دسمبر 2019ء میں چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والا کورونا وائرس Covid-19تاریخ انسانی کی مہلک اور وسیع ترین وبا کی حیثیت رکھتا ہے۔ 175 ممالک میں اڑھائی کروڑ سے زائدمتاثرین میں سے آٹھ لاکھ انسان اس وائرس کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اُتر چکے ہیں جن میں ترقی اور صحت کے عالمی معیار کے بلند بانگ دعوے کرنیوالے ممالک سرفہرست ہیں۔ چند ایک کو چھوڑ کر ہر ملک میں کئی مہینوں پر محیط لاک ڈاؤن کیا جا چکا ہے جس سے وسیع پیمانے پر عالمی سفروسیاحت، صنعت و تجارت ، عالمی معیشت اور ملازمتوں کا ٹریلنوں ڈالرز کا نقصان ہوچکا ہے۔معلوم تاریخ میں عالمی سطح پر اتنی ہلاکتوں، معاشی بحران، اور ویرانی کی کوئی مثال نہیں ملتی!!
سائنسی ترقی اور طبّی تحقیقات کے بلندبانگ دعوے کرنے والا انسان اس حقیر وائرس کے سامنے بےبس نظر آتا ہے۔ انسانی وجود میں اس کا علاج تو موجود ہے جو مضبوط مدافعت کی صورت میں اس وائرس کو بے اثر کردیتا ہے، جبکہ سائنسی ماہرین اس صحت یاب انسان سے حاصل شدہ پلازما کی قدرتی ویکسین سے دیگر انسانوں کے علاج میں کوشاں تو ہیں، لیکن اللّٰہ کی عظمت کے منکر ہیں۔ وائرس کی شدت کی نوعیت یہ ہے کہ
یہ بعض صورتوں میں جان لیوا اورمہلک ہے۔ اس کا تاحال کوئی علاج دریافت نہیں ہوا۔ اور اس کے پھیلنے کے لامحدود امکانات پائے جاتے ہیں کیونکہ اس کا وائرس ہر سطح پر بآسانی منتقل ہوسکتا ہے۔ یہ ایسا اَن دیکھا ننھا وائرس ہے جس کی ہلاکت خیزی کا علم اس وقت ہوتا ہے جب اس سے بچنے کے امکانات مشکل تر ہوجاتے ہیں۔ پھر اس کی علامتیں بھی ضروری نہیں کہ ہر مریض میں لازما ًپائی جائیں ، بلکہ بعض اوقات واضح علامتوں کے بغیر بھی بعض مریض اس کا شکار بن سکتے ہیں۔ ایک بار آجانے کے بعد کسی شہر میں دوبارہ شدید لہر آنے کا خطرہ بھی منڈلاتا رہتا ہے۔
طبی ماہرین کا تجویز کردہ لاک ڈاؤن ،سماجی فاصلہ یا مسلسل سطح اور ہاتھوں کو دھوتے رہنا بھی اس کا کوئی علاج نہیں، بلکہ یہ سب ایک نادیدہ وائرس کے سامنے محض ایک احتیاطی تدبیر ہے کہ جب اس کی پہچان ہی کوئی نہیں تو اپنے آپ کو بند کرکے، اس وائرس کو پھیلنے سے ممکنہ طور پر روکا جائے ۔اور اگر یہ وائرس کسی شخص میں منتقل ہوجائے تو پھر نہ صرف چند دنوں میں اس سے سب ملنے والوں کو اپنے گھیرے میں لے لیتا ہے بلکہ اس کی شدت ،سنگینی او رنقصان بھی تمام تر اللّٰہ جل جلالہ کے فیصلے پر ہی موقوف ہے۔ حتی کہ مرض سے متاثرہ علاقے کو باقی دنیا سے کاٹ دینے کے باوجود بھی اس کی کلی روک تھام نہیں ہوسکی ۔آٹھ ماہ کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک انسانی زندگی معمول پر نہیں آسکی اور ہردم ہلاکت وبربادی کا خوف منڈلا رہا ہے۔
اسلامی تعلیمات میں ہر دور اور ہر مسئلہ کی رہنمائی موجود ہے، کیونکہ اللّٰہ کی یہ ہدایت رہتی دنیا کے لئے کافی وشافی ہے۔ یہ رہنمائی ہر شخص اپنے علم اور مشاہدے سے رحمتِ الٰہی کے مطابق حاصل کرتا ہے۔دورِ جدید کے اس خطرناک وائرس کے بارے میں بھی احادیثِ نبویہﷺ سے بہت سی رہنمائی ملتی ہے ۔ اور مسلمانوں کو زندگی کے ہر مسئلے کے بارے میں قرآن وسنت کا علم رکھنے والے علماے کرام سے ہی رہنمائی لینی چاہیے:
﴿وَ اِذَا جَآءَهُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ١ؕ وَ لَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَ اِلٰۤى اُولِي الْاَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْهُمْ١ؕ﴾ (النساء: 83)
’’ اور جب کوئی امن کی یا خطرے کی خبر اُن تک پہنچتی ہے تو اسے فوراً پھیلا دیتے ہیں ۔ حالانکہ اگر وہ اسے رسولﷺ یا مستند علما ے کرام تک پہنچاتے تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آجاتی جو اس سے صحیح استدلال کرسکتے ۔‘‘
مولانا مفتی محمد شفیع اس آیت کی تفسیر میں ’معارف القرآن ‘ میں لکھتے ہیں:
’’حضرت حسن، قتادہ اور ابن ابی لیلی رحمہم اللّٰہ کے نزدیک اُولی الامر سے علما اور فقہا مراد ہیں۔ حضرت سدی فرماتے ہیں کہ اُمرا اور حکام مراد ہیں۔ ابوبکر جصاص ان دونوں اقوال کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ صحیح یہ ہے کہ دونوں مراد ہیں، اس لئے کہ ’اُولی الامر ‘کا اطلاق ان سب پر ہوتا ہے۔‘‘
بعض علماے کرام صرف توکل واعتماد کی تلقین کرتے ہیں تو ڈاکٹرز اور عالمی اداروں کی ہم نوائی میں حکومتیں صرف اسباب واحتیاط پر زور دیتی ہیں۔ کورونا مریض کے بارے میں قرآن وسنت کی رو سے توکل اوراحتیاط کے مابین توازن اور درست توجیہ کیا ہے؟ غیرمعمولی احتیاط سے کونسے شرعی احکام متاثر ہوتے ہیں؟ مساجد کو کلیۃً بند کیا جاسکتا ہے یا یہاں مخصوص شرائط عائد کی جاسکتی ہیں؟ ان مخصوص شرائط کے احکام کیا ہیں؟ مرض کی سنگینی میں مسلمانوں کے احتیاط نہ کرنےکی صورت میں مسلم حکومت کس حد تک پابندی عائد کرسکتی ہے...؟
یہ تمام مسائل شرعی حیثیت رکھتے ہیں، اوران کے بارے میں معاشرے میں پائی جانے والی افراط وتفریط میں مذکورہ آیتِ کریمہ کی رو سے قرآن وسنت اور علماے کرام سے رہنمائی لینا از بس ضروری ہے۔
اوّل: اللّٰہ کے فیصلوں پر کلّی توکل واعتماد اور مرض کا متعدی ہونا
پہلے توکل کے بارے میں قرآن کریم کی عمومی آیات اور مرض کے متعدی ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں احادیثِ مبارکہ سے رہنمائی ملاحظہ کریں:
a اللّٰہ تعالیٰ پر توکل واعتماد کا بنیادی عقیدہ قرآن کریم میں جابجا بیان ہوا ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ مَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بَالِغُ اَمْرِهٖ١ؕ قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا۰۰۳ ﴾
’’ اور جو شخص اللّٰہ پر توکل کرے تو وہ اسے کافی ہے، اللّٰہ اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے۔ بلاشبہ اللّٰہ نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔‘‘ (الطّلاق:3)
b قرآن کریم میں یہ عقیدہ کئی آیات میں بار بار بیان ہوا ہے:
﴿قُلْ لَّنْ يُّصِيْبَنَاۤ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَنَا١ۚ هُوَ مَوْلٰىنَا١ۚ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۰۰۵۱﴾ (التوبۃ: 51)
’’آپ ان سے کہیے : ہمیں اگر کوئی مصیبت آئے گی تو وہی آئے گی جو اللّٰہ نے ہمارے مقدر کر رکھی ہے، وہی ہمارا سرپرست ہے اور مؤمنوں کو اللّٰہ ہی پر توکل کرنا چاہیے۔‘‘
c ہر چیز اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں تقدیر میں لکھی جاچکی ہے، اور انسان کی زندگی اور موت کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ چنانچہ اسباب پر بے جا انحصار کرکے، موت سے بھاگنے والوں کو اللّٰہ تعالیٰ نے یوں وعید سنائی :
﴿ قُلْ لَّوْ كُنْتُمْ فِيْ بُيُوْتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِيْنَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ اِلٰى مَضَاجِعِهِمْ١ۚ ﴾ (آل عمران: 154)
’’آپ ان سے کہیے کہ : اگر تم لوگ اپنے گھروں میں رہتے تب بھی جن لوگوں کے لیے مرنا مقدر ہوچکا تھا، وہ یقیناً اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل آتے۔‘‘
d آپ اپنے صحابہ کرام کو گاہے بگاہے، اللّٰہ تعالیٰ کی حفاظت اور اس پرتوکل کا مکرر درس دیا کرتے، جیساکہ سیدنا عبد اللّٰہ بن عباس کو آپ نے نصیحت فرمائی:
«يَا غُلَامُ! إِنِّي أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ، احْفَظْ اللَّهَ يَحْفَظْكَ، احْفَظْ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ، إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلْ اللَّهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ، وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ، قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ، رُفِعَتْ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتْ الصُّحُفُ».
[1] ’’اے لڑکے! بے شک میں تمہیں چنداہم باتیں بتلارہاہوں: تم اللّٰہ کے احکام کی حفاظت کر و،وہ تمہاری حفاظت فرمائے گا، اللّٰہ کے حقوق کا خیال رکھو تواسے تم اپنے سامنے پاؤ گے، جب تم کوئی چیز مانگو توصرف اللّٰہ سے مانگو، جب تو مدد چاہو توصرف اللّٰہ سے مدد طلب کرو، اور یہ بات جان لو کہ اگر ساری امت بھی جمع ہوکرتمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ تمہیں اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللّٰہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچانے کے لئے جمع ہوجائے تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچاسکتی جو اللّٰہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے، قلم اٹھالیے گئے اور (تقدیر کے) صحیفے خشک ہوگئے ہیں۔‘‘
e اسی طرح جب ہجرتِ مدینہ کے سفر میں غار ثور کے باہر کافر پہنچ گئے اورسیدنا ابوبکر صدیق فکر مند ہوگئے، تو ایسے سخت وقت میں نبی مکرمﷺ نے کس طرح اللّٰہ تعالیٰ پر توکل اور اس کی حفاظت کا درس دیا:
﴿اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا١ۚ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِيْنَتَهٗ عَلَيْهِ وَ اَيَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا﴾ (التوبۃ: 40)
اور وہ ﷺاپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے :’’غم نہ کرو، اللّٰہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘پھر اللّٰہ نے اس پر اپنی طرف سے سکونِ قلب نازل کیا اور ایسے لشکروں سے انکی مدد کی جو تمہیں نظر نہیں آتے تھے ۔‘‘
f جب سیدنا لوط نے ظاہری اسباب کی کمی کا شکوہ کیا تو اگلی آیات میں سیدنا شعیب کی زبانی اللّٰہ تعالیٰ نے اس دعوے کی یوں اصلاح فرمادی:
﴿قَالَ لَوْ اَنَّ لِيْ بِكُمْ قُوَّةً اَوْ اٰوِيْۤ اِلٰى رُكْنٍ شَدِيْدٍ۰۰۸۰﴾ (هود: 80)
’’سیدنا لوط نے کہا : کاش ! میں تمہارا مقابلہ کرسکتا یا کسی مضبوط سہارے کی طرف پناہ لے سکتا۔‘‘
مولانا کیلانی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ
’’اگر میرا بھی یہاں مضبوط قبیلہ یا برادری ہوتی تو شاید میں ایسا بےبس اور مجبور نہ ہوتا۔‘‘
پھر سیدنا شعیب کو جب اُن کی قوم نے یہی طعنہ دیا تو اُنہوں نے یوں توکل کا اظہار کیا:
﴿وَاِنَّا لَنَرٰىكَ فِيْنَا ضَعِيْفًا وَلَوْ لَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنٰكَ١ٞ وَ مَاۤ اَنْتَ عَلَيْنَا بِعَزِيْزٍ۰۰۹۱ قَالَ يٰقَوْمِ اَرَهْطِيْۤ اَعَزُّ عَلَيْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اتَّخَذْتُمُوْهُ۠ وَرَآءَكُمْ ظِهْرِيًّا١ؕ اِنَّ رَبِّيْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ مُحِيْطٌ۰۰۹۲﴾
’’تم ہمارے درمیان ایک کمزور سے آدمی ہو اور اگر تمہاری برادری نہ ہوتی تو ہم تمہیں سنگسار کردیتے اور تم ایسے نہیں جس کا ہم پر کوئی دباؤ ہو۔ شعیب نے کہا: اے قوم! کیا تم پر میری برادری کا دباؤ اللّٰہ سے زیادہ ہے جسے تم نے بالکل پس پشت ڈال دیا ہے۔ یہ جو کچھ تم کر رہے ہو میرا پروردگار یقیناً اس کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔‘‘ (ہود: 92)
متعدی امراض کے بارے میں براہِ راست احادیث سے رہنمائی
g امراض کے متعدی نہ ہونے کے بارے میں سیدنا ابوہریرہ سے مروی ارشادِ نبوی ہے:
«لاَ عَدْوَى وَلاَ طِيَرَةَ، وَلاَ هَامَةَ وَلاَ صَفَرَ، وَفِرَّ مِنَ المَجْذُومِ كَمَا تَفِرُّ مِنَ الأَسَدِ.»
[2] ”چھوت لگنا، بد شگونی لینا، اُلّو کا منحوس ہونا، ماہ صفر کے بارے میں بد اعتقادی؛ یہ سب لغو خیالات ہیں۔ البتہ کوڑھی آدمی سے اس طرح بھاگ جیسے تو شیر سے دور بھاگتا ہے۔ “
مولانا عبد الستار الحماد﷾ اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:
’’ بیماری، اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کی پابند ہے مگر کوڑھی آدمی کے ساتھ میل ملاپ اس کا ایک سبب ہے، جب اللّٰہ تعالیٰ اس میں اثر پیدا کر دے۔ اسبابِ بیماری سے پرہیز کرنا توکل کے منافی نہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ مجذوم آدمی سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو تاکہ اللّٰہ کی تقدیر کے سبب بیماری لگ جانے سے ان کے عقیدے میں خرابی نہ آئے ،ایسا نہ ہو کہ وہ کہنے لگیں: یہ بیماری ہمیں فلاں آدمی سے لگی ہے۔‘‘
h بدشگونی اور بیماری کے متعدی ہونے کی نفی پر سیدنا ابوہریرہ سے مروی یہ فرمانِ نبوی بھی ہے:
«أَرْبَعٌ فِي أُمَّتِي مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ لَنْ يَدَعَهُنَّ النَّاسُ: النِّيَاحَةُ وَالطَّعْنُ فِي الْأَحْسَابِ وَالْعَدْوَى، أَجْرَبَ بَعِيرٌ فَأَجْرَبَ مِائَةَ بَعِيرٍ، مَنْ أَجْرَبَ الْبَعِيرَ الْأَوَّلَ؟، وَالْأَنْوَاءُ مُطِرْنَا بِنَوْءٍ كَذَا وَكَذَا».
[3] ’’میری اُمت میں چار باتیں جاہلیت کی ہیں، لوگ اُنہیں کبھی نہیں چھوڑیں گے: نوحہ کرنا،حسب ونسب میں طعنہ زنی،اوربیماری کا ایک سے دوسرے کو لگ جانے کاعقیدہ رکھنا مثلاً یوں کہناکہ ایک اونٹ کوکھجلی ہوئی اور اس نے سواونٹ میں کھجلی پھیلادی تو آخر پہلے اونٹ کوکھجلی کیسے لگی؟ اور ستاروں کا عقیدہ رکھنا۔مثلاًفلاں اورفلاں نچھتر(ستارے) کے سبب ہم پر بارش ہوئی۔‘‘
i جب اونٹوں کے بارے میں کسی نے دوسرے سے مرض لگنے کا دعویٰ کیا تو نبی کریمؐ نے خطبہ ارشاد فرمایا:
فَقَالَ: «لَا يُعْدِي شَيْءٌ شَيْئًا.» فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! الْبَعِيرُ الْجَرِبُ الْحَشَفَةُ بِذَنَبِهِ فَتَجْرَبُ الْإِبِلُ كُلُّهَا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «فَمَنْ أَجْرَبَ الْأَوَّلَ، لَا عَدْوَى وَلَا صَفَرَ. خَلَقَ اللَّهُ كُلَّ نَفْسٍ وَكَتَبَ حَيَاتَهَا وَرِزْقَهَا وَمَصَائِبَهَا».
