سیدنا ابوہریرہ ﷜ كی مبارک صفات اور مثالی حفظ و ضبط

نام و نسب
      سید الحفاظ والاثبات سیدنا ابوہریرۃدوسی یمنی﷜ کے نام کے بارے میں امام ذہبی﷫ لکھتے ہیں:
اختلف فى اسمه على أقوال جمة، أرجحها: عبدالرحمٰن بن صخر.[1]
’’ابوہریرہ﷜ کے نام کے بارے میں بہت سے مختلف اقوال ہیں۔ ان میں سب سے راجح عبدالرحمٰن بن صخر ہے۔‘‘
بعض نے ابن غنم کہا ہے، بعض نے عبدشمس اور عبداللّٰہ بتایا ہے، بعض نے سُکَین، بعض نے عامر، بعض نے بریر اور بعض نے عبد بن غنم کہا ہے۔ بعض نے عمرو اور بعض نے سعید بتایا ہے۔ ایسے ہی آپ کے باپ کے بارے میں بھی کئی اقوال ہیں۔ ہشام بن کلبی نے آپ کا نسب نامہ یوں ذکر کیا ہے:
’’عمیر (ابوہریرہ) بن عامر بن ذی شری بن طریف بن عَیّان بن ابی صعب بن ھُنیَّۃ بن سعد بن ثعلبۃ بن سلیم بن فہم بن غنم بن دوس بن عُدثان بن عبداللّٰہ بن زہران بن کعب بن حارث بن کعب بن عبداللّٰہ بن مالک بن نصر بن ازد‘‘ ا ور خلیفہ بن خیاط نے بعینہٖ یہی کچھ آپ کے نسب نامہ میں ذکر کیا ہے۔ لیکن اس نے ’عیّان‘ کی جگہ ’عتاب‘ اور ’ھُنیۃ‘ کی جگہ ’مُنَبّہ‘ کہا ہے۔‘‘ (ایضاً)
      حافظ ابن حجر عسقلانی ﷫قطب حلبی سے نقل کر تےہوئے لکھتے ہیں کہ ابوہریرہ ﷜اور آپ کے باپ کے نام کے بارے میں جس قدر اقوال الکنیٰ للحاکم، الاستیعاب اور تاریخ ابن عساکر میں ذکر کئے گئے ہیں، ان کا مجموعہ چوالیس بنتا ہے۔ [2] پھر طویل بحث کے بعد آپ لکھتے ہیں :
فعند التامل لا تبلغ الأقوال عشرة خالصة ومرجعها من جهة صحة النقل إلى ثلاثة: عمیر وعبد الله وعبد الرحمٰن الأوّلان محتملان فى الجاهلیة والإسلام وعبد الرحمٰن فى الإسلام خاصة.[3]
غور و فکر کرنے سے یہ تعداد خالص دس اقوال تک بھی نہیں پہنچتی۔ صحتِ نقل کے لحاظ سے صرف تین نام ثابت ہوتے ہیں: (۱) عمیر (۲) عبداللّٰہ اور (۳) عبدالرحمٰن۔ پہلے دو کے بارے میں احتمال ہے کہ یہ زمانۂ جاہلیت اور دورِ اسلام میں آپ کے نام ہوں۔ جبکہ عبدالرحمٰن نام خصوصی طور پر آپ کے اسلام قبول کرنے کے بعد کا ہے۔ ابوہریرہ﷜ خود فرماتے ہیں: کان اسمی في الجاهلية عبد الشمس فسُمِیْتُ في الاسلام عبدالرحمٰن[4]’’دورِ جاہلیت میں میرا نام عبد شمس تھا۔ پھر اسلام میں میرا نام عبدالرحمٰن رکھا گیا۔ ‘‘
کنیتِ ابوہریرہ ﷜
      عبداللّٰہ بن رافع، سیدنا ابوہریرہ﷜سے دریافت کرتے ہیں:
لِمَ کُنِّیتَ أبا هریرة؟ قال: أَمَا تَفْرَق مِنِّىْ؟ قلتُ: بلى، والله! إِنِّىْ لَأَهَابُك، قال: کنتُ أَرْعٰى غنم أهلى، فکانَتْ لِىْ هُرَیرة صَغِیرة فکنتُ أَضَعُها باللیل فى شجرة، فإذا کان النهار ذهبتُ بما فلَعِبْتُ بها فکنّونِىْ أبا هریرةَ.[5]
’’اے ابوہریرہ! آپ کی کنیت ابوہریرہ کیوں رکھی گئی؟ ابوہریرہ نے کہا: کیا آپ مجھ سے ڈرتے نہیں ہو؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، اللّٰہ کی قسم! میں آپ سے ڈرتا ہوں۔ ابوہریرہ نے کہا: میں اپنے گھر کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔ میری ایک چھوٹی سی بلّی تھی، میں اسے رات کو درخت پر رکھتا۔ جب دن ہوتا اسے ساتھ لے جاتا، اس سے کھیلتا تو لوگوں نے میری کنیت ابوہریرہ رکھ دی۔‘‘
محمد بن قیس کہتے ہیں کہ ابوہریرہ ﷜کہا کرتے تھے:
لا تکنوني أباهریرة، کناني رسول اللهﷺ أبا هرّ.
