چینی صوبے سنکیانگ میں مسلمانوں کے حالات
عالمی ذرائع ابلاغ کی روشنی میں
سنکیانگ
سنکیانگ یا شنجیانگ (انگریزی:Xinjiang، چینی:新疆،ایغور: شىنجاڭ) عوامی جمہوریۂ چین کا ایک خود مختار علاقہ ہے۔ یہ ایک وسیع علاقہ ہے تاہم اس کی آبادی بہت کم ہے۔ سنکیانگ کی سرحدیں جنوب میں تبت ، جنوب مشرق میں چنگھائی اور گانسو کے صوبوں، مشرق میں منگولیا، شمال میں روس اور مغرب میں قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، افغانستان اور پاکستان اور مقبوضہ کشمیر سے ملتی ہیں۔ اکسائی چن کا علاقہ بھی سنکیانگ میں شامل ہے جسے بھارت جموں و کشمیر کا حصہ سمجھتا ہے۔مانچو زبان میں سنکیانگ کا مطلب ’نیا صوبہ‘ ہے، یہ نام اسے چنگ دور میں دیا گیا۔ یہاں ترکی النسل باشندوں کی اکثریت ہے جو ’ایغور‘ کہلاتے ہیں ۔ یہ تقریباً تمام مسلمان ہیں۔ یہ علاقہ چینی ترکستان یا مشرقی ترکستان بھی کہلاتا ہے۔صوبے کا دارالحکومت ارومچی ہے ،جبکہ کاشغر سب سے بڑا شہر ہے۔ کاشغر بذریعہ شاہراہ قراقرم و درہ خنجراب پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے منسلک ہے اور درہ تورگرت اور ارکشتام سے کرغزستان سے ملا ہوا ہے۔
[1]
سنکیانگ کی تاریخ
آج سے تقریباً14سو سال قبل 29ہجری میں چین میں اسلام کا پیغام اُس وقت پہنچا جب تیسرے خلیفہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے دین اسلام کا پیغام پہنچانے کی غرض سے ایک وفد چین ارسال کیا تھا۔ اس کے بعد بھی وفود بھیجنے کا سلسلہ جاری رہا۔ نیز اس دوران مسلمانوں نے تجارت کی غرض سے بھی چین کے سفر کیے۔ اس طرح چین کے بعض علاقوں میں لوگوں نے ابتدائے اسلام سے ہی دین اسلام کو قبول کرنا شروع کردیا تھا۔ مشرقی ترکستان (سنکیانگ) جس پر چین نے آج تک قبضہ کررکھا ہے، کو اموی خلیفہ ولید بن عبد الملکؒ کے دور میں قتیبہ بن مسلم الباہلی ؒ نے94،93 ھ میں فتح کیا تھا۔ ترکستان کے معنیٰ ترکوں کی سرزمین کے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے ترکستان کو مغربی ومشرقی ترکستان میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مغربی ترکستان پر سوویت یونین (روس) نے قبضہ کرلیا تھا، جو1991ء میں آزاد کردیا گیا جبکہ مشرقی ترکستان ابھی تک چین کے قبضہ میں ہے۔ اس علاقہ پر18ویں صدی کے وسط میں چنگ سلطنت نے قبضہ کرلیا تھا اور ’’سنکیانگ‘‘ یعنی نئے صوبہ کا نام دیا تھا۔ اس علاقہ میں آباد ایغور ترک کی آبادی بتدریج کم ہوتی جارہی ہے، حالانکہ1948ء میں ان کی آبادی خطے کا 98 فیصد تھی۔ یہ چین کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اس کی آبادی تقریباً 3کروڑ ہے۔ اس علاقہ میں پٹرول، کوئلے اور یورینیم کے ذخائر ہونے کی وجہ سے چین کی اقتصادی اور عسکری حالت کافی حد تک اس علاقہ پر منحصر ہے۔
مشرقی ترکستان (جو اِس وقت چین کے قبضہ میں ہے) میں طویل عرصہ تک مسلمانوں کی حکومت رہنے کی وجہ سے اس علاقہ کی بڑی تعداد مسلمان ہے لیکن1644ء میں مانچو خاندان کے قبضہ کے بعد سے مسلمانوں کے حالات خراب ہوگئے۔1648ء میں پہلی مرتبہ اس علاقہ کے باشندوں نے مذہبی آزادی کا مطالبہ کیا جو قانونی طور پر اُن کا حق تھا، جس کی بنا پر ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ 1760ء میں چین نے مشرقی ترکستان پر قبضہ کرکے ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا۔ متعدد مرتبہ مسلمانوں نے یہ علاقہ حاصل کیا، 1875ء میں چین کے ظالموں نے بڑی تعداد میں مسلمانوں کو قتل کرکے پھر قبضہ کرلیا۔1931ء میں مسلم خواتین پر مظالم کی وجہ سے ایک بار پھر چین کی حکومت کے خلاف مسلمانوں نے حق کی آواز بلند کی جو آہستہ آہستہ پورے علاقہ میں پھیل گئی ، اور12 نومبر 1933ء کو اس علاقہ کو مسلمانوں نے حاصل کرلیا۔ لیکن چین نے روس کی مدد سے15 اگست 1937ء کو ہزاروں مسلمانوں کو شہید کرکے اس علاقہ پر دوبارہ قبضہ کرلیا۔ 1944ء میں اس علاقہ کی آزادی کے لیے ایک بار پھر آواز بلند کی گئی مگر چین نے روس کے تعاون سے اس تحریک کو کچل دیا۔ 1946ء میں ’’مسعود صبری‘‘ کی سرپرستی میں جزوی آزادی دی گئی مگر 1949ء میں اس علاقہ پر چین نے مسلمانوںسے لمبی جنگ کے بعد پھر قبضہ کرلیا۔ بعض علاقوں میں مسلسل20 روز تک جنگ چلی۔ 1949ء میں چین پر کمیونسٹ پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے چین خاص کر مشرقی ترکستان میں مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر پابندی عائد کردی گئی ۔ 1966ء میں جب مسلمانوں نے کاشغر شہر میں عید الاضحیٰ کی نماز پڑھنے کی کوشش کی تو چین کی فوج نے گولیاں برساکر ہزاروں مسلمانوں کو شہید کردیا ۔
