اگست 2024ء

 شرح كتاب التوحيد (صحيح بخاری)       قسط (5)

بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى:﴿عَٰلِمُ ٱلْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِۦٓ أَحَدًا﴾ [الجن: 26]،

  اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ” وہ غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب کو کسی پر نہیں کھولتا “کا بیان ۔

﴿إِنَّ ٱللَّهَ عِندَهُۥ عِلْمُ ٱلسَّاعَةِ﴾[لقمان:34]، ﴿أَنزَلَهُۥ بِعِلْمِهِ﴾[النساء:166]،

اور ”بے شک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے“ اور ”اس نے  قرآن کو   اپنے علم کی بنا پر اتارا ہے۔“

﴿وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ﴾[فاطر:11]

’’اور جو بھی مادہ حاملہ ہوتی ہے یا بچہ جتنی ہے تو اللہ کو اس کا علم ہوتا ہے۔‘‘

﴿إِلَيْهِ يُرَدُّ عِلْمُ ٱلسَّاعَةِ﴾ [فصلت:47]

”قیامت کا علم اسی(اللہ ہی) کی طرف لوٹایا جاتا ہے۔“

قَالَ يَحْيَى: ﴿الظَّاهِرُ﴾ [الحديد:3]:عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ، ﴿وَالْبَاطِنُ﴾ [الحديد:3]: عَلَى كُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا.

’’یحیی ٰ  بن زیاد  الفراء نے کہا:  الظاهر اور الباطن کا معنی ہے  کہ وہ  ہر چیز پر علم کے اعتبار سے   حاوی ہے اور باعتبار علم  سب  سے   گہرائی رکھتا ہے ۔ ‘‘

اس باب میں امام بخاری اللہ تعالیٰ کی ذاتی  صفت’  علم‘ اور اس  کی وسعتیں بیان  کرنا چاہتے ہیں  ۔ اس مقصد کے لیے وہ  پانچ آیات ، دو اسماء حسنی اور ایک حدیث  لائے ہیں    کہ اللہ کی یہ ذاتی صفات   (ظاہر و باطن ) وسعتِ علم پر دلیل ہیں جیسا کہ ذکر اور دعا کے بارے میں رسول اللہﷺنے فرمایا کہ اللہ سے مانگتے ہوئے  زور دار انداز کے ساتھ یقین سے مانگو  کہ اللہ پر کوئی چیز بھاری نہیں «فَإِنَّهُ لَا يَتَعَاظَمُ عَلَى اللهِ شَيْءٌ»[1]

   نیز حدیث قدسی : «أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي»[2] میں اپنے بندے کے عقیدہ کے مطابق ان سے سلوک کرتا ہوں"   یہ مفہوم توحید ربوبیت اور الوہیت دونوں کے پیش ِنظر ہے ۔

اب ہم سب کی الگ الگ تشریح کرتے ہیں:

﴿عَٰلِمُ ٱلْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِۦٓ أَحَدًا﴾ 

 ’’ وہی غیب کا جاننے والا ہے سو کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیں کرتا۔‘‘

 لغوی طور پر  عالم  کے معنی جاننے والا ، الغیب کا معنی چھپی ہوئی چیز    یعنی عالم الغیب کے معنی ہیں  ذوی العقول  مخلوق کی صلاحیتوں  سے بالا تر اور   مخفی چیزوں کو جاننے والا ۔ ہم سے چھپی ہوئی ہر چیز کو  بھی  غیب  کہہ دیتے ہیں۔ اور جو چیز ہمارے سامنے ہو، جس کا ہم مشاہدہ کر رہے ہوں،   اسے حاضر اور شہادت کہتے ہیں۔   اگر غیب کا لفظ بطور اصطلاح  استعمال ہو تو اس وقت غیب سے مراد وہ چیزیں ہیں جو انسانی صلاحیتوں سے ماوراء ہیں۔ اس لیے علماء کرام ’غیب‘ کی تعریف یہ کرتے ہیں کہ  حواس(ظاہری اور باطنی ) اور عقل سے ماوراء جو علم حاصل ہوتا ہے ، وہ غیب ہے    اور  جو چیز حواس ظاہریہ  یا  باطنیہ، (وجدان و  عقل ) سے حاصل ہو، وہ غیب نہیں ہوتی ۔

