قرآن کریم کے حقوق اور ملّی اخوت کی اہمیت

دو اہم جامعات کی پر وقار تقاریب سے خطاب
گزشتہ چند دنوں کے دوران مجھے دو پر وقار تقاریب میں شرکت کا موقع میسر آیا۔ پہلی تقریب جامعہ لاہورالاسلامیہ کے امتحانی نتائج کے موقع پر لاہور کے سفاری پارک میں منعقد ہوئی۔ اہم مدارسِ دینیہ جہاں پر اسلامی تعلیم وتربیت کا اچھے طریقے سے اہتمام کرتے ہیں، وہیں پر ان میں غیر نصابی سرگرمیوں کی بھی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ جامعہ لاہور الاسلامیہ، لاہور کا ایک منظّم او ر معیاری ادارہ ہے۔ جامعہ کے مہتمم ڈاکٹر حافظ حسن مدنی اور ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی علمی ذوق رکھنے والے نوجوان ہیں، جو اپنے والد گرامی مولانا ڈاکٹر حافظ عبدالرحمٰن مدنی ﷾ کی نگرانی میں جامعہ ہذا کے اُمور چلاتے ہیں۔ ڈاکٹر حافظ حسن مدنی جامعہ لاہور الاسلامیہ کی گارڈن ٹاؤن برانچ کے ساتھ ساتھ پنجاب یونیورسٹی کے ادارہ علومِ اسلامیہ سے وابستہ ہیں اور دینی اور دنیاوی علوم پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی دینی علوم کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ممتاز قاری ہیں۔ مدنی برادران کے ساتھ میرے تعلقات کئی برسوں پر محیط ہیں اور میں نے ان کو ہمیشہ دین سے محبت کرنے والا پایا۔ کئی مرتبہ علمی آرا میں اختلاف بھی رہا،لیکن اس کے باوجود خوشگوار تعلقات پر کسی قسم کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوئے۔ جامعہ کے اساتذہ کے ساتھ بھی میری دیرینہ وابستگی ہے، جس کا ایک بڑا سبب گاہے بگاہے جامعہ میں نمازوں کی ادائیگی بھی ہے۔ جامعہ کے اساتذہ ہمیشہ مجھ سے پیار اور محبت والا معاملہ کرتے ہیں اور جامعہ میں ہونے والی تقاریب میں اکثر وبیشتر مجھے خطاب کی دعوت دی جاتی ہے۔ نماز کی ادائیگی کے لیے آنے جانے کے دوران ہونے والی علیک سلیک کے سبب جامعہ کے طلبہ بھی مجھ سے بہت حد تک مانوس ہو چکے ہیں۔
امتحانی نتائج کے موقع پر سفاری پارک کے ایک خوبصورت سبزہ زار میں جامعہ کے اساتذہ اور طلبہ جمع ہوئے۔ اساتذہ کے لیے خوبصورت سٹیج آراستہ کیاگیا تھا، جبکہ جامعہ کے طلبہ کے لیے سبزہ زار کے اوپر ہی معیاری فرشی نشست کا اہتمام تھا۔ طلبہ ہمہ تن گوش تھے اورتلاوتِ قرآن مجید کے بعد ڈاکٹر مولانا حافظ عبدالرحمٰن مدنی کی زیر صدارت ہونے والی تقسیمِ اسناد کی یہ تقریب بڑے خوبصورت انداز میں آگے بڑھتی رہی۔ معروف شاعر قاری تاج محمد شاکر نے دینی تعلیم کی اہمیت پر ایک بڑی خوبصورت نظم پڑھی، اسی اثنا میں مجھے خطاب کی دعوت دی گئی۔ میں نے طلبہ کے سامنے اس موقع پر قرآن مجید کے ساتھ وابستگی کے اہم عنوان پر اپنی چند گزارشات کو رکھا ۔جن کا خلاصہ درج ذیل ہے:
قرآن مجید اللّٰہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی آخری مقدس کتاب ہے۔ اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللّٰہ تعالیٰ نے خود لے رکھی ہے؛ چنانچہ امتدادِ زمانہ اور گردشِ دوراں کے دوران قرآن مجید کی کسی ایک آیت ، ایک لفظ، ایک حرف حتیٰ کہ کسی ایک حرکت میں بھی تبدیلی اور تغیر رونما نہیں ہوا۔ قرآن مجید سے وابستگی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان ذمہ داریوں کو نبھانے کی کوشش کریں جو قرآن مجید کے حوالے سے ہم پر عائد ہوتی ہیں۔ قرآن مجید کے حوالے سے پہلی ذمہ داری جو اہلِ اسلام پر عائد ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارا قرآن مجید کے منزل من اللّٰہ ہونے پر کامل یقین ہونا چاہیے اور ہمارا اس کے آخری کتاب ہونے پر ایمان ہونا چاہیے۔ قرآنِ مجید کی سورۂ محمد کی پہلی آیت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جو شخص قرآن مجید پر ایمان رکھتا ہے، اللّٰہ تبارک وتعالیٰ اس کی خطاؤں کو معاف فرما دیتے اور اس کے معاملات کوسنوار دیتے ہیں۔