[2]
سنکیانگ میں مسلمانوں کے حالات
سنکیانگ کی نسلی آبادی ایغور ہیں جو 45.84%آبادی ہیں۔اور یہاں تشکیل دی جانے والی آبادیوں میں40.48% ہان،6.50% قازق،4.51% حوئی اور 2.67% دیگر آبادیاں
[3]ہیں۔
سنکیانگ ایغور خودمختار علاقے بنیادی طور پر مسئلہ سنکیانگ اور چینی مرکزی حکومت کے ساتھ ان کے تصادم کی وجہ سے چین کے لیے ایک حساس علاقہ ہے۔ ایغور علیحدگی پسندوں کے مطابق 1949ء میں ثانی مشرقی ترکستان جمہوریہ کو غیر قانونی طور طریقوں سے عوامی جمہوریہ چین میں ملایا گیا تھا۔
[4]1949ء میں چین پر کمیونسٹ پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے چین خاص کر مشرقی ترکستان میں مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر پابندی عائد کردی گئی۔ ان کے دینی اداروں کو بند کردیا گیا۔ مساجد فوج کی رہائش گاہ بنا دی گئیں۔ ان کی علاقائی زبان کو ختم کرکے چینی زبان اُن پر تھوپ دی گئی۔ شادی وغیرہ سے متعلق تمام مذہبی رسومات پر پابندی عائد کردی گئی۔ کمیونسٹوں کا ایک ہی ہدف رہا ہے کہ قرآن کریم کی تعلیمات کو بند کیا جائے حالانکہ قرآن کریم انسانوں کی ہدایت کے لیے ہی نازل کیا گیا ہے۔ چین کے مسلسل مظالم کے باوجود اس علاقہ کے مسلمان اپنی حد تک اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ 1966ء میں جب مسلمانوں نے کاشغر شہر میں عید الاضحیٰ کی نماز پڑھنے کی کوشش کی تو چین کی فوج نے اعتراض کیا اور گولیاں برساکر ہزاروں مسلمانوں کو شہید کردیا جس کے بعد پورے صوبہ میں انقلاب برپا ہوا اور چین کی فوج نے حسب روایت مسلمانوں کا قتل عام کیا، جس میں تقریباً75 ہزار مسلمان شہید ہوئے۔
غرضیکہ چین نے مسلمانوں کی کثیر آبادی والے علاقہ ’’مشرقی ترکستان‘‘ پر ناجائز قبضہ کرکے پٹرول، کوئلے اور یورینیم کے ذخائر کو اپنے قبضہ میں کر رکھا ہے اور وقتاً فوقتاً وہاں کے مسلمانوں پر مظالم بھی ڈھاتا رہتا ہے۔ مسلمانوں کی اجتماعیت کو تقریباً ختم کردیا ہے۔ لاکھوں افراد کو اب تک قتل کیا جاچکا ہے۔
[5] اور سنکیانگ میں مسلمانوں کی صورت حال کا ذیل میں جائزہ پیش کیا جاتا ہے:
مسلمانوں سے قرآن کا ضبط کرنا
قازقستان کی سرحد کے قریب آلٹے کے علاقے سے ایک شخص نے بتایا کہ دیہات، ضلع اور کاؤنٹی سطح پر تمام قرآن ضبط کیے جا رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں تقریباً ہر گھر میں قرآن اور جائے نماز ہے۔ادھر ورلڈ ایغور کانگریس کے ترجمان دلژت راژت کا کہنا ہے کہ اسی طرح کی اطلاعات کاشغر، ہوتان اور دیگر علاقوں سے گذشتہ ایک ہفتے سے مل رہی ہیں۔انھوں نے کہا کہ انھیں نوٹیفیکیشن موصول ہوا ہے کہ ہر ایغور کو اسلام سے متعلق تمام اشیا جمع کروانی ہوں گی۔ پولیس یہ اعلانات سوشل میڈیا پلیٹ فورم ’وی چیٹ‘ پر کر رہی ہے۔بعض علاقوں میں حکام نے مقامی مساجد اور محلوں میں اعلان کروایا ہے کہ رہائشی فوری طور پر ان احکامات پر عمل کریں ورنہ انھیں سخت سزا دی جائے گی۔
اس سال کے آغاز میں سنکیانگ میں حکام نے پانچ سال سے زیادہ عرصہ پہلے چھپنے والے تمام قرآن یہ کہہ کر ضبط کر لیے تھے کہ’ان میں شدت پسند مواد‘ ہو سکتا ہے۔اطلاعات کے مطابق مہم ’تھری الیگل اینڈ ون آئٹم‘ کے تحت غیر قانونی قرار پانے والی اشیا میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن سمیت تمام مذہبی کارروائیوں اور ممکنہ دہشت گردی کے آلات جیسے کہ ریموٹ کنٹرول کھلونے، بڑی چھریاں اور آتش گیر مواد پر پابندی لگائی گئی تھی۔
[6]
اسلام کی جبری مذمت
1. چین میں مسلمان خاندانوں کو توڑاجا رہا ہے۔ ان کے گھروں میں چھاپے مار کر افرادِ خانہ کو علیحد ہ حراستی کیمپوں میں رکھا جاتا ہے جہاں ان کو دنیا دار بنانے اورسوشل کرنے کے لیے ہر وہ کام کروایا جاتا ہے جو اسلام کے خلاف ہو۔ ناچ گانا کروایا جاتا ہے۔ سنا ہے کہ زبردستی سؤر اور شراب دی جاتی ہے۔
