مولانا صغیر احمد شا غف اور ان کے لطائفِ علمیہ

یہ سنہ 1971ء کے بعد کی بات ہے! ...اور اس دور کی جب میں نیروبی میں مقیم تھا اور سال بسال والدین اور بہن بھائیوں سے ملاقات کے لیے کبھی مدینہ منورہ اور کبھی کراچی آتا جاتا رہتا ۔
ابا جان (مو لانا عبد الغفار حسن) سے معلوم ہوا کہ کراچی کے ایک نواحی بستی میں صغیر احمد کے نام سے ایک اہل حدیث عالم تازہ تازہ وارد ہوئے ہیں۔ گو وہ آئے تو ہندو ستان سے تھے لیکن سقوطِ ڈھاکہ کے بعد پاکستان وہندوستان میں ڈائریکٹ مواصلات منقطع ہونے کی وجہ سے وہ کراچی پہنچ گئے اور وہ بھی انتہائی دشوار گذار اور طویل راستے سے، غالباً اُنہوں نے اپنے سفری مقامات میں نیپال کا تذکرہ بھی کیا تھا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ بمبئی کے قیام کے دوران عربی کتب کی پروف ریڈنگ، طباعت اور اشاعت اور دیگر اُمور سے وابستہ رہنے کی وجہ سے ان معاملات کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔
ان سے تعارف کی بنیاد میری ایک عربی کتاب تھی: الاشتراکية والإسلام جوکہ اصلاً مولانا مسعود عالم ندوی کی اس عنوان سے ایک اُردو کتاب کا ترجمہ تھا جو میں ایک مقامی پریس سے چھپوانے کا خواہش مند تھا۔ مولانا صغیر احمد نے میری خواہش پر اس کی پروف ریڈنگ کا ذمہ لیا اور سارے کام کو خوش اُسلوبی کے ساتھ نبھایا۔ اس دوران اُن سے مزید تعارف حاصل ہوا۔ ایک دفعہ ان کے گھر جانے کا بھی موقع ملا جو اس مسجد سے متصل تھا۔ جہاں وہ امامت اور خطابت کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔
معاشی اعتبار سے ایک بہتر مستقبل ان کے انتظار میں تھا۔ 1976ء کے لگ بھک وہ اپنے پرانے رفیق، بمبئی کے مشہور طابع وناشر مولانا عبد الصمد شرف الدین کی دعوت پر جدہ منتقل ہو گئے جہاں ان کے محسن پہلے ہی اپنا مستقر بنا چکے تھے۔ جدہ میں ان کا قیام چند سال رہا اور پھر رابطہ عالم اسلامی کے ’شعبہ اعجازِعلمی‘ میں ملازمت اُنہیں مکہ مکرمہ میں مستقل رہائش رکھنے کا پیغام لے آئی۔رابطہ سے تعلق کی بنا پر نہ صرف ان کے علمی وتحقیقی کام کو مہمیز ملی بلکہ وہ عُسر کے بعد یُسر کی دولت سے بھی نوازے گئے۔
میں خود بھی جولائی 1976ء میں لندن منتقل ہو چکا تھا اور پھر لندن ہی سے تقریباً ہر سال دیارِ حجاز جانے کا موقع ملتا رہا، کبھی التوعية الإسلامية في الحج (حج کے دوران حجاج کی دینی رہنمائی) کی دعوت پر اور کبھی رابطہ عالم اسلامی، جامعہ اسلامیہ یا کسی دوسرے ادارے کی طرف سے منعقدہ کسی سیمینار یا کانفرنس میں شرکت کے لیے اور کبھی عمرہ یا حج کی سعادت سے بہر ور ہونے کے لیے۔
رابطہ کی کانفرنسوں میں میرا معمول رہا کہ برادرم صغیر احمد سے ملاقات کے لیے رابطہ کی وسیع وعریض بلڈنگ میں کسی بھی اجلاس کے دوران یا اس کے بعد ان کے آفس کا رخ کروں جو کہ غالباً چوتھی منزل پر واقع تھا۔ ایک کشادہ کمرے میں دیواروں کے ساتھ ساتھ چند میزیں ایستادہ تھیں۔ ہر میز پر کوئی نہ کوئی عرب عالم کتابوں کے جھرمٹ میں مطالعہ کرتے یا لوح وقلم کا رشتہ استوار کرتے نظر آتے۔
دروازے سے داخل ہوتے ہی بائیں طرف کی میز کے سامنے صغیر احمد کرسی پر براجمان دکھائی دیتے، مزید کتب،کچھ عمودی شکل میں صف بستہ اور کچھ کھلی، اَدھ کھلی ان کی نظر عنایت کی طلبگار نظر آتیں۔اعجازِ علمی کے اس شعبہ میں ان کا فرضِ منصبی تھا کہ شرکاے محفل اپنی علمی، سائنسی تحقیقات میں اگر کسی حدیث سے استشہاد کریں تو صغیر احمد اس کی استنادی حیثیت کو صحت وسقم کےاعتبار سے واضح کرتے رہیں۔
ہماری مختصر ملاقات کے دوران عربی قہوہ کا دور چلتا رہتا اور عموماً ان کی خواہش رہتی کہ میں ان کے گھر پر ماحضر تناول کرنے کے لیے حاضری دوں۔ان کا گھر جدہ سے مکہ آنے والی شاہراہ کے مدخل پر مدارس نامی علاقے میں واقع تھا جو النزهةکا ایک حصہ ہے، یہاں کی گلیاں اور سڑکیں علماو فقہا کے نام سے موسوم تھیں۔ ان کا کمرۂ ملاقات اُن کی لائبریر ی تھی کہ جہاں سہ اطراف عربی اور اُردو کتب سے آراستہ وپیراستہ الماریاں ملاقاتیوں کے لئے باعثِ کشش ہوتیں۔
اکثر ایسا ہوا کہ ان کے صاحبزادوں میں سے کوئی ایک گاڑی لے آتے اور مجھے اور میری اہلیہ کو گھر لے جاتے اور اگر صاحبزادے مشغول ہوتے تو ہم ٹیکسی سے ہوٹل کی راہ لیتے ۔ یہاں ان کے صاحبزادوں کا ذکر آ گیا ہے تو ان کے نام اختیار کرنے میں صغیر احمد کے ذوقِ علمی کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ذرا نام ملاحظہ فرمائیں:
أشبال، أبسال، أثال، مفضال، منهال اور مؤمل
