نیند کے مستحب ، مکروہ اور ممنوع اَوقات
احادیثِ نبویہؑ کی روشنی میں
اللہ مالک الملک اپنی تمام مخلوقات پر بالعموم اور انسانوں پر بالخصوص بڑا ہی مہربان اور نہایت شفیق ہے ۔ اس ذاتِ مقدسہ نے انسانی زندگی کا کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا جس میں انسان کی خیر خواہی اور ہمدردی موجود نہ ہو ۔ کتاب وسنت کے دلائل سے انسان کے لیےایک روشن راہ کا تعین کیا ، جس کی اتباع میں سراسر خیر و فلاح ہے ، اس کے ساتھ انسانی عوارض اور کمزوریوں کے اِزالہ کے لیے انسان کی بہترین راہنمائی کی گئی ہے۔
انسانی عوارض میں سے ایک عارضہ نیند ہے اس کے ازالہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے بطورِاحسان دن اور رات کی تقسیم کی ، پھر دن کو کمائی کا ذریعہ بنایا اور دن بھر کی تھکاوٹ دور کرنے اور جسمانی آرام و سکون کے لیے رات کا انتخاب فرمایا ۔ یوں انسان دن بھر کے کام کاج اور مالی و معاشی دوڑ ھوپ کے بعد رات کو آرام کرلے تو دن بھر کی تھکاوٹ کا فور ہو جاتی اور وہ اگلے دن کے کاموں کے لیے تازہ دم اور بشاش ہو جاتا ہے ۔ یوں زندگی کا پہیہ رواں رہتا ہے اور انسانی زندگی آرام و سکون اور اطمینان سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہتی ہے۔
نیز دن کی تھکان کو مزید کم کرنا اور زندگی کی نئی تازگی کے لیے دوپہر کے آرام کو ودیعت کیا کہ قیلولہ (دوپہر کے آرام) سے انسان تازہ دم ہوکر دن کا باقی حصہ ہشاش بشاش گزار سکتا ہے ۔ پھر شریعت نے اہل اسلام کو نیند کے مسئلہ میں بھی معتدل نظام دیا ہے جس میں افراط و تفریط کے پہلو سے بچنے کی تاکید ہے اور نیند میں بھی اعتدال و میانہ روی اختیار کرنے کی تلقین ہے کہ نہ تو تارک الدنیا افراد کی طرح نیند سے بالکل پرہیز درست ہے اور نہ دنیا دار بے دین افراد کی طرح گھوڑے بیچ کر سونا جائز ہے کہ عبادات ہی ترک کر دی جائیں اور انسانیت کی تخلیق کا مقصد ربِ تعالیٰ کی عبادت بجا لانا ہی فوت ہو جائے ، بلکہ نیند کے اوقات کی تقسیم کا رایسی ہے کہ نیند بھی پوری ہو اور عبادت اور دیگر ضروریات سے بھی احسن انداز سے عہدہ آہوا جاسکے ۔ دلائل شرعیہ کی روسے اوقات نیند کو تین حصوں (مستحب ، مکروہ اور ممنوع اوقات ) میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔
نیند کے مستحب اوقات
کتاب و سنت کے دلائل کے روسے دن رات کے دواوقات میں (1) رات نمازِ عشاء کے بعد سے طلوع ِ فجر تک اور (2) دوپہر کو قیلولہ ( نمازِ ظہرسے پہلے یا بعد میں کچھ دیر سستانا ) سونا مستحب ہے ۔ ان اوقات میں نیند کا اہتمام کرنے والا دن رات میں سستی ، کاہلی اور اکتاہٹ کا بالکل شکار نہیں ہوتا ۔ دلائل حسب ذیل ہیں :
(1)رات کی نیند
رات کو نمازِ عشاء کے بعد سے لے کر فجر تک سونا جائز و مباح ہے اور کتابِ مقدس میں رات کی نیند کو عظیم نعمت اور احسان شمار کیا گیا ہے ۔ اسے آرام وسکون کا باعث قرار دیا گیا ہے تا کہ نیند سے تازہ دم ہوکر انسان دینی و دنیاوی حقوق کو کماحقہ ادا کر سکے ۔
(1)ان دلائل کی رو سے رات کو سونا مستحب عمل ہے ۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
﴿وَهُوَ الَّذى جَعَلَ لَكُمُ الَّيلَ لِباسًا وَالنَّومَ سُباتًا وَجَعَلَ النَّهارَ نُشورًا ﴿
٤٧﴾... سورة الفرقان
'' (اللہ تعالیٰ) وہ ذات ہے جس نے تمہارے لیے رات کو پردہ اور نیند کو راحت بنایا اور دن کو اٹھ کھڑا ہونے کا وقت بنایا۔''
(2)
﴿وَمِن رَحمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ الَّيلَ وَالنَّهارَ لِتَسكُنوا فيهِ وَلِتَبتَغوا مِن فَضلِهِ وَلَعَلَّكُم تَشكُرونَ ﴿٧٣﴾... سورة القصص
''اور اس نے اپنی رحمت ہی سے تمہارے لیے رات اور دن بنایا تاکہ تم اس میں آرام کرو اس کے فضل میں سے کچھ تلاش کرو اور تا کہ تم شکر کرو۔''
(3)
﴿وَمِن ءايـٰتِهِ مَنامُكُم بِالَّيلِ وَالنَّهارِ وَابتِغاؤُكُم مِن فَضلِهِ إِنَّ فى ذٰلِكَ لَءايـٰتٍ لِقَومٍ يَسمَعونَ ﴿٢٣﴾... سورة الروم
''اور اس کی نشانیوں میں سے ہے تمہارے لیے رات اور دن کا سونا اور اس کے فضل سے کچھ تلاش کرنا ۔ بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیان ہیں جو سنتے ہیں ۔ ''
یہ آیات دلیل ہیں کہ رات کی نیند اللہ تعالیٰ کی نعمت عظمیٰ ہے جس کا اہتمام کر نا نعمتِ الہی کی قدر دانی اور شکر سپاسی ہے اور جسے تر ک کرنا قطعاً درست نہیں ۔ حتی کہ عبادات کی خاطر تمام رات کی نیند یکسر تج کرنا اور شب زندہ داری کا دائمی معمول بنا لینا ناجائز ہے ۔ اس کی تردید آئندہ حدیث سے عیاں ہے ۔ حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں :
« جَاءَ ثَلاَثَةُ رَهْطٍ إِلَى بُيُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَسْأَلُونَ عَنْ عِبَادَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أُخْبِرُوا كَأَنَّهُمْ تَقَالُّوهَا، فَقَالُوا: وَأَيْنَ نَحْنُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ، قَالَ أَحَدُهُمْ: أَمَّا أَنَا فَإِنِّي أُصَلِّي اللَّيْلَ أَبَدًا، وَقَالَ آخَرُ: أَنَا أَصُومُ الدَّهْرَ وَلاَ أُفْطِرُ، وَقَالَ آخَرُ: أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلاَ أَتَزَوَّجُ أَبَدًا، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ، فَقَالَ: «أَنْتُمُ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا، أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ، لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ، وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي»صحيح البخاري (7/ 2)
''تین آدمی نبی ﷺ کی عبادت کے متعلق پوچھنے کے لیے ازواجِ مطہرات کے گھروں میں آئے اور جب انہیں ( آپؑ کی عبادت کے بارے میں ) خبر دی گئی تو گویا اُنہوں نے اسے کم سمجھا اور کہا : ہماری نبی ﷺ سے کیا نسبت ؟ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کے تو اگلے پچھلے گناہ معاف کردیئے ہیں ۔ چنانچہ ان میں سے ایک آدمی نےکہا : میں تو ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا ، دوسرے نے کہا : میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا کبھی روزہ ترک نہ کروں گا ، تیسرے نےکہا : میں عورتوں سے علیحدہ رہوں گا اور کبھی شادی نہ کروں گا ۔ پھر رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : تم نے ایسی ایسی باتیں کی ہیں ۔ اللہ کی قسم ! میں تم سے زیادہ ڈرنے والا اور سب سے زیادہ متقی ہوں ۔ لیکن میں روزہ رکھتا ہوں اور روزہ چھوڑتا بھی ہوں ۔(رات کو) نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ، میں نے عورتوں سے شادی بھی کی ہے ، سو جس نے میری سنت سے اعراض کیا ، وہ مجھ سے نہیں ۔''
مذکورہ بالا دلائل سے ثابت ہوا کہ رات کو سونا افضل عمل ہے اور اگر کوئی نمازِتہجد وغیرہ کا اہتمام کرنا چاہتا ہے تو وہ بھی رات کے کچھ حصہ میں نیند ضرور کرلے ۔ کلیتاً رات کی نیند ترک کر دینا اور اسے تقویٰ و پرہیز گاری کی علامت سمجھتا کتاب و سنت کے دلائل سے صریح انحراف ہے ۔
(2)قیلولہ (دوپہرکا آرام )
جس طرح دن بھر کی تھکاوٹ سے چور ہو کر انسان رات کو بستر ڈھونڈتا ہے اور رات کی نیند اس کی تھکاوٹ دور کر کے اسے تازہ دم کر دیتی ہے ، اسی طرح دوپہر کی نیند (قیلولہ ) انسان کی صحت و طبیعت پر اچھے اثرات چھوڑتی ہے اور دوپہر کی گھنٹہ دو گھنٹے کی نیند انسان میں نئی تازگی اور نشاط پیدا کرتی ہے کہ باقی دن کا م کرنا اس کے لئے انتہائی آسان ہو جاتا ہے ۔ انسانی طبیعت میں فرحت و تازگی پیدا کرنے کے پیش نظر کتاب و سنت کے دلائل سے دوپہر کی نیند کو مستحب قرار دیا گیا ہے :
(1)ارشادربانی ہے :
﴿وَمِن ءايـٰتِهِ مَنامُكُم بِالَّيلِ وَالنَّهارِ ...﴿
٢٣﴾... سورة الروم
''اور اس کی نشانیوں میں سے ہے تمہارا دن اور رات کوسونا۔''
اس آیت میں دن کی نیند سے مراد قیلولہ ہے ۔ ابن عاشور آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
«فَالنَّاسُ يَنَامُونَ بِاللَّيْلِ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنَامُ بِالنَّهَارِ فِي الْقَائِلَةِ وَبِخَاصَّةٍ أَهْلُ الْأَعْمَالِ الْمُضْنِيَةِ إِذَا اسْتَرَاحُوا مِنْهَا فِي مُنْتَصَفِ النَّهَارِ خُصُوصًا فِي الْبِلَادِ الْحَارَّةِ أَوْ فِي فَصْلِ الْحَرِّ.»
التحرير والتنوير (21/ 76)
اس آیت کا مستدل یہ ہے '' لوگ رات کو محوِ خواب ہوتے ہیں اور بعض لوگ دن کو قیلولہ کے وقت نیند کرتے ہیں ۔ بالخصوص اعمالِ شاقہ انجام دینے والے زہاد، کیونکہ وہ استراحت کی خاطر دوپہر کو سوتے ہیں اور گرم علاقوں میں یا موسم گرمامیں بھی بطورِ خاص قیلولہ کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ ''
تفسیر الدررالمصون میں اسی آیت کی تفسیر یوں ہے :
والنوم بالنهار مما كانت العرب تعده نعمة من الله ولاسيمافي أوقات القيلولةفي البلاد الحادة
(الدررالمصون في علم الكتاب:1-4037 )
''اہل عرب دوپہر کی نیند کو اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا اِنعام شمار کرتے تھے اور خصوصاً گرم ممالک میں قیلولہ عظیم نعمت ہے ۔ ''
(2) یہ آیت بھی قیلولہ کے جواز واستحباب کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
﴿ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لِيَستَـٔذِنكُمُ الَّذينَ مَلَكَت أَيمـٰنُكُم وَالَّذينَ لَم يَبلُغُوا الحُلُمَ مِنكُم ثَلـٰثَ مَرّٰتٍ مِن قَبلِ صَلوٰةِ الفَجرِ وَحينَ تَضَعونَ ثِيابَكُم مِنَ الظَّهيرَةِ وَمِن بَعدِ صَلوٰةِ العِشاءِ ثَلـٰثُ عَورٰتٍ لَكُم...﴿٥٨﴾... سورة النور
''اے ایمان والو !تمہارے زیر ملکیت غلام اور بچے جو بلوغت کو نہیں پہنچے تین اوقات مین تم سے اجازت طلب کرین ۔ نمازِ فجر سے قبل اور ظہرکے وقت جب تم (آرام کے لیے ) اپنے کپڑے اتارتے ہو اور اور نمازِ عشاء کے بعد یہ تین اوقات پردہ کے ہیں ۔''