[7]
2. ان کیمپوں میں کچھ عرصہ پہلے تک زیر حراست رکھے جانے والے کئی افراد نے تصدیق کی ہے کہ انہیں دوران حراست اس امر پر مجبور کیا گیا کہ وہ بطور ایک عقیدے کے اسلام کی مذمت کریں اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ اپنی غیر مشروط وفاداری کا اظہار کریں۔
آسٹریلیا میں میلبورن کی لا ٹروب یونیورسٹی کے چینی حکومت کے ملکی نسلی اقلیتوں سے متعلق پالیسی امور کے ماہرجیمز لائبولڈ نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ’’سنکیانگ میں ایسے حراستی مراکز کے قیام کے کافی عرصے بعد اب جا کر کی جانے والی ان قانونی ترامیم کا مقصد یہ ہے کہ اس چینی صوبے میں ایغور، قزاق اور دیگر مسلم اقلیتی گروپوں کے افراد کے لاکھوں کی تعداد میں زیر حراست رکھے جانے کو جائز قرار دیا جا سکے۔‘‘
[8]
3. یونائیٹڈ نیشنز (اقوامِ متحدہ) کی رپوٹ کے مطابق ان مراکزمیں دس لاکھ افراد کو حراست میں رکھا گیا جہاں انھیں جسمانی اور نفسیاتی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ قیدیوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ چینی صدر شی جن پنگ کے نام پر بیعت کریں۔
[9]
مسلمانوں کے لیے درجنوں ناموں پر پابندی
سنکیانگ ( آن لائن) ، ریڈیو فری ایشیا کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کے لئے درجنوں ناموں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ ان ممنوعہ ناموں میں اسلام، قرآن، مکہ، محمد، جہاد، امام، صدام، حج اور مدینہ جیسے نام شامل ہیں۔ اس علاقے میں ایغور مسلمانوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔
[10]
سنکیانگ میں روزہ رکھنے پر پابندی
چینی حکومت نے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ میں حکومتی ملازمین، طالب علموں اور بچوں کو روزہ رکھنے سے منع کر دیا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے چینی حکومت کی ویب سائٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ سنکیانگ میں کچھ ریستورانوں کو کھلا رہنے کے حکم نامے بھی جاری کیے گئے ہیں۔چین کی کمیونسٹ پارٹی سرکاری طور پر لادین ہے جبکہ اس نے کئی برسوں سے بالخصوص سنکیانگ میں حکومتی ملازمین اور کم عمروں کے روزہ رکھنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
انسانی حقوق کے اداروں کا کہنا ہے کہ سنکیانگ میں ایغور اور دیگر مسلمان اقلیتوں کے خلاف ریاستی سطح پر مذہبی اور ثقافتی پابندیوں کی وجہ سے کشیدگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔اے ایف پی کے مطابق سنکیانگ میں ماہ رمضان سے قبل ہی متعدد حکومتی دفاتر میں یہ نوٹس جاری کیے گئے کہ ملازمین ماہ رمضان میں روزے نہ رکھیں۔وسطی سنکیانگ میں واقع شہر کورالا کی سرکاری ویب سائٹ پر درج ایک نوٹس کے مطابق: ’’پارٹی ممبرز، حکومتی ملازمین، طالب علم اور بچے ہرگز روزہ نہ رکھیں اور وہ کسی مذہبی سرگرمی کا حصہ بھی نہ بنیں۔‘‘ اسی نوٹس میں یہ بھی لکھا گیا کہ رمضان کے دوران کھانے پینے کے کاروبار بند نہ کیے جائیں۔ اسی ویب سائٹ پر جاری کردہ ایک دیگر نوٹس کے مطابق ایسے افراد کو مذہبی مقامات پر جانے سے بھی روکا جائے۔
اُرومچی میں ایجوکیشن بیورو کی ویب سائٹ پر گزشتہ ہفتے جاری کردہ ایک نوٹس میں کہا گیا کہ تمام طالب علم اور استاد نہ تو روزے رکھیں اور نہ ہی اس ماہ کے دوران وہ مسجدوں کا رخ کریں۔ اسی طرح التائی نامی شہر میں بھی بچوں کے روزے رکھنے کو روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
[11]
مسلم آبادی کے قبرستانوں کی مسماری
ایغور کارکنوں کے مطابق چینی حکومت نے اب اس مسلم آبادی کے قبرستانوں کو مسمار کرنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے۔ چینی حکومت اُن کی ثقافت کو مٹانے کے ساتھ ساتھ ان کے آباء کی نشانیوں کو ملیامیٹ کرنے کی بھی کوشش میں ہے۔نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق کئی قبروں کو انتہائی لاپرواہی کے ساتھ ختم کیا گیا ہے۔ نیوز ایجنسی کے نمائندے نے تین مختلف مقامات پر منہدم کی گئی قبروں سے باہر پڑی ہوئی انسانی ہڈیاں دیکھی ہیں۔ کئی مزارات کو گرا دیا گیا اور وہاں منقش عمارات کی جگہ اب ملبے کے ڈھیر ہیں۔مقامی حکومتی انتظامیہ کا موقف ہے کہ شہروں کے پھیلاؤ کے باعث انتہائی قدیمی قبروں کو ختم کیا گیا ہے۔ ایغور آبادی اس حکومتی موقف سے اتفاق نہیں کرتی بلکہ اسے ایغور نسل کے خلاف برسوں سے جاری حکومتی کریک ڈاؤن کا تسلسل قرار دیتی ہے۔
