’میرا جسم ؛میری مرضی‘ کا نعرہ ... ایک تحلیلی جائزہ
ہرسال 8 ؍ مارچ کو یوم خواتین پر حقوقِ نسواں کے بلند بانگ نعرے لگائے جاتے ہیں اور اب تو کچھ عرصہ سے باقاعدہ منصوبہ بندی سے کالج ویونیورسٹی کے طلبہ وطالبات کو اس مہم کے لئے تیار کیا جاتا اور مغربیت زدہ نعرے ان کے ہاتھوں میں تھما کر، عورت مارچ کے ذریعے معاشرے میں اپنا مذموم ایجنڈا پھیلایا جاتا ہے۔ اس سال 4 ؍ مارچ 2020ء کو ڈرامہ نگار خلیل الرحمٰن جاوید اور اباحیت وانارکیت کی پرچارک ماروی سرمد کے درمیان اس موضوع پر تلخ مباحثے نے سنگین صورتحال پیدا کردی جس کے بعد قومی سطح پر ایک مکالمہ شروع ہوگیا۔ اس کے بعد حقوقِ نسواں کے بہت سے داعی بھی اس نعرے کی حمایت میں خم ٹھونک کر سامنے آگئے۔’میرا جسم، میری مرضی ‘ میں چھپی من مانی اور مسلم معاشرے کی مزاحمت کو دیکھتے ہوئے بہت سے لوگوں نے اس نعرے کو نئے مفاہیم پہنانے کی کوشش کی جس کا مختصر جائزہ ذیل میں لیا گیا ہے۔
یہ نعرہ لگانے والے نِت نئی تاویلوں سے سامعین کے سامنے اس نعرے کے ناروا پیغام کو اُلجھانے بلکہ چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں، حالانکہ لاہور ہائی کورٹ پہلے ہی اس نعرے کو غلط قرار دے چکا ہے اور حالیہ قومی مباحثہ بھی ٹی وی ٹاک شو میں اس نعرے کے لایعنی تکرار اور گفتگو میں بے جا مداخلت کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔ اس نعرے کو درست ثابت کرنے کے لئے کبھی کہا جاتا ہے کہ اس سے مراد بچیوں سے بدکاری کی مذمت ہے، کبھی چھوٹی عمر اور اور کبھی جبری شادی کی مخالفت کو اس نعرے کا ہدف بتایا جاتا ہے، کبھی اس سے مراد حصولِ اولاد کے بارے میں عورت کی رائے کو نظر انداز کرنا یا اس کو ملازمت کی آزادی دینا بتایا جاتا ہے۔ حالانکہ ٹی وی مباحثہ میں اس نعرے کی سب سے بڑی علم بردار ماروی سرمد نے خود ’ازدواجی تعلق میں اپنی مرضی، اور بچے پیدا کرنے میں اپنی مرضی‘ کا حوالہ دے کر ہی اپنے دعوے اور موقف کی بخوبی وضاحت کردی تھی ۔ اسی طرح اس کے ساتھ مارچ میں لگائے جانے والے نعروں: ’میں آوارہ بدچلن سہی‘... ’اگر دوپٹہ اتنا پسند ہے تو خود لے لو‘... ’لو بیٹھ گئی صحیح سے‘... ’میں طلاق یافتہ لیکن خوش ہوں‘... ’شادی نہیں، آزادی‘... ’شادی کے علاوہ اور بھی بہت کام ہیں‘... ’میری مرضی کی تسبیح روزانہ پڑھیں ‘اور ’ میرا جسم میدانِ جنگ نہیں‘ جیسے پلے کارڈ بھی اس نعرے کے غلط مقصد اور ناجائز مراد کو بخوبی واضح کردیتے ہیں۔
بعض لوگ یورپ میں اس نعرے کے پس منظر اور آغازکو اسقاطِ حمل کی حمایت میں جاری مغربی تحریک سے بھی جوڑتے ہیں۔ جب فیمنزم کے حامی مفکر جان سٹورٹ مل ’عورت کی محکومیت‘ نامی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’’شادی غلامی کی واحد صورت ہے جو اب تک ہمارے قانون کے تحت جائز ہے۔ شادی کا بندھن قانونی بدکاری کے مترادف ہے۔‘‘ او ر عورت مارچ کے حالیہ نعروں کو ملا کر دیکھا جاتا ہے تو بلاشبہ ثابت ہوجاتا ہے کہ مغربی تحریکِ نسواں نکاح وبیاہ کی شدید مخالف ہے جو ابتداے آفرینش سے ہر انسانی معاشرے اور تمام الہامی ادیان کا اہم سماجی تقاضا رہا ہے۔
نعرہ’میرا جسم ، میری مرضی ‘کے کسی تاریخی وعلمی پس منظر سے قطع نظر، اس کے ظاہری الفاظ بہت سے غلط معانی کی نشاندہی کرتے ہیں، جن میں چند ایک درج ذیل ہیں:
a جسم انسان کی ملکیت نہیں، اللّٰہ کی امانت ہے: اس نعرے میں ’جسم کو میرا‘ کہا گیا ہے، حالانکہ اگر جسم انسان کی ملکیت ہوتا تو خود کشی کرنا جائز ہوتا، اور انسان کے لئے اپنے جسمانی اعضا کی خرید وفروخت بھی جائز ہوتی، جسے ہر تہذیب ہی برا اور ناجائز قرار دیتی ہے۔ جسم تو اسی ربّ العزت کی ملکیت ہے جس نے رحم مادر سے انسان کو پیدا کرکے ، گہوارے اور کمزور بچپن کے بعد جوان کیا۔ اور ان تمام مراحل میں والدین اور عزیزوں کے دلوں میں اس سے محبت ڈالی اور ان کی یہ ذمہ داری قرار دی کہ وہ امراض سے بچاؤ اور لباس کے ذریعے اس کی حفاظت کرکے اس کی تعلیم وتربیت کے فرائض انجام دیں۔ سو جسم تو انسان کا نہیں بلکہ سراسر اللّٰہ کریم کی عطا اور امانت ہے!!
b ہماری آزادی ’ہدایتِ نبوی‘ سے مشروط ہے!’میری مرضی‘ کے نظریہ کو مطلقاً درست نہیں کہا جاسکتا۔ کیونکہ اپنے وجود اور خواہشات پر ایک مسلمان کلمہ پڑھ لینے کے بعد، اللّٰہ کی مرضی کو تسلیم کرنے کا عہد کرتا ہے۔ مسلمان کا مطلب ہی یہ ہے کہ جب اللّٰہ اور اس کے رسولﷺ کی بات آئے تو وہ سمِعنا وأطعنا کہہ کر سر تسلیم خم کرے، اسی کو ’اسلام‘ کہتے ہیں۔ یہ بجا کہ اسلام نے بعض جگہ انسان کو مرضی کا اختیار دیا ہے، لیکن غير مشروط مرضی اور مادر پدر آزادی دراصل خالق سے بغاوت ہے جس کا کوئی مسلمان متحمل نہیں ہوسکتا۔ الغرض کلمہ طیبہ کے پہلے جز میں جب ربّ کریم کو اپنا معبود اور دوسرے جز میں اس کے رسول کی طاعت کا دم بھر کر مسلمانی کا اعتراف کیا گیا ہے تو پھر یہ پورا نعرہ ہی اس کلمہ طیبہ کی مخالفت کرتا ہے۔ اس نعرے کے مضمرات پر غور کریں تو پورا اسلام ہی اس کے نشانے پر ہے!
c نکاح سے بالاتر ، جنسی تعلقات:’میرا جسم میری مرضی‘ کا ظاہری مطلب دراصل نکاح سے بالاتر ہوکر مرضی کی بنا پر جنسی تعلقات کا فروغ ہے۔ عورت کے جسم سے ہمارے محاورے میں صنفی تعلق ہی مراد لیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ اگر نکاح کی پابندی کی مذمت ، آوارگی اور بدچلنی کے فروغ کے نعرے کو بھی ملا لیا جائے تو اس کا واضح مطلب یہ بنتا ہے کہ جنسی تعلق کی بنیاد نکاح نہیں بلکہ صرف انسانی مرضی ہونی چاہیے۔ جو مرضی اگر نکاح سے قبل موجود ہو تو وہ تعلق جائز اور اگر نکاح کے بعد بھی وقتی طور پر موجود نہ ہو تو وہ ’ازدواجی جبری زنا‘ کہلاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس نعرے کے پس منظر، ماحول، اور بنیاد کے پیش نظر اس سے وہی مفہوم لیا جائے گا جو مغربی تہذیب اور تحریکِ نسواں صنفی تعلق کو دیتی آئی ہے۔ اور مغرب کا پیش کردہ یہ صنفی تعلق نہ صرف عوامی طور پر ان نعروں کے ذریعے فروغ پاتا ہے بلکہ اس سے قبل قانونی طور پر اکثر ملکی قوانین میں نافذ بھی کیا جا چکا ہے، حتی کہ فیمنسٹ خواتین کے مطالبے کے تحت پاکستان میں بھی ’شادی کے بعد جبری زنا‘ کا قانونی تصور موجود ہے جس کو عوامی سطح پر فروغ دینے کے لئے ایسے الحادی نعرے عام کئے جاتے ہیں۔ حالانکہ ایک مسلمان کے نزدیک شادی سے قبل زنا بالرضا بڑی فحاشی اور بد ترین گناہ ہے، اور نکاح کے بعد شوہر کو جو استحقاق نبی کریمﷺ نے دیا ہے، یہ نعرہ شریعت کی ان واضح تعلیمات سے سیدھا سیدھا متصادم ہے۔ دوسری طرف اس امر میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ بیوی سے حسن سلوک کی نبوی وصیت کے پیش نظر شوہر کو بیوی سے بے رحمانہ رویے سے گریز کرنا چاہیے اور بیوی کو بھی چاہیے کہ وہ بے راہ روی سے رکنے میں اپنے شوہر کی مدد کرے۔
