سیدنا ابوہریرہ﷜ پر دو اعتراضات اور اُن کی حقیقت

سیدنا ابوہریرہ﷜ نے سنّتِ نبویﷺ سننے، سمجھنے، یاد کرنے اور اُسے اُمت تک کمی و بیشی کے بغیر پہنچانے میں توفیقِ الٰہی سے منفرد مقام پایا۔ حافظ ذہبی لکھتے ہیں:
"حَمَلَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ عِلْمًا کَثِیْرًا طَیِّبًا مُّبَارَکًا فِیْهِ، لَمْ یُلْحَقْ فِيْ کَثْرَتِهِ." [1]
’’اُنہوں نے نبی کریمﷺ سے بہت زیادہ، نہایت پاکیزہ، بابرکت علم حاصل کیا۔ اس (علم) کی فراوانی میں کوئی اُن تک پہنچ نہیں سکا۔‘‘
حافظ ذہبی ہی تحریر کرتے ہیں:
"وَ أَبُوْهُرَیْرَة رضي الله عنه إِلَیْهِ الْمُنْتَهٰی فِيْ حِفْظِ مَا سَمِعَهُ مِنَ الرَّسُوْلِ الْکَرِیْمِ ﷺ وَ أَدَآئِهِ بِحُرُوْفِهِ." [2] ’’ابوہریرہ ﷜ نے رسول کریمﷺ سے جو کچھ سنا، اُسے یاد رکھنے اور حرفاً حرفاً ادا کرنے میں انتہا کو پہنچے ہوئے تھے۔‘‘
حضرت ابوہریرہ﷜سے اہلِ علم کی ایک بڑی تعداد نے احادیث کو روایت کیا۔ حافظ ذہبی رقم طراز ہیں:
"حَدَّثَ عَنْهُ خَلْقٌ کَثِیْرٌ مِّنَ الصَّحَابَة وَ التَّابِعِیْنَ." [3]
’’صحابہ﷢اور تابعین کی ایک بہت بڑی تعداد نے اُن سے احادیث کو روایت کیا۔‘‘
امام بخاری﷫ اُن سے روایت کرنے والوں کی تعداد کے متعلق لکھتے ہیں:
"رَوٰی عَنْهُ ثَمَانُ مِائَة أَوْ أَکْثَرُ."[4]
’’اُن سے آٹھ سو (اشخاص) یا اس سے زیادہ (لوگوں) نے (حدیث) روایت کی۔‘‘
حافظ ذہبی﷫ اُن کی روایت کردہ احادیث کی تعداد کے بارے میں رقم طراز ہیں:
"مُسْنَدُهُ خَمْسَة آ لَافٍ وَّ ثَلَاثُ مِائَة وَّ أَرْبَعَةٌ وَّسَبْعُوْنَ حَدِیْثًا." [5]
’’اُن کی مرویات پانچ ہزار تین سو چوہتر ہیں۔‘‘
ابوہریرہ﷜ کے سنّتِ نبوی کے انتہائی بیش قیمت اور عالی قدر خزانے کے سننے، سمجھنے، خوب اچھی طرح یاد کرنے اور محفوظ رکھنے اور پھر امت تک بلا کم و کاست پہنچانے کے عظیم الشان کارنامے کے سرانجام دینے پر اُن سے محبت رکھنے اور اُن کی نہایت تکریم کرنے کی بجائے، کچھ لوگ ،معاذ اللّٰہ انہیں اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
دو اعتراضات
اس سلسلے میں کی گئی گفتگو میں سے دو اعتراضات حسبِ ذیل ہیں:
·             صحبتِ نبویﷺ میں بہت بعد میں آنے کے باوجود کثرتِ روایات
·             اُن کاغیر فقیہ ہونا
پہلا اعتراض: صحبتِ نبویﷺ میں بعد میں حاضری کے باوجود کثرتِ روایات
اُن لوگوں کا کہنا ہے کہ ابوہریرہ﷜ فتح خیبر 7ھ کے موقع پر صحبتِ نبویﷺ میں حاضر ہوئے۔ آنحضرتﷺ کی وفات 11ھ میں ہوئی۔ اس طرح اُن کا صحبتِ نبویﷺ میں رہنے کا دورانیہ چار سال رہا۔ [6]
مزید برآں آنحضرتﷺ نے انہیں علاء بن حضرمی﷫کے ہمراہ کم و بیش ایک سال کے لیے بحرین بھیجا۔[7] اس طرح اُنہیں صحبتِ نبوی ﷺمیں رہنے کا موقع صرف تین سال کے لیے میسر آیا۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ تین سال صحبتِ نبویﷺمیں رہنے والے صحابی کی روایات اُن سے کہیں زیادہ ہوں، جو اُن سے زیادہ مدت تک آنحضرتﷺ کے ساتھ رہے، بلکہ مکی اور مدنی دونوں ادوار میں ساتھ رہے؟
حقیقت ِ اعتراض پر کھنے کے لیے چھ باتیں
ربِّ ذوالجلال جس شخص سے جو کام لینا چاہیں، تو اس کام کی توفیق اُسے عطا فرمانا، اُن کے لیے کچھ دشوار نہیں۔ سنّتِ نبویﷺ حاصل کرنے اور اسے ادا کرنے کی سعادت سے نوازتے ہوئے اللّٰہ تعالیٰ نے اُن کے لیے ایسے حالات، مواقع اور اسباب مہیا فرمائے، جو دیگر صحابہ﷢ کو میسر نہ آئے۔
اسی حوالے سے ذیل میں پانچ نکات کے ضمن میں قدرے تفصیل ملاحظہ فرمائیے:
A صحبتِ نبوی کے لیے وقف ہونا: حضرت ابوہریرہ﷜ نے صحبتِ نبوی ﷺمیں حاضری سے لے کر وفاتِ نبویﷺ تک، سوائے سفرِ بحرین کے دورانیہ کے، اپنے آپ کو سنّتِ نبویﷺ سننے، دیکھنے، سمجھنے اور یاد کرنے کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ پیٹ بھر کر کھانے کے علاوہ احادیثِ شریفہ کے سوا اُن کی کسی چیز میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ علاوہ ازیں پیٹ بھر کر کھانا بھی کم ہی میسر آتا۔ یہ بات دیگر حضراتِ مہاجرین و انصار، حتیٰ کہ اُمّ المومنین عائشہؓ میں بھی نہیں تھی۔ [8]
B سمجھنے کی خاطر سوال کی جرات اور حسنِ سلیقہ میں انفرادیت: ابوہریرہ دیگر صحابہ﷢ کے مقابلے میں سوال کرنے میں زیادہ حریص، جری اور بے باک تھے اور اللّٰہ تعالیٰ نے اُنہیں سوال کرنے کا عمدہ سلیقہ بھی خوب عطا کر رکھا تھا۔ [9]
C عدیم النظیر اور بے مثال حافظہ:احادیث کے یاد رکھنے میں حضرت ابوہریرہ﷜ دیگر صحابہ﷢ کے مقابلے میں کہیں زیادہ اور مضبوط یادداشت والے تھے۔ اس یادداشت میں اُن کے لیے ممدو معاون باتوں میں سے اُن کی اس مقصد کے لیے یک سوئی، شدید توجہ، انتہائی دھیان اور سب سے بڑھ کر اس سلسلے میں آنحضرتﷺ کی اُن کے لیے دعا اور بشارت تھی۔ [10]
سیدنا طلحہ اور سیدنا ابن عمر﷜کے بیانات
اس سب کچھ کی تاکید کی خاطر ذیل میں دو حضراتِ صحابہ﷢ کے بیانات ملاحظہ فرمائیے:
الف:    امام حاکم نے ابو انس مالک بن ابو عامر سے روایت کیا، کہ انہوں نے بیان کیا:
’’میں طلحہ بن عبیداللّٰہ﷜ کے پاس تھا، تو اُن کے ہاں ایک شخص آیا اور کہنے لگا:
"یَا أَبَا مُحَمَّدٍ! مَا نَدْرِيْ هٰذَا الْیَمَانِيُّ أَعْلَمُ بِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ أَمْ أَنْتُمْ؟ تَقَوَّلَ عَلٰى رَسُوْلِ اللهِ ﷺ مَا لَمْ یَقُلْ یَعْنِيْ أَبَا هُرَیْرَةَ رضي الله عنه ."
’’اے ابو محمد! ہم نہیں جانتے، کہ یہ یمنی رسول اللّٰہﷺ کو زیادہ جانتا ہے یا آپ؟ اُس نے رسول اللّٰہﷺ کی جانب وہ کچھ منسوب کر کے بیان کیا ہے، جو کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا نہیں تھا۔‘‘
سیدنا طلحہ﷜ نے فرمایا:
"وَ اللهِ! مَا یُشَكُّ أَنَّهُ سَمِعَ مِنْ رَّسُوْلِ اللهِ ﷺ مَا لَمْ نَسْمَعْ، وَ عَلِمَ مَا لَمْ نَعْلَمْ.
