میرے رفیق، میرےعزیز ؛مولانا عبد الصمد رفیقی

چند باتیں؍ چند یادیں ... ماضی کے دریچے سے!
اس عالمِ فانی میں یقیناً کچھ ایسی ہستیاں جنم لیتی ہیں جن کی زندگی دوسروں کے لیے مشعلِ راہ ہوتی ہے۔ جب وہ عالم جادوانی کی جانب کوچ کر جاتے ہیں، تو اپنے پیچھے ایسے بہت انمٹ سنہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں کہ ان کا سفرِ آخرت بھی اللّٰہ جل شانہ کی مخلوق کے لیے قابل رشک بن جاتا ہے اور جن کی باعمل اور پاکیزہ زندگی کے باوصف اپنی کم مائیگی کا احساس مزید بڑھ جاتا ہے اور بے ساختہ زبان پر یہ الفاظ آ جاتے ہیں:
أحبّ الصالحين ولست منهم                                    لعل الله تعالىٰ يرزقني صلاحًا
امام دار قطنی﷫ صحیح سند کے ساتھ عبد اللّٰہ بن احمد کے حوالے سے نقل کرتے ہیں، انہوں نے اپنے والد امام احمد بن حنبل ﷫ کو یہ کہتے سنا: "قولوا لأهل البدع: بيننا وبينكم يوم الجنائز." [1]
’’اہل بدعت سے کہہ دو کہ ہمارے اور تمہارے درمیان جنازوں کے دن فیصلہ ہوگا۔‘‘
امام ابن حاتم﷫ کہتے ہیں :’’میں نے سنا کہ امام احمدبن حنبل﷫ نے جس دن وفات پائی، اس دن 20 ہزار یہودی، عیسائی اور مجوسی حلقۂ بگوش اسلام ہوئے۔‘‘
مولانا عبد الصمد رفیقی کیلانی مرحوم ان پُرعزم، باکردار اور باعمل علماے کرام میں سے ایک تھے جو سلف صالحین﷭ کے منہج کے امین اور ساتھ ہی اپنے خلف کے لیے عملی نمونہ ہیں۔ جزاهم الله أحسن الجزاء
میرے ان کے ساتھ کئی رشتے تھے: میرے بچپن کے ہم جولی، میرے ہم مکتب، مدینہ طیبہ میں میرے ہم سفر اور قرابت داری میں میرے چچازاد بھائی اور اس پر مستزاد یہ کہ ایک رہائشی علاقہ اور پھر مدینہ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد علمی وتدریسی سرگرمیوں میں بھی ہم آہنگی وغیرہ۔
مگر مشیتِ ایزدی دیکھیے کہ ہم دونوں ایک راہ کے راہی اور ایک نصب العین کے متلاشی، مگر انہوں اپنا دینی ودعوتی مقر (مرکز) اپنے آبائی علاقے کو بنایا اور قرآنی تعلیمات بھی اسی بات کی طرف راہنمائی کرتی ہیں۔ اللّٰہ جل شانہ ارشاد فرماتا ہے:
﴿ فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآىِٕفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ وَ لِيُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا اِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُوْنَؒ۰۰۱۲۲﴾ (التوبۃ: 122)
’’ پھر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ہر گروہ میں سے کچھ لوگ دین میں سمجھ پیدا کرنے کے لیے نکلتے کہ جب وہ ان کی طرف واپس پلٹتے تو اپنے (علاقے کے) لوگوں کو (برے انجام سے) ڈراتے۔‘‘
جبکہ میں چند سالوں بعد متحدہ عرب امارات منتقل ہو گیا اور ہنوز وہیں پر مصروفِ عمل ہوں۔
میرے رفیق ؛رفیقی مرحوم
میرے علم وعمل کے خوگر اس پیارے بھائی سے پہلی ملاقات موضع کھیالی میں ایک شادی کے موقع پر ہوئی، جہاں حُسنِ اتفاق سے، دیگر مہمانوں کے ساتھ، رات ایک ہی ہال میں اکٹھے گزاری ۔
ہم دونوں اس وقت ’طفلِ مکتب‘ تھے۔ میں ہائی سکول میں جبکہ رفیقی مرحوم جھوک داؤد (چک طوراں) میں زیر تعلیم تھے۔ وہاں صبح جب اُنہوں نے بعد نمازِ فجر چارپائی پر کھڑے ہو کر جماعت اہل حدیث کے عظیم مبلغ حضرت مولانا محمد حسین شیخوپوری ﷫ کے اسلوب میں توحید کے چند نکات بیان کیے تو میں ورطہ حیرت میں ڈوبا، انگشت بدنداں ہو گیا اور اسی وقت ہی بتوفیق اللّٰہ تعالیٰ یہ جذبہ دل میں کروٹیں لینے لگا کہ میٹرک کے امتحان کے فوراً بعد ہی علم وحی کے حصول کے لیے کسی دینی مدرسہ میں زانوے تلمذ تہہ کروں گا۔ گویا اس اعتبار سے عبد الصمد رفیقی مرحوم میرے رفیق اور عزیز ہی نہیں بلکہ رہبر ورہنما بھی تھے۔ جزاه الله أحسن الجزاء
پھر اسی ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ،بفضل اللّٰہ تعالیٰ امتحان سے فارغ ہوتے ہی میں جھوک داؤد قصبے میں پہنچا، وہاں اس وقت صدر مدرس حضرت مولانا عتیق اللّٰہ ﷫ تھے جو کہ بقیۃ السلف حضرت مولانا میاں باقر ﷫ کے فرزندِ ارجمند تھے، اُنہوں نے شرفِ بار یابی بخشا، شدید گرمی میں دوپہر کے وقت ایک کھلے برآمدے میں تشنگان علم دین کی زبانوں سے قال الله تعالىٰ وقال الرسول ﷺ کی صدائیں گرم فضا کو معطر کیے ہوئے تھیں۔ طلبہ کا جذبہ ایمانی دیدنی تھا، جن کی صفوں میں مجھے مولانا رفیقی مرحوم بھی بیٹھے نظر آئے، نظریں ملتے ہی حسبِ عادت مسکراہٹ چہرے پر پھیل گئی اور ساتھ ہی اُنہیں میری میزبانی کی فکر پڑ گئی۔