[12]
اسلامی شریعت اور مسلمانوں کی مخصوص روایات پر پابندی
چینی حکومت ماضی میں مسلمانوں کے استعمال میں آنے والی حلال مصنوعات کی خرید و فروخت اور خواتین کی طرف سے نقاب اور حجاب کے استعمال پر بھی پابندی لگا چکی ہے ۔
[13]
مردوں پر لگائی گئی سب سے نمایاں پابندی یہ ہے کہ وہ اپنی داڑھیاں فطری طور پر نہ بڑھائیں۔ خواتین پر نقاب پہننے کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ خاص طور پر ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں جیسے عوامی مقامات میں برقعہ کرنے والی خواتین کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے اور فوراً پولیس کو مطلع کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔حکام نے ایسے لوگوں کے لیے انعام کا اعلان کر رکھا ہے، جو لمبی داڑھیوں والے نوجوانوں یا ایسی مذہبی روایات کی پاسداری کی اطلاع دیں گے، جس میں انتہا پسندی کا پہلو نکل سکتا ہو۔ اس طرح مخبری کا ایک باقاعدہ نظام تشکیل دیا گیا ہے۔
[14]چین میں ایغور مسلمانوں کے ساتھ سب سے بڑا ظلم یہ ہورہاہے کہ ان سے مذہبی آزادی مکمل طور پر چھینی گئی ہے ۔ مسجدوں کی تعمیرپر پابندی ، حج اور عمرہ پر جانے پر پابندی ، لمبی داڑھی پر پابندی ، حجاب پر پابندی یہاں تک کہ روزہ رکھنے والوں پر بھی پابندی کی خبریں سننے کو ملی ہیں۔
[15]
مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر پابندی عائد کردی گئی۔ ان کے دینی اداروں کو بند کردیا گیا۔ مساجد فوج کی رہائش گاہ بنا دی گئیں۔ ان کی علاقائی زبان کو ختم کرکے چینی زبان اُن پر تھوپ دی گئی۔ شادی وغیرہ سے متعلق تمام مذہبی رسومات پر پابندی عائد کردی گئی۔ کمیونسٹوں کا ایک ہی ہدف رہا ہے کہ قرآن کریم کی تعلیمات کو بند کیا جائے حالانکہ قرآن کریم انسانوں کی ہدایت کے لیے ہی نازل کیا گیا ہے۔
[16]
چینی ایپلی کیشن اپنے موبائل پر ڈاؤن لوڈ کرنا ہر مسلمان پر لازم
حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ہیومین رائٹس واچ کے مطابق چینی حکومت نے سنکیانگ میں بسنے والے ترکی النسل ایغور مسلمانوں کی نگرانی کا نظام کڑا کردیا ہے ۔ ہر ایغور مسلمان پر لازم ہے کہ وہ چینی حکومت کی تیار کردہ ایک ایپلی کیشن اپنے موبائل فون پرڈاؤن لوڈ کرے ۔ اس ایپلی کیشن کے ذریعے چینی ادارے اس امر سے باخبر رہتے ہیں کہ مذکورہ شخص کا کس وقت کیا موڈ تھا، وہ کب جاگااور کب سویا، اس نے گھر سے نکلنے کے لیے کون سا راستہ اختیار کیا اور کہاں کہاں پر گیا، کس سے ملاقات کی ۔ گھر میں رات کو کب لائٹیں بند کی گئیں اور صبح کب لائٹیں کھولی گئیں ۔ اس ایپلی کیشن سے اس شخص کی گفتگو بھی ریکارڈ کی جاسکتی ہے ۔ یہ سب اس لیے کیا گیا ہے کہ چینی ادارے کسی بھی شخص کے بارے میں جان سکیں کہ وہ صبح جلدی اٹھ کر نماز تو نہیں پڑھتا ، کسی مسجد میں تو نہیں جاتا ، اپنے دوستوں سے ملاقات کے دوران اس کا موضوع گفتگو کیا ہوتا ہے ، کہیں قرآن مجید کی تلاوت تو نہیں کرتا، دن میں روزہ تو نہیں رکھ رہا ۔ جس ایغور مسلمان پر ذرا سا بھی شک ہو تو اس کے گھر ایک مبصر بھیج دیا جاتا ہے جو شب و روز اس کے گھر میں رہتا ہے اور اس کی مانیٹرنگ کرتا ہے اور پھر اس شخص کو حراستی مرکز میں بھیج دیا جاتا ہے ۔ 12 سے لے کر 65 برس تک کے ہر ایغور مسلم کا پورا ریکارڈ مرتب کیا گیا ہے یعنی ان کا ڈی این اے ، فنگر پرنٹ اور قرنیہ کی اسکیننگ، اس سب کا ریکارڈ چینی حکومت کے پاس ہے۔
[17]
دس لاکھ باشندے حراستی کیمپوں میں بند
چینی صوبے سنکیانگ کی صوبائی حکومت نے لاکھوں مسلمانوں کے لیے قائم کردہ حراستی کیمپوں کو قانونی حیثیت دے دی ہے۔ وہاں قریب ایک ملین اقلیتی مسلمان ایسے حراستی کیمپوں میں بند ہیں، جنہیں ’تربیتی مراکز‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