پہلے صاحبزادے کے نام سے ان کی کنیت ہے : أبوالأشبال... ان سب نے مکہ کی جامعات سے تعلیم حاصل کی ہے اور اب کچھ تدریسی شعبے اور کچھ تجارت میں اپنا نام پیدا کر رہے ہیں۔
ہماری گفتگو میں شخصی نوعیت کی بات چیت کم لیکن علمی، مسلکی اور حدیث سے متعلق نکتہ آفرینی غالب رہتی، اُنہیں اپنے علم رجالِ حدیث پر ناز تھا، وہ شیخ البانی کو کسی خاطر نہ لاتے تھے۔ شیخ البانی رہے میرے اُستاد لیکن میں آدابِ زیارت کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے زیادہ تر اُن کی سنتا اور خاموش رہتا۔ مجھے خود بھی شیخ کے بعض فتاویٰ پر اطمینان نہیں لیکن متقدمین یا متاخرین میں کون ہے، جس کے ہاں شذوذ نہیں پایا جاتا۔
ایسے فتاویٰ میں ان کی رائے بابت تحریم الذهب على النساء (عورتوں پر بھی سونے کا استعمال حرام) ہے، سوائے اس کنگن کے جو بیچ میں سے کٹا ہوا ہو۔ اُنہوں نے اس رائے کو اختیار کرنے میں سنن نسائی کی روایت «نهٰى عن الذهب إلا مقطَّعًا» کا سہارا لیا ہے، لیکن مجھے امام ابن تیمیہ﷫ کی یہ تعبیر زیادہ بھاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے سے منع کیا، اِلا یہ کہ بہت تھوڑا سا ہو، یعنی مقطّعا سے مراد قطعہ قطعہ ہے۔ اسی طرح اعتکاف کے بارے میں ان کی یہ رائے کہ وہ صرف تین مساجد یعنی حرمِ مکہ، حرمِ نبوی اور حرمِ بیت المقدس ہی میں جائز ہے۔ہماری بات چیت جا ری رہتی یہاں تک کہ فرش پر ماحضر رونق افروز ہو جاتا تو ہم عرشی نشست سے فرشی نشست کا رخ کر لیتے۔
صغیر احمد ہومیوپیتھی علاج میں اچھا درک رکھتے تھے، اس لیے بعض دفعہ ہومیوپیتھک دواؤں کے خواص پر بھی تبادلہ خیال ہو جاتا کہ میں خود بھی اس طر یقہ علاج کا مداح رہا ہوں بلکہ لندن پہنچنے کے بعد ایک پرائیویٹ ادارے سے بذریعہ خط وکتابت ایک سالہ کورس بھی کر چکا ہوں کہ جس کے اختتام پر مجھے ڈاکٹری کا تمغہ تو بہت پہلے عنایت ہو گیا تھا لیکن میں نے اپنی شاعری کی طرح اسے ہمیشہ بصیغہ راز رکھا کہ یہ دونوں میدان استاد کی رہنمائی اور اپنے فن میں مشاقی کا تقاضا کرتے ہیں اور میں ان کا حق نہیں ادا کر سکا تھا۔
ہمارا پورا گھر انہ کے ساتھ دوستانہ بلکہ محبانہ تعلقات رکھتا تھا۔ جدہ سے میرے برادرِ اکبر شعیب، مدینہ منورہ سے والدین اور ان کی معیت میں برادرم سہیل حسن، جب بھی مکہ مکرمہ آتے تو ان سے ملے بغیر نہ جاتے۔ بلکہ والد محترم ریٹائرمنٹ کے بعد جب پاکستان رخصت ہوئے تو ایک عرصہ بعد برادرم سہیل کی معیت میں مکہ مکرمہ آئے اور پھر ایک حادثاتی علالت کے دوران چند دن اُن کے گھر پر بھی ٹھہرے۔
مجھے ان سے اس لیے بھی اُنس تھا کہ سالِ ولادت کے اعتبار سے ہم دونوں ہم عمر تھے۔ ایک ہی شعبہ علم سے وابستہ تھے۔ گھر داری کے اعتبار سے دونوں صاحب اولاد تھے، البتہ یہ تفاوت رہا کہ میری زندگی زیادہ تر دعوتی مصروفیات میں بسر ہوئی کہ جس کے لوازمات میں سے کانفرنسوں کی حاضری، مقالات کی تیاری اور پھر اُنہیں اجتماعات میں پیش کرنے کی جسارت سرفہرست تھے، علاوہ ازیں جمعہ وعیدین کے خطبات، کالجوں، یونیورسٹیوں کے محاضرات، ریڈیو ، ٹی وی کے دروس ومکالمات اور گاہے بگاہے تدریسی مشغولیات، شب وروز کی مصروفیات کا حصہ رہے، جبکہ اُنہوں نے بحث وتحقیق کو موضوع بنایا اور تحریر وتسوید کے میدان کو اپنے راہوارِ قلم کی جولان گاہ بنایا۔ ان کی تصانیف میں ’صراطِ مستقیم اور اختلافِ ا مت‘، ’تفسیر ابن کثیر کا اختصار‘، التقریب کے ایک نسخے کی بعد از تحقیق اشاعت اور حدیث اور سنت سے متعلق وہ بے شمار مضامین اور مقالات ہیں جو ہندوپاک کے مختلف دینی رسائل کی زینت بنتے رہے۔ ہمارے رفیق مکرم مولانا حافظ ثناء اللہ مدنی﷾ کے فتاویٰ ثنائیہ میں ہو میوپیتھک ادویہ کی تیاری میں الکوحل کے استعمال پر دونوں شیوخ کا مکالمہ بھی قارئین کی دلچسپی کا باعث رہے گا۔
سن 1997ء کا حج اس لحاظ سے یادگار حج رہے گا کہ اس حج کے دوران منیٰ میں آتش زدگی کا ہولناک واقعہ ہوا تھا، میں اس سال لندن کے ایک کاروان’لبیک‘ کے ساتھ حاجیوں کی رہنمائی کی غرض سے وہاں موجود تھا۔ ہمارا قیام منیٰ کی پہاڑیوں کے دوسری طرف مکہ کے علاقے عزیزیہ میں تھا۔ یعنی ایام تشریق میں دن کا قیام عزیزیہ کی رہائش گاہ میں اور پھر مغرب سے نصف شب تک منیٰ کے کسی خیمے میں شب بسری۔لیکن اس دہشت ناک حادثے نے بہت سے دردناک المیوں کو جنم دیا جن میں سے میری ہمشیرہ کے داماد نبیل فیصل کی شہادت بھی شامل ہے، وہ اپنی ایک معذور رشتے دار خاتون کو بچانے کی پوری کوشش کرتے کرتے جامِ شہادت نوش کر گئے۔ اللهم اغفر له وارحمه!