اعتراض اور اس کا جواب

آیت کے مذکورہ بالا حصے سےمعلوم ہوتا ہےکہ اللہ تعالیٰ  ہی غیب کو  جاننے والے ہیں اور کسی دوسرے شخص کو غیب کا علم عطا نہیں فرماتے لہذا فرشتوں اور نبیوں کو بھی علم غیب حاصل نہیں ہے  البتہ ﴿اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ﴾  یعنی      (وحی کے ذریعے) جو اللہ کا نمائندہ ہو اسے جتنا پسند فرمائیں، بتا دیتے ہیں ۔  پس یہ کہنا درست ہے کہ رسولوں کو  وحی کے ذریعے غیب   کی (حسب حال) پسندیدہ باتیں بتائی جاتی ہیں ۔

دراصل   اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے انسان کو رہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے، خصوصاً وہ چیزیں جنہیں  ہم اللہ کی عطا کردہ صلاحیتوں (  مشاہدہ اور عقل) سے   سمجھ نہیں سکتے  ،  یا ہم اجمالی طور پر   کچھ چیزوں   کا شعور حاصل کر لیتے ہیں لیکن  ان کی تفصیلات کے لیے  ہم  علم وحی کے محتاج رہتے  ہیں لہذااللہ تعالیٰ    اپنے رسولوں کے ذریعہ ہمیں  ان پر مطلع کرتا رہتا ہے ۔

حواس ظاہریہ  یا  باطنیہ، (عقل ووجدان)  سب  انسانی صلاحتیں ہیں اور انسان کی تمام صلاحیتیں   ناقص  ہیں،اس لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں   وحی کے تابع کیا ہے  اوروحی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے رسولوں  کے ساتھ مخصوص کیا  ہے۔لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تمام رسولوں کے پاس   سارا علم غیب ہی کا  ہوتا ہے بلکہ  مذکورہ آیت میں مَنِ ارْتَضٰى کا لفظ استعمال کیا ہے کہ جسے اللہ جتنا  دینا چاہے ، کیونکہ  رسول سے پہلے من تبعیضيه استعمال کیا گیا ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر رسول کے پاس ہر طرح کا  علم غیب نہیں ہوتا ۔ ہاں کسی رسول کو  جتنا اور جیسا  علم اللہ عطا کرنا چاہے  تو عطا کر دیتا ہے ۔

  رسول   فرشتہ بھی ہوتا ہےا ور انسان بھی ۔ فرشتوں پر اللہ تعالیٰ   ان کی ذمہ داریوں سے متعلق یعنی تقدیر  کا  علم  ظاہر کرتے ہیں جبکہ شریعت سے متعلقہ علم انسانوں میں سے رسولوں پر وحی فرماتے ہیں ۔ اور دونوں کے پاس اتنا ہی علم ہوتا ہےجس قدر انہیں اللہ کی طرف سے بتایا جاتا ہے ۔

مغازی ابن اسحاق  میں ایک روایت   ہےکہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺکی اونٹنی گم ہوگئی ، کوئی خبر نہیں مل رہی تھی ، تو زید بن صلت مشہور کافر  کہنے لگا :  محمد خود کو نبی کہتے ہیں اور تمہیں آسمان کی خبریں دیتے ہیں ،جبکہ  زمین پر  اپنی اونٹنی کی انہیں خبر نہیں ہے ۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نےفرمایا :

