کفریہ معابد کی تعمیر وتجدید اور شریعتِ اسلامیہ
مسلم حکومت کا اوّلین مقصد اللہ تعالیٰ کی بندگی وطاعت کوفروغ دینا اور کلمۃ اللہ کی سربلندی کی جدوجہد کرنا ہے جیسا کہ سورۃ الحج :41میں مسلم حکومت کے مقاصد میں صلوٰۃ وزکوۃ کی اقامت کرنا اور اللہ کے بتاے ہوئے معروف کو جاری اور منکرات کا خاتمہ کرنا شامل ہے۔ اسی طرح نبی کریمﷺ نے یمن میں جب اپنے حاکم سیدنا معاذ کو بھیجا تو ان کو سب سے پہلے کلمہ توحید کے فروغ کی تلقین کی ۔ پاکستان کا مقصد بھی بانی پاکستان کی زبانی ’دور حاضر میں اسلامی حکومت کا قیام‘ ہے اور دستورِ پاکستان میں بھی قراردادمقاصد کا مؤثر حصہ اس کی تاکید اور مستقل قانونی بنیاد فراہم کرتا ہے۔موجودہ حکومت بھی ریاستِ مدینہ کے قیام کی مسلسل تکرار کرتی رہتی ہے۔
دوسری طرف عمران حکومت کےتحت، اسلام اور مسلمانوں کی بجائے، غیرمسلموں کی پذیرائی، کفریہ شعائر کا فروغ اور اُن کے لئے آئے روز نت نئی سہولیات متعارف کرائی جارہی ہیں۔9؍نومبر 2019ء کو عمران خان نے خالی قومی خزانے سے ڈیڑھ ارب کی خطیر رقم صرف کرکے، کرتارپور راہدی کھول کر سکھ مذہب کی خود ساختہ توحید وتصوف کے فروغ کے لئے اہم سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے۔ نیز ننکانہ صاحب میں قیام پاکستان سے پہلے کا متروکہ گوردوارہ بھی تزئین وآرائش کے بعد سکھوں کے لئے کھول دیا گیا ہے۔سکھ مت کے بانی باباگرونانک نے پانچ صدیاں قبل اپنی زندگی کے آخری 18 سال یہاں گزارےاور یہاں ہی ان کی راکھ اُڑائی گئی، اس ناطے کرتارپور کوسکھوں کے ہاں غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے۔ اس موقع پر یادگاری ٹکٹ اور یادگاری سکہ بھی حکومت نے جاری کیا ہے۔کرتار پور میں ماضی کا 4 ایکڑ پر قائم گوردوارہ اب 800 ایکڑ کو محیط ہوگا، اور یہ دنیا کا سب سے بڑا گوردوارہ ہوگا۔ بابا گرونانک یونیورسٹی کے لئے بھی 400 ایکڑ اراضی مختص کی گئی ہے۔یہ تمام اخراجات وآمدن وزارت اوقاف ومذہبی امور کے تحت کئے جارہے ہیں۔ اس طرح قومی خزانے میں کفر وشرک کی 20ڈالر فیس مقرر کرکے ،حرام ذرائع آمدن کو راستہ دیا جارہا ہے۔
ننکانہ صاحب میں ہی بابا گرونانک یونیورسٹی قائم کرکے، سکھ ازم کے فروغ اور ہندوانہ تصوف کے پرچار کو باقاعدہ قومی نظام تعلیم میں داخل کرنے کی ناروا کوششیں بھی جاری ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے اورینٹل کالج کی طرح دیگر قومی جامعات میں بھی ’باباگرونانک ریسرچ چیئر ز‘قائم کی جار ہی ہیں۔ پاکستان میں سکھوں کی پذیرائی کی دیکھا دیکھی ہندؤں اور عیسائیوں نے بھی اپنے مذہبی مطالبے دہرانے شروع کردیے ہیں۔
دوسری طرف انڈیا کے شہر ایودھیا میں عین اسی روز 9 نومبر کو، پانچ صدیاں قبل تعمیر ہونے والی تاریخی بابری مسجد کی شہادت کے متعصّبانہ اقدام کو غیر قانونی قرار دینے کے باوجودسپریم کورٹ کے پانچ ججوں نے اپنے فیصلے میں مسلمانوں کو یہاں سے بے دخل کرکے بیس کلومیٹر دور دیہات میں پانچ ایکڑ جگہ دینے کی منظوری دی ہے۔ کورٹ نے تین ماہ کے اندر اندر اسی تاریخی مقام پر ہندو مندر کی تعمیر کا حکم بھی دیا ہے۔ حالانکہ اس بابری مسجد کے تحفظ پر گزشتہ صدی میں تین مرتبہ جہادی معرکے ہوچکے ہیں، اس میں رام کی جنم بھومی ہونے کی کوئی دلیل بھی مستند نہیں، آثارِ قدیمہ کے ماہرین اور تاریخی ومذہبی حقائق سے کسی ہندوانہ دعوے کی تصدیق نہیں ہوتی۔ (تفصیل کے لئے اُردو ڈائجسٹ :دسمبر 2019ءمیں تحقیقی مضمون دیکھیں)
نبی کریمﷺ نے جزیرہ عرب سے مشرکوں کو نکال دینے کا واضح حکم ارشاد فرمایا،اور اس کی تعمیل میں سیدنا عمر نے اپنے دور حکومت میں خیبر کے یہودیوں کو یہاں سے نکل جانے کا حکم دیا تھا۔ اِن دنوں جزیرہ عرب میں امارات کی مسلم حکومت بھی واضح دینی احکام اور چودہ صدیوں کی مسلم روایات کو پس پشت ڈالتے ہوئے یہودیوں اور عیسائیوں کی نازبرداریوں میں مشغول ہے۔ ابوظہبی کے جزیرے السعدیات میں تینوں مذاہب : اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے یکجا لیکن مستقل معابد تعمیر کئے جارہے ہیں۔ 2020ء میں تیار ہوجانے والے اس عظیم کمپلیکس میں چوتھی عمارت دیگر مذاہب سے وابستہ لوگوں کے لئے تعمیر کی جارہی ہے۔ اس سے قبل بھی امارات وقطر کے مختلف شہروں میں عیسائی گرجے موجود ہیں۔
اندریں حالات اس امر کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ مسلم علاقوں میں کفار کے معابد، ان کی علامات و شعائر اور ان کی دعوت کے بارے میں شریعتِ مطہرہ کے احکام کو تازہ کیا جائے۔ تاکہ اللہ تعالیٰ کی حجت حکام وعوام پر تمام ہو، اور ہر مسلمان ربّ کریم کے حضور اپنے اقدام اور رویّے کی جواب دہی کے لئے تیار رہے۔ وما علینا إلا البلاغ ح۔م
انسانوں میں فرق وتفریق صرف اپنے خالق ذو الجلال اللّٰہ عزوجل کی بندگی وطاعت کی بنا پر ہونی چاہیے اور نسل و وطن اور زبان ورنگت سے قطع نظر انسانوں کی تقسیم بزبانِ قرآن صرف حِزب الله اور حزب الشیطان کے طو ر پر ہونی چاہیے۔ واضح ہے کہ کسی انسان پر اسلام کو قبو ل کرنے میں کوئی جبر نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم ہر شخص جس دین كومانتا ہو، اس کو اس پر ہی کاربند ہونا، اسی کی علامات وشعائر کو اختیار کرنا، اور اس جیسا ہی نظر آنا چاہیے۔ دوسروں کو مغالطہ دینے اور اپنے اعتقاد کے برخلاف دِکھنا اعتقادی کمزوری، مغالطہ آرائی اور دھوکہ دہی کے مترادف ہے۔ اسلام کی رو سے مسلمانوں اور كفار، ہردو کیلئے ایک دوسرے کی مشابہت حرام ہے اور اس کی اصل وجہ تذلیل وحقارت کی بجائے اپنے اپنے نظریہ وایمان پر اعتماد واظہار کا شرعی مطالبہ ہے۔
مزید برآں اسلام کی رو سے کفار کا مسلمانوں کے ساتھ رہائش پذیر اور آباد ہونا جائز ہے، جبکہ مسلمان اپنے حاکم کو زکوٰۃ اور کفا ر معمولی (قابل معافی) جزیہ ادا کریں گے۔ پھر کفار مسلمانوں کے ساتھ رہائش رکھتے ہوئے، اپنے عقائد وعبادات پر بھی عمل پیرا ہوسکتے ہیں۔ اور عبادات پر عمل پیرا ہونے کے لئے ان کی عبادت گاہیں بھی باقی رکھنے کی اجازت ہے، جیسا کہ سورۃ الحج کی آیت : 40میں الہامی مذاہب کے معابد کا یہ حق بیان ہوا ہے کہ ان کو منہدم نہ کیا جائے۔ تاہم اس آیت کا مدعا ان معابد کے تحفظ و بقا یعنی انہدام اور تذلیل وتحقیر سے حفاظت تک ہی محدود ہے اورکفار کو اس امر کی اجازت نہیں کہ وہ ایسے بلادِ اسلامیہ میں جہاں مسلمان قیام پذیرہوں، اپنے نئے معابد کی تعمیر کریں یاسابقہ کی تزئین وآرائش کریں۔ اسی طرح مسلمانوں کے ساتھ رہتے ہوئے اپنے عقائد وعبادات کو نمایاں کرکے مسلمانوں کو متاثر کرنے یا کفر کو قبول کرنے کی دعوت
[1] دیں۔ کیونکہ مسلمان کے لئے ارتداد ایک سنگین جرم ہے۔ اور اس کے امکانات اور راستوں کا سد باب کرنا بھی ضروری ہے۔
چنانچہ کفار کے لئے اجماعی طور پر اس امر کی شرعاً اجازت نہیں کہ وہ بلادِ اسلامیہ میں اپنے نئے معابد کی تعمیر کریں، یا ان کی تجدید وآرائش کریں اورمسلمانوں کو اپنے مذہب سے متاثر کرنے کی دعوت دیں۔ ایسے ہی مسلم حکومت کے لئے بھی جائز نہیں کہ توحید ورسالت ، عدل و جہاداوراقامتِ دین کی دعوت کو پس پشت ڈال کرکفریہ معابد کے فروغ وتزئین میں مسلمانوں کے اَموال صرف کرے۔ پھر اپنی نظریاتی ہزیمت اور استعداد وصلاحیت کی کمزوری کو کبھی انسانی حقوق اور کبھی رواداری کے پردوں میں چھپا ئے اور کبھی اس کو قومی وسیع تر مفادات اور گہری تدبیر کا نام دے۔
کفریہ معابد کی تعمیر وتجدید اور عقائد کے فروغ کی اکثر صورتیں اجماعی طور پر حرام اور ناجائز
[2] ہیں ،صرف معاہدہ صلح کی صورت میں ایسے معابد کی بقا وتحفظ شرعی تقاضا ہے۔ اور بعض صورتوں میں بلاد ِاسلامیہ میں کفریہ معابد کی بقا وتحفظ شرعی اور ملی مصلحت کے تابع ہے۔ تاہم مصالحت اور مفاہمت کے دائرے ان بنیادی اعتقادی اساسات کو منہدم نہیں کرتے جن پر مسلمانوں کے جملہ انفرادی اور اجتماعی احکام وہدایات کا انحصار ہو۔ جس طرح مصالحت ومفاہمت کے لئے وقتی طور پر بظاہر نچلی شرائط کوبھی قبول کیا جاسکتا ہے لیکن مسلم معاشرہ میں عقیدہ توحید ورسالت پر مفاہمت اور شرک وبدعات کا فروغ کسی صورت گوارا نہیں کیا جاتا۔ اسلامی احکام اور مسلم تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