[4] ’’فرمایا: کسی کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی ، ایک اعرابی (بدوی) نے عرض کیا: اللّٰہ کے رسول! خارشتی شرمگاہ والے اونٹ سے (جب اسے باڑہ میں لاتے ہیں) تو تمام اونٹ (کھجلی والے) ہوجاتے ہیں۔ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا: پھر پہلے کو کس نے کھجلی دی؟ کسی کی بیماری دوسرے کونہیں لگتی ہے اور نہ ماہِ صفر کی نحوست کی کوئی حقیقت ہے۔اللّٰہ تعالیٰ نے ہرنفس کو پیدا کیا ہے اور اس کی زندگی ، رزق اور مصیبتوں کو لکھ دیا ہے۔‘‘
توکل اور اسباب ؛ ایک تقابلی تجزیہ
قرآن کریم میں توکل واعتماد کے مکرر تذکروں کےساتھ امراض کے متعدی نہ ہونےکے بارے میں احادیثِ نبویہ میں واضح رہنمائی موجود ہے جس بارے میں علما ے کرام میں کئی موقف
[5] پائے جاتے ہیں:
a حافظ ابو عمرو ابن صلاح شہروزی (م 643ھ)وغیرہ نے ’مرض کے متعدی ہونے کی نفی‘ اور ’کوڑھی سے دور بھاگنے‘ کے دو فرامین نبوی میں تطبیق
[6] یوں دی ہے کہ
ووجْه الجمع بينهما: أن هذه الأمراضَ لا تُعْدِي بطبعها، لكنّ الله سبحانه وتعالىٰ جعلَ مخالَطَةَ المريضِ بها للصحيح سببًا لإعدائه مَرَضَه، ثم قد يتخلف ذلك عن سببه كما في غيره من الأسباب. كذا جمع بينهما ابن الصلاح، تَبَعاً لغيره.
[7] ’’دونوں میں مطابقت پیدا کرنے کی صورت یہ ہے کہ امراض بذاتہٖ تو متعدی نہیں ہوتے، بلکہ اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ نے مریض سے میل جول کو تندرست شخص میں مرض کے منتقل ہونے کا سبب بنایا ہے۔پھر دیگر اسباب کی طرح ، بعض اوقات اس شخص پر (حکم الٰہی سے )سبب مؤثر نہیں ہوتا۔
حافظ ابن صلاح نے دیگر علما کی اتباع میں یوں احادیث کو جمع کیا ہے۔ ‘‘
b ان دونوں احادیث میں مطابقت کا ایک اورموقف ملا علی قاری ہروی (م 1040ھ)نے بھی ذکر کیا ہے:
وَقد يُقَال: [الْجمع بَينهمَا] بِأَن النَّفْي للاعتقاد، والأمرَ بالفرار للْفِعْل، كَمَا نَهى ﷺ عَن الدُّخُول فِي بلدِ الطَّاعُون مَعَ أَن المعتقد أنْ لَا تَأْثِير لغير الله تَعَالَىٰ.
[8] ’’ان دونوں احادیث کو جمع کرتے ہوئے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مرض کے متعدی ہونے کی نفی تو عقیدہ کی بنا پر ہے جبکہ متعدی سے دور بھاگنے کا حکم ایک عملی رویّہ ہے جیسا کہ نبی کریمﷺ نے اس عقیدہ کے باوجود کہ اللّٰہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی مرض کو مؤثر کرنے پر قادر نہیں، اس امر سے روکا ہے کہ طاعون والے شہر میں مت جاؤ۔‘‘
یہاں دو احادیث کے ظاہری اختلاف میں دو طرح سے مطابقت کی گئی ہے: پہلی یہ کہ جس طرح مادّی اسباب خود مؤثر نہیں ہوتے ، اسی طرح كوئی مرض بھی از خود دوسرے کو نہیں لگتا بلکہ ہمارا مضبوط عقیدہ یہی ہونا چاہیے کہ دراصل کوئی مرض صرف اللّٰہ تعالیٰ کی قضا وقدر سے ہی لاحق ہوتا ہے۔ اور دوسری مطابقت وتوجیہ یہ ہے کہ پہلے حکم کا تعلق عقیدہ سے ہے جبکہ دوسری کا عملی رویہ
[9] ہے۔
چنانچہ آغاز میں ذکر کردہ احادیث میں بتایا گیا ہے کہ اسباب اور امراض کے از خود متعدی ہونے کا عقیدہ رکھنا، نہ صرف غلط ہے بلکہ بہت سے توہمانہ مسائل کو جنم دیتا ہے۔ سوچنا چاہیے کہ پہلے شخص کو آخر جس کے حکم سے بیماری لگی، باقی افراد کو بھی اسی بنیاد پر مرض لاحق ہوا۔ گویا ان آیات و احادیث میں اللّٰہ عزوجل پر توکل کی تلقین کی گئی ہے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ اسباب اورعلاج سے پہلے، انسانی د ل ودماغ جب تک اطمینان اورحوصلہ میں نہ ہوں، اس وقت تک جسمانی مدافعت بھی کارگر نہیں ہوتی اور عقائد کی مضبوطی ہی انسانی دفاع میں بنیادی اور اصلی کردار ادا کرتی ہے۔
c مذکورہ بالا دونوں مطابقتوں کے علاوہ ایک تطبیق حافظ ابن حجر نے پیش کی ہے اور ان کا استدلال لَا عَدْوَى کے نبوی لفظ سے ہے جو 7 اور 9 نمبر احادیث میں دوبار مذکور ہے۔ ایسے ہی فَمَنْ أَجْرَبَ الْأَوَّلَکے سوال کے ساتھ نبی کریمﷺ نے اس دعوے کو مزید مؤکد کردیا ہے جو 8 اور 9 نمبر احادیث میں ہے۔پھر آپﷺ کے فیصلہ کن الفاظ بھی ہیں : «لا يُعْدِي شيءٌ شَيئًا»...چنانچہ حافظ کہتے ہیں:
والأَولى في الجمع أنْ يُقال: إنَّ نَفْيَه ﷺ للعدوى باقٍ على عُمومه، وقد صحّ قولُهُ ﷺ : «لا يُعْدِي شيءٌ شَيئًا»، وقولُهُ ﷺ لمن عارضه بأن البعيرَ الأجربَ يكون في الإبل الصحيحة فيخالِطها فتَجْربُ، حيث رَدَّ عليه بقوله: «فَمَنْ أَعْدَى الأول؟!». يعني أن الله سبحانه وتعالى ابتدأ بذلك في الثاني كما ابتدأه في الأول. وأما الأمر بالفرار من المجذوم فمِن بابِ سدِّ الذرائع، لئلاّ يتفق للشخص الذي يخالِطه شيء من ذلك بتقدير الله تعالى ابتداءً، لا بالعدوى المنفية؛ فَيَظُنّ أنّ ذلك بسببِ مخالطته؛ فَيَعْتَقِدَ صحةَ العدْوى؛ فيقعَ في الحرجِ؛ فأَمر بتجنبه حَسْماً للمادة.
[10] ’’جمع کرتے ہوئے بہتر یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ نبی کریمﷺ نے امراض کے متعدی ہونے کا جو انکار کیا ہے، وہ اپنی جگہ ؍عموم پرقائم ہے کیونکہ آپ کا یہ صحیح فرمان ہے کہ ’’کسی کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی۔ ‘‘ اور آپﷺ نے اس شخص...جس نے آپ سے اختلاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ خارشی اونٹ، تندرست اونٹوں میں مل کر ان کو بھی بیمار کردے گا... کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ پھر پہلے کو کس نے متاثر کیا تھا؟آپ ﷺ کی مراد یہ تھی کہ (متعدی سبب کی بجائے )اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہی دوسرے میں اس بیماری کو شروع کیا ، جیسا کہ پہلے میں آغاز کیا تھا۔ البتہ کوڑھی سے دور بھاگنے کے حکم کی وجہ (حقیقی اثرات کی بجائے) اس خرابی کا راستہ بند کرنا ہے کہ دوسرا میل جول کرنے والا شخص بیماری کے آغاز میں یکجا ہونے پر ، پہلے پر اس کا الزام عائد نہ کردے اور متعدی ہونے کا اعتقاد نہ رکھ لے، حالانکہ دونوں میں اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہی مرض آیا ہے ، مرض کے متعدی ہونے کے انکار شدہ نظریے کی بنا پر نہیں ۔اس طرح لوگوں میں اُلجھنیں پیدا ہوں گی۔ تو اس پریشانی کے خاتمےکے لئے نبی کریمﷺ نے مریض سے میل ملاقات کو روک دیا۔ ‘‘ واللّٰہ اعلم
فرق یہ ہوا کہ ابن صلاح تو سبب کی بنا پر بیماری کے متعدی ہونے کو تسلیم کر رہے ہیں تاہم سبب کے بذاتہٖ مؤثر ہونے کی بجائے ، اس کی نسبت اللّٰہ تعالیٰ کے فیصلے (قضا وقدر) کی طرف کرتے ہیں، جبکہ ابن حجر تین واضح فرامین نبویہ کی بنا پر بیماری کے متعدی ہونے کے نظریے کے سرے سے ہی قائل نہیں ، اور کوڑھی سے دور بھاگنے کو محض ایک اضافی حکمت اور نبوی مصلحت قرار دے رہے ہیں تاکہ معاشرے میں اُلجھنیں نہ پھیلیں۔
پہلے اور تیسرے موقف میں فرق کا نتیجہ عملی طور پر یہ نکلتا ہے کہ بقول حافظ ابن حجر: جب اصلاً ہی کوئی مرض متعدی نہیں ہوتا تو راسخ الاعتقاد لوگوں کو مریض سے میل ملاقات کرلینے میں کوئی حرج نہیں ۔جبکہ بقول حافظ ابن صلاح : امراض میں تعدی کا امکان جب حکم الٰہی کی بنا پر موجود ہے تو متعدی امراض والوں سے دور رہنا شرعی حکم ہے، تاہم ایسے مرض کے لگنے کو مریض کی بجائے اللّٰہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جائے گا۔ تطبیق وتوجیہ میں اس فرق کا اثر شروحِ حدیث اور علما وفقہا کے اقوال میں بھی نظر آتا ہے۔ اور اگلے صفحات میں مذکور احتیاط کے نبوی احکام کو بعض علماے کرام حقیقت کی بجائے صرف اعتقادی کمزوری اور حکمت ومصلحت کا تقاضا قرار دیتے ہیں۔
d دورِ حاضر کے بعض علما نے حافظ ابن صلاح کے موقف کو زیادہ ترجیح دی ہے، چنانچہ نزهة النظرکے شارح طیبہ یونیورسٹی کےاُستاذ ڈاکٹر عبد اللّٰہ روحیلی حافظ ابن حجر کے موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
بل هذا الجمع لا يصح أن يُفسَّر به حديث رسول الله ﷺ، فضلاً أن يكون هو الأَولى. والمعنى الظاهر في حديثٍ، لا يصح أن يُتْرَك إلا لحديثٍ آخر. قوله: "من ذلك بتقدير الله ابتداءً، لا بالعدوى المنفية". هذا ليس بسديد. ويُقال فيه: ومَن قال: إنَّ تقدير الله تعالى منافٍ للعدوى أو أنّ العدوى منافية لقدَرِ الله؟ !... وقوله:"فيظن أن ذلك بسبب مخالطته". هذا هو الواقع أنه بسبب المخالطة، وهو في الوقت نفسه بقدر الله، فلماذا إقامة هذا التعارض بينهما؟ ! وبأيّ دليل؟ !
[11] ’’ ابن حجر والی تطبیق کے ساتھ حدیث رسول کی تفسیر کرنا درست ہی نہیں چہ جائیکہ اسے راجح بھی قرار دیا جائے۔ اور حدیث کے ظاہری معانی کو کسی دوسری حدیث کے بغیر ترک کرنا درست نہیں ۔ ابن حجرکا یہ قول کہ "دوسرے کی بیماری آغاز سے ہی اللّٰہ کے حکم سے لگی ہے، انکار شدہ متعدی امر کی بنا پر نہیں"درست نہیں ۔ کوئی اس پر یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ کیا اللّٰہ سبحانہ کی تقدیر مرض کے متعدی ہونے کے منافی ہوسکتی ہے، یا مرض کا متعدی ہونا اللّٰہ کی تقدیر کے منافی ہوسکتاہے؟!... نیز ابن حجر کا یہ کہنا کہ "یہ گمان کیا جائے گا کہ میل جول کی بنا پر یہ مرض لگا ہے۔" حالانکہ یہی واقعاتی بات ہے کہ میل جول سے مرض لگتا ہےاور وہ اسی وقت اللّٰہ کی تقدیر بھی ہوتا ہےتو پھر دونوں میں تعارض کیسے اور کس دلیل سے قائم کیا ہے۔ ‘‘
e حافظ ابن صلاح کی تطبیق پر دمشق یونیورسٹی کے اُستاذِ حدیث شیخ نور الدین عتر کہتے ہیں کہ
جواب ابن الصلاح أقوٰى، وهو أنسب لتفسير الأمر باجتناب المخالطة. وقيل لاعدوى خبر أريد به النهي أي لا يُعد أحد غيره.
[12] ’’ابن الصلاح کا جواب زیادہ مضبوط ہے اور مریض وتندرست کے مابین میل جول کو روکنے کی یہی زیادہ بہتر تشریح ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ فرمان نبوی: "کوئی مرض متعدی نہیں۔" دراصل خبر کی بجائے حکم ہے کہ کوئی شخص دوسرے کو بیماری نہ لگائے۔‘‘
f شیخ محمد صالح العثیمین نے بھی تطبیق دیتے ہوئے حافظ ابن صلاح کے موقف کو اختیار کیا ہے، لکھتے ہیں:
" يجب على ولي الأمر أن يعزل الجذماء عن الأصحاء، أي حجر صحي، ولا بد، ولا يعد هذا ظلماً لهم، بل هذا يعد من باب اتقاء شرهم؛ لأن النبي ﷺ قال: «فرَّ من المجذوم فرارك من الأسد»."
وظاهر هذا الحديث يعارض قوله ﷺ: «لا عدوى ولا طِيَرة». ولا شك في هٰذا؛ لأنه إذا انتفت العدوى فماذا يضرّنا إذا كان المجذوم بيننا، ولكن العلماء رحمهم الله أجابوا بأن العدوى التي نفاها الرسول ﷺ إنما هي العدوٰى التي يعتقدها أهل الجاهلية، وأنها تعدي ولا بدّ، ولهذا لما قال الأعرابي: يا رسول الله! كيف يكون لا عدوى والإبل في الرمل كأنها الظباء، ـ يعني ليس فيها أي شيء ـ يأتيها الجمل الأجرب فتجرب؟! فقال النبي ﷺ: «مَنْ أعدى الأول»؟ والجواب: أن الذي جعل فيه الجرب هو الله، إذًا فالعدوى التي انتقلت من الأجرب إلىٰ الصحيحات كان بأمر الله عزّ وجل، فالكل بأمر الله تبارك وتعالىٰ. وأما قوله ﷺ: «فر من المجذوم» فهذا أمر بالبعد عن أسباب العطب؛ لأن الشريعة الإسلامية تمنع أن يلقي الإنسان بنفسه إلى التهلكة.