«إِنَّ رَجُلًا يَقُولُ كَذَا وَكَذَا وَإِنِّي وَ اللهِ لَا أَعْلَمُ إِلَّا مَا عَلَّمَنِي اللهُ وَقَدْ دَلَّنِي اللهُ عَلَيْهَا وَهِيَ فِي شِعْبِ كَذَا قَدْ حَبَسَتْهَا شَجَرَةٌ »[3]

’’ فلاں آدمی نے ایسا ایسا کہا ہے ، اللہ کی قسم میں صرف وہی جانتا ہوں جو مجھے اللہ بتاتا  ہے ۔ اور تحقیق اس نے ابھی مجھے خبر دی ہے کہ میری اونٹنی  فلاں گھاٹی میں ایک  درخت میں پھنسی ہوئی ہے ۔‘‘

جب لوگ وہاں   گئے  تو ویسا ہی   پایا  جیسا کہ آپ ﷺ نے خبر دی تھی ۔  اس سے یہی معلوم ہوا کہ انبیاء﷩ کے پاس مطلق علم غیب نہیں ہوتا ۔

وحی کے ذریعے بالعموم   شریعت سے متعلق علم نازل کیا جاتا ہے جبکہ نظام کائنات اور تقدیر  سے تعلق رکھنے والی چیزوں کا  علم چونکہ ہمارے متعلق نہیں ہے لہذا وہ ہمیں نہیں بتایا گیا ، مثلاً قیامت کے قائم ہونے ، حساب وکتاب اور جنت و جہنم کا تعلق چونکہ  ایمان بالغیب  سے ہے ، اس لیے ان کا کچھ  قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ لیکن قیامت کب  وقوع پذیر ہوگی ؟ اس کا تعلق چونکہ نظام کائنات سے ہے لہٰذا اس کا علم اللہ تعالیٰ کے علاوہ نہ فرشتوں کو ہے اور  نہ انبیاء علیہم السلام کے پاس ۔

حدیث جبریل میں ہے کہ ایک مرتبہ جبریل ﷤ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے  اور آپ سے ایمان ، اسلام اور احسان کے متعلق سوال کیا ۔  آپ نے ہر سوال کا جواب دیا ۔ پھر  جبرئیل ؑ نےپوچھا قیامت کب آئے گی ؟   تو آپﷺ نے فرمایا :

« ما المسئول عنها بأعلم من السائل»[4]

’’قیامت  کے متعلق جس سے سوال کیا گیا ہےوہ  سائل سے زیادہ نہیں جانتا۔ ‘‘

گویا آپ ﷺ اور جبریل  ﷤دونوں کو اس کا علم نہیں دیا گیا تھا ۔

   ہمارے پاس وحی دو شکلوں میں موجود ہے ، ایک  قرآن کی شکل میں الفاظ الہی اور حدیث کی صورت میں   مراد الٰہی۔  قرآن مجید میں   جس  مسئلے کے متعلق  اجمالی   باتیں ہوتی ہیں ،  اس  کی  تفصیلی وضاحت حدیث میں ہوتی ہے مثلاً اوقات نماز قرآن مجید میں اس قدر   واضح نہیں ہیں جس  قدرہمیں ضرورت ہے۔  احادیث میں نہ صرف اوقات واضح کیے گئے  بلکہ اقامت صلاۃ کی ہر طرح  کی تفصیلات بیان کی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں نے حدیث کا انکار یا اس سے استفادہ نہیں  کیا  ان کے لیے نماز کے اوقات   تو کجا  نمازوں کی تعداد   بھی اختلافی   مسئلہ بن گیا ۔  چنانچہ   منکرین حدیث  کے  کئی گروہ ہیں،  ہر ایک نے اپنے اپنے فہم کے مطابق اوقاتِ  نماز طے کرنے کی کوشش کی   ، لیکن اتفاق نہیں ہوسکا ۔

﴿أَنزَلَهُۥ بِعِلْمِهِ﴾ [النساء: 166]