صغیر احمد اہل وعیال کے ساتھ حج پر آئے ہوئے تھے، طبیعت ان کی طرف سے بھی فکرمند تھی۔ حج کے فوراً بعد ان سے فون پر بات چیت ہوئی تو اُنہوں نے كہا کہ وہ بہت خوش قسمت رہے کہ مناسب وقت پر سلگتے شعلوں سے جان بچا کر مکہ چلے آئے۔ چونکہ حج کے مناسک پورے ہونے سے رہ گئے تھے ،اس لیے اُنہوں نے إحصار کے حکم کو اپنایا، یعنی ﴿فَإِن أُحصِرتُم فَمَا استَيسَرَ مِنَ الهَدىِ...﴿١٩٦﴾... سورة البقرة
’’اور اگر تم روک دیے جاؤ تو جو قربانی کا جانور میسر ہو( اس کی قربانی کر دو)۔‘‘
اِمسال (2019ء) رمضان کے دس دن مکہ مکرمہ کی حاضری کا شرف حاصل رہا، رابطہ عالم اسلامی کی ایک کانفرنس میں مدعو تھا۔ کچھ کانفرنس کے اجتماعات میں شمولیت کی مشغولیت اور کچھ رمضان کے دنوں میں زائرین کی بھیڑ بھاڑ کہیں آنے جانے میں رکاوٹ بنی رہی۔ بارہا خیال آیا کہ فون اُٹھاؤں اور ان کی خیر خیریت دریافت کر لوں لیکن بدقسمتی حائل رہی۔ واپسی کا سفر بھی بھاگم دوڑ کا تھا۔ ہم اس عالم میں مکہ سے روانہ ہو رہے تھے کہ اذانِ فجر ہونے والی تھی لیکن لندن کی فلائٹ بروقت پکڑنے کے لیے ہمیں نمازِ فجر کے لیے جدہ ائرپورٹ پہنچنے کا انتظار تھا۔
یہ جمعرات 25 رمضان کا دن تھا جب ہم شام تک لندن اپنے گھرپہنچ چکے تھے، ایک واٹس ایپ پیغام سے معلوم ہوا کہ صغیر احمد سخت بیمار ہیں اور مکہ مکرمہ کے ایک ہسپتال میں داخل ہیں، ان کے صاحبزادے سے اسی ذریعہ ابلاغ سے بات چیت ہوئی تو معلوم ہوا کہ ان کے اہل خانہ اس وقت مدینہ منورہ میں تھے اور وہ اب مکہ کی طرف رواں دواں ہیں۔کوئی رات ڈیڑھ بجے ان کے صاحبزادے مؤمل کے پیغام سے اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی ہے۔ إنا لله وإنا إليه راجعون!
مجھے ہمیشہ قلق رہے گا کہ میں اتنے قریب ہونے کے باوجود اس باران کی ملاقات سے محروم رہا، ما شاء الله قدَّر! لیکن اس بات سے سکون واطمینان حاصل رہا کہ اس مردِ قلندر پر حرم مکہ میں نماز جنازہ پڑھی گئی۔ اللہ تعالیٰ ان کی کوتاہیوں کو معاف فرمائے، ان کو اپنے سایۂ رحمت میں جگہ دے اور انہیں خاص جنت الفردوس کا باسی بنائے۔ میں نے اپنے قلق کا مداوا یوں کیا کہ ہفتہ 27 رمضان کو اپنی مسجد (مسجد توحید، لندن) میں نمازِ عصر کے بعد ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔
انہیں اپنی زندگی میں بہت سی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لحاظ سے تو اُنہیں یک گونہ سکون حاصل رہا کہ مملکتِ سعودیہ کے شہری ہونے کا اعزاز حاصل ہو گیا۔ لیکن اپنی صلبی اولاد میں سے کسی ایک کو بعض قانونی وجوہات کی بنا پر یہ سہولت حاصل نہ ہو سکی جو بہرصورت ان کے لیے آزمائش کی شکل اختیار کر گئی۔ اُمید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس معاملے میں آسانی پیدا کر دے گا۔ وہ ساری عمر کرائے کے مکان میں رہے، معلوم ہوا کہ پچھلے سال کے دورانیہ میں اپنا مکان تعمیر کر پائے تھے اور وہاں منتقل بھی ہو گئے تھے اور پھر وہیں سے دارالخُلد کی طرف مراجعت ہوئی۔
میں اس مضمون کے دوسرے حصے کو مطائبات صغیر أحمد (خوبصورت یادوں) کا عنوان دیتا ہوں۔ یہاں وہ لطائف وظرائف، علمی اور حدیثانہ نقاط نقل کروں گا جن کے راوی خود صغیر احمد ہیں اور جو ہماری متعدد ملاقاتوں کے دوران بات چیت کا ثمرہ ہیں اور میں ان مرویات کے ذکر کے لیے اپنی ڈائری کا مرہونِ منت ہوں، وگرنہ ان تمام باتوں کا احاطہ کرنا میری یاد داشت سے خارج تھا۔
............٭ ............٭ ............
