یکساں قومی نصاب؛ ایک بکھرتا خواب!
جناب شفقت محمود کی سربراہی میں وفاقی وزارتِ تعلیم کا شعبہ 'اکادمی برائے تعلیمی منصوبہ بندی وانتظام' AEPAM، دینی مدارس کے ساتھ 'یکساں قومی نصاب تعلیم' کے لئے بھی مصروفِ کار ہے۔ پاکستان کے 5 تا 16 سالہ شہریوں کی بنیادی تعلیم دستور کے آرٹیکل نمبر 25؍الف کی رو سے حکومتی فریضہ ہے۔جبکہ معاشرے میں انفرادی واجتماعی لحاظ سے اسلامی تعلیمات کے فروغ کی ضمانت دستور کا آرٹیکل نمبر 31 دیتا ہے۔ اسی طرح دستور کا آرٹیکل نمبر 251 اُردو کو بطور قومی زبان نافذ کرنے کی تلقین کرتا ہے جس پر سپریم کورٹ کا 8؍ستمبر2015ء کا مؤثر فیصلہ بھی موجود ہے۔
مذکورہ بالا قانونی اساسات کے ساتھ ، یہ قرآنی ہدایت بھی بڑی واضح ہے کہ مسلمانوں کو حَبل الله یعنی اللہ تعالیٰ کی رسّی (قرآن کریم )پر اتحاد واتفاق کرنا چاہیے۔ قرآن کی رو سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی تلقین کرنے والا اکیلا شخص بھی ہو تو سیدنا ابراہیم کی طرح وہ پوری اُمّت کی حیثیت رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے مقابل ساری دنیا بھی اکٹھی ہوجائے تو حدیثِ نبوی کے مطابق وہ پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتی۔ الغرض قرآن وسنت ہم سے صرف ہدایاتِ ربانی پر اکٹھے ہونے کا مطالبہ کرتا ہے اور اسی پر مسلمانوں میں اتحاد اوتفاق ہوسکتا ہے۔
عجیب بات ہے کہ تعلیم جیسے بنیادی قومی مسئلہ پر پاکستانی قوم کو متحدکرنے کے لئے قرآنی اور اسلامی اساسات کی بجائے اُن کو مغربی نظریات کی طرف دھکیلنے کی مسلسل کوششیں کی جار ہی ہیں۔ بقول علامہ اقبال
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے، اسے پھیر
تاثیر میں اکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے اِک ڈھیر
اس پر مستزاد یہ ہے کہ یکساں قومی تعلیمی نظام سے مغرب زدہ سکول وکالج کو استثنیٰ دیا جارہا ہے اور یکساں قومی نصابِ تعلیم آغاز سے ہی امتیاز کا محافظ ہے۔گویا اس طرح اس نصاب تعلیم سے پاکستان میں مغرب نوازی کو فروغ وتقویت دینے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ مغرب کے الحادی نظریات کو پاکستانی قوم پر ٹھونسنے کے ساتھ ، علماے کرام کو صرف اسلامیات کے مختصر نصاب میں شریک کیا گیا ہے، اور اسی نصاب میں ہی ترجمہ قرآن کو بھی شامل کرکے ، لازمی اسلامی تعلیم کو بھی انتہائی مختصر وقت دیا گیا ہے ۔گویا کہ باقی قومی نظام تعلیم کے لئے اسلامی رہنمائی کی کوئی ضرورت نہیں اور ان میں خلافِ اسلام نظریات جیسے جاہلانہ نظریۂ ارتقا اور الحادی تخلیقی نظریات وغیرہ کا زہر بدستور پاکستانی مسلمانوں کے ذہنوں میں اُنڈیلا جاتا رہے گا۔مزید برآں دستوری تقاضوں اور اعلیٰ عدالتی احکام کو نظرانداز کرتے ہوئے معصوم بچوں پر ظلم کرتے اور ان پر تعلیم کے دروازے بند کرتے ہوئے ، اُردو کی بجائے انگریزی کو ذریعۂ تعلیم زبان بنانے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ جبکہ پاکستان کی قومی زبان اُردوکی عالمی مقبولیت اور لسانی صلاحیت کا یہ عالم ہے کہ عالمی میڈیا کے مطابق اُردو اس وقت عالمی زبانوں میں دوسری حیثیت پاچکی ہے۔