جس طرح حسبِ ضرورت کسب معاش کے لئے خواتین کےگھروں سے باہر نکلنے کو قبول کرنا اور سنگین مجبوری کی صورتوں میں اُنہیں کبھی عملی جہاد میں بھی شامل کرنا پڑتا ہے لیکن کسی بھی صورت میں ملی مفاد کے نام پر مسلم خواتین کی عزت کی نیلامی گوارا نہیں کی جاتی۔ یہی صورت ان بنیادی اسلامی عقائد ونظریات کی ہے ، جن کو ملی مفادات کے نام پر قربان نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح سابقہ کفریہ معابد کو گوارا تو کیا جاسکتا ہے لیکن بلاد اسلامیہ میں ان کے فروغ اورتجدیدوتزئین کا معاہدہ نہیں ہوسکتا، کیونکہ یہ کفر وشرک کے ساتھ ناجائز تعاون ہے۔
﴿وَتَعاوَنوا عَلَى البِرِّ وَالتَّقوى وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدونِ وَاتَّقُوا اللَّهَ ... ﴿٢﴾... سورة المائدة
قرآن کریم اور احادیثِ نبویہﷺ
1. قرآنِ کریم میں اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَلَولا دَفعُ اللَّهِ النّاسَ بَعضَهُم بِبَعضٍ لَهُدِّمَت صَومِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوتٌ وَمَسـجِدُ يُذكَرُ فيهَا اسمُ اللَّهِ كَثيرًا وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِىٌّ عَزيزٌ ﴿٤٠﴾... سورة الحج
’’ اور اگر اللّٰہ تعالیٰ ایک دوسرے کے ذریعہ لوگوں کی مدافعت نہ کرتا رہتا تو خانقاہیں، گرجے، عبادت گاہیں اور مساجد جن میں اللّٰہ کو کثرت سے یاد کیا جاتا ہے، مسمار کر دی جاتیں۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں مولانا مفتی محمد شفیع لکھتے ہیں:
’’جتنے دین و مذہب دنیا میں ایسے ہوئے ہیں کہ کسی زمانے میں ان کی اصل بنیاد اللّٰہ کی طرف سے اور وحی کے ذریعہ سے قائم ہوئی تھی پھر وہ منسوخ ہوگئے اور ان میں تحریف ہو کر کفر و شرک میں تبدیل ہوگئے مگر اپنے اپنے وقت میں وہی حق تھے۔ ان سب کی عبادت گاہوں کا اس آیت میں ذکر فرمایا ہے کیونکہ اپنے اپنے وقت میں ان کی عبادت گاہوں کا احترام اور حفاظت فرض تھی اوران مذاہب کے عبادت خانوں کا ذکر نہیں فرمایا جن کی بنیاد کسی وقت بھی نبوت اور وحی الٰہی پر نہیں تھی جیسے آتش پرست مجوس یا بت پرست ہندو کیونکہ ان کے عبادت خانے کسی وقت بھی قابل احترام نہ تھے۔
’’آیت میں صَوَامِعُ، صومعہ کی جمع ہے جو نصاریٰ کے تارک الدنیا راہبوں کی مخصوص عبادت گاہ کو کہا جاتا ہے اور بِیعة کی جمع بِیَع ہے جو نصاریٰ کے عام کنیسوں کا نام ہے اور صَلَوٰتٌ صلوت کی جمع ہے جو یہود کے عبادت خانہ کا نام ہے اور مَسجد مسلمانوں کی عبادت گاہوں کا نام ہے۔
مطلب آیت کا یہ ہے کہ اگر کفار سے قتال و جہاد کے احکام نہ آتے تو کسی زمانے میں کسی مذہب و ملت کے لئے امن کی جگہ نہ ہوتی۔ موسیٰ کے زمانے میں صلوٰت اور عیسیٰ کے زمانے میں صوامع اور بیع اور خاتم الانبیا ﷺکے زمانے میں مسجدیں ڈھا دی جاتیں ۔(قرطبی)‘‘
اس آیتِ کریمہ میں جہاد اسلامی کے مقصد : ہردور کے الہامی مذاہب (جو اپنے وقت میں اسلام کہلاتے تھے) کی عبادت گاہوں کے تحفظ کو بیان کیا گیا ہے اور اس کا مقصدمعابد کو انہدام اور تذلیل وتحقیر سے بچانا ہے۔ چنانچہ بلادِ اسلامیہ میں اگر ذمی آباد ہوں تو ان کی عبادت گاہوں کو منہدم نہیں کیا جائے گا۔ حافظ ابن قیم نے اسکی تفسیر میں سیدنا حسن بصری کا قول ذکر کیا ہے: يُدفع عن مصلّيات أهل الذمة بالمؤمنين
[3] ’’مؤمنوں کے ذریعے اہل ذمّہ کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی جائے گی۔‘‘
امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں مالکی فقیہ محمد بن خویز منداد بصری (م390ھ) کی یہ جامع تفسیر لکھی ہے:
تضمَّنت هذه الآية المنْع من هدْم كنائس أهل الذِّمة، وبيعهم وبيوت نيرانهم، ولا يُتركون أن يُحدثوا ما لَم يكن، ولا يزيدون في البُنيان لا سَعة ولا ارتفاعًا. ولا ينبغي للمسلمين أن يدخلوها ولا يُصَلُّوا فيها. ومتى أحْدَثوا زيادة، وجَب نقْضها، ويُنْقَض ما وُجِد في بلاد الحرب من البيَع والكنائس، وإنما لَم يُنْقض ما في بلاد الإسلام لأهل الذِّمة؛ لأنها جرَت مَجرى بيوتهم وأموالهم التي عاهَدوا عليها في الصيانة، ولا يجوز أن يُمكَّنوا من الزيادة؛ لأن في ذلك إظهار أسباب الكفر".
[4]
’’یہ آیت کریمہ اہل ذمہ ؍ کفار کے کنیسوں، گرجاؤں اور آگ جلانے کے مراکز گرانے کی ممانعت پر مشتمل ہے۔ تاہم اُنہیں اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ پہلے سے غیر موجود معبد کی تعمیر کریں، نہ ہی وہ موجودہ تعمیر یا اس کی بلندی اور وسعت میں اضافہ کرسکتے ہیں۔
اور مسلمانوں کے لئے یہ جائز نہیں کہ ان کفریہ معابد میں داخل ہوں اور وہاں نماز پڑھیں۔ جب بھی کفار کوئی اضافہ کریں تو اس کو گرا دینا لازمی ہے۔ اسی طرح جنگی شہروں اور (سیاسی طور پر حساس بلاد اسلامیہ) میں گرجے اور کنیسے بھی گرادیے جائیں گے، تاہم عام بلاد اسلامیہ کے معابد کو منہدم کرنا درست نہیں۔کیونکہ یہ گرجے ان کے گھروں اور اَموال کے قائم مقام ہیں، جن کی حفاظت کا ذمہ مسلمانوں نے لیا ہے۔ تاہم انہیں کسی مزید اضافے کی اجازت نہیں، کیونکہ اس طر ح کفرکے اسباب ووسائل کے غلبہ کا اظہار ہوتا ہے۔‘‘
الغرض اس آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ
a. اس سے نئے کفریہ معابد کی تعمیر یا سابقہ معابد کی تجدید وتزئین پر استدلال نہیں کیا جاسکتا..جو بلادِ اسلامیہ میں بالاجماع حرام ہیں بلکہ یہ آیت انہدامِ معابد کی حرمت کے عمومی اُصول تک محدود ہے۔
b. کفریہ معابد کے احکام میں سے ایک صورت کو یہاں بیان کیا گیا ہے۔ ہر حال میں ان کا تحفظ کرنا ضروری نہیں اور جہاد کے دوران یا مسلم حاکم دیگر شرعی مصالح کے تحت اُنہیں منہدم بھی کرسکتا ہے۔
[5]
2.
﴿وَلا تَسُبُّوا الَّذينَ يَدعونَ مِن دونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدوًا بِغَيرِ عِلمٍ كَذلِكَ زَيَّنّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُم ثُمَّ إِلى رَبِّهِم مَرجِعُهُم فَيُنَبِّئُهُم بِما كانوا يَعمَلونَ ﴿١٠٨﴾... سورة الأنعام
’’اور تم لوگ برا نہ کہو ان کو جن کی یہ پرستش کرتے ہیں اللّٰہ کے سوا ۔پس وہ برا کہنے لگیں گے اللّٰہ کو بےادبی سے، بدون سمجھے۔ اسی طرح ہم نے مزین کردیا ہر ایک فرقہ کی نظر میں ان کے اعمال کو۔ پھر ان سب کو اپنے ربّ کے پاس پہنچنا ہے تب وہ جتلا دے گا ان کو جو کچھ وہ کرتے تھے۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں مولانا حافظ صلاح الدین یوسف ﷾لکھتے ہیں:
’’ یہ سد ذریعہ کے اُصول پر مبنی ہے کہ اگر ایک درست کام، اس سے بھی زیادہ بڑی خرابی کا سبب بنتا ہو تو وہاں اس درست کام کا ترک راجح اور بہتر ہے۔ اسی طرح نبی ﷺنے فرمایا کہ تم کسی کے ماں باپ کو گالی مت دو کہ اس طرح تم خود اپنے والدین کے لئے گالی کا سبب بن جاؤ گے ۔ (صحیح مسلم) ‘‘
اس آیتِ کریمہ سے بھی کفار کے لئے اپنے عقائد وعبادات پر اس طرح برقرار رہنے کا جواز ہی معلوم ہوتا ہے جس سے دوسرے مسلمان متاثر نہ ہوں اور مسلمانوں کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ وہ کفریہ شعائر کی تذلیل وتحقیر نہ کریں ۔ تاہم مسلمانوں کے ساتھ رہنے والے ذمی اگر اللہ تعالیٰ ، انبیاے کرام کو سبّ وشتم اور شعائر اسلام کی تحقیر کریں تو ان کے لئے اس کی اجازت نہیں اور سزا کے ساتھ ان کا عہد ذمہ ختم ہوجائے گا۔
خلفاے اسلام جب کوئی لشکر جہاد ِفی سبیل اللّٰہ کے لئے روانہ کرتے تو اس کے کمانڈر کو جہاد کے آداب کے متعلق باقاعدہ ہدایات دیتے تھے۔ چنانچہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے جب اُسامہ بن زیدؓ کو ایک لشکر کا سپہ سالار بناکر بھیجا تو اُنہیں یہ وصیت کی:
إني موصیك بعشر: لا تقتلن امرأة ولا صبیا ولا کبیرًا هرمًا ... وسوف تمرُّون بأقوام قد فرّغوا أنفسهم في الصوامع فدعوهم وما فرّغوا أنفسهم له.