[13] ’’حاکم کو چاہیے کہ کوڑھیوں کو تندرستوں سے دور رکھے، یعنی صحت کے لئے دوری۔ یہ ضروری ہے اور ظلم نہیں کہلائے گی، بلکہ اس کو ان کے شرسے بچاؤ سمجھا جائے گا، کیونکہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے: کوڑھی سے ایسے دور بھاگو جیسے شیر سے بچتے ہو۔‘‘یہ فرمانِ نبویﷺ بظاہر «لاعدوٰى ولاطِيَرة»کے مخالف ہےاور بلاشبہ ایسے ہی ہے کیونکہ جب نبی کریمﷺ نے امراض کے متعدی ہونے کی نفی کر دی تو پھر ہمیں کوڑھی کے اپنے درمیان ہونے کا کیا نقصان ہے؟ لیکن علماے کرام نے اس کا جواب دیا ہے کہ نبی کریم نے (ہر متعدی کی بجائے) یہاں اہل جاہلیہ کے عقیدۂ تعدیہ کی نفی كی ہے۔اور امراض متعدی ہوتے ہیں، اس کو مانے بنا چارہ نہیں۔ اسی بنا پر جب دیہاتی نے اعتراض کیا کہ یارسول اللہ! متعدی کیسے نہیں ہوتے حالانکہ اونٹ بالکل ٹھیک ٹھاک ہوتے ہیں اور اُنہیں ایک خارشی اونٹ آکر بیمار کردیتا ہے۔تو نبی کریم نے پوچھا تھا کہ پہلے کو کس نے بیماری لگائی؟ جس کا جواب یہ ہے کہ بیماری کو اللہ نے ان میں ڈالا۔ چنانچہ وہ متعدی بیماری جو خارشی سے صحیح اونٹوں کو لگی ، وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے لگی،سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہی ہوتا ہے۔ غرض نبی کریمﷺ کا فرمان «فرّ من المجذوم»انسانوں کو اسبابِ ہلاکت سے دور کرنے کے لئے ہے کیونکہ شریعتِ اسلامیہ انسان کو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے سے روکتی ہے۔ ‘‘
حاصل
بحث اور نتیجہ
مذکورہ بالا بحث بیماری کے ازخود متعدی ہونے یا اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے، یا سرے سے متعدی ہی نہ ہونے کے گرد گھومتی ہے۔ دورِ حاضر کی طبّی تحقیقات بھی حافظ ابن صلاح کی توجیہ کے قریب تر ہیں جس میں دونوں طرح کی احادیث کو جمع کیا گیا ہے اور نبی کریم ﷺ کے عملی اقدامات سے بھی انہی کی تائید ہوتی ہے، اگلے صفحہ پر مذکور سیدنا عمرؓ کی تطبیق اور اقدام بھی اسی کے مطابق ہے، جبکہ توکل واعتماد کی ظاہری تعریف اور بعض احادیث کے اکیلے الفاظ اس کی تائید نہیں کرتے، جب تک ان کے ساتھ دوسری احادیث کو ملایا نہ جائے۔
یہاں یہ واضح رہنا چاہیے کہ ان مختلف مواقف سے مسلمانوں کے عملی رویّہ اور نتیجہ میں بہت زیادہ فرق نہیں آتا کیونکہ عقیدۂ توکل کے ساتھ نبی کریمﷺ نے علاج بھی کیا اور دوائیں لیں، کوڑھی مریض سے عملاً فاصلہ رکھا، اور متاثرہ شہر میں آمد ورفت سے رکنے کے احکام دیے ۔ اس بنا پر مختلف توجیہات میں علمی اختلاف کی بنا پر جو شخص نبی کریمﷺ کی بیان کردہ عملی احتیاط کی مخالفت کرے، وہ بہرحال درست موقف پر نہیں کیونکہ مختلف توجیہات کے باوجود عمل اور نتیجہ بھی صحیح احادیث نبویہ سے ہی واضح ہے جو آگے آرہی ہیں۔
راجح بات یہی ہے کہ عقیدہ توکل کے مفہوم میں عملی احتیاطوں اور طبّی تدابیر کی احادیثِ نبویہﷺ بھی شامل ہیں جن کو ذیل میں ذکر کیا جارہا ہے:
دوم: وبائی علاقے میں جانے اور وہاں سے نکلنے کی ممانعت
بیماری کے سلسلے میں شریعتِ اسلامیہ ہمیں عملاً پوری احتیاط کی تلقین کرتی ہے، چنانچہ جس علاقے میں بیماری بڑے پیمانے پر پھیل جائے ، اس کی طرف سفر کرنا اور وہاں سے نکلنا دونوں ہی ناجائز ہیں۔
a سیدنا اُسامہ بن زید سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا:
«الطَّاعُونُ رِجْزٌ أَوْ عَذَابٌ أُرْسِلَ عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَوْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ. فَإِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلَا تَقْدَمُوا عَلَيْهِ. وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا، فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ».
[14] " طاعون(اللّٰہ کی بھیجی ہو ئی) آفت یا عذاب ہے جو بنی اسرا ئیل پر بھیجا گیا یا (فرما یا :)تم سے پہلے لوگوں پر بھیجا گیا۔ جب تم سنو کہ وہ کسی سر زمین میں ہے تو اس سر زمین پر نہ جاؤ اور اگر وہ ایسی سر زمین میں واقع ہو جا ئے جس میں تم لو گ (مو جو د) ہو تو تم اس سے بھا گ کر وہاں سے مت نکلو۔‘‘
b سیدنا عبد اللّٰہ بن عباس سے مروی ہے کہ
سیدنا عمرؓ بن خطاب شام کی طرف جب نکلے تو سرغ مقام پر ان کو عساکرِ اسلام کے سپہ سالار سیدنا ابو عبیدہ بن جراح اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملے اور بتایا کہ شام کے علاقے میں وبا پھوٹ پڑی ہے۔ تو سیدنا عمر نے اوّلین مہاجرین کو مشورے کے لئے بلالیا ۔بعض نے کہا کہ جس نیک کام کے لئے آپ نکل پڑے ہیں، اس سے واپس نہ ہوں، جبکہ دوسروں نے وبائی علاقے سے دور رہنے اور صحابہ کرا م کو محفوظ رکھنے کا مشورہ دیا۔ پھر آپ نے انصاریوں کو بلایا، اُنہوں نے بھی اوّلین مہاجرین جیسا ہی مشورہ دیا۔ پھر آپ نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام لانے والے قریشیوں کو طلب کیا، ان سب کا متفقہ موقف یہ تھا کہ
نرٰى أن ترجع بالناس ولا تقدّمُهم على هذا الوباء، فنادى عمر رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ في الناس: إني مصبح على ظَهر فأصبحوا عليه، فقال أبو عبيدة بن الجراح رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أفرارًا من قدر اللهِ! فقال عمر رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: لو غيرك قالها يا أبا عبيدة! وكان عمر يكره خلافه؛ نعم،
نفرّ من قدر الله
إلىٰ قدر الله؛ أرأيت لو كان لك إبل، فهبطت واديًا له عدوتان: إحداهما خصبة والأخرى جدبة. أليس إن رعيت الخصبة رعيتها بقدر الله، وإن رعيت الجدبة رعيتها بقدر الله.
[15] ’’ہمارا موقف ہے کہ آپ لوگوں کو لے کرواپس چلے جائیں اور ان کو اس وبا کے سامنے نہ کریں ۔ چنانچہ سیدنا عمر نے لوگوں میں منادی کرا دی کہ میں سواری پر واپس نکلنے والا ہوں ، سولوگ بھی آپ کے ساتھ واپس ہولیے۔ تب ابو عبیدہ بن جراح بولے: کیا آپ اللّٰہ کی تقدیر سے بھاگنا چاہتے ہیں؟ توسیدنا عمر نے جواب دیا: ابو عبیدہ!کاش کہ یہ بات تمہارے علاوہ کوئی اور کہتا۔ دراصل سیدنا عمرؓ ان کی مخالفت کو اچھا نہ سمجھتے تھے۔پھربولے: ہاں ! اللّٰہ کی ایک تقدیر سے دوسری تقدیر کی طرف جاتا ہوں۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ اگرآپ کے پاس اونٹ ہوں، اور وہ ایسی وادی میں جاپہنچیں جس کے دو جانبی راستے ہوں: ایک سرسبز اور دوسرا قحط زدہ۔ اگر آپ ان کو سرسبز وادی میں لے گئے تو آپ نے اللّٰہ کی تقدیر کے مطابق ایسے کیا اور اگر انہیں ویران وادی میں لے گئے تو یہ بھی اللّٰہ کی تقدیر کے مطابق ہوا۔ ‘‘
اسی دوران سیدنا عبد الرحمٰن بن عوف آن پہنچے جو کسی مصروفیت کی وجہ سے کہیں گئے ہوئے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ ایسے حالات میں نبی کریمﷺ کی واضح رہنمائی میرے پاس موجود ہے جو میں نے خود سنی ہے۔ پھر انہوں نے اوپر مذکور(سیدنا اُسامہ ؓبن زید والا) فرما ن نبوی ﷺسنایا۔اس کے باوجود تاریخ کے مطالعے سے علم ہوتا ہے کہ طاعونِ عمواس (18ھ)کے اس واقعے میں شام میں مصروفِ جہاد 35 ہزار مجاہدین میں سے صرف چھے ہزار زندہ بچے اور شہداے طاعون کی تعداد 25 ، 26ہزار سے کم نہ تھی۔
[16] c طاعونِ عمواس میں سیدنا ابوعبیدہؓ بن جراح ،پھر سیدنا معاذؓ بن جبل عساکر کے سپہ سالار مقرر ہوئے، اور دونوں ہی اس وبا سے شہید ہوگئے۔ دونوں کے بعد سیدنا عمرو بن العاص امیر مقرر ہوئے، تو لوگوں کو خطاب میں یہ ہدایت کی:
" أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ هَذَا الْوَجَعَ إِذَا وَقَعَ فَإِنَّمَا يَشْتَعِلُ اشْتِعَالَ النَّارِ، فَتَجَبَّلُوا مِنْهُ فِي الْجِبَالِ "... فَبَلَغَ ذَلِكَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ مِنْ رَأْيِ عَمْرٍو فَوَاللهِ مَا كَرِهَهُ.
[17] ’’اے لوگو! یہ بیماری جب سے آئی ہے، یہ جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی جارہی ہے۔ تم پہاڑوں پر چڑھ ؍ داخل ہوکر اس سے احتیاط کرو۔ جب یہ ہدایت سیدنا عمر کو پہنچی تو اُنہوں نے اس کو ناپسند نہ کیا۔ ‘‘
ان احادیث وآثار میں ایسے علاقے سے نکلنے کی ممانعت بیان ہوئی ہے جہاں بڑے پیمانے پر بیماری پھیل چکی ہو۔ ان احادیث کا تعلق احتیاط کے عملی رویے سے ہے کہ تقدیر پر انحصار کربیٹھنے کی بجائے عملی طور پر بچاؤ کی کوشش بھی کرنا چاہیے اور عملی اسباب کو اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں ہے۔اور وَبا زدہ علاقے میں موجود لوگوں کے نہ نکلنے کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ جو لوگ وبا سے متاثر ہیں وہ اس کو باہر نہ پھیلائیں اور اندر متاثرہ مریضوں کا احتیاط کے ساتھ علاج کرنا بھی ممکن ہوسکے ۔
ïدنیا میں اس وقت کورونا وائرس پھیلنے کی بڑی وجہ نبی کریم ﷺ کی اس ہدایت کو نظرانداز کرنا ہے۔ جب ہدایتِ نبوی یہ ہے کہ مرض سے متاثرہ علاقے سے کوئی شخص بھی مت نکلے تو آپ نے ہر شخص کے لئے اس کو ممنوع قرار دیا اور کسی وطن سے تعلق یا نظریہ سے وابستگی کی بنا پر لوگوں کو نکلنے سے مستثنیٰ نہیں کیا۔ جبکہ دورِ حاضر میں ہر حکومت اپنے شہریوں کو متاثرہ علاقوں سے اکٹھا کرکے اپنے ممالک میں لانے کی فکر میں ہے۔ یہ وہ حکومتی ذمہ داری ہے جسے نیشنل ازم (وطنیت) پر مبنی جدید ریاستی نظام نے اختیار کررکھا ہے۔ چنانچہ اسی بنا پر چین یا یورپ میں پھیلنے والا مرض پوری دنیا میں پھیل گیا۔ ہوائی سفر کی آسانی کی وجہ سے تاریخ میں پہلی بار کوئی وبا اتنے بڑے پیمانے پر پھیلی ہے۔ پاکستان میں بھی سوا لاکھ پاکستانیوں کو دنیا بھر سے بین الاقوامی پروازوں کے ذریعے واپس بلایا گیا ہے ۔ شرعی تعلیمات کو نظر انداز کرنے والا یہی مادی رویّہ اور مغربی نظریہ دنیا بھر میں اس وبائی مرض کو سب سے زیادہ پھیلانے کی حقیقی وجہ ہے...!!
چونکہ متاثرہ علاقوں سے زیادہ نقل وحرکت کی بنا پر وبائی امراض میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے،اس لئے دنیا بھر میں کورونا کے مرض نے سب سے زیادہ یورپ میں تباہی پھیلائی ہے، اور یورپ دنیا کے انہی ممالک پر مشتمل ہے جہاں دنیا بھر کے مسافر وں کی سب سے زیادہ آمد ورفت ہوتی ہے۔ یورپی ممالک مثلاً لندن ، پیرس اور اٹلی وغیرہ بین الاقوامی مسافروں کے مرکزی پلیٹ فارم Hubکی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی صورتحال امریکی شہر نیویارک کی بھی ہے جہاں پورے امریکہ میں سب سے زیادہ وائرس پھیلا ۔جبکہ برصغیر کے ممالک میں جہاں سیاحوں اور غیر ملکی شہریوں کی آمد ورفت کم ہے، وہاں یہ مرض بھی اتنا ہلاکت خیز ثابت نہیں ہوا۔
ï اس فرمانِ نبوی کے تناظر میں سعودی حکومت کا حرمین شریفین کو عالمی زائرین کے لئے محدود مدت تک بند کرنے کا انتظامی فیصلہ معقولیت رکھتا ہے، اور جب اُن کے لئے پابندی عائد ہوگئی تو پھر مختلف شہروں کے معتمرین کے لئے بھی آمدورفت کو محدود کرنے میں کوئی مشکل نہ رہی تاکہ عالمی سطح پر وطنی امتیاز کا کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو۔ اسی بنا پرسعودی حکومت نے اس سال حج میں بھی غیرملکی حاجیوں کو روک کر، ملک میں موجود مختلف ممالک کے شہریوں کو حج کرنے کی ہی اجازت
[18] دی ۔
سوم: مریض سے فاصلہ Distance کی تلقین
نبی مکرم ﷺ نے وبائی علاقے کی بند ش کے ساتھ ساتھ کسی علاقے میں وباسے متاثرہ شخص سے بھی دور رہنے کی تلقین فرمائی ہے، جیسا کہ آغاز میں سیدنا ابوہریرہ کی پہلی حدیث میں کوڑھی(مجذوم) شخص سے اس طرح دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے جیسا کہ انسان شیر سے صرف احتیاط ہی نہیں کرتا بلکہ بہت دور بھاگتا اور اپنا پورا بچاؤ کرتا ہے۔ اور بعض احادیث میں جو کوڑھی کے ساتھ کھانےپینے کا تذکرہ
[19]ملتا ہے ، ان کی سند قابل اعتماد نہیں۔ گویا کسی مرض کے خود متعدی ہونے کا عقیدہ رکھنا تو حرام ہے لیکن عملی رویے میں اس سے مکمل احتیاط کرنا ضروری ہے۔اور یہ گزر چکا ہے کہ عقیدہ وعمل میں اصل اعتبار اور انحصار عقیدہ پر ہوتا ہے۔
d اسی طرح جذام کے مریض کو چاہیے کہ وہ بھی تندرست لوگوں سے الگ تھلگ رہے تاکہ دوسروں کو اس سے تکلیف نہ ہو، چنانچہ قبیلہ ثقیف کے وفد میں ایک مجذوم (کوڑھی) شخص بھی تھا جو نبی کریم ﷺ سے اسلام کی بیعت کرنا چاہتا تھا۔ تو آپ نے اسے پیغام بھیجا: «إِنَّا قَدْ بَايَعْنَاكَ، فَارْجِعْ».
[20] ’’ہم نے(بالواسطہ )تمہا ری بیعت لے لی ہے، اس لیے تم (اپنے گھر ) لوٹ جاؤ۔ ‘‘
ï نبی کریمﷺ نے کوڑھی سے شیر کی طرح دور بھاگنے کا حکم دے کر، صحابہ کرام نے اس پر عمل کرتے ہوئے طاعون زدہ علاقے سے دور رہ کر، اور نبی کریمﷺ نے بیعت کے معروف طریقے کو چھوڑ کر، جب دوسروں کی بیعت پر اکتفا کیا، تو معلوم ہوا کہ احتیاط پر مبنی عملی رویہ ہی وہ نبوی توکل ہےجس کی ہمیں اتباع کرنی چاہیے۔ ایسا نہیں کہ خود ساختہ توکل کے نام پر ہم امراض کے متعدی نہ ہونے کے عقیدہ کو سامنے رکھتے ہوئے، ثابت شدہ مریض سے فاصلہ اور احتیاط کو ترک کردیں۔
e نیزمتعدی مریض كو اپنے گھر (اور اپنے علاقے )میں بیٹھ جانے پر نبی کریمﷺ نے صبر کی تلقین فرمائی، اور شہادت کے اجر کاوعدہ دیا۔ سیدہ عائشہ ؓ نے نبی کریمﷺ سے طاعون کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:
«أَنَّهُ كَانَ عَذَابًا يَبْعَثُهُ اللهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ، فَجَعَلَهُ رَحْمَةً لِلْمُؤْمِنِينَ، فَلَيْسَ مِنْ رَجُلٍ يَقَعُ الطَّاعُونُ، فَيَمْكُثُ فِي بَيْتِهِ صَابِرًا مُحْتَسِبًا يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا يُصِيبُهُ إِلَّا مَا كَتَبَ اللهُ لَهُ إِلَّا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ الشَّهِيدِ».
[21] ’’یہ اللّٰہ تعالیٰ کا عذاب ہے ، جو اللّٰہ جن پر چاہے بھیجتا ہے اور مؤمنوں کے لئے باعثِ رحمت بھی ہوتا ہے۔ (اور وہ یوں کہ ) جو شخص بھی طاعون پھیلنے کے بعد اپنے گھر میں ثواب کی نیت سے صبر کرکے بیٹھا رہے، یہ جانتے ہوئے کہ اسے وہی کچھ ہو گا جو اللّٰہ نے اس کے لیے لکھ دیا ہے، تو اس کے لیے شہید جیسا اجر ہے۔‘‘
اور صحيح بخاری کی تین احادیث میں فِي بَيْتِهِ کی بجائے فَيَمْكُثُ فِي بَلَدِهِ صَابِرًا
[22] کے الفاظ بھی ہیں۔
f وبائی امراض میں وفات پانے والا ’شہید‘ ہے۔ جیسا کہ یہ فرما نِ نبوی سیدنا ابو ہریرہؓ نے روایت کیا ہے:
«مَا تَعُدُّونَ الشَّهِيدَ فِيكُمْ؟» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، قَالَ: «إِنَّ شُهَدَاءَ أُمَّتِي إِذًا لَقَلِيلٌ»، قَالُوا: فَمَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: «مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ مَاتَ فِي سَبِيلِ اللهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ مَاتَ فِي الطَّاعُونِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ مَاتَ فِي الْبَطْنِ فَهُوَ شَهِيدٌ».