برادر محمدصغیر احمدمیرے ہم سن تھے ،علم کا دریا تھے۔ ان کے ساتھ نشست علمی ، ادبی ، سیا سی معلو مات اور لطا ئف وظرا ئف پر مشتمل ہو تی ۔ میں اُنہیں کچھ سنا تا اور وہ اپنی کہتے ۔مکہ مکر مہ آتے جا تے ان کےدولت خانے پر ملاقا ت رہتی۔ ان کی کئی باتیں میں اپنے دفتر میں نو ٹ کر لیتا اور انہی متفرق تحریروں کی بنا پر ان کے ملفوظات کا یہ گلدستہ قا رئین کی نظر کر رہا ہوں :
1.نواب صد یق حسن خا ن کے تمام بیٹے ان کی پہلی اہلیہ کے بطن سے ہیں ،یہ شا دی بھی ملکہ بھو پا ل کےتوسط سے ہو ئی تھی جو انہوں نے اپنے منشی کی بیٹی سے طے کی تھی ۔ اس خا ندان کے افراد حنفی المذہب تھے ، اور اس لئے جب وہ اپنی بیگم کی طر ف سے حج کر رہے تھے تو اس نے یہ شرط رکھی تھی کہ تمام منا سک فقہ حنفی کے مطابق ادا کیے جا ئیں گے۔بدرالزمان نے اہل حدیث مسلک اختیا ر کر لیا تھا اور پھر نوا ب صاحب سے اپنی اس خوا ہش کا اظہا رکیا کہ کا ش میرے بھائی وحید الزمان بھی اہل حدیث مسلک اختیار کر لیں ،جس پر نواب صاحب نے انہیں چھ کتابوں ...جنہیں عر ف عام میں صحاحِ ستہ کہا جا تا ہے ...کا اُردو تر جمہ کر نے پر مامور کیا۔ ان تراجم میں کچھ کچھ حنفیت کی جھلک دکھائی دیتی ہے لیکن انہوں نے اپنی کتا ب حل اللغاتمیں تقلیدپر کھل کر تنقید کی ہے اور یہ بحث اس کتاب کی پہلی اشاعت میں مو جو د ہے جو کہ مؤلف کے اپنے خط میں شائع ہو ئی تھی، پھرجب نو ر محمد اصح المطابع نے یہ نو ٹس حذف کردیے اور یوں تقلید کی بابت بحث بھی دریا برد ہو گئی۔
2.  نواب صد یق حسن خا ن کا تعلق زیدی مذہب سے تھا ،ان کے والد بھی زیدی تھے لیکن نواب صاحب شاہ عبدالعزیزکی کتابوں سے متاثر ہو کر حدیث کے شا ئق ہو گئے۔ان کی کتاب الروضة الندية درا صل امام شوکانی کی إرشاد الفحول کی تلخیص ہے ،لیکن انہوں نے جہا ں زیدیہ اور ہادویہ کی آرا آئی ہیں ،سب کو حذف کر دیا۔یہی طر ز عمل اُنہوں نے بلو غ المرام کی شرح میں اختیا ر کیا کہ اُنہوں نےصنعانی کی شرح سُبل السلام کو سا منے رکھا اور اس میں سے ان دو نوں مذاہب کی آرا کو حذف کر تے گئے -
الشو کا نی کی کتا ب إرشاد الفحول اس قابل ہے کہ وہ اہل حدیث کی اُصول فقہ کا مر جع بن سکے اور ایسے ہی،نیل الأوطار بھی، اما م شو کا نی بھی خو د پہلےزیدی تھے ،اپنی کتاب السيل الجرار کی تا لیف کے بعد مسلک اہل حدیث کے حا می و ناصر ہو گے ۔برا در محمد صغیر نے پاکستا ن سے ایک طبع شدہ کتا ب دکھائی: شرح نور الأنوار جسے حافظ ثنا ءاللہ زاہدی نے تحریرکیا ہے،اور اہل حدیث کے نقطہ نظر سے اس کی تالیف کی ہے ۔
3.  ریاست بھوپال پر چار خواتین نے حکومت کی : قدسیہ بیگم پھر سلطان جہان بیگم پھر شاہ جہاں بیگم اور ان کے بعد ان کی بیٹی سلطان جہاں بیگم ۔نواب صدیق حسن خان کی پہلی اہلیہ سے دو صاحبزادے تولّد ہوئے۔ پہلی بیگم کی حیات میں والیہ بھوپال شاہ جہاں بیگم سے شادی کی، اسی دوران پہلی بیگم کا انتقال ہوا۔شاہ جہاں بیگم پہلے با پردہ نہ تھیں ،لیکن پھر شرعی پردہ اختیار کیا اور نواب صدیق حسن خان کی کتابوں کی اشاعت میں حصہ لیا ۔ ہندوستان میں سب سے پہلے فتح الباری کی طباعت انہی کی مرہون ِمنت ہے ۔
تقلیدی ذہن سے مرعوب ان کے مخالفین نے انگریزی حکومت تک ان کے خلاف شکایتوں کا انبار لگا دیا،نتیجۃً انہیں تمام سرکاری خطابات سے محروم کر دیا گیا ۔ان کی بیگم کی کاوشوں سے بالآخر یہ القابات انہیں واپس کیے گئے لیکن خطابات کی واپسی کا پروانہ اس دن ان کے پاس پہنچا جس دن وہ سفر آخرت پر روانہ ہو رہے تھے ۔ان کے ایک صاحب زادے نے ان کا سارا مکتبہ ندوة العلماء كو منتقل کر دیا تھا۔نواب صاحب اپنے شیخ ، اما م شوکانی کی مانند توسّل کو جائز سمجھتے تھے ۔
4.  آپ نے مجھے تفسیر ابن کثیر کی تلخیص میں ایک نسخہ بھی دکھا یاجو ان کی اپنی جدو جہد کا ثمرہ ہے لیکن مو لا نا صفی الرحمٰن مبارکپور ی کے نا م سے دارالسلام، الریاض نے شائع کیا ۔اس کے مقدمہ میں یہ بات درج ہے کہ اُنہیں اس کی تلخیص کا کام سپر دکیا گیاتھا۔
دو جلدوں پرمشتمل اس کتاب کو مجھے بطور ہدیہ دینا بھی پسند فر مایا۔پھر ایک قدیم چھوٹے سائز کی مجلد کتا ب لے کر آئے ،اور مجھے لو ٹا تے ہوئے کہا کہ یہ کتاب آپ کے وا لد کے مکتبہ سے میں نے اس وقت مستعار لی تھی جب میں کرا چی میں آپ کی کتاب :الاشترا کية والإسلام کی پرو ف ریڈنگ کر رہا تھا .یہ کتاب متعدد رسالوں کا مجمو عہ تھی جس میں :علم قیافہ،اور سو رۃ الکو ثر کی تفسیر پر مشتمل رسا ئل کا ہو نا مجھے یاد ہے ۔
5.  پھر بتایا کہ مو لا نا عبد الصمد شر ف الدین نے کو ئی چو را نو ے سا ل عمر پا ئی،آخری عمر میں حا فظہ متا ثر ہو گیا تھا۔ ایک دن مجھے دیکھ کر کہنے لگے کہ ہما رے پریس میں تم سے ملتا جلتا ایک شخص کام کرتا ہے پھر جب کچھ دیر مجھ سے بات چیت کی تو کہنے لگے :کہ کیا تم ہی وہ شخص ہو ؟میں نے ان سے مو ضو ع کسب اعمال پر با ت کی ،یعنی انسان کا محا سبہ ان اعمال پر ہوگا جو اس نے خود کما ئے ہوں گے ،جسے ما ترید یہ نےکافی اہمیت کے ساتھ پیش کیا ہے ۔تو کہنے لگے: وہ بھی تقدیر ہی کا حصہ ہے اور وہ اس لئے کہ اللہ تعا لیٰ کے ہا ں دور جسٹر ہوں گے جن میں جنتیوں اور جہنمیوں کے نا م پہلے سے لکھے گئے ہوں گے۔
6.  شیخ الحدیث مو لانا سید نذیر حسین دہلوی کا ذکر آیا تو کہنے لگے کہ اُنہوں نے ساٹھ سا ل دہلی میں درسِ حدیث دیا اور اُن کے شاگردوں کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار بتا ئی جاتی ہے۔ایک صاحب غزنہ (افغا نستان ) سے طلبِ علم کے لئے آئے توخواب میں دیکھا کہ ایک نچلی جگہ پر صحیح بخاری ہے جس کی وہ گرد صاف کر رہے ہیں لیکن آخر چند اور اق رہ گئے ہیں ۔یہ خواب اس طرح پورا ہواکہ اُنہوں نےشیخ الحدیث سے صحیح بخاری کا درس لیا لیکن آخری چند اور اق پڑھنے سے پہلے اُنہیں واپس جانا پڑا ۔اور چونکہ دہلی ،غزنہ کے اعتبا ر سے نیچے واقع ہے ،اس لئے صحیح بخاری کو نیچے دیکھنا بھی ثابت ہو گیا ۔
اس نو کرا نی کا قصہ بھی ذکر ہوا جو ان کی مسجد سے متصل مکان سے جھاڑو دے کر کو ڑا اوپر سے پھینک دیا کرتی تھی اور جس کا کچھ حصہ مسجد کے صحن میں بھی گر جا یا کر تا تھا ۔شیخ نے ایک مر تبہ اسے منع کیا کہ آئندہ ایسا نہ کر نا ۔لیکن وہ نہ ما نی پھر ایک دفعہ کوڑا پھینکا لیکن اس کے سا تھ ساتھ خو د بھی آگری اور ڈھیر ہو گئی۔
سید نذیر حسین دہلوی کا معا ملہ بھی شیخ الا سلام ابن تیمیہ رحمہم اللہ کی ما نند ہے۔ جس طر ح ان کے تلامذہ: ابن قیم اور ابن کثیر نے ان سے اکتسا بِ علم کے بعد ان کے علم کو پھیلایا ،ویسے ہی سید نذیر حسین کے لائق شاگردوں نے اپنے استا دکے علوم کو عام کیا ۔
7.  کراچی کے جریدہ ’نگار‘ کے ایڈیٹر معجزات کے منکر تھے ۔ ایک عالم ان کے پاس آئے اور کہاکہ کیوں نہ ہم دونوں مل کر تبلیغ اسلام کریں ۔تم اپنے علوم وفنون سے مدد کرنا اور میں علومِ دینیہ سے مدد کروں گا اور یوں چار دانگ میں ہم اسلام کو پھیلا سکیں گے۔ کہنے لگے کہ یہ نا ممکن ہے !
عالم نے کہا:لیکن اللہ کے رسول ﷺ نے یہ کام تئیس23 سال میں کر دکھایا تھا ؟ تو بولے کہ وہ تو رسول تھے ؟   تو عالم بولے:اے خبیث شخص !اسی کو تو معجزہ کہا جاتا ہے ۔         یہ کہا اور وہاں سے فوراً چلے آئے۔
8.  صحابہ رسول ﷢میں سے جناب زبیر اور طلحہ کی ایک گفتگو ملاحظہ ہو:
حضرت زبیر ؓ نے اپنے بیٹوں کے نام انبیاے کرام کے نام پر رکھے تھے جب کہ حضرت طلحہ ؓ نے اپنے بیٹوں کے نام شہدا کے نام پر رکھے تھے ،حضرت زبیر نے کہا : تم ان کے نام شہدا کے نام پر رکھے ہیں تا کہ وہ شہید بن جائیں ؟ حضرت طلحہ نے جواباً کہا : اور تم نے ان کے نام انبیا کے ناموں پر رکھے ہیں تاکہ وہ نبی بن جائیں ؟ لیکن یہ ممکن ہے کہ میرے بیٹے شہادت کا درجہ حاصل کر سکیں !!
9.  قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی بیٹی سے قطع تعلق کر لیا تھا کیونکہ اس نے ایک غیر مسلم پارسی نوجوان سے شادی رچا لی تھی۔ شادی سے قبل وہ ملنے کے لئے آئی تو فون پر بات کی ۔پوچھا کہ شادی کے بارے میں کیا فیصلہ کیا ہے ؟ اس نے کہا کہ میرا منگیتر مسلمان ہونے کا ارادہ نہیں رکھتا، لیکن پھر بھی میں اس سے شادی کر کے رہوں گی ۔جناح نے پچاس پچاس ہزار روپے کے دو چیک بھجوائے اور کہا کہ دوبارہ میرے پاس مت آنا۔وفات سے قبل لندن سے وہ اپنے بچے کے ساتھ ملنے کے لیے آئی ، پہلے نواسے کو کمرے میں بھیجا گیا کہ شاید اس بہانے وہ بیٹی سے ملاقات پر بھی آمادہ ہو جائیں ۔جناح کو جب معلوم ہوا کہ یہ اس کا بیٹا ہے تو کہا اسے بھی لے جاؤ اور بیٹی کو بھی مت آنے دو۔
10.  مولانا ابوالکلام آزاد کے پاس ایک نوجوان آیا اور درخواست کی کہ میری دکان اورمکان کو واگزار کرایا جائے ۔اس نے مولانا کو یاد دلایا کہ کسی زمانہ میں مولانا اس کے والد کی دکان کی چٹائی پر بیٹھا کرتے تھے چنانچہ آزاد نے اس کی داد رسی کی ۔
بابری مسجد کے ڈھانے کا ذکر آیا تو کہا کہ 1947 ءمیں ہندؤں نے بابری مسجد میں بت رکھوا دیا تھا ،اس وقت آزاد چاہتے تو نہرو پر زور دیتے کہ یہ مسجد مسلمانوں کی ہے اور اُنہیں واپس کی جانی چاہیے لیکن اُنہوں نے خاموشی اختیار کی۔ نہرو نے مسجد کو تالا ڈلوا دیا تا کہ ایک دن اس کے منہدم ہونے کی نوبت آ جائے گویا اس کے گرنے کی بنیاد نہرو کے عمل اور آزاد کی خاموشی نے بہت پہلے ر کھ دی تھی۔
11.  جنوبی ہند کی ایک جامعہ میں جلسہ تھا جس میں مولانا محمد سامرودی ہاتھی پر سوار تشریف لارہے تھے، اُنہوں نے دیکھا کہ مولانا ثناء اللہ امر تسری تانگے پر سوار چلے آ رہے ہیں تو وہ ان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہنے لگے: ﴿ وَرَفَعنا لَكَ ذِكرَكَ ﴿٤﴾... سورة الشرح، اور ہم نے تمہارا ذکر بلند کر دیا ۔ یعنی اشارہ تھا کہ وہ ہاتھی پر سوار ہیں اور ان کی سواری تانگے کی سواری کے بلند ہے ،جس پر مولانا ثناءاللہ نے فوراً یہ آیت پڑھ دی :
﴿ أَلَم تَرَ كَيفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصحـبِ الفيلِ ﴿١﴾... سورةالفيل
’’ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟‘‘
12.  ان کے ایک شناسا جامعہ بنوریہ (کراچی) میں زیر تعلیم تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ نواب صدیق حسن خان کی اولاد میں سے ہیں لیکن اب مذہباً حنفی ہو چکے ہیں۔ ایک دفعہ مولانا انور شاہ کشمیری کے بارے میں کہا کہ وہ اپنے زمانے کے علامہ تھے۔ مولانا صغیر احمد نے ان سے کہا: لیکن وہ تو عربی نہ جانتے تھے، اُنہوں نے کہا: یہ آپ نے کیسے کہہ دیا ؟ کہ کیا انہوں نے اپنی ’رودادِ زندگی‘میں یہ نہیں لکھا کہ اُنہوں نے امام عینی کو خواب میں دیکھا تھا اور عینی نے ان سے کہا تھا: تم بہت اچھے تھے اگر تم میں تعصّب نہ ہوتا ۔اب دیکھیے کہ امام عینی اُردو نہیں جانتے تھے، پھر بھی علامہ نے اُن سے اردو میں بات کی ۔اگر عربی جانتے ہوتے تو اُردو میں بات کیوں کرتے ؟
13.  ایک بہاری نوجوان کسی انگریز کے ہاں ملازم تھا ۔ ایک دن اپنے مالک سے کہا کہ میری تنخواہ بڑھائی جائے وگرنہ میں نوکری چھوڑ دوں گا۔ مالک نے کہا کہ اگر تم نوکری چھوڑو گے تو میں تمہارے بارے میں ایسا خط بطور ریفرنس لکھوں گا کہ تمہیں دوبارہ کوئی ملازمت نہ دے گا۔ نوجوان نے کہا : پروا نہیں، میں اپنے کھیتوں میں کام کروں گا اور کیا تم میرے بیلوں کو منع کر سکو گے ، وہ تو تمہاری بات سن نہ سکیں گے !!
انگریز کو یہ بات پسند نہ آئی اور اس نے اس کی تنخواہ میں ایک سو روپے کا اضافہ کر دیا۔
14.  امام سیوطی کی الدُرّ المنثور کے حوالے سے ایک آیت اور اس کی تفسیر کے ضمن میں ایک قصہ :
آیت﴿ وَ حِيْلَ بَيْنَهُمْ وَ بَيْنَ مَا يَشْتَهُوْنَ ﴾ ’’اور ایک رکاوٹ کھڑی کر دی گئی ان کے درمیان اور جو کچھ وہ چاہتے تھے ۔‘‘ ایک شخص ایک خوبصورت عورت کے عشق میں گرفتار ہو گیا ۔ یہ عورت غیر شادی شدہ تھی، اور ایک دن اس نے اس آدمی کو اپنے محل میں آنے پر اُکسایا کہ دونوں کی ملاقات ہوسکے ۔اس کا محل کافی فاصلے پر تھا اور اس نے یہ بھی بتایا کہ راستے میں تمہیں عجیب چیزیں دیکھنے کو ملیں گی لیکن تم ان کی پروانہ کرنا۔
یہ شخص چل کھڑا ہوا۔ راستے میں واقعی عجیب باتیں دکھائی دیں۔ دیکھا کہ راستے میں ایک آدمی جو کھڑے ہونے پر قادر نہ تھا، بیٹھا ہوا ہے ۔اس نے اس شخص کو دیکھ کر کہا:’’مجھے اُٹھنے میں مدد کرو۔‘‘ چنانچہ اس نے اسے اُٹھایا تو وہ بھاگ کھڑا ہوا پھر جب وہ محل میں پہنچا تو ایک دربان نظر آیا ، اس نے پوچھا کہ کیسے آئے ہو؟اس نےبتایا کہ تمہاری مالکن نے مجھے آنے کی دعوت دی ہے ۔دربان نے کہا کہ میں تو موت کا فرشتہ ہوں اور جس شخص کو تم نے راستے سے اٹھایا تھا، وہ تمہاری عمر تھی جو تمام کو پہنچ گئی تھی۔یہ کہا اور اس کی روح قبض کرلی۔
15.  بعض محدثین کا یہ کہنا کہ محدثین نبوی عمر پاتے ہیں، درست نہیں لگتا۔ اب دیکھیے کہ امام شافعی کی عمر صرف چوّن سال کی تھی۔ امام بخاری ساٹھ سے اوپر تھے۔ محدث طبرانی نے البتہ سو سال کی عمر پائی ۔ امام مسلم نے کتاب الأنبیاء میں نبی ﷺ کی عمر مبارک کے بارے میں دو قول لکھے ہیں: 63 اور 65 سال۔
63 سال اس اعتبار سے کہ مشرکین نَسِيء کے قائل تھے یعنی قمری ماہ کو شمسی تقویم کے برابر بنانے کے لیے ہر تین سال بعد ایک ماہ کا اضافہ کر دیا کرتے تھے اور یوں 63 سال میں 21 ماہ کا اضافہ ہو گیا۔ یعنی ایک سال اور نو ماہ کا ، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر نَسِيء کا اعتبار نہ کیا جاتا تو پھر اللہ کے رسول کی عمر 64 سال نو ماہ (تقریباً 65سال) شمار ہوتی۔
16.  مشہور حنفی عالم عبد الفتاح ابو غُدَّہ جن کا تعلق ملک شام سے ہے۔ ایک دفعہ حرم مکہ میں شیخ فتحی سے ملے تو کہا کہ آپ لوگ کیوں ہمیں (یعنی حنفیہ کو) مطعون کرتے رہتے ہیں جب کہ آپ کے اپنے شیوخ رکابیوں پر تعویذ لکھ کر دیتے تھے۔ غالباً ان کا اشارہ جماعت اہل حدیث کے چند مخصوص شیوخ کی طرف تھا۔
17.  کئی علماء نام نہاد بُیُوع کی بنیاد پر تجارتی قرضوں (یعنی بغرض انوسٹمنٹ) کو حلال قرار دے رہے ہیں اور وہ اس طرح کہ ایک شخص بنک کے توسط سے لوہے یا روئی کی ایک بڑی مقدار کی خرید کرتا ہے، فرض کیجیے کہ وہ اُنہیں ایک لاکھ ریال میں خریدتا ہے۔ یہ رقم ابھی اس نے بنک کو ادا نہیں کی ہے بلکہ اس کے ذمّے ہے، پھر بنک کے توسط ہی سے ایک دوسرا شخص اُسی مال کو یہ کہہ کر اسّی ہزار میں خرید لیتا ہے کہ قیمت اب گر چکی ہے، اور اس طرح آپ کے پاس اسّی ہزار ریال نقد موصول ہو گئے جب کہ آپ نے بنک کو پورے ایک لاکھ بعد میں ادا کرنے ہیں، اور یوں ایک سودی لین دین کو حیلہ سے جائز روا رکھا گیا ہے۔
18.  زندگی میں دو آدمی دیکھے جن کا دستر خوان بہت وسیع تھا: ایک بہار کے مولانا منظور الحق اور دوسرے شیخ عبدالعزیز بن باز ... بہار میں ایک پیر نے مکروفریب سے اپنا سکہ جما رکھا تھا۔ جب کبھی کوئی شخص اپنی مشکل لے کر آتا تو دروازے پر کھڑے اس کے خاص الخاص دربان اس شخص کا نام، پتہ اور مقصد نوٹ کر لیتے اور اس کے اندر داخل ہونے سے پہلے یہ سب معلومات پیر صاحب کو بھیج دیتے، جب مریض ان کے حجرہ میں پہنچتا تو وہ یہ ساری باتیں اسے بتا کر اس پر اپنا رعب جھاڑتے۔ مولانا مذکور نے اس کا توڑ کرنے کے لیے پیر صاحب کے پاس چار آدمیوں کوبھیجا جو گفتگو کے ماہر تھے ۔انہیں نصیحت کی کہ دربان کو غلط معلومات دینا اور جو بھی پہلے اندر جائے وہ پیر صاحب کی غلط بیانی کا بھانڈا پھوڑے، اور اگر پیر صاحب یا اس کے کسی مرید نے مارنے کی کوشش کی تو باقی تینوں بھی اندر چلے آئیں اور اس کی خاطر خواہ مرمت کر ڈالیں۔ اور یوں اس جعلی پیر کی اصلیت لوگوں کو معلوم ہو گئی۔
19.  تحضير الأرواح(روحوں کو حاضر )کرنے پربات ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ آدمی کا قَرین اس کا مرنے کے بعد اس کی قبر پر ہی رہتا ہے تا کہ روزِ قیامت اس کے ساتھ اُٹھایا جا سکے۔ انہوں نے میری اس بات کی تائید کی کہ شرکیہ اوراد اور اعمال کے ساتھ جن کی تسخیر نہیں ہو سکتی۔
20.  چڑیا کی چہچہاہٹ سن کر ایک مسلمان کا کہنا:          اللہ تیری قدرت
اور ایک پنڈت کہتا ہے:                                  اوم تیری قدرت
اور ایک پہلوان کہتا ہے:                         ڈنڈوت، ڈنڈوت
اور ایک سبزی فروش کہتا ہے:                     پیاز ، سبزی، ادرک
21.  حاشیہ ابن عابدین میں امام ابوحنیفہ﷫ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ کعبہ میں داخل ہوئے تو ایک رکعت میں ، ایک پیر پر کھڑے نصف قرآن اور دوسری رکعت میں ، دوسرے پیرپر باقی نصف قرآن پڑھ ڈالا اور کہا کہ اللہ !میں تیری خدمت نہیں بجالایا ۔ہاتف غیب سے آواز آئی کہ اس سے بڑھ کر اور کیا خدمت ہو گی!(أو كما قال) حاشیہ نگار نے لکھا کہ امام صاحب کا یہ فعل خلاف سنت تھا۔
22.  سید رشید رضا نے اپنی کتاب الوحي المحمدی میں ہندوستان کے ایک پنڈت کا واقعہ لکھا ہے کہ وہ نتھنوں اور کانوں میں کافور لگا کر چالیس روز کے لیے دفن ہو جاتا تھا اور پھر جب نکالا گیا اور گرم پانی سے اسے نہلایا گیا تو وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ شیخ صغیر احمد کا خیال ہے کہ یا تو یہ واقعہ جھوٹا ہے یا وہ پنڈت شیطان سے مدد لے کر کھاتا پیتا ہو گا۔ کہا کہ کافور کی خاصیت ہے کہ وہ مردے کے بدن میں جان ڈال دیتی ہے۔
23.  مرزا غالب ماہِ رمضان میں ایک بند کوٹھری میں کھایا پیا کرتے تھے - کسی شخص نے کہا کہ اس حدیث میں شک معلوم ہوتا ہے کہ جس میں یہ کہا گیا ہے کہ رمضان میں شیطان کو بند کر دیا جاتا ہے- تو مرزا غالب نے کہا: حدیث پر شک نہ کرو، یہی تو وہ کوٹھری ہے جس میں شیطان کو بند کیا جاتا ہے۔ غدر کے ہنگامے میں غالب بھی پکڑے گئے- انگریز نے پوچھا کہ تمہارا مذہب کیا ہے.؟ تو کہنے لگے: آدھا مسلمان ہوں اورآدھا عیسائی! اس نے پوچھا کہ وہ کیسے؟ تو بولے کہ شراب پیتا ہوں اور سؤر نہیں کھاتا۔