’’میری کنیت ابوہریرہ نہ پکارو، رسول اللّٰہ ﷺ نے تو میری کنیت أبو هرّ رکھی ہے۔ ‘‘
ولید بن رباح، ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؓ کہا کرتے تھے:
کان النبی ﷺ یدعوني أبا هرّ .[6]
’’نبی کریمﷺ مجھے أبا هرّ کہہ کر پکارا کرتے تھے۔‘‘
حافظ ابن عبدالبرّ نے ابن اسحٰق کے حوالے سے لکھا ہے:
وَقَدْ رُوِينَا عَنْهُ أَنِّهُ قَالَ:كُنْتُ أَحْمِلُ هِرَّةً يَوْمًا فِي كُمِّي، فَرَآنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، فَقَالَ لِي: مَا هَذِهِ؟ فَقُلْتُ: هِرَّةٌ. فَقَالَ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ. وَهَذَا أَشْبَهُ عِنْدِي أَنْ يَكُونَ النَّبِيُّ ﷺ كَنَّاهُ بِذَلِكَ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ. [7]
’’ہمیں ابوہریرہ﷜ کے بارے میں روایت کی گئی ہے کہ آپؓ نے فرمایا کہ میں نے ایک دن اپنی آستین میں بلّی اٹھائی ہوئی تھی، تو رسول اللّٰہ ﷺ نے مجھے دیکھ کر فرمایا: یہ کیا ہے؟ تو میں نے کہا بلّی ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے ابوہریرہ۔ (ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ) یہ بات میرے نزدیک زیادہ یقین والی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے آپ کی یہ کنیت رکھی ہو۔ واللّٰہ اعلم ‘‘
اہل یمن کی فضیلت
اہل یمن کی فقہ و حکمت اور نرم دلی کا رسول اللّٰہ ﷺ یوں تذکرہ فرماتے ہیں:
«الفِقْهُ يَمَانٍ وَالحِكْمَةُ يَمَانِيَةٌ.»[8]
’’فقہ تو یمن والوں کی ہے اور حکمت و دانائی بھی یمن والوں کی ہے۔ ‘‘
آپ ﷺ نے مزید ارشاد فرمایا:
«أَتَاكُمْ أَهْلُ اليَمَنِ، هُمْ أَرَقُّ أَفْئِدَةً وَأَلْيَنُ قُلُوبًا، الإِيمَانُ يَمَانٍ وَالحِكْمَةُ يَمَانِيَةٌ.»[9]
’’تمہارے پاس اہل یمن آئے ہیں۔ یہ رقیق القلب اور نرم دل ہیں۔ ایمان تو یمن والوں کا ہے اور حکمت و دانائی بھی یمن والوں کی ہے۔ ‘‘
      حافظ ابن حجر عسقلانی﷫ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں کہ
’’لفظ یَمان اُن کو شامل ہے جو سکونت اور قبیلے کے لحاظ سے یمن کی طرف منسوب ہوں ، لیکن اس لفظ یمان سے سکونت کے لحاظ سے یمن کی طرف منسوب اشخاص، مراد لینا زیادہ واضح ہے۔ ‘‘[10]
ابوہریرہ﷜کا اسلام اور ہجرت
سیدنا ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ
’’طفیل بن عمرو نے نبی کریم ﷺ کے پاس آ کر کہا: ’’بلاشبہ دوس ہلاک ہو گئے۔ اُنہوں نے نافرمانی کی اور (اسلام لانے سے) انکار کر دیا، لہٰذا آپ ان کے لئے بددعا فرمائیں۔ تو آپ (ﷺ) نے فرمایا: «اللهم اهد دوسًا وَائتِ بهم» ’’ اے اللّٰہ! دوس کو ہدایت نصیب فرما اور اُن کو لے آ۔‘‘ [11]
رسول اللّٰہ ﷺ کی دعا کا یہ اثر ہوا کہ دوس کے ستّر اسّی گھرانے مسلمان ہو گئے۔ ابوہریرہ﷜ سے مروی صحیح بخاری کی مندرجہ بالا حدیث کے تحت حافظ ابن حجر ہشام بن الکلبی سے نقل کر کے لکھتے ہیں:
إنه دعا قومه إلى الإسلام فاسلم أبوه ولم تسلم أمّه وأجابه أبوهریرة وحده.[12]
’’طفیل بن عمرو نے اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دی تو آپ کے باپ مسلمان ہو گئے لیکن آپ کی ماں نے اسلام قبول نہ کیا اور ابوہریرہ اکیلے نے طفیل کی دعوت کو قبول کیا۔ یعنی آپ نے بھی یمن ہی میں اسلام قبول کر لیا۔ ‘‘
      اس سے واضح ہوا کہ اوپر جن ستّر اسّی گھرانوں کے اسلام کا ذکر ہوا اُن سب میں ابوہریرہ کو قدیم الاسلام ہونے کا شرف حاصل ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر﷫ لکھتے ہیں کہ یہ (ابن کلبی کا ذکر کردہ قصہ) ابوہریرہ ﷜کے قدیم الاسلام ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ اور ابن ابی حاتم نے جزم و وثوق کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ ابوہریرہ﷜ خیبر میں طفیل بن عمرو دوسی کے ساتھ آئے تھے۔ [13]
حافظ ابن حجر ﷫کے مذکورہ بالا بیان سے ثابت ہوا کہ ابوہریرہ﷜ کی نبی کریم ﷺ سے پہلی ملاقات (۷ھ میں)خیبر کے مقام پر ہوئی تھی۔
غزوۂ خیبر میں شرکت
      طبقات ابن سعد کی ذکر کردہ درج ذیل روایت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے :
أن أبا هریرة قدم المدینة فى نفر من قومه وقد خرج رسول الله ﷺ إلى خیبر واستخلف على المدینة رجلًا من غفار یقال له سباع بن عُرفطة .... قال أبوهریرة .... فلما فرغنا من صلاتنا أتینا سباعًا فزَوَّدَنا شیئًا حتٰی قدمنا على رسول الله ﷺ قد افتتح خیبر فکلّم المسلمین فأشرکونا فى سهمانهم.[14]