دوسری طرف مدارسِ دینیہ پر رجسٹریشن کے دوہرے انتظامات،حسابات کی جانچ پڑتال، انکی اسناد پر نت نئی پابندیوں اور ان کے امتحانات کو سرکاری بورڈ کے حوالے کر دینے سے ان کا قافیہ بھی آئے روز تنگ کیا جارہا ہے۔ ایسی صورتحال میں وفاقی وزارت تعلیم کو جس کی خواہشوں کا بھی ترجما ن سمجھا جائے لیکن وہ دستور پاکستان کی تائید سے بہرحال محروم ہیں۔ ذیل میں مجوزہ قومی نصابِ تعلیم پر ایک جامع تبصرہ ہدیۂ قارئین ہے۔ ح۔م
۲۲؍ جولائی ۲۰۲۰ء بروز بدھ قومی نصاب کونسل(نیشنل کریکولم کونسل)کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا جس میں یکساں قومی نصاب( سنگل نیشنل کریکولم) کی حتمی منظوری اور ذریعہ تعلیم (Medium of Instruction) کا فیصلہ ہونا تھا۔ یہ اُس نصابی مسودے کی منظوری کے لیے اجلاس بلایا گیا تھا جس کی منظوری وزیر اعظم جناب عمران خان سے ۱۹؍ مارچ ۲۰۲۰ء کو لی گئی تھی اور جس منظوری کے بعد وزیر اعظم نے اعلان کیا تھا کہ پری سکول یعنی نرسری سے پانچویں جماعت کا نیا نصاب پورے ملک کےسکولوں بشمول دینی مدارس میں مارچ ۲۰۲۱ء سے نافذ العمل ہوگا۔ نیز مڈل سکولوں اور سیکنڈری (ثانوی) سکولوں کا نصاب بالترتیب مارچ ۲۰۲۲ء اور مارچ ۲۰۲۳ءسے نافذ کیا جائے گا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ مارچ ۲۰۲۰ء میں وزیر اعظم پاکستان سے نصاب کی منظوری کے اب چار ماہ بعد نیشنل کریکولم کونسل سے منظوری کا ڈرامہ رچایا گیا۔ کہا یہ گیا کہ درمیانی عرصے میں نصاب کی نوک پلک سنواری جاتی رہی اور رنگ وروغن کی ڈیزائننگ کی جاتی رہی ہے۔ اس سے پہلے ۱۶ ؍جولائی کو بقول وزراتِ وفاقی تعلیم ماہرین کا اجلاس بلایا گیا جس میں میڈیم آف انسٹرکشن یعنی ذریعۂ تعلیم کا فیصلہ لیناتھا۔ وزارتِ وفاقی تعلیم نے اس مقصد کے لیے جو فریم ورک دیا، وہ یہ تھا کہ پری سکول سے ہی ذریعہ تعلیم انگلش ہوگا تاہم اسلامیات کا مضمون اُردو میں پڑھایا جائے گا نیز اسلامیات کے سوا باقی تمام مضامین کی درسی کتب بھی انگلش میں ہوں گی۔
۱۶ ؍مارچ کے اجلاس میں ۲۷ شرکا نے انگلش بطور ذریعہ تعلیم کی مخالفت کی، صرف بیکن ہاؤس سکولز کے نمائندے اور جناب جاوید جبار نے انگلش بطور ذریعہ تعلیم کی حمایت کی۔ تقریباً متفقہ مخالف رائے آنے کی وجہ سے وزارتِ وفاقی تعلیم کے ذمہ داران نے کوئی فیصلہ کیے بغیر اجلاس یہ کہتے ہوئے ختم کردیا کہ اس مقصد کے لیے مزید مشاورتی اجلاس بلائے جائیں گے۔ لیکن مزید کوئی اجلاس بلانے کی بجائے ۲۲ جولائی کو سنگل نیشنل کریکولم کی 'نیشنل کریکولم کونسل' سے منظوری کو ذریعۂ تعلیم کے فیصلہ کے لیے اجلاس بلالیا گیا۔