عبد الصمد ’رفیقی‘ کیسے بنے؟
جھوک دادو جیسے چھوٹے سے مگر پُروقار قصبے میں مختصر قیام کے دوران اُنہوں نے مجھے بہت کچھ بتا اور سمجھا دیا۔ اسی دوران وہ ایک خوبصورت رنگ دار کپڑے میں لپٹی ہوئی کتاب نکال لائے اور رازدارانہ انداز سے مجھے کچھ دکھانے لگے، کتاب کے رنگین سرورق پر 1965ء کی ’پاک وہند جنگ کے سرفروشوں‘ جیسا کوئی عنوان رقم تھا جو اب مجھے پوری طرح یاد نہیں۔ مجھے اس وقت پتہ چلا کہ ہمارے ہر دل عزیز بھائی کے دل میں دین کی تڑپ کے ساتھ ساتھ جذبۂ حب الوطنی کس قدر رچا بسا ہے۔ وہ پوری توجہ اور ذوق کے ساتھ مجھے ایک ایک سرفروش مجاہد کی مختصر کہانی بھی سنا رہے تھے اور تصاویر بھی دکھاتے جا رہے تھے۔ ان پاکستانی سرفروشوں میں غالباً سب سے زیادہ ان کی توجہ سکواڈرن لیڈر سرفراز احمد رفیقی شہید ﷫ پر تھی جنہوں نے 6 ستمبر 1965ء کو جراتِ ایمانی اور بہادری کے وہ جوہر دکھائے کہ اُنہیں ایک کے بجائے 2 تمغوں سے نوازا گیا: ہلالِ جرات اور ستارۂ جرات
رفیقی مرحوم ان پاکستانی شہدا کی کارکردگی سے بہت متاثر تھے، یہی وجہ تھی کہ اُنہوں نے اوائل عمری میں اپنے نام کے ساتھ رفیقی لکھ لیا تھا اور بعد میں شاید اس کو ہٹا نہ پائے۔ یہ میری بالکل ابتدائی معلومات کا حصہ ہے۔ اگر بعد میں اپنے نام کے ساتھ رفیقی (لاحقہ) لکھنے کی کوئی اور وجہ بنی تو اس بارے ان کی اولاد بخوبی جانتے ہوں گے جیسا کہ اب ان کے بیٹے ابو بکر نے بھی ماشاء اللّٰہ ’رفیقی‘ لکھنا شروع کیا ہے۔ والله أعلم بالصواب
اسی طرح میرے ساتھ ہوا کہ منڈی واربرٹن میں مقیم ایک معروف خاندان کے فرد حکیم عبد القیوم﷫ کے فرزند حکیم خلیل احمد نے ایک بار پرچی پر میرے نام کے آگے ’لقمان‘ لکھ دیا۔ میں نے اپنا میٹرک کا داخلہ فارم اسی نام عبد القوی لقمان کےساتھ مکمل کیا، آج تک یہی نام چلا آتا ہے اس لیے کہ شناختی کارڈ وغیرہ میٹرک کی سند کی بنیاد پر بنتا ہے، شناختی کارڈ کے بعد نام بدلنا جان جوکھوں کا کام ہے۔
اکتسابِ علم اور جامعہ لاہور الاسلامیہ (رحمانیہ) میں رفاقت
میں نے پہلے جامعہ سلفیہ، فیصل آباد میں دینی تعلیم کے حصول کے لیے داخلہ لینے کا ارادہ کیا، بعد ازاں معلوم ہوا کہ عبد الصمد رفیقی مرحوم بھی مدرسہ چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں، تو ہمارے بڑے بزرگوں والد گرامی قدر، محترم چچا جان عبد الغفور ، محترم چچا جان محمد مسلم اور خاص طور پر ہمارے مربی اور اُستاذ محترم چچا جان عبد السلام کیلانی﷭ کے باہمی مشورے سے یہ طے پایا کہ تینوں لڑکوں: حافظ عاکف سعید مرحوم، عبد الصمد رفیقی مرحوم اور راقم (عبد القوی لقمان)کو اکٹھے ایک ہی جگہ جامعہ لاہور الاسلامیہ میں داخل کرایا جائے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اس وقت ہم سب کےلیے قابل قدر ہستی،ہمہ وقت بھلائی اور خیروبرکت کی طرف ہماری رہنمائی کرنے والے چچا جان محمد سلیم ﷫ کی ہمیں رفاقت بھی نصیب ہو گئی۔ وہ اس وقت روپڑی خاندان کی ایک بڑی ہاؤسنگ سوسائٹی ’اعظم گارڈن ٹاؤن‘ کے سپروائزر تھے اور جامعہ لاہور الاسلامیہ کی گارڈن ٹاؤن میں زیر تعمیر نئی عمارت کے بھی ذمہ دار تھے۔ ہم سب کا ایک جگہ پر اکٹھے ہونا جہاں ایک بڑی سعادت تھی، وہاں خوشی اور اطمینان کا باعث بھی۔
لاہور کی اس مادرِ علمی میں ہم نے بفضل الله تعالىٰ چار سال تک مسلسل اکٹھے ہی اکتساب ِعلم کیا۔ اس دوران قابل ذکر امر یہ تھا کہ شاید ہی اس عرصہ میں، میں نے مولانا رفیقی مرحوم کو کسی سے اُلجھتے ، لڑتے، ياکبیدہ خاطر ہوتے دیکھا ہو۔ہم نے خوش طبعی کے طور پر ،ایک دوسرے کے علامتی نام بھی رکھے ہوئے تھے۔ یہ نام بھی مزاجوں کے مطابق ازخود ہماری زبانوں پر آگئے تھے اور ہم انہی علامتی ناموں سے ایک دوسرے کو پکارتے اور خوش ہوا کرتے تھے۔
مولانا عبد الصمد رفیقی صاحب غالباً ہم دونوں سے قدرے بڑے تھے، ان کا نام تھا:’آپ جی‘... پیارے بھائی حافظ عاکف سعید مرحوم اچھا لباس پہننے کے شوقین اور نفیس مزاج رکھتے تھے، ان کا نام’صاحب جی ‘جبکہ میرا نام تھا:’جناب جی ‘...اب یہ میرے دونوں پیارے اور صالح بھائی اپنے حقیقی خالق و مالک کے جوارِ علیین میں پہنچ چکے ہیں:  اللهم لا تحرمنا أجرهم ولا تفتنّا بعدهم!