’’سیدنا ابوہریرہ﷜ اپنی قوم کے چند افراد کی معیت میں مدینہ پہنچے اور رسول اللّٰہ ﷺ بنو غفار کے سباع بن عرفطہ نامی شخص کو مدینہ میں اپنا نائب بنا کر خیبر کی طرف نکل چکے تھے…اور ابوہریرہ﷜ نے کہا کہ جب ہم نماز سے فارغ ہو کر سباع کے پاس آئے تو اس نے ہمیں کچھ زادِ راہ دیا۔ یہاں تک کہ ہم رسول اللّٰہ ﷺ کے پاس آ پہنچے اور آپ خیبر فتح کر چکے تھے۔ پھر آپ نے مسلمانوں سے بات کی تو انہوں نے ہمیں اپنے (مال غنیمت کے) حصے میں شریک کر لیا۔‘‘
حافظ ابن حجر عسقلانی﷫ لکھتے ہیں:
وَقَعَ عند الواقدی إنه قدم بعد فتح معظم خیبر فَحَضَر فتح آخرها، لکن مضٰى فى الجهاد من طریق عنبسة بن سعید عن أبي هریرة قال: أتیتُ رسول الله ﷺ وهو بخیبر بعد ما افتتحها فقلتُ یا رسول الله! اسهم لى! [15]
’’واقدی کے ہاں واقعہ یوں ہے کہ ابوہریرہ خیبر کا زیادہ حصہ فتح ہونے کے بعد آئے اور اس کے آخری (قلعہ کی) فتح کو حاضر ہوئے، لیکن کتاب الجہاد (صحیح بخاری) میں، عنبسہ بن سعید کی ابوہریرہ ﷜سے یہ روایت گذر چکی ہے کہ آپ﷜ نے کہا کہ میں رسول اللّٰہ ﷺ کے پاس خیبر میں اس کے فتح ہونے کے بعد پہنچا اور میں نے کہا کہ اے اللّٰہ کے رسول میرا حصہ نکالئے۔‘ ‘
اور شیخ عبدالمنعم ابوہریرہ﷜ سے یوں نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ ’’جب ہم مدینہ منورہ پہنچے تو ہمیں بتایا گیا کہ رسول اللّٰہ ﷺ خیبر کے معرکہ میں مصروف ہیں اور ہو سکتا ہے کہ وہ تشریف لے آئیں۔ ہم نے سوچا کہ انتظار کی بجائے وہاں خدمت میں حاضری کیوں نہ دیں، چنانچہ فتح خیبر سے ایک یا دو دن قبل میں رسول اللّٰہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یہ وہ وقت تھا کہ خیبر میں نطاۃ کا قلعہ فتح ہوا تھا، اور الکتیبةنامی قلعہ کامحاصرہ جاری تھا۔ یوں ابوہریرہ﷜ کی موجودگی میں خیبر فتح ہوا۔ [16]
جبکہ صحیح بخاری کی درج ذیل روایت سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ابوہریرہ﷜ خیبر میں رسول اللّٰہ ﷺ کے پاس اس وقت پہنچے کہ جنگ جاری تھی۔امام زہری﷫ سیدنا سعید بن مسیب﷫ سے وہ سیدنا ابوہریرہ﷜ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ﷜ نے کہا:
شَهِدْنَا خَيْبَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ لِرَجُلٍ مِمَّنْ مَعَهُ يَدَّعِي الإِسْلاَمَ: «هَذَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ» . فَلَمَّا حَضَرَ القِتَالُ قَاتَلَ الرَّجُلُ أَشَدَّ القِتَالِ، حَتَّى كَثُرَتْ بِهِ الجِرَاحَةُ، فَكَادَ بَعْضُ النَّاسِ يَرْتَابُ، فَوَجَدَ الرَّجُلُ أَلَمَ الجِرَاحَةِ، فَأَهْوَى بِيَدِهِ إِلَى كِنَانَتِهِ فَاسْتَخْرَجَ مِنْهَا أَسْهُمًا فَنَحَرَ بِهَا نَفْسَهُ... الخ [17]
’’ہم خیبر میں حاضر ہوئے تو رسول اللّٰہ ﷺ نے اسلام کے دعویداروں میں سے ایک آدمی کے متعلق فرمایا: ’’یہ آگ والوں میں سے ہے۔‘‘ (یعنی دوزخی ہے)۔ جب لڑائی کا موقع آیا، اُس آدمی نے سخت لڑائی کی یہاں تک کہ اُسے بہت زخم آ گئے۔ ہو سکتا تھا کہ بعض لوگ (آپ ﷺ کی بات پر) شک کرنے لگ جاتے۔ اس شخص نے زخموں کی تکلیف برداشت نہ کرتے ہوئے اپنے ترکش کی طرف ہاتھ جھکایا، اس سے ایک تیر نکال کر اُس کے ساتھ خود کو ذبح کر دیا…الخ ‘‘
غزوۂ خیبر کا زمانہ
      حافظ ابن قیم﷫ لکھتے ہیں کہ غزوۂ خیبر محرم 07ھ میں ہوا۔ یہی جمہور کا مسلک ہے اور ابن حزم﷫ نے کہا: "إنّما کَانَتْ فى السادسة" کہ یہ 06ھ میں ہوا ہے۔ [18] لیکن ابن حزم﷫ کے اپنے الفاظ سے 06ھ نہیں بلکہ 07ھ ہی ثابت ہو رہا ہے۔ ابن حزم﷫ غزوۂ حدیبیہ کے تحت لکھتے ہیں:
وَخَرَجَ فى السنة السادسة فى ذي القعدة مُعْتَمِرًا. [19]
’’ رسول اللّٰہ ﷺ ذواالقعدہ 06ھ میں عمرہ کے لئے نکلے۔ ‘‘
اور آپ غزوۂ خیبر کے تحت لکھتے ہیں:
فأقام رسول الله ﷺ بالمدینة مرجِعَه، من الحدیبیة ذو الحجة وبعض المحرم ثم خرج فى بقیة من المحرم غازیًا إلى خیبر.[20]
’’رسول اللّٰہ ﷺ حدیبیہ سے واپسی پر ذوالحجہ (06ھ) اور کچھ محرم (07ھ) مدینہ میں ٹھہرے۔ پھر باقی محرم (07ھ) میں خیبر کی طرف جنگ کرنے کے لئے نکلے۔‘‘
خیبر کے معرکوں کی تفصیلات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی واپسی یا تو صفر (۷ھ)کے اخیر میں ہوئی یا پھر ربیع الاوّل کے مہینے میں۔ [21]
ہمہ وقت حاضری کا اعزاز
سیدنا ابوہریرہ﷜فتح خیبر 7ھ سے لے کر وفات نبوی تک، سوائے رات کی چند گھڑیوں کے ہمہ وقت رسول اللّٰہ ﷺ کے ساتھ رہے۔ ابوھریرہؓ کی صحبتِ نبوی ضرب المثل تھی۔ حمید بن عبدالرحمٰن حمیری بیان کرتے ہیں:  لَقِیْتُ رَجُلًا صَحِبَ النبی ﷺ کَمَا صَحِبَه، أبوهریرة [22]
کہ ’’میں ایسے شخص سے ملا جس نے نبی اکرم ﷺ کی ایسے صحبت اختیار کی، جیسے آپ ﷺ کی صحبت ابوہریرہ نے اختیار کی۔ ‘‘
سیدنا ابوہریرہ﷜ خود بیان فرماتے کہ