[23] ’’تم آپس میں شہید کس کو شمار کرتے ہو؟صحابہ نے عرض کی: اللّٰہ کے رسول! جو شخص اللّٰہ کی راہ میں قتل کیا جائے وہ شہید ہے۔آپ نے فرمایا: "پھر تو میری امت کے شہدا بہت کم ہوئے۔" صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللّٰہ! پھر وہ کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: "جو شخص اللّٰہ کی راہ میں مارا جائے وہ شہید ہے اور جو شخص اللّٰہ کی راہ میں (طلبِ علم، سفرِ حج، جہاد کے دوران میں اپنی موت) مر جائے وہ شہید ہے، جو شخص طاعون میں مرے وہ شہید ہے، جو شخص پیٹ کی بیماری میں (مبتلا ہو کر) مر جائے وہ شہید ہے۔‘‘
g اور سیدنا عتبہ بن عبد سلمی نبی کریم ﷺکا یہ فرمان روایت کرتے ہیں:
«يَأْتِي الشُّهَدَاءُ وَالْمُتَوَفَّوْنَ بِالطَّاعُونِ، فَيَقُولُ أَصْحَابُ الطَّاعُونِ: نَحْنُ شُهَدَاءُ، فَيُقَالُ: انْظُرُوا، فَإِنْ كَانَتْ جِرَاحُهُمْ كَجِرَاحِ الشُّهَدَاءِ تَسِيلُ دَمًا رِيحَ الْمِسْكِ، فَهُمْ شُهَدَاءُ فَيَجِدُونَهُمْ كَذَلِكَ».
[24] ’’شہدا اور طاعون سے وفات پانے والے(روزِقیامت )آئیں گے۔تو طاعون سے مرنے والے کہیں گے کہ ہم بھی شہید ہیں۔ کہا جاے گا کہ ان کو توجہ سے دیکھو ، اگر ان کے زخموں سے شہیدوں کے زخموں کی طرح مسک کی خوشبو والا خون بہہ رہا ہو تو یہ بھی شہدا ہوئے۔ چنانچہ وہ ایسا ہی خون پائیں گے۔ ‘‘
معلوم ہوا کہ طاعون جیسے وبائی امراض کورونا وغیرہ سے وفات پانے والوں کو بھی قیاساً شہید (حکمی) کہا جاسکتا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری کی مذکورہ حدیث کی شرح میں مولانا عبد الستار الحماد ﷾ لکھتے ہیں:
’’اس امت پر اللّٰہ کی بہت مہربانی ہے کیونکہ جو بیماری دوسری امتوں کے لیے بطورِ عذاب مسلط کی گئی تھی وہ اس امت کے لیے باعثِ رحمت بنا دی گئی ہے۔اس حدیث کے مطابق طاعون سے مرنا ’شہادتِ صغریٰ‘ ہے۔ ‘‘
h نبی کریمﷺ کی یہ ہدایت متعدی امراض Viral Diseasesکے علاوہ عام مریضوں حتی کہ بیمار جانوروں کے بارے میں بھی ہے ، جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ سے مروی ہے کہ
«لاَ يُورِدَنَّ مُمْرضٌ عَلَى مُصِحٍّ».
[25] ” کوئی شخص بیمار اونٹ کو صحت مند اونٹوں کے پاس نہ لے جائے۔ “
شيخ الاسلام ابن تیمیہ سے ایسے شخص کے بارے میں دریافت کیا گیا جو متعدی مریض ہونے کے باوجود صحت مند لوگوں کے درمیان رہنے پر مصر ہے۔ لوگ اس سے دور رہنا چاہتے ہیں تو وہ کیا اسے نکال سکتے ہیں؟
نَعَمْ لَهُمْ أَنْ يَمْنَعُوهُ مِنْ السَّكَنِ بَيْنَ الْأَصِحَّاءِ فَإِنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: «لَا يُورَدُ مُمَرَّضٌ عَلَى مُصِحٍّ». فَنَهَى صَاحِبَ الْإِبِلِ الْمِرَاضِ أَنْ يُورِدَهَا عَلَى صَاحِبِ الْإِبِلِ الصِّحَاحِ مَعَ قَوْلِهِ: «لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ». وَكَذَلِكَ رُوِيَ أَنَّهُ لَمَّا قَدِمَ مَجْذُومٌ لِيُبَايِعَهُ أَرْسَلَ إلَيْهِ بِالْبَيْعَةِ وَلَمْ يَأْذَنْ لَهُ فِي دُخُولِ الْمَدِينَةِ.
[26] ’’آپ نے جواب دیا: ہاں لوگوں کو اسے صحت مندوں سے نکالنا جائز ہے کیونکہ نبی کریمﷺ کا فرما ن ہے کہ بیمار شخص کو صحت مندوں کے پاس نہ لے جایا جائے۔ پھر آپ ﷺنے بیمار اونٹوں کے مالک کو صحیح اونٹوں کے پاس لے جانے سے روک دیا، اپنے اس فرمان کے باوجود کہ بیماری متعدی نہیں ہوتی اور بدشگونی نہیں ہے۔ اور آپ ﷺسے یہ بھی مروی ہے کہ جب ایک کوڑھی مدینہ میں بیعت کے لئے آنا چاہتا تھا تو نبی کریمﷺ نے بیعت ہونے کا پیغام اسے بھیج دیا اور اسے مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی۔ ‘‘
i سیدنا جابر بن عبد اللّٰہ سے نبی کریمﷺ کا یہ فرمان ہے:
«مَنْ أَكَلَ ثُومًا أَوْ بَصَلًا فَلْيَعْتَزِلْنَا، أَوْ لِيَعْتَزِلْ مَسْجِدَنَا، وَلْيَقْعُدْ فِي بَيْتِهِ».
[27] ”جو لہسن یا پیاز کھائے وہ ہم سے علیحدہ رہے۔ یا فرمایا: وہ ہماری مسجد سے الگ تھلگ رہے۔ اور اپنے گھر میں بیٹھا رہے۔“
اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لہسن اور پیاز کھانا تو جائز ہے لیکن مسلمانوں کو تکلیف پہنچانا جائز نہیں ۔ اس حدیث سے یہ مفہوم لینا تو درست نہیں کہ تھوم پیاز اور دوسری بودار چیزوں کی بنا پر انسان کو باجماعت نماز سے رخصت مل جاتی ہے،کیونکہ کسی محدث وفقیہ نے باجماعت نماز کے اعذار میں اس کو بیان نہیں کیا، البتہ اس سے یہ ضرورمراد ہے کہ مسلمان کو نماز کے اوقات میں ایسی چیزوں کو کھانے سے پرہیز کرناضروری ہے۔ جب کوئی مسلمان باجماعت نماز کے اوقات سے قبل عمداً کچا لہسن اور پیاز کھائے گا تو اس کو نماز باجماعت تو پڑھنا ہوگی، تاہم دوسروں کو اذیت دینے کی بنا پر وہ گناہ گار ہوگا۔اور عمداً اس فعل کے ارتکاب پر اسے مسجد میں آنے سے روکا بھی جاسکتا ہے۔قاضی ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
لِلْحَدِيثِ الصَّحِيحِ فِي النَّهْيِ عَنْ قُرْبَانِ آكِلِ الثُّومِ وَالْبَصَلِ الْمَسْجِدَ... وَكَذَلِكَ أَلْحَقَ بَعْضُهُمْ بِذَلِكَ مَنْ بِفِيهِ بَخَرٌ أَوْ بِهِ جُرْحٌ لَهُ رَائِحَةٌ، وَكَذَلِكَ الْقَصَّابُ، وَالسَّمَّاكُ، وَالْمَجْذُومُ وَالْأَبْرَصُ أَوْلَى بِالْإِلْحَاقِ. وَقَالَ سَحْنُونٌ لَا أَرَى الْجُمُعَةَ عَلَيْهِمَا.وَاحْتَجَّ بِالْحَدِيثِ وَأَلْحَقَ بِالْحَدِيثِ كُلُّ مَنْ آذَى النَّاسَ بِلِسَانِهِ.
[28] ’’ صحیح حدیث کی بنا پر لہسن ، پیاز کھانے والے کو مسجد کے قریب آنے سے روکا گیا ہے۔ بعض علما نے ان کے ساتھ ایسے لوگوں کو بھی شامل کیا ہے جس کے منہ سے کوئی بوآتی ہو، یا بدبودار زخم ہو۔ جیسے قصاب اور مچھلی فروش وغیرہ، اور کوڑھی اور برص کے مریض کو بھی ان سے ملانا زیادہ مناسب ہے۔ اور امام سحنون مالکی(م854ھ) کہتے ہیں کہ میں ان پر جمعہ پڑھنا لازمی نہیں سمجھتا۔ اس پر انہوں نے حدیث سے استدلال کیا ہے اور حدیث میں ہر اس شخص کو شامل کیا ہے جو اپنی زبان سے دوسروں کو نقصان پہنچاتا ہے۔‘‘
جب معمولی تکلیف دہ چیز سے دوسرے مسلمانوں کو نقصان پہنچانا حرام ہے، جیسا کہ اس پر دیگر احادیث بھی ہیں تو پھر متعدی امراض سے تو دوسرے مسلمانوں کو بچانا بالاولیٰ ضروری ہے۔
ïاس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیماری کی علامات ظاہر ہونے کے باجود اگر کوئی متاثرہ شخص ، صحت مند لوگوں میں گھستا ہے تو وہ ہدایتِ نبوی سے انحراف کرکے گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔اسے نیکی کا کوئی ایسا راستہ تلاش کرنا چاہیے جو شریعت کی تعلیمات کے خلاف نہ ہو۔ جیسا کہ امام منصور بن یونس بہوتی حنبلی(م 1051ھ) لکھتے ہیں:
"ولا يجوز للجُذَماء، مخالطة الأصحاء عمومًا، ولا مخالطة أحد معين صحيح إلا بإذنه، وعلى ولاة الأمور منعهم من مخالطة الأصحاء، بأن يسكنوا في مكان مفرد لهم ونحو ذلك، وإذا امتنع ولي الأمر من ذلك أو المجذوم: أثم، وإذا أصر على ترك الواجب مع علمه به: فسق). قاله [أي شيخ الإسلام] في الاختيارات. وقال: كما جاءت به سنة رسول الله ﷺ وخلفائه ، وكما ذكر العلماء".
[29] ’’کوڑھ کے مریضوں کے لئے صحت مند لوگوں سے ملنا جلنا عمومی طور پر جائز نہیں۔ اور کسی خاص فرد سے اس کی اجازت کے بغیر ملنا جلنا بھی جائزنہیں۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ ایسے مریضوں کو تندرست افراد کے ساتھ گھلنے ملنے سے منع کریں۔ اور ان کے لئے علیحدہ جگہ کا انتظام کریں۔ اگر حکمران ایسا نہ کرے یا خود مریض علیحدہ رہنے کی پابندی نہ کرے، تو وہ گناہ گار ہوگا۔ اور جاننے کے بعد اس واجب کو چھوڑنے پر اصرار کرے تو فسق کا مرتکب ہوگا۔ یہی بات شیخ الاسلام نے اختیارات میں کہہ کر لکھا ہے کہ یہی رسول اللہ ﷺ ، اور آپ کے خلفا کا طریقہ ہے ، جیساکہ علما نے واضح کیا ہے۔ ‘‘
مفتی کفایت اللّٰہ دہلوی حنفی لکھتے ہیں:
’’...ان صورتوں میں خود مجذوم پر لازم ہے کہ وہ مسجد میں نہ جائے اور جماعت میں شریک نہ ہو، اور اگر وہ نہ مانے تو لوگوں کو حق ہے کہ وہ اسے دخول مسجد اور شرکت جماعت سے روک دیں اور اس میں مسجد محلّہ اور مسجد غیر محلّہ کا فرق نہیں ہے، محلّہ کی مسجد سے بھی روکا جاسکتا ہے توغیر محلہ کی مسجد سے بالاولیٰ روکنا جائز ہے اور یہ روکنا بیماری کے متعدی ہونے کے اعتقاد پر مبنی نہیں ہے، بلکہ تعدیہ کی شرعاً کوئی حقیقت نہیں ہے، بلکہ نمازیوں کی ایذا یا خوفِ تلویثِ مسجد یا تنجیس وباء نفرت و فروش پر مبنی ہے۔ ‘‘
[30] j
ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی ممانعت : نبی کریمﷺ نے اسلام کو سراسر سلامتی قرار دیا، اور مشہور فرمانِ نبوی ، سیدنا عبد اللّٰہ بن عمروؓسے مروی ہے:
«المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ».
[31] ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ ‘‘
کویت کے فقہی انسائیکلوپیڈیا میں تمام فقہی مسالک کا موقف لکھا ہے:
"ذهب المالكية والشافعية والحنابلة: إلى منع مجذوم يُتأذى به، من مخالطة الأصحاء، والاجتماع بالناس، لحديث: «فر من المجذوم فرارك من الأسد».
وقال الحنابلة: لا يحل لمجذوم مخالطة صحيح إلا بإذنه. فإذا أذن الصحيح لمجذوم بمخالطته: جاز له ذلك. لحديث «لا عدوى ولا طيرة».
[32] ’’مالکیہ، شافعیہ او رحنابلہ کے مطابق کوڑھی کو ہر ایسے کام سے روکا جائے جس کے ذريعے اس کا مرض دوسروں میں پھیل جائے، مثلاً صحت مند لوگوں سے دور رہنا، لوگوں کے ساتھ اکٹھے نہ ہونا، اس فرمان نبوی کی بنا پر :«فرّ من المجذوم فرارك من الأسد» جبكہ حنابلہ کا موقف ہے کہ اگر تندرست آدمی اجازت دے دے تو پھر کوڑھی کا اس سے میل جول جائز ہے، ورنہ جائز نہیں۔ اور ان کی دلیل یہ حدیث ہے : «لا عدوى ولا طيرة».‘‘
k ایسا ہی آپ ﷺکا ایک اور فرمان بھی ہے، جیسے سیدنا عبادۃ بن صامت نے روایت کیا ہے:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَضَى أَنْ «لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ».
[33] ’’ رسول اللّٰہ ﷺ نے فیصلہ دیا: نہ (پہلے پہل) کسی کو نقصان پہنچانا اور تکلیف دینا جائز ہے، نہ بدلے کے طور پر نقصان پہنچانا اور تکلیف دینا۔‘‘
ضِرار کو اگر باب مفاعلہ سے لیں تو یہ مطلب ہوا کہ کسی فرد کو نقصان پہنچانا حرام ہے اور اجتماعی طور پر دوسروں کو نقصان پہنچانا بھی جائز نہیں۔
فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں ہے کہ
’’جذامی سے جمعہ و جماعت ساقط اور معاف ہے اس وجہ سے کہ وہ مسجد میں نہ آئے پس جذامی کو چاہیے کہ وہ جماعت میں شریک نہ ہونا چاہیے اور جو لوگ جذامی شخص سے علیحدہ رہیں اوراحتراز کریں اس پر کوئی ملامت نہیں ہے کہ جذامی سے بھاگنے اور بچنے کا حکم رسول ﷺ نے فرمایا ہے۔ ‘‘
[34] قابل توجہ اُموراور محل اختلاف کورونا کے امراض کے سلسلے میں نبی کریمﷺ کی تعلیمات بالکل واضح ہیں، اس کے باوجود پاکستان کی مساجد میں عالم اسلام کے برخلاف علماے کرام نے باجماعت نماز و تراویح اورجمعہ کا سلسلہ جاری رکھا ۔ اوربعض لوگوں کو اس بارے میں غلط فہمی لاحق ہوئی، حالانکہ اجتماعی عبادات کے بارے میں پاکستان کے علماے کرام کا یہ موقف اور اصرار اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے۔
اوپرجتنی بھی احادیثِ نبویہ ذکر کی گئی ہیں، ان میں نبی کریمﷺ نے یہ احتیاط ایسے شخص سے کی ہے یا ایسے شخص کو اس کا پابند کیا ہے، جو واقعتاً مریض ہو، یا اس میں مرض کی علامات ظاہر ہوچکی ہوں۔ چنانچہ ایسے شخص کے بارے میں تو اسلامی تعلیمات بالکل واضح ہیں، لیکن پاکستانی حکومت اور دیگر مسلم حکومتوں کا یہ مطالبہ، مریضوں سے بڑھ کرتمام انسانوں کے بارے میں ہے کہ ہر انسان سے بھی یہی احتیاط برتی جائے۔ اور اس کو ’سماجی فاصلہ‘ Social Distanceکا نام دیا گیا۔ حالانکہ کسی حدیث میں بھی تمام مسلمانوں کے بارے میں اس احتیاط کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ اس لئے ایسی احتیاط کرنا دراصل سنگین حالات وظروف اور بیماری کے بہت زیادہ پھیل جانے کے وقت ہے جس کو حقیقی صورتحال کا کامل ادراک کرتے اور دیگر شرعی احکام ومصالح کے پیش نظر رکھتے ہوئے نافذ کیا جائے گا۔جیسا کہ علماے کرام کا درج ذیل فتویٰ ہے:
سؤال: هل يُعدُّ وجود مثل هذا المرض المذكور عذرًا للتخلف عن صلاة الجمعة في حق من تجب عليه؟
وجواب ذلك يختلف بحسب الواقع والضرر المتوقع ونسبة وقوعه. وبصفة عامة فإن الحكم للغالب. والنادر لا حكم له.
