن حبان:4/228
[13] فتح الباري : ٣/ ٢٤٤
[14] زاد المعاد : ٣/ ٥٥٠
[15] الجامع الکامل : 8/761