قرآن مجید کے حوالے سے دوسری اہم ذمہ داری یہ ہے کہ اس کی تلاوت کی جائے۔ اس بات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد رمضان المبارک کے مہینے میں تو قرآن مجید کی تلاوت کرتی ہے، لیکن باقی ماندہ ایام میں تلاوت کا اہتمام نہیں کیا جاتا اور لوگ دنیوی اُمور میں کچھ اس انداز میں مشغول ہوجاتے ہیں کہ تلاوتِ قرآن مجید کے لیے وقت نہیں نکالتے۔ ہمیں بحیثیتِ مسلمان اپنے صبح وشام کے اوقات میں سے کچھ حصہ ضرور قرآن مجید کی تلاوت کے لیے نکالنا چاہیے۔
قرآن مجید کے حوالے سے تیسری اہم ذمہ داری یہ ہے کہ اس کے مطالب اور مفاہیم کو سمجھا جائے۔ قرآن مجید کے مفاہیم اور مطالب پر غوروخوض کے بعد انسان حق اور باطل میں امتیاز کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اس کے مفہوم کو سمجھ کر ہی حلال وحرام کے مسائل کو سمجھا جا سکتا ہے اور انسان اُن راستوں کا تعین کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے جو دنیا اور آخرت کی کامیابیوں پر منتج ہوتے ہوں۔
قرآن مجید کے مفاہیم کو سمجھنے کے بعد اس پر عمل کرنا بھی اہل ایمان کی ذمّہ داری ہے۔ قرآن مجید کو اللّٰہ تبارک وتعالیٰ نے اس لیے نازل فرمایا کہ اس کے ساتھ تمسک کو اختیار کیا جائے،لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے ایسے لوگ جو قرآن مجید کے مفاہیم اور مطالب کو سمجھ سکتے ہیں، لیکن اس پر عمل پیرا ہونے پر آمادہ وتیار نہیں ہوتے۔ ایسے لوگ درحقیقت اپنے علم کا حق ادا نہیں کرتے۔ اللّٰہ تبارک وتعالیٰ نے یہود کے بے عمل علما کو گدھے کی مانند قرار دیا کہ جن پر کتابوں کابوجھ لاد دیا گیا ہے۔
قرآن مجیدپر عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی تبلیغ کرنا بھی ہر مسلمان ومؤمن کی ذمہ داری ہے۔ تبلیغ کرنے کے لیے مکمل عالم ہونا شرط نہیں بلکہ جس شخص کے پاس بھی کتاب وسنت یا دین کے متعلق صحیح اور درست معلومات موجود ہوں، ان درست معلومات کو آگے پہنچاتے رہناچاہیے۔
ان ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے قرآن مجید کو قائم کرنے اور اس کے نظام کو دنیا میں رائج کرنے کی کوششیں بھی جاری رکھنی چاہئیں۔ اللّٰہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ مائدہ میں اس بات کا ذکر کیا کہ جو لوگ اللّٰہ تبارک وتعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہی لوگ ظالم، فاسق اور اللّٰہ تبارک وتعالیٰ کی آیات کا انکار کرنے والے ہیں۔ عام طور پر سیاسی نظام کی کامیابی کے حوالے سے معاشی ترقی کو معیار قرار دیاجاتا ہے۔ قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب اللّٰہ تبارک وتعالیٰ کے نازل کردہ قوانین کو زمین پر نافذ کر دیاجائے تو اللّٰہ تبارک وتعالیٰ آسمان اور زمین سے انسانوں کو رزق عطا فرماتے ہیں؛ چنانچہ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 66میں ارشاد ہوا:
’’اور اگر بے شک وہ قائم رکھتے تورات اور انجیل کو اور جو نازل کیاگیا ہے ان کی طرف ان کے ربّ کی طرف سے ضرور وہ کھاتے ( اللّٰہ کا رزق)اپنے اوپر اور اپنے پاؤں کے نیچے سے۔‘‘
اساتذہ اور طلبہ نے میری گفتگو کو انتہائی توجہ کے ساتھ سنا۔ تقریبِ تقسیمِ اسناد کے موقع پر کامیاب ہونے والے طلبہ انتہائی خوش تھے اور اپنے اچھے مستقبل کے بارے میں نیک تمناؤں اور خواہشات کو اپنے دل ودماغ میں بسائے ہوئے تھے۔ یوں یہ پروقار تقریب اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔
٭ اسی طرح اِنہی ایام میں اسلامی جمعیت طلبہ نے پنجاب یونیورسٹی میں ’سہ روزہ قرآن کلاس ‘ کا انعقاد کیا‘ جس میں مفتی عدنان کاکا خیل اور حافظ نعیم الرحمٰن صاحبان کے ساتھ مجھے بھی مدعو کیا گیا۔ اس موقع پر اسلامی جمعیت طلبہ نے پنجاب یونیورسٹی کے سپورٹس گراؤنڈ میں ایک خوبصورت مارکی کو لگا کر جامعہ کے طلبہ کے لیے بڑے پیمانے پر شرکت کا بندوبست کیا تھا۔ عشاء کی نماز کے بعد شروع ہونے والے اس پروگرام میں شرکت کے لیے جب میں جامعہ پنجاب میں پہنچا تو اسلامی جمعیت طلبہ کے ذمہ داران نے بڑے پرتپاک انداز میں استقبال کیا۔ طالب علموں کے بڑی تعداد میں چمکتے ہوئے چہرے دیکھ کر میرے دل میں ایک مسرت کی کیفیت پیداہوئی اور میرے دل میں یہ اُمنگ اور خواہش پیدا ہوئی کہ اللّٰہ تبارک وتعالیٰ ان طلبا کو مستقبل میں ملک وملت کی خدمت کرنے والے کارکن بنا دے۔ اس موقع پر میرے ذمے ’اخوت اور بھائی چارے کی اہمیت ‘ کو واضح کرنے کی ذمہ داری کو لگایا گیا۔ چنانچہ میں نے اس موقع پر دین کی نسبت سے مسلمانوں کے باہمی تعلق کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اس بات کو ان کے سامنے رکھا کہ دنیا میں تعلق کی مختلف بنیادیں ہیں اور لوگ علاقہ، جغرافیہ ، ذات اور رنگ ونسل کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ تعلق کو استوار کرتے ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں تعلق کی کوئی بنیاد بھی دینی تعلق کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اگر دین نہ ہو تو باقی ماندہ تعلق غیر اہم ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ اللّٰہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں سیدنا نوح اور سیدنا لوط علیہم السلام کی بیویوں اور ابولہب کا ذکر کیا جو اپنی خاندانی نسبتوں اور تعلق کے باوجود دنیا میں ناکام ونا مراد ہوئے‘ اس کے مدمقابل بہت سے ایسے لوگ کامیاب ہوئے جنہوں نے دین کے ساتھ اپنے تعلق کو استوار کر لیا۔
اُمتِ مسلمہ کے زوال کی ایک بڑی وجہ نسل اور قوم پرستی کا ناسور ہے۔ اگر حقیقی معنوں میں مسلمان ملی درد رکھتے ہوں تو دنیا میں ترقی اور کامیابی ان کا مقدر بن سکتی ہے۔ کشمیر، برما، فلسطین ،بنگلہ دیش اور ہندوستان میں ہونے والے مظالم کی ایک بڑی وجہ جہاں پر عالمی طاقتوں کی بے حسی ہے ،وہیں پر اُمتِ مسلمہ کی غفلت بھی ایک بڑا سبب ہے۔ مسلمانوں کو اپنے پیش نظر اس خوبصورت شعر کو ضرور رکھنا چاہیے
اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں          تو ہندوستان کا ہر پیر وجواں بے تاب ہو جائے
اُمت کو زوال سے نکالنے کے لیے ہمیں اپنے دلوں میں دوبارہ اسلامی بھائی چارے کے احساس کو پیدا کرنا ہوگا۔ اگر ہم ایسا کرلیں تو یقیناً دنیا اور آخرت کا عروج ہمارا مقدر بن سکتا ہے۔
اس موقع پر اسلامی جمعیت طلبہ کے ذمہ داران اور پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ نے میری تقریر کو بڑے انہماک سے سنا اور سال کے دوران قرآن مجید کے مطالعے میں دلچسپی رکھنے والے طلبہ کے درمیان قرآن کے خوبصورت نسخوں کو بھی تقسیم کیا گیا اور یوں یہ پر وقار تقریب اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔
(روزنامہ دنیا، لاہور: 22؍ دسمبر 2019ء )