’’اس نے جو کچھ آپ کی طرف اتارا ہے اپنے ذاتی علم کی بنا پر اتارا ہے ۔‘‘

اس آیت میں بتایا ہے کہ  انبیاء علیہم السلام کی طرف جو  وحی کی جاتی ہے ، اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کے علم سے ہے یعنی وحی اللہ کا ذاتی  علم ہوتا ہے ۔ جب وحی کو تسلیم کیا   جائے تو  اللہ کی صفت علم کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا ۔

﴿ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُ ﴾  کی مزید تشریح

نیز قرآن میں موجود دو اسماء حسنی ’ : الظاھر،  الباطن   ‘سے بھی اللہ کے علم پر استدلال کیا گیا  ہے۔ثبوت کے لیے امام بخارینے   لغت اور   گرامر کے امام یحیی ٰ  [بن زیاد الفراء ]کا قول نقل کیا ہے  :

قَالَ يَحْيَى: ﴿ الظَّاهِرُ ﴾[الحديد: 3]: عَلَى كُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا، ﴿وَ الْبَاطِنُ ﴾ [الحديد: 3]: عَلَى كُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا.

’’یحیی ٰ  [بن زیاد الفراء ،امام النحو ]نے کہا: ’ الظاهر ‘اور ’ الباطن ‘   کا معنی ہے ہر چیز پر علم کے اعتبار سے  حاوی اور باعتبار علم ہر   ایک سے زیادہ  گہرائی رکھنے والا  ۔‘‘

یعنی اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی  الظَّاهِرُ اور البَاطِنُ   میں   اللہ سے اوپر نیچے نہ کچھ مخفی ہے اور نہ بھاری (مشکل)

7379- حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَفَاتِيحُ الغَيْبِ خَمْسٌ، لاَ يَعْلَمُهَا إِلَّا اللهُ: لاَ يَعْلَمُ مَا تَغِيضُ الأَرْحَامُ إِلَّا اللهُ، وَلاَ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ إِلَّا اللهُ ، وَلاَ يَعْلَمُ مَتَى يَأْتِي المَطَرُ أَحَدٌ إِلَّا اللهُ ، وَلاَ تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِلَّا اللهُ ، وَلاَ يَعْلَمُ مَتَى تَقُومُ السَّاعَةُ إِلَّا اللهُ»

’’ ہمیں  خالد بن مخلد نے بیان کیا کہ سلیمان بن بلال نے بیان کیا  کہ مجھے عبد اللہ بن دینار نے بتایا، کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ  سے روایت ہے کہ  نبی کریم ﷺ نے فرمایا: غیب کی پانچ چابیاں  ہیں ‘ جنہیں اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ رحم مادر میں کیا ہے ‘ اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہوگا‘ اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا کہ بارش کب آئے گی ۔ اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا کہ کس جگہ کوئی مرے گا اور اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب قائم ہوگی ۔‘‘

لطائف الاسناد

مذکورہ روایت کو امام بخاری﷫نے دو اسناد سے ذکر کیاہے ،پہلے[حدیث:4778] میں مختصراً ذکر کیا تھا  اور یہاں تفصیلاً ۔  اس میں امام بخاری﷫  کے استاذ الاستاذ سلیمان بن بلال حضرت ابو الدرداء﷜ کے پوتے ہیں ۔ اس سند میں امام بخاری﷫ اور صحابی عبداللہ بن عمر﷠ کے درمیان صرف تین واسطے ہیں ۔ یعنی یہ بخاری  کی عالی ترین سند ہے  جسے ’ثلاثیات بخاری‘  کہتے ہیں ۔

شرح الحدیث

مذکورہ حدیث میں پانچ چیزوں    کو غیب کی چابیاں قرار دیا گیا ہے، یعنی ان چیزوں سے متعلق حتمی اور تفصیلی  علم اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔ ان   پانچ چیزوں  کا تذکرہ قرآن   کریم کی  سورۃ لقمان کےآخر میں ہے ۔  فرق یہ ہے کہ حدیث میں عام طور پر قرآنی بیان سے کچھ اضافہ ہوتا ہے ۔ ارشاد ربانی ہے: 