إِنَّا کُنَّا قَوْمًا أَغْنِیَآءَ، لَنَا بُیُوْتٌ، وَ أَهْلُوْنَ. کُنَّا نَأْتِيْ نَبِيَّ اللهِ ﷺ طَرَفَيِ النَّهَارِ، ثُمَّ نَرْجِعُ.
وَ کَانَ أَبُوْهُرَیْرَةَ مِسْکِیْنًا،[11] لَا مَالَ لَهُ وَ لَآ أَهْلَ، وَ لَا وَلَدَ.
إِنَّمَا کَانَتْ یَدُهُ مَعَ یَدِ النَّبِيِّﷺ. وَ کَانَ یَدُوْرُ مَعَهُ حَیْثُ مَا دَارَ. وَ لَا نَشُكُّ أَنَّهُ قَدْ عَلِمَ مَا لَمْ نَعْلَمْ، وَ سَمِعَ مَا لَمْ نَسْمَعْ.
وَ لَمْ یَتَّهِمْهُ أَحَدٌ مِّنَّا أَنَّهُ تَقَوَّلَ عَلى رَسُوْلِ اللهِ ﷺ مَا لَمْ یَقُلْ."[12]
’’اللّٰہ تعالیٰ کی قسم! اس میں شک نہیں، کہ بلاشبہ انہوں نے رسول اللّٰہﷺ سے وہ کچھ سنا ہے، جو ہم نے نہیں سنا تھا اور انہیں وہ کچھ معلوم ہوا، جس کا ہمیں علم نہیں تھا۔بے شک ہم مال دار (لوگ) تھے۔ ہمارے گھر اور کنبے تھے۔ ہم اللّٰہ تعالیٰ کے نبیﷺ کے حضور دن کے دونوں کناروں میں حاضر ہوتے، پھر واپس چلے جاتے۔ابوہریرہ﷜ مسکین شخص تھے۔ نہ اُن کا مال تھا، نہ کنبہ اور نہ اولاد۔ اُن کا ہاتھ نبی کریمﷺ کے ہاتھ (مبارک) کے ساتھ تھا۔ جہاں کہیں آنحضرتﷺ تشریف لے جاتے، وہ بھی ساتھ ہی جاتے۔ہمیں اس بارے میں کوئی شک نہیں، کہ یقینا انہوں نے وہ کچھ جانا، جس کا ہمیں علم نہیں ہوا تھا اور انہوں نے وہ کچھ سنا، جو ہم نے نہیں سنا تھا۔ہم میں سے کسی ایک نے بھی اُن پر یہ تہمت نہیں باندھی، کہ اُنہوں نے اللّٰہ تعالیٰ کے رسولﷺکی طرف وہ کچھ منسوب کیا، جو آنحضرتﷺ نے فرمایا نہیں تھا۔‘‘
ب:امام احمد نے سیدنا ابن عمر﷜ سے روایت کیا، کہ وہ ابوہریرہ﷜ کے پاس سے گزرے، وہ نبی کریمﷺ سے حدیث روایت کر رہے تھے، کہ بے شک رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا:
’’جو شخص جنازے کے پیچھے چلا اور اُس پر نماز پڑھی، تو اُس کے لیے ایک قیراط (کے برابر اجر و ثواب) ہے۔ اگر وہ اُس کے دفن میں (بھی) حاضر ہوا، تو اُس کے لیے دو قیراط ہیں اور (ایک) قیراط احد (پہاڑ) سے زیادہ بڑا ہے۔‘‘
ابن عمر﷜ نے کہا: ابوہر [13]! دیکھو رسول اللّٰہﷺ سے کیا بیان کر رہے ہو!!‘‘
ابوہریرہ انہیں ہمراہ لے کر عائشہؓ کے پاس چلے گئے۔ اُن سے عرض کیا:
’’اے اُمّ المومنین! میں آپ کو اللّٰہ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کہ آپ نے رسول اللّٰہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:’’جو شخص جنازے کے پیچھے چلا اور اُس پر نماز پڑھی، تو اُس کے لیے ایک قیراط ہے۔ اگر اُس کی تدفین کے موقع پر حاضر ہوا، تو اُس کے لیے دو قیراط ہیں؟‘‘
انہوں نے جواب دیا: ’’اللّٰہ کی قسم! ہاں (یعنی میں نے آنحضرتﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا)۔‘‘
تو ابوہریرہ ﷜ نے کہا:
"إِنَّهُ لَمْ یَکُنْ یَّشْغَلُنِيْ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ غَرْسُ الْوَدِيِّ، وَ لَا صَفْقٌ بِالْأَسْوَاقِ. إِنَّمَا کُنْتُ أَطْلُبُ مِنْ رَّسُوْلِ اللهِ ﷺ کَلِمَةً یُّعَلِّمُنِیْهَا أَوْ أَکْلَةً یُّطْعِمُنِیْهَا."
’’بے شک بات یہ ہے، کہ کھجور کے پودوں کی کاشت اور بازاروں کا شور مجھے رسول اللّٰہﷺ سے مشغول نہیں کرتا تھا۔ بلاشبہ میں تو رسول اللّٰہﷺ سے اس بات کی طلب میں رہتا تھا، کہ وہ مجھے کوئی بات (یعنی حدیث) سکھلا دیں یا کھانا کھلا دیں۔‘‘
ابن عمر﷜ نے اُن سے کہا:
"یَا أَبَا هُرَیْرَةَ! کُنْتَ أَلْزَمَنَا لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَ أَعْلَمَنَا بِحَدِیْثِه." [14]
’’اے ابوہریرہ! آپ رسول اللّٰہﷺ کے ساتھ ہم سے زیادہ چمٹنے والے اور اُن کی حدیث ہم سے زیادہ جاننے والے تھے۔‘‘
D احادیث کی دہرائی کے لیے ایک تہائی رات کا مخصوص کرنا: ابوہریرہﷺ خود بیان کرتے ہیں:
"إِنِّيْ لَأُجَزِّيئُ اللَّیْلَ ثَلَاثَةَ أَجْزَآءً: فَثُلْثٌ أَنَامُ، وَ ثُلْثٌ أَقُوْمُ، وَ ثُلْثٌ أَتَذَکَّرُ أَحَادِیْثَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ." [15]
’’بے شک میں رات کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہوں:سو ایک تہائی میں سوتا ہوں، ایک تہائی قیام کرتا ہوں اور ایک تہائی رسول اللّٰہﷺ کی احادیث کو دہراتا ہوں۔‘‘
E احادیث پہنچانے کے مواقع میسر آنے میں انفرادیت: ربّ کریم نے حضرت ابوہریرہ﷜ کے لیے احادیث پہنچانے، سکھلانے اور بیان کرنے کے لیے ایسے مواقع اور حالات مہیا فرمائے، جو احادیث کا علم رکھنے والے دیگر صحابہ﷢ کو کم ہی میسر آئے۔ انہی باتوں میں سے تین حسبِ ذیل ہیں:
ا: انتظامی ذمہ داریوں سے غالباً آزادی: آنحضرتﷺ کے انتقال کے بعد حضرت ابوہریرہ﷜ اسلامی ریاست کی ہر قسم کی چھوٹی بڑی انتظامی ذمہ داریوں سے غالباً آزاد رہے۔ اس لیے انہیں یاد کی ہوئی احادیث بیان کرنے کا خوب موقع میسر آیا۔
ب: وفاتِ نبوی کے بعد عموماً مدینہ طیبہ میں قیام: آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد اُنہیں عموماً مدینہ طیبہ ٹھہرنے اور سکونت اختیار کرنے کا موقع میسر آیا اور مدینہ طیبہ ان مقامات میں سرفہرست تھا، جہاں کا احادیث کے طلبہ اس وقت رخ کیا کرتے تھے۔
امام بخاری﷫ نے بیان کیا:
"رَوٰی عَنْهُ نَحْوٌ مِّنْ ثَمَانِمِائَةِ رَجُلٍ أَوْ أَکْثَرَ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ الصَّحَابَةِ وَ التَّابِعِیْنَ وَغَیْرِهِمْ." [16]
’’اہلِ علم صحابہ و تابعین اور اُن کے علاوہ دیگر لوگوں میں سے قریباً آٹھ سو یا اس سے زیادہ افراد نے اُن سے (حدیث) روایت کی۔‘‘
ج: وفاتِ نبوی کے بعد طویل عمر :وفاتِ نبویﷺکے بعد لمبی عمر پائی۔ انہیں وفاتِ نبویﷺ کے بعد 46 یا 47 یا 48 سال تک احادیث بیان کرنے کی سعادت رب کریم کی عنایت سے حاصل ہوئی۔
F اعداد و شماراور حقائق: اس شبہ کی اعداد و شمار اور حقائق کی روشنی میں تردید کی غرض سے درجِ ذیل پانچ باتوں پر غور فرمانے کی التماس ہے:
ا: احادیث کو صحبتِ نبوی کے ایام پر تقسیم سے تعجب کا خاتمہ : حضرت ابوہریرہ﷜ کی احادیث کی تعداد 5374 [17]ہے۔ انہوں نے یہ احادیث توفیقِ الٰہی کے ساتھ شب و روز کی صحبت، شدید توجہ، مکمل دھیان، کامل یکسوئی اور اللّٰہ تعالیٰ کی عطا کردہ غیر معمولی قوتِ یادداشت سے حاصل کیں۔ وہ صحبتِ نبویﷺ میں تین سال رہے۔ عربی تین سالوں کے دن 1065[18] بنتے ہیں۔ اگر ان کی احادیث کو اُن کے صحبتِ نبویﷺ کے ایام پر تقسیم کیا جائے، تو ہر دن کے حصے میں5.046 حدیثیں آتی ہیں۔ کیا حضرت ابوہریرہ﷜ ایسے حالات والے شخص کا روزانہ پانچ یا سوا پانچ احادیث یاد کرنا ناممکن ہے؟
ب: صحبتِ نبویﷺ کے زمانے میں بھرپور قوت اور جوانی: ابوہریرہ﷜ کی صحبتِ نبویﷺ میں حاضری کے وقت عمر 26 یا 27 یا 28 سال تھی۔ [19]
قابلِ غور سوال یہ ہے، کہ کیا 26 یا 27 یا 28 سالہ نوجوان کے لیے، جو ہر قسم کی مشغولیتوں سے دُور اور بے نیاز احادیث سننے، سمجھنے اور یاد کرنے میں مگن ہو، ہر روز 5 احادیث حاصل کر کے یاد کرنا اور پھر من و عن روایت کرنا کوئی غیر ممکن بات ہے؟355x 3 = 1065
نو، دس سالہ غیر عربی بچے تین تین، بلکہ دو دو سالوں میں ، مکمل قرآن کریم یاد کر کے رمضان المبارک کی تراویح میں امامت کروا کر سنا دیتے ہیں، تو حضرت ابوہریرہ﷜ایسے موافق اور سازگار ماحول اور اسباب والے ، نیز دعائے نبویﷺکے حامل شخص کے لیے توفیقِ الٰہی سے اتنی احادیث کا یاد کرنا اور روایت کرنا، کیونکر ناممکن ہو سکتا ہے؟
ج: مکرّر احادیث کے حذف سے تعداد میں نمایاں کمی: مزید برآں حضرت ابوہریرہ﷜ کی احادیث میں مکرر احادیث بھی ہیں۔ یہ تکرار اس حدیث کی جُدا جُدا سندوں کی بنا پر پیدا ہوا ہے۔ ایک سے زیادہ سندوں والی حدیث کو متن کے اعتبار سے ایک حدیث نہیں، بلکہ سندوں کی گنتی کے بقدر شمار کیا گیا ہے۔ اگر اس وجہ سے ہونے والے تکرار کو ختم کیا جائے، تو احادیث کی تعداد کافی کم ہو جاتی ہے۔
مثال کے طور پر مسند امام احمد میں ابوہریرہ﷜ کی احادیث کی تعداد 3866 ہے۔ [20]
پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمن لکھتے ہیں:
’’مسند امام احمد اور حدیث کی چھ کتابوں: بخاری، مسلم، ابوداود، نسائی، ترمذی اور ابن ماجہ میں تکرار کے بغیر ابوہریرہ﷜ کی روایت کردہ احادیث صرف 1336 ہیں۔ علاوہ ازیں مستدرک حاکم، سنن بیہقی، (سنن) دارقطنی، مصنف عبدالرزاق اور حدیث کی دیگر کتابوں میں بھی اُن کی احادیث ہیں، لیکن میں جزم و یقین کے ساتھ کہتا ہوں، کہ (تکرار کے بغیر) اُن کی زیادہ سے زیادہ تعداد دو ہزار سے زائد نہیں۔اگر اس تعداد کو صحبتِ نبویﷺ میں رہنے والے دنوں کے ساتھ تقسیم کیا جائے، تو ہر روز کی زیادہ سے زیادہ دو حدیثیں بنتی ہیں۔‘‘
د: غیرثابت شدہ احادیث منہا کرنے سے تعداد میں مزید کمی: مزید برآں اس تعداد میں صحیح احادیث کے ساتھ ایسی احادیث بھی ہیں، جن کا ابوہریرہ﷜ کی روایات ہونا ثابت نہیں۔ ان کے الگ کرنے سے تعداد مزید کم ہو گی۔ [21]
ھ: بعض احادیث کا نہایت مختصر ہونا: یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے، کہ اُن کی احادیث میں ایک بڑی تعداد اتنی مختصر احادیث کی ہے، کہ وہ دو، دو سطروں سے بھی کم ہیں۔کیا اس سب کچھ کے بعد ابوہریرہ﷜ پر کثرتِ احادیث کی بنا پر اپنی قلم کو تنقید کی خاطر حرکت دینا مناسب ہے؟
دوسرا اعتراض: سیدنا ابوہریرہ﷜ کا غیر فقیہ ہونا
بعض لوگ کہتے ہیں [22]کہ ابوہریرہ﷜ کی بعض روایات قیاس کے خلاف ہیں اور وہ خود غیر فقیہ تھے۔ لہٰذا اُن کی ایسی احادیث کو ردّ کر دیا جائے گا۔
اس سلسلے میں انہوں نے ’حدیثِ مصرّاۃ‘ کو بطورِ مثال پیش کیا ہے۔ وہ حدیث حسبِ ذیل ہے:
امام بخاری﷫ اور امام مسلم﷫ نے ابوہریرہ﷜ سے روایت کیا، کہ انہوں نے نبی کریمﷺ سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا:
«لَا تُصَرُّوا الْإِبِلَ وَ الْغَنَمَ. فَمَنِ ابْتَاعَهَا بَعْدُ، فَإِنَّهُ بِخَیْرِ النَّظَرَیْنِ بَعْدَ أَنْ یَّحْتَلِبَهَا: إِنْ شَآءَ أَمْسَكَ، وَ إِنْ شَآءَ رَدَّهَا وَ صَاعَ تَمْرٍ». [23]
’’اونٹنی اور بکری (کے دودھ) کو نہ روکو۔ جس شخص نے اُس (کے روکنے) کے بعد اُسے خریدا، تو یقینا وہ اُس کا دودھ دوہنے کے بعد، دونوں میں سے بہتر رائے والا ہے (یعنی اُسے حق ہے، کہ دونوں باتوں میں سے جسے چاہے، اختیار کر لے):اگر چاہے، تو اُسے (اپنے ہاں ہی) رہنے دےاور اگر چاہے، تو اُسے واپس کر دے اور ایک صاع [24] کھجور (بھی دے)۔‘‘
حقیقت اعتراض پرکھنے کے لیے سات باتیں
اعتراض کی حقیقت سمجھنے کی غرض سے توفیقِ الٰہی کے ساتھ حسبِ ذیل سات پہلوؤں سے غور کرتے ہیں :
A نبی کریم کی اطاعت کا غیرمشروط ہونا:قرآن و سنت حتمی طور پر یہ بات واضح کرتے ہیں، کہ نبی کریمﷺ کی اطاعت قطعی طور پر غیر مشروط ہے۔ حضراتِ صحابہ﷢ اور سلف صالحین کے اقوال و اعمال بھی اسی حقیقت پر دلالت کرتے ہیں۔ ذیل میں چند ایک باتیں بطور مثال ملاحظہ فرمائیے:
ا:    ارشادِ ربانی: ﴿ وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا﴾ ) الحشر:7)
’’اور جو کچھ تمہیں رسولﷺ دیں، تو اُسے تھام لو اور جس چیز سے تمہیں روکیں، تو اُس سے باز آ جاؤ۔‘‘
ب: آنحضرتﷺ کے (حکم) کے بعد، اُس کی (تعمیل) اور (نہی) کے بعد، اُس سے (اجتناب) کے علاوہ، امت کے پاس کوئی اختیار نہیں۔ ارشادِ ربانی ہے:
﴿ وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْؕ﴾                         (الأحزاب: 36)
’’اور بے شک کبھی ، کسی ایمان دار مرد کا حق نہیں اور نہ کسی ایمان والی عورت کا، کہ جب اللّٰہ تعالیٰ اور اُن کے رسولﷺ کسی کام کا فیصلہ کر دیں، کہ اُن کے لیے، اس معاملے میں اختیار ہو۔‘‘
ج: ارشادِ نبویﷺ :   «مَا أَمَرْتُکُمْ بِه فَخُذُوْهُ، وَ مَا نَهَیْتُکُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا.»[25]
’’جس چیز کا میں تمہیں حکم دوں، تم اُسے تھام لو اور جس چیز سے میں تمہیں منع کروں، سو تم اس سے باز آ جاؤ۔‘‘
د:    علامہ ابن سمعانی﷫ لکھتے ہیں:
"مَتٰی ثَبَتَ الْخَبَرُ صَارَ أَصْلًا مِّنَ الْأُصُوْلِ، وَ لَا یَحْتَاجُ إِلٰى عَرْضِهِ عَلىٰ أَصْلٍ آخَرَ، لِأنَّهُ إِنْ وَّافَقَهُ فَذَاكَ. وَ إِنْ خَالَفَهُ فَلَا یَجُوْزُ رَدُّ أَحَدِهِمَا، لِأَنَّهُ رَدٌّ لِّلْخَبَرِ بِالْقِیَاسِ، وَهُوَ مَرْدُوْدٌ بِاتِّفَاقٍ، فَإِنَّ السُّنَّةَ الثَّابِتَةَ مُقَدَّمَةٌ عَلَى الْقِیَاسِ بِلَا خِلَافٍ." [26]