ذَهبَ الرِّجَالُ المُقتَـدى بِفِعَالهم                 وَالمُنكِــرُونَ لِكُــلِ أمرٍ مُنــكَرِ
وَبَقيتُ في خَلفٍ يُزَکی بَعضُهم                  بَعْضَا      لِيَدفَعَ خذ مُعْوِرٌ عن مُعْورِ
ہمارے اساتذہ کرام
یہاں میں اپنے ان چند انتہائی مخلص ہمدرد، خیر خواہ اور علم وعمل سے مرصع اساتذۂ کرام کا ذکر نہ کروں جن کے سامنے ہم نے ان باسعادت دنوں میں زانوئے تلمذ تہہ کیے تو بات تشنہ رہ جائے گی۔
ان دنوں (1980ء تا 1984ء)ہماری مادرِ علمی جامعہ لاہور الاسلامیہ کا ایک شعبہ’مدرسہ رحمانیہ ‘کے نام سے لاہور کے نواحی قصبہ ہنجروال (اعظم گارڈن) ملتان روڈ میں واقع تھا۔ ہم تینوں بھائیوں نے علم وحی کے اکتساب کا آغاز اسی مادرِ علمی کی آغوش میں کیا، جہاں اللّٰہ جل شانہ نے اس پاکیزہ مقصد کے حصول کے لیے ہمیں علوم وفنون میں ماہر اور ساتھ ہی ساتھ تقویٰ وورع میں ایک عملی نمونہ رکھنے والے اساتذہ کرام مرحمت فرمائے۔
a  ان میں سرفہرست جامعہ لاہور الاسلامیہ کے سرپرستِ اعلیٰ اور ہمارے محسن ومربی ڈاکٹر مولانا حافظ عبدالرحمٰن مدنی ﷾ ہیں ، جنہوں نے بڑی محنت کے ساتھ اہل علم وفضل کی جماعت کو تدریس کے لئے یکسو کررکھا تھا، جن سے علوم نبو ت سیکھنے والے طلبہ کا خوبصورت گلشن لہلہاتا تھا۔آپ کمالِ شفقت ومحبت سے دورانِ تعلیم ہماری حوصلہ افزائی فرمایا کرتے، ہفتہ میں ایک بار ضرور وہ ماڈل ٹاؤن سے درسگاہ تشریف لاتے اور تمام طلبا سے ملاقات کرتے، ان کے مسائل سنتے، نیز ضرورت مند طلبا کی مادی مدد کے لیے بھی اعلان فرماتے۔ جزاه الله تعالىٰ عنا خیر الجزاء
وہ مدرسہ میں زیر تعلیم طلبا کو ہمیشہ اپنے بچے کہہ کر مخاطب ہوتے۔ ہم تینوں برادران کی جانب وہ خصوصی توجہ رکھتے اور نصیحتیں بھی فرماتے، ان کا یہ فیض ہنوز جاری وساری ہے۔ متّعنا الله تعالى بطول حياته
ہمارے دیگر اساتذۂ کرام کی ایک لمبی فہرست ہے جو ان دنوں یہاں تدریس فرمایا کرتے۔اختصارکے پیش نظر صرف اسمائے گرامی اور مختصر تذکرے پر ہی اکتفا کروں گا:
b  مولانا صادق خلیل فیصل آبادی﷫: علم کے بحر بے کراں جن سے آغاز میں ’ تفسیر جلالین‘ کے چند اسباق پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ وہ اس وقت جامعہ لاہور الاسلامیہ کے مہتمم اور نگرانِ اعلیٰ بھی تھے۔
c  شیخ الحدیث حافظ ثناء اللّٰہ مدنی ﷾ : جن کا علم وفضل کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ان کا محض ہماری درسگاہ میں مسندِ تدریس پر متمکن ہونا ہی ہم سب کے لیے باعثِ فخر تھا۔ ہمیشہ آرزو رہتی تھی کہ محترم حافظ صاحب سے علمی استفادہ کا موقع میسر آئے مگر علم وراثت کی کتاب السراجی کے چند اسباق اس وقت پڑھنے کا موقع ملا جب ہم مدینہ یونیور سٹی میں جانے کے لیے رختِ سفر باندھ رہے تھے۔
d  ڈاکٹر حافظ عبد الرشید اظہر﷫: جو علم فقہ وادب کے شہسوار تھے۔ کچھ عرصہ ان کے زیر تربیت دیوان الحماسة کا کچھ حصہ پڑھا۔
e  قاری نعیم الحق نعیم ﷫: جو تقویٰ وپرہیزگار ی میں سلف ﷭ کی مثال تھے۔ فن حدیث اور عربی قواعد میں آپ کو کمال مہارت حاصل تھی۔ جامع ترمذی کا مکمل حصہ انہی کے زیر سایہ پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ آپ محدثین کے محب اور خصوصاً صاحبِ تحفۃ الاحوذی علامہ عبد الرحمٰن مبارکپوری ﷫ کے شیدائی تھے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں کمال کا حافظہ اور شعر وادب کا اعلیٰ ذوق ودیعت کیا تھا۔ برجستہ اور موقع پر شعر کہہ دیا کرتے اور اس طرح حلقۂ تدریس میں شگفتگی کی لہر دوڑ جاتی اور محفل کشتِ زعفران بن جاتی۔ بطور مثال ہمارے ایک ساتھی اکثر وبیشتر صبح حدیث کے پیریڈ میں لیٹ ہو جایا کرتے ، کوشش کے باوجود کوئی نفسیاتی مسئلہ تھا اور اکثر استاذِ محترم ہلکی سی سرزنش بھی کر دیتے اور وہ آگے سے فوری معذرت پیش کر دیتے۔ یہ سلسلہ کچھ دن جاری رہا، تو ایک صبح حسبِ معمول وہ لیٹ آئے اور معذرت کے لیے معقول وجہ بتانے کا آغاز کیا کہ شاید میرے سر میں درد تھا وغیرہ تو استاذِ محترم نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ یہ شعر پڑھا:
عمر!   اور کہا :             ایسے کہو!
کمزور تھی میری صحت بھی    اور کمزور میری بیماری بھی
صحت میں رہا، کچھ کر نہ سکا   بیمار پڑا ،تو مر نہ سکا !!
استاذِ محترم جناب نعیم الحق ﷫ جب درسِ حدیث کا آغاز فرماتے تو جی چاہتا کہ ان کا ہر جملہ لکھ لیا جائے۔ یہی وجہ تھی کہ کلاس میں اکثر ساتھی اور خاص طور پر راقم الحروف اور میرے رفیق مولانا عبد الصمد رفیقی﷫ پورا درس اور اس کے نکات احاطہ تحریر میں لاتے۔ رفیقی مرحوم کی انتہائی دقیق تحریر چھوٹے چھوٹے جملے اور خاص طرزِ کتابت میں لکھے جانے والے ’جامع ترمذی‘ کے علمی نکات آج بھی لازماً محفوظ ہوں گے جو کہ اہل علم حضرات کے لیے اور خصوصاً طلبا کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔
f  شیخ عبد الرحمٰن عظیمی ﷫ :جو عقیدہ، تفسیر اور عربی قواعد میں گہری دسترس رکھتے تھے، ہم نے ان سے علم تفسیر میں استفادہ کیا۔
g  استاذ محترم فاروق صارم ﷫: جنہیں علم الفرائض میں کمال حاصل تھا، ہم نے ایک عرصہ ان سے علمی استفادہ کیا۔میں اور مولانا عبد الصمد رفیقی﷫ نے خاص دلچسپی کے ساتھ ان کے دروس لکھے بھی اور یاد بھی کیے۔ مولانا مرحوم کے حلقہ درس میں لکھے ہوئے وہ دروس آج بھی میرے پاس محفوظ ہیں۔ مشکوٰۃ المصابیح بھی انہی سے پڑھی۔
h  شیخ الحدیث حافظ عبد اللّٰہ بھٹوی﷾:شیخ محترم سے براہِ راست پڑھنے کا موقع نہیں ملا، البتہ وہ نماز کے بعد بسا اوقات پورے ہال میں درس ارشاد فرماتے۔
i  استاذ محترم مولانا عتیق اللّٰہ ﷾ : سنن ابن ماجہ، مشکوٰۃ المصابیح اور تفسیر جلالین کے سلسلے میں ان سے اکتساب علم کا موقع ملا۔
j  شیخ التفسیر مولانا عبد السلام ملتانی﷫ جو کہ ہماری مادر علمی کا عظیم سرمایہ تھے، جن سے ہم نے، ہمارے شاگردوں نے اور ہمارے بعض اساتذہ نے بھی استفادہ کیا اور کرتے رہے۔ اللّٰہ جل شانہ بہتر جزا دے اور انہیں مقام علیین میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین
k  مولانا عطاء الرحمٰن ثاقب ﷫ : ہمارے ساتھی بھی تھے اور اُستاذ بھی۔ اللّٰہ جل شانہ نے بڑی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ عربی ادب میں خاصی مہارت تھی۔ ہمیں کچھ عرصہ عربی ادب کی کتاب الأسلوب الصحیح پڑھاتے رہے۔
l  مولانا عبد الرشید ملتانی﷾ :جو کہ مدرسہ خیر المدارس ملتان سے فارغ التحصیل تھے، مدرسہ رحمانیہ میں لمبا عرصہ تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ فنی کتب تدریس میں خاصی مہارت رکھتے تھے، ہم نے مختلف اصول کی کتابیں ان سے پڑھیں۔
m  شیخ عبید الرحمٰن آف کامونکی﷾:ہم نے کچھ ان سے الدّرر البهية اور عربی ادب کی کتاب پڑھی۔
n  استاذِ محترم سعید مجتبیٰ سعیدی ﷾: نہایت مشفق ، خوش خلق اور مخلص استاذ تھے۔ مگر زیادہ استفادہ کا موقع نہیں ملا اور دیگر وہ اساتذہ کرام جن کے نام راقم الحروف کے ذہن میں نہیں۔
اللّٰہ جل شانہ سب کو اجر عظیم اور ثواب جزیل عطا فرمائے۔ خاص طور وہ جو رحیم وکریم پروردگار کے جوار میں پہنچ چکے ہیں۔
مولانا رفیقی مرحوم کی مدینہ طیبہ آمد اور راقم سے ملاقات
ہمیں یہ سعادت ملی کہ ہم دونوں کا جامعہ لاہور الاسلامیہ سے مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ ہوگیا۔ میں مولانا رفیقی مرحوم سے کچھ عرصہ قبل مدینہ منورہ پہنچ گیا تھا، وہ جب تشریف لائے تو مجھے اُن سے پہلی ملاقات کا شرف حرم نبوی ﷺ میں ہوا۔ وہ سیدھے ایئرپورٹ سے حرم پہنچے۔ مجھے خوب یاد ہے کہ وہ نمازِ مغرب سے کچھ وقت پہلے حرم میں داخل ہوئے تھے، سفر کی تکان اور پیاس کی شدت چہرے سے عیاں تھی۔ میں انہیں لے کر پہلے سیدھا حرم کے نواح میں مشروبات کی ایک دوکان پر آیا، جہاں ان کی چاہت کے مطابق ٹھنڈا شربت پلایا، جسے پی کر بے حد خوش ہوئے اور میرا شکریہ ادا کرنے لگے۔ اس واقعہ کو ذکر کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ بعد میں جب بھی ان سے ملاقات کا موقع ملتا، منڈی وار برٹن یا چاندی کوٹ یا دار السلام، لاہور میں ملاقات ہوتی تو وہ مجھے حرم ِنبوی کے پاس پینے والا شربت یاد دلا کر اس کی لذت کا تذکرہ کرتے اور پھر سے اظہارِ تشکر کے جذبات سے لبریز ہوجاتے، ساتھ ہی میزبانی کا اہتمام شروع ہو جاتا۔
مدینہ طیبہ میں اقامت اور ایک ناخوشگوار واقعہ
مولانا رفیقی مرحوم ایک تو اللّٰہ جل شانہ کی واحدانیت اور عقیدۂ توحید کا بڑے جذباتی انداز سے تذکرہ کرتے اور دوسری جانب حُب مصطفیٰ ﷺ اور اطاعتِ رسول ﷺ کے شیدائی، نیز حدیثِ رسول اللّٰہ ﷺ سے بھی والہانہ عقیدت رکھتے تھے، اسی جذبہ کے تحت اُنہوں نے یونیورسٹی کے کلية الحدیث میں داخلہ لے لیا تھا۔