﴿إِنَّ ٱللَّهَ عِندَهُۥ عِلْمُ ٱلسَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ ٱلْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِى ٱلْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِى نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِى نَفْسُۢ بِأَىِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرُۢ﴾ [لقمان: 34]

’’ اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے اور وہی بارش  برساتا ہے۔ اور وہی حاملہ کے پیٹ کی چیزوں کو جانتا ہے اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کام کرے گا۔ اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کس سرزمین میں اسے موت آئے گی۔  بیشک اللہ ہی جاننے والا ہے خبردار ہے۔ ‘‘

اگرچہ حدیث میں پانچوں چیزوں کو ایک ہی انداز سے بیان کیا گیا ہے ، جبکہ قرآن مجید کا انداز دیکھیں تو ان پانچوں باتوں  کے حوالے سے الگ الگ  اسلوب اختیار کیاگیا ہے ۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے بعض چیزیں ایسی ہیں کہ انسان ان کے بارے میں بالکل لا علم ہوتا ہے اور بعض چیزوں  کے آثار سے انسان کچھ نہ کچھ اندازہ لگا لیتا ہے ، اگر چہ حتمی بات پھر بھی نہیں کہی جاسکتی ۔  جن چیزوں کا بالکل اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ان میں اولین چیز قیامت کے وقو ع پذیر ہونے کا علم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

  • ﴿ إِنَّ ٱللَّهَ عِندَهُۥ عِلْمُ ٱلسَّاعَةِ

’’قیامت کی گھڑی کا   علم ہے صرف اللہ کے پاس ہے ۔‘‘

یہاں  ساعة  کا معنی طے شدہ  گھڑی ہے  ۔ یہ  لفظ دو معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے ، موت اور  قیامت۔  

قرآن مجید میں بھی یہ لفظ دونوں معانی میں استعمال ہوا ہے لیکن یہاں اس سے مراد قیامت ہے   کیونکہ موت کا ذکر اسی آیت میں آگے الگ   بھی  آرہا ہے ۔ موت اور قیامت دونوں کا علم صرف اللہ کے پاس ہے ، اسی لیے نبی اکرمﷺ سے  جب جبرئیل﷤ نے سوال کیا کہ قیامت کب آنی ہے ؟، تو آپﷺ نے فرمایا:

« ما المسئول عنها بأعلم من السائل»

’’جس سے پوچھا جا رہا ہے وہ سائل سے زیادہ علم نہیں رکھتا ‘‘

قرآن مجید میں اگر چہ خبر ہی کاانداز اختیار کیا گیا ہے ، لیکن ایسے  جملے میں تقدیم و تأخیر سے حصر کا معنی پیدا ہوجاتا ہے جیسا کہ لغت کا اصول ہے؛  (ان تقديم ساحقه التأخير بفيد الحصر)   ’’ جملہ میں مؤخر  لفظ کے مقدم  ہونے سے حصر کا فائدہ ہوتا ہے۔‘‘

 لہٰذا مذکورہ جملے کا معنی صرف یہ نہیں ہے کہ  اللہ کو قیامت کا علم ہے ، بلکہ اس کا مكمل معنیٰ یہ ہے کہ قیامت کا علم صرف  اللہ ہی کے پاس ہے ۔

  • ﴿وَ يُنَزِّلُ الْغَيْثَ﴾

’’ اور وہی بارش نازل کرتا ہے ۔‘‘

یہاں انداز بدل گیا  ہے۔ اگرچہ   اس میں  بھی تا حال  بہت  کچھ  غیب ہے کہ آپ  حتمی طور پر  نہیں جان سکتے کہ بارش کب اور کتنی  ہو گی؟  لیکن عام طور  پر    موسمی آثار سے  اندازہ لگالیا جاتا ہے کہ فلاں وقت بارش ہوگی ۔  محکمہ موسمیات   کے   اندازے ہوتے ہیں، حتمی کچھ نہیں ۔ میں چھ  سال مرکزی  رؤیت ہلال کمیٹی میں رہا ہوں  تو موسمیات والے ہمارے ساتھ ہوتے تھے ان کے اندازے کئی دفعہ  غلط ثابت  ہوتے تھے، لیکن بعض دفعہ  درست بھی ہوتے ہیں۔