سنکیانگ میں صوبائی حکومت نے اب ایسی قانون سازی کر دی ہے، جس کے تحت مسلمانوں کوحراستی کیمپوں میں رکھنے کو باقاعدہ قانونی حیثیت دے دی ہے۔ چینی حکمرانوں کے مطابق بدھ دس اکتوبر کو کی جانے والی قانونی ترامیم کے تحت ملک میں مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے اب ان مسلمانوں کو ایسے ’تعلیمی اور تربیتی مراکز‘ میں رکھنا ممکن ہو گیا ہے۔کئی مختلف غیر سرکاری تنظیموں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کی رپورٹوں کے مطابق یہ نام نہاد ’ٹریننگ سینٹرز‘ عملاﹰ ایسے حراستی مراکز ہیں، جہاں گزشتہ ایک سال کے دوران قریب ایک ملین اقلیتی مسلم باشندوں کو منتقل کیا جا چکا ہے۔
یہ قانون سازی جس سرکاری مسودے کی بنیاد پر کی گئی ہے، اس کے مطابق چین کے مختلف صوبوں کی علاقائی حکومتیں ’’ایسے پیشہ ورانہ تعلیمی تربیتی مراکز قائم کر سکتی ہیں، جہاں ایسے افراد کی تعلیم کے ذریعے اصلاح کی جا سکے، جو شدت پسندی اور مذہبی انتہا پسندی سے متاثر ہو چکے ہوں۔‘‘لیکن حقیقت میں ایسے مراکز میں زیر حراست افراد کو بظاہر صرف مینڈیرین (چینی میں بولی جانے والی اکثریتی زبان) اور پیشہ ورانہ ہنر ہی نہیں سکھائے جاتے، بلکہ نئی قانونی ترامیم کے ذریعے یہ بھی ممکن ہو گیا ہے کہ ایسے افراد کو ’نظریاتی تعلیم، نفسیاتی بحالی اور رویوں میں اصلاح‘ جیسی سہولیات بھی مہیا کی جائیں۔بیجنگ میں ملکی حکومت اس بات سے انکار کرتی ہے کہ یہ مراکز چینی مسلم اقلیت کے لیے قائم کردہ کوئی حراستی مراکز ہیں۔ تاہم ساتھ ہی حکام نے مختلف مواقع پر یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ بہت چھوٹے چھوٹے جرائم میں ملوث افراد کو بھی ایسے مراکز میں بھیجا گیا ہے۔
[18]
سنکیانگ کے ان حراستی کیمپوں سے نکلنے میں کامیاب ہونے والے لوگوں نے میڈیا کو اپنے اوپر ہونے والے مختلف النوع مظالم کی داستانیں سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’حراستی کیمپوں میں چینی حکام ان کو الٹا لٹکائے رکھتے تھے اور ان کو سونے نہیں دیتے تھے ۔ان کا کہنا تھا کہ ہماری پٹائی کرتے وقت چینی اہلکاروں کے ہاتھوں میں لکڑی کے موٹے موٹے ڈنڈے اور چمڑے کے سوٹے ، مڑے ہوئے تاروں کے کوڑے ، جسم میں چبھونے کیلئے سوئیاں اور ناخن کھینچنے کیلئے پلاس ہوتے تھے۔‘‘
[19]
خبررساں ادارے روئٹرز کا کہنا ہے نئے قوانین کے مطابق درج ذیل اقدامات پر پابندی ہوگی:
1. بچوں کو سرکاری سکول میں بھیجنے کی اجازت نہ دینا۔
2. خاندانی منصوبہ بندی پر عمل نہ کرنا۔
3. قانونی دستاویزات کو جان بوجھ کر ضائع کرنا۔
4. صرف مذہبی طریقے کے مطابق شادی کرنا۔
[20]
خواتین کو بانجھ کرنا
کیمپ میں ایک سال سے زیادہ حراست میں رہ کر رہائی پانے والی ایک خاتون گلبہار جلیلووا نے دعویٰ کیا: وہ ہمیں وقتاً فوقتاً ٹیکے لگاتے رہتے تھے۔ 54 سالہ گلبہار نے چینل ’فرانس 24‘ کو بتایا: ’ہمیں دروازے میں بنے ایک چھوٹے سوراخ سے اپنا بازو باہر نکالنا پڑتا تھا جس پر وہ ٹیکہ لگاتے تھے۔ ان ٹیکوں کے بعد ہمیں ماہواری آنا بند ہو جاتی تھی۔‘گلبہار نے اپنا زیادہ تر وقت اُن 50 افراد کے ساتھ گزارا، جنہیں ایسے کمرے میں رکھا گیا تھا جس کی لمبائی محض 20 فٹ اور چوڑائی 10 فٹ تھی۔انہوں نے مزید کہا: ’’یہ ایسا تھا کہ جیسے ہم بس کوئی گوشت کا ٹکڑا ہوں۔‘‘
مہری گل ٹرسن اس وقت امریکہ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا تھا کہ جب وہ 2017ء میں حراستی مرکز میں تھیں تو انہیں نامعلوم ادویات دی جاتی تھیں اور ٹیکے لگائے جاتے تھے۔انہوں نے کہا: ’میں ایک ہفتے تک اپنے آپ کو تھکا ہوا محسوس کرتی تھی۔ مجھے کچھ یاد نہیں رہا تھا اور میں ڈپریشن کا شکار تھی۔‘انہوں نے مزید بتایا کہ انہیں دماغی مرض کی تشخیص ہوئی اور پھر چار ماہ بعد رہا کر دیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ امریکہ میں ڈاکٹروں نے انہیں بتایا ہے کہ وہ بانجھ ہو چکی ہیں۔
[21]
خواتین کے زبردستی اسقاط حمل اور جنسی تشدد