اس اجلاس میں ۲۵؍ لوگ شخصی طور پر اجلاس میں شریک ہوئے اور باقی اراکین آن لائن سہولت کے ساتھ اجلاس میں شامل تھے۔ اس اجلاس کے حوالے سے وزراتِ وفاقی تعلیم کی یہ چالاکی دیکھنے میں آئی کہ وفاق ہائے مدارسِ دینیہ کے نمائندوں کو بہت تاخیر سے اطلاع دی گئی۔ اُنہیں نہ کوئی ایجنڈا بھیجا گیا اور نہ ہی کوئی ورکنگ پیپر۔ مزید یہ کہ آن لائن 'زوم' کے ذریعہ شرکت کے لیے کچھ اراکین کو لنک بھی فراہم نہیں کیا گیا اس خیال سے کہ نیشنل کریکولم کونسل کے باقی اراکین تو وزیر تعلیم کے نیلی آنکھوں (Blue Eyed) والے پسندیدہ لوگ ہیں، محض دینی اداروں کے نمائندوں سے کسی تنقید یا مخالفت کا ہی خدشہ ہوسکتا ہے۔ لیکن اِدھر اُدھر سے دینی اداروں کے تمام نمائندوں کو لنک کی معلومات فراہم ہوگئیں اور سب کی شرکت ممکن ہوسکی۔
۲۲؍ جولائی کے اجلاس میں بھی دلچسپ صورتِ حال رہی۔ مفتی منیب الرحمٰن صاحب نے احتجاج ریکارڈ کرایا کہ اُنہیں نہ بروقت اطلاع دی گئی، نہ ایجنڈا فراہم کیا گیا اور نہ زیر غور نصاب کا مسودہ دیا گیا، اس لیے وہ بے مقصد شرکت پسند نہیں کرتے لہٰذا اُنہیں نصابی مسودات فراہم کیے جائیں اور جائزے کے لیے ایک ماہ دیا جائے تو وہ نصاب پر غور کے لیے تیار ہیں۔ یہ کہہ کر وہ اجلاس سے الگ ہوگئے۔
باقی شرکا میں سے سندھ ، بلوچستان ، آزاد کشمیر کے وزراے تعلیم یا سیکرٹری تعلیم نے کہا کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد نصاب سازی صوبوں کا اختیار ہے، تاہم وفاق کے اچھے کام کو وہ زیر غور لاسکتے ہیں لیکن اس کا فیصلہ صوبے کی کابینہ نے کرنا ہے نیز صوبے خود بھی اپنا نصاب اور درسی کتب تیار کررہے ہیں۔ آزاد کشمیر کے وزیرتعلیم نے بھی کہا کہ وفاق مہربانی کرکے اپنے نصاب میں کشمیر کا بھی کہیں ذکر کردے تو اس کی ضرورت ہے۔ خیبر پختونخوا کے وزیر تعلیم کا تبصرہ تھا کہ ہمیں تو بتایا گیا تھا کہ نصاب کی منظوری کا یہ آخری اجلاس ہے لیکن شرکاے اجلاس کی تنقیدی آرا سننے کے بعد معلوم ہو رہا ہے کہ یکساں قومی نصاب کے سلسلہ میں یہ تو پہلا اجلاس ہے۔ شرکاے اجلاس میں سے اکثریت اگرچہ سیکولر ،لبرل خیالات کی حامی اوروفاقی وزیر تعلیم کی پسندیدہ شخصیات تھیں لیکن ان کے تبصرے نیشنل کریکولم کونسل کے کیے گئے کام کے حق میں نظر نہیں آ رہے تھے۔وفاقی وزیر تعلیم جناب شفقت محمود کا کہنا یہ تھا کہ ہم نیشنل کریکولم کونسل کے اراکین کی رائے اور تبصروں کی روشنی میں نصاب کی ٹیوننگ اور پالشنگ کریں گے۔ اجلاس میں انگریزی بطور ذریعہ تعلیم کے خلاف بھی تقریباً اتفاق رائے تھا۔ نتیجۃً پھر ۱۶؍ جولائی والے اجلاس کی طرح ہوا کہ کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا اور وزیر وفاقی تعلیم نے اجلاس یہ کہہ کر ختم کردیا کہ مشاورت جاری رہے گی۔
مذکورہ بالا دو اجلاسوں کی اجمالی روداد دینے کا مقصد یہ ہے کہ بتایا جائے کہ وزارتِ وفاقی تعلیم جو 'سنگل نیشنل کریکولم' اور 'ایک قوم ، ایک نصاب' کا ڈھول پیٹ رہی تھی، اس کی ہوا اُکھڑتی نظر آرہی ہے اور قومی سطح پر یہ جو مثبت امیج اُبھر رہا تھا کہ یکساں قومی نصاب کا دیرینہ قومی خواب تعبیر کے قریب ہے، اب یہ خواب منتشر ہوتا نظر آرہا ہے...!!