[6]
’’میں تمہیں دس باتوں کی تاکید کرتا ہوں: کسی عورت، بچے اور بوڑھے کو قتل نہ کرنا، پھل دار درخت نہ کاٹنا اور نہ ہی تخریب کاری کرنا، سوائے کھانے کے کوئی اونٹ یا بکری ذبح نہ کرنا، کھجور کے باغات کو ڈبونا ،نہ اُنہیں جلانا، خیانت کا ارتکاب نہ کرنا، بزدلی نہ دکھانا۔ تم ایسے لوگوں کے پاس سے گزرو گے جو معبدوں میں گوشہ نشین ہوگئے ہیں، ان سے اور ان کے کام سے تعرض نہ کرنا۔‘‘
3. نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان سنن ابوداود اور جامع ترمذی میں سیدنا عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے :
« لَا تَصْلُحُ قِبْلَتَانِ بِأَرْضِ وَلَا جِزْيَةٌ عَلَى مُسْلِمٍ».
[7]
’’کسی سرزمین میں دو قبلے نہیں ہوسکتے، اور مسلمان پر کوئی جزیہ نہیں ۔ ‘‘
نبی کریم ﷺ کایہی فرمان مختلف الفاظ کے ساتھ یوں بھی ہے :
«لا تكون قبلتان في بلد واحد».
[8]
’’ایک علاقے میں دو قبلے نہیں ہوسکتے۔‘‘
4. شام کے عیسائیوں سے طے پانے والی 24 شروطِ عمریہ میں سیدنا عمر بن خطاب نے یہاں سے آغاز کیا اور اسی پر صحابہ کرام کا اجماع ہوا کہ
شَرَطْنَا لَكُمْ عَلَى أَنْفُسِنَا أَنْ لَا نُحْدِثَ فِي مَدِينَتِنَا وَلَا فِيمَا حَوْلَهَا دَيْرًا وَلَا كَنِيسَةً وَلَا قَلَّايَةً وَلَا صَوْمَعَةَ رَاهِبٍ وَلَا نُجَدِّدَ مَا خَرِبَ مِنْهَا وَلَا نُحْيِيَ مَا كَانَ مِنْهَا فِي خُطَطِ الْمُسْلِمِينَ...[9]
’’ہم اپنے اوپر لازم کرتے ہیں کہ (1) اپنے شہروں اور ان کے گرد ونواح میں کوئی عليحده گرجا، كنيسا،بلند گرجا اور راہب کا معبد خانہ نہیں بنائیں گے اور (2) اپنے خراب شدہ کنیساؤں کی تجدید نہیں کریں گے، نہ ہی ان کنیساؤں کی جو مسلمانوں کے علاقوں میں ہیں۔‘‘
شروطِ عمریہ کی تشریح اور ہر دور میں اس کی عمل داری کی نشاندہی کرتے ہوئے امام ابو العباس احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ (م 728ھ) اس کی مشروعیت و معقولیت واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
كَ
مَا جَدَّدَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ فِي خِلَافَتِهِ وَبَالَغَ فِي اتِّبَاعِ سُنَّةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ حَيْثُ كَانَ مِنْ الْعِلْمِ وَالْعَدْلِ وَالْقِيَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ بِمَنْزِلَةِ مَيَّزَهُ اللَّهُ تَعَالَى بِهَا عَلَى غَيْرِهِ مِنْ الْأَئِمَّةِ وَجَدَّدَهَا هَارُونُ الرَّشِيدُ وَجَعْفَرٌ الْمُتَوَكِّلُ وَغَيْرُهُمَا وَأَمَرُوا بِهَدْمِ الْكَنَائِسِ الَّتِي يَنْبَغِي هَدْمُهَا كَالْكَنَائِسِ الَّتِي بِالدِّيَارِ الْمِصْرِيَّةِ كُلِّهَا. فَفِي وُجُوبِ هَدْمِهَا قَوْلَانِ: وَلَا نِزَاعَ فِي جَوَازِ هَدْمِ مَا كَانَ بِأَرْضِ الْعَنْوَةِ إذَا فُتِحَتْ. وَلَوْ أَقَرَّتْ بِأَيْدِيهِمْ لِكَوْنِهِمْ أَهْلَ الْوَطَنِ كَمَا أَقَرَّهُمْ الْمُسْلِمُونَ عَلَى كَنَائِسَ بِالشَّامِ وَمِصْرَ ثُمَّ ظَهَرَتْ شَعَائِرُ الْمُسْلِمِينَ فِيمَا بَعْدُ بِتِلْكَ الْبِقَاعِ بِحَيْثُ بُنِيَتْ فِيهَا الْمَسَاجِدُ: فَلَا يَجْتَمِعُ شَعَائِرُ الْكُفْرِ مَعَ شَعَائِرِ الْإِسْلَامِ كَمَا قَالَ النَّبِيُّ ﷺ «لَا يَجْتَمِعُ قِبْلَتَانِ بِأَرْضِ» وَلِهَذَا شَرَطَ عَلَيْهِمْ عُمَرُ وَالْمُسْلِمُونَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ - أَنْ لَا يُظْهِرُوا شَعَائِرَ دِينِهِمْ. وَأَيْضًا فَلَا نِزَاعَ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ أَنَّ أَرْضَ الْمُسْلِمِينَ لَا يَجُوزُ أَنْ تُحْبَسَ عَلَى الدِّيَارَاتِ وَالصَّوَامِعِ وَلَا يَصِحُّ الْوَقْفُ عَلَيْهَا بَلْ لَوْ وَقَفَهَا ذِمِّيٌّ وَتَحَاكَمَ إلَيْنَا لَمْ نَحْكُمْ بِصِحَّةِ الْوَقْفِ. فَكَيْفَ بِحَبْسِ أَمْوَالِ الْمُسْلِمِينَ عَلَى مَعَابِدِ الْكُفَّارِ الَّتِي يُشْرَكُ فِيهَا بِالرَّحْمَنِ وَيُسَبُّ اللَّهُ وَرَسُولُهُ فِيهَا أَقْبَحَ سَبٍّ.[10]
’’خلیفہ عمر بن عبد العزیز نے اپنے خلافت میں ان کی تجدید کی، اور سیدنا عمر بن خطاب کے اقدامات کو جاری کرنے میں پوری دلجمعی سے کام لیا۔ کیونکہ آپ کا علم و عدل اور کتاب وسنت کے نفاذ میں ایسا مقام تھا جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیگر خلفا سے امتیازی شان عطا کی تھی۔ پھر عباسی خلفا : ہارون الرشید اور جعفر المتوکل وغیرہ نے ان شرائط کو جاری وساری کیا۔ اور ان سارے مصری علاقوں میں کنیسوں کو گرانے کا حکم دیا جہاں ان کو گرانا ضروری تھا۔ گرجاؤں کو منہدم کرنے کے وجوب میں ویسے تو دو موقف ہیں، تاہم جب کوئی زمین بزور غلبہ وقہر لی جائے تو وہاں گرجا گرانے میں کوئی اختلاف نہیں ۔ پھر کفار کے شام ومصر جیسے بلاد اسلامیہ کے باشندے بن جانے کے بعد ان کو پہلے گرجا بنانے کی اجازت دی گئی، پھر ان خطوں میں مساجد کی تعمیر کے ذریعے اسلامی شعائر بھی نمایاں ہوگئے۔ تب یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ اس حکم نبوی کی روسے کفریہ شعائر ، اسلامی شعائر کے ساتھ ایک سرزمین میں اکٹھے نہیں ہوسکتے کہ ایک زمین میں دو قبلے نہیں ہوسکتے۔ اس بنا پر سیدنا عمرؓ اور مسلم حکام نے کفار سے اس شرط پر مصالحت کی کہ وہ اپنے کفریہ شعائر کو نمایاں نہ کریں گے۔ چنانچہ مسلمانوں میں اس امر میں کوئی اختلاف نہیں کہ اسلامی سرزمین کو عیسائی اور یہودی معابد کے لئے روکا؍ مخصوص نہیں جاسکتا اور ان کے ایسے اوقاف بھی باقی نہیں رکھے جاسکتے۔ بلکہ اگر کوئی ذمّی ان کا کوئی وقف قائم کردے اور ایسے وقف کا کیس ہمارے پاس آجائے تو اسلامی عدالت اس کی درستی کا فیصلہ نہیں دے سکتی۔ پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ مسلمانوں کے اموال کو کفریہ معابد کے لئے روک رکھا جائے تاکہ ان میں اللہ کے ساتھ شرک ، اور اللہ ورسول کے ساتھ بدترین سب وشتم کیا جائے۔ ‘‘
5. سیدنا عبد اللّٰہ بن عباس کا فرمان ہے:
أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الْعَجَمِ أَلَهُمْ أَنْ يُحْدِثُوا بَيْعَةً أَوْ كَنِيسَةً فِي أَمْصَارِ الْمُسْلِمِينَ؟ فَقَالَ: أَمَّا مِصْرٌ مَصَّرَتْهُ الْعَرَبُ فَلَيْسَ لَهُمْ أَنْ يُحْدِثُوا فِيهِ بِنَاءَ بَيْعَةٍ وَلا كَنِيسَةٍ وَلا يَضْرِبُوا فِيهِ بِنَاقُوسٍ وَلا يُظْهِرُوا فِيهِ خَمْرًا وَلَا يتخذوا يه خِنْزِيرًا. وَكُلُّ مِصْرٍ كَانَتِ الْعَجَمُ مَصَّرَتْهُ فَفَتَحَهُ اللَّهُ عَلَى الْعَرَبِ فَنَزَلُوا عَلَى حُكْمِهِمْ فَلِلْعَجَمِ مَا فِي عَهْدِهِمْ وَعَلَى الْعَرَبِ أَنْ يوفوا لَهُم بذلك. [11]
’’ان سے پوچھا گیا کہ عجمی لوگ بلاد اسلامیہ میں کوئی نیا گرجا یا کنیسہ بنا سکتے ہیں۔ تو آپ نے جواب دیا کہ جو شہر مسلمانوں نے آباد کئے ہوں، وہاں عجمیوں (کفار)کو کسی معبد کی تعمیر کی اجازت نہیں ہے۔ اور ان میں ناقوس بجانا، شراب وخنزیر کو علانیہ رکھنا ناجائز ہے۔ ہر ایسا شہر جس کو عجمیوں نے آباد کیا تھا، اور عربوں (مسلمانوں)کو اللّٰہ تعالیٰ نے اس پر فتح دے دی اور عربوں نے اُنہیں اپنے زیر نگین کرلیا تو عجمیوں کے حقوق اتنے ہی ہیں جن پر معاہدہ ہوجائے اور عربوں کو چاہیے کہ ان حقوق کو پورا کریں۔ ‘‘
6. نبی مکرّم ﷺ کی آخری وصیتوں میں سے ایک یہ ہے جسے سیدنا عبد اللہ بن عباس نے روایت کیا ہے:
وَأَوْصَى عِنْدَ مَوْتِهِ بِثَلاَثٍ: «أَخْرِجُوا المُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ العَرَبِ، وَأَجِيزُوا الوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ».
[12]
’’آپ نے اپنی وفات کے وقت تین باتوں کی وصیت فرمائی: مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دینا اور قاصدوں کو اسی طرح انعام دینا جس طرح میں دیتا تھا۔ ‘‘
7. سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ
«آخَرُ مَا عَهِدَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «لَا يُتْرَكُ بِجَزِيرَةِ الْعَرَبِ دِينَانِ».