[35] ’’کیا کورونا جیسے امراض کی بنا پر ان لوگوں کو نماز جمعہ چھوڑنے کی اجازت ہے، جن کے لئے نمازِ جمعہ واجب ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا جواز واقعات،نقصان کی کیفیت اور امکانی نسبت کے لحاظ سے مختلف ہے۔ عام جواب یہ ہے کہ اکثریت کا اعتبار کیا جائے، اور شاذ ونادر کا کوئی لحاظ نہیں ۔ ‘‘
دارالعلوم دیوبند کے اُستاد مفتی امانت علی قاسمی لکھتے ہیں:
’’میں غور و فکر کے بعداس سلسلے میں میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ کوئی ایک حکم نہیں لگایا جاسکتا ہے۔ بلکہ جو علاقے اس سے زیادہ متاثر ہیں وہاں کے احکام ذرا مختلف ہوں گے اور جہاں صرف احتیاط کے تحت اس طرح کی بات کی جارہی ہے وہاں کے احکام اس سے قدرے مختلف ہوں گے۔ جن علاقوں میں وائرس سے متاثر لوگ پائے جاتے ہیں، وہاں پر احتیاط کی شدید ضرورت ہوگی اور اس احتیاط کے تحت اگر مسجد میں نماز پڑھنے کے بجائے گھروں میں نماز پڑھنے کی بات کہی جائے تو اسے قبول کرنا چاہیے ۔‘‘
[36] یہی موقف قاضی محمد امین ابن عابدین شامی بھی پیش کرچکے ہیں:
’’شرعی اَحکام میں وہ خوف معتبر ہوتا ہے جو ظن غالب کا فائدہ دے، مثلاً کسی مرگی کے مریض کو تجربہ سے یہ بات معلوم ہو کہ روزہ رکھنے سے اسے مرگی کے دورے پڑتے ہیں تو اب اس کے لیے مرگی کے دورے پڑنے کے خوف سے روزہ نہ رکھنے کی رخصت ہوگی۔ عام طور پر ایسا خوف کسی علامت سے، تجربے سے، یا ماہر مسلمان دین دار طبیب کے قول سے معلوم ہوتا ہے۔ باقی جو خوف کسی علامت، تجربہ یا ماہر دین دار طبیب کے قول کے بغیر ہی دل میں پیدا ہو یا کسی غیر مسلم کے کہنے سے پیدا ہو جس کی تصدیق مسلمان دین دار ڈاکٹر نہ کریں تو اس اندیشے کا شرعاً اعتبار نہیں ہے، أَمَّا الْكَافِرُ فَلَا يُعْتَمَدُ عَلَى قَوْلِهِ لِاحْتِمَالِ أَنَّ غَرَضَهُ إفْسَادُ الْعِبَادَةِ
[37]بلکہ وہ خوف توہم پرستی اور بد شگونی کے اعتقاد میں مبتلا کردیتا ہے جس کی شریعت میں سخت ممانعت ہے۔‘‘
[38] ïجہاں تک کسی متاثرہ علاقے سے نقل وحرکت کی ممانعت کی بات ہے، تو اس میں شریعت نے سب انسانوں کے متاثر ہونے کی بجائے، اکثریتی عوا م میں مرض پھیل جانے پر انحصار کیا ہے، جیسا کہ ووہان، میلانو اور نیویارک وغیرہ جیسے شہر جہاں یہ مرض بڑے پیمانے پر پھیلا ۔ اور جہاں تک ایک علاقے میں بسنے والے افراد کی بات ہے، تو اس میں کوڑھی کے مرض اور بدبو کے امکانی نقصان کے پیش نظر نبی کریمﷺ نے صرف متاثرہ افراد کو منع فرمایا۔ اس میں زیادہ سے زیادہ احتیاط کو امکانی مریض تک وسیع کیا جاسکتا ہے جیسا کہ معمولی علامتوں جیسے کھانسی، بخار اور متاثرہ علاقوں سے سفر کرکے آنے والوں تک احتیاط کو پھیلایا جاسکتا ہے۔
مریض کی عیادت او رعلاج کے شرعی حقوق
واضح رہے کہ ہرانسان سے سماجی فاصلہ رکھنے کے وسیع تر حکومتی احکامات سے ، عام مسلمانوں سے میل جول اور ان کے حقوق کے بہت سے واضح شرعی احکام بھی متاثر ہوتے ہیں۔ جیسا کہ مسلمانوں میں مصافحہ اورمعانقہ ، عزیز واقربا سے ملاقات ، باجماعت نماز، نمازِ تراویح
[39]،نمازِ جنازہ، اور مریض شخص کی عیادت وتیمار داری اور علاج وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ مریض شخص کا تو اسی طرح پوری احتیاط کے ساتھ ، تیمار داری اور علاج کرنا چاہیے جیسا کہ ڈاکٹر حضرات ہسپتالوں میں کورونا سے متاثرہ اشخاص کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ جہاں تک اسلامی حقوق اور میل جول کے باقی شرعی احکام کا تعلق ہے تو ان کو صرف کسی موہوم امکان کی بنا پر ختم کردینے کی بجائے ، مضبوط شرعی بنیاد ہونی چاہیے۔ سیدنا ابوہریرہ نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ خَمْسٌ: رَدُّ السَّلَامِ وَعِيَادَةُ الْمَرِيضِ وَاتِّبَاعُ الْجَنَائِزِ وَإِجَابَةُ الدَّعْوَةِ وَتَشْمِيتُ الْعَاطِسِ».
[40] ’’مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں:سلام کاجواب دینا،مریض کی عیادت کرنا،جنازے میں شریک ہونا،دعوت کا قبول کرنا اور چھینکنے والے کو دعا دینا۔‘‘
مریض کی عیادت کے بے پناہ اجر کے علاوہ اس کا علاج کرنے اور اس کو دم کرنےکے بھی شرعی احکام ہیں، جس کی تفصیل حاشیہ میں درج کتابچہ
[41] میں دیکھی جاسکتی ہے۔
ïمسلم حکومت کے پاس یہ اُصولی اختیار تو موجود ہے کہ وہ علما ے حقہ کی مشاورت کے ساتھ ، ماہرین کی آرا کو پیش نظر رکھتے ہوئے، مسلمانوں کے مفاد اور تحفظ کے لئے انسدادی تدبیری احکام جاری کرے ۔اور تدبیری احکام کے لئے، شرعی احکام کے برعکس اس امر کی بھی کوئی ضرورت نہیں کہ اس کی مثال احکامِ شرعیہ یا خیر القرون کے دور سے لازماً پیش کی جائے۔بلکہ اس حکومتی تدبیر وانسداد کے لئے شریعت کے مخالف نہ ہونے اور مقاصدِ شرع سے ہم آہنگ ہونا ہی کافی ہے، جیسا کہ فی زمانہ تبلیغی جلسوں، دینی مضامین ومجلّات ، اسلامی کتب وشروح اور باقاعدہ دینی مدارس کی مثال خیر القرون میں نہیں ملتی۔تاہم جب
پاکستانی حکمران ...
· علماے کرام سے حقیقی اور اعتماد پر مبنی مشاورت نہیں کرتے، ان کی بات پر کان نہیں دھرتے۔
· مہلک مرض کے باوجود اس کے خاتمے کے روحانی اسباب یعنی اپنے شخصی وقومی اعمال پر نظرثانی، مساجد وعبادات،صدقات اور اللّٰہ تعالیٰ سے توبہ واستغفارکی طرف توجہ کرنے کی بجائے صرف مادی وجوہات پر ہی اصرار جاری رکھتے ہیں۔
· بیماری کی واقعاتی صورتحال کے تجزیے میں ڈاکٹرز کے ساتھ علما ے کرام کو بھی شریک نہیں کرتے، تاکہ انہیں حقیقی صورتحال بتانے کے ساتھ، ان سے شرعی رہنمائی بھی حاصل کی جائے۔
· مرض کے حقائق میں خود ریسرچ کرنے کی بجائے، مغربی اقوام کی تحقیقات پر اندھا دھند یقین کرتے ہیں جن کے ہاں اسلامی عقائد و عبادات یا مسلم بھائی چارے کے حقوق کی کوئی پروا نہیں۔
· اپنے عوام کے خالص مفادات کی بجائے، عالمی اداروں کے دباؤ اور ان سے سیاسی ومادی مفادات کے حصول پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔
· علاج معالجہ کو معیاری بنانے کی بجائے، صرف اعداد وشمار اور ابلاغی مہم میں عوام کو مصروف رکھتے ہیں۔
· مساجد ومدارس اور دینی احکام و شعائر پر پابندیوں اور دھمکیوں کے ساتھ امتیازی رویہ روا رکھتے اور اسی وقت میڈیا سنٹرز، کاروبار، منڈیوں اور دنیوی مفادات پر کوئی بندش عائد نہیں کرتے۔
· مختلف شہروں میں مرض کی صورتحال میں فرق کو ملحوظ نہیں رکھتے اور سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہیں۔جیساکہ اب کورونا مرض کے چند ماہ گزرنے کے بعد پاکستان اور یورپ میں مرض کے حالات اور اسباب میں واضح فرق کا پوری دنیا اعتراف کررہی ہے۔
تو ایسے حالات میں تضاد پر مبنی حکومتی رویہ اور اقدامات شکوک وشبہات کا شکار ہوجاتے ہیں، جیسا کہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالتی شخصیت، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد بھی اپنے ایوان میں اس کا کئی بار اظہار کرچکے ہیں۔ان حالات میں سماجی رہنمائی کےشرعی مرکز کی اہمیت اور ضرورت دو چند ہوجاتی ہے جہاں سے دینی ہدایات کو پیش نظر رکھتے ہوئے، مسلم عوام کی مصلحت پر مبنی جامع رہنمائی ، ہدایات اور اقدامات کئے جائیں۔ اور ایسا نہ ہوپانے کی صورت میں معاشرتی انتشار بڑھتا جاتا ہے۔
چہارم: مساجد میں میل جول کی ممانعت اور صفوں کے درمیان فاصلہ
مذكوره بالا احادیث میں متاثرہ علاقوں میں آمد ورفت کے ساتھ ساتھ مریض شخص سے میل جول کی ممانعت کی گئی ہے،اور متعدی مریضوں حتیٰ کہ جانوروں سے بھی فاصلے کی تلقین کی گئی ہے۔ احتیاطی تدابیر کی مشروعیت کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کونسی تدابیر ہیں جن کی شرعی احکام میں گنجائش ہو، جیساکہ مساجد میں اجتماعی عبادات کے بہت سے مسائل ہیں، جن میں چند احتیاطی امکانات درج ذیل ہیں:
a شرعی ضرورت کے وقت اور غیرمعمولی حالات میں نمازیں جمع کرنے کی شرع میں رخصت موجود ہے، جیسا کہ سیدنا عبد اللّٰہ بن عباس ؓسے مروی ہے کہ
جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمَدِينَةِ فِي غَيْرِ خَوْفٍ وَلَا مَطَرٍ. فِي حَدِيثِ وَكِيعٍ. قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ لِمَ فَعَلَ ذَلِكَ؟ قَالَ: كَيْ لَا يُحْرِجَ أُمَّتَهُ.
[42] ’’رسول اللّٰہ ﷺ نے ظہر،عصر اور مغرب،عشا کو مدینہ میں کسی خوف اور بارش کے بغیر جمع کیا۔وکیع کی روایت میں ہے( کہ سعید نے) کہا: میں نے ابن عباس ؓسے پوچھا:آپ ﷺ نے ایسا کیوں کیا؟ انھوں نے کہا:تاکہ اپنی اُمت کو دشواری میں مبتلا نہ کریں۔‘‘
سیدنا ابان ؓبن عثمانؓ نے بارش والی ایک رات میں مغرب اور عشاء کو جمع کرکے پڑھا ، اور کبار تابعی علما کی ایک جماعت ان کے ساتھ تھی، تو کسی نے بھی ان کی مخالفت نہ کی، چنانچہ اس مسئلہ پر اجماع ہے۔
[43] بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے لیکن شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز لکھتے ہیں کہ
الجمع رخصة عند نزول المطر أو عند المرض وفي السفر كذلك، الله جل وعلا يحب أن تؤتى رخصه، فإذا نزل بالمسلمين مطر يشق عليهم معه أداء الصلاة في وقتها، العشاء أو العصر مع الظهر فلا بأس أن يجمعوا كما يجمع في السفر، المسافر يجمع بين الظهر والعصر والمغرب والعشاء...والصواب أنه غير منسوخ لكن المحمول على أنه جمع لعذر شرعي غير الخوف وغير المطر وغير السفر كالدحض، فإن الدحض عذر شرعي أيضًا، فإذا كانت الأسواق فيها زلق وطين حول المسجد ولو لبعض الجماعة فإن هذا عذر... وإذا تركوا الجمع بين الظهر والعصر خروجًا من الخلاف وصبروا على بعض المشقة فهذا حسن إن شاء الله.
[44] ’’بارش، مرض اور سفر کے وقت نماز جمع کرنے کی رخصت ہے۔ اور اپنی دی ہوئی رعایتوں سے فائدہ اٹھانا اللّٰہ تعالیٰ کو محبوب ہے۔ سو جب مسلمانوں پر بارش آئے جس سے اپنے وقت پر نماز ادا کرنا مشکل ہوجائے تو وہ سفر کی طرح ظہر وعصر او ر مغرب وعشاء کو جمع کرسکتے ہیں۔ اور درست یہ ہے کہ حدیث منسوخ نہیں بلکہ خوف، بارش اور سفرکے علاوہ مزید کسی شرعی عذر اور ركاوٹ کی صورت میں بھی نمازوں کو جمع کیا جاسکتا ہے کیونکہ رکاوٹ بھی ایک شرعی عذر ہے۔ سو جب بازاروں میں ، مسجدوں کے گرد پھسلن اور کیچڑ ہو، چاہے بعض لوگ ہی اس سے متاثر ہوں تو یہ عذر ہے ۔ اگر بعض لوگ اختلاف سے بچتے ہوئے ظہر وعصر کو جمع نہ کریں اور مشقت پر صبر کریں تو یہ بھی اچھا ہے۔ ‘‘
b اسی طرح مرض اور خوف کی مشکل ترین حالت میں نمازِ باجماعت کو ترک بھی کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں دورانِ جہاد، صلاۃِ خوف کے سلسلے میں آتا ہے :
﴿فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا اَوْ رُكْبَانًا١ۚ﴾ (البقرۃ: 239)
’’اگر تم حالت خوف میں ہو تو خواہ پیدل ہو یا سوار (تو جیسے ممکن ہو نماز ادا کر لو)۔‘‘
شیخ عبد العزیز بن باز لکھتے ہیں:
فإنهم يصلون رجالا وركبانا ولو بالإيماء، كل يصلي لنفسه مستقبل القبلة، وغير مستقبلها عند الضرورة كما قال الله جل وعلا: ﴿فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا اَوْ رُكْبَانًا١ۚ﴾
[45] ’’دوران جہاد پیادہ یا سوار، ہرحالت میں حتی کہ اشارہ کے ساتھ بھی نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ ہر شخص اپنے تئیں قبلہ رخ ہوکر نماز پڑھ لے، اور حسب ضرورت قبلہ کے علاوہ دوسری سمت بھی نماز پڑھی جاسکتی ہے جیسا کہ اللّٰہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے۔‘‘
c اور سیدنا عبد الله بن عباس سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«مَنْ سَمِعَ الْمُنَادِيَ فَلَمْ يَمْنَعْهُ مِنِ اتِّبَاعِهِ عُذْرٌ» قَالُوا: وَمَا الْعُذْرُ؟ قَالَ: «خَوْفٌ، أَوْ مَرَضٌ». لَمْ تُقْبَلْ مِنْهُ الصَّلَاةُ الَّتِي صَلَّى.
[46] ” جس نے مؤذن کو سنا اور اس کی اتباع کرنے میں (مسجد میں آنے سے ) اسے کوئی عذر مانع نہ ہوا ۔“ ... سننے والوں نے پوچھا : عذر سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا :” کوئی خوف یا بیماری ‘‘... تو ایسے آدمی کی نماز جو وہ پڑھے گا، مقبول نہ ہو گی ۔ “
اس حدیث کی سند میں جو کلام ہے، وہ عذر کی وضاحت یعنی خوف اور مرض کی حد ہے۔ کیونکہ سنن ابن ماجہ میں سیدنا عبد اللّٰہ بن عباس کا یہی فرمان بالکل صحیح سند کے ساتھ ان الفاظ میں موجو د ہے:
«مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ فَلَمْ يَأْتِهِ، فَلَا صَلَاةَ لَهُ، إِلَّا مِنْ عُذْرٍ».
[47] ’’جو شخص اذان سن کر( نماز کے لیے مسجد میں)نہیں آتا، اس کی کوئی نماز نہیں، الّا یہ کہ کوئی عذر ہو۔‘‘
كشاف القناع میں ان اعذار کا تذکرہ کرتے ہوئے ، جن کی بنا پر جمعہ اور جماعت کو چھوڑنے کی اجازت ہے، امام منصور بن يونس ادريس بہوتی حنبلی (م 1051ھ) لکھتے ہیں:
(وَكَذَا مَنْ بِهِ بَرَصٌ جُذَامٌ يُتَأَذَّى بِهِ) قِيَاسًا عَلَى أَكْلِ الثُّومِ وَنَحْوِهِ، بِجَامِعِ الْأَذَى وَيَأْتِي فِي التَّغْرِيرِ مَنْعُ الْجَذْمَى مِنْ مُخَالَطَةِ الْأَصِحَّاءِ.
[48] ’’اسی طرح کوڑھ اور برص کی بیماری ہے جس میں لہسن وپیاز پر قیاس کیا گیا ہے جو سب اذیت کو یکجا کرنیوالے ہیں۔ اور تغریر میں بھی کوڑھی کی صحت مندلوگوں سے میل جول کی ممانعت آئی ہے۔‘‘
مذکورہ آیتِ کریمہ اور احادیث سے علم ہوا کہ کسی شرعی عذر کی بنا پر فرض نماز کو جمع کیا جاسکتا ہے اور اسے جماعت کے بغیر بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ متعدی اور وبائی امراض بھی ، مرض اور خوف کی سنگین صورت ہیں، جب وہ کسی علاقے میں فی الحقیقت پائے جائیں، نہ کہ محض میڈیا کے زور پر ان کا خوف مسلط کردیا گیا ہو۔ اس بنا پر بیماری کے حقیقی خوف سے فرض نماز مسجد میں جمع کرنے اور گھر میں بھی پڑھنے کی رخصت ہے۔
d ان احادیث میں رخصت واجازت کی بات ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ آیا یہ صرف انفرادی رخصت کا معاملہ ہے یا مسلم حکومت بھی اس بات کی مجاز ہے کہ لوگوں کو گھر میں نماز پڑھنے کی تلقین کرے۔ اس سلسلے میں نبی کریم کی وہ حدیث خاص اہمیت رکھتی ہے ، جسے حضرت نافع نے سیدنا ابن عمر سے روایت کیا ہے:
أَذَّنَ ابْنُ عُمَرَ فِي لَيْلَةٍ بَارِدَةٍ بِضَجْنَانَ، ثُمَّ قَالَ: صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ، فَأَخْبَرَنَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَأْمُرُ مُؤَذِّنًا يُؤَذِّنُ،
ثُمَّ يَقُولُ عَلَى إِثْرِهِ: «أَلاَ صَلُّوا فِي الرِّحَالِ» فِي اللَّيْلَةِ البَارِدَةِ، أَوِ المَطِيرَةِ فِي السَّفَرِ.
[49] ’’ عبداللّٰہ بن عمر ؓ نے ایک مرتبہ سخت سردی کی رات میں ضَجنان پہاڑی پر اذان دی، پھر فرمایا: اپنے اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو۔ اُنہوں نے ہمیں بتایا کہ رسول اللّٰہ ﷺ دورانِ سفر ،سخت سردی یا بارش کی رات میں اپنے مؤذن کو حکم دیتے تھے کہ وہ اذان کہنے کے بعد یوں کہہ دے: توجہ سے سنو! اپنے اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو۔‘‘
اس حدیث کی تشریح میں مولانا عبد الستار حماد ﷾ لکھتے ہیں:
’’ اس میں اختلاف ہے کہ اپنے اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھنے کا اعلان حي على الصلاة کی جگہ یا اسکے بعد یا اذان سے فراغت کے بعد کیا جائے؟ متقدمین کے ہاں اسکے متعلق تین موقف حسب ذیل ہیں :
(1) حي على الصلاة کی جگہ ان الفاظ کو کہا جائے،چنانچہ سيدنا ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ اُنھوں نے مؤذن کو کہا کہ جب تو أشهد أن محمدًا رسول الله کہے تو حي على الصلاة مت کہنا بلکہ اپنے گھروں میں نماز پڑھنے کا اعلان کرنا۔(صحیح البخاری، الجمعۃ، حدیث:901)
ایک روایت میں ہے کہ سيدنا ابن عباس ؓنے کیچڑ والے دن خطبہ دینے کا ارادہ فرمایا،مؤذن جب حي على الصلاة پر پہنچا تو اسے حکم دیا کہ وہ الصلاة في الرحال کے الفاظ کہے۔(صحیح البخاری، الاذان،حدیث:668) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ الصلاة في الرحال کے الفاظ حي علي الصلاة کی جگہ پر کہے جائیں۔امام ابن خزیمہ نے ان الفاظ کے پیش نظر اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے کہ بارش کہ دن حي على الصلاة کے الفاظ حذف کردیے جائیں۔
ان حضرات نے جب اذان کے مفہوم پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ حي علي الصلاة کہنے،پھر الصلاة في الرحال یا صلوا في بيوتكم کا اعلان کرنے میں بظاہر تضاد ہے،اس لیے حي علي الصلاة کے الفاظ حذف کر دیے جائیں۔ (فتح الباری:2؍130)
(2)حي على الصلاة کے بعد یہ اعلان کیا جائے۔اس کے متعلق ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ سخت سردی کی رات میں مؤذن نے اذان دی تو اس نے حي علي الفلاح کہنے کے بعد صلّوا في رحالكم یعنی گھروں میں نماز پڑھنےکا اعلان
[50] کیا۔(المصنف عبدالرزاق:1؍501، رقم 1925،1926)
(3) گھروں میں نماز پڑھنے کا اعلان اذان مکمل ہونے کے بعد کیا جائے جیسا کہ مذکورہ روایت میں سیدنا ابن عمر رضی اللّٰہ عنہما نے اس امر کی صراحت کی ہے تاکہ اذان کا نظم متاثر نہ ہو۔
ہمارے نزدیک راجح آخری موقف ہے کہ اذان کی تکمیل کے بعد گھروں میں نماز پڑھنے کا اعلان کیا جائے کیونکہ ان الفاظ سے اگر کوئی فائدہ اٹھا کر گھر میں نماز پڑھنا چاہے تو اس کےلیے رخصت ہے اور اگر حي على الصلاة کے پیش نظر تکلیف برداشت کرکے مسجد میں آتا ہے تو اس کے لیے یقیناً یہ
امر باعثِ اجرو ثواب ہوگا۔اس سلسلے میں سیدنا جابر ؓسے ایک روایت ہے کہ ہم ایک دفعہ رسول اللّٰہ ﷺ کے ہمراہ سفر میں نکلے تو بارش ہونے لگی،رسول اللّٰہ ﷺنے فرمایا:’’اگر کوئی خیمے میں نماز پڑھنا چاہے تو اسے اجازت ہے۔‘‘(صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث:1603...698)
ïحدیث میں سفر کا ذکر اتفاقی ہے۔ اگر ایسے حالات حضر میں پیدا ہوجائیں تو عام حالات میں بھی مذکورہ اعلان کیا جاسکتا ہے تاکہ لوگوں کو سہولت رہے اور مسجد میں آنے کی مشقت سے محفوظ رہیں۔‘‘
عذر اور اعلان کے باوجود باجماعت نماز پڑھنا ہی افضل اورکارِعزیمت ہے!
e اسی حوالے سے ایک اور اہم حدیث سیدنا عبد اللّٰہ بن عباسؓ سے مروی ہے:
خَطَبَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ فِي يَوْمٍ رَدْغٍ، فَلَمَّا بَلَغَ المُؤَذِّنُ حَيَّ عَلَى الصَّلاَةِ، فَأَمَرَهُ أَنْ يُنَادِيَ «الصَّلاَةُ فِي الرِّحَالِ»، فَنَظَرَ القَوْمُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، فَقَالَ: «فَعَلَ هَذَا مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ، وَإِنَّهَا عَزْمَةٌ».
[51] ’’سیدناابن عباس ؓ نے بارش کے دن خطبہ دینے کا ارادہ کیا۔ جب مؤذن حي على الصلاة تک پہنچا تو اُنہوں نے اسے حکم دیا کہ اعلان کرو: "ہر شخص اپنے گھر میں نماز پڑھ لے۔" (یہ سن کر) لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے تو حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: یہ کام اس شخصﷺ نے کیا ہے جو ہم سے بہتر تھا۔ اور یہ (باجماعت نمازِ جمعہ) حتمی اور واجب ہے۔‘‘
مذکورہ تفصیلات سے علم ہوا کہ بوقتِ ضرورت امام باجماعت نماز کو گھروں میں پڑھنے کی اجازت بھی دے سکتا ہے، اور راجح یہی ہے کہ یہ اجازت پر مبنی جملہ اذان کے آخر میں کہا جائے تاکہ اذان کا نظم متاثر نہ ہو۔
اب سیدنا عبد اللّٰہ بن عباس تو حیعلتین کی جگہ «الصَّلاَةُ فِي الرِّحَالِ» یا اس سے ملتے جلتے الفاظ کہنے کے قائل ہیں۔ لیکن نماز کی دعوت نہ دینے کے باوجود بھی وہ باجماعت نماز کی فضیلت کے ہی قائل ہیں۔ جیساکہ سیدنا عبد اللّٰہ بن عباس کی سابقہ حدیث کے الفاظ ہیں: "وَإِنَّهَا عَزْمَةٌ."
یعنی ’’باجماعت نماز جمعہ میں شریک ہونا واجب اور حتمی ہے۔ ‘‘
اور ہمارے راجح قول کے مطابق مسجد میں آنے کا اذان میں اعلان ہونا چاہیے اور دوسری طرف گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت بھی ہے اور یہ دونوں میں تضاد ہے ۔ چنانچہ دونوں میں امکانی تطبیق یہ ہے کہ گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت اور مسجد میں باجماعت پڑھنے کی فضیلت ہے۔ جیسا کہ
a. صحیح مسلم میں سیدنا جابر ؓکی روایت میں یہ اجازت مروی ہے کہ
خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ فِي سَفَرٍ فَمُطِرْنَا، فَقَالَ: «لِيُصَلِّ مَنْ شَاءَ مِنْكُمْ فِي رَحْلِهِ».
[52] ’’ایک سفر میں ہم رسول اللّٰہ ﷺ کے ہمراہ نکلے تو بارش ہوگئی،آپ ﷺ نے فرمایا:’’تم میں سے جو چاہے، اپنی قیام گاہ میں نماز پڑھ لے۔‘‘
b. امام عبد الرزاق صنعانی (م211ھ)صلّوا في رحالكم والی احادیث پر باب کا عنوان یوں قائم کرتے ہیں:
بَابُ الرُّخْصَةِ لِمَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ.
[53] ’’اذان سننے والے کے لئے رخصت ؍ اجازت کا باب‘‘
c. اور حافظ ابن حجر اس کی یوں وضاحت کرتے ہیں:
" وَيُمْكِنُ الْجَمْعُ بَيْنَهُمَا ... مَا ذُكِرَ بِأَنْ يَكُونَ مَعْنَى الصَّلَاةِ فِي الرِّحَالِ رُخْصَةٌ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يَتَرَخَّصَ وَمَعْنَى هَلُمُّوا إِلَى الصَّلَاةِ نَدْبٌ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يَسْتَكْمِلَ الْفَضِيلَة وَلَوْ تَحَمَّلَ الْمَشَقَّةَ."
[54] ’’اور دونوں جملوں میں تطبیق ممکن ہے کہ «الصَّلاَةُ فِي الرِّحَالِ»کو رخصت پر عمل کرنے والے کے لئے اجازت سے تعبیر کرلیا جائے، اور نماز کی طرف آنے کی دعوت کو اس نمازی کے مستحب عمل پر محمول کیا جائے جو مشقت کے باوجود
فضیلت کی تکمیل چاہتا ہو۔ ‘‘
d. امام یحییٰ بن شرف نووی لکھتے ہیں:
هَذَا الْحَدِيثُ دَلِيلٌ عَلَى تَخْفِيفِ أَمْرِ الْجَمَاعَةِ فِي الْمَطَرِ وَنَحْوِهِ مِنَ الْأَعْذَارِ وَأَنَّهَا مُتَأَكِّدَةٌ إِذَا لَمْ يَكُنْ عُذْرٌ وَأَنَّهَا مَشْرُوعَةٌ لِمَنْ تَكَلَّفَ الْإِتْيَانَ إِلَيْهَا وَتَحَمَّلَ الْمَشَقَّةَ لِقَوْلِهِ فِي الرِّوَايَةِ الثَّانِيَةِ لِيُصَلِّ مَنْ شَاءَ فِي رَحْلِهِ وَأَنَّهَا مَشْرُوعَةٌ فِي السَّفَرِ وَأَنَّ الْأَذَانَ مشروع في السفر.
قوله: "إِنَّ الْجُمُعَةَ عَزْمَةٌ" بِإِسْكَانِ الزَّايِ أَيْ وَاجِبَةٌ مُتَحَتِّمَةٌ فَلَوْ قَالَ الْمُؤَذِّنُ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ لَكُلِّفْتُمُ الْمَجِيءَ إِلَيْهَا وَلَحِقَتْكُمُ الْمَشَقَّةُ قَوْلُهُ: "كَرِهْتُ أَنْ أَحْرِجَكُمْ" هُوَ بِالْحَاءِ الْمُهْمَلَةِ مِنَ الْحَرَجِ وَهُوَ الْمَشَقَّةُ... وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ دَلِيلٌ عَلَى سُقُوطِ الْجُمُعَةِ بِعُذْرِ الْمَطَرِ وَنَحْوِهِ وَهُوَ مَذْهَبُنَا وَمَذْهَبُ آخَرِينَ وَعَنْ مَالِكٍ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى خِلَافُهُ وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.
[55] ’’یہ حدیث ابن عباس بارش اور اس سے ملتے جلتے عذروں کی صورت میں باجماعت نماز کے حکم میں گنجائش کی دلیل ہے۔ اور باجماعت نماز ہی کی تاکید ہے جب کوئی شرعی عذر نہ ہو۔ ہر ایساشخص جو باجماعت نماز کے حکم کا پابند ہے اور مشقت برداشت کرسکتا ہے ، تو اس کے لئے باجماعت نماز پڑھنا ہی مشروع؍ مستحب ہے۔جیساکہ دوسری حدیث میں فرمان نبوی ہے جو چاہے اپنی قیام گاہ پر ہی اسے پڑھ لے، اور باجماعت نماز اور اذان سفر میں بھی مشروع ہیں۔
سیدنا عبد اللّٰہ بن عباس کا یہ کہنا کہ جمعہ عَزْمَةٌ ہے( زکی جزم کے ساتھ)۔اس کا مطلب واجب اور حتمی ہے۔ سو جب مؤذن نے حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ کہہ دیا تو تمہیں نماز کے لئے آنے کا پابند کردیا گیا اور تم پر کوشش لازمی ہوگئی۔ پھر ان کا یہ کہنا کہ تمہیں مشکل میں ڈالنا مجھے اچھا نہ لگا تو یہ لفظ حَرج سے ہے جس کا مطلب مشقت ہے۔...’’ایسے شدید اَعذار کی صورت میں جمعہ کا وجوب ساقط ہوجائے گا، جیساکہ شافعیہ وغیرہ کی رائے ہے اورامام مالک سے اس کے برعکس منقول ہے۔واللّٰہ اعلم‘‘
یعنی ’’اگر کوئی شخص ایسی حالت میں جمعے میں نہ آئے تو وہ ان وعیدوں کا مستحق نہیں ہوگا جو جمعہ ترک کرنے کے حوالے سے وارد ہوئی ہیں، اسی طرح جماعات کا بھی حکم ہوگا، نہ یہ کہ مساجد سے جماعت اور جمعے کا اہتمام ہی موقوف کردیا جائے گا۔‘‘
[56] e. اور شیخ محمد بن صالح عثیمین یوں اس مسئلہ کی وضاحت کرتے ہیں:
"ولكن هل نقول: حي على الفلاح؟ ... نعم، ربما نقول: حي على الفلاح؛ لأن الإنسان مفلح، ولو صلى في بيته... "
[57] ’’آپ کہتے ہیں کہ کیا ہم حي على الفلاح بھی کہہ سکتے ہیں ؟ جی بالکل کیوں کہ انسان گھر میں بھی اگر نماز پڑھ رہا ہو تو وہ فلاح یافتہ ہی ہوتا ہے۔ ‘‘
f. اوپر شارح بخاری مولانا عبد الستا ر الحماد﷾ کا موقف بھی گزر چکا ہے کہ بارش کے دوران گھر میں نماز پڑھنے كی اجازت ہے، اور
فضیلت والا عمل وہی ہے کہ باجماعت نماز پڑھی جائے۔
g. باجماعت نماز کی فضیلت کا موقف سنن نسائی کے شارح شیخ الحدیث مولانا محمد امین نے بھی اختیار کیا ہے:
’’ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حي على الصلاة اور حي على الفلاح ایک ایک دفعہ کہا جائے گا، لیکن یہ اختصار ہے۔ عام اذان کی طرح بارش والی اذان میں بھی یہ کلمات دو دو دفعہ ہی کہے جائیں گے بلکہ صلّوا في بیوتکم یا ألا صلّوا في رحالکمبھی دو دفعہ کہا جائے گا۔
صلوا في رحالکم سے ملتا جلتا کوئی اور لفظ بھی کہا جا سکتا ہے، مثلاً: صلوا في بیوتکم یا ألاصلوا في الرحال وغیرہ۔ یہ الفاظ حي على الصلاة کے منافی نہیں کیونکہ حي على الصلاة کا مقصود ہے :’’نماز پڑھو‘‘ اور اگر اس سے مراد یہ ہو کہ نماز کے لیے مسجد میں آؤ تو یہ خطاب بارش کی صورت میں حاضرین سے ہوگا اور غائبین سے خطاب ألا صلّوا في الرحال ہوگا۔
یہ الفاظ اس روایت کے مطابق تو حي على الفلاح کے بعد کہے جائیں گے اور یہی انسب ہے تاکہ لوگوں کو رخصت کا علم ساتھ ہو جائے۔‘‘
[58] اس تشریح میں شارح نے دونوں الفاظِ اذان میں تطبیق دیتے اور دونوں کے مفہوم کو واضح کرتے ہوئے اپنے موقف میں حيعلتين کے بعد صلّوا في بیوتکم کہنے کو راجح قرار دیا ہے۔ اور مسجد میں نما زپڑھنے کے جواز کی بات کی ہے۔
h. سنن ابو داود میں بھی اوپر مذکور صحیح مسلم والا واقعہ مروی ہے، شارح مولانا عمرفاروق سعیدی لکھتے ہیں:
’’ایسے مواقع پر جماعت کی ر خصت ہے۔یعنی آدمی اکیلے جماعت کے بغیر یا اپنے گھروں میں بھی نماز پڑھ سکتا ہے۔مگرحاضر ہونے میں
یقینا ً فضیلت ہے۔‘‘
[59] ماضی میں وباؤں کے دوران نیک لوگوں کا معمول یہ رہا کہ مسجدوں کوبند کرنے کی بجائے، ان کی مسجدوں میں عبادت میں اضافہ ہوگیا، جیساکہ قاضی عبد الرحمٰن دمشقی قرشی (م 872ھ) 864ھ میں پھوٹنے والی طاعون کی وبا کے بارے میں لکھتے ہیں:
"وكان هذا كالطاعون الأول عمّ البلاد وأفنى العباد، وكان الناس به على خیر عظیم: من إحیاء اللیل، وصوم النهار، والصدقة، والتوبة.... فهجرنا البیوت؛ ولزمنا المساجد، رجالنا وأطفالنا ونساءنا؛ فكان الناس به على خیر."
[60] ’’جب طاعون پھیل گیا اور لوگوں کو ختم کرنے لگا، تو لوگوں نے تہجد، روزے، صدقہ اور توبہ واستغفار کی کثرت شروع کردی اور ہم مردوں، بچوں، اور عورتوں نے گھروں کوچھوڑدیا ہے اور مسجدوں کو لازم پکڑ لیا، تو اس سے ہمیں بہت فائدہ ہوا۔‘‘
علماے کرام کے مذکورہ اقوال اور عادات سے علم ہوتا ہے کہ ان احادیث سے مساجد کی کلی بندش، باجماعت نماز کو بند کردینے، یا موقوف کردینے کا استدلال درست نہیں، بلکہ یہ صرف رخصت کی قبیل سے ہے اور مساجد میں باجماعت نماز بہرطور جاری رکھی جائے گی۔ مساجد کا عملہ ایک گھرکے افراد کی طرح قرنطینہ میں رہتے ہوئے کم ازکم چند نمازیوں کے ساتھ مسجد میں اذان اور باجماعت نماز وجمعہ کو جاری رکھ سکتا ہے۔
f کسی علاقے میں اگر بڑے پیمانے پر حقیقی مرض پھیل جائے تو باجماعت نماز سے رخصت کے اس ماثور موقف کو اگر معاشرے میں عام کردیا جائے تو اس سے ازخود اکثر طبی وشرعی مقاصد حاصل ہوجاتے ہیں ، مساجد کو بند نہ کیا جائے، مساجد میں احتیاط کے ساتھ باجماعت نماز وخطبہ جاری رہے اور مساجد میں عام مسلمانوں کا آنا افضل سمجھا جائے ۔ جبکہ حتمی مریضوں کو بھی بتا دیا جائے کہ شرعی وطبی پر طور ان کا مسجد میں آنا کوئی کارِ ثواب نہیں بلکہ بعض اوقات باعثِ گناہ بھی ہوسکتا ہے۔
ï جب تک حالات سنگین نہ ہوں اور مرض بڑے پیمانے پر نہ پھیلا ہو تو کارِعزیمت اور افضل یہ ہے کہ نماز کو مسجد میں ہی پڑھا جائے جیسا کہ پیچھے علماے کرام کے سات اقوال ذکر کئے گئے ہیں کہ اُنہوں نے ایسے ہی حالات میں باجماعت نماز کے افضل ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ تاہم جب مرض بڑے پیمانے پر پھیل جائے تو بعض اوقات رخصتوں پر عمل کرنا بھی باعثِ فضیلت ہوسکتا ہے، جیساکہ نبی کریم ﷺ نے ایسے حالات میں فرمایا:
«أنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فِي سَفَرٍ فَرَأَى زِحَامًا وَرَجُلًا قَدْ ظُلِّلَ عَلَيْهِ فَقَالَ مَا هَذَا فَقَالُوا صَائِمٌ فَقَالَ لَيْسَ مِنْ الْبِرِّ الصَّوْمُ فِي السَّفَرِ».
[61] ’’رسول اللّٰہ ﷺ نے دورانِ سفر ایک ہجوم دیکھا۔ اس میں ایک آدمی نظر آیا جس پر سایہ کیا گیاتھا۔ آپ نے فرمایا: " یہ کیا ہے؟"لوگوں نے عرض کیا: یہ شخص روزے دار ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "(ایسے حالات میں) دوران سفر میں روزہ ر کھنا کوئی نیکی نہیں۔ "‘‘
ایسے ہی صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ رمضان المبارک میں فتح مکہ کے لیے مدینہ طیبہ سے روانہ ہوئے۔ آپ روزے کی حالت میں تھے۔ جب مقام کراع الغمیم پہنچے تو آپ سے کہا گیا کہ لوگوں پر روزہ بہت مشکل ہو رہا ہے اور وہ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ رسول اللّٰہ ﷺنے عصر کے بعد پانی کا ایک پیالہ منگوایا اور اسے لوگوں کے سامنے کر کے نوش کر لیا۔ اس کے بعد آپ کو بتایا گیا کہ کچھ لوگوں نے روزہ افطار نہیں کیا۔ آپ نے فرمایا: "یہی نافرمان ہیں، یہی نافرمان ہیں۔"
[62] علم ہوا کہ افضل ہونے کا تعلق آسانی اور سہولت کے ساتھ بھی ہے اور جب کوئی کام شدید مشقت کا باعث بن جائے تو اس وقت اللّٰہ کی دی رخصتوں پر عمل کرنا ہی افضل ہوتا ہے۔ چنانچہ مذکورہ حدیث پر امام بخاری کا عنوان بھی اسی کی نشاندہی کرتا ہے:
بَاب قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺلِمَنْ ظُلِّلَ عَلَيْهِ وَاشْتَدَّ الْحَرُّ لَيْسَ مِنْ الْبِرِّ الصَّوْمُ فِي السَّفَرِ
g اگر متعدی مرض حقیقتاً پھیل جائے تو مسلمانوں کے لئے مساجد میں آکر باجماعت نماز پڑھنے کی رخصت موجود ہے ۔ تاہم ایسی صورتحال میں گھروں میں باجماعت نمازکو فروغ دینا چاہیے۔ جیساکہ بہت سے دین دار مسلمانوں نے ایسے حکومتی احکامات کے دوران اپنے گھروں کو مساجد بنادیا۔ جس میں خواتین اور بچوں کو بھی باجماعت نماز میں شریک کیا جاتا رہا۔
ïکویت میں بہت پہلے ، مارچ 2020ء کے پہلے ہفتہ میں جب مساجد میں ألا صلّوا في الرحال کا اعلان شروع کرکے مساجد کو عوام کے لئے بند کردیا گیا ، تو بعض لحاظ سے اس حکومتی اقدام کو درست نہیں کہا جاسکتا۔
یہاں پہلی غلطی حدیثِ نبوی سے استدلال کی تھی کہ احادیث میں ایسی صورت میں مساجد کو عوام کے لئے کلیۃً بند نہیں کیا جاسکتا بلکہ مساجد کھلی رہتی ہیں ، وہاں باجماعت نماز جاری رہتی ہے جبکہ مرض کا حقیقی خوف پائے جانے کی صورت میں مسلمانوں کے لئے گھر میں نماز پڑھنے کی محض اجازت ہوتی ہے، جیساکہ اوپر علماے کرام کے اقوال ذکر کئے گئے۔ دوسری غلطی یہ تھی کہ مرض کے حقیقی فروغ کی بجائے، میڈیا پر اس کے اعلانات کو ہی وسیع پیمانے پر پھیل جانے والے مرض کے مساوی سمجھ لیا گیا۔ جب کہ آٹھ ماہ گزرنے کے باوجود کویت میں متاثرہ لوگوں کی تعداداگست 2020ء تک 500 ؍اموات تک نہیں پہنچی۔
کورونا بھی عام امراض کی طرح ایک متعدی مرض ہے، اس کی پریشان کن بات دراصل اس کی وسیع پیمانے پر پھیلنے کی صلاحیت ہے۔جبکہ کورونا مریضوں کی حقیقت اور سنگینی کا اصل علم ، فوت شدگان کی تعداد سے ہوتا ہے۔ جیساکہ پاکستان جیسے علاقوں میں اس کی شرح اموات ایک فیصد سے کچھ زیادہ ہے، جن میں سے اکثر مریض دیگرامراض کا شکار ہونے کی بنا پر کورونا وائرس کا مقابلہ نہیں کرپائے۔ ان حالات میں کویت میں قبل از وقت مساجد کو بند کردیا جانا، دراصل مذکورہ احادیثِ نبویہ کا ضرورت سے متجاوز استعمال قرار دیا جاسکتا ہے۔ صفحہ 24 پر فتویٰ میں بھی یہی بیان ہوا کہ مختلف علاقوں میں مریضوں کے لحاظ سے اس کا فیصلہ کیا جائے گا، اور شرعی حکم اغلبیّت پر محمول ہوگا۔
مساجد میں فاصلے کے ساتھ نماز پڑھنا بہتر ہےیا باجماعت نمازکو ترک کرنا؟
رمضان المبارک میں بعض علماے کرام نے جب یہ دیکھا کہ مساجد میں صفوں کو ملانے کی اجازت نہیں تو اُنہوں نے ایسے حالات میں خلافِ سنت نماز کو چھوڑ کر گھروں میں انفرادی نماز پڑھنے کا فتویٰ دے دیا۔ حالانکہ حکومت نے مساجد کو اگر اس شرط پر کھولنے کی اجازت دی ہو کہ نمازی مناسب فاصلہ کی پابندی کریں گے تو صفیں قریب قریب کرنے کے حکم کو مجبوراً گوارا کیا جاسکتا ہے۔
شیخ ابن تیمیہ سے جب یہی سوال کیا گیا کہ مساجد میں باجماعت نماز اور باجماعت نماز میں صفوں کو ملانے میں رکاوٹ پیدا ہوجائے تو کس عمل کو ترجیح دی جائے تو آپ نے باجماعت نماز کی اہمیت کو صف بندی اور مل کر نماز پڑھنے سے اہم تر قرار دیتے ہوئے فرمایا:
يَدُلُّ انْفِرَادُ الْإِمَامِ وَالْمَرْأَةِ عَلَى جَوَازِ انْفِرَادِ الرَّجُلِ الْمَأْمُومِ لِحَاجَةِ وَهُوَ مَا إذَا لَمْ يَحْصُلْ لَهُ مَكَانٌ يُصَلِّي فِيهِ إلَّا مُنْفَرِدًا فَهَذَا قِيَاسُ قَوْلِ أَحْمَد وَغَيْرِهِ وَلِأَنَّ وَاجِبَاتِ الصَّلَاةِ وَغَيْرِهَا تَسْقُطُ بِالْأَعْذَارِ فَلَيْسَ الِاصْطِفَافُ إلَّا بَعْضَ وَاجِبَاتِهَا فَسَقَطَ بِالْعَجْزِ فِي الْجَمَاعَةِ كَمَا يَسْقُطُ غَيْرُهُ فِيهَا وَفِي مَتْنِ الصَّلَاةِ. وَلِهَذَا كَانَ تَحْصِيلُ الْجَمَاعَةِ فِي صَلَاةِ الْخَوْفِ وَالْمَرَضِ وَنَحْوِهِمَا مَعَ اسْتِدْبَارِ الْقِبْلَةِ وَالْعَمَلِ الْكَثِيرِ وَمُفَارَقَةِ الْإِمَامِ وَمَعَ تَرْكِ الْمَرِيضِ الْقِيَامَ: أَوْلَى مِنْ أَنْ يُصَلُّوا وُحْدَانًا.
[63] ’’امام اور عورت كا اکیلے نماز پڑھنا بھی بوقتِ ضرورت مقتدی کے منفرد (بلاصف) نماز پڑھنے پر دلالت کرتا ہےخصوصاً اس وقت جب اس کے لئے بلاصف نماز پڑھنے کے سوا کوئی جگہ نہ بچے۔ یہ امام احمد وغیرہ کے قول پر قیاس ہے۔ کیونکہ نماز کے واجبات بعض عذروں کی بنا پر ساقط بھی ہوجاتے ہیں۔اور صف بندی بھی نماز کے واجبات میں سے ہی ہے۔ جس طرح دیگر واجبات ساقط ہوتے ہیں ، ویسے ہی عاجزی او رعدم استطاعت کی صورت میں یہ واجب بھی ساقط ہوجاتا ہے۔ اسی بناپر نمازِ خوف اور مرض وغیرہ میں قبلہ رخ نہ ہونا، عمل کثیر کرنا، امام سے جدا ہوجانا، مریض کا قیام کو ترک کردینا،اکیلے نماز پڑھنے سے کہیں بہتر ہے۔‘‘
ï آپ کہتے ہیں کہ جب دو واجبات میں تعارض ہوجائے ، اور دونوں کو جمع کرنا ممکن نہ رہے تو ان سے میں سے راجح واجب پر عمل کیا جائے گا ۔ جس کی دلیل قرآن مجید میں یہ ہے کہ
الَّتِي دَلَّ عَلَيْهَا قَوْلُهُ تَعَالَى: ﴿فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ وَقَوْلُهُ ﷺ: «إذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرِ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ». وَأَنَّهُ إذَا تَعَذَّرَ جَمْعُ الْوَاجِبَيْنِ قُدِّمَ أَرْجَحُهُمَا وَسَقَطَ الْآخَرُ بِالْوَجْهِ الشَّرْعِيِّ.
[64] "اللّٰہ سے اتنا ڈرو، جتنا استطاعت میں ہو ۔"اورفرمان نبوی: "جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو حتی المقدور اس کو بجا لاؤ۔" سو جب دو واجب اُمور کو بیک وقت پورا کرنا مشکل ہوجائے تو راجح واجب پر عمل کیا جائے گا اور دوسرا حکم شرعی وجہ کی بنا پر ساقط ہوجائے گا۔‘‘
پھر امام ابن تیمیہ نے مثالیں دیتے ہوئے فيمن لم يجد مكانًا إلا أمام الإمام فيصلي أمامه لتحصيل الجماعة لکھ کربتایا ہے کہ جس نمازی کو پچھلی صف میں جگہ نہ ملے تو اسے امام کے سامنے (بلاصف) باجماعت نماز کے ثواب کے لئے کھڑے ہوجانا چاہیے۔ مزید آپ نماز خوف میں باجماعت نماز کو باقی رکھنے کے حکم سے بھی استدلال کرتے ہیں جس میں قبلہ رخ ہونا، صف بندی، نماز میں بہت زیادہ اعمال، اور صف بندی کی رعایت نہیں رہتی۔
[65] ïحنفیہ صفوں کو ملانا سنت تو قرار دیتے ہیں لیکن وہ اس کے بغیر باجماعت ہوجانے کے قائل ہیں چنانچہ
دارالعلوم دیوبند کے مفتی عزیز الرحمن اپنا فتویٰ لکھتے ہیں:
’’ایک یا دو صف چھوڑ کر کچھ لوگ پیچھے کھڑے ہوگئے تو ان کی نماز ہوگی یا نہیں ؟
جواب: نماز تو ہوگئی مگریہ خلافِ سنت ہے، صفوف کو متصل کرنا چاہیے اور فرجہ درمیان میں نہ چھوڑنا چاہیے۔‘‘
[66] اور دار العلوم دیوبند کے اُستاد امانت علی لکھتے ہیں:
’’نماز میں صفوں کو درست کرنے کی بڑی تاکید آئی ہے اور صفوں کی درستی میں مل مل کر کھڑا ہوناہے اور نماز کا متوارث طریقہ یہی ہے کہ لوگ مل مل کر کھڑے ہوں ۔اس لیے اگر اتنا فاصلہ ہو کہ لوگوں کا ایک نماز میں ہونا معلوم نہ ہو تا ہو تونماز کے متوارث طریقہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے نماز درست نہیں ہوگی۔ہاں اگر ایک دو بالشت کا فاصلہ ہو، جس میں بظاہر لوگوں کا ایک ہی نماز میں ہونا معلوم ہو تو موجودہ حالات میں اس کی گنجائش ہے۔اسی طرح اگر کچھ لوگ تو صف میں متصل کھڑے ہوں لیکن ایک دو آدمی مسجد میں ہی ایک میٹر کے فاصلے سے کھڑے ہوں تو اگر چہ ایسا کرنا بھی درست نہیں ہے، تاہم [موجودہ حالات میں ]اس کی نماز ہوجائے گی ۔‘‘
[67] پنجم: باجماعت نمازوں کو موقوف کرکے ، مساجد کی کلی بندش درست نہیں!