’’میں رسول اللّٰہ ﷺ کے پاس 7ھ میں آیا اور آپ خیبر میں تھے، اور میری عمر اس وقت تیس سال سے زائد تھی۔ میں نے آپ ﷺ کی وفات تک آپ کے ساتھ اقامت اختیار کی۔ میں آپ کے ساتھ آپ کی ازواج (مطہرات) کے گھروں میں گھومتا پھرتا اور آپ کی خدمت بجا لاتا، حالانکہ اللّٰہ کی قسم میں ان دنوں تنگ دست تھا۔ میں آپ کے پیچھے نمازیں پڑھتا اور آپ کی معیت میں جہاد کرتا رہا۔ میں نے آپ کی معیت میں حج کیا۔ اللّٰہ کی قسم! میں آپ کی احادیث تمام لوگوں سے زیادہ جاننے والا ہوں۔ اللّٰہ کی قسم! بہت سے قریش اور انصار نے صحابیت اور ہجرت میں مجھ پر سبقت حاصل کی تھی اور وہ میرے آپ ﷺ کے ساتھ لازم رہنے کو جانتے تھے اور وہ آپ ﷺ کی حدیث بارے مجھ سے سوالات کیا کرتے تھے۔ ان (سوالات کرنے والوں) میں عمر ، عثمان، علی اور طلحہ و زبیر﷢ شامل ہیں۔ اللّٰہ کی قسم! مدینہ میں آپﷺ کی جو بھی حدیث تھی، وہ مجھ سے پوشیدہ نہیں تھی۔ جو بھی شخص اللّٰہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتا تھا اور جس کسی کو آپ ﷺ کے ہاں مرتبہ حاصل تھا، اور جس کسی کو آپ ﷺ کی صحبت حاصل تھی، یہ سب کچھ مجھ پر عیاں تھا۔‘‘ [23]
ابویُسر بن ابوعامِر کا بیان ہے کہ
’’میں سیدنا طلحہ بن عبیداللّٰہ کے پاس موجود تھا کہ ایک شخص نے آ کر کہا: اے ابوعبداللّٰہ! ہم نہیں جانتے کہ یہ یمنی (ابوہریرہ) رسول اللّٰہ ﷺ کے بارے تم سے زیادہ جانتا ہے، یا یہ رسول اللّٰہ ﷺ کی طرف ایسی باتیں منسوب کر رہا ہے جو اس نے آپ سے نہ سنی ہوں، یا جو آپﷺ نے نہ کہا ہو؟ تو طلحہ﷜ نے فرمایا کہ ہمیں اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نے رسول اللّٰہ ﷺ سے وہ کچھ سن رکھا ہے جو ہم نے نہیں سنا اور یہ وہ کچھ جانتا ہے جو ہم نہیں جانتے۔ ہم تو غنی لوگ تھے، ہمارے گھر بار اور اہل و عیال تھے، ہم رسول اللّٰہ ﷺ کے پاس صبح و شام آیا کرتے پھر لوٹ جایا کرتے تھے۔ اور ابوہریرہ﷜ تو مسکین تھے، نہ آپ کے پاس مال و متاع تھا، نہ اہل و عیال۔ اس کا ہاتھ رسول اللّٰہ ﷺ کے ہاتھ کے ساتھ ہوتا اور یہ آپ ﷺ کے ساتھ گھومتا پھرتا جہاں آپ ﷺ گھومتے پھرتے تھے۔ اس لئے ہمیں کوئی شک نہیں ہے کہ اس نے آپﷺ سے وہ کچھ معلوم کر لیا جو ہم معلوم نہ کر سکے۔ اور اس نے وہ کچھ سن لیا جو ہم نہ سن سکے تھے۔‘‘[24]
کل مدت معیت ِ رسول ﷺ
سیدنا ابو ہریرہ﷜صفر ۷ھ میں خیبر پہنچے اور نبی مکرّم ﷺ ربیع الاوّل11ھ میں فوت ہوئے۔ یہ مدت چار سال سے کچھ زائد بنتی ہے۔ [25]اس کی وضاحت حمید بن عبدالرحمٰن حمیری نے اپنے اس قول میں کی ہے :
لَقِيتُ رَجُلًا صَحِبَ النَّبِيَّ ﷺكَمَا صَحِبَهُ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَرْبَعَ سِنِينَ.[26]
’’میں اس شخص سے ملا ہوں جس نے نبی ﷺ کی ایسے صحبت اختیار کی جیسے ابوہریرہ ﷜ نے چار سال آپ ﷺ کی صحبت اختیار کی تھی ۔‘‘
لیکن ابوہریرہ﷜ خود وضاحت فرماتے ہیں:
صحبتُ رسول الله ﷺ ثلاث سنین.[27]
’’ میں رسول اللّٰہ ﷺ کی صحبت میں تین سال رہا۔‘‘
عبدالمنعم صالح تین اور چار سال کی مدتِ صحبت کے درمیان تطبیق دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
’’گویا ابوہریرہ﷜ نے اس مدت کو مدنظر رکھا ہے ، جس میں آپ غزوۂ خیبر سے واپسی کے بعد نبی ﷺکے ساتھ شدت کے ساتھ لازم رہے۔ یاسیدنا ابوہریرہ ﷜نے اُن اوقات کا اعتبار نہیں کیا جن میں نبی ﷺ اپنے حج و عمرہ اور غزوات میں مصروفِ سفر رہے۔ کیوں کہ ان اوقات میں ابوہریرہ﷜ آپ کے ساتھ اس طرح لازم نہ رہ سکے جس طرح مدینہ میں آپ کے ساتھ لازم رہتے تھے۔ یا وہ مدت مراد ہے جس میں ابوہریرہ شدت ِ حرص کی صفت کے ساتھ مقید رہے اور جو وقت مذکورہ مدت کے علاوہ ہے، اس میں مذکورہ بالاحرص واقع نہ ہوئی تھی یا واقع تو ہوئی تھی لیکن اُس میں آپ کی حرص قوی تر نہ تھی۔ ‘‘[28]
کفش برادری کا اعزاز
ایک طویل حدیث میں سیدنا ابو ہریرہ ﷜بیان کرتے ہیں کہ رسول اللّٰہ ﷺ ہمارے درمیان سے اُٹھ کر چلے گئے اور دیر تک واپس نہ آئے تو ہمیں گھبراہٹ ہوئی ،ابو ہریرہ﷜ کہتے ہیں : فَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ، فَخَرَجْتُ أَبْتَغِي رَسُولَ اللهِ ﷺ حَتَّى أَتَيْتُ حَائِطًا لِلْأَنْصَار (سب سے پہلے مجھے گھبراہٹ ہوئی تو میں رسول اللّٰہ ﷺ کی تلاش میں نکلا یہاں تک کہ انصار کے ایک باغ میں آیا) ابو ہریرہ﷜ کہتے ہیں:
أَعْطَانِي نَعْلَيْهِ، قَالَ: «اذْهَبْ بِنَعْلَيَّ هَاتَيْنِ، فَمَنْ لَقِيتَ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطِ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ، فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ».[29]