24.  قصبہ مظفر پور( بہار) کے ریلوے اسٹیشن پر دو پلیٹ فارم ہیں جن کے درمیان ایک مسجد قائم ودائم ہے۔ اس کا قصہ یہ ہے کہ برطانوی دور میں جب یہاں اسٹیشن بن رہا تھا تو قصبے کے کلکٹر نے مسلمانوں سے کہا کہ اس مسجد کو گرانا ضروری ہے، ہم تمہارے لئے دوسری جگہ مسجد کھڑی کر دیتے ہیں، لیکن مسلمان اس بات کے لیے تیار نہ تھے۔کلکٹر نے کہا کہ کسی عالم کو بھیجو، ہم اس سے بات کرتے ہیں۔ چنانچہ مولانا عبدالعظیم رحیم آبادی کو بھیجا گیا۔ کلکٹر نے مولانا کو سمجھانے کی کوشش کی اور کہا کہ تم عالم ہو کر بھی اس بات پر اصرار کرتے ہو کہ مسجد نہیں گرائی جائے گی تو مولانا نے کہا: اچھا تم یہ بتاؤ کہ اگر میں تم سے یہ مطالبہ کروں کہ جو سُوٹ تم پہنتے ہو، اُسے اتار دو اور الف ننگے ہو کر میرے ساتھ بازار چلو، میں تمہیں دوسرا سُوٹ دلوا دیتا ہوں تو کیا ایسا کر سکو گے؟ بولا کہ ایسا تو نہیں ہو سکتا تو مولانا نے کہا: تو پھر اللہ کے گھر کو بھی ننگا نہیں کیا جا سکتا۔
یہ بات کلکٹر کی سمجھ میں آ گئی چنانچہ ریلوے لائن کو مسجد کے دونوں اطراف سے گزار دیا گیا۔
25.  حدیث «اعمل لدنياك كأنك تعيش أبدًا، واعمل لآخرتك كأنك تموت غدا»
’’اپنی دنیا کے لیے ایسے کام کرو جیسے تم ہمیشہ ہمیشہ رہو گے اور اپنی آخرت کے لیے ایسے کام کرو جیسے تم کل ہی مر جانے والے ہو۔ ‘‘
یہ حدیث شیخ البانی کی سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ کی پہلی جلد میں موجود ہے لیکن لا أصل له ![1]
26.  مولانا ابوالاشبال   نے بتایا کہ آپ کا 1971ء کا ایک سال مولانا عبدالرحیم اشرف کے جامعہ تعلیماتِ اسلامیہ لائل پور میں بحیثیت ِمدرّس گذارا ہے لیکن پھر ملیریا کی بنا پر آب وہوا کو ساز گار نہ پایا تو وہاں سے چلا آیا۔
یہ بات اُنہوں نے حیاتِ نذیر حسین دہلوی (قرة العينين في حياة نذير حسين) کے دیباچہ میں لکھی یا تعلیقاتِ سلفیہ میں۔
27. سحر( جادو) صرف تخیل کا نام ہے یعنی دیکھنے والے کو وہ کچھ دکھائی دیتا ہے جو حقیقت میں نہیں ۔ ایک جادو گر کا واقعہ ہے جس کے سامنے ایک بھاری تنا پڑا ہوا تھا اور وہ کہتا تھا کہ میں اسے کندھے پر اٹھا سکتا ہوں۔ لوگوں سے کہتا کہ اسے اُٹھا کر میرے کندھے پر رکھ دو، لوگ کہتے کہ ہم اسے کیسے اُٹھا سکتے ہیں؟
اور پھر لوگوں نے دیکھا کہ اس نے واقعی اس بھاری تنے کو اپنے کندھے پر اٹھا لیا ہے، وہاں ایک دوسرا بڑا جادو گر بھی موجود تھا- اس نے اس جادو گر کے جادو کو زائل کر دیا تو لوگوں نے دیکھا وہ تو اس تنے پر ایسے بیٹھے ہوا تھا جیسے گھوڑے کے پیٹھ پر بیٹھتے ہیں، اور اپنے دونوں پر ہلا رہا تھا۔
28. ایک خبر اخبار کے توسط سے علم میں آئی کہ ایک عورت ایک عالم کے پاس آئی اور اس سے پوچھا کہ آیا اس کی توبہ قبول ہوئی یا نہیں؟ اُنہوں نے کہا کہ توبہ کیوں نہ قبول ہو گی! تو اس نے بتایا کہ میرا جرم بہت ہی سنگین ہے۔ میں غسّالہ ہوں اور عورتوں کو نہلاتے وقت ان کی شرمگاہوں میں وہ جادو چھپا دیتی تھی جو لوگ ایک دوسرے پر کیا کرتے تھے تا کہ وہ قبر ہی میں دفن ہو جائے اور کوئی اس کا توڑ نہ کر سکے۔
29.ایک شخص امام جعفر صادق کی زیارت کے لیے روانہ ہو رہا تھا۔ اس کے دوست نے کہا کہ میری ایک درخواست امام صاحب تک پہنچا دینا اور وہ یہ کہ آیا میں جنتی ہوں یا جہنمی! اس شخص نے کہا کہ اس بات کا علم صرف اللہ کو ہے! چنانچہ اس نے بالآخر امام صاحب سے پوچھ ہی لیا تو اُنہوں نے کہا کہ واقعی مجھے اس بات کا قطعاً علم نہیں ہے۔ یہ کہنے لگا کہ میرا دوست تو یقین رکھتا ہے کہ آپ کو واقعی اس بات کا علم ہے؟
امام صاحب نے کہا کہ اگر واقعی وہ یہ اعتقاد رکھتا ہے تو اسے کہہ دو کہ وہ جہنمی ہے۔ اس آدمی نے واپس آ کر ساری بات اپنے دوست کو بتا دی تو اس کا دوست کہتا ہے: نہیں! امام صاحب کو معلوم تھا لیکن وہ تقیہ کر گئے اور اس لیے کہ تم سُنّی ہو اور وہ سُنی کو بتانا نہیں چاہتے تھے۔
30. بہار کے ایک شہر میں ہندوؤں کا ایک مندر دیکھا جس میں باقاعدہ مرد اور عورت کے اعضاے خصوصی بنا کر رکھے گئے ہیں۔لاولد عورتیں وہاں جا کر مرد کے عُضو کو ہلاتی ہیں تا کہ اُنہیں بھی اولاد حاصل ہو۔
سندھ میں ایک پیر صاحب کی قبر ہے جس کی پائنتی کی جانب ایک ٹیڑھی لیکن لمبی سی ایک اور قبر بھی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ دوسری قبر پیر صاحب کے عضوِ مخصوص کی ہے!
31. جدہ میں اماں حوّا کی قبر پائی جاتی ہے اور اس سے ایک روایت منسوب کی جاتی ہے کہ قبر کے چاروں طرف ایک احاطہ تھا تو جدہ کے امیر کو یہ خواب آیا کہ اماں حوّا اس سے مخاطب ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ یہ احاطہ کیوں بنوا دیا؟ لوگ جب میرے سینے پر چلتے تھے تو مجھے خوشی محسوس ہوتی تھی، چنانچہ امیر نے وہ احاطہ گرا دیا۔ یہ کوئی قدیم روایت ہو گی کیونکہ موجودہ جائے قبر پر ایک وسیع وعریض احاطہ موجود ہے!
حوالہ جات:
[1]    سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ:1؍63 رقم : 8 (ادارہ)