d قبل از بلوغت جنسی تعلق: کہا جاتا ہے کہ اس نعرے کے ذریعے نابالغ بچیوں سے جنسی زیادتی کی مذمت یا چھوٹی عمر میں حصولِ اولاد کی ممانعت کی تلقین کی گئی ہے۔ اگر اس نعرے سے مراد صلاحیت کے بعد جنسی تعلق یا اولاد کے حصول کی مرضی ہے، تو اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ طبی طور پر اگر کوئی بچی یا خاتون واقعۃً اس کی متحمل نہیں تو اس سے یہ زیادتی بالکل نہیں ہونی چاہیے اور اگر کوئی عورت یا مرد عارضی طور پر اولاد سے گریز کرنا چاہتے ہیں تو اس معاملے میں کسی ایک پر انحصار کی بجائے زوجین کی مشترکہ رائے کا لحاظ ہونا چاہیے۔ اور اسلام نسلی صلاحیت کے دائمی خاتمے سے بہر حال منع کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان جائز مطالبوں کے لئے نعرے بھی ایسے موزوں ہونے چاہئیں جس میں ان معانی کی ایسی براہِ راست نشاندہی پائی جاتی ہو جو گمراہی اور خلطِ مبحث کا پیش خیمہ نہ بن سکے۔ موجودہ صورت میں یہ نعرہ اعتدال اور شوہر سے مشاورت کی بجائے اکیلی عورت کی من مانی کا عکاس ہے۔
e اسقاطِ حمل کی اجازت:جہاں تک اسقاطِ حمل کے لئے اس نعرے کے استعمال کی بات ہے، تو ابھی تک اسقاطِ حمل کے جواز پر مغرب میں بھی اتفاق نہیں ہوسکا اور یہ بیسیوں ممالک میں تاحال ایک جرم ہے اور اسلام کی رو سے ایسا کرنا تو سراسر زندہ انسان کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔ فیمنسٹ موومنٹ کو اپنے نعروں میں متنازعہ اُمور کی بجائے مسلّمات سے پیش قدمی کرنی چاہیے۔ وگرنہ نظریاتی اور تحریکی شدت سے مسائل حل کی بجائے مزید اُلجھاؤ کی طرف ہی جاتے ہیں۔ ایک طرف عورت کا اختلافی حق ہے اور دوسری طرف ایک انسان کی زندگی سے کھیلنے کا مطالبہ ہے، جس کو کون ذی عقل ہوش مندی اور اعتدال قرار دے گا۔
بچیوں سے زیادتی کی مذمت :اگر اس نعرے سے مراد بچیوں سے بدکاری یا ریپRapeکا خاتمہ ہے، تو اپنے مطالبے کو نہ صرف سیدھے الفاظ میں بیان کرنا چاہیے بلکہ اس سلسلے میں اسلام کی دی گئی سزاؤں سے بھی اتفاق کرنا چاہیے۔ پہلی صورت میں اس کی سزا سفاک مجرم کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا اور دوسری صورت میں اسے علانیہ سنگسار کرنا ہے۔ ان دونوں سزاؤں سے بڑی سزا مجرم کو دنیا کی کوئی تہذیب اور قانون نہیں دیتا اور اس کے بغیر ان جرائم کا خاتمہ بھی ممکن نہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ فیمنزم میں ’ریپ‘ کو تو جرم کہا جاتا ہے لیکن زنا کو جرم نہیں سمجھا جاتا۔ گویا کہ اصل خرابی فعل بد میں نہیں بلکہ عدم رضا میں ہے۔یہ نظریہ اسلامی شریعت کے سراسر منافی ہے کیونکہ اسلامی تہذیب کی اساس تحفظِ نسل پر ہے جو کہ ہر مہذب معاشرے کا تقاضا بھی ہے۔ اگر ان سنگین جرائم کا خاتمہ مقصود ہے تو سیدھے الفاظ میں اسلامی سزاؤں کو نافذ کرنے کا مطالبہ کریں، وگرنہ ایک اسلامی معاشرہ میں مغربی تہذیب کے نعرے اور استعارے دسیوں تاویلوں کے باوجود کب تک راہ پائیں گے، اور یہی عورت مارچ کی جدوجہد کا اصل محور ومدعا ہے کہ اپنے حقوق اسلام کی بجائے مغربی تہذیب کی بنا پر مانگے جائیں اور اسی بات پر ہی عالمی اداروں سے فنڈنگ اور عالمی میڈیا سے سپورٹ ملتی ہے....!! ٭٭