  •  ﴿وَ يَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ ﴾ [لقمان: 34]

’’اور وہ جانتا ہے جو رحموں میں ہے۔‘‘

قرآن مجید نے  یہاں    جنین  کے  علم کی نفی  کے لئے حصر  کی بجائے خبر کا انداز اختیار کیا   ہے  کیونکہ طبی ماہرین کے بھی کچھ اندازے درست ہوتے ہیں ۔ دوسری جگہ فرمایا:

﴿وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ﴾ [فصلت: 47]

’’ اور نہ کوئی مادہ حاملہ ہوتی ہے اور نہ جنتی ہے مگر اس کے علم سے۔‘‘

 قرآن میں  یہ بھی ہے کہ پیدائش  اور موت کا علم  اللہ کی طرف لوٹا دیا جائے ۔ کوئی پھل اپنے گابھے سے نہیں نکلتا اور کوئی مؤنث حاملہ نہیں ہوتی ہے  اور کوئی مؤنث وضع   حمل    سے نہیں گزرتی مگر اللہ کو اس کا علم ہوتا ہے  ۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے:

﴿ٱللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ أُنثَىٰ وَمَا تَغِيضُ ٱلْأَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ ۖ وَكُلُّ شَىْءٍ عِندَهُۥ بِمِقْدَارٍ﴾[الرعد: 8]

’’ اللہ ہی اس بچے سے واقف ہے جو  مادہ  کے پیٹ میں ہوتا ہے اور وہی پیٹ کے سکڑنے اور بڑھنے سے بھی واقف ہے اور ہرچیز کا اسکے ہاں ایک اندازہ مقرر ہے۔‘‘

حدیث میں رحم کے اندر جنین کی بعض خاص صورتوں کا بیان ہے جیسا کہ     قرآن مجید میں جنین کی کمی اور بیشی دونوں کا ذکر ہے یعنی حدیث کے مطابق  اللہ عزوجل کو جنین کی کمی بیشی کا علم ہے۔    پوری دنیا میں ایک لمحے کے اندر  لاکھوں بچے پیدا ہوتے ہیں  اور لاکھوں  لوگ  مرتے بھی ہیں، اللہ کو ان سب کا علم ہے ۔

  • ﴿وَمَا تَدْرِى نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِى نَفْسُۢ بِأَىِّ أَرْضٍ تَمُوتُ﴾

’’ اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا   کرے گا  اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کس سرزمین میں اسے موت آئے گی۔‘‘

پوری آیت میں  قیامت کے علاوہ  ان دو چیزوں کے بارے  میں   لفظوں میں بھی  حصر کا انداز ہے، کہ تقدیم وتأخیر سے حصر  بیان کیا گیا ہے ۔ یعنی ان تین  چیزوں سے متعلق  انسان کے علم کی کلّی  نفی کی گئی ہے کیونکہ ان کی بابت کوئی ایسی  ظاہری علامت نہیں ہوتی جس سے انسان حتمی  اندازہ لگا سکے۔

بارش کا وقت اور رحم میں بچے کے احوال کا علم

مذکورہ آیت اور حدیث میں  بیان کردہ  چیزوں میں سے دو کے متعلق لوگ زیادہ پریشان ہوتے ہیں ، ایک بارش کا وقت ، دوسرا رحم مادر میں بچے کے احوال ۔  آج کل  ہر ملک میں محکمہ موسمیات ہے، جو  مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر قبل از وقت  غیر حتمی بارش  کا وقت ، جگہ ، نوعیت اور  حجم بتا دیتے ہیں۔   اسی طرح    ماہرین  طب الٹراساؤنڈ وغیرہ  کے ذریعے رحم میں موجود بچے  کے  حجم اور جنس وغیرہ کے متعلق کچھ  جان   لیتے ہیں ۔ بلکہ آج کل تو لیزر کے ذریعے  ماں کےپیٹ میں  بچے کا آپریشن  تک کیا جارہا ہے   ۔