’’جب حدیث ثابت ہو جائے، تو وہ (دین کی) بنیادوں میں سے ایک بنیاد ہے اور اُسے کسی اور بنیاد پر پیش کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ اگر وہ (حدیث) اُس کے موافق ہوئی، تو پھر تو (بات) ٹھیک ہے اور اگر اس کے مخالف ہوئی، تو پھر اُن میں سے ایک کا ردّ کرنا درست نہیں، کیونکہ اس طرح قیاس کے ساتھ حدیث کا ردّ کرنا ہے اور اس (یعنی قیاس) کے مردود ہونے پر اجماع ہے، کیونکہ اس میں کوئی اختلاف نہیں، کہ سنتِ ثابتہ قیاس پر مقدّم [27] ہے۔‘‘
B دیگر صحابہکا بھی اس حدیث کو روایت کرنا:
ا: اس حدیث کے روایت کرنے میں حضرت ابوہریرہ﷜ صحابہ میں سے منفرد اور تنہا نہیں۔ دیگر حضرات صحابہ﷢ نے بھی اسے روایت کیا ہے:
امام ابوداؤد نے ابن عمر﷜ کے حوالے سے
امام طبرانی نے ابن عمر﷜ ہی کے حوالے سے ایک دوسری سند کے ساتھ
امام ابویعلیٰ نے انس﷜ کے حوالے سے
امام بیہقی نے عمرو بن عوف مزنی﷜کے حوالے سے
اور امام احمد نے صحابہ میں سے ایک شخص کے حوالے سے اسے روایت کیا ہے۔ [28]
ب: حافظ ابن عبدالبر تحریر کرتے ہیں:
"هَذَا ا الْحَدِیْثُ مُجْمَعٌ عَلى صِحَّتِهِ وَ ثُبُوْتِه مِنْ جِهَةِ النَّقْلِ، وَ اعْتَلَّ مَنْ لَّمْ یَأْخُذْ بِه بِأَشْیَآءَ لَا حَقِیْقَةَ لَهَا." [29]
’’روایت کے اعتبار سے اس حدیث کی صحت اور ثبوت پر اجماع ہے۔ اسے نہ لینے (یعنی نہ ماننے) والوں نے باتیں بنائی ہیں، جن کی کوئی حقیقت ہی نہیں۔‘‘
تو کیا ان حضراتِ صحابہ﷢ کی روایت کردہ حدیث کو بھی …معاذ اللّٰہ… انہیں غیر فقیہ کہہ کر ردّ کیا جائے گا؟
C اس حدیث کے مطابق ابن مسعودکا فتویٰ
امام بخاری نے حضرت عبداللّٰہ بن مسعود﷢ سے روایت کیا، کہ انہوں نے فرمایا:
"مَنِ اشْتَرٰی شَاةً مُّحَفَّلَةً فَرَدَّهَا، فَلْیَرُدَّ مَعَهَا صَاعًا مِّنْ تَمْرٍ." [30]
’’جس شخص نے (دودھ) روکی ہوئی بکری خریدی، تو اُسے واپس کر دیا، تو اُسے چاہیے، کہ اُس کے ساتھ ایک صاع کھجوریں بھی دے۔‘‘
حضرت ابن مسعود﷜ نے، جن کے بلند پایہ فقیہ ہونے کی شہادت کبار صحابہ﷢ نے دی ہے، اُسی حدیث کے مطابق فتویٰ دیا ہے، جسے بعض لوگ (راوی ابوہریرہ﷜ غیر فقیہ) کہہ کر ماننے سے انکار کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر محمد روّاس قلعہ جی لکھتے ہیں:
"مِمَّا لَا شَكَّ فِیْهِ أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنهما کَانَ فَقِیْهًا مِّنَ الطِّرَازِ الْأَوَّلِ، شَهِدَ لَهُ کِبَارُ الصَّحَابَةِ وَ عُلَمَاؤُهُمْ." [31]
’’اس بات میں کوئی شک نہیں، کہ بلاشبہ عبداللّٰہ بن مسعود صف اوّل کے فقیہ تھے۔ اُن کے متعلق (یہ) گواہی کبار صحابہ﷢ اور اُن کے علما نے دی ہے۔‘‘
امام شعبی نے اُن کے بارے میں بیان کیا:
"لَمْ یَکُنْ أَحَدٌ مِّنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ ﷺ أَفْقَهَ أَصْحَابًا مِّنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ." [32]
’’محمد کریمﷺ کے صحابہ﷢ میں سے کسی کے شاگرد عبداللّٰہ بن مسعود﷜ کے شاگردوں سے بڑے فقیہ نہیں تھے۔‘‘
حضرت امام ابوحنیفہ﷫ کی فقہ، بلکہ فقۂ اہل عراق کی عموماً حضرت ابن مسعود﷜ کی فقہ سے فیض یابی، کے متعلق ڈاکٹر قلعہ جی لکھتے ہیں:
"نَرَیٓ أَنَّ فِقْهَ أَبِيْ حَنِیْفَةَ …بَلْ فِقْهَ الْعِرَاقِ جُمْلَةً… یَعُوْدُ فِيْ أُصُوْلِهِ إِلٰى فِقْهِ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ، فَهُوَ الْعَمِیْدُ الْأَوَّلُ لِلْمَدْرَسَةِ، وَ غَارَسَ الْبُذُوْرَ الْأُوْلٰى فِیْهَا." [33]
’’ہم دیکھتے ہیں، کہ فقہ ابی حنیفہ﷫بلکہ فقہ عراق عمومی طور پر … اپنے اصول (و ضوابط) کے اعتبار سے عبداللّٰہ بن مسعود﷜کی فقہ کی طرف لوٹتی ہے۔ وہ ہی اس مدرسہ کے سربراہِ اوّل ہیں اور اُنہوں نے اس کے ابتدائی بیج بوئے۔‘‘
غور طلب بات یہ ہے کہ اس بارے میں عظیم فقیہ صحابی ابن مسعود﷜ کا طرزِ عمل درست ہے یا ان لوگوں کا؟
امام بخاری پر بھی اللّٰہ تعالیٰ کی ان گنت رحمتیں ہوں کہ انہوں نے ابوہریرہ﷜ کی حدیث کے متصل بعد، اُسی باب میں ابن مسعود﷜ کا فتویٰ روایت کیا ہے۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
"أَوْرَدَ الْبُخَارِيُّ حَدِیْثَ ابْنِ مَسْعُوْدٍ عَقِبَ حَدِیْثِ أَبِيْ هُرَیْرَةَ إِشَارَةً مِّنْهُ إِلٰی أَنَّ ابْنَ مَسْعُوْدٍ قَدْ أَفْتٰی بِوِفْقِ حَدِیْثِ أَبِيْ هُرَیْرَةَ. فَلَوْلَا أَنَّ خَبَرَ أَبِيْ هُرَیْرَةَ فِيْ ذٰلِكَ ثَابِتٌ لَّمَا خَالَفَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ القِیَاسَ الْجَلِيَّ فِيْ ذٰلِكَ."[34]
’’(امام) بخاری ابوہریرہ﷜ کی حدیث کے بعد ابن مسعود کی حدیث اپنی جانب سے یہ اشارہ کرنے کی خاطر لائے ہیں، کہ ابن مسعود نے ابوہریرہ کی حدیث کے مطابق فتویٰ دیا۔ اگر اس بارے میں ابوہریرہ ﷜کی حدیث ثابت نہ ہوتی، تو اس بارے میں ابن مسعود﷜ (قیاس جلی) کو نہ چھوڑتے۔‘‘
D صحابہ اور ائمہ کرام کا اُن کی دیگر بظاہر خلافِ قیاس احادیث پر عمل : حافظ ذہبی لکھتے ہیں:
"وَقَدْ عَمِلَ الصَّحَابَةُ وَ مَنْ بَعْدَهُمْ بِحَدِیْثِ أَبِيْ هُرَیْرَةَ فِيْ مَسَائِلَ کَثِیْرَةٍ تُخَالِفُ الْقِیَاسَ، کَمَا عَمِلُوْا کُلُّهُمْ بِحَدِیْثِهِ عَنِ النَّبِيِّﷺ، أَنَّهُ قَالَ:«لَا تُنْکَحُ الْمَرْأَةُ عَلى عَمَّتِهَا، وَ لَا خَالَتِهَا». [35]
’’بے شک صحابہ﷢ اور اُن کے بعد والے (اہلِ علم و فضل) لوگوں نے ابوہریرہ﷜ کی خلافِ قیاس احادیث پر بہت زیادہ مسائل میں عمل کیا، جیسے کہ اُن سب لوگوں نے اُن کی نبی کریمﷺ سے روایت کردہ حدیث پر عمل کیا، کہ بے شک آنحضرتﷺ نے فرمایا:
’’عورت کا نکاح نہ اُس کی پھوپھی اور نہ اُس کی خالہ پر کیا جائے۔‘‘
حافظ ذہبی مزید رقم طراز ہیں:
"وَعَمِلَ أَبُوْحَنِیْفَةَ وَ الشَّافِعِيُّ وَغَیْرُهُمَا بِحَدِیْثِهِ: "أَنَّ مَنْ أَکَلَ نَاسِیًا فَلْیُتِمَّ صَوْمَهُ."[36]مَعَ أَنَّ الْقِیَاسَ عِنْدَ أَبِيْ حَنِیْفَةَ: أَنَّهُ یُفْطِرُ، فَتَرَكَ الْقِیَاسَ لِخَبَرِ أَبِيْ هُرَیْرَةَ."