مساجد پر انتظامی بندش لگانے اور یہاں باجماعت نماز کی کلی ممانعت کی شرعِ اسلامی سے کوئی دلیل نہیں ملتی۔ اور یہ اس آیت میں مذکور مذمت کے سیاق میں داخل ہے :
﴿وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ اَنْ يُّذْكَرَ فِيْهَا اسْمُهٗ وَ سَعٰى فِيْ خَرَابِهَا١ؕ ﴾ (البقرۃ: 114)
’’اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوسکتا ہے جو اللّٰہ کی مسجدوں میں اس کا نام ذکر کرنے سے روکے اور اس کی ويرانی کے درپے ہو؟‘‘
امام قرطبی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
وعلى الجملة فتعطیل المساجد عن الصلاة وإظهار شعائرالإسلام فیها خراب لها.
[68] ’’مجموعی طور پر مساجد میں نمازوں اور شعائرِ اسلامیہ کو معطل کردینا ہی ، ان کو ویران کرنا ہے۔‘‘
اما م شوکانی اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں:
"والمراد بالسعي في خرابها: ...تعطیلها عن الطاعات التي وضعت لها، فیكون أعمّ من قوله: أن یذكر فیها اسمه فیشمل جمیع ما یمنع من الأمور التي بنیت لها المساجد، كتعلم العلم وتعلیمه، والقعود للاعتكاف، وانتظار الصلاة ویجوز أن یراد ما هو أعم من الأمرین.
[69] ’’ویرانی کے درپے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جن مقاصد کے لئے مساجد بنائی گئی ہیں، ان کاموں کو وہاں معطل کردیا جائے ۔ یہ صورت اللّٰہ کا نام لینے سے بھی عام تر اور ان تمام امور کو شامل ہے جن کے لئے مساجد بنائی جاتی ہیں، جیسے علم سیکھنا سکھانا، اعتکاف کے لئے بیٹھنا، نماز کا انتظارکرنا ، اور ان دونوں اُمور سے مزید عام صورتیں بھی اس سے مراد لی جاسکتی ہیں۔ ‘‘
ایک طرف یہ تاریخی حقیقت ہے کہ خیرالقرون میں کبھی مساجد کو سنگین ترین متعدی امراض میں بھی بند نہیں کیا گیا، اور مساجد میں کلی طورپر باجماعت نماز کبھی موقوف نہیں کی گئی۔ تاہم بعدکے سالوں میں بعض اوقات قحط یا وبا كی شدت میں اتنا اضافہ ہوا کہ مساجد میں نماز ہونا ممکن نہ رہا، جیسا کہ
a امام شمس الدين ذہبی (748ھ)نے عباسی خلیفہ قائم بامر اللّٰہ ابوجعفر عبد اللّٰہ بن قادر باللّٰہ کے حالات میں لکھا ہے کہ ان کے دور (422ھ تا 467ھ)میں مصر اور اندلس میں اتنا بڑا قحط پڑا کہ اس سے پہلے کبھی ایسی وبا اور اور قحط نہیں پھیلی تھی حتى بقيت المساجد مغلقة بلا مُصَلِّ یہاں تک اس زمانہ میں مسجدیں نمازیوں سے محروم ہوکر بند ہوگئیں اور اس سال کا نام عام جوع الکبیر رکھا گیا۔
[70] b 448ھ کے حالات میں آپ لکھتے ہیں کہ اندلس وبا کا مرکز تھا، ومات الخلق بإشبيلية بحيث إن المساجد بقيت مُغلقة ما لها من يصلي بها.
[71] اشبیلیہ میں بڑی خلق خدا فوت ہوگئی، حتی کہ مساجد اس طرح بند ہوگئیں کہ ان میں نمازپڑھنے والا نہ ملتا تھا۔
c امام ابن جوزی (م 597ھ) 449ھ کی خطرناک وبا کی نقشہ کشی کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ساری دنیا اس میں گرفتار ہوگئی، لوگوں میں دہشت کا دوردورہ تھا۔ دیارِ اسلامیہ میں اس بڑی وبا سے بیان سے باہر تباہی ہوئی۔ لوگ آئے روز مرنے لگے: فلا يرون إلا أسواقًا فارغة وطرقات خالية وأبوابا مغلقة، وخلت أكثر المساجد من الجماعات بازار ویران، راستے اجاڑ اور شہروں کے دروازے بند کردیے گئے، اکثر مساجد جمعہ اور باجماعت نماز سے خالی ہوگئیں۔
d اسی طرح حافظ ابن کثیر نے ۶۵۶ھ کے سقوط بغداد کا تذکرہ کیا ہے کہ بغداد میں بڑی تباہی آئی، یہاں تک کہ مسجدوں میں جمعہ و جماعات کئی مہینے تک موقوف رہیں۔
[72] e حافظ ابن حجر (م 852ھ)کہتے ہیں کہ 827ھ میں پھوٹنے والی وبا کے سبب مکہ میں بہت سی مساجد بند ہوگئیں۔آپ لکھتے ہیں:
وفي أوائل هذه السنة وقع بمكة وباء عظيم بحيث مات في كل يوم أربعون نفسا، وحصر من مات في ربيع الأول ألفا وسبعمئة، ويقال إن إمام المقام (مقام إبراهيم وكان أتباع المذهب الشافعي يقيمون عنده صلواتهم) لم يصل معه في تلك الأيام إلا اثنان، وبقية الأئمة بطلوا الصلاة لعدم من يصلي معهم.
[73] ’’اس سال کے آغاز میں مکہ مکرمہ میں اتنی بڑی وبا پھوٹی کہ ہر دن 40 لوگ مرنے لگے۔ صرف ماہ ربیع الاول میں شہید ہونے والوں کی تعداد 1700 سے تجاوز کر گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ مقام ابراہیم ، جس کے پاس شافعی فقہ کے پیروکار باجماعت نماز ادا کئے کرتے تھے، ان دنوں میں دو سے زیادہ لوگ یہاں نماز نہ پڑھتے۔ جبکہ مکہ مکرمہ کے باقی ائمہ نے نمازیوں کے نہ آنے کی بنا پر باقی مساجد میں باجماعت نماز کو موقوف کردیا۔‘‘
f اسی طرح مشکل ترین حالات میں40 سے زیادہ بار حج بھی موقوف ہوا۔سقوط بغداد (656ھ)کے قریبی سالوں میں کم ازکم 10 سال مسلسل حج موقوف رہا۔ 1814 ،1831، 1837، 1846، 1858، 1864، 1871 ، 1890 اور 1895 کے سالوں میں متعدی امراض کی بنا پر حج نہیں ہوسکا۔
[74] تو یہاں واضح رہنا چاہیے کہ مساجد کو جبراً بند کرنا اور بربادی و ویرانی کے سبب ان کا از خود بند ہوجانا دو مختلف چیزیں ہیں۔ جب حالات کی سنگینی اس قد ربڑھ جائے تب بھی مساجد کو حکومتی سطح پر بند کرنے کی بجائے، شرعی عذر کی بنا پر نمازوں کو جمع کرنے،مساجد میں نہ آنے کی رخصت اور اس کے اعلان کرنے کی سنت موجود ہے جن میں عزیمت کی افضل صورت یہی ہے کہ مساجد میں آنا بہتر ہے اور مشقت کے باوجود نماز باجماعت پڑھنے کی ہی فضیلت ہے،جس کی تفصیل پیچھے گزری ہے۔
ï حکومت کو مشکل قومی حالات میں علماے کرام اور ماہرین کے مابین حقیقی مشاورت کے ساتھ ہی فیصلے کرنے چاہئیں، اسی سے معاشرے میں اطمینان اور قوت پیدا ہوتی ہے۔ تاہم جب حکومت اپنے طور پر کوئی فیصلہ جاری کردے ، چاہے وہ کسی غلط دباؤ کا نتیجہ ہو تو اس بنا پر مسلمانوں کی عبادات اور نماز میں کوتاہی کا وبال حکومت پر ہی ہوگا۔ عوام میں انتشار پھیلانے کی بجائے تدبیری اُمور میں اس کو مجبورا گوارا کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ عرب ممالک کے بعض علماے کرام نے دوٹوک حکومتی موقف آنے پر، اپنے سابقہ شرعی موقف کو چھوڑ دیا ۔ مدینہ یونیورسٹی کے شیخ الحدیث ڈاکٹر عبد المحسن العباد﷾ لکھتے ہیں:
’’میں نے اوائل میں(22 روز قبل) باجماعت نماز پر قائم رہنے کا فتویٰ دیا تھا، کیونکہ صبروتوکل اورنمازوں کی بہترین ادائیگی کے ذریعے ہی سنگین امراض کا سامنا کیا جاسکتا ہے۔ لیکن
أما إذا حصل منع إقامة الصلوة الجمعة والجماعة في المساجد من الدولة، فلا مجال لإقامة الجمعة في البيوت، فأما الجماعة فإنها تقام في البيوت من الرجل وأولاده ... وهو الذي أفعله أنا وأولادي في بيتي وليس لي وأمثالي من طلبة العلم مخالفة ما صدر من هيئة كبار العلماء في ذلك... 25 رجب المرجب 1441هـ/ 21 مارس
’’جب حکومت کی طرف سے مساجد میں جمعہ اور جماعت کی نماز ممنوع کردی گئی ہے تو اب جمعہ تو گھروں میں ہونہیں ہوسکتا اور جماعت گھر میں آدمی اپنی اولاد کے ساتھ پڑھ سکتا ہے۔ اس پر میں اور میری اولاد اپنے گھر میں عمل کررہے ہیں۔ میرے اور مجھے جیسے طلبہ علم کے لائق نہیں کہ سپریم علما کونسل کے اس سلسلے میں آنے والے موقف کی مخالفت کریں۔‘‘
کویت کی وزارتِ اوقاف نے بھی آغاز میں ہی مساجد میں جمعہ اور جماعت موقوف کردی، جس پر کویتی عالم شیخ ڈاکٹر عبدالرحمٰن الخمیس ... جو اس سے پہلے باجماعت نمازوں پر اصرار کررہے تھے... نے 15؍ مارچ 2020ء کو اپنے فتویٰ سے رجوع کرکے، كویتی عوام کو حکومت کافتویٰ قبول کرنے کی تلقین کی۔
ï فی زمانہ جب حکومت نے انتظامی دفاتر، کریانے کی دکانیں اورمنڈیاں، بینک ، تمام میڈیا ہاؤسز اورہسپتال کھلے رکھے تو اس سے بھی معلوم ہوا کہ بیماری کی شدت اس قدر زیادہ نہیں ہوئی کہ پاکستان میں کورونا مرض کے مشکل ترین ایام کے دوران بنیادی شرعی اور انسانی ضروریات کو ہی ترک کردیا جائے۔
ٹی وی، میڈیا سنٹر ، انتظامی ادارے اور سرکاری میٹنگیں تو جاری رہتی ہیں، اسی طرح کھانے پینے کے سامان کی نقل وحرکت کی مجبوری کو تسلیم کرتے ہوئے، ان کے انتظامات کو گوارا کیا جاتا ہے۔ ضروری اشیا اور کھانے پینے کے سامان کی دکانیں بھی مختصر وقت کے لئے ضروری کھلتی ہیں، تو جب ان تمام چیزوں کی بامر مجبوری گنجائش دی جاتی ہے تو مساجد کو بھی مسلمان کی بنیادی ضرورت سمجھنا چاہیے اور ان میں ضروری احتیاط اور بعض پابندیوں کے ساتھ سلسلۂ عبادت کو جاری وساری رہنا چاہیے۔
مذکورہ بالا وجوہ او رشرعی دلائل کی بنا پر اہل حدیث علماے کرام نے یہ فتویٰ دیا کہ
’’کسی بھی صورت میں اللّٰہ کے بندوں پر اللّٰہ کے گھروں کو بند کرنے کا نہ سوچیں جیسا کہ بعض عرب ممالک میں یہ غلطی سرزد ہو چکی ہے۔ یہ مساجد تو رحمت کے دروازے ہیں اور امیدوں کے مراکز۔ صحابہ کرام اور تابعین وغیرہم کے زمانے میں طاعون اور کثرتِ اموات جیسے مصائب میں ان کا تعامل مساجد سے لگاؤ اور تمسک تھا، نہ کہ اُنھیں بند کرنا۔ صحت مند افراد پر مساجد کے دروازے بند کرنا ظلم ہے، جو قطعاً جائز نہیں۔‘‘
فرض نمازوں اور نمازِ جمعہ کے علاوہ دیگر اوقات میں مقامی حالات کے مطابق امنِ عامہ اور صحت کے لیے مساجد کو بند کیا جاسکتا ہے اور اس کا جواز موجود ہے، لیکن جبراً مساجد کو کلیۃً بند کروا دینا ناجائز اور حرام ہے۔‘‘
[75] اسی بنا پر 18؍ اپریل 2020ء کو رمضان المبارک 1441ھ سے چند دن قبل ، پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے نمائندہ علماے کرام نے مساجد کھلی رکھنے کی مسلسل جدوجہد کی اور آخر کار صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے ساتھ 20 نکات پر اتفاق کرکے احتیاطی تدابیر کےساتھ باجماعت نماز، نماز تراویح، اور جمعہ پر اتفاق کیا جبکہ سحر وافطار کے اجتماعات اور اعتکاف پر پابندی کو قبول کیا
[76]۔ اور بعد ازاں وزیر اعظم پاکستان نے یہ اعتراف بھی کیا کہ مساجد میں احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کی وجہ سے کورونا وائر س میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔
[77] ایسے حالات میں وبائی امراض میں مساجد کو کلی طور پر بند کرنے کی بجائے بہر صورت اذان اور انتظامیہ کے چند افراد کے ساتھ نماز باجماعت کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے۔مساجد کی انتظامیہ اور نمازیوں کو چاہیے کہ وہ ازخود تمام ممکنہ شرعی اور طبی تدابیر اختیار کریں جیساکہ
· مساجد میں ہر آنے والے کو جراثیم کش محلول سے ہاتھ پاؤں دھونے چاہئیں۔
· مساجد میں سطح زمین اور جائے نماز ایسے ہوں جو کم سے کم جراثیم کو قبول کرنے والے ہوں اور اگر جائے نمازوں کو ہر نماز سے قبل دھو یا صاف کرلیا جائے تو یہ احتیاط بھی کرنی چاہیے۔
· ننگے فرش پر نمازیں پڑھی جائیں جس کو ہر دو نمازوں کے بعد دھولیا جائے۔
· نمازیوں کو گھر سے وضو کرکے آنے، سنتوں کو گھر میں ادا کرنے
· خطبہ جمعہ کو مختصر کردینا چاہیے۔
· باجماعت نمازوں کو احادیث کے مطابق مشکل صورت حال میں جمع بھی کیا جاسکتا ہے۔
· نمازیوں کی تعداد اورنماز کے دورانیہ کو مختصر ترین کیا جائے ۔
· سنگین حالات میں نمازی ہاتھ ملانے کی بجائے اشارے سے بھی سلام کرسکتے ہیں۔
· ایک دوسرے سے لمبی گفتگو کرنے اور تبلیغی ودعوتی اجتماعات سے بھی گریز کیا جائے۔
· حالات کی سنگینی کے تحت، مختلف علاقوں میں مختلف پالیسیاں بنائی جائیں جیسا کہ حکومت بھی مختلف انتظامی رویے اختیار کرتی ہے۔ جب کسی علاقے میں عام آمد ورفت جاری ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی وبا نے اس علاقے کو مجموعی طور پر متاثر نہیں کیا، سو اس کے احکام بھی ویسے ہی ہوں گے۔
مذکورہ بالا تفصیلات سے علم ہوتا ہے کہ قیامت تک پیش آنے والے جملہ مسائل میں شریعت محمدیہ کی مفصل رہنمائی موجود ہے، جس کی نشاندہی علماے کرام وقتاً فوفتاً کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں ہر مسئلہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کےرسول ﷺکی ہدایات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے، اسی میں دنیا وآخرت کی بھلائی ہے!!