دورانِ تعلیم ہر سال موسم سرما کی تعطیلات میں جامعہ کی طرف سے تفریحی وعلمی پروگرام تشکیل دیئے جاتے۔ ہم نے اکٹھے ایک ساتھ نام لکھوائے اور پہلے ہم نے عمرہ ادا کیا، بعد ازاں ایک ہفتہ عشرہ کے لیے معروف سعودی شہر ینبُع کے ساحل پر جا خیمہ زن ہوئے۔ وہاں مختلف قسم کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہوئے ہم نے فٹ بال کی ٹیم میں بھی نام لکھوا لیا تھا۔ مولانا رفیقی مرحوم مجھ سے کہیں بڑھ کر جوش وخروش کے ساتھ کھیل کا مظاہرہ کر رہے تھے، غالباً حدیث رسول اللّٰہ ﷺ «الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ، خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللهِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ وَفِي كُلٍّ خَيْرٌ» [2]کے مصداق وہ جسمانی و ورزشی کھیلوں میں خاصی دلچسپی لیتے تھے، اور کسی نتیجے کی پرواہ کئے بغیر مشکل اور کٹھن جگہ کا انتخاب کرتے تھے۔ اسی کشمکش میں ایک بار ان کی مڈھ بھیڑ اپنے سے خاصے لمبے اورمضبوط نيگر وکھلاڑی سے ہو گئی، اس نے جو پوری قوت سے گیند کو کک لگائی تو سیدھی رفیقی مرحوم کی ٹانگ پر لگی، نتیجتاً ان کی ٹانگ اس طرح سے فر یکچر ہوئی جیسے کوئی سوکھی ٹہنی ٹوٹ کر گرتی ہے۔
اس حادثہ کے فوراً بعد، پہلے اُنہیں ایمرجنسی میں ، ینبع کے مقامی ہسپتال میں داخل کیا گیا ، بعد میں اُنہیں مدینہ منورہ میں ’مستشفیٰ ملک فہد‘ منتقل کر دیا گیا۔ وہاں ڈاکٹرز ان کی ٹانگ کا آپریشن کرنا چاہتے تھے۔ اس پر ہم نے فوری طور پر طائف میں مقیم اپنے قابل صد احترام بھائی جان ڈاکٹر حبیب الرحمٰن کیلانی سے رابطہ کیا، ریاض میں بڑے بھائی جان محترم عبد المالک مجاہد صاحب سے بات کی۔ محترم بھائی محمد آصف اور محترم چچا سیف الرحمٰن صاحبان کے باہمی مشورے سے طے پایا کہ فی الحال رفیقی صاحب کو طائف لے آیا جائے۔ ایک بین الاقوامی اور سرکاری یونیورسٹی سے غیر معینہ مدت کے لیے طائف منتقلی بھی ایک بڑا چیلنج تھی۔ بہر حال اللّٰہ جل شانہ کی مدد شامل حال تھی۔ بڑے بھائیوں نے بھرپور تعاون فرمایا اور اس طرح مولانا رفیقی صاحب اپنے محسنین کے زیر نگرانی طائف میں زیر علاج رہے۔ جزاهم الله أحسن الجزاء
علم وعمل کا حسین امتزاج
اللّٰہ جل جلالہ کے فرمان کے مطابق ﴿ اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ ﴾ (الفاطر: 28)
’’ اللّٰہ تعالیٰ کے بندوں میں سے اہل علم ہی اللّٰہ تعالیٰ کا حقیقی ڈر رکھتے ہیں۔‘‘
مولانا رفیقی مرحوم خشیتِ الٰہی سے معمور تھے۔ جہاں کہیں اور جب بھی کوئی معصیت کا کام دیکھتے تو پریشانی سے چہرے کے خدوخال بدل جاتے۔ غیبت اور چغلی سے اس حد تک نفرت تھی کہ محسوس کرتے ہی طبیعت خراب ہونے لگتی۔ روکنے کی کوشش کرتے، اگر بس نہ چلتا تو وہاں سے رفوچکر ہو جاتے۔
مولانا رفیقی مرحوم کو محفل میں حق بات کہنے سے کوئی با ک نہیں تھا، کئی بار ایسے اتفاق ہوا کہ مجلس میں احباب بیٹھے ہوتے۔ اچانک اذان کی آواز آتی تو ان کی گفتگو کا انداز بدل جاتا اور ساتھ ہی نماز کی ادائیگی کے لیے تگ ودو شروع ہو جاتی۔ اپنے اہل خانہ اور بچوں کو بھی، اللّٰہ جل شانہ کے فرمان:
﴿ وَ اْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَ اصْطَبِرْ عَلَيْهَا١ؕ ﴾ (طہٰ: 132)
’’ اپنے اہل وعیال کو نماز کا حکم دو اور اس پر ثابت قدم رہو۔‘‘
کے مطابق دینی تعلیم وتربیت کے زیور سے آراستہ وپیراستہ کرنے کے لیے مسلسل جدوجہد اور اَن تھک محنت کی جس کا ثمرہ اب ایک بار آور اور تناور گلستان کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔
میری معلومات کے مطابق آپ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک مدرسة مرأة القرآن کے صدر مدرّس اور شیخ الحدیث تھے۔ ساتھ ساتھ ہی عالمی اشاعتی ادارے’دار السلام‘میں علمی خدمات سرانجام دیتے ہوئے معروف دینی درسگاہ ’الرحمۃ انسٹیٹیوٹ‘ وار برٹن میں بطور سینئر مدرس بھی کام کر رہے تھے۔ خاصا عرصہ پہلے میں نے سنا تھا کہ اُنہوں نے قرآن حکیم کا حفظ شروع کیا تھا، معلوم نہیں کہ سارا قرآن حکیم حفظ کر پائے تھے یا نہیں؟ان کے بچے اس بارے میں بہتر بتا سکتے ہیں وہ خود اس بارے صریحاً کسی کو نہیں بتاتے تھے۔ مولانا عبدالصمد رفیقی مرحوم کی زندگی کھلی کتاب کی طرح تھی۔ ہردم آخرت کی فکر اور رحمۃ للعالمین کی سنت کی اتباع میں سرشار۔ ان کی موت سے کچھ دیر پہلے کی لکھی گئی وصیت ہم سب کے لیے ایک روشن دلیل بھی ہے اور لمحہ فکریہ بھی ، جیسا کہ آنحضور ﷺ نے بھی اس بارے میں پوری امت کو ہدایت کی۔
سادگی اور تواضع
علمائے ربانی کا طرۂ امتیاز ہوا کرتی ہے۔ علم وحی ان اوصاف کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ سادہ اور صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس، لمبی اور سنت کے مطابق ڈاڑھی، شلوار ٹخنوں سے بلنداور اپنی سائیکل پر رواں دواں واربرٹن سے چاندی کو ٹ ، چاندی کوٹ سے حسین پور اور پھر کسی اور قصبہ میں آتے جاتے ہوئے دکھائی دیتے۔
تواضع اور انکساری کا یہ عالم تھا کہ جب بھی مجھے ملتے، معانقہ کرتے اور کہتے : میرے پیارے پاجی، تسلی نہیں ہوئی۔ تو پھر بسااوقات فرطِ مسرت سے اپنے پاؤں میرے پاؤں کے تلووں پر رکھ کر بغل گیر ہو جاتے۔ مسجد میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم دونوں اکٹھے ہوئے اور اُنہوں نے مصلے پر مجھے آگے کھڑا نہ کیا ہو، پھر جب اصرار بڑھ گیا تو ہم نے یہ ترتیب بنائی کہ جب میں ان کے ہاں جاتا تو وہ ہمیشہ مجھے آگے رکھتے اور جب وہ میرے پاس آتے تو میں امامت کے لیے اُنہیں ہی آگے کھڑا کرتا۔
کبھی منڈی واربرٹن مسجد میں یا الرحمہ انسٹیٹیوٹ میں جانے کا اتفاق ہوتا تو ان کی خوشی سنبھالی نہ جاتی۔ مجھے درس یا طلبہ کو وعظ ونصیحت کرنے کا ضرور کہتے۔ علاقہ کے تمام گاؤں اور قصبے آپ سے بھرپورعلمی استفادہ کرتے، آپ بھی دل کھول کر ہر ایک کی دینی راہنمائی اور دلجوئی کرتے تھے۔ مثال کے طور پر میرا ایک ہم جماعت نوجوان محمد رمضان کشمیری قضاے الٰہی سے فوت ہو گیا،میں اس وقت لاہور میں تھا، تو اس کے جنازے میں بھی شرکت نہ کرسکا، جبکہ مولانا رفیقی مرحوم کو اطلاع ہوئی، تو انہوں نے ہمارے گاؤں حسین پور چٹھہ میں آ کر نہ صرف ان کو غسل دیا، بلکہ جنازے اور تدفین تک وہیں رہے۔ جیسے کہا جاتا ہے: " من طلب شيئًا جدّ وجد"              ’’ جو نیکی کےلیے کوشاں رہا، اس نے اپنا نصیب پا لیا۔‘‘
صلہ رحمی
رشتہ داروں کے ساتھ ہمہ وقت رابطہ، ان کی غمی وخوشی میں شریک ہونا، ان کی ترجیحات میں تھا۔’ سپرا رابطہ سوسائٹی‘ کے زیر اہتمام ’کاروانِ صلہ رحمی‘ میں وہ اوّل سے آخر تک ہمارے ہم سفر رہے۔ وہ بہت اہم کام چھوڑ کر بھی قرابت داروں کے ہاں وقت پر پہنچتے۔ خصوصاً عیدین کے موقع پر مجھے ان کی آمد کا انتظار ہوتا تھا۔ خواہ دن ہو یا رات، آپ نہ گرمی دیکھتے، نہ سردی، نہ بارش بلکہ اپنی سواری (زیادہ تر سائیکل) پر سوار ایک دم نمودار ہوتے، بغیر تکلف کے جو کچھ ہوتا، ضرور تھوڑی سی دعوت قبول کرتے۔ نماز کا وقت ہوتا تو نماز ادا کرتے، بعد ازاں بڑی محبت سے واپسی کی اجازت لیتے۔ تاکہ دیگر رشتہ داروں کے ہاں حاضری دے سکیں، یہ ان کا سالہا سال سے معمول بن گیا تھا۔ میرے والد محترم سے خصوصی تعلق اور اُنس تھا، تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد والد محترم سے ملاقات کے لیے ازخود ضرور حاضر ہو جایا کرتے تھے۔ جزاه الله تعالىٰ أحسن الجزاء
رشتہ داروں کے کام خاص طور پر باہمی رشتے ناطے کراکے ازحد خوشی کا اظہار کرتے۔ اسی ضمن میں میری ان سے آخری ملاقات عرب امارات میں آنے سے تقریباً ایک ہفتہ قبل اپنے بیٹے محمد مغیرہ لقمان کے بیٹے بدر بن مغیرہ کے عقیقہ کے موقع پر چاندی کوٹ روڈ پر واقع نئے’ورک شادی ہال‘میں ہوئی، جہاں وہ دیگر اعزہ واقارب کے ساتھ مدعو تھے۔ معمول کے مطابق روشن اور تروتازہ چہرے کے ساتھ عین وقت پر تشریف لائے۔ میرےلیے یہ ملاقات ان کی زندگی کے آخری ایام میں ایک بڑی سعادت سے کم نہیں۔ وہ مجھے شدید سردی کے باوجود اپنے ساتھ باہر لائے۔ دیر تک میرے بیٹے حافظ محمد مثنیٰ لقمان کے بارے میں مفید اور نیک مشوروں سے نوازتے رہے، اور ساتھ ساتھ زبان پر دعاؤں کا سلسلہ بھی جاری تھا، یہاں تک کہ میں موسم کی شدت میں کھڑے کھڑے تھک گیا، وہ تو ہلنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے اور پھر ہال میں آتے ہی وہاں پہلے سے بیٹھے علما وفضلا کے ساتھ توحید باری تعالیٰ اور سلف صالحین کے منہج پر علمی وفکری تبادلہ خیال کرتے رہے۔
آسمان تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے!              تغمّده الله برحمته!
تقویٰ ووَرع
عبادتِ الٰہی میں ڈوب جاتے، نماز میں خشوع خضوع دیکھنے کو ملتا اور ساتھ ہی صبر وشکر اور قناعت کی دولت سے بھی مالا مال تھے، گویا اس حدیث رسول اللّٰہ ﷺ کی عملی تصویر تھے:
«إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْعَبْدَ التَّقِيَّ، الْغَنِيَّ، الْخَفِيَّ»[3]
’’ اللّٰہ تعالیٰ متقی، آسودہ حال (مستغنی) اور چھپ چھپ کر رہنے والے بندے سے محبت کرتا ہے۔ ‘‘
طبیعت سے وہ اپنے علاقے اور اطراف و اکناف میں خیر وبرکت کا منبع اور علم وعمل کا بہتا چشمہ تھے۔ ہم ایک ہی راستہ کے راہی اور مقصد کے متلاشی تھے، مگر وہ ہم سے بہت آگے نکل گئے۔ اب یاد آتی ہے تو لبوں پر یہ دعائیہ الفاظ ازخود آ جاتے ہیں۔ الٰہی ہم کو بھی اپنے دین کے سچے اور سُچے محافظوں میں شامل کرے: اللهم استعملنا بطاعتك وطاعة رسولك وتوفنا على ملته وأعذنا من مضلات النفس!
اللّٰہ جل شانہ کی بارگاہ میں دعا کے دوران آپ پر بے پناہ رقت طاری ہوجاتی۔مجھے پتہ چلا کہ اپنی زندگی میں اُنہوں نے اپنی لختِ جگر بچی کی جدائی کا بڑاصدمہ برداشت کیا جو غالباً جل گئی تھی اور علاج کے باوجود انتقال کر گئی ۔ ایسے جگر پاش کر دینے والے صدمے میں اُنہوں نے اپنی بیٹی کی چارپائی کے پاس مصلیٰ بچھا لیا اور تقر یباً پوری رات اللّٰہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں اور گریہ زاری میں گزار دی۔ یقیناً رحیم وکریم پروردگار نے ان کے جانے سے پہلے ان کی ایک قیمتی امانت اور سرمایے کواپنے پاس بلا لیا تاکہ وہ اپنے باپ کا جنت کے دروازوں پر استقبال کر سکے۔ بلاشک وشبہ اللّٰہ جل شانہ کا اپنے بندے سے یہ وعدہ سچا ہے:
﴿ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَۙ۰۰۱۵۵ الَّذِيْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَؕ۰۰۱۵۶ اُولٰٓىِٕكَ عَلَيْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ١۫ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ۰۰۱۵۷ ﴾ (البقرة: 155-157)
اور (اے نبیﷺ!) ایسے صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے کہ جب انہیں کوئی مصیبت آئے تو فوراً کہہ اٹھتے ہیں کہ ہم (خود بھی) اللّٰہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور اسی کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔ ایسے ہی لوگوں پر ان کے پروردگار کی جانب سے عنایات اور رحمتیں برستی ہیں اور ایسے ہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘
رحمۃ للعالمین کی بشارت کے مطابق جس شخص کی ایک، دو یا تین بیٹیاں ہوئیں اور اس نے ان کی صحیح تربیت کی، اُنہیں پالا اور پروان چڑھایا تو اللّٰہ جل شانہ اسے جنت کی نعمت سے سرفراز فرمائے گا۔ یہ سعادت بھی مولانا رفیقی مرحوم کو نصیب ہوئی۔
قابل رشک سفر آخرت
مولانا رفیقی مرحوم کی جدائی سے ہونے والا خلا تو شاید برسوں پُر نہ ہوسکے، مگر موت جو کہ حقیقت میں خالق ارض وسما کی مخلوق ہے، کوئی سلبی چیز نہیں بلکہ ایجابی ہے۔ جسے اللّٰہ تعالیٰ نے زندگی سے پہلے پیدا فرمایا اور قرآن حکیم میں بھی موت کا نام زندگی سے پہلے لیا۔ (الملک: 2) تاکہ وہ اپنے بندوں کی آزمائش کر سکے کہ عمل میں کون شخص اچھا ہے؟ لہٰذا اس مرحلہ سے کسی پیغمبر ﷤ کو بھی مفر نہیں۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ جب خالق حقیقی کے حکم سے موت آئے تو وہ انسان کس حالت اور کیفیت میں ہو۔ عموماً موت انسان کو اُسی حالت میں اچکتی ہے جو اس مستعار زندگی میں وہ اکثروبیشتر عمل کرتا ہے، اور روزِقیامت بھی اسی حالت میں اٹھایا جائے گا جس حالت میں اس نے دنیا چھوڑی ہو گی۔ رسول اللّٰہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:
«يُبْعَثُ كُلُّ عَبْدٍ عَلَى مَا مَاتَ عَلَيْهِ». [4]
لہٰذا «إنما الاعمال بالخواتيم» کے تحت اس بات کی بڑی اہمیت اور ضرورت بھی ہے کہ ہم خاتمہ بالخیر کی دعا بھی کرتے رہا کریں اور دوا، یعنی عملی طور پر جستجو بھی ۔اللّٰہ جل شانہ اپنے بندوں کی مساعی جمیلہ کا بڑا قدر دان ہے۔ وہ ارشاد فرماتا ہے:
﴿ وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَاؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَؒ۰۰۶۹﴾ (العنكبوت: 69)
’’اور جو لوگ ہماری (اطاعت وفرمانبرداری اور صراط مستقیم کو اپنانے) میں محنت کرتے ہیں، ہم ان کو ضرور اپنی سیدھی راہوں پر گامزن کریں گے اور یقیناً اللّٰہ نیکو کار لوگوں کے ساتھ ہے۔‘‘
ہمارا کیلانی خاندان بالعموم (الحمد للہ) مسندِ رسول ﷺ کا امن ومحافظ رہا ہے، اس میں چند لوگ میری معلومات کے مطابق بطورِ خاص اس اعتبار سے قابلِ ذکر ہیں کہ جن کی زندگی بھی نیک اعمال اور تقویٰ سے عبارت تھیں اور سفرِ آخرت بھی قابل رشک ۔ اگر خاندان میں اُن کے علاوہ بھی کوئی شخصیات تھیں اور لازماً ہوں گی تو اس سلسلے میں میری معلومات میں اضافہ فرما کر عند اللّٰہ تعالیٰ ماجور ہوں۔
a     میرے اُستاذ محترم چچا جان مولانا عبد الرحمٰن کیلانی﷫ جو نمازِ عشا میں صف ِاوّل میں ، اپنی ہی تعمیر کردہ مسجد میں اور پھر سجدے کی حالت میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔
b     ہمارے محسن معلّم چچا جان محمد سلیم کیلانی﷫ جو بروز جمعہ، جمعہ کا خطبہ شروع ہوتے ہی اپنے پروردگار سے مُلاقی ہوئے۔
c     میرے نانا جان عبد الغفار کیلانی﷫ رمضان المبارک میں روزے کی حالت میں اور پھر قرآن حکیم کی کتابت کرتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
d     میرے تایا جان نذیر احمد ولد عبید اللّٰہ سپرا ﷫ بروز جمعہ معمول کے مطابق سورۃ الکہف کی تلاوت پر اپنے مبعود برحق کے پاس جا پہنچے۔
e     میرے دادا جان عبد اللّٰہ بن سلطان احمد سپرا﷫ جو تہجد کے وقت ، عاشورۂ محرم کو بروز جمعہ اپنے پروردگار کے جوارِ رحمت میں منتقل ہوئے۔ اس رات وہ بار بار خود بھی نفلی عبادت ادا کرتے اور اپنے موجود بچوں (والد محترم اور ان کی ہمشیرہ مزمل رحمہما اللّٰہ) کو بھی نماز کی تلقین کرتے رہے۔
ہمارے فاضل، علم وعمل کے پیکر،میرے ہم جولی اور میرے ہم مکتب مولانا عبد الصمد رفیقی﷫ جو جمعرات کی شب کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، جس دن کی عظمتوں اور برکات کے بارے الصادق المصدوق ﷺ کا ارشاد ہے:«خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ » .[5]
’’ دنوں میں سے سب سے بہتر دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے، جمعہ کا دن ہے۔ ‘‘
نیز اس دن وفات پا جانے والے سے قبر کا حساب وکتاب اُٹھا لیا جاتا ہے جیسا کہ جامع ترمذی میں حضرت عبد اللّٰہ بن عمر﷠ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا:
«مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَمُوتُ يَوْمَ الجُمُعَةِ أَوْ لَيْلَةَ الجُمُعَةِ إِلَّا وَقَاهُ اللَّهُ فِتْنَةَ القَبْرِ». [6]
’’ جو مسلمان بھی جمعہ یا جمعہ کی شب کو فوت ہو جائے تو اللّٰہ تعالیٰ اسے قبر کے فتنہ (یعنی حساب وکتاب اور عذاب قبر وغیرہ) سے بچا لیتے ہیں۔‘‘
مولانا عبد الصمد رفیقی﷫ اپنے دل ودماغ میں اللّٰہ کا خوف اور فکر آخرت لیے، ہمہ وقت توحید وسنت کی نشرواشاعت میں مصروف ومنہمک دکھائی دیتے۔ شنید ہے کہ وفات سے ایک یا دو دن قبل مسجد ’ریاض الاسلام‘ وار برٹن میں ’فکر آخرت‘ کے موضوع پر ایسا پُر اثر درس دیا:    "كأنها موعظة مودع "
گویا کہ وہ ایک قسم کا الوداعی پیغام ونصیحت تھی اور پھر اس کے بعد سے لے کر آخری لمحات تک وہ سفر آخرت کی تیاری میں ہی لگے رہے۔ انہیں بظاہر کوئی بھی جسمانی تکلیف یا عارضہ نہ تھا۔
پھر اللّٰہ جل شانہ سے ملاقات کی فکر دامن گیر ہوگئی، بچوں کے پوچھنے پر صرف اتنا کہا کہ مجھے الہام ہوا ہے۔ اسی طرح کے الفاظ ان کی وفات سے کچھ دیر پہلے لکھی گئی وصیت میں بھی ملتے ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اُنہیں اس ذمہ داری سے بھی عہدہ برآ ہونے کی توفیق عطا فرمائی جس بارے میں ہادئ برحق حضرت محمد ﷺ نے اپنی پوری اُمت کو تاکید فرمائی ہے کہ
«مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَهُ شَيْءٌ يُوصِي فِيهِ، يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ إِلَّا وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ». [7]
’’ کسی مسلمان کے لیے یہ لائق نہیں کہ وہ اپنی کسی چیز میں وصیت کرنا چاہتا ہو مگر دوراتیں بھی اس حالت میں گزارے کہ اس کے پاس وصیت تحریری شکل میں موجود نہ ہو ۔‘‘
ہم سب کو محسنِ انسانیت اور نبی رحمت ﷺ کے اس فرمان کی جانب توجہ مبذول رکھنی چاہیئے۔ کہا جاتا ہے کہ امام اہل السنہ احمد بن حنبل﷫ جب آزمائش کے دور میں حکومت وقت کے ہاتھوں پیٹے جاتے تو جلاد ایک ہی وقت اَسّی اسّی (80، 80) دُرّے اس شدت سے مارتا کہ اگر ہاتھی کو لگائے جاتے تو وہ بھی تاب نہ لاتے ہوئے بھاگ جاتا، مگر امام اہل السنہ والجماعہ کی قوتِ ایمانی اور ثابت قدمی پر حکومتی وسائل بھی بے بس ہو چکے تھے اور جب ربّ ذوالجلال سے ملاقات کا وقت آیا تو بظاہر انہیں کوئی بھی جسمانی عارضہ یا تکلیف نہ تھی اور وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔ إنا لله وإنا إليه راجعون!
زمانے کے شاہی طبیب نے خوب جائزہ لینے کے بعد صرف اتنا کہا:
’’خشیت ِالٰہی سے دل اس قدر خوف زدہ ہوا کہ پھٹ گیا اور وہ اپنے معبود برحق سے جا ملے۔‘‘
لواحقین سے استدعا
مولانا عبد الصمد رفیقی مرحوم نے اپنے جُہد مسلسل اور عمل پیہم سے اپنے پیچھے نیک اولاد کا بہترین سرمایہ چھوڑا ہے جو ایک تو ان کے جار ی کردہ نیک مشن کے لیے ان شاء اللّٰہ کوشاں رہے گا اور دوسرا دعاؤں کی صورت میں صدقہ جاریہ بھی۔ اللّٰہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَ مَاۤ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ﴾ (الطور: 21)
’’اور جو لوگ مشرف باایمان ہوئے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان لانے میں ان کی پیروی کی تو ہم ان کی اولاد کو بھی ان کے ساتھ ملا دیں گے اور ان کے اپنے اعمال میں سے کچھ بھی کم نہ کریں گے۔‘‘
لہٰذا ان کے اہل خانہ خصوصاً عالم وفاضل بچوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنے والد محترم کے چھوڑے ہوئے علمی كام کو منظر عام پر لائیں خواہ وہ مسودے کی صورت میں ہو یا پھر لکھے ہوئے مضامین اور مرتب شدہ تد ریسی اسباق کی صورت میں تاکہ اہل علم اور خصوصاً طلبہ بھی اس سے مستفید ومستفیض ہو سکیں۔
تقبل الله منا ومنكم والله تعالىٰ ولي التوفيق!
حوالہ جات:
[1]   سؤالات السلمي للدارقطني لــ محمد بن الحسين السلمي النيسابوري:ص361
[2]   صحيح مسلم: باب في الأمر بالقوة وترك العجز والاستعانة بالله وتفويض المقادير لله:2664
[3]   صحيح مسلم، كتاب الزهد والرقائق:2965
[4]   صحيح مسلم،كتاب الجنة وصفة نعيمها..، باب الأمر بحسن الظن بالله..:2878
[5]   صحيح مسلم، باب فضل يوم الجمعة: 854
[6]   جامع الترمذي، أبواب الجنائز، باب ما جاء فيمن مات يوم الجمعة:1074قالہ الالبانی:حسن اَو صحیح
[7]   صحيح البخاري، باب الوصايا وقول النبيﷺ: وصية الرجل:2738؛
صحيح مسلم، كتاب الهبات، باب كراهة تفضيل بعض الأولاد في الهبة:1627