’’ آپؐ نے مجھے اپنے نَعلین دیے اور فرمایا: ابو ہریرہ !’’میرے یہ دونوں جوتے لے جاؤ اوراس باغ کے پیچھے جس ایسے شخص کوتم ملوجو دل کے یقین کیساتھ لاالٰہ الا اللّٰہ کی گواہی دیتا ہو ،اسے جنت کی بشارت سنادو ۔ ‘‘
خدمتِ رسولﷺ کا اعزاز
سیدنا ابو ہریرہ ﷜ خدمتِ رسول کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے ، حتی کہ آپؐ جب قضائے حاجت کے لیے نکلتے تو ابو ہریرہ﷜ لوٹا اور ڈھیلے وغیرہ لے کر آپ کے پاس حاضر ہوتے۔ابو ہریرہ ﷜ سے روایت ہے:
أَنَّهُ كَانَ يَحْمِلُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ وَسَلَّمَ إِدَاوَةً لِوَضُوئِهِ وَحَاجَتِهِ، فَبَيْنَمَا هُوَ يَتْبَعُهُ بِهَا، فَقَالَ: «مَنْ هَذَا؟» فَقَالَ: أَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ، فَقَالَ: «ابْغِنِي أَحْجَارًا أَسْتَنْفِضْ بِهَا، وَلاَ تَأْتِنِي بِعَظْمٍ وَلاَ بِرَوْثَةٍ» .... الخ [30]
’’ وہ نبی ﷺ کے وضو کے پانی اورآپ کی حاجت کے لیے لوٹا اُٹھا کر آپ کے ساتھ ساتھ ہوا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ابو ہریرہ﷜ لوٹا اُٹھائے آپ کے پیچھے پیچھے جارہے تھے تو آپ نے فرمایا : ’’ یہ کون ہے؟‘‘ ابو ہریرہ ﷜نے کہا:میں ابو ہریرہ ہوں ، تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’ میرے لیے چند پتھر تلاش کرکے لاؤ! تاکہ میں طہارت حاصل کرلوں اور میرے پاس ہڈی اور لید نہ لانا ۔‘‘
ابوہریرہ ﷜ کا حافظہ اور کثرتِ روایت
سیدنا ابوہریرہ ﷜پختہ حافظہ کے مالک تھے۔ آپ جو کچھ روایت کرتے تھے، آپ کو خوب یاد ہوتا تھا۔ آپ اپنی مرویات پر گہری نظر رکھتے تھے۔ آپ میں دو ایسی صفتیں مجتمع تھیں جو ایک دوسری کی تکمیل کا باعث بنیں۔ پہلی صفت: وسعت ِعلم اور مرویات کی کثرت تھی اور دوسری صفت: قوتِ حافظہ اور حسن ضبط تھی۔ یہ آخری چیز ہوتی ہے جس کی تمنا و آرزو اہل علم کیا کرتے ہیں۔ [31]
a  امام بخاریؓ اپنی صحیح میں یہ روایت لائے ہیں:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: "إِنَّ النَّاسَ يَقُولُونَ أَكْثَرَ أَبُو هُرَيْرَةَ، وَلَوْلاَ آيَتَانِ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا حَدَّثْتُ حَدِيثًا، ثُمَّ يَتْلُو﴿ اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَاۤ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنٰتِ وَ الْهُدٰى ﴾ [البقرة: 159] إِلَى قَوْلِهِ ﴿ الرَّحِيْمُ﴾ [البقرة:160] إِنَّ إِخْوَانَنَا مِنَ المُهَاجِرِينَ كَانَ يَشْغَلُهُمُ الصَّفْقُ بِالأَسْوَاقِ، وَإِنَّ إِخْوَانَنَا مِنَ الأَنْصَارِ كَانَ يَشْغَلُهُمُ العَمَلُ فِي أَمْوَالِهِمْ، وَإِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ يَلْزَمُ رَسُولَ الله ﷺ بِشِبَعِ بَطْنِهِ، وَيَحْضُرُ مَا لاَ يَحْضُرُونَ، وَيَحْفَظُ مَا لاَ يَحْفَظُونَ "[32]
’’ابوہریرہ﷜ نے فرمایا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ بہت حدیثیں روایت کرتا ہے۔ اگر اللّٰہ کی کتاب میں یہ دوآیتیں نہ ہوتیں تو میں کوئی حدیث روایت نہ کرتا۔ پھر آپ﷜ (درج ذیل دو آیتیں) پڑھتے: ’’جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں، دراں حالیکہ اُنہیں سب انسانوں کی راہنمائی کے لئے اپنی کتاب میں بیان کر چکے ہیں، یقین جانو کہ اللّٰہ بھی اُن پر لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی اُن پر لعنت بھیجتے ہیں۔ البتہ جو اس روش سے باز آ جائیں اور اپنے طرزِ عمل کی اصلاح کر لیں اور جو کچھ چھپاتے تھے، اسے بیان کرنے لگیں، اُن کومیں معاف کر دوں گا اور میں بڑا درگزر کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں۔
بلاشبہ ہمارے مہاجر بھائیوں کو بازاروں میں خرید و فروخت مشغول رکھتی تھی، اور ہمارے انصار بھائیوں کو اپنے مالوں کی عمل داری مصروف رکھتی تھی اور ابوہریرہ اپنے پیٹ بھر کھانے پر رسول اللّٰہ ﷺ سے چمٹا رہتا تھا، اور وہ (آپ کے مختلف احوال میں) وہاں حاضر رہتا، جہاں وہ حاضر نہیں ہوتے تھے اور وہ (ایسی حدیثیں) یاد کر لیتا جو وہ یاد نہیں کر پاتے تھے۔‘‘
b  حافظ ابن حجر﷫ فرماتے ہیں کہ امام بخاری﷫ نے التاریخ میں اور امام حاکم نے المستدرك میں ابوہریرہ کی حدیث کا طلحہ بن عبیداللّٰہ کی حدیث سے شاہد روایت کیا ہے، اور اس کے الفاظ ہیں :
لَا أَشُكُّ أنه سمع من رسول الله ما لا نسمع، وذلك أنه کان مسکینًا لا شَيء له، ضَیْفًا لرسول الله ﷺ وأخرج البخاري فى التاریخ والبیهقي فى المدخل من حدیث محمد بن عمارة بن حزم أنه قعد فى مجلس فیه مشیخة من الصحابة بضعة عشر رجلًا فَجَعَلَ أبوهریرة یحدثهم عن رسول الله ﷺ بالحدیث فلا یعرفه بعضهم، فیراجعون فیه حتی یعرفوه، ثم یحدثهم بالحدیث کذلك حتی فعل مرارًا، فعرفتُ یومئذ أن أباهریرة أحفظ الناس.[33]