اس آیت میں ظہر کا آرام اہل ایمان کی عادت قرار دیا گیا ہے ۔ سو یہ عمل مستحب ہے جس کا اہتمام جسمانی راحت و فرحت کا باعث ہے ۔
احادیثِ مبارکہ میں نبی ﷺ اور صحابہ کرام کا معمول مذکورہے کہ یہ حضرات بھی قیلولہ کے عادی تھے اور سفر و حضر میں قیلولہ کی پابندی ان کا شعار تھا ۔
(3) انس بن مالک سے مروی ہے ، وہ بیان کرتے ہیں :
«أَنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ كَانَتْ تَبْسُطُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِطَعًا، فَيَقِيلُ عِنْدَهَا عَلَى ذَلِكَ النِّطَعِ» صحيح البخاري (8/ 63)
''اُمّ سلیم نبی ﷺ کے لیے ایک چمڑے کا بچھونا بچھاتیں تو آپؑ ان کے ہاں اسی چمڑے کے بچھونے پر دوپہر کوآرام کرتے تھے ۔''
(4)سہل بن سعد بیان کرتے ہیں :
ما كنا نقيل ولا نتغدى إلابعد الجمعة (صحيح بخارى:939مسلم:859 )
''ہم (عہدرسالت میں ) نمازِ جمعہ کے بعد ہی قیلولہ اور دوپہر کا کھانا تناول کیا کرتے تھے ۔''
یعنی صحابہ کرام کے قیلولہ کا عام معمول نمازِ ظہر سے قبل ہوتا تھا لیکن جمعہ کی تیاری اور ادائیگی کی وجہ سے جمعہ کے دن اسے نمازِ جمعہ سے مؤخر کر دیتے تھے ۔
(5)سائب بن یزید سے مروی ہے ، کہتے ہیں :
« كَانَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَمُرُّ بِنَا نِصْفَ النَّهَارِ أَوْ قَرِيبًا مِنْهُ فَيَقُولُ: قُومُوا فَقِيلُوا فَمَا بقي فللشيطان» الأدب المفرد بالتعليقات (ص: 704)
''عمر دوپہر کو ہمارے پاس سے گزرتے توکہتے : اُٹھو(جاکر) قیلولہ کرو۔ اس وقت کا باقی حصہ شیطان کے لیے ہے (یعنی شیطان اس وقت قیلولہ نہیں کرتا) ''
(6)درج بالا آیا ت و احادیث اورآثار قیلولہ ( دوپہر کے آرام) کے مستحب ہونے کے دلائل ہیں اور نبی ﷺ اور صحابہ کرام کو یہ عمل اتنا پسند تھا دورانِ سفر بھی قیلولہ کا اہتمام کیا جاتا تھا ۔ جابر بن عبداللہ سے مروی ہے ، وہ بیان کرتے ہیں :
«أَنَّهُ غَزَا مَعَ [ص:40] رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِبَلَ نَجْدٍ، فَلَمَّا قَفَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَفَلَ مَعَهُ، فَأَدْرَكَتْهُمُ القَائِلَةُ فِي وَادٍ كَثِيرِ العِضَاهِ، فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَفَرَّقَ النَّاسُ يَسْتَظِلُّونَ بِالشَّجَرِ، فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحْتَ سَمُرَةٍ وَعَلَّقَ بِهَا سَيْفَهُ، وَنِمْنَا نَوْمَةً، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُونَا، وَإِذَا عِنْدَهُ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ: " إِنَّ هَذَا اخْتَرَطَ عَلَيَّ سَيْفِي، وَأَنَا نَائِمٌ، فَاسْتَيْقَظْتُ وَهُوَ فِي يَدِهِ صَلْتًا، فَقَالَ: مَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي؟ فَقُلْتُ: اللَّهُ، - ثَلاَثًا - " وَلَمْ يُعَاقِبْهُ وَجَلَسَ» صحيح البخاري (4/ 39)
''وہ رسول اللہ ﷺکی معیت میں نجد کی طرف ایک غزوہ میں شریک ہوئے اور جب رسول اللہ ﷺ واپس پلٹے تو وہ بھی آپؑ کے ساتھ تھے ۔ چنانچہ(واپسی پر) ایک کانٹے دار جھاڑیوں والی وادی میں قیلولے کا وقت ہوگیا آپؑ نے وہاں نزول کیا اور لوگ درختوں کا سایہ حاصل کرنے کے لیے منتشرہو گئے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک درخت کے نیچے اُترے اور اس کے ساتھ اپنی تلوار لٹکا دی ، ہم تمام گہری نیند سو گئے تو اچانک رسول اللہ ﷺ ہمیں پکارنے لگے اور ناگہاں وہاں ایک دیہاتی موجود تھا ۔ آپؑ نے فرمایا : میں سویا تھا کہ اس نے مجھ پر تلوار سونتی تو میں بیدار ہوگیا او راس کے ہاتھ میں ننگی تلوار تھی ۔ اس نےکہا تمہیں مجھ سے کون بچائے گا ؟
میں نے کہا : اللہ ( مجھے بچائے گا) آپؑ نے یہ کلمات تین مرتبہ کہے ۔ ( اس پر اس کے ہاتھ سے تلوار گرپڑی ) آپؑ نے اسے کوئی سزا نہیں دی اور آپؑ بیٹھ گئے ۔''
مکروہ اَوقات
نیند کے کچھ اوقات مکروہ ہیں جن میں سونا ناپسندیدہ عمل اور بیدار رہنا مستحب فعل ہے لہذا ان اوقات میں نیند سے اجتناب کرنا افضل ہے :
(1)نمازِ مغرب کے بعد
نمازِ مغرب کے بعد اور قبل ازعشاء سونا مکروہ فعل ہے ، کیونکہ اس وقت کی نیند سے نماز عشاء کے افضل وقت یا تمام وقت کے فوت ہونے کا اندیشہ ہے ۔ لہذا شریعت نے اس وقت کی نیند کو مکروہ قرار دیا ہے ۔ ابوبرزہ بیان کرتے ہیں:
«أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَكْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَ العِشَاءِ وَالحَدِيثَ بَعْدَهَا» صحيح البخاري (1/ 118)
''بلاشبہ رسول اللہ ﷺ نمازِعشاء سے قبل نیند اور نمازِعشاءکے بعد گفتگوکرنا ناپسند کرتے تھے ۔''
امام ترمذی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں :
وَقَدْ كَرِهَ أَكْثَرُ أَهْلِ العِلْمِ النَّوْمَ قَبْلَ صَلاَةِ العِشَاءِ، وَرَخَّصَ فِي ذَلِكَ بَعْضُهُمْ، وقَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: أَكْثَرُ الأَحَادِيثِ عَلَى الكَرَاهِيَةِ. وَرَخَّصَ بَعْضُهُمْ فِي النَّوْمِ قَبْلَ صَلاَةِ العِشَاءِ فِي رَمَضَانَ.( سنن الترمذي ت بشار (1/ 235)
''اکثر علما نے عشاء سے پہلے سونے اور عشاء کے بعد گفتگو کرنے کو ناپسند کیا ۔ البتہ بعض علما نے اس میں رخصت دی او رعبداللہ مبارک فرماتے ہیں کہ اکثر احادیث اس ( عشاء سے قبل نیند اور بعد میں گفتگو) کے مکروہ ہونے پر دلالت کرتے ہیں تا ہم کچھ علمانے رمضان میں قبل ازعشاء سونےکی رخصت دی ہے ۔''
حدیث الباب مطلق ہے اور کسی نص کے بغیر اس کی تقیید و تعیین نا مناسب ہے ، لہذا راتیں چھوٹی ہو یا لمبی ، رمضان کا مہینا ہو یا غیر رمضان ، نماز عشاء سے قبل سو نا نامناسب ہے اور عمل مکروہ ہی متصور ہوگا ، البتہ نیند کا شدید غلبہ ہو اور نماز عشاکے اصل وقت کے فوت ہونے کا اندیشہ بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں قبل ازعشاء سونے کی رخصت ہے ۔ اس جواز کے لیے امام بخاری نے صحیح بخاری میں درج ذیل عنوان قائم کیا ہے : '' باب النوم قبل العشاء لمن غلب '' (نیند مغلوب شخص کے لیے عشاء سے قبل سونے کے جواز کا بیان ) پھر اس باب کے تحت مندرجہ ذیل کچھ روایات ذکر کی ہیں جس میں نیند کے غلبہ کی صورت میں قبل ازعشاء سونے کا جواز ہے:
(1)حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے ، وہ بیان کرتی ہیں :
أَعْتَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالعِشَاءِ حَتَّى نَادَاهُ عُمَرُ: الصَّلاَةَ نَامَ النِّسَاءُ وَالصِّبْيَانُ، فَخَرَجَ، فَقَالَ: «مَا يَنْتَظِرُهَا أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الأَرْضِ غَيْرُكُمْ»( صحيح البخاري (1/ 118)
'' (ایک مرتبہ ) رسول اللہ ﷺ نے نمازِ عشاء مؤخر کر دی حتی ٰ کہ عمرؓ نےنماز کے لیے آواز دی جبکہ عورتیں اور بچے سوچکے تھے ۔ پھر آپؐ نماز کے لیے نکلے اور فرمایا : زمین میں سے تمہارے سوا اس نماز کا کوئی بھی انتظار نہیں کر رہا ۔''
(2) عبداللہ بن عمر سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں :
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شُغِلَ عَنْهَا لَيْلَةً، فَأَخَّرَهَا حَتَّى رَقَدْنَا فِي المَسْجِدِ، ثُمَّ اسْتَيْقَظْنَا، ثُمَّ رَقَدْنَا، ثُمَّ اسْتَيْقَظْنَا، ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: «لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الأَرْضِ يَنْتَظِرُ الصَّلاَةَ غَيْرُكُمْ» وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ: «لاَ يُبَالِي أَقَدَّمَهَا أَمْ أَخَّرَهَا، إِذَا كَانَ لاَ يَخْشَى أَنْ يَغْلِبَهُ النَّوْمُ عَنْ وَقْتِهَا، وَكَانَ يَرْقُدُ قَبْلَهَا»( صحيح البخاري (1/ 118)
''رسول اللہ ﷺ ایک رات نمازِ عشاء سے غافل ہوگئے اور اسے اتنا مؤخر کیا کہ ہم مسجد میں سوگئے ، پھر ہم بیدار ہوئے اور پھر سوگئے ۔ اس کے بعد نیند سے جاگے پھر نبی ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا : اہل ارض میں سے کوئی تمہارے سوا اس نماز کا انتظار نہیں کر رہا ہے اور عبداللہ بن عمر نمازِ عشاء کی تقدیم و تاخیر میں کچھ پروانہ کرتے تھے بشر طیکہ نیند کے غلبہ کی وجہ سے اس کے وقت کے فوت ہونے کا خطرہ نہ ہوتا او روہ نمازِ عشاء سے قبل سو جایا کرتے تھے ۔''
نمازِ عشاء سے قبل سونا جائز ہے ۔ بشرطیکہ نماز عشاء کے اصل وقت کے فوت ہونے کا اندیشہ نہ ہو ۔ اگر نیند میں انہماک کی وجہ سے عشاء کے وقت نماز کے فوت ہونے کا خطرہ ہو تو نماز عشاء پڑھ کر سونا بہتر ہے ۔
2)نمازِفجر کے بعد
نماز فجر کے بعد ذکر و اذکار میں منہمک ہونا ، طلوع فجر تک مسجد میں بیٹھ کر تلاوتِ قرآن او اذکار ِ مسنونہ کا اہتمام کرنا افضل عمل ہے اوراگر نیند کا غلبہ اور تھکاوٹ نہ ہو تو اس وقت سونا ناپسندیدہ فعل ہے ۔ کیونکہ نبیﷺ ، صحابہ کرام اور علمائے سلف کا وتیرا تھا کہ وہ اس وقت اور ادوظائف کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ البتہ نمازِ فجر کے بعد نیند کو ناجائز سمجھنا درست نہیں کیونکہ نمازِ فجر کے بعد نیند کی ممانعت کی احادیث کمزور و ناقابل احتجاج ہیں ،جنہیں ہم مضمون کے آخر میں بالاستیعاب نقل کریں گے ۔ سو نماز ِ فجر کے بعد سونے کا جواز ت ہے ، لیکن اس وقت بیدار رہنا اور اذکار کا اہتمام کرنا مستحب و افضل ہے :
(1)جابر بن سمرہ بیان کرتے ہیں :
«أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا صَلَّى الْفَجْرَ جَلَسَ فِي مُصَلَّاهُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ حَسَنًا» صحيح مسلم (1/ 464)
''یقیناً رسول اللہ ﷺ جب نمازِ فجر ادا کرتے تو آپؐ اپنی جائے نماز پر بیٹھے رہتے حتی کہ سورج اچھی طرح طلوع ہو جاتا ۔''
(2)جابر بن سمرہ کا بیان ہے :
«كَانَ لَا يَقُومُ مِنْ مُصَلَّاهُ الَّذِي يُصَلِّي فِيهِ الصُّبْحَ، أَوِ الْغَدَاةَ، حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَإِذَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ قَامَ، وَكَانُوا يَتَحَدَّثُونَ فَيَأْخُذُونَ فِي أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ، فَيَضْحَكُونَ وَيَتَبَسَّمُ»
صحيح مسلم (1/ 463)
''رسول اللہ ﷺ اپنے اس مقام ِنمازِ فجر ادا کرت ، طلوع آفتاب سے قبل نہ اُٹھتے تھے ۔ چنانچہ جب آفتاب نمودار ہوتا تو آپ ؐ اُٹھ پڑتے اور صحابہ کرام ( طلوع آفتاب کے بعد) گپ شپ لگاتے اور دورِ جاہلیت کے واقعات بیان کرتے، پھر صحابہ کرام ہنستے اور آپ ؐ مسکراتے تھے ۔''
حدیثِ مذکورہ کی شرح میں امام نووی بیان کرتے ہیں :
'' نمازِفجر کے بعد ذکر کرنا اور جائے نماز پر ہی بیٹھے رہنا مستحب فعل ہے بشرطیکہ کوئی عذر ہو ۔ قاضی عیاض کہتے ہیں : سلف صالحین اور علما کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ اس وقت (نمازِ فجر کے بعد) ذکر و اذکار اور ادعیہ میں مصروف رہتے تھے حتیٰ کہ سورج طلوع ہو جاتا ۔ دورِ جاہلیت اور اُمم سابقہ کے واقعات بیان کرنا جائز ہے اور ہنسنا بھی درست ہے البتہ مسکرانا افضل ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا اکثر معمول تھا۔''
(3)ابووائل بیان کر تے ہیں :
غَدَوْنَا عَلَى عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ يَوْمًا بَعْدَ مَا صَلَّيْنَا الْغَدَاةَ، فَسَلَّمْنَا بِالْبَابِ، فَأَذِنَ لَنَا، قَالَ: فَمَكَثْنَا بِالْبَابِ هُنَيَّةً، قَالَ: فَخَرَجَتِ الْجَارِيَةُ، فَقَالَتْ: أَلَا تَدْخُلُونَ، فَدَخَلْنَا، فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ يُسَبِّحُ، فَقَالَ: مَا مَنَعَكُمْ أَنْ تَدْخُلُوا وَقَدْ أُذِنَ لَكُمْ؟ فَقُلْنَا: لَا، إِلَّا أَنَّا ظَنَنَّا أَنَّ بَعْضَ أَهْلِ الْبَيْتِ نَائِمٌ، قَالَ: ظَنَنْتُمْ بِآلِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ غَفْلَةً، قَالَ: ثُمَّ أَقْبَلَ يُسَبِّحُ حَتَّى ظَنَّ أَنَّ الشَّمْسَ قَدْ طَلَعَتْ، فَقَالَ: يَا جَارِيَةُ انْظُرِي هَلْ طَلَعَتْ؟ قَالَ: فَنَظَرَتْ فَإِذَا هِيَ لَمْ تَطْلُعْ، فَأَقْبَلَ يُسَبِّحُ حَتَّى إِذَا ظَنَّ أَنَّ الشَّمْسَ قَدْ طَلَعَتْ، قَالَ: يَا جَارِيَةُ انْظُرِي هَلْ طَلَعَتْ؟ فَنَظَرَتْ، فَإِذَا هِيَ قَدْ طَلَعَتْ، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَقَالَنَا يَوْمَنَا هَذَا - فَقَالَ مَهْدِيٌّ: وَأَحْسِبُهُ قَالَ - وَلَمْ يُهْلِكْنَا بِذُنُوبِنَا،
صحيح مسلم (1/ 564)
ایک دن ہم صبح کی نماز پڑھ کر عبداللہ بن مسعود کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم (طلبِ اجازت کے لیے ) دروازے پر سلام کہا تو ہمیں اجازت مل گئی ۔ راوی کہتے ہیں : ہم کچھ دیر دروازے پر کھڑے رہے ، پھر باندی باہر آئی اور بولی تم گھر میں داخل کیونکہ نہیں ہوتے ؟چنانچہ ہم گھر میں داخل ہوئے تو عبداللہ بن مسعود بیٹھے تسبیح کر رہے تھے ۔ انہوں نے پوچھا : اجازت ملنے کے بعد تمہارے گھر میں داخل ہونے سے کیا امر مانع تھا ؟ ہم نے عرض کی کیا : کچھ بھی مانع نہ تھا ، البتہ ہمیں یہ گمان تھا کہ شاید گھر کے کچھ افراد محوِخواب ہوں ( اس لیے ہم نے ہچکچاہٹ محسوس کی ) ۔ اس پر عبداللہ ؓ نے کہا :تم ابن مسعود کے اہل خانہ کے بارے غفلت کا گمان رکھتے ہو (یہ محال ہے ) پھر وہ تسبیح میں مشغول ہو گئے حتیٰ کہ انہوں نے سمجھا کہ سورج طلوع ہو چکا ہے تو انہوں نے باندی سے کہا : دیکھو سورج طلوع ہو چکا ہے ؟ راوی کہتے ہیں :اُس نے دیکھا لیکن ابھی سورج طلوع نہ ہو تھا ۔
چنانچہ وہ اذکار میں مصروف ہوگئے حتیٰ کہ انہوں نے پھر سمجھا کہ سورج طلوع ہو چکا ہے ، انہوں نے کہا ، لڑکی ! دیکھو کیا سورج طلوع ہوچکا ہے؟ اس نے دیکھا تو سورج طلوع ہو چکا تھا ۔ اس پر عبداللہ نے کہا : سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہمارے اس دن کی لغزشیں معاف کیں اور ہمارے گناہوں کے سبب ہمیں ہلاک نہ کیا ۔''
(4)خواتؓ بن جبیربیان کرتے ہیں :
نوم أول النهار خرق و أوسطه خلق و آخره حمق
(مصنف ابن ابى شیبہ :27212،صحیح الادب المفرد:947 (صحیح)
''دن کے شروع حصے کی نیند جہالت ، درمیانی حصے کی نیند اچھی عادت اور آخری حصے کی نیند بے وقوفی کی علامت ہے ۔''
مذکورہ بالا احادیث و آثار دلیل ہیں کہ نمازِ فجر سے لے کر طلوع فجر تک ذکر و اذکار کرنا او رادعیہ وغیرہ کا اہتمام کرنا افضل عمل ہے اور بلاعذر اس وقت میں نیند کو معمول بنا کر اس با برکت وقت کو ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس وقت کی تازگی سے فائدہ اُٹھانا چاہیے اور اس وقت کے مسنون اذکار ، تلاوت قرآن اور ادعیہ وغیرہ کا التزام کرنا چاہیے کیونکہ یہی نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کی سنت ہے ۔
3) عصر کے بعد
نمازِ عصر کے بعد سونا مکروہ فعل ہے ، اس وقت کی نیند سے ذہنی توازن متاثر ہوتا
ہے اور اس وقت کی مسلسل نیند انسان کو کند ذہن بنا دیتی ہے ۔ اس بارے میں مرفوع روایت تو ضعیف ہے جو سیدہ عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(من نام بعد العصر فاختلس عقله فلايلومن إلا نفسه)
کتاب المجروحین : 1۔283، کتاب الموضوعات لابن الجوزی: 1480، الضعیفہ:39 (ضعیف جداً)
'' جوشخص عصر کے بعد سوئے اور اس کا ذہنی توازن بگڑ جائے تو وہ اپنی ذات ہی کو ملامت کرے ۔''
نیز اس معنیٰ کی تمام مرفوع روایات ضعیف ہیں ۔ تفصیل کے لیے علامہ ناصر الدین البانی کی کتاب . السلسلة الضعيفة(الضعیفہ: 39 )
کا مطالعہ کیجئے ۔
البتہ کچھ صحیح آثار ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ نمازِ عصر کے بعد بلا عذر سونا اور اس وقت کی نیند کو معمول بنانا مکروہ فعل ہے ۔
(2)جبیر بن خوات فرماتے ہیں :
(نوم أول النهار خرق وأوسطه خلق و آخره حمق)
مصنف ابن ابی شیبہ : 27212 ، صحیح الادب المفرد : 947(صحیح،)
(3) عبدالرحمن بن يزيد بن جابر مکحول سے روایت کرتے ہیں کہ وہ ( مکحول ):
أنه كا ن يكره النوم بعد العصر وقال: يخاف علىٰ صاحبه الوسواس(ایضاً: 27213 ( صحیح)
'' عصر کے بعد سونا نا پسند کرتے تھے اور کہا کرتے تھے ۔ عصر کے بعد سونے والے کے ذہنی تو ازن بگڑنے کا ڈر ہے۔''
نیند کے ممنوع اَوقات
فرض نمازوں کے اوقات میں بلاعذر سوناناجائز فعل ہے اور اس سخت وعید وارد ہے ۔ لہذا پانچ فرض نمازوں کے اوقات میں سونا ممنوع فعل ہےجس سے اجتناب ازبس ضروری ہے ۔ ان اوقات میں نیند کا اہتمام اور نمازوں سے غفلت انتہائی مہلک ہے اس سے فرض نمازوں میں دلچسپی ختم ہو جاتی ہے ۔ شیطانی تسلط مضبوط ہوتا اور شیطانی غلبے کی وجہ سے انسان بالآخر فرض نمازوں کا تارک ہو جاتا ہے ، جس سے دل و دماغ میں دینی عقائد و نظریات کمزور پڑتے ہیں ۔ عبادت سے تعلق منقطع ہوتا اور شیطانی اثر ورسوخ اور تسلط کی وجہ سے انسان روحِ ایمان سے محروم ہو جاتا ہے ۔ لہذا نمازوں میں غفلت کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اپنی اصلاح کریں ۔ غفلتوں کو تر ک کریں او ر نمازوں میں نیند کے غلبے کو کنٹرول کر کے نیند کا رخ مستحب اوقات کی طرف موڑ کر دین اسلام کا صحیح پیر وکارہونے کا ثبوت دیں ۔ ذیل میں ہم وہ احادیث درج کریں گے جن میں نمازوں کے اوقات میں سونے کی وعید ہے ۔
بالخصوص نمازِ فجر کے وقت سوئے رہنا تو انتہائی ہلاکت خیز ہے ۔ دلائل ملا حظہ کیجئے:
(1)فرمان باری ہے تعالیٰ ہے :
﴿إِنَّ الصَّلوٰةَ كانَت عَلَى المُؤمِنينَ كِتـٰبًا مَوقوتًا ﴿
١٠٣﴾... سورة النساء
''بے شک نماز مؤمنوں پر وقت مقرر پر فرض کی گئی ہے ''
﴿حـٰفِظوا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَالصَّلوٰةِ الوُسطىٰ وَقوموا لِلَّهِ قـٰنِتينَ ﴿
٢٣٨﴾... سورة البقرة
'' نمازوں کی حفاظت کرو ، بالخصوص درمیانی نماز ( عصر) کی اور اللہ کے لیے مطیع ہو کر قیام کرو۔''
(3)
﴿وَأَقيمُوا الصَّلوٰةَ وَءاتُوا الزَّكوٰةَ وَاركَعوا مَعَ الرّٰكِعينَ ﴿٤٣﴾... سورة البقرة
''نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا رو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔'' ان آیات میں نماز با جماعت کے اہتمام کی تا کید ہے اور آئندہ احادیث میں نماز با جماعت میں غفلت ، سستی اور قصد اً نیند کا اہتمام کرنے سے اجتناب کی تاکید ہے اور اس بارے میں سخت و عید واردہے :
(4)ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
«من سمع النداء فلم يأ ته فلا صلاة له إلامن عذر»
''جس نے اذان سنی پھر نماز (باجماعت ) کے لیے نہ آیا تو عذر کے سوا اس کی نماز نہیں ''
(5)عبد الله بن عمرو سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے نماز کا تذکرہ کیا تو فرمایا:
«مَنْ حَافَظَ عَلَيْهَا؟ كَانَتْ لَهُ نُورًا، وَبُرْهَانًا، وَنَجَاةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ لَمْ يُحَافِظْ عَلَيْهَا لَمْ يَكُنْ لَهُ نُورٌ، وَلَا بُرْهَانٌ، وَلَا نَجَاةٌ، وَكَانَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ قَارُونَ، وَفِرْعَوْنَ، وَهَامَانَ، وَأُبَيِّ بْنِ خَلَفٍ»مسند أحمد مخرجا (11/ 141)
''جس نے اس (نماز باجماعت ) کی حفاظت کی تو یہ نماز اس کے لیے روزِقیامت نور، دلیل اور نجات ہوگی اور جس نے اس کی حفاظت نہ کی ، یہ اس کے لیے نور، دلیل اور نجات نہ ہوگی اور وہ روز قیامت قارون ، فرعون ، ہامان اور اُبی بن خلف کے ساتھ ہوگا ۔''
نیز نمازبا جماعت کے دوران قصداً سونے کی سزا سخت ہولناک ہے ۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ایک لمبی حدیث ہے جس میں نبی ﷺ کےخواب کا بیان ہے ۔ اس کا مختصر شذرہ جو ہمارے موضوع کے متعلق ہے ، یہ ہے کہ ایک شخص چت لیٹا تھا ، اس کے سرہانےایک آدمی پتھر لیے کھڑا ہے ، وہ پوری قوت سے پتھر اس کے سر پر مارتا ہے اور اسکا سر چکنا چور کر دیتا ہے ۔ پھر پتھر لڑھک کرنیچے چلا جاتا ہے ، وہ آدمی پتھر لینے جاتا ہے پتھر لے کر واپس آتا ہے تو متاثرہ شخص کا سر درست ہو چکا ہوتا ہے ۔ وہ اس عذاب سے روزِ قیامت تک مسلسل دوچار کیا جاتا رہے گا ۔
(6)آپ کے استفسار پر فرشتوں نے آپؐ کو بتایا:
« أَمَّا الرَّجُلُ الأَوَّلُ الَّذِي أَتَيْتَ عَلَيْهِ يُثْلَغُ رَأْسُهُ بِالحَجَرِ، فَإِنَّهُ الرَّجُلُ يَأْخُذُ القُرْآنَ فَيَرْفُضُهُ وَيَنَامُ عَنِ الصَّلاَةِ المَكْتُوبَةِ»صحيح البخاري (9/ 45)
''وہ آدمی جس کے قریب سے آپؐ گزرے اور اس کا پتھر سے سر کچلا جا رہا تھا ، وہ آدمی ہے جس نے قرآن یاد کیا پھر اسے بھلا دیا اور یہ فرض نماز سے سویا رہتا تھا ''
(7)عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے ، بیان کرتے ہیں :
« ذُكِرَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَقِيلَ: مَا زَالَ نَائِمًا حَتَّى أَصْبَحَ، مَا قَامَ إِلَى الصَّلاَةِ، فَقَالَ: «بَالَ الشَّيْطَانُ فِي أُذُنِهِ»صحيح البخاري (2/ 52)
''نبی ﷺ کے ہاں ایک آدمی کا ذکر ہوا اور آپؐ کو بتایا گیا کہ وہ مسلسل سویا رہا حتیٰ کہ صبح ہو گئی اور وہ نماز کے لیے بیدار نہیں ہوا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : شیطان نے اس کے کان میں پیشاب کیا ہے ۔''
خلاصۂ بحث
(1)نمازباجماعت کے اوقات میں قصداً سونا یا بیداری کا کوئی خاص اہتمام نہ کرنا انتہائی مبغوض فعل ہے جبکہ نماز باجماعت کے دوران سوئے رہنا جائز ہے ۔
(2)نیند میں ایسا انہماک و تسلسل کہ نماز با جماعت چھوٹ جائے قطعاً درست نہیں۔ +
(3) نمازوں میں غفلت ، سستی او رعدم اہتمام کا انجام ہلاکت اور روزِ قیامت کی رسوائی ہے ۔
(4)البتہ نیند کا شدید غلبہ ہو اور نماز کو ادا کرنا مشکل ہوجائے تو اس مجبوری کی صورت میں سونے اور نماز مؤخر کرنے کی گنجائش ہے لیکن اس گنجائش سے غلط استدلال لینا ، نمازوں سے تاخیر کا بہانہ بنانا اور صبح سورج چڑھنے کے بعد تک سونےکا جوازبنانا قطعا ناجائز ہے بلکہ اس استثنائی صورتِ حال سے انسان کو زندگی میں کبھی کبار ہی واسطہ پڑتا ہے لہذامجبوری کی اس حالت میں شریعت نے اس صورت میں سونے کی رخصت دی ہے ۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
«إِذَا نَعَسَ أَحَدُكُمْ وَهُوَ يُصَلِّي فَلْيَرْقُدْ، حَتَّى يَذْهَبَ عَنْهُ النَّوْمُ، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا صَلَّى وَهُوَ نَاعِسٌ، لاَ يَدْرِي لَعَلَّهُ يَسْتَغْفِرُ فَيَسُبُّ نَفْسَهُ» صحيح البخاري (1/ 53)
'' جب تم میں کسی کو حالت ِ نماز میں سخت غنودگی چھائے تو وہ سو جائے حتیٰ کہ نیند ختم ہو جائے کیونکہ جب تم میں سے کوئی شخص حالت نیند میں نماز پڑھے گا تو اسے معلوم نہیں ہوگا ، ممکن ہے وہ استغفار کے بجائے اپنی ذات ہی کو مطعون کر رہا ہو۔''
امام نووی بیان کرتے ہیں اس حدیث میں خشوع ، فارغ البانی اور نشاط اختیار کرنے کی ترغیب ہے ۔
اور نماز میں اونگنے والے کو اتنی نیند کا حکم ہے کہ وہ اس نیند کا غلبہ چھٹ جائے اور یہ حکم دن رات کی فرض و نفل نمازوں کو عام ہے ۔ شافعیہ او رجمہور علما اسی مذہب کے قائل ہیں ۔ البتہ نیند کی اتنی رخصت ہے ، جس سے فرض نماز کا وقت ختم نہ ہو۔(شرح النووی : 6۔73)
زبان زدعام ممنوع اَوقاتِ نیند
گزشتہ بحث میں قرآن و سنت کے دلائل صریحہ سے نیند کے مستحب ، مکروہ اور ممنوع اوقات کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ البتہ ان سے ہٹ کر کچھ اوقات بعض لوگوں میں مشہور ہیں کہ ان اوقات میں سونا جائز نہیں مثلاً نمازِ فجر کے بعد نیند کے مسئلہ میں اتنا افراط و تفریط ہے کہ کچھ لوگ اس وقت کی نیند کو حرام قرار دیتے ہیں تو بعض لو گ اس وقت کی نیند کو اپنے اوپر واجب سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ ہمارے سامنے اُسوہ رسول ﷺ موجود ہے جس پر عمل کرے ہم افراط و تفریط سے بھی بچ سکتے ہیں اور اتباع سنت میں دین و دنیا کی فلاح و کامرانی بھی حاصل کر سکتے ہیں ۔ حرام قرار دینے والوں کے پیش نظر غالبا ً فجر کے بعد نیند کی وہ صورت ہوتی ہے جس میں صبح کی نماز کو ضائع کر دیا گیا ہو ۔ جہاں تک فجر کی ادائیگی کے بعد سونے کی بات ہے تو گذشتہ بحث میں مکروہ اوقات کے تحت نمازِ فجر کے بعد سونے کی کراہت بیان ہوئی ہے جس سے صبح کے وقت سونے کا جواز بہر جال موجود ہے اور اس وقت کی نیند کی حرمت پر دال روایات ضعیف اور ناقابل حجت ہیں جن کی رو سے نماز فجر کے بعد نیند کو ممنوع قرار نہیں دیا جا سکتا :
(1)حضرت عثمان بن عفان سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«الصبخة تمنع الرزق »(الکامل لابن عدی :1۔321 ، کتاب الموضوعات لابن الجوزی :1479 (ضعیف جداً )
'' صبح کی نیند رزق سے مانع ہے ۔''
اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد ابن عدی بیان کرتے ہیں ۔ یہ حدیث ضعیف ہے اسحٰق بن ابی فروہ کے متعلق امام احمد کہتے ہیں کہ اس کی روایت کو لینا میرے نزدیک جائز نہیں ۔ یحییٰ بن معین کا قول ہے کہ حدیث میں اس کی کوئی حیثیت نہیں اور دارقطنی کہتے ہیں کہ یہ متروک راوی ہے ۔ مزید تفصیل کے لے اللآلي المصنوعة (2۔157،158) کا مطالعہ کیجئے ۔