[13]
8. سمرہ بن جندب سے مروی ہےکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«مَن جامَع المشرِك وسَكَن معه، فإنه مثله».
[14]
’’جو مشرکوں کے ساتھ اکٹھا ہوتا اور مل جل کر رہتا ہے، وہ انہی میں ہے۔ ‘‘
ضعیف احادیث وآثار
9. سیدنا عمر بن خطابؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
"لا تُحدثُوا كنيسة في الإسلام ولاتُجدّدوا ما ذَهَب منها."
’’ مسلمانوں میں کوئی نیا کنیسہ مت بناؤ، اور جو بن گئے، ان کی تجدید Renovationمت کرو۔‘‘
یہ روایت الفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ يوں بھی مروی ہے:
"لاتُبنى كنيسة في الإسلام ولا يُجدّد ما خرب منها."[15]
’’اسلام میں کوئی کنیسہ نہ بنایا جائے اور جو خراب ہوجائے ، اس کی تجدید مت کرو۔‘‘
10. سیدنا عبد اللّٰہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ
"لا إخصاء في الإسلام ولا بنيان كنيسة."[16]
’’اسلام میں خصی ہونے کی کوئی اجازت نہیں اور نہ کوئی کنیسہ تعمیر کرنے کی۔ ‘‘
دو اعتراضات کی وضاحت
1. یہ اس دور کے احکام ہیں جب مسلمان غالب تھے: بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ احادیث وآثار مسلمانوں کے دور غلبہ کی ترجمانی کرتی ہیں۔ واضح رہے کہ ہم یہاں بلاد کفر میں کفریہ معابد کے احکام بیان نہیں کررہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فی زمانہ بلاد اسلامیہ میں مسلمانوں کے غلبہ اور ریاست کے اقتدارِ اعلیٰ میں کیا شبہ ہے؟ اگر تو مسلم ریاستوں کا غلبہ ہی مشکوک اور محدود ہے تو پھر ایسے متجددین کو ایسے ریاستوں کے جواز اور معاہدوں اور نظریات کی شرعی حیثیت پر بھی تنقید کرنی چاہیے جن کی بنا پر ان مسلم ریاستوں کا غلبہ محدود ہوچکا ہے۔ اگر وہ اس اُصولی بنیاد پرہی اعتراض نہیں کرتے ، تو پھر غلبہ کی محدودیت کا واویلا بلاجواز ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ سقوطِ بغداد کے بعد کے ادوار میں بھی، جب ملتِ اسلامیہ زوال آشنا ہوچکی تھی، کسی امام وفقیہ نے ان شرائط میں تبدیلی کی تلقین نہ کی اور اس کے مستند دلائل پیش نہ کئے، اور امام ابن تیمیہ اور امام سبکی وغیرہ انہی شرائط کو بلادِ اسلامیہ میں بیان اور قائم کرواتے رہے۔ امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، أَمَّا دَعْوَاهُمْ أَنَّ الْمُسْلِمِينَ ظَلَمُوهُمْ فِي إغْلَاقِهَا فَهَذَا كَذِبٌ مُخَالِفٌ لِإِجْمَاعِ الْمُسْلِمِينَ؛ فَإِنَّ عُلَمَاءَ الْمُسْلِمِينَ مِنْ أَهْلِ الْمَذَاهِبِ الْأَرْبِعَةِ: مَذْهَبِ أَبِي حَنِيفَةَ وَمَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَد وَغَيْرِهِمْ مِنْ الْأَئِمَّةِ. كَسُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالْأَوْزَاعِي وَاللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ وَغَيْرِهِمْ وَمَنْ قَبْلَهُمْ مِنْ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَجْمَعِينَ مُتَّفِقُونَ عَلَى أَنَّ الْإِمَامَ لَوْ هَدَمَ كُلَّ كَنِيسَةٍ بِأَرْضِ الْعَنْوَةِ؛ كَأَرْضِ مِصْرَ وَالسَّوَادِ بِالْعِرَاقِ وَبَرِّ الشَّامِ وَنَحْوِ ذَلِكَ مُجْتَهِدًا فِي ذَلِكَ وَمُتَّبِعًا فِي ذَلِكَ لِمَنْ يَرَى ذَلِكَ لَمْ يَكُنْ ذَلِكَ ظُلْمًا مِنْهُ؛ بَلْ تَجِبُ طَاعَتُهُ فِي ذَلِكَ وَمُسَاعَدَتُهُ فِي ذَلِكَ مِمَّنْ يَرَى ذَلِكَ. وَإِنْ امْتَنَعُوا عَنْ حُكْمِ الْمُسْلِمِينَ لَهُمْ كَانُوا نَاقِضِينَ الْعَهْدَ وَحَلَّتْ بِذَلِكَ دِمَاؤُهُمْ وَأَمْوَالُهُمْ.
[17]
’’سب تعریفیں جہانوں کے رب اللہ ذو الجلال کو لائق ہیں۔ جہاں تک نصرانیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ مسلمانوں نے ان کے گرجاؤں کو بند کرکے ان پر ظلم کیا ہے تو یہ نرا جھوٹ اور مسلمانوں کے اجماع کے سراسر خلاف ہے۔ مسلمانوں کے مذاہبِ اربعہ کے سب علما وفقہا ، امام ابو حنیفہ، اما م مالک، امام شافعی اور امام احمد اور دیگر نامور فقہا جیسے امام سفیان ثوری، امام اوزاعی، امام لیث بن سعد وغیرہ اور ان سے پہلے سب صحابہ کرام اور تابعین رحمہم اللہ کا اس پر اجماع ہے کہ اگر مسلم حاکم قوت کے ساتھ حاصل کی گئی کسی سرزمین مثلاً مصر، سوڈان، عراق، شام کے خشکی کے علاقوں وغیرہ میں شریعت کا حکم سمجھ کر اور مسلمانوں کی مصلحت کے تحت کسی کنیسہ کو گرا نے کا حکم دے ، تو یہ کسی طرح ظلم نہیں ہوگا بلکہ حاکم کی اطاعت کرنا اور اس سلسلے میں ان لوگوں پر حاکم کی مدد کرنا واجب ہے جنہیں وہ اس کی ہدایت کرے، اور اگر کافر مسلمانوں کے فیصلے کو تسلیم نہ کریں تو وہ ذمہ کے معاہدہ کو توڑنے کے مرتکب ہیں اور اس بنا پر ان کی جانیں اور اموال حلال ہوجاتے ہیں۔‘‘
2. غیرمسلم ریاستوں میں تو مساجد اور معابد کو پور ے حقوق حاصل ہیں: بعض لوگ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ جب عصر حاضر میں غیر مسلم اپنے علاقوں میں ہمیں مساجد اور دیگر مذاہب کو عبادت گاہیں بنانے کی پوری اجازت دیتے ہیں تو پھر ہمیں بھی روا داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
اوّل تو دنیا بھر میں ایسا نہیں ہے بلکہ چین کے صوبہ سنکیانگ اورروس کے شہروں سمیت یورپی ممالک میں اسلامی شعائر جیسے حجاب ونقاب پر پابندی ایک مسلمہ قانون کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ یورپی ممالک میں بھی مساجد کے میناروں کو نمایاں کرنے پر پابندی
[18] لگائی جاتی ہے اور اُنہیں اذان دینے کی اجازت نہیں
[19] ہے، بھارت میں بابری مسجد کو کھلے عام مسمار کردیا جاتا ہے۔
ثانیاً: اگر وہ اجازت دے بھی دیں تو مسلمانوں کے لئے ان کے خودساختہ قوانین کی بجائے نبی کریمﷺ کے احکام کی اتباع ضروری ہے۔ مثلاً وہ اپنے مذہب کو ترک کرنے کی اجازت دیتے ہوں تو کیا مسلمانوں کے لئے اس سے یہ جائز ہوجاتا ہے کہ وہ ارتداد کی مسلمہ شرعی سزا ختم کردیں۔ اگر وہ اپنی خواتین کے ساتھ مسلمانوں کو نکاح کی اجازت دیں تو کیا اس بنا پر مسلمانوں کے لئے جائز ہوجائے گا کہ وہ ہندو یا مشرکہ عورت سے نکاح کرسکیں۔ اگر وہ اپنے نبی کی توہین کے عادی ہوں تو کیا مسلمان بھی اپنے نبی مکرمﷺ کی توہین کا جواز حاصل کرلیں گے، اگر اُنہوں نے اپنے دین کو مسخ اور اس میں تحریف کردی ہے تو اس سے ہمارے لئے کونسا جواز پیدا ہوجاتا ہے۔اگر ان کے ہاں خواتین سے رضامندی سے ناجائز تعلق قائم کرناقانوناً درست ہو، یا وہ شراب وخنزیر کی اجازت دیتے ہوں تو کیا اس بنا پر مسلمان بھی بدکاری، شراب نوشی اور خنزیر کی اجازت دینے کو رواداری سمجھیں گے۔ شیخ محمد ابن عثیمین لکھتے ہیں:
وليس هذا من باب المكافأة أو المماثلة، إذ ليست مسائل دنيوية، فهي مسائل دينية،
لأن الكنائس دور الكفر والشرك، والمساجد دور الإيمان والإخلاص، فنحن إذا بنينا المسجد في أرض الله فقد بنيناه بحق، فالأرض لله، والمساجد لله، والعبادة التي تقام فيها كلها إخلاص لله، واتباع لرسوله ﷺ، بخلاف الكنائس والبيع.
[20]
’’یہ کفار کے ساتھ برابری اور مماثلت کا مسئلہ نہیں کیونکہ یہ دنیوی کی بجائے سراسر دینی معاملہ ہے۔ اور گرجاگھروں میں کفر وشرک ہوتا ہے، جبکہ مساجد میں ایمان واخلاص ہے۔ جب ہم مسلمان اللہ کی سرزمین پرمسجد بناتے ہیں تو اس کو برحق تعمیر کرتے ہیں۔ کیونکہ جو زمین کا حقیقی مالک ہے، اسی کے لئے مسجد بنادی گئی۔ اور مسجدوں میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی خالص اتباع ہوتی ہے، برخلاف گرجاگھروں اور کنیساؤں کے۔ ‘‘
علامہ ڈاکٹر یوسف قرضاوی نے عرب امارات اور قطر میں کفریہ معابد کے جواز کا فتویٰ دیتے ہوئے ، اپنے دلائل میں امام ابو حنیفہ کے قول اور قاہرہ کے گرجا گھروں سے جو مبہم استدلال کیا ہے، اس کی وضاحت اس مضمون کے دوسرے حصے: ’جملہ مسالک کے فقہاے کرام کی اجماعی و اختلافی آرا ‘ میں موجود ہے۔
اسلام (شریعتِ محمدیؐ) کے علاوہ باقی الہامی ؍غیر الہامی ادیان اور ان کے معابد کی حیثیت
جب اسلام ہی اللّٰہ کا پسندیدہ دین ہے، اور سابقہ ادیان وملل منسوخ ہوچکے ہیں، فی زمانہ ان پر عمل کرنا ناجائز اور باعث نجات نہیں جیسا کہ مستند آیات واحادیث سے ثابت ہے، تو دراصل کسی اور خود ساختہ یا منسوخ مذہب کا نیا معبد بنانے کی اجازت کے لئے دلیل درکار ہے، وگرنہ یہ ناجائز اور حرام کام میں تعاون کے سبب ناجائز عمل شمار ہوگا۔ چنانچہ سعودی عرب کی سپریم فتویٰ کونسل نے لکھا:
كلُّ دين غير دين الإسلام فهو كُفْر وضلال، وكل مكان يعدُّ للعبادة على غير دين الإسلام، فهو بيت كُفر وضلال؛ إذ لا تجوز عبادة الله إلا بما شرَع الله سبحانه في الإسلام، وشريعة الإسلام خاتمة الشرائع، عامَّة للثَّقَلين: الجن والإنس، وناسخة لِما قبلها، وهذا مُجمع عليه بحمد الله تعالى.