’’(امام) ابوحنیفہ اور (امام) شافعی اور اُن کے علاوہ دیگر (ائمہ) نے اُن کی (درجِ ذیل) حدیث پر عمل کیا:’’بے شک جس شخص نے بھول کر کھا لیا، سو وہ اپنا روزہ مکمل کرے۔‘‘
اگرچہ (امام) ابوحنیفہ کے نزدیک قیاس یقیناً یہ ہے، کہ وہ روزہ کھول دے۔ انہوں نے ابوہریرہ﷜ کی حدیث کی بنا پر قیاس کو چھوڑ دیا۔‘‘
"وَ هٰذَا مَالِكٌ عَمِلَ بِحَدِیْثِ أَبِيْ هُرَیْرَةَ فِيْ غَسْلِ الْإِنَآءِ سَبْعًا مِّنْ وُلُوْغِ الْکَلْبِ. [37] مَعَ أَنَّ الْقِیَاسَ عِنْدَهُ أَنْ لَا یُغْسَلَ لِطَهَارَتِهِ عِنْدَهُ."۔‘‘
’’اور یہ کہ (امام) مالک، نے (کتے کے برتن میں منہ ڈالنے پر اُسے سات دفعہ دھونے) کے بارے میں ابوہریرہ﷜ کی حدیث پر عمل کیا، اگرچہ اُن کے نزدیک قیاس یہ ہے: کہ (برتن میں کتے کے منہ ڈالنے کے باوجود) اس کے پاک ہونے کی بنا پر اُسے دھویا نہ جائے۔‘‘
"بَلْ قَدْ تَرَكَ أَبُوْحَنِیْفَةَ الْقِیَاسَ لِمَا هُوَ دُوْنَ حَدِیْثِ أَبِيْ هُرَیْرَةَ فِيْ مَسْأَلَةِ الْقَهْقَهةَ؛ لِذٰلِكَ الْخَبَرِ الـْمُرْسَلِ." [38]
’’بلکہ (امام) ابوحنیفہ نے قہقہہ کے مسئلہ میں ابوہریرہ﷜ کی حدیث سے کم حیثیت والی (خبرِ مرسل) کی وجہ سے قیاس کو چھوڑ دیا۔‘‘[39]
E ابوہریرہ کی فقاہت اور اُن کی تمام روایات کی حجیت: جس اساس اور بنیاد [40]پر یہ ساری عمارت کھڑی کی گئی، وہ اصل اور اساس ہی درست نہیں۔ ’ابوہریرہ﷜ کا غیر فقیہ ہونا‘ایسے بیان کیا گیا، جیسے کہ یہ علماے امت کی متفقہ رائے اور اُن کے ہاں ایک مسلّمہ حقیقت ہے۔ صورتِ حال قطعی طور پر ایسی نہیں۔ اہلِ علم وفضل کی ایک بڑی تعداد نے انہیں ’فقیہ‘ اور اُن کی ہر قسم کی ثابت شدہ روایات کو حجت قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے ذیل میں پانچ اقتباسات ملاحظہ فرمائیے:
ا:    حافظ ذہبی اُن کے متعلق گفتگو کا آغاز حسبِ ذیل الفاظ سے کرتے ہیں:
"اَلْإِمَامُ الْفَقِیْهُ الْمُجْتَهِدُ الْحَافِظُ صَاحِبُ رَسُوْلِ اللهِﷺ، أَبُوْهُرَیْرَةَ الدَّوْسِيُّ الْیَمَانِيُّ، سَیِّدُ الْحُفَّاظِ الْأَثْبَاتِ."[41]
’’امام فقیہ مجتہد حافظ، رسول اللّٰہﷺ کے صحابی، ابوہریرہ دوسی یمانی، نہایت پختہ (یادداشت والے) حفاظ حضرات کے سردار۔‘‘
امام ابن سعد نے زیاد بن مینا سے روایت کیا، کہ انہوں نے بیان کیا:
"کَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ، وَ ابْنُ عُمَرَ، وَأَبُوْسَعِیْدٍ، وَأبُوْهُرَیْرَةَ، وَجَابِرٌ، مَعَ أَشْبَاهٍ لَّهُمْ یُفْتُوْنَ بِالْمَدِیْنَةِ، وَ یُحَدِّثُوْنَ عَنْ رَّسُوْلِ اللهِﷺ مِنْ لَّدُنْ تُوُفِّيَ عُثْمَانُ إِلى تُوَفُّوْا."