کچھ خواتین کا کہنا ہے انہیں چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ میں زبردستی اسقاط حمل کا سامنا کرنا پڑا جبکہ کچھ نے بتایا کہ دوران حراست ان کی مرضی کے خلاف ان کے جسم میں تولیدی عمل روکنے کے لیے آلات نصب کیے گئے۔ایک خاتون کے مطابق اسے ریپ کا نشانہ بنایا گیا جبکہ کئی اور خواتین نے بتایا وہ جنسی ہراسانی کا شکار رہیں، جس میں نہاتے ہوئے ان کی عکس بندی کرنا اور نازک حصوں پر پسی سرخ مرچوں کا چھڑکے جانا شامل ہے۔
دسمبر 2018ء میں قازق نسل کی 38 سالہ گلریزا مگدین کو قازقستان سے واپسی پر سنکیانگ میں حراست میں لے لیا گیا تھا کیونکہ ان کے فون میں وٹس ایپ پایا گیا تھا۔انہیں اپنے ہی گھر میں نظر بند کر دیا گیا جس کے بعد ڈاکٹرز کے معائنے کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ وہ دس ہفتے کی حاملہ ہیں۔چینی حکام نے مگدین کو بتایا کہ انہیں اپنے چوتھے بچے کو جنم دینے کی اجازت نہیں۔ اس کے اگلے ماہ :میرے ہونے والے بچے کو مجھ سے الگ کیا گیا اور مجھے بے ہوش بھی نہیں کیا گیا۔ وہ اس حوالے سے ابھی تک صحت کے مسائل کا شکار ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ نے دو افراد سے اس حوالے سے بات کی جن میں ایک آسٹریلوی شہری الماس نظام الدین بھی شامل ہیں۔ جن کو شبہ ہے کہ ان کی بیوی جو کہ نسلی ایغور ہیں سنکیانگ میں نظر بند ہیں اور 2017 میں انہیں اسقاط حمل پر مجبور کیا گیا تھا۔چین میں ایک بچہ پالیسی کے تحت اسقاط حمل اور مانع حمل ادویات کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور اکثر ایسا حکام کی جانب سے زبردستی بھی کیا جاتا ہے تاکہ کم آبادی رکھنے کے مقصد کو حاصل کیا جا سکے۔کچھ اقلیتوں کو اس سلسلے میں استثنیٰ دیا گیا تھا کہ وہ ہان چینیوں کے مقابلے میں زیادہ بچے پیدا کر سکتے ہیں۔ ایسا چینی صدر شی جنگ پنگ حکومت کی جانب سے یکسانیت کی فضا قائم کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کے رابطہ کرنے پر ایک اور خاتون نے کیمپوں میں جنسی استحصال کی تصدیق کی۔ اس نے سیراگل سیوتبے نامی خاتون کے الزامات کو دہرایا۔سیراگل ایک قازق خاتون ہیں جو کیمپوں میں ان واقعات کو افشاں کرنے پر چین کو مطلوب ہیں۔ قازقستان کی مدد سے وہ جولائی میں سویڈن منتقل ہو چکی ہیں۔کئی خواتین کے مطابق انہیں ایک ساتھ کیمروں کی نگرانی میں نہانے اور ٹوائلٹ استعمال کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔گلریزہ ایولخان کے مطابق خواتین گارڈز ان کے بال کھینچنے کے لیے چیونگم استعمال کرتی تھیں۔ شادی شدہ خواتین کو ملاقات کے بعد نامعلوم گولیاں کھانے کو دی جاتی تھیں۔چھوٹی شیشیوں میں پانی کے ساتھ مرچیں بھر کے خواتین کو نہانے سے پہلے دی جاتی تھیں۔ کپڑے اتارنے کے بعد خواتین گارڈز انہیں کہتی تھیں کہ یہ اپنے نازک اعضا پر مل لیں۔ ایک خاتون کے مطابق’ یہ آگ کی طرح جلتا تھا‘۔
[22]
سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب
انسدادِ دہشت گردی کی مشقوں کے نام پر ایک ظالمانہ سکیورٹی آپریشن گزشتہ چند مہینوں سے سنکیانگ کے ایغور علاقوں میں تیز تر کر دیا گیا ہے اور اس کا مقصد سکیورٹی سے زیادہ بڑے پیمانے پر نگرانی کرنا ہے۔ کاشغر میں ایک دکاندار نے بتایا:’’ہماری کوئی نجی زندگی نہیں رہ گئی۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ کیا کرنے والے ہیں‘‘۔
[23]
بورڈنگ سکولوں کے ذریعے بچوں کی والدین سے علیحدگی
بچوں کو ہوسٹلز میں ماں باپ سے الگ تھلگ رکھ کر ان کو خالص چینی طور طریقے سکھائے جاتے ہیں۔
[24]ایک نئی تحقیق میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ چین جان بوجھ کر اپنے مغربی صوبے سنکیانگ کے مسلمان بچوں کو ان کے خاندان، مذہب اور زبان سے الگ کر رہا ہے۔ایک ایسے وقت میں جب سنکیانگ میں ہزاروں افراد کو ’تربیتی کیمپوں‘ میں زیر حراست رکھا جا رہا ہے، وہیں وسیع پیمانے پر ایک اور مہم کا آغاز بھی کیا گیا ہے جس میں بورڈنگ سکول تعمیر کیے جا رہے ہیں۔
بی بی سی نے اس سلسلے میں ٹھوس ثبوت اکٹھے کئے ہیں جن کی بنیاد عوامی سطح پر دستیاب دستاویزات پر ہے اور انھیں بیرون ملک مقیم افراد نے اپنی شہادتوں سے مزید سہارا دیا ہے۔دستاویزات کے مطابق صرف ایک شہر میں ہی 400 سے زیادہ بچوں کو اپنے والدین سے الگ کیا گیا ہے۔ ان والدین کو کیمپوں یا جیلوں میں زیرِ حراست رکھا گیا ہے۔