ومَن زعَم أنَّ اليهود على حقٍّ، أو النصارى على حقٍّ؛ سواء كان منهم أم من غيرهم، فهو مكذِّب لكتاب الله تعالىٰ وسُنة رسوله محمد ﷺ وإجماع الأُمَّة، وهو مُرتد عن الإسلام إنْ كان يدَّعي الإسلام بعد إقامة الحُجة عليه، إنْ كان مثله ممن يَخفى عليه ذلك؛ قال الله تعالىٰ:
﴿وَما أَرسَلنـكَ إِلّا كافَّةً لِلنّاسِ بَشيرًا وَنَذيرًا ﴿٢٨﴾،سبا، وقال عز شأنه: ﴿قُل يـأَيُّهَا النّاسُ إِنّى رَسولُ اللَّهِ إِلَيكُم جَميعًا﴾ [الأعراف:158]،
وقال سبحانه: ﴿إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللّهِ الإِسْلاَمُ﴾ [آل عمران: 19]، وقال جل وعلا: ﴿وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلاَمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ﴾ [آل عمران:85]،
وقال سبحانه: ﴿إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أُوْلَئِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ﴾ [البينة:6]، وثبَت في الصحيحين أنَّ النبي ﷺ قال: «كان النبي يُبْعَث إلى قوْمه خاصة، وبُعثْتُ إلى الناس عامَّة».
[21]
’’اسلام کے علاوہ ہر دین کفر وضلال ہے۔ اور اسلام کے علاوہ کسی اور دین کی عبادت کی ہرجگہ کفر وضلال کا گہوارا ہے۔ کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت صرف اسی اسلامی طریقے پر ہوسکتی ہے جیسے اللّٰہ نے مقرر کردیا ہے۔
شریعت اسلام تمام شریعتوں کو ختم کرنے والی، اور جن وانس تک وسیع ہے اور سابقہ ادیان وملل کی ناسخ ہے۔ اور الحمد للہ ان سب اُمور پر اجماع ہے۔ جس شخص کا یہ گمان ہے کہ یہودی بھی حق پر ہیں اور نصاریٰ بھی حق پر ، چاہے وہ ان میں شامل ہو یا ان سے باہر ہو تو ایسا شخص اللّٰہ کی کتاب ،سنت رسول اللّٰہ اور اجماعِ امت کی تکذیب کا مرتکب ہے۔لاعلمی کے اندیشے کی صورت میں اس پر دلیل وحجت پوری کردینے کے باوجود وہ نہ مانے تو ایسا شخص مرتد بھی ہوسکتا ہے ۔ اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح فرمایا ہے: اے نبی! ہم نے آپ کو پوری انسانیت کے لئے بشیر ونذیر بنا کر بھیجا ہے۔اور اللّٰہ جل شانہ نے فرمایا: اے نبی ! آپ فرما دیں کہ میں تم سب کی طرف رسول ہوں۔ اوراللّٰہ سبحانہ نے یہ بھی کہا: کہ اللّٰہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہی ہے۔اور جل جلالہ نے یوں بھی فرمایا: جو بھی اسلام کے علاوہ دین لائے گا، تو اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔ اور سبحانہ وتعالیٰ نے یہ بھی فرمایا: اہل کتاب اور مشرکوں میں سے جنہوں نے (نبوت ِ محمدیﷺ سے )کفر کیا، وہ نارجہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔اور صحیحین وغیرہ میں یہ فرمانِ نبوی ثابت شدہ ہے کہ سابقہ نبی کسی مخصوص قوم کی طرف آتے اور میں تمام انسانیت کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ ‘‘
٭سيدنا ابوہریرہ سے مروی نبی کریمﷺ کا مشہور فرمان دیگر مذاہب کے بارے میں قولِ فیصل ہے:
«وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا يَسْمَعُ بِي أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ يَهُودِيٌّ، وَلَا نَصْرَانِيٌّ، ثُمَّ يَمُوتُ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ، إِلَّا كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ».
[22]
’’اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس اُمت(امّتِ دعوت)کا کوئی ایک بھی فرد،یہودی ہو یا عیسائی،میرے متعلق سن لے،پھر وہ مر جائےاور اُس شریعت پر ایمان نہ لائے جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا تو وہ اہل جہنم میں سے ہوگا۔‘‘
تورات وانجیل کے آسمانی کتب ہونے کے باوجود جب ان میں تحریف ہوگئی اور قرآن کریم کو آخری اور نگران کتاب کے طور پر اللہ تعالیٰ نے رہتی دنیا کے لئے نازل کردیا تو پھر سابقہ شریعتوں کا مطالعہ بھی حرام ہے اور عام انسان تو کجا سابقہ انبیاے کرام کی نجات بھی رسالتِ محمدی کی اتباع سے مشروط ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں مذکور میثاق انبیا ﴿لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗ١ؕ قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰى ذٰلِكُمْ اِصْرِيْ١ؕ قَالُوْۤا اَقْرَرْنَا١ؕ﴾ (آلِ عمران:81)سے واضح ہوتا ہے۔فی زمانہ سابقہ کتب پر ایمان تو کجا ، ان کا خیر وبھلائی کی تلاش کی نیت سے مطالعہ کرنا بھی ناجائز ہے، جیسا کہ جابر بن عبد اللہ سے مروی حدیث ہے کہ
" أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَتَى النَّبِيَّ ﷺ بِكِتَابٍ أَصَابَهُ مِنْ بَعْضِ أَهْلِ الْكُتُبِ، فَقَرَأَهُ على النَّبِيِّ فَغَضِبَ وَقَالَ: «أَمُتَهَوِّكُونَ فِيهَا يَا ابْنَ الْخَطَّابِ! وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَقَدْ جِئْتُكُمْ بِهَا بَيْضَاءَ نَقِيَّةً لَا تَسْأَلُوهُمْ عَنْ شَيْءٍ فَيُخْبِرُوكُمْ بِحَقٍّ فَتُكَذِّبُوا بِهِ أَوْ بِبَاطِلٍ فَتُصَدِّقُوا بِهِ. وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ! لَوْ أَنَّ مُوسَى كَانَ حَيًّا، مَا وَسِعَهُ إِلَّا أَنْ يَتْبَعَنِي».
[23]
’’سیدنا عمر بن خطاب نبی کریم ﷺ کے پاس اہل کتاب سے ملنے والی کوئی تحریر لائے اور اس کو نبی کریم کو سنایا، تو آپ ناراض ہوگئے اور فرمایا: خطاب کے بیٹے! قسم اس ذات کی، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں تمہارے پاس روشن اور صاف شریعت لایا ہوں۔ تم ان سے کچھ پوچھو اوروہ حق بنا کر پیش کریں تو تم اس شریعت کے ذریعے اس کو جھٹلا سکتے ہو، اور وہ کچھ باطل بنا کر لائیں تو تم اس شریعت کے ذریعے اس کی تصدیق جان سکتے ہو۔ قسم اس ذات کی، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر آج موسی بھی زندہ ہوں تو ان کے لئے میری اتباع کئے بنا کوئی چارہ نہیں ۔ ‘‘
اور سیدنا عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے کہ
"يَا مَعْشَرَ المُسْلِمِينَ! كَيْفَ تَسْأَلُونَ أَهْلَ الكِتَابِ، وَكِتَابُكُمُ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَى نَبِيِّهِ ﷺ أَحْدَثُ الأَخْبَارِ بِاللَّهِ، تَقْرَءُونَهُ لَمْ يُشَبْ، وَقَدْ حَدَّثَكُمُ اللَّهُ أَنَّ أَهْلَ الكِتَابِ بَدَّلُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ وَغَيَّرُوا بِأَيْدِيهِمُ الكِتَابَ، فَقَالُوا: هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا، أَفَلاَ يَنْهَاكُمْ مَا جَاءَكُمْ مِنَ العِلْمِ عَنْ مُسَاءَلَتِهِمْ، وَلاَ وَاللَّهِ مَا رَأَيْنَا مِنْهُمْ رَجُلًا قَطُّ يَسْأَلُكُمْ عَنِ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَيْكُمْ."[24]
’’اے مسلمانوں کی جماعت! تم اہل کتاب سے کیونکر سوال کرتے ہو؟حالانکہ تمہاری کتاب جو اللہ نے اپنے نبی کریم ﷺ پر نازل کی ہے وہ تو اللہ کی طرف سے تازہ خبریں دینے والی ہے جسے تم خود پڑھتے ہو۔ اس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمھیں بتایا ہے کہ اہل کتاب نے اللہ کی کتاب کو بدل ڈالا ہے اور اس میں اپنے ہاتھوں سے تبدیلی کرکے یہ دعویٰ کردیا کہ : "یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے ذریعے سے وہ معمولی سا مفادحاصل کرلیں۔ "کیا وہ علم جو تمھیں اللہ کی طرف سے ملا ہے اس نے تمھیں ان سے سوال کرنے سے منع نہیں کیا؟اللہ کی قسم!ہم نے اہل کتاب کے کسی آدمی کو کبھی نہیں دیکھا کہ وہ ان آیات کے متعلق تم سے پوچھتا ہو جو تم پر نازل کی گئی ہیں۔‘‘
اہل کتاب کے کفر پر قائم ہونے کے بعد شیخ الاسلام ابن تیمیہ ایسے منسوخ مذاہب کے معابد کے بارے میں لکھتے ہیں:
"مَن اعتَقد أنَّ الكنائس بيوت الله، وأنَّ الله يُعبَد فيها، أو أنَّ ما يفعله اليهود والنصارى عبادة لله وطاعة لرسوله، أو أنه يحبُّ ذلك أو يَرضاه، أو أعانَهم على فتْحها وإقامة دينهم، وأنَّ ذلك قُربة أو طاعة، فهو كافر".
وقال أيضًا: "مَن اعتقَد أنَّ زيارة أهل الذِّمة في كنائسهم قُربة إلى الله، فهو مُرتدٌّ، وإنْ جَهِل أن ذلك محرَّم، عُرِّف ذلك، فإنْ أصرَّ، صار مُرتدًّا".
’’جس شخص کا یہ عقیدہ ہے کہ کنیسے اللّٰہ کے گھر ہیں اور ان میں بھی اللّٰہ کی ہی بندگی کی جاتی ہے یا یہود ونصاری جو کرتے ہیں وہ اللّٰہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہی ہے یا اللّٰہ ان سے محبت کرتا اور اسے ان کا یہ عمل پسند ہے، یا اللّٰہ تعالیٰ ان کی فتح پر یا ان کے دین کے قیام میں ان کی مدد کرتا ہے، اور یہ سب کام اللّٰہ کا تقرب وطاعت دیتے ہیں، تو ایسا شخص کافر ہے۔ ‘‘
مزید کہا: ’’جس کا عقیدہ ہے کہ ذمیوں کے کنیسوں میں جانا، اللّٰہ کے تقرب کا سبب ہے، تو وہ مرتد ہے۔ اگر وہ اس کی حرمت سے لاعلم ہے تو اسے یہ حرمت سمجھائی جائے، اگر (شرعی دلائل کے باوجود) پھر بھی مصر رہے تو وہ مرتد ہوجاتا ہے۔ ‘‘
نوٹ: اب تک دیگر مذاہب کے عقائد وشعائر کے بارے میں جو تفصیل گزری ہے ، وہ الہامی یعنی یہود ونصاریٰ کے بارے میں ہے۔ اور آغاز میں پہلی آیت کی تفسیر میں مولانا مفتی محمد شفیع کی زبانی گزر چکا ہے کہ اسلام میں یہ معابد کا تحفظ سابقہ الہامی مذاہب جیسے یہود ونصاری کو ہی حاصل ہے، آتش پرستوں اور بت پرست عجمی ادیان کو نہیں۔ جب اسلامی موقف یہود ونصاری کے بارے میں اس قدر واضح ہے تو پھر برصغیر کے عجمی (بت پرست) ادیان کے بارے میں اسلام کی رائے کس قدر دو ٹوک ہوسکتی ہے۔
کفریہ معابد اور شرعی احکام ومصالح کا تجزیہ
1. کفریہ معابد کے احکام تین قسموں: ممانعت، تحفظ اور مصلحت پر مشتمل ہیں: پیچھے ذکر ہوا کہ کفریہ معابد کی نئے سرے سے بلادِ اسلامیہ میں تعمیرکی ممانعت کبھی شرعی حکم ہوتا ہے، کبھی ان کی بقا وتحفظ شرعی حکم ہوتا ہے جب معاہدہ صلح میں اس کی صراحت موجود ہو اور کبھی ان کی اجازت وممانعت مسلمانوں کی مصلحت سے مربوط ہوتی ہے، جب مسلمان بعض علاقوں پر بزورِ بازو غلبہ حاصل کرلیں۔
2. کفریہ معابد کی بقا کے بجائے رضامندی سے ان کا خاتمہ شرعی مقصد ہے جس کی کوشش کرنی چاہیے:مذکورہ احادیثِ نبویؐہ اور سیدنا عمر ؓکے ذریعے قائم ہونے والے اجماعِ صحابہ کی ان شرائط سے علم ہوتا ہے کہ کفار سے صلح کرتے ہوئے یہ لازمی نہیں کہ ان کے غلط عقائد ومعابد کے تحفظ وبقا پر ہی لازماً صلح کی جائے، بلکہ ان سے ان کے خاتمہ، منہدم گرجاؤں کی تعمیر نہ کرنے یا تعمیر ات کو نیچے کرلینے پر صلح کرنا ممکن ہو تو دراصل اُسی کی کوشش کی جانی چاہیے۔ تاہم وہ اس پر راضی نہ ہوں تو ان کو اپنے معابد باقی رکھنے کی اجازت دینا شرعاً جائز ہے۔ گویاشرعی مصلحت اس میں نہیں کہ کفار کو کفریہ عقائد پر باقی رہنے کی اجازت دی جائے، تاہم یہ کام صلح اور مفاہمت کے ساتھ ہونا چاہیے نہ کہ دین میں جبر کے ذریعے، جو کہ اسلام میں ناجائز ہے۔پھر یہ اجازت بھی انہی علاقوں میں دی جاسکتی ہے جہاں پہلے سے کفار آباد چلے آرہے ہوں، اور جن علاقوں کو مسلمانوں نے ہی روزِ اوّل سے آباد کیا ہو، ان میں نئے سرے سے کلیسا تعمیر کرنے کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ، جیساکہ تفصیلات آگے آرہی ہیں۔
اللہ کی سرزمین پر صرف اسی ایک ربّ متعال کی بندگی ہونی چاہیے اور اصلاً کفریہ معابد کو منہدم کردینا چاہیے۔ ان کی بقا دراصل ایک ناگوار مجبوری اور ایسے معتبر مذہبی حق سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی جس میں کافر کو اپنے مذہب پر رہنے کی اجازت دی گئی ہے۔ جب اجازت ہے تو ان کے معابد کی بقا بھی ایک ناگوار مجبوری ہے جس کا شریعت نے لحاظ کیا ہے۔ دوران جنگ ، جب کفار لڑائی کا انتخاب کریں تو ان کے وجود واَموال کی طرح دورانِ جہاد ، ان کے معابد بھی حفاظت کے حق سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اور جہاد کے بعد بھی انہی کفریہ معابد کو باقی رکھا جائے گا، جن کو صلح کی شرائط میں لکھ دیا گیا ہو، یا کفار؍ ذمیوں کا اس علاقے میں رہائش پذیر ہونا اسلامی حکومت کی طرف سے ممنوع قرار نہ دیا گیا ہو، تو سکونت کے بالتبع ان کے کفریہ معابد بھی باقی رکھے جائیں گے۔
3. اس مسئلہ میں تین شرعی احکا م: کفریہ معابد کے خاتمے کا شرعی مقصد ، مسلمانوں کے ان سے متاثر ہوجانے کی دینی مصلحت اور کفار کی مذہبی آزادی کا جواز کارفرما ہیں: ان احادیث سے یہ بھی علم ہوتا ہے کہ بلادِ اسلامیہ میں کفریہ معابد کی عدم موجودگی ایک طرف شرعی تقاضا ہے کیونکہ ان میں ہونے والا شرک ومعصیت اس قابل ہے کہ ایسے مراکز ختم ہوں جہاں شیطان نے لوگوں کو گمراہ کرکے اللّٰہ کے پسندیدہ دین اسلام کی بجائے عبادت کے دیگر راستے ان کے لئے مزین کردیے ہیں، وہاں ان معابد کی غیر موجودگی کی وجہ مسلمانوں اور عباد اللّٰہ کی مصلحت بھی ہے کہ وہ ان کے ذریعے غلط عقائد کا شکار ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام نے صلح کی شرائط میں کفار عیسائیوں کو اپنے معابد کوآہستہ آہستہ ختم کرلینے پر آمادہ کیا۔ امام شافعی نے بھی مسلم حاکم کو معابد کے خاتمے کا معاہدہ کرنے کی تلقین کی ہے، جیساکہ آگے آرہا ہے۔ جن بعض علما نے احادیثِ نبویہ کی بجائے مسلمانوں کی صرف اپنے دین پر کاربند رہنے کی مصلحت کو پیش نظر رکھا ہے، اُنہوں نے ایسے مسلم علاقوں میں ان معابد کی اجازت دی ہے، جہاں مسلمان نہ بستے ہوں، صرف کفار ہی آباد ہوں۔
4. کفار کو مسلمانوں میں رہائش کی اجازت دعوتی مقاصدکے لئے ہے: کفریہ معابد کی گنجائش کی اساس دراصل کفار کی مسلمانوں کے ساتھ رہائش کی اجازت ہے، جس کا مقصد دعوت کے ذریعے ان کو اسلام کی طرف لانا ہے۔ جیسا کہ ہردور کے مسلم معاشروں میں کفار مسلمانوں کے اعلیٰ اخلاق کی بدولت زیادہ سے زیادہ دین اسلام میں داخل ہوتے رہے۔ دعوت کے اسی عظیم مقصد کے پیش نظر سیدنا موسیٰ اور نبی کریمﷺ بھی کفار کے ساتھ اس وقت قیام پذیر رہے جب تک ان کا ساتھ رہنا ممکن رہا۔ اسی بنا پر کفار کے معاشرے میں وقتی آمد ورفت والے تاجروں ؍ مسافروں کے علاوہ ایسے مسلمان داعیوں کا رہنا ہی مشروع ہے جو ان کو اسلام کی دعوت دے سکیں، کیونکہ اسلام دعوت کے ذریعے ہی پھیلتا ہے اور دعوت سب سے عظیم ومبارک کارِ نبوی ؐہے۔ جب دینی مصلحت کی خاطر کفار کو مسلمانوں کے ساتھ رہائش کی اجازت ہے تو مذہبی جبر واکراہ کے خاتمے کے لئے ان کی عبادت گاہیں بھی گوارا ہیں۔ یہ اسلام کے تصوراختیارِ دین اور اس کی بنا پر ملنے والےثواب وعقاب کا تقاضا ہے کہ کوئی شخص آزادانہ طور پر ہی اسلام میں داخل ہو۔ امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
وَالْمَدِينَةُ الَّتِي يَسْكُنُهَا الْمُسْلِمُونَ وَالْقَرْيَةُ الَّتِي يَسْكُنُهَا الْمُسْلِمُونَ وَفِيهَا مَسَاجِدُ الْمُسْلِمِينَ لَا يَجُوزُ أَنْ يَظْهَرَ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ شَعَائِرِ الْكُفْرِ؛ لَا كَنَائِسَ؛ وَلَا غَيْرَهَا؛ إلَّا أَنْ يَكُونَ لَهُمْ عَهْدٌ فَيُوَفَّى لَهُمْ بِعَهْدِهِمْ... وَهَكَذَا الْقَرْيَةُ الَّتِي يَكُونُ أَهْلُهَا نَصَارَى وَلَيْسَ عِنْدَهُمْ مُسْلِمُونَ وَلَا مَسْجِدٌ لِلْمُسْلِمِينَ فَإِذَا أَقَرَّهُمْ الْمُسْلِمُونَ عَلَى كَنَائِسِهِمْ الَّتِي فِيهَا جَازَ ذَلِكَ كَمَا فَعَلَهُ الْمُسْلِمُونَ: وَأَمَّا إذَا سَكَنَهَا الْمُسْلِمُونَ وَبَنَوْا بِهَا مَسَاجِدَهُمْ فَقَدْ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ «لَا تَصْلُحُ قِبْلَتَانِ بِأَرْضِ» وَفِي أَثَرٍ آخَرَ: «لَا يَجْتَمِعُ بَيْتُ رَحْمَةٍ وَبَيْتُ عَذَابٍ».[25]
’’ایسا شہر وبستی جس میں مسلمان بستے ہوں اور ان میں مسلمانوں کی مساجد ہوں، وہاں کفریہ شعائر کو نمایاں کرنا جائز نہیں، نہ گرجا اور نہ کچھ اور۔ الا یہ کہ معاہدہ صلح میں یہ شرط لکھی ہو تب عہد کو پورا کرنا ضروری ہے۔وہ بستی جس کے باشندے عیسائی ہوں، وہاں نہ تو مسلمان بستے ہوں ، نہ ان کی کوئی مسجد ہوں تو جب مسلمان انہیں کنیسہ رکھنے کی اجازت دے دیں تو ایسا کرنا درست ہوگا، جیساکہ مسلم حکام ماضی میں بھی ایسا کرتے رہے ہیں۔تاہم جب مسلمان وہاں رہنا شروع کردیں اور اپنی مسجدیں بھی بنالیں تو پھر نبی کریم کے ان فرامین کی بنا پر کفریہ معابد کو ختم کرنا ہوگا کہ کسی سرزمین میں دو قبلے نہیں ہوسکتے اور دوسرے فرمان میں ہے کہ رحمت کا مرکز(مسجد) اور عذاب کا مرکز(غیر اللہ کی عبادت کا مرکز) ایک زمین میں نہیں ہوسکتے۔ ‘‘