قوم کا یکساں نصاب تعلیم کا دیرینہ خواب کیوں منتشر ہوتا نظر آرہا ، اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:
a وزارتِ وفاقی تعلیم کے ارباب بست وکشاد کا واضح جھکاؤ سیکولر لبرل لابی کی طرف ہے جب کہ قوم کا مجموعی مزاج اسلامی نظریۂ حیات سے سرشار ہے۔ نیشنل کریکولم کونسل میں جناب وزیر تعلیم نے اپنی پسند کے لبرل سیکولر لوگ پورے دھڑلے کے ساتھ شامل کیے ہیں۔ اگر نیشنل کریکولم کونسل کے ارکان کی فہرست پر نظر ڈالی جائے تو چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے بربنائے عہدہ نمائندوں کے علاوہ ۱۱؍مرد حضرات اور۱۰؍خواتین اراکین ہیں۔ سب نامزد افراد کا عرف لبرل سیکولر ہونا ہے۔ دینی مدارس کے پانچ وفاقوں کے نمائندے البتہ علماے کرام ہیں جو کہ ایک مجبوری تھی لیکن ان دینی اداروں کے نمائندوں کو پورے قومی نصاب کو چھوڑ کر، یعنی اسلامیات کے نصاب کے علاوہ کہیں گھسنے کا موقع نہیں دیا گیا۔
b سنگل نیشنل کریکولم کے عنوان سے جو نصاب تیار کیا گیا ہے وہ ارکانِ نیشنل کریکولم کونسل کو مہیا نہیں کیا گیا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کو نصابی رپورٹس دستیاب تھیں، اس لیے مذہبی لابی اور سیکولر لابی کی طرف سے سنجیدہ تنقید سامنے آرہی ہے۔
c نصاب کے جائزے کے لیے ضروری ہے کہ ان ضروریات (Needs)کی فہرست دی جائے جو عصر حاضر میں نرسری سے بارہویں جماعت تک ہمارے طلبا کی نصابی ضروریات کے طور پروفاقی وزارتِ تعلیم نے ترتیب دی ہیں تاکہ ان ضروریات کی روشنی میں نصابِ تعلیم کی مناسبت کا جائزہ لیا جائے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وزارت نے نصابی ضروریات پر مبنی ایسی کوئی فہرست نہیں بنائی۔
d نرسری سے بارہویں تک پورے نصاب میں سے ایک طالب علم نے گزرنا ہوتا ہے۔ یہ ایک تسلسل ہے جو نصاب میں نظر آنا چاہیے۔ گریڈوں یا جماعتوں کی تقسیم ہم اپنی انتظامی سہولت کے لیے کرتے ہیں۔ اس وقت صرف نرسری سے پانچویں جماعت تک کا نصاب دیا جارہا ہے۔ اس سے ہم کیسے معلوم ہو کہ اس کا مڈل جماعتوں اور ثانوی جماعتوں کے نصاب کے ساتھ عمودی ربط موجود موجود ہے اور کسی قسم کا خلا نہیں ہے۔ یہ امر بھی نصاب کو ناقابل قبول بنانے کی ایک وجہ ہے۔
e پانچ سال سے ۱۶ سال کی عمر کی تعلیم قانون کے مطابق ہمارے ملک میں لازمی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تعلیم کے اس دورانیے میں طالب علم کو بالغ زندگی کامیابی سے گزارنے کے لیے تمام معلومات، تمام مہارتیں اور ضروری اخلاق وکردار اور رویّے رسمی اور غیر رسمی تعلیم کے ذریعے مل جائیں خصوصاً آئین کے آرٹیکل 31 کی روشنی میں ۱۶ سال کی عمر تک تعلیم حاصل کرکے ہمارے طلبہ اور طالبات اس قابل ہوجائیں کہ وہ قرآن وسنت کے تقاضوں کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ اب محض پری سکول سے پانچویں جماعت تک کا نصاب دیکھ کر تو یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ مذکورہ نصاب لازمی تعلیم کے دورانیہ کے تقاضے پورا کرتا ہے یا نہیں؟
f سکول سطح کا نصابِ تعلیم ایک تسلسل کا تقاضا کرتا ہے جس میں ربط، توازن، تسلسل وسعت اور گہرائی کا بدرجہ اتم خیال رکھنا ضروری ہے ،اس لیے پوری دنیا کی یہ روایت ہے کہ نصاب جب بھی تیار ہوگا وہ پری سکول سے ثانوی ؍ اعلیٰ ثانوی درجے تک ایک ہی وقت میں تیار ہوگا ۔البتہ اس کے نفاذ کے لیے درجہ وار ترتیب لگائی جاتی ہے۔ ٹکڑوں میں جب نصاب تیار ہوگا اس میں اُفقی اور عمودی ربط اور توازن کی کمزوری لازماً رہے گی۔ وفاقی وزارتِ تعلیم اجزا میں نصاب سازی کرکے تعلیمی دنیاکے بنیادی اُصول کی خلاف ورزی کررہی ہے۔
g ماہرین کی طرف سے یہ اعتراض شدومد سے اٹھایا جارہا ہے کہ مذکورہ نصاب جو نظریۂ پاکستان، اسلامی نظریۂ حیات اور دستورِ پاکستان کی تعلیم سے متعلق آرٹیکلز کی روشنی میں تیار ہونا تھا، وہ سیکولر، لبرل اقدار کی روشنی میں تشکیل دیا گیا ہے۔ نصاب کی بنیادی اسلامی اقدار یعنی توحید، رسالت، عبادت اور آخرت کو؛ اور معاملات واخلاقیات کو اس کی ذیلی اقدار ہونا چاہیے تھا لیکن مبینہ طور پر نصاب کی بنیاد سیکولر اساسی اقدار پر رکھی گئی ہے جو بالکل ناقابل قبول ہے۔
h رہ گئی بات میڈیم آف انسٹرکشن کی تو ۱۶؍جولائی کو جو میٹنگ ہوئی تھی اس میں ایک دو کو چھوڑ کر سب نے انگریزی کی مخالفت کی اور سفارش کی کہ پری سکول سے آخر تک سکول کی تعلیم اُردو یا علاقائی زبان میں ہونی چاہیے۔ تقریباً متفقہ مخالفت آنے پر وزارتِ تعلیم کے ذمہ داران نے کوئی فیصلہ کیے بغیر میٹنگ ختم کردی۔ ماہرین کی آرا کی روشنی میں اور قومی تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے پری سکول سے ثانوی سطح تک تمام مضامین اُردو یا علاقائی زبان میں پڑھانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
i تعلیم اب صوبائی معاملہ ہے۔ وزارتِ وفاقی تعلیم کس اختیار اور قانون کے تحت سنگل نیشنل کریکولم اور سنگل ٹیکسٹ بکس تمام صوبوں میں نافذ کرے گی جب کہ صوبوں کے اپنے کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈز اور صوبائی اسمبلیوں سے پاس کردہ اپنے قانون موجود ہیں۔ نیز پرائیویٹ سیکٹر کے اشرافیہ کے سکولز جو مغربی امتحانی بورڈز سے منسلک ہیں ، ایچی سن کالج، کیڈٹ کالجز، آرمی پبلک سکولز، جو طاقتوروں کے ادارے ہیں، وہ کب اور کس طرح 'سنگل نیشنل کریکولم' کو لفٹ کرائیں گے ۔ مذکورہ تمام اداروں میں سنگل نیشنل کریکولم نافذ کرائے بغیر اسے یکساں قومی نصاب کا درجہ کیسے حاصل ہوگا...؟
j وزارتِ وفاقی تعلیم اور نیشنل کریکولم کونسل کے ذمہ داران نے نمبر ٹانگنے اور وزیر اعظم کے سامنے کار کردگی دکھانے کی خاطر عجلت میں سب کچھ کیا۔ مشرف دور کے ۲۰۰۶ء کے نصاب میں معمولی کمی بیشی کرکے اور ویلیوز ایجوکیشن کے نام پر ہیومنزم کے بے خدا فلسفے کی اقدار سمو کر ۲۰۰۶ء کے نصاب کو جو پہلے بھی اسلامی حلقوں کا مسترد کردہ نصاب تھا، مزید ناقابل قبول بنادیا۔ اب اس نصاب میں اسلامیات کا رُخ مغرب کی طرف ہے تو معاشرتی علوم ، جنرل نالج اور انگلش کے نصاب کارُخ مشرق کی طرف یعنی وہ مکمل سیکولر اور لبرل ہے۔
k یہ غلط اور سطحی دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اس نصاب کو پورے ملک سے لیے گئے ۷۰ ماہرین نے لکھا ہے حالانکہ صرف ۲۰۰۶ء کے نصاب پر نظرثانی کرکے محض کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں جن کا ہم نے سطورِ بالا میں ذکر کیا ہے۔ اس طرح کے غلط دعوے بھی کسی علمی کام کے وقار اور قبولیت کو کم کردیتے ہیں۔
l نیشنل کریکولم کونسل کے ذمہ داران نے حقیقی سٹیک ہولڈرز کو نظر انداز کرکے اپنے پسندیدہ نام نہاد ماہرین کو آگے رکھا ہے۔ نیز شفافیت کی نفی کرتے ہوئے راز داری اور خفیہ پن سے کام لیا ہے جس سے شکوک وشبہات نے جنم لیا ہے جو یہ ہے کہ پچھلے چھ ماہ سے سنگل نیشنل کریکولم کا ڈھنڈوراپیٹنے کے باوجود اُن میں سے کسی کو اس مقدس دستاویز کا علم نہیں جن کے بچوں کا تعلیمی مستقبل اس سے وابستہ ہے یا جنہوں نے نصاب کے اس مقدس مسودے کو نافذ کرنا ہے یعنی اساتذہ اور محکمہ ہائے تعلیم کے انتظامی ذمہ داران ۔
m نصاب تعلیم ایک عوامی معاملہ ہے اور جب تک اسے عوامی قبولیت حاصل نہیں ہوتی، تب تک محض انتظامی احکامات اور قانونی آلات کے ذریعے اسے نافذ نہیں کیا جاسکتا۔
n ذریعۂ تعلیم ایک حساس مسئلہ ہے اور وزارتِ وفاقی تعلیم کے ذمہ دار اپنی ضد پوری کرنے پر تُلے رہیں گے تو خرابی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
o اشرافیہ کے تعلیمی ادارے جن میں ایچی سن کالج، آرمی برن ہال کالج، رورٹس کالج، کیڈٹ کالجز، آرمی سکولز اور کالجز، بیکن ہاؤس سکولز، سٹی سکولز، روٹ سکول سسٹم ، شوئیفات سکول، لاہور گرامر سکول اور اسی طرح کے دیگر درجنوں سکولز حکومت کا کوئی بھی نصاب اپنے ہاں نافذ نہیں کریں گے اس بہانے پر کہ وہ تو مغربی امتحانی بورڈز سے منسلک ہیں۔ تو اگر حکومت یکساں قومی نصاب کے مسئلہ پر سنجیدہ ہے تو اسے بیرونی امتحانات پر پابندی اور بیرونی بورڈز کے تعلیمی سرٹیفکیٹس کی نامنظوری کی قانون سازی کرنی چاہیے جو ظاہر ہے ممکن نہیں ہوگی کیونکہ ان اداروں اور ان بیرونی امتحانات سے منسلک سیاستدانوں ، بیوروکریٹس ، ججوں، جرنیلوں ، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے نونہالوں کا روشن مستقبل وابستہ ہے اور بیگمات ایسا کبھی نہیں کرنے دیں گی اور اس طرح یکساں قومی نصاب صرف غریبوں پر ہی نافذ ہوگا۔
p وزیر وفاقی تعلیم جناب شفقت محمود نے اپنے ٹویٹ میں یہ کہہ کر کہ سنگل نیشنل کریکولم صرف کور کریکولم (Core curriculum)ہے۔ اگر سکول اور سکول سسٹمز اس نصاب میں اضافہ کرنا چاہیں گے تو اُن کو اجازت ہوگی، یکساں قومی نصاب کے غبار سے خود ہی ہوا نکال دی ہے۔ یہ وہ یوٹرن (U turn) ہے جو اشرافیہ کے تعلیمی اداروں کے انکار اور دباؤ کی وجہ سے لیا گیا ہے۔
q آخر ی سوچ جو نظر آتی ہے وہ یہ کہ اصل ہدف دینی مدارس ہیں جن میں مقتدر قوتوں کے دباؤ کے تحت سیکولر نصاب رائج کیا جائے گا اور ان کا موجودہ دینی تشخص آہستہ آہستہ ختم کردیا جائے گا ۔ البتہ سرکاری ادارے تو شاید مذکورہ نصاب نافذ کریں گے بشرطیکہ صوبائی قوانین اور 18 ویں آئینی ترمیم آڑے نہ آئے اور صوبائی حکومتیں اپنا ختیار کسی قانون سازی کے ذریعے وفاق کو منتقل کردیں۔
r آخر میں ہم دینی مدارس کے ارباب حل وعقد، علمائے کرام اور دینی جذیات واحساسات رکھنے والے عوامی طبقے کو متوجہ کرتے ہیں کہ سنگل نیشنل کریکولم کا سارا ڈھونگ حکومت کے سیکولر تعلیمی ایجنڈے کا حصہ ہے اور ہدف محض دینی ادارے ہیں۔ اس کے پیچھے 'امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی' اور دیگر مغربی قوتیں ہیں۔ ملک کی اندرونی سیکولر لابی ایک طرف تو نیشنل کریکولم کونسل میں غالب حیثیت بلکہ فیصلہ کن حیثیت میں موجود ہے اور دوسری طرف سیکولر ، لبرل اور کرسچین این جی اوز کے پلیٹ فارم سے بعض معروف خواتین وحضرات متحرک ہیں۔ ان این جی اوز کا ۳ ؍مارچ ۲۰۲۰ء کا سیمینار جس کی صدارت جناب شفقت محمود نے کی اور پھر ۱۰ جولائی ۲۰۲۰ء کا Webinar اور ان دونوں اجلاسوں کی کاروائی سنگل نیشنل کریکولم کے لبرل سیکولر ایجنڈے کو سپورٹ کرتی ہے۔ ۳ ؍مارچ کے سیمینار میں شرکا کے مطالبے پر جناب شفقت محمود نے وعدہ کیا تھا کہ وہ سارا مواد نصاب سے خارج کردیا جائے گا جس پر اقلیتوں کو اعتراض ہے نیز اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئر مین نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہم جہاد، محمود غزنوی اور صلاح الدین ایوبی کے ذکر کو نصاب سے خارج کردیں گے۔ ۱۰ جولائی کے ویبی نار میں سکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر ترجمہ کے ساتھ قرآن کی تدریس کو ہدفِ تنقید بنایا گیا۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر ہود بھائی نے روز نامہ ڈان میں جو مضمون لکھا ہے، اس کا بڑا چرچا ہے جس میں موصوف نے نصاب میں قرآن کی تدریس کو نشانہ بنایا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے محبِ اسلام عوام، خصوصاً علمائے کرام ، اساتذہ اور ماہرین تعلیم متحرک کردار ادا کرتے ہوئے تعلیم میں حکومت کے سیکولر ایجنڈے کو ناکام بنانے کی جدوجہد کریں۔
پس نوشت: پنجاب کے وزیر تعلیم ڈاکٹر مراد راس نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں یکساں قومی نصاب کے حوالے سے وضاحت کی ہے کہ یکساں قومی نصاب کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام سکول صرف وفاق کا قومی نصاب ہی پڑھائیں گے بلکہ اس کا مطلب ہے کہ وفاق نے ایک نصابی فریم ورک دیا ہے جس کے اندر رہ کر پڑھانا ہوگا۔ باقی ادارے اگر اس میں اضافہ کرنا چاہیں تو اس کی ان کو آزادی ہوگی نیز ایک ہی درسی کتاب بھی مطلوب نہیں ہے۔ ادارے نصابی فریم ورک میں رہتے ہوئے کوئی بھی درسی کتاب پڑھا سکتے ہیں یا کئی درسی کتابیں پڑھا سکتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ ڈاکٹر مراد راس کی یہ وضاحت جناب شفقت محمود کی اس وضاحت کے تحت ہے کہ نیشنل سنگل کریکولم ایک کور کریکولم ہے اور ادارے اگر چاہیں تو اس میں اضافے کرنے میں آزاد ہیں۔ ان وضاحتوں سے یکساں قومی نصاب کا تصور تو تقریباً ختم ہی ہوگیا ہے۔