’’طلحہ بن عبیداللّٰہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ ابوہریرہ ﷜نے رسول اللّٰہ ﷺ سے وہ کچھ سنا جو ہم نہیں سنتے تھے۔یہ اس لئے کہ آپ مسکین تھے، آپ کے پاس کچھ نہیں تھا۔ آپ رسول اللّٰہ ﷺ کے مہمان تھے۔ امام بخاری﷫ نے التاریخ میں اور امام بیہقی نے المدخل میں محمد بن عمارہ بن حزم کی یہ حدیث تخریج کی ہے کہ وہ ایک ایسی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے جہاں دس سے کچھ زائد بڑے بڑے صحابہ﷢ تشریف فرما تھے، تو ابوہریرہ ﷜اُنہیں رسول اللّٰہ ﷺ کی حدیثیں سنانے لگے تو اُن صحابہ میں سے کئی صحابہ ان حدیثوں سے متعارف نہیں تھے۔ وہ(صحابہ) ان حدیثوں کی مراجعت کرتے حتیٰ کہ وہ ان حدیثوں سے متعارف ہو جاتے۔ ابوہریرہ﷜ پھر انہیں اسی طرح حدیث سناتے، یہاں تک کہ آپ کئی دفعہ ایسا کرتے۔ اس دن مجھے معلوم ہوا کہ ابوہریرہ﷜ یقیناً تمام لوگوں کے مقابلہ میں زیادہ حافظہ کے مالک ہیں۔‘‘
c  مکحول تابعی﷫ فرماتے ہیں کہ ایک رات لوگوں نے سیدنا معاویہ ﷜کے قُبوں میں سے ایک قُبہ میں اکٹھے ہونے کا وقت مقرر کیا۔ وہاں جمع ہو گئے اور ابوہریرہ ﷜کھڑے ہو کراُنہیں رسول اللّٰہ ﷺ کی احادیث بیان کرتے رہے، یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ [34]
d  سیدنا ابوہریرہ﷜ ایک دفعہ سیدہ عائشہ﷞ کے پاس حاضر ہوئے تو سیدہ عائشہ﷞ نے آپ سے کہا:
اَکْثَرْتَ یَا أباهریرة عن رسول الله ﷺ، قال: اِیْ والله یا أمّاه، ما کانت تشغلني عنه المِرأة ولا المکحلة ولا الدهن. قالت لعلّه. [35]
’’اے ابوہریرہ! آپ رسول اللّٰہ ﷺ سے بہت حدیثیں روایت کرتے ہیں۔ آپ نے کہا: اللّٰہ کی قسم! اماں جی! مجھے آئینہ، سرمہ دانی اور تیل حدیث سے روکے نہیں رکھتے تھے۔ اماں جی نے فرمایا: شاید یہی وجہ ہو۔‘‘
e  الإصابة میں اس کی مزید وضاحت کی گئی ہے کہ سیدہ عائشہ ﷞نے سیدنا ابوہریرہ﷜ سے کہا:"اِنَّكَ لتحدث بشيء ما سمعتُه" آپ ایسی حدیثیں بیان کرتے ہیں جو میں نے نہیں سنیں۔ تو ابوہریرہ﷜نے کہا: ’’اماں جی! آپ کو اس سے سرمہ دانی اور آئینہ نے روک رکھا تھا، جبکہ مجھے اس سے روکنے والی کوئی چیز نہیں تھی۔‘‘[36]
f  امام شافعی﷫ فرماتے ہیں کہ
’’ابوہریرہ﷫ اپنے زمانے کے رُواۃِ حدیث میں سب سے زیادہ حافظہ رکھنے والے تھے۔ ‘‘[37]
g  مروان کے سیکرٹری ابوزُعَیزعہ کا بیان ہے کہ
’’ایک دفعہ مروان نے ابوہریرہ ﷜کو اپنے ہاں بلایا اور مجھے اپنے پلنگ کے پیچھے بٹھا دیا۔ اور مروان ابوہریرہ ﷜سے سوالات کرتے رہے اور میں لکھتا رہا، اور سال کے آخر پر پھر ابوہریرہ﷜ کو بلایا اور مجھے پردے کے پیچھے بٹھا دیا۔ مروان ابوہریرہ ﷜سے اس لکھے ہوئے کے بارے میں پوچھتے جاتے اور ابوہریرہ﷜ بغیر کمی بیشی اور بغیر کسی تقدیم و تاخیر کے بیان کرتے جاتے۔ میں نے کہا: حافظہ تو ایسا ہونا چاہئے۔ ‘‘[38]
h  سیدنا ابوہریرہ﷜ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا: ’’یا رسول اللّٰہ ﷺ! میں آپ سے بہت سی حدیثیں سنتا ہوں، بھول جاتا ہوں۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: اپنی چادر بچھاؤ! ابوہریرہ﷜ کہتے ہیں کہ میں نے چادر بچھا دی۔ ابوہریرہ﷜ نے کہا کہ ’’آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے چُلُّو بھرا، پھر فرمایا: اسے (سینے سے) لگا لو۔‘‘ میں نے اسے (سینے سے) لگا لیا، تو اس کے بعد مجھے کچھ نہیں بھولا۔‘‘ [39]
i  سیدنا ابوہریرہ﷜ سے ہی مروی ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے حدیث بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اپنا کپڑا پھیلائے رکھے، یہاں تک کہ میں اپنی یہ بات پوری کر لوں، پھر وہ اس کپڑے کو اکٹھا کر کے اپنے (سینے) سے لگا لے، تو اسے میری بیان کی ہوئی حدیث یاد ہو جائے گی۔ ابوہریرہ﷜ کہتے ہیں:
’’میں نے اپنے اوپر لی ہوئی چادر پھیلا دی یہاں تک کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے اپنی بات پوری کر لی، تو میں نے اسے اکٹھا کر کے اپنے سینے سے لگا لیا۔ مجھے آپ کی اس حدیث سے کچھ نہیں بھولا۔‘‘ [40]
j  سیدنا حذیفہ﷜ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے سیدنا عبداللّٰہ بن عمر ﷠ سے کہا کہ بلا شبہ ابوہریرہ﷜ رسول اللّٰہ ﷺ سے بہت حدیثیں روایت کرتے ہیں، تو عبداللّٰہ بن عمر ﷠ نے فرمایا:
أعیذك بالله أن تکون فى شك مما یجیء به ولکنه اجترأ وجَبُنّا.[41]
’’میں تجھے اللّٰہ کی پناہ میں دیتا ہوں کہ تو ابو ہریرہ﷜ کی روایت کی ہوئی حدیثوں میں شک کرے ، لیکن ابوہریرہ﷜ نےجرأت سے کام کیا اور ہم بزدل نکلے۔‘‘
k        سیدنا ابو ہریرہ﷜ بیان کرتے ہیں:
أَنَّ عُمَرَ، مَرَّ بِحَسَّانَ وَهُوَ يُنْشِدُ الشِّعْرَ فِي الْمَسْجِدِ، فَلَحَظَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: قَدْ كُنْتُ أُنْشِدُ، وَفِيهِ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْكَ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَبِي هُرَيْرَةَ، فَقَالَ: أَنْشُدُكَ اللهَ أَسَمِعْتَ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: «أَجِبْ عَنِّي، اللهُمَّ أَيِّدْهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ» ؟ قَالَ: اللهُمَّ نَعَمْ. [42]
’’سیدنا عمر﷜ (بن خطاب) ، حسان بن ثابت کے پاس سے گزرے اور حسان مسجد میں اشعار پڑھ رہے تھے، تو عمر﷜ نے گوشۂ چشم سے ان کی طرف دیکھا، تو حسان ﷜ نے کہا : جب اس مسجد میں آپ سے بہتر شخص (محمد رسول اللّٰہ﷜) ہوتے تھے میں شعر پڑھا کرتا تھا۔ پھر حسان نے ابوہریرہ﷜ کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے فرمایا: میں تمہیں اللّٰہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ کیا آپ نے رسول اللّٰہ ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا؟اے حسان ! ’’میری طرف سے جواب دیجئے! اے اللّٰہ روح القدس کے ذریعے اس کی مدد فرما!‘‘ تو ابو ہریرہ﷜ نے فرمایا: ہاں۔ ‘‘
l  امام زہری﷫ فرماتے ہیں کہ مجھے ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن نے بتایا کہ اس نے حسان بن ثابت ﷜سے سنا کہ وہ ابوہریرہ ﷜ کو گواہی دینے کے لیے کہہ رہے تھے :
أَنْشُدُكَ اللهَ هَلْ سَمِعْتَ النَّبِيَّ ﷺ، يَقُولُ: «يَا حَسَّانُ أَجِبْ عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ، اللهُمَّ أَيِّدْهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ» قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: نَعَمْ. [43]
’’میں تمہیں اللّٰہ کا واسطہ دیتا ہوں ، کیا آپ نے نبیﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ’’اے حسان تم رسول اللّٰہ ﷺ کی طرف سے جواب دو ، اے اللّٰہ حسان کی روح القدس کے ذریعے مدد فرما۔‘‘ ابو ہریرہ﷜ نے فرمایا : ہاں۔ ‘‘
m  ابو زرعہ﷫، ابو ہریرہ﷜ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
أُتِيَ عُمَرُ بِامْرَأَةٍ تَشِمُ، فَقَامَ فَقَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ، مَنْ سَمِعَ مِنَ النَّبِيِّ ﷺ فِي الوَشْمِ؟ فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَقُمْتُ فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ أَنَا سَمِعْتُ، قَالَ: مَا سَمِعْتَ؟ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: «لاَ تَشِمْنَ وَلاَ تَسْتَوْشِمْنَ» [44]
     ’’سیدنا عمر ﷜کے پاس Tatto(جلد پر اَنمٹ نقوش) گودنے والی عورت لائی گئی ، تو آپ نے کھڑے ہو کر فرمایا: میں تمہیں اللّٰہ کا واسطہ دیتا ہوں ، کسی نے جلد پر انمٹ نقوش گودنے کے بارے میں نبیﷺ سے سنا ہے؟ابوہریرہ﷜ نے کہا:میں نے اُٹھ کر کہا: اے امیر المومنین! میں نےسنا ہے۔ عمر ﷜ نے فرمایا: تم نے کیا سنا ہے؟ابو ہریرہ ﷜نے کہا: آپﷺ فرما رہے تھے: ’’عورتیں اپنی جلد پر انمٹ نقوش نہ خود گودیں اور نہ اوروں سے گدوائیں۔‘‘
n  سیدنا ابو ہریرہ﷜ سے سعید بن مسیب اور عطا بن یزید لیثی نے ایک طویل حدیث روایت کی، اس حدیث کے آخر میں ہے:
«قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: لَكَ ذَلِكَ وَمِثْلُهُ مَعَهُ " قَالَ أَبُو سَعِيدٍ الخُدْرِيُّ لِأَبِي هُرَيْرَةَرضي الله عنه: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " قَالَ اللَّهُ: لَكَ ذَلِكَ وَعَشَرَةُ أَمْثَالِهِ »[45]
’’اللّٰہ تعالیٰ (آخری جنتی سے) فرمائیں گے: تیر ے لیے یہ ہے اور اسی جیسا اور ہے۔ابو سعید خدری﷜ نے ابو ہریرہ﷜ سے کہا کہ بلا شبہ رسول اللّٰہﷺ نے (یوں )فرمایا: ’’ الله تعالیٰ فرمائیں گے:تیرے لیے یہ اور اس سے دس گنا اور ہے ۔ابو ہریرہ﷜نے کہا : میں نے تو رسو ل اللّٰہ ﷺ سے «لك ذلك ومثله معه» یاد کیا ہے ۔ابو سعید﷜ نے کہا : میں نے رسول اللّٰہ ﷺ کو «ذلك وعشرة أمثاله» کہتے ہوئے سنا ہے۔‘‘
o  اس حدیث کے راوی عطا بن یزید دوسرے مقام پر ابوہریرہؓ کے حافظہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