حدیث نمبر 8 کی تشریح میں امام تقی الدین سبکی شافعی (م756ھ)لکھتے ہیں:
"والمساكنة إن أُخِذت مُطلَقَة في البلد، يلزم ألاَّ يكون لهم في تلك البلد كنيسةٌ؛ لأنَّ الكنيسة إنما تبقى لهم بالشرط إذا كانوا فيها."[26]
’’امام سبکی کہتے ہیں کہ ’مل جل کر رہنے‘ کو پورے شہر تک اگر وسیع رکھا جائے تو ضروری ہے کہ اس شہر میں کفار کا کوئی کنیسہ نہ ہو کیونکہ کسی شہر میں کنیسہ ہونے کی صورت یہی ہے کہ کفار کی اس شہر میں سکونت ہو۔‘‘
گویا اس باب میں شریعت کے مقاصد:غیر اللہ کی عبادت کا خاتمہ، مسلمانوں کے متاثر نہ ہونے کی مصلحت اور کفار کی مذہبی آزادی کے تین عناصر کی باہمی تطبیق سے مسئلہ کی حقیقی صورت واضح ہوتی ہے۔ جن علما نے کفریہ معابد کو صرف مسلمانوں کی مصلحت سے جوڑا ہے، اُنہوں نے احادیثِ نبویہ اور اجماعِ صحابہ کے باوجود کفرکی آزادی کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی ہے، حالانکہ کفار کی مذہبی آزادی کی حیثیت ایک ضرورت سے زیادہ نہیں ہے۔
5. سکونت یا معابد کی اجازت کا مطلب مسلمانوں کی مشابہت اور کفریہ دعوت کا جواز نہیں: اس مسئلہ کی فقہی بنیاد :کفار کی مسلمانوں کے ساتھ رہائش کی اُصولی اجازت ہے، جس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ پھر کفار کو مسلمانوں کے ساتھ جب رہائش کی اجازت ہے تو ان کے عقائد، اور اموال ومصالح اور معابد کو بھی تحفظ حاصل ہے۔ تاہم کفار کو دو باتوں کی اجازت نہیں ہے :
اوّل: مسلمان اور کفار جس نظریہ پر بھی قائم ہوں، اس کی اجازت کا یہ مطلب نہیں کہ دونوں ایک دوسرے سے مشابہت اختیار کرکے مغالطہ آرائی کرسکیں۔ تحقیر وذلت سے قطع نظر،کسی کے لئے درست نہیں کہ جس مذہب اور نظریہ کو وہ مانتا نہیں، اپنے رہن سہن اور عادات واطوار کے ذریعے لوگوں کو اس جیسا ہونے کا تاثر دے۔ خلافِ حقیقت ہونےکے ناطے یہ امر اصلاً ہر دو کے لئے ناجائز ہے، اور اس کے شریعت میں مستقل دلائل ہیں۔ چنانچہ امام علاؤ الدین کاسانی (م 587ھ)لکھتے ہیں:
إن أهل الذمة يؤخذون بإظهار علامات يعرفون بها ولا يتركون يتشبهون بالمسلمين في لباسهم ومركبهم وهيئتهم.[27]
’’بلاشبہ اہل الذمہ کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ ایسی علامات اختیار کریں، جن سے وہ دور سے پہچانے جائیں۔ اُنہیں مسلمانوں کے ساتھ اپنے لباس، اپنی سواری، اور ظاہری ہیئت میں مشابہت کی اجازت نہیں ہوگی۔ ‘‘
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی (م 1979ء )لکھتے ہیں:
’’[ظاہری مشابہت کی بنا پر] قانونی پیچیدگیاں پیدا ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ مثلاً مسلمانوں کے لئے شراب پینا، رکھنا، اور بیچنا فوجداری جرم ہے اور ذمیوں کے لئے یہ جرم نہیں ہے۔ اب اگر ایک مسلمان ذمیوں کے مشابہ لباس پہنے تو وہ پولیس کے مؤاخذہ سے بچ سکتا ہے۔ اور اگر ایک ذمی مسلمانوں کے مشابہ بن کر رہے تو وہ پولیس کی گرفت میں آسکتا ہے۔‘‘
[28]
ثانیاً: کفار کو مسلمانوں کے ساتھ رہائش کی اجازت اس امر سے بھی مشروط ہے کہ اسلامی معاشرے میں وہ مسلمانوں کو اپنے گمراہ نظریات کی دعوت نہ دیں اور اپنے غلبہ اور اثرات کے ساتھ مسلمانوں کے عقائد پر اثرانداز نہ ہوں۔
یہی صورتحال غیر مسلموں کے مذہبی اجتماعات کی ہے۔ غیر مسلم اگر اپنے معابد باقی رکھ سکتے ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ اس میں اجتماع بھی کرسکتے ہیں۔ تاہم ان کے آپس میں اجتماع کرنے کی اجازت اور مسلمانوں کو اپنے گمراہانہ عقائد کی دعوت ، دونوں میں واضح فرق ہے۔ پہلی بات جائز اور دوسری ناجائز ہے۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں:
’’تبلیغ کی کئی شکلیں ہیں: ایک شکل یہ ہے کہ کوئی مذہبی گروہ خود اپنی آئندہ نسلوں کو اور اپنے عوام کو اپنے مذہب کی تعلیم دے۔ اس کا حق تمام ذمی گروہوں کو حاصل ہوگا۔ دوسری شکل یہ ہے کہ کوئی مذہبی گروہ تحریر یا تقریر کے ذریعے سے اپنے مذہب کو دوسروں کے سامنے پیش کرے اور اسلام سمیت دوسرے مسلکوں سے اپنے وجوہ اختلاف کو علمی حیثیت سے بیان کرے ، اس کی اجازت بھی ذمیوں کو ہوگی۔ مگر ہم کسی مسلمان کو اسلامی ریاست میں رہتے ہوئے اپنا دین تبدیل کرنے کی اجازت نہ دیں گے۔ تیسری شکل یہ ہے کہ کوئی گروہ اپنے مذہب کی بنا پر ایک منظم تحریک اُٹھائے جس کی غرض یا جس کا مآل یہ ہو کہ ملک کا نظام زندگی تبدیل ہوکر اسلامی اصولوں کی بجائے اس کے اصولوں پر قائم ہوجائے۔ ایسی تبلیغ کی اجازت ہم اپنے حدود اقتدار میں کسی کو نہیں دیں گے۔ ‘‘
[29]
اوپرخط کشیدہ لفظ ’اجازت‘ کے سیاق وسباق سے واضح ہوتا ہے کہ مولانا کے ہاں اس اجازت سے مراد غیر مسلموں کو اپنے ہم مذہبوں میں ہی دفاع کی اجازت ہے۔ وگرنہ جب کسی مسلمان کاارتداد جائز نہیں تو اس کو دوسرے مذہب کی دعوت کیوں کر جائز ہوسکتی ہے۔ جب دعوت وتعلیم کی غرض سے سیدنا عمر جیسے کسی صحابی کا توراۃ کو پڑھنا نبی کریمﷺ کی ناراضی کا سبب ہے اور نبی کریم کی نبوت کے بعد سیدنا موسیٰ کی نجات بھی شریعت محمدی پر عمل پیرا ہونے میں ہی ہے تو پھر اسلامی معاشرے میں کفار کو اس بات کی کس طرح اجازت دی جاسکتی ہےکہ وہ مسلمانوں کو اپنے کفریہ عقائد کی دعوت اور وضاحت دیں۔ اس بنا پر مولانا کی بیان کردہ آخری تیسری صورت کی روشنی میں ہی دوسری صورت کو صرف اپنے ہم مذہبوں میں دفاع کی اجازت تک محدود سمجھنا زیادہ محتاط موقف ہے۔ واللّٰہ اعلم
یہی بات واضح تر انداز میں ، مولانا امین احسن اصلاحی (م 1999ء) نے یوں لکھی ہے:
’’ہمارے پڑوس میں کوئی شخص دو قومی نظریہ پر ایمان رکھ کر سانس نہیں لے سکتا۔ روس میں کمیونزم کے بنیادی اصولوں کے منکرین کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن اسلامی حکومت اپنے بنیادی اصولوں کے منکرین اور مخالفین کو نہ صرف یہ کہ اپنے دائرہ اقتدار میں پناہ اور وہ سارے حقوق دیتی ہے ، جن کا ابھی اوپر ذکر گزرا ہے بلکہ انہیں اس بات کا بھی پورا حق دیتی ہے کہ جو عقائد ونظریات وہ رکھتے ہیں ، ان پر قائم رہیں۔ ان کو اپنے اخلاف میں بطور ورثہ منتقل کریں۔ اپنے دائرہ کے اندر ان کی حفاظت وترقی کے لئے جو کچھ کرسکتے ہیں ، وہ بے روک ٹوک کریں۔ البتہ ریاست ان کو اس بات کی اجازت نہیں دے گی کہ وہ ان نظریات کو ایک نظام زندگی کی حیثیت سےبرپا اور ان کو اسلامی حکومت کے بنیادی اصولوں پر بالفعل غالب کرنے کی کوشش کریں ۔ غور کیجئے تو اس بات میں غیر مسلموں کو اسلام نے مسلمانوں سے بھی زیادہ آزادی عطا کی ہے کیونکہ غیرمسلم تو اسلامی حکومت کے اندر اپنی پسند کے ہر دین ومذہب اور نظریہ وخیال کو اختیار کرنے کے لئے کاملاً آزاد ہیں مگر مسلمانوں کو اس کی اجازت نہیں ہے کہ وہ اسلامی مملکت کی حدود کے اندر رہتے ہوئے، اسلام کے سوا کسی اور نظریہ وخیال کو اعتقادا بھی اختیار کریں۔‘‘
[30]
ایک معاشرے میں رہتے ہوئے جس طرح مشابہت کی بنا پر پیدا ہونے والے سماجی اور قانونی مسائل پیش آنے کا مسئلہ ہے، اسی طرح کفریہ شعائر کے اعلان میں دعوت وفروغ کا پہلو بھی موجود ہے۔ اسلام میں کفریہ معابد کی موجودگی کامقصد مذہبی اجازت ہی ہے، اور اس اجازت کا یہ مطلب نہیں کہ وہ دوسرے صحیح العقیدہ لوگوں کو اس کی دعوت دیں۔ اس کی سادہ مثال یوں بھی سمجھی جاسکتی ہے کہ جس طرح غیرمسلموں کو خنزیر رکھنے اور کھانےسے روکا نہیں جاسکتا،کیونکہ ان کے مذہبی اعتقاد کے مطابق اس کو پالنا اور کھانا جائز ہے، تاہم اسلامی معاشرے میں انہیں اس بات کی اجازت نہیں ہوسکتی کہ ان کے خنازیر مسلمانوں کے گھروں میں گھستے پھریں، مسلمان کے کھانے پینے میں ان خنازیر کے اجزا داخل ہوجائیں۔ اور دیگر مسلمان ان کو دیکھنے کی اذیت ، سونگھنے کی بدبو سے بھی محفوظ نہ ہوں۔ جس طرح جانور نجس ،ناپاک اور تکلیف دہ ہوتے ہیں، اسی طرح کسی مسلمان کے لئے شرک کو دیکھنا، اس کی دعوت کا سامنا کرنا اور اللہ کے مقام پر دیگر معبودان کو دیکھنا بھی باعث تکلیف ہوتا ہے۔ اسی بنا پر اسلامی معاشرے میں اجازت سے مراد ، کفار کی داخلی حد تک اجازت ہے، نہ کہ مسلمانوں کو متاثر کرنے اور فروغ دینے کی اجازت بھی اس میں شامل ہے۔
نوٹ: قرآن وسنت اور اجماع صحابہ کی روشنی میں صورتِ مسئلہ تو واضح ہے اور مسائل کو شرعی اساسات پر ہی سمجھتے ہوئے ان میں حالات وواقعات کی شرعی رعایت بھی ملحوظ رکھنی چاہیے۔ تاہم مولانا یحییٰ نعمانی جیسے بعض لوگ محکومیت ومرعوبیت کے اس دور میں غیر مسلموں کے ایسے احکام کو کبھی سیدنا عمر کے انتظامی اقدامات، اور کبھی ’امصار المسلمین‘ جیسے الفا ظ کو مسلمانوں کی عسکری چھاؤنیاں قرار دے کر ، اور کبھی فتنہ و فساد سے مشروط کرکے صورت مسئلہ کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں۔ کبھی نفس مسئلہ کو دین میں جبر سے خلط ملط کرکے، غیرمسلموں کے حقوق میں شامل کردیں۔
[31] حالانکہ اسلام میں اصل ممانعت جبر واکراہ کی ہے، اور اپنے اپنے عقیدہ کے مطابق اظہار کی پابندی ہے۔ جہاں تک اپنے غلط عقائد کی آزادانہ نشرواشاعت کی اجازت یا دوسروں کو متاثر کرنے کی بات ہے تو دور حاضر میں روا داری کی داعی ، انسانی حقوق کی پیروکار مغربی ریاست بھی اجتماعیت کے میدانوں میں مذہب کے حوالے سے استدلال کو رد کرکے، صرف ابلاغی وتعلیمی اداروں کو انسانی حقوق کا پابند کرتی ہے ۔ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر فرد جرم عائد کرتی ہے۔ اسی طرح جدید ریاست کسی فرد کو بھی یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ تجارتی میدانوں میں دوسرے کی علامت ، دوسرے ملک کی کرنسی اور جھنڈے کو استعمال کرکے قومی مغالطے پیدا کرے۔ (ڈاکٹر حافظ حسن مدنی)
[اگلی قسط میں اجماع امت اور تمام مسالک کے فقہاے کرام کے اقوال کو پیش کیا جائے گا۔ان شاء اللہ ]
حوالہ جات:
[1] جدید مغربی ریاست جو الحاد کے پروردہ انسانی حقوق کے فروغ اور زمینی حدود پر قائم وطن پرستی کے کفریہ نظریات پر قائم ہے، اپنے سیکولر نظریات کے فروغ کے لئے اپنی سرزمین پر سیاست وعدالت اور معیشت ومعاشرت کے اجتماعی میدانوں میں مذہب کی نفی کرکے، دراصل جملہ مذاہب کو وہی حیثیت دیتی ہے جو اسلام نے بلادِ اسلامیہ میں کفار کو دی ہے کہ وہ اعتقادات وعبادات اور رسوم ورواج کے ذاتی وانفرادی میدانوں میں اپنے مذہب پر عمل پیرا ہوسکنے کی آزادی رکھتے ہیں، اسی طرح اجتماعیت کے میدانوں میں جدید ریاست انسانی حقوق کے الحادی نظریہ ومذہب کے سوا کسی اور نظریے کی عمل داری اور اس کے فروغ کی دعوت سننے کو بھی تیار نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ جدید مسلم ممالک میں دینی تعلیم اور شرعی نظام عدل وعقوبات کے خلاف مسلسل مقتدرہ کی طرف سے میڈیا پر استہزائیہ تبصرے نشر اور ایوانہاے عدل سے ’روشن خیال‘ فیصلے جاری ہوتے رہتے ہیں۔
[2] جیساکہ آگے سیدنا عمر کی طے کردہ اجماعی شروطِ عمریہ میں ’دعوتِ کفر سے ممانعت ‘ کی شرط کی صراحت آرہی ہے۔
[3] احكام اہل الذمہ از حافظ ابن قیم: 2؍ 117
[4] تفسير الجامع لأحكام القرآن للقرطبي :12؍70
[5] الغرض یہ آیت اپنے ظاہری مفہوم پر نہیں بلکہ اس مسئلہ کی بنیاد آگے آنے والی احادیث وآثار اور اجماعِ صحابہ ہے۔ ایک موقف کے مطابق انہدام معابد کی حرمت صرف الہامی (منسوخ اسلامی مذاہب) کو ہی حاصل ہے اور انہی کا آیت میں تذکرہ ہے، مندر اور گورد وارے کو نہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ حرمت اپنے اپنے دور میں ان معابد کی تھی جب وہ الہامی مذاہب ’اسلام‘ کہلاتے تھے۔
[6] السنن الکبرٰی للبیهقي:٨٩٩ وتاریخ الطبري:٢١٥٣
[7] مسند احمد بن حنبل: 1949 ، 2576 قاله محققه أحمد شاکر: صحیح... ورواه أبو داود: 2655، والترمذي: 574، قال ابن تيميَّة في مجموع الفتاوى:28؍635، وابن القَيِّم في أحكام أهل الذمة: "إسناده جيد"، وحسَّنه ابن حجر في تخريج المشكاة.
[8] جامع ترمذی: 633، سنن ابو داود: 3053، 3032...امام شوکانی نے نیل الاوطار میں صحیح قرار دیا ہے: حديث ابن عباس سكت عنه أبو داؤد ورجال إسناده موثقون.(نیل الاوطار8؍64)وقد تكلم في قابوس ووثقه ابن معين وسكت عنه الحافظ كما في الدراية:2/135
[9] السنن الکبری از امام ابوبکر بیہقی: 18717، ج 9؍ص339 ، باب الإمام يكتب كتاب الصلح على الجزية،دار الکتب العلمیہ ،بیروت2003ء... سند کی صحت کے لئے راقم کا مضمون ’شروط ِعمریہ ‘ محدث: فروری 2020ء دیکھیں۔
[10] مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ: 28؍655
[11] مصنف ابن ابی شیبہ: 32982، كتاب الخراج از قاضی ابو یوسف: ص 162، مکتبہ ازہریہ ، مصر
[12] صحيح البخاري: كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ (بَابٌ: هَلْ يُسْتَشْفَعُ إِلَى أَهْلِ الذِّمَّةِ وَمُعَامَلَتِهِمْ؟)، رقم 3053
[13] مسند احمد:43؍371،نمبر 26352، صحیح لغیرہ... احکام اہل الذمہ کے محقق یوسف بن احمد بکری نے بھی سنن بیہقی، موطا، التمہید وغیرہ میں حدیث کی جملہ اسناد کی تحقیق کے بعد اسے صحیح لغیرہ قرار دیا ہے: 1؍ 375، 1194، رمادی للنشر،الدمام 1997ء
[14] أخرجه أبوداود :2405، وسكَت عنه، وقد قال في رسالته لأهل مكة: "كلُّ ما سكتُّ عنه، فهو صالح"، وحسَّنه السيوطي في الجامع الصغير، وصحَّحه الشوكاني في نيل الأوطار، وصحَّحه الألباني في صحيح أبي داود، وأشار أحمد شاكر في عُمدة التفسير إلى صحَّته.
[15] یہ روایت ابن عدی نے الکامل (3؍362)میں ، امام سبکی نے فتاوی (2؍373) میں ، اور امام ذہبی نے میزان (2؍145) میں موقوفاً روایت کی ہے۔ اس روایت کا انحصار سعید بن سنان پر ہے اور اکثریت نے سعید بن سنان کی تضعیف کی ہے، مزید تفصیل کےلئے: حکم بناء الکنائس والمعابد الشرکية ازاسمٰعیل بن محمد انصاری: ص 5 اور معابد الکفار وأحکامها : ص 63
[16] یہ روایت مرفوع وموقوف دونوں طرح سے مروی ہے ۔ بطور مرفوع امام بیہقی نے السنن الکبری (10؍24)میں اسے ابن لہیعہ کے طریق سے روایت کیا ہے جس کو حافظ ابن حجر نے الدرایۃ (2؍ 135) ، امام سبکی نے فتاوی(2؍373) اور شیخ البانی نے ضعیف الجامع ( رقم 6171) میں ضعیف قرار دیا ہے۔ بطور موقوف امام ابو عبید نے الاموال میں سیدنا عمر اور ابن لہیعہ کے طریق سے 260،261 کے تحت روایت کیا ہے۔اور یہی قول سیدنا عمر سے بھی موقوفا مروی ہے، لیکن وہ بھی ضعیف ہے۔ (احکام اہل الذمہ محقق: ص 1180)
[17] مجموع فتاوی ابن تیمیہ: 28؍ 634
[21] رقْم 1326،1327، 1328، تاريخ 5؍ محرم1421ھ، و؍ربیع الاوّل1421ھ، حُكم بناء المعابد الكفريَّة في جزيرة العرب
[22] صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِيمَانِ (بَابُ وُجُوبِ الْإِيمَانِ بِرِسَالَةِ نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ ﷺ إِلَى جَمِيعِ النَّاسِ، وَنَسْخِ الْمِلَلِ بِمِلَّتِهِ)، رقم 386
[23] مسند احمد بن حنبل :14736 ، وحسنه الألباني في " إرواء الغليل:6؍34 حافظ ابن حجر كہتے ہیں: وهذه جميع طرق هذا الحديث ، وهي وإن لم يكن فيها ما يحتج به ، لكن مجموعها يقتضي أن لها أصلا " (فتح الباري:13؍525)
تمام طرق اور اس حدیث کے حسن ہونے کی تفصیل جاننے کے لئے اس ویب پیج کا مطالعہ کریں۔
[24] صحيح البخاري: كِتَابُ الشَّهَادَاتِ (بَابُ لاَ يُسْأَلُ أَهْلُ الشِّرْكِ عَنِ الشَّهَادَةِ وَغَيْرِهَا)، رقم 2685
[25] مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ: 28؍639
[26] فتاوىٰ سبكی از امام سبکی:4؍ 183
[27] بدائع الصنائع از امام کاسانی:7؍ 113
[28] ’اسلامی ریاست‘ از سید مودودی: ص 486 بحوالہ ’اسلامی ریاست اور غیر مسلم شہری‘ از ڈاکٹر سعد اللّٰہ : ص 590، عکس پبلشرز لاہور
[29] اسلامی ریاست : ص 531 بحوالہ: اسلامی ریاست اور غیر مسلم شہری از ڈاکٹر محمد سعد اللّٰہ : ص 602
[30] ’اسلامی ریاست کے اُصول ومبادی‘ از مولانا امین احسن اصلاحی: ص 214،215
[31] دیکھیے مضمون: اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہری؍ذمّی: مجلّہ تحقیقات اسلامی، علی گڑھ، انڈیا، مارچ 2011ء : ص 60 تا 62 بحوالہ ’اسلامی ریاست اور غیرمسلم شہری ‘از ڈاکٹر محمد سعد اللّٰہ