(2)سیدہ فاطمہ ؓ بنتِ محمد ﷺ بیان کرتی ہیں :
مَرَّ بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مُضْطَجِعَةٌ مُنْتَصِبَةٌ، فَحَرَّكَنِي بِرِجْلِهِ، ثُمَّ قَالَ: «يَا بُنَيَّةُ، قَوْمِي فَاشْهَدِي رِزْقَ رَبِّكِ عَزَّ وَجَلَّ، وَلَا تَكُونِي مِنَ الْغَافِلِينَ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقْسِمُ أَرْزَاقَ النَّاسِ مَا بَيْنَ طُلُوعِ الْفَجْرِ إِلَى طُلُوعِ الشَّمْسِ»أمالي ابن بشران - الجزء الأول (ص: 113)
''رسول اللہ ﷺ میرے قریب سے گزرے جب کہ میں سوئی ہوئی تھی ۔ آپ ﷺ نے مجھے اپنے پاؤں سے ہلایا پھر فرمایا : پیاری بیٹی ! اُٹھو ، اپنے رب کے رزق کی تقسیم میں شامل ہو اور غافلوں سے نہ ہو جاؤ ، کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ طلوع فجر سے لے کر طلوعِ آفتاب تک لوگوں کا رزق تقسیم کرتے ہیں ۔''
اس حدیث کی سند میں عبدالملک بن ہارون بن غزہ کذاب و وضاع راوی ہے ۔ امام احمد کہتے ہیں :
'' عبد الملک ضعیف ہے ۔'' یحییٰ بن معین نے اسے کذاب کہا ہے اور ابوحاتم نے متروک کہا قرار دیا ہے اور ابن حبان کہتے ہیں : یہ احادیث گھڑتا ہے ۔
(میزان الاعتدال: 5249)
(3)حضرت علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے طلوع آفتاب سے قبل سونے سے منع کیا ہے ۔(ضعیف الترغیب: 1048)
واضح رہے کہ اس روایت میں تصحیف ہے کہ لفظ السوم ، کو لفظ النوم سے بدل دیا گیا ہے ۔ اس روایت کے اصل الفاظ یہ ہیں :
« نهى عن السوم قبل طلوع الشمس و عن ذبح ذوات الدر»
(سنن ابن ابی ماجہ :2206، الضعیفہ: 4719)
'' نبی ﷺ نے طلوع آفتاب سے قبل سودا کرنے اور دودھیل جانور کے ذبح کرنے سے منع کیا ہے ''
کھانا کھانے کے بعد سونا
شرعی اعتبار سے کھانے کے بعد سونے میں کوئی قباحت نہیں بلکہ احادیث میں کھانے کے بعد سونے کا جواز ہے جس کی رو سے کھانا کھانے کے بعد سونا جائز و مباح ہے ، جیسا کہ حضرت انس بن مالک سے مروی ہے ، بیان کرتے ہیں :
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَهَبَ إِلَى قُبَاءٍ، يَدْخُلُ عَلَى أُمِّ حَرَامٍ بِنْتِ مِلْحَانَ فَتُطْعِمُهُ، وَكَانَتْ تَحْتَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، فَدَخَلَ يَوْمًا فَأَطْعَمَتْهُ، فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،صحيح البخاري (8/ 63)
''رسول اللہ ﷺ جب بھی قبا جاتے تو اُمّ حرام بنتِ ملحان کے پاس حاضر ہوتے اور وہ آپؐ کو کھانا کھلاتیں ۔ ایک دن آپؐ ان کے ہاں تشریف فرما ہوئے ، انہوں نے آپؐ کو کھانا کھلایا ، پھرآپؐ سوگئے ۔''
یہ حدیث واضح دلیل ہے کہ کھانے کے بعد سونا جائز ہے اور صحابہ کرا م جمعہ کے دن دوپہر کا کھاناکھا کر ہی قیلولہ کرتے تھے ۔ قیلولہ کے تحت یہ احادیث بیان ہوئی ہیں۔ نیز جن روایت میں کھانے کے بعد سونے کی ممانعت و مفاسد کا بیان ہے ، وہ من گھڑت و خودساختہ روایات ہیں جو شرعی احکام میں نا قابل قبول اور مسترد ہیں ، ملا حظہ فرمائیں :
(1)حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
« أذيبوا طَعَامكُمْ بِذكر الله وَالصَّلَاة وَلَا تناموا عَلَيْهِ فتقسوا قُلُوبكُمْ» الدر المنثور في التفسير بالمأثور (7/ 220)
'' اللہ کے ذکر اور نماز سے کھنا ہضم کرو ، کھانے کے بعد نیند نہ کرو ، اس سے تمہارے دل سخت ہو جائیں گے ۔''
اس سند میں ابوالخیل بزیع بن حسان متروک اور متہم بالوضع راوی ہے ۔ حافظ ابن جوزی بیان کرتے ہیں کہ ابن ابی حاتم رازی کہتے ہیں کہ
'' بزیع کی حدیث موضوع روایت کے متشابہ ہے اور میرے والد نے کہا کہ وہ ذاہب الحدیث( یعنی متروک) ہے ۔ دار قطنی کا قول ہے کہ یہ متروک ہے ۔ ابن عدی کہتے ہیں اس کی احادیث منکر ہیں ، جن کی متابعت نہیں کی جاتی اور ابن حسان کہتے ہیں : یہ ثقہ راویوں سے عمداً موضوع روایات نقل کرتا ہے ۔''
(کتاب الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی:1۔138: 502)
امام ذہبی بیان کرتے ہیں کہ
''بزیع بن حسان متروک الحدیث اور متہم بالکذب راوی ہے ۔''
(المغنی فی الضفاء: 1۔163:874)
(2)حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
« حَدِيث: أذيبوا طَعَامكُمْ بِالصَّلَاةِ، ولاتناموا عَلَيْهِ؛ فتقسوا قُلُوبكُمْ) ذخيرة الحفاظ (1/ 375)
''نماز کے ذریعے سے کھانا ہضم کرو اور کھانا کھا کر نیند نہ کرو، اس سے تمہارے دل سخت ہو جائیں گے ۔''
اس حدیث کی سند میں اصرام بن حوشب کذاب و وضاع راوی ہے جس پر ائمہ محدثین نے سخت جرح کی ہے ۔ یحییٰ بن نعین کہتے ہیں :
'' یہ کذاب خبیث راوی ہے ۔ امام بخاری ، امام مسلم اور امام نسائی نے اسے متروک کہا ہے ۔ امام دارقطنی نے اسے منکر الحدیث قرار دیا ہے اور ابن حبان کہتے ہیں : یہ ثقہ راو ی کی طرف موضوع روایات منسوب کرتا تھا ۔''(میزان الاعتدال : 1۔272،کتاب الضعفاء والمتروکین:1۔127)