قَالَ: "وَهٰٓؤُ لَاءِ الْخَمْسَةُ إِلَیْهِمْ صَارَتِ الْفَتْوٰی."[42]
’’ابن عباس، ابن عمر، ابوسعید، ابوہریرہ اور جابر اپنے ہم پلہ حضرات کے ہمراہ عثمان﷢ کی وفات سے لے کر اپنی اپنی وفات تک مدینہ (طیبہ) میں فتویٰ دیتے اور رسول اللّٰہﷺ سے احادیث بیان کرتے تھے۔‘‘
انہوں (یعنی زیاد بن مینا) نے (یہ بھی) بیان کیا:
’’اُن پانچ ہی کے پاس فتویٰ تھا۔‘‘ (یعنی اُس دور میں مسندِ فتویٰ انہی پانچ حضراتِ صحابہ﷢ کے پاس تھی)۔‘‘
اب جو شخصیت خیر القرون میں اُن پانچ علماے امت میں سے ایک ہو، جن ہی کا فتویٰ بائیس یا تئیس یا چوبیس سالوں کی طویل مدت تک [43] مدینۃ الرسولﷺ میں جاری و ساری رہا ہو، کیا وہ غیر فقیہ ہوں گے؟
ب:حافظ ذہبی ہی لکھتے ہیں:
"اِحْتَجَّ الْمُسْلِمُوْنَ قَدِیْمًا وَّحَدِیْثًا بِحَدِیْثِه، لِحِفْظِهِ وَجَلَالَتِهِ وَإِتْقَانِهِ وَفِقْهِهِ. وَنَاهِیْكَ أَنَّ مِثْلَ ابْنِ عَبَّاسٍ یَتَأَدَّبُ مَعَهُ، وَ یَقُوْلُ:"أَفْتِ یَا أَبَا هُرَیْرَةَ!."[44]
’’اہلِ اسلام نے گزشتہ اور موجودہ زمانے میں اُن کی (عظیم) یادداشت، بزرگی، پختگی اور فقاہت کی بنا پر اُن کی احادیث کو بطورِ حجت تسلیم کیا ہے۔ تمہارے لیے (ابوہریرہ کی شان و عظمت کو سمجھنے کے لیے) یہی بات بہت کافی ہے، کہ ابن عباس ایسے (عظیم فقیہ) اُن کا احترام کرتے ہیں اور (اُن سے) کہتے ہیں: ’’اے ابوہریرہ! فتویٰ دیجیے۔‘‘ (یعنی خود فتویٰ دینے کی بجائے ابوہریرہ﷜ سے اپنی موجودگی میں فتویٰ دینے کی فرمائش کرتے)
ج: حافظ ذہبی ہی نے قلم بند کیا ہے:
"وَأَبُوْهُرَیْرَةَ رضي الله عنه إِلَیْهِ الْـمُنْتَهٰی فِيْ حِفْظِ مَا سَمِعَهُ مِنَ الرَّسُوْلِ ﷺ وَأَدَآئِهِ بِحُرُوْفِهِ. وَقَدْ أَدّٰی حَدِیْثَ الـْمُصَرَّاةِ بِأَلْفَاظِهِ، فَوَجَبَ الْعَمَلُ بِهِ، وَهُوَ أَصْلٌ بِرَأْسِهِ." [45]
’’رسول کریمﷺ سے سُنی ہوئی بات یاد رکھنے اور اسے حرفاً حرفاً ادا کرنے میں ابوہریرہ﷜ ہی انتہا کو پہنچے ہوئے تھے۔ بے شک انہوں نے حدیثِ مصراۃ [46] کو بعینہٖ انہی الفاظ کے ساتھ پہنچایا، جن کے ساتھ اُنہوں نے سنا تھا۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم اس پر عمل کریں اور وہ بجائے خود (حدیث روایت کرنے میں) حجت (اور اتھارٹی) ہیں۔‘‘
د:   علامہ محمد عبدالحلیم لکھنوی لکھتے ہیں:
"إِنَّ أَبَآ هُرَیْرَةَ رضي الله عنه فَقِیْهٌ، صَرَّحَ بِهِ ابن الْهُمَامِ فِيْ التَّحْرِیْرِ. کَیْفَ لَا، وَهُوَلَا یَعْمَلُ بِفَتْوَی غَیْرِهِ، وَکَانَ یُفْتِيْ فِيْ زَمَنِ الصَّحَابَةِ رِضْوَانِ اللهِ تَعَالىٰ عَلَیْهِمْ أَجْمَعِیْنَ، وَکَانَ یُعَارِضُ أَجِلَّةَ الصَّحَابَةِ کَابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما." [47]
’’بے شک ابوہریرہ﷜ فقیہ ہیں، (علامہ) ابن الہمام نے (اپنی کتاب) ’التحریر‘ میں (اس بات کی) صراحت فرمائی ہے۔ (اور وہ مفتی) کیونکر نہیں ، وہ کسی کے فتویٰ پر عمل نہیں کرتے، (بلکہ) صحابہ﷢ کے زمانے میں فتویٰ دیا کرتے تھے اور جلیل القدر صحابہ جیسے ابن عباس﷜سے اختلاف کیا کرتے تھے۔‘‘
اس بارے میں علامہ﷫لکھتے ہیں:
"وَنَحْنُ نَقُوْلُ إِنَّ الْخَبَرَ یَقِیْنٌ وَّالتَّغْیِیْرُ مِنَ الرَّاوِيْ بَعْدَ ثُبُوْتِ عَدَالَتِهِ وَ ضَبْطِهِ مَوْهُوْمٌ، وَ الظَّاهِرُ أَنَّهُ یَرْوِيْ کَمَا سَمِعَ. وَ لَوْ غَیَّرَ یُغَیِّرُ عَلى وَجْهٍ لَّا یَتَغَیَّرُ الْـمَعْنٰی، فَإِنَّ الصَّحَابَةَ عَدُوْلُ الْأُمَّةِ." [48]
’’اور ہم کہتے ہیں، کہ (صحابی کی روایت کردہ) حدیث یقینی ہے اور راوی کی عدالت اور ضبط کے ثبوت کے بعد، اُن کی جانب سے معنی ٰکا تبدیل ہونا ایک وہمی بات ہے۔ ظاہر (بات) تو یہی ہے، کہ (روایت کرنے والے) صحابی نے جیسے سُنا، ویسے ہی روایت کیا۔ اگر وہ اس (روایت کردہ حدیث) میں کچھ تبدیلی بھی کرتے ہیں، تو اس طرح، کہ اس کے معنیٰ میں نہ ہو، کیونکہ (حضرات) صحابہ(﷢ تو) امت کی جانب سے عادل قرار دئیے گئے ہیں۔‘‘
ھ:نور الانوار کے حاشیہ میں(جواب سوال)کے زیر عنوان تحریر کیا گیا ہے:
"إِنَّ تَرْكَ الْعَمَلِ بِحَدِیْثِ أَبِيْ هُرَیْرَةَ رضي الله عنه لَیْسَ إِلَّا نِسْبَةُ الْجَهْلِ إِلَى السَّلَفِ وَاْستِخفَافُهُمْ، وَهُوَ کُفْرٌ." [49]
’’ابوہریرہ ﷜ کی حدیث پر عمل کو چھوڑنا تو اُمت کے پہلے لوگوں کی جانب جہالت منسوب کرنے اور اُنہیں حقارت کی نگاہ کے ساتھ دیکھنے کے سوا کچھ نہیں اور ایسا کرنا کفر ہے۔‘‘
و: شیخ ارناؤوط کا بیان: وہ لکھتے ہیں:
"وَ فِيْ قَوْلِهِمْ: "أَبُوْهُرَیْرَةَ غَیْرُ فَقِیْه." نَظَرٌ ظَاهِرٌ، فَإِنَّهُ فَقِیْهٌ مُّجْتَهِدٌ لَّا شَكَّ فِيْ فَقَاهَتِهِ. فَقَدْ کَانَ یُفْتِيْ فِيْ زَمَنِ النَّبِيِّﷺ وَ بَعْدَهُ، وَ کَانَ یُعَارِضُ ابْنَ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما وَ فَتْوَاهُ، کَمَا فِيْ الْخَبَرِ الصَّحِیْحِ أَنَّهُ خَالَفَ ابْنَ عَبَّاسٍ فِيْ عِدَّةِ الْحَامِلِ الْمُتَوَفّٰی عَنْهَا زَوْجُهَا، حَیْثُ حَکَمَ ابْنُ عَبَّاسٍ بَأَبْعَدِ الْأَجَلَیْنِ، وَ حَکَمَ هُوَ بِوَضْعِ الْحَمْلِ.
وَ أَبُوْ حَنِیْفَةَ رحمه الله عَمِلَ بِحَدِیْثِ أَبِيْ هُرَیْرَةَ رضي الله عنه: «مَنْ أَکَلَ نَاسِیًا فَلْیُتِمَّ صَوْمَهُ.» مَعَ أَنَّ الْقِیَاسَ عِنْدَهُ أَنَّهُ یُفْطِرُ، فَتَرَكَ الْقِیَاسَ لِخَبَرِ أَبِيْ هُرَیْرَةَ." [50]
’’اُن کی بات: (ابوہریرہ﷜ غیر فقیہ)، میں خلل واضح ہے، کیونکہ بلاشبہ وہ فقیہ مجتہد ہیں، اُن کی فقاہت میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ یقینا وہ نبی کریمﷺ کے عہدِ (مبارک) اور اُس کے بعد فتویٰ دیتے تھے۔ وہ ابن عباس﷜ اور ان کے فتویٰ کا معارضہ کرتے تھے، جیسا کہ صحیح روایت میں ہے، [51] کہ بے شک انہوں نے حمل والی خاتون کی، خاوند کی وفات پر، عدّت کی مدت میں اختلاف کیا۔ ابن عباس﷜ کی رائے میں زیادہ دیر والی مدت عدت تھی [52] اور انہوں نے بچے کی ولادت کو (عدت قرار دیا)۔‘‘
(امام) ابوحنیفہ﷫ نے ابوہریرہ﷜ کی (روایت کردہ) حدیث پر عمل کیا: ’’جو بھول کر کھائے، وہ اپنے روزے کو مکمل کرے‘‘، اگرچہ اُن کے نزدیک قیاس یہ ہے، کہ وہ روزہ افطار کر دے۔ انہوں نے ابوہریرہ﷜ کی حدیث کی وجہ سے قیاس کو چھوڑ دیا۔‘‘
F حضراتِ صحابہ کی تنقیص کی سنگینی: امام ابوزرعہ رازی حضراتِ صحابہ﷢ پر تنقید و تنقیص کے حوالے سے ایک نہایت ہی سنگین بات کی نشان دہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"إِذَا رَأَیْتَ الرَّجُلَ یَنْتَقِصُ أَحَدًا مِّنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ الله ﷺ فَاعْلَمْ أَنَّهُ زِنْدِیْقٌ، وَذٰلِكَ أَنَّ الرَّسُوْلَ ﷺ عِنْدَنَا حَقٌّ، وَ الْقُرْآنَ حَقٌّ. وَ إِنَّمَا أَدّٰی إِلَیْنَا هٰذَا الْقُرْآنَ وَالسُّنَنَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللهِﷺ. وَإِنَّمَا یُرِیْدُوْنَ أَنْ یَّجْرَحُوْا شُهُوْدَنَا لِیُبْطِلُوْا الْکِتَابَ وَ السُّنَّةَ، وَ الْجَرْحَ بِهِمْ أَوْلٰى، وَ هُمْ زَنَادِقَةٌ." [53]
’’جب تم کسی شخص کو رسول اللّٰہﷺ کے صحابہ میں سے کسی ایک کی شان گھٹاتے ہوئے دیکھو، تو سمجھ لو، کہ یقیناً وہ ملحد ہے۔ یہ اس لیے، کہ بلاشبہ رسول اللّٰہﷺ ہمارے نزدیک برحق ہیں اور قرآن (کریم) برحق ہے اور یقینا حضراتِ صحابہ نے کتاب و سنت ہم تک پہنچائی۔ یہ لوگ کتاب و سنت کو ناحق (باطل) ثابت کرنے کی غرض سے ہمارے (کتاب و سنت کے پہنچانے والے) گواہوں کو ردّ و قدح کا نشانہ بناتے ہیں۔ ردّ و قدح (خود) اُن ہی کے لیے زیادہ مناسب ہے اور وہ ملحد ہیں۔‘‘
G ابوہریرہ کے متعلق بے ادبی پر فوری عذاب: حافظ ابو سعد سمعانی نے اپنی سند کے ساتھ قاضی ابو طیب سے روایت کیا، کہ بے شک:
"کُنَّا فِيْ مَجْلِسِ النَّظَرِ بِجَامِعِ الْمَنْصُوْرِ، فَجَآءَ شَابٌّ خُرَاسَانِيٌّ، فَسَأَلَ عَنْ مَّسْأَلَةِ الْمُصَرَّاةِ؛ فَطَالَبَ الدَّلِیْلَ، حَتَّی اسْتُدِلَّ بِالْحَدِیْثِ أَبِيْ هُرَیْرَةَ الْوَارِدِ فِیْهَا."
’’ہم جامع منصور میں (دینی مسائل میں غور و) فکر کی مجلس میں تھے، کہ ایک خراسانی نوجوان نے آ کر (دودھ روکے ہوئے جانور) کے مسئلہ کے متعلق استفسار کرتے ہوئے دلیل کا مطالبہ کیا۔‘‘
اس بارے میں ابوہریرہ﷜ کی حدیث بطورِ دلیل پیش کی گئی، تو:
"قَالَ -وَ کَانَ حَنَفِیَّا-: "أَبُوْهُرَیْرَةَ غَیْرُ مَقْبُوْلِ الْحَدِیْثِ."
’’اس نے کہا ، اور وہ حنفی تھا: ’’ابوہریرہ ﷜ کی حدیث ناقابلِ قبول ہے۔‘‘
"فَمَا اسْتَتَمَّ کَلَامَهُ، حَتّٰی سَقَطَ عَلَیْهِ حَیَّةٌ عَظِیْمَةٌ مِّنْ سَقْفِ الْجَامِعِ، فَوَثَبَ النَّاسُ مِنْ أَجْلِهَا، وَ هَرَبَ الشَّابُّ مِنْهَا، وَهِيَ تَتْبَعُهُ."
’’اس نے ابھی اپنی گفتگو مکمل بھی نہیں کی تھی، کہ جامع (مسجد) کی چھت سے اس پر ایک بہت بڑا اژدہا گرا۔ لوگ اس کی وجہ سے کودے (یعنی نہایت تیزی سے اٹھ کھڑے ہوئے)، نوجوان بھی (خوف سے) اُس سے بھاگا اور وہ اُس کے پیچھے پیچھے تھا۔‘‘
فَقِیْلَ لَهُ: "تُبْ، تُبْ."          اس (نوجوان) سے کہا گیا: ’’توبہ کرو، توبہ کرو۔‘‘
فَقَالَ: "تُبْتُ."                  اُس نے کہا: ’’میں توبہ کرتا ہوں۔‘‘
"فَغَابَتِ الْحَیَّةُ، فَلَمْ یُرَ لَهَا أَثَرٌ." ’’اژدہا غائب ہو گیا اور اُس کا (وہاں) کوئی نام و نشان نہ رہا۔‘‘
حافظ ذہبی اس واقعہ کی سند کے متعلق لکھتے ہیں: "إِسْنَادُهَا أَئِمَّة."[54]
’’اس قصہ کے روایت کرنے والے ائمہ ہیں۔‘‘
[پروفیسر ڈاکٹر فضل الٰہی ﷾ کی صحیح بخاری کی آخری حدیث پرتصنیف ’فضل الباری‘: ص 271 تا 296]
حوالہ جات:
[1]   سیرأعلام النبلاء:2؍ 579، أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي، مؤسسة الرسالة، بيروت
[2]   ایضاً: 2؍ 619
[3]   ایضاً: 2؍ 579
[4]   ایضاً: 2؍ 586،نیز ملاحظہ ہو: البدایۃ و النہایۃ:11؍ 363، طبع: ہجر
[5]   سیرأعلام النبلاء : 2؍632
[6]   ایضاً: 2؍590- 591
[7]   ملاحظہ ہو: فضل الباری از راقم : ص 274، ناشر:دار النور، لاہور
[8]   ملاحظہ ہو : فضل الباری از راقم : ص239-245
[9]   فضل الباری: 245-246
[10]        فضل الباری : 246-251
[11]        المستدرک کے مطبوعہ نسخہ میں وَ کَانَ أَبَا هُرَيْرَةَ…ہے، البتہ ’تلخیص‘ میں وَکَانَ أَبُوْ هُرَيْرَةَ…ہے۔ تلخیص کی عبارت ہی درست معلوم ہوتی ہے، کیونکہ أَبُوْهُرَيْرَةَ اس عبارت میں اسم کَانَ ہے اور وہ مرفوع ہوتا ہے اور حالتِ رفع میں أَبُوْهُرَيْرَةَ پڑھا جاتا ہے، نہ کہ أَبَا هُرَيْرَةَ ، واللّٰہ اعلم!
[12]        المستدرك على الصحیحین، کتاب معرفة الصحابة:3/511۔ 512 امام حاکم نے ’صحیحین کی شرط پر صحیح‘ اور حافظ ذہبی نے ’اما م مسلم کی شرط‘ پر قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق:3؍ 512؛ التلخیص الحبير:3/ 512)
[13]        ایک نسخہ میں ’ابوہریرہ ‘بھی ہے۔ (ملاحظہ ہو: حاشیہ المسند، حاشیہ نمبر 3، 8/20)
[14]        المسند:رقم الحديث 4453، 8؍20- 21. شیخ ارناؤوط اور اُن کے رفقا نے اس کی ’سند کو صحیح مسلم کی شرط پر صحیح‘ قرار دیا۔ (ملاحظہ ہو:حاشیہ المسند8؍21)۔ حدیث کے صرف آخری حصے: یَا أَبَاهريرة! کُنْتَ أَلْزَمَنَا … کے لیے ملاحظہ ہو: جامع الترمذي، أبواب المناقب، مناقب أبي هريرة: 4089، 10؍ 226؛ و صحیح سنن الترمذي 3؍235)
[15]        سنن الدارمي، باب العمل بالعلم وحسن النیة فیه، رقم الحديث: 270، 1/71 نیز ملاحظہ ہو:موسوعة فقه زید بن ثابت وأبي هريرة: ص 11
[16]        تهذيب التهذیب: 12/ 265
[17]        ملاحظہ ہو: سیر أعلام النبلاء: 2/632
[18]        3 قمری سالوں کے دن 355x 3 = 1065
[19]        اُن کی وفات 57 یا 58 یا 59 ھ میں اٹھتر سال کی عمر میں ہوئی۔ (ملاحظہ ہو: تقریب التهيذیب، رقم الترجمة 8426، ص 680-681) اگر وفات 57ھ میں ہوئی، تو بوقتِ ہجرت عمر 21 سال اور غزوۂ خیبر 7ھ کے موقع پر 28 سال، 58ھ میں وفات کی صورت میں بوقتِ ہجرت 20 سال اور غزوۂ خیبر کے موقع پر عمر 27 سال اور 59ھ میں وفات کی صورت میں بوقتِ ہجرت 19 سال کے اور غزوۂ خیبر کے موقع پر 26 سال کے ہوں گے۔
[20]        المسند (ط: الرسالۃ) میں ابوہریرہ﷜ کی احادیث 7119 سے شروع ہو کر 10984 تک ہیں۔ اس طرح ان کی روایت کردہ احادیث کی تعداد 3866 بنتی ہے۔ (ملاحظہ ہو: المسند:12؍ 13، و16؍ 580)۔ نیز ملاحظہ ہو: راقم السطور کی کتاب ’لشکرِ اسامہ﷜ کی روانگی دروس اور عبرتیں‘: ص 100
[21]        ملاحظہ ہو: أبو هريرة في ضوء مرویاته : ص 76-77
[22]        ملاحظہ ہو: نور الأنوار شرح رسالة المنار: ص 182-184؛ و أصول الشاشي: ص 75-76
[23]        متفق علیه: صحیح البخاري، کتاب البیوع، باب النهي للبآئع أن لا یحفِّل الإبل والبقر والغنم وکُلَّ محفَّلَة: 2148، 4/361؛ صحیح مسلم، کتاب البیوع، باب حکم بیع المصراة، 23-(1524)،3/1158 الفاظِ حدیث صحیح البخاريکے ہیں۔
[24]        ایک صاع: کم و بیش اڑھائی کیلو
اُن کی رائے میں ظلم وزیادتی کابدل... جہاں ممکن ہو حقیقی طور ہم مثل ہونا چاہیے۔ جہاں ایسا کرنا ممکن نہ ہو ، تو معنوی طور پر ہم مثل ہونا چاہیے، یعنی اس کے مساوی قیمت ہو۔حالانکہ دودھ روکے ہوئے جانور کے ... تین دن تک مشتری کے ...دوہے ہوئے دودھ کا بدل ہمیشہ ایک صاع کھجور نہ تو حقیقی طور پر ہم مثل ہے اور نہ معنوی طورپر(ملاحظہ ہو:اَحسن الحواشی:ص76،ہامش1)
تبصره:...ظلم وزیادتی کا بدل وہ ہوگا، جو نبی کریمﷺ نے مقرر فرمادیا۔کیاآنحضرتﷺ کی جانب سے بدل کے تعین کے بعد کسی اُمتی کے لیےگنجائش رہتی ہے ، کہ وہ کہے، کہ اس کابدل (یوں یوں) ہونا ضروری ہے ؟
[25]        سنن ابن ماجه، أبواب السنة، باب اتباع سنّة رسول اللهﷺ، رقم الحدیث1، ص 43 عن أبي هريرة ﷜۔ (ط: دار الصدیق)۔ شیخ البانی، شیخ جانباز اور شیخ عصام نے اسے ’صحیح‘ قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح سنن ابن ماجه: 1/5؛ و إنجاز الحاجة: 1/109؛ و هامش السنن: ص 43)
[26]        منقول از فتح الباري: 4/ 366
[27]        یعنی حدیث اور قیاس میں ٹکرا ؤکی صورت میں حدیث کو لیا جائے گا اور قیاس کو چھوڑا جائے گا۔
[28]        فتح الباري: 4/ 365
[29]        ايضًا:4/365
[30]        صحیح البخاري، کتاب البیوع، باب النهي للبائع أن لا یحفِّلَ الإبل…، جزء من رقم الروایة 2149، 4/361
[31]        ملاحظہ ہو: مُوْسُوْعَة فِقْه عبدالله بن مسعود: ص 24
[32]        المصنف للإمام عبدالرزاق، کتاب الفرائض، باب فرض الجد، جزء من الروایة 19066، 10/ 269)
[33]        مُوْسُوْعَة فِقْه عبدالله بن مسعود: ص 26
[34]        فتح الباري:4/365
[35]        اسے حضراتِ ائمہ مالک، بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: الموطأ، کتاب النکاح، باب ما لا یجمع بینه من النسآء، رقم الحدیث20، 2/532؛ وصحیح البخاري، کتاب النکاح، باب لا تنکح المرأة على خالتها، 9/160؛ وصحیح مسلم، کتاب النکاح، باب تحریم الجمع بین المرأة وعمتها أو خالتها في النکاح، رقم الحدیث 33-(1408)،2/ 1028)؛ سیر أعلام النبلآء:2/620
[36]        اس معنیٰ کی حدیث امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کی ہے۔ ملاحظہ ہو: صحیح البخاري، کتاب الصوم، باب الصائم إذا أکل أو شرب ناسیًا، رقم الحدیث 1933، 4/ 155؛ وصحیح مسلم، کتاب الصیام، باب أکل الناسي وشربه وجماعه لا یفطر، رقم الحدیث 171-(1155)، 2/809
[37]        حضراتِ ائمہ مالک، بخاری اور مسلم نے اسے روایت کیا ہے۔ ملاحظہ ہو: الموطأ، کتاب الطهارة، باب جامع الوضوء، رقم الحدیث 35، 1/34؛ وصحیح البخاري، کتاب الوضوء، باب المآء الذي یغسل به شعر الإنسان، رقم الحدیث 172، 1/274؛ و صحیح مسلم، کتاب الطهارة، باب حکم ولوغ الکلب، رقم الحدیث 89-(279)،1/ 234
[38]        اس روایت کو ابوالعالیہ نے نبی کریمﷺ سے روایت کیا اور وہ تابعی ہیں۔ اسی لیے یہ ’روایت مرسل ‘ہے۔ روایت کا خلاصہ یہ ہے، کہ آنحضرتﷺ نماز پڑھا رہے تھے، کہ ایک نابینا شخص آیا اور کنویں میں گر گیا۔ بعض صحابہ ہنسنے لگے۔ رسول اللّٰہﷺ نے نماز سے فارغ ہونے پر ہنسنے والے صحابہ کو وضو اور نماز دہرانے کا حکم دیا۔ (ملاحظہ ہو: مصنّف عبدالرزاق، کتاب الصلاة، باب الضحك والتبسم في الصلاة، رقم الروایة: 3760، 2/ 376)
[39]        سیر أعلام النبلاء:2/620-621
[40]        ابوہریرہ﷜ کے غیر فقیہ ہونے کی بنا پر اُن کی خلافِ قیاس روایات کا مسترد کیا جانا
[41]        سیر أعلام النبلاء:2/ 578
[42]        متن میں ذکر کردہ روایت حافظ ذہبی نے طبقاتِ ابن سعد سے قدرے اختصار کے ساتھ نقل کی ہے۔ (ملاحظہ ہو: الطبقات الکبرٰی: 2/372؛ سیر أعلام النبلاء:2/ 606-607)
[43]        حضرت عثمان﷜ 35ھ میں شہید کیے گئے اور حضرت ابوہریرہ﷜57ھ یا 58ھ یا 59ھ میں فوت ہوئے۔ اس طرح اُن کی مدتِ اِفتا 22 یا 23 یا 24 سال بنتی ہے۔
[44]        سیر أعلام النبلاء:2/ 609
[45]        ایضًا:2/619
[46]        یعنی ’دودھ روکے ہوئے جانور کے متعلق حدیث‘
[47]        ملاحظہ ہو: حاشیة قمر الأقمار للعلامة الّکهنوي: ص 183، رقم 4
[48]        ملاحظہ ہو: حاشیة قمر الأقمار علي نور الأنوار، رقم الهامش 2، ص 184۔ نیز ملاحظہ ہو: أحسن الحواشي على أصول الشاشي: رقم الهامش 2، ص 76 للشیخ محمد برکت الله رضا الکهنوي
[49]        نور الأنوار : ص 183
[50]        هامش سیر أعلام النبلاء، رقم الهامش 1، 2/619. شیخ ارناؤوط لکھتے ہیں: (اس سلسلے میں) علامہ محمد بخیت مطیعی کا حاشیہ سلّم الوصول3/767، 769 ملاحظہ فرمائیے۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق)
[51]        ملاحظہ ہو: صحیح مسلم، کتاب الطلاق، باب انقضاء عدة المتوفی عنها زوجها، وغیرها بوضع الحمل، رقم الحدیث 56-(1484)، 2/1122
[52]        بچے کی ولادت اور چار ماہ دس دن، دونوں میں سے جو بات بعد میں ہو گی، ابن عباسؓ کی رائے میں وہ ہی ایسی خاتون کی عدت ہو گی۔
[53]        منقول از: کتاب الکفایة في علم الروایة: 97
[54]        سیر أعلام النبلاء:2/618-619