سنکیانگ میں چین کے قانون نافذ کرنے والے ادارے سخت نگرانی کرتے ہیں اور یہاں بیرون ملک سے آئے صحافیوں کا 24 گھنٹے پیچھا کیا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں کسی عام شہری سے اس بات کی شہادت لینا ناممکن ہے۔ لیکن چین سے باہر دوسرے ممالک، جیسے ترکی، میں ایسا کیا جا سکتا ہے۔استنبول کے بڑے ہال میں درجنوں افراد اپنی کہانیاں سنانے کے لیے بےتاب تھے۔ ان میں سے کئی لوگوں کے ہاتھ میں اپنے بچوں کی تصاویر ہیں، جو سنکیانگ میں رہ گئے تھے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک ماں نے بتایا کہ ’مجھے نہیں معلوم ان (بچوں) کی دیکھ بھال کون کررہا ہے۔‘ ان کے ہاتھ میں اپنی تین بیٹیوں کی تصویر ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’میرا ان (بچوں) سے کوئی رابطہ نہیں‘۔ایک اور والدہ اپنے تین بیٹوں اور ایک بیٹی کی تصویر لیے اپنے آنسو پونچھ رہی تھیں۔ انھوں نے بتایا ’میں نے سنا ہے انھیں ایک یتیم خانے میں لے جایا جا چکا ہے۔‘
[25]
ایغور مسلمانوں کے نظریات کی زبردستی تبدیلی
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق چین کی جیلوں میں لاکھوں مسلمانوں کے ذہنی خیالات زبردستی تبدیل کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ چین منظم نظام کے ذریعے مسلم ایغورں سمیت دیگر مسلمانوں کی’سوچ کو زبردستی تبدیل‘ کر رہا ہے۔
[26]
ایغور آبادی کی اساس کو ختم کرنے کی کوشش اور ’ایغور مسلم اکثریت کا توڑ‘
ایک ایغور کارکن صالح ہدیٰ یار کا کہنا ہے کہ یہ چینی حکومت کی ایک نئی مذموم کوشش ہے کہ ایغور آبادی کی اساس کو ہی ختم کر دیا جائے تا کہ یہ نسل اپنی ماضی سے جڑی پہچان سے محروم ہو جائے اور ایغور قوم بھی چینی نسل ہان کی آبادی جیسی ہو کر رہ جائے۔ صالح ہدیٰ یار کا کہنا ہے کہ چینی حکومت ایغور نسل کی تاریخی باقیات کو بھی مٹا دینا چاہتی ہے تا کہ اس قوم کے لوگوں کا ماضی، تاریخ، اور گزشتہ نسلوں سے ربط پوری طرح مٹ جائے۔ ہدیٰ یار کے مطابق ایسے اقدامات سے ایغور آبادی کو رنج تو پہنچایا جا سکتا ہے لیکن اس کے وقار، پہچان اور شناخت میں کوئی کمی نہیں کی جا سکتی۔
[27]
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ ماضی میں سنکیانگ میں ایغور مسلم باشندوں کی اکثریت تھی لیکن پھر بیجنگ نے ایک باقاعدہ پالیسی کے تحت وہاں داخلی نقل مکانی کر کے آنیوالے ایسے باشندوں کو آباد کرنا شروع کر دیا، جن کا تعلق ہان نسل کی آبادی سے ہے۔ مجموعی طور پر چین میں ہان نسل کے باشندوں ہی کی اکثریت ہے۔
[28]
دیگر مظالم
1. یہاں کے باسیوں سے جبراً ڈی این اے کے نمونے بھی لیے جا رہے ہیں۔ ان کے موبائل کھنگالے جاتے ہیں اور دیکھا جاتا ہے کہ کہیں وہ اشتعال انگیز میسیج تو نہیں شیئر کر رہے۔ اگر کسی پر ملک کے ساتھ غداری کا معمولی سا بھی شک ہو تو انھیں جیلوں میں بھیج دیا جاتا ہے جن کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں معلوم۔
[29]
2. اب سنکیانگ میں جگہ جگہ لگے پبلک سائن بورڈ خبردار کرتے ہیں کہ کسی کو بھی کسی عوامی جگہ پر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ کوئی بھی شہری 50 برس کی عمر کو پہنچنے سے قبل داڑھی نہیں رکھ سکتا اور مسلمان سرکاری ملازمین کے لیے رمضان میں روزہ رکھنا بھی قانوناﹰ منع ہے۔
[30]
3. انسانی حقوق کی تنظیموں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ زیر حراست خواتین سے بدسلوکی کے علاوہ انہیں نسلی گروہوں سے باہر شادیاں کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے ، مزید سرکاری حکام مسلمان خاندانوں کے ساتھ ان کے گھر میں رہتے ہیں۔
[31]
4. سنکیانگ کے ایک استاد اور ایک سرکاری اہلکار کے بقول اسکولوں میں طلبا و طالبات کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو بطور مسلمان عربی زبان میں ’السلام علیکم‘ یا ’وعلیکم السلام‘ بھی نہ کہیں۔ اس اہلکار نے بتایا، ’’حکومت کے خیال میں السلام علیکم کے یہ اسلامی الفاظ بھی علیحدگی پسندی کے مترادف ہیں۔‘‘
[32]