وَأَبُو سَعِيدٍ الخُدْرِيُّ جَالِسٌ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ لاَ يُغَيِّرُ عَلَيْهِ شَيْئًا مِنْ حَدِيثِهِ، حَتَّى انْتَهَى إِلَى قَوْلِهِ: «هَذَا لَكَ وَمِثْلُهُ مَعَهُ» ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: «هَذَا لَكَ وَعَشَرَةُ أَمْثَالِهِ» ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: حَفِظْتُ «مِثْلُهُ مَعَهُ». [46]
’’ اور ابو سعید خدری﷜ ابوہریرہ﷜ کے پا س بیٹھے ہوئے تھے، ابو سعید﷜ نے آپ ﷜ کے قول «هذا لك ومثله معه»تک ابو ہریرہ﷜ کی حدیث میں کوئی تغیر نہیں کیا۔ ابو سعید نے (صرف یہ)کہاکہ میں نے رسول اللّٰہ ﷺ کو«هٰذا لك وعشرة أمثاله»کہتے ہوئے سنا۔ ابو ہریرہ ﷜ نے کہا کہ میں نے «ومثله معه»حفظ کیا ہوا ہے۔‘‘
سیدنا ابو ایوب انصاری ﷜ کا سیدنا ابو ہریرہ﷜کے حافظہ پر اعتماد
      ابو شعثاء فرماتے ہیں کہ میں مدینہ طیبہ پہنچا، تو دیکھا کہ ابو ایوب انصاری﷜ ابو ہریرہ﷜ (کے واسطہ) سے حدیث روایت کر رہے ہیں ، تو میں نے کہا کہ آپ رسول اللّٰہ ﷺکے ہا ں مقام و مرتبہ رکھتے ہیں اور آپ ابوہریرہ ﷜سے حدیث روایت کرتے ہیں! تو ابو ایوب ﷜ نے فرمایا:
لأن أحدث عن أبي هریرة أحبُّ إلىّ من أن أُحدّث عن النبی ﷺ.[47]
’’مجھے نبی ﷺ سے (بلاواسطہ)حدیث روایت کرنے کی نسبت ابو ہریرہ﷜ (کے واسطہ)سے حدیث روایت کرنا زیادہ محبوب ہے۔‘‘
      یعنی ابو ایو ب ﷜خطا کے خوف سے نبی ﷺ سے بلاواسطہ حدیث روایت کرنے سے گھبراتے تھے۔(جاری ہے)
حوالہ جات:
[1]    محمد بن احمد بن عثمان الذهبي، سیر أعلام النبلاء:2/578، مؤسسة الرسالة، بیروت، 1982ء؛ یحییٰ بن شرف النووی، المنهاج في شرح صحیح مسلم بن الحجاج:1/67 ، مکتبة البشرٰی،كراتشي،2009ء
[2]    حافظ ابن حجر عسقلاني، الإصابة في تمییزالصحابة: 4/202، دار إحیاء التراث العربي، بیروت، الطبعة الاولى ،1910ء
[3]    ایضًا
[4]    ابن عبدالبر،:الإستیعاب فی الأصحاب:4/1770، دار الجليل، بیروت، ،1992ء
[5]    جامع الترمذي، أبواب المناقب، باب مناقب أبي هریرة:3840، دارالسلام، الریاض 1999ء
[6]    سیر أعلام النبلاء:2/587
[7]    الإستیعاب في معرفة الأصحاب، أبو عمر يوسف بن عبد الله ابن عبد البر القرطبي:4/206
[8]    صحیح البخاري، کتاب المغازي، باب قدوم الأشعریین..:4390، دار السلام ، الریاض
[9]    صحیح البخاري حدیث: 4388
[10] حافظ ابن حجر عسقلاني، فتح الباري:8 /99، دار نشر الکتب الاسلامیة، لاهور،1981ء
[11] صحيح البخاري، کتاب المغازي، باب قصة دوس وطفیل بن عمرو الدّوسي، حدیث:4392
[12] فتح الباري: 8/102
[13] ایضًا
[14] محمد ابن سعد، الطبقات الکبرٰی:4/327-328، دار صادر، بیروت1957ء
[15] فتح الباري:7/473
[16] عبد المنعم الصالح العلي العزی، دفاع عن أبي هريرة، ص:26، دار القلم، بیروت، 1981ء، بحواله شرح معاني الآثار:1/109
[17] صحیح البخاری ، کتاب المغازي، باب غزوة خیبر، حدیث:4204
[18] ابن قیم الجوزیة، زادالمعاد:3/316
[19] ابن حزم، علي بن احمد، جوامع السیرة: ص207، ادارة احیاء السنة، گوجرانوالہ
[20] ایضًا: ص211
[21] الرحیق المختوم: ص514
[22] سنن أبي داؤد، کتاب الطهارة، باب في البول في المستحم:28، دارالسلام، الریاض، 1999ء
[23] اسماعیل بن عمر بن کثیر، البدایة والنهایة:8/108، مکتبة قدوسیة، لاهور،1984ء
[24] ايضًا
[25] دفاع عن أبي هريرة، عبد المنعم صالح العلي العزي: ص 26
[26] سنن النسائي، کتاب الطهارة، باب ذکر النهي عن الإغتسال بفضل الجنب، حدیث 238
[27] صحیح البخاري، کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، حدیث 3591
[28] دفاع عن أبي هريرة: ص 26
[29] صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب الدلیل على أن من مات على التوحید، حدیث: 147
[30] صحیح البخاري ، کتاب مناقب الأنصار، باب ذکر الجن: حدیث 3860
[31] محمد عجاج الخطیب، السنة قبل التدوین: ص427، دارالفکر، بیروت1981ء
[32] صحیح البخاري، كتاب العلم، باب حفظ العلم: حديث 1118
[33] فتح الباري:1/214
[34] فتح الباري: 2/604
[35] سیر أعلام النبلاء:2/599
[36] الإصابة في تمییزالصحابة:4/208
[37] سیر أعلام النبلاء:2/598
[38] سیر أعلام النبلاء:2/599
[39] صحیح البخاري، کتاب العلم، باب حفظ العلم: حدیث 119
[40] صحیح البخاري ، کتاب البیوع، حدیث 2047
[41] الحاکم، أبوعبد الله النیشابوری، المستدرك على الصحیحین: 3/510، مکتبة المطبوعات الإسلامیة، حلب، شام
[42] صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل حسان بن ثابت: حدیث6384
[43] ایضًا
[44] صحیح البخاري، کتاب اللباس، باب المستوشمة: حدیث5946
[45] صحیح البخاري، کتاب الاذان، باب فضل السجود: حديث 806
[46] صحیح البخاري، کتاب الرقاق، باب الصراط جسر جهنم: حديث 6574
[47] المستدرك على الصحيحين: 3/512