اللہ تعالیٰ نے بارش کے حوالے سے بعض ایسی علامات رکھی ہیں ، جن سے حیوانات اور پرندے  بھی اندازہ لگا لیتے ہیں کہ بارش ہونی ہے۔ اسی طرح  دیہاتوں وغیرہ   میں جہاں  کسانوں کا   موسموں  سے گہرا تعلق ہوتا ہے  ، وہ بھی  ہوا کے انداز اور رخ سے بارش کا اندازہ لگا لیتے   ہیں  ۔ لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ یہ  محض اندازے ہیں ، اسے حتمی  علم نہیں کہا جاسکتا ، علم صرف ٹھوس  اور  یقینی امر  کو ہی  کہتے ہیں ۔

 الٹرا ساؤنڈ  وغیرہ کے ذریعے رحم میں موجود بچے   کے چند    احوال کا علم ہوتا ہے ،  حتی کہ   جب بچہ مکمل ہوجاتا ہے، تب اس کے متعلق مزید  علم حاصل  ہوتا ہے ۔ بچے کے حقیقی اور مکمل شکل میں آنے  سے قبل الٹرا ساؤنڈ  زیادہ  نہیں بتاتا ۔   اور  بچے کے مکمل   ہونے کے  بعد  بھی صرف بچے کا سائز ، وزن ، دل کی دھڑکن اور کسی حد تک جنس  معلوم ہوتی ہے  ، جبکہ    ان  کے معلوم ہونے میں بھی بعض اوقات کوتاہی رہ جاتی ہے اور  بچے کے باطنی معاملات کے متعلق تو  اللہ کے سوا  کسی کو کچھ بھی علم نہیں ہوتا۔  آج کل سائنس اور فلسفہ کے ماہرین ’روح ‘ کے انکاری ہیں حالانکہ زندگی ’روح‘ کی مرہون منت ہے  اور لا دین سائنس صرف مشاہدہ اور تجربہ کی قائل ہے۔غور کریں تو قرآن  نے بچے کے حوالے سےفرمایا:

﴿وَ يَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ ﴾ [لقمان: 34]

’’وہ جانتا ہےجو کچھ رحم میں ہے ۔‘‘

 لفظ  ’’ ما ‘‘ہر چھوٹی بڑی چیز کےلیے بولا جاتا ہے ، جبکہ لفظ ’’ من‘‘ صرف   ذوی العقول   یعنی اللہ ، فرشتے ، جن اور انسان(نر) کے لیے بولا جاتا ہے۔ یوں سمجھیں کہ’’ مَن  ‘‘کا لفظ تب بولا جاتا ہےجب  وہ  عقلمند انسان بن جاتا ہے ، اس سے پہلے  پوری کائنات ’’ مَا ‘‘ ہو تی   ہے، چاہے نطفہ ہی کیوں نہ ہو۔ آیت میں لفظ ’’ما ‘‘استعمال ہواہے، لفظ ’’من ‘‘ استعمال نہیں ہوا۔ یعنی اللہ حمل ٹھہرنے کے   دن سےبلکہ حمل ٹھہرنے سے بھی پہلے   سب کچھ  جانتا ہے۔ اس لیے الٹرا ساؤنڈ وغیرہ  کے ذریعے کچھ جان لینا قرآنی دعویٰ کے خلاف نہیں۔

 

[1]      صحيح ابن حبان:3/ 177

[2]         صحیح بخاری:7405، صحیح مسلم:2675

[3]      فتح الباری:14/310،311

[4]       صحيح بخاری:50