5. چینی حکومت کی لیک ہونے والی دستاویزات، جنھیں آئی سی آئی جے نے ’دی چائنا کیبلز‘ کے نام سے منسوب کیا ہے، میں سنہ 2017 میں سنکیانگ کی کمیونسٹ پارٹی کے اس وقت کے نائب سکریٹری اور اس خطے کے اعلیٰ سکیورٹی اہلکار، ژہو ہیلون کی جانب سے ان حراستی مراکز کو چلانے والوں کے نام بھیجے گئے نو صفحات پر مشتمل مراسلے شامل ہے۔ان مراسلوں میں دی گئی ہدایات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان مراکز کو سخت نظم و ضبط کے تحت سزائیں دینے اور کسی کو فرار کا موقع فراہم نہ کرنے کے ساتھ ساتھ انتہائی سکیورٹی والی جیلوں کی طرح چلائے جانے کا کہا گیا ہے۔مراسلے میں درج ذیل احکامات شامل ہیں:
1. کبھی بھی کسی کو فرار ہونے کی اجازت نہیں
2. طرز عمل اور رویّے کی خلاف ورزیوں میں نظم و ضبط اور سزا میں اضافہ کیا جائے
3. توبہ اور پچھتاوے کو فروغ دیا جائے
4. چینی زبان کے مطالعے کو اوّلین ترجیح دی جائے
5. طلباء کو واقعتاً بدلنے کی ترغیب دی جائے اور
6. ہاسٹلوں اور کلاس رومز کے ہر حصے کی مکمل ویڈیو نگرانی کی جائے۔
[33]
سنکیانگ میں مسلمانوں کے مذکورہ حالات کی وجوہات
چین کے مغربی صوبہ سنکیانگ میں انتظامیہ ’ہان‘ ذات کے چینی ہے اور مقامی ایغور برادری کے ساتھ ان کے تنازعے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ایغور دراصل مسلمان ہیں۔ ثقافتی اور مذہبی لحاظ سے وہ خود کو وسطی ایشیائی ممالک کے قریب سمجھتے ہیں۔
1. صدیوں سے اس علاقے کی معیشت زراعت اور کاروبار پر مرکوز رہی ہے۔ یہاں کاشغر جیسے قصبے معروف سِلک روٹ کے مرکز ہیں۔بیسویں صدی کے آغاز میں کچھ عرصے کے لیے ایغوروں نے خود کو آزاد قرار دیدیا تھا، لیکن کمیونسٹ چین نے 1949ء میں اس علاقے کو مکمل طور پر اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت کی پالیسیوں نے آہستہ آہستہ کسانوں کی مذہبی، اقتصادی اور ثقافتی سرگرمیاں ختم کردی ہیں۔بیجنگ پر یہ الزام ہے کہ اس نے 1990ء میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سنکیانگ میں ہونے والے مظاہروں، اور 2008ء میں بیجنگ اولمپکس سے پہلے مقامی لوگوں کے خلاف کاروائیاں تیز کر دیں۔سنکیانگ کو مشہور سِلک روٹ کے حوالے سے شہرت حاصل ہے۔
2. گزشتہ ایک دہائی کے دوران زیادہ تر اہم ایغور رہنماؤں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔سنکیانگ میں چین نے بڑے پیمانے پر ہان کمیونٹی کو بسانا شروع کر دیا ہے، جس سے ایغور اقلیت میں آگئے ہیں۔بیجنگ پر یہ بھی الزام ہے کہ اس علاقے میں اس کے اپنے مبینہ مظالم کو صحیح ٹھرانے کے لیے وہ ایغور علیحدگی پسندوں کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔
3. چینی حکومت کا کہنا ہے کہ ایغور علیحدگی پسند بم حملے، بدامنی اور توڑ پھوڑ کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
4. چین کہتا ہے کہ انہوں نے افغانستان میں تربیت حاصل کی ہے۔ تاہم چین اپنے اس دعوی کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہیں کر پایا۔افغانستان پر امریکی حملے کے دوران امریکی فوج نے بیس سے زیادہ ایغور مسلمانوں کو پکڑا تھا جن کو الزام ثابت ہوئے بغیر سالوں تک گوانتانامو بے جیل میں رکھا گیا۔بعد میں ان میں سے زیادہ تر کو ادھر ادھر بسا دیا گیا۔
5.
بڑا حملہ:جولائی 2009 میں، سنکیانگ کے دارالحکومت ارومچی میں نسلی فسادات میں تقریباً 200 افراد ہلاک ہوئے۔خیال ہے کہ ایک فیکٹری میں ہان چینیوں کے ساتھ جھگڑے میں دو ایغور وں کی موت کے بعد یہ تشدد پھیلا تھا۔چینی انتظامیہ نے اس بدامنی کے لیے ملک سے باہر سنکیانگ علیحدگی پسندوں کو ذمہ دار ٹھرایا تھا اور جلا وطن رہنما رابعہ قدیر کو قصوروار مانا جاتا ہے۔چین کا کہنا ہے کہ رابعہ نے تشدد بھڑکایا تھا۔ رابعہ نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔ ایغور پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ پولیس نے پر امن مظاہرہ کرنے والے لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ کی تھی جس کے سبب تشدد اور اموات ہوئیں۔
[34]
اس علاقہ میں پٹرول، کوئلے اور یورینیم کے ذخائر ہونے کی وجہ سے چین کی اقتصادی اور عسکری حالت کافی حد تک اس علاقہ پر منحصر ہے۔جو چین کے لیے حاصل کرنا اس کی معیشت کو پَر لگانا تھا، اس لیے وہاں کے مسلمان ان حالات میں ہیں ۔
حوالہ جات: