جامعہ لاہور الاسلامیہ میں اگست کے پہلے ہفتے ایک علمی اور تربیتی ورکشاپ کا انعقاد ہوا۔ دنیا کے ۵۰ سے زائد ممالک میں سرگرم سعودی عرب کی اہم ترین عالمی تنظیم الندوۃ العالمیۃ للشباب الاسلامي کے تعاون سے منعقد ہونے والی یہ ورکشاپ ہفتہ بھر جاری رہی۔ جس میں گرمیوں کی چھٹیوں میں پاکستان آئے ہوئے سعودی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبا سمیت پاکستان کی ۱۸ ؍ دینی جامعات کے ۱۳۰ فضلا نے شرکت کی، ان میں پنجاب یونیورسٹی اور جدید کالجوں کے بعض طلبا بھی شامل تھے۔ورکشاپ میں خطاب ومحاضرات کے لئے پنجاب بھر کے ممتاز اکابر علما اور دانشور حضرات کو دعوت دی گئی اور بطورِ خاص ایسے موضوعات کو منتخب کیا گیا جن کا مطالعہ زیادہ تر دینی مدارس کے مخصوص ماحول میں نہیں ہوپاتا جب کہ عالمی تناظر میں ان پر بحث ومباحثہ کی دینی وعلمی حلقوں میں شدید ضرورت رہتی ہے۔ تربیتی ورکشاپ کا مرکزی موضوع 'عصر حاضر میں اسلام کو درپیش چیلنجزاور ان کا حل' طے کیا گیا۔
جن بیرونی اور پاکستانی جامعات سے طلبہ نے شرکت کی ، ان کے نام حسب ِذیل ہیں:
اسلامک یونیورسٹی( مدینہ منورہ) ، جامعہ الامام محمد بن سعودالاسلامیہ (ریاض)،جامعہ اُمّ القریٰ (مکہ مکرمہ)، جامعہ قاہرہ ( مصر) ... جامعہ سلفیہ فیصل آباد، جامعہ سلفیہ اسلام آباد، جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن، جامعہ اثریہ جہلم، جامعہ الدعوۃ السلفیہ ستیانہ، جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ، جامعہ دار الحدیث اوکاڑہ، جامعہ محمدیہ اوکاڑہ، جامعہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ لاہور، جامعہ اہل حدیث لاہور، جامعہ تعلیمات اسلامیہ فیصل آباد، کلیۃدار القران والحدیث فیصل آباد، جامعہ الدعوۃ الاسلامیہ مریدکے، دار الحدیث محمدیہ حافظ آباد، مرکز ابن قاسم ملتان، جامعہ رحیمیہ نیلا گنبد لاہور، مرکز ابن الخطاب قصور اور میزبان ادارہ جامعہ لاہور الاسلامیہ ، لاہور وغیرہ
ورکشاپ کا محور یہ تھا کہ دینی علوم کے طلبا کے سامنے اسلام کی عالمگیریت کو دلائل کے ساتھ ثابت کیا جائے ـ،اسلام کے خلاف اُٹھنے والے فتنوں اورشکوک و شبہات اور ان کی حقیقت سے اُنہیں متعارف کروایا جائے ، تاکہ وہ مغرب سے مرعوب ہونے کی بجائے ٹھوس علمی دلائل سے ان کا ردّ کر سکیں۔ ان کی فکری، علمی اور عملی تربیت اس نہج پر کی جائے کہ وہ اسلاف کی شاندار روایات کو لئے ہوئے دورِ حاضر میںمسلمانوں اور عالم اسلام کو درپیش چیلنجز کابھرپور جائزہ لے کر ان سے کما حقہ عہدہ برآ ہوسکیں۔
اہل علم، طلبہ اور اساتذہ کی تربیتی ورکشاپوں کی اہمیت اہل علم ودردسے مخفی نہیں۔ دنیا میں وہی قومیں اور افراد زندہ رہتے ہیں جو اپنے ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے مستقبل کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے ہر وقت اپنی اصلاح اور سیکھنے سکھانے کا عمل جاری رکھتے ہیں۔ جہاں دشمنانِ دین و ملت پوری پلاننگ اور قو ت کے ساتھ میدانِ عمل میں مصروف کار ہوں ،وہاں اس قسم کی تربیت کے بغیر اپنے وجود کو برقرار رکھنا مشکل ہوجاتاہے۔ ایسے میں دورِ حاضر کے فتنوں اور سازشوں سے نبرد آزما ہوئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ بات تبھی ممکن ہے جب داعیانِ حق لادین مغرب کے منصوبوں، پروگراموں اور طریقہ کار سے مکمل طور پر آگاہ ہوں اور علمی و عملی طورپر ان کا ردّ کرسکنے کی صلاحیت سے بھی مالا مال ہوں۔
ایسے ہی مقاصد کے حصول کے لئے اس ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا جس میں دینی و عصری علوم کے ماہر علماء کرام اور سکالرز کو دعوت دی گئی ، جنہوں نے مختلف موضوعات پر اپنے مقالے پیش کئے۔ ورکشاپ کے تیسرے دن 'حجیت ِحدیث' کے موضوع پر ایک مذاکرے کا اہتمام بھی کیا گیا۔آخری روز طلبہ میں تقریری مقابلہ کے علاوہ فرصت کے اوقات میں ہم نصابی سرگرمیاں بھی زور وشور سے جاری رہیں۔ ان سرگرمیوں میں معروف اشاعتی ادارے دارالسلام، لاہور اور جماعۃ الدعوۃ پاکستان کے مرکزی دفاتر کے علاوہ لاہور کی دینی لائبریریوں میں ہونے والا ایک اچھا اضافہ بیت الحکمت، ملتان روڈ کی زیارت بھی شامل تھی۔ تفریحی مقاصد کے لئے تمام طلبہ کو ایک شام واہگہ بارڈر بھی لے جایا گیا، باغِ جناح میں ایک شب ان میں کوئز مقابلہ کا انعقاد بھی ہوا۔
ہفتہ بھر جاری رہنے والی اس ورکشاپ کے روزانہ ۵ تا ۷ لیکچرز مجلس التحقیق الاسلامی کے ہال نمبر۱ میں ہوتے رہے، طلبہ کا قیام وطعام جامعہ لاہور الاسلامیہ کے اقامتی کیمپس میں تھا، جس میں شرکا کی سہولت کے پیش نظرانہی دنوں جامعہ کی تقریباً تمام کلاسوں کو ہفتہ بھر کی گرمیوں کی چھٹی دے دی گئی۔ ورکشاپ کے روح رواں جامعہ الامام محمد بن سعود میں پی ایچ ڈی کے طالب علم حافظ محمد انور تھے، جن کی معیت میں جامعہ لاہور الاسلامیہ کے تمام اساتذہ کی ٹیم اور مجلس التحقیق الاسلامی کا عملہ شریک ِکار تھا۔ مدیر الجامعہ حافظ عبد الرحمن مدنی کی زیر سرپرستی ہفتہ بھر کی یہ تربیتی ورکشاپ بخیر وخوبی اپنے انجام کو پہنچی۔
ورکشاپ کی بعض اہم تفصیلات نذرِ قارئین ہیں :
افتتاحی تقریب مرکزہمدرد ،لاہور [مؤرخہ ۳۱ جولائی ۲۰۰۴ ء]ورکشاپ کے تعارف اورباقاعدہ افتتاح کے لئے۳۱؍ جولائی ۲۰۰۴ کو ہمدرد سنٹر لاہور میں ایک پر وقار تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب کے مہمانِ خصوصی لاہور ہائی کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت کے سابق چیف جسٹس (ر) میاں محبوب احمد تھے جبکہ صدارت الندوۃ العالمیۃ للشباب الاسلامي پاکستان کے ڈائریکٹر شیخ ابراہیم انور ابراہیم نے کی۔ نقابت کے فرائض معروف صحافی اور ماہر قانون ڈاکٹر ظفر علی راجا نے ادا کئے۔ دیگر مہمانوں میں شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی، جنرل (ر) راحت لطیف ، جامعہ ابی بکر کراچی کے مدیر ڈاکٹر راشد رندھاوا، جامعہ لاہور الاسلامیہ میں کلیہ الشریعہ کے پرنسپل مولانا محمد رمضان سلفی، کلیہ القرآن کے پرنسپل قاری محمد ابراہیم میرمحمدی،جامعہ اہل حدیث لاہور کے ناظم حافظ عبد الوہاب روپڑی، دارالعلوم محمدیہ لوکو ورکشاپ کے مہتمم مولانا امان اللہ، کلیۃ دار القرآن فیصل آباد کے حافظ انس مدنی اور ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر مزمل احسن شیخ، نامور مبلغ مولانا ابوبکر صدیق، سابق پرنسپل جیل سٹاف ٹریننگ انسٹیٹیوٹ ڈاکٹر عبد المجید اولکھ اور معروف معالج ڈاکٹر عبد الوحید وغیرہ شامل تھے۔ تقریب کا مرکزی انتظام ماہنامہ محدث کے مدیر حافظ حسن مدنی کے سپرد تھا۔ ملک کے اطراف و اکناف سے آئے ہوئے علماے کرام کی کثیر تعداد، مدارس کے نمائندوں اور ممتاز طلبہ نے اس تقریب میں شرکت کی۔ہمدرد سنٹرکا سب سے بڑا ہال اپنی تمام تر وسعت کے باوجود تنگی داماں کا شکوہ کررہا تھا۔
٭صبح ساڑے دس بجے قاری محمد ابراہیم میر محمدی کی تلاوت سے تقریب کا آغاز ہوا۔
٭مہمانِ خصوصی جسٹس (ر) میاں محبوب احمد نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ عالم اسلام کو درپیش جدید اور پیچیدہ مسائل کا حل دین کے اُصولوں پر عمل پیرا ہونے میں مضمر ہے۔ علماے کرام کو اپنی سوچ اور فکر میں وسعت لانا ہوگی کیونکہ جدید مسائل کی تفہیم اور پھر ان کا حل قلب و نظر کی وسعت کے ساتھ ہی ممکن ہے۔ اس کے بغیر ہم زمانے کی دوڑ میں شریک ہوسکتے ہیں اورنہ دوسروں کا مقابلہ کرسکتے ہیں ۔گاڑیوں کی دوڑ میںگدھے پر سوار ہوکرکامیابی کا حصول ناممکن ہے۔ علماے کرام ہر میدان میں کارہاے نمایاں انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں ،بس ذرا ہمت کرکے میدان میں آنے کی ضرورت ہے !!
٭ ورکشاپ کے سرپرست اور جامعہ لاہور الاسلامیہ کے مدیر حافظ عبدالرحمن مدنی نے اپنے خطاب میں ورکشاپ کا تعارف اور اس کے مقاصد بیان کرتے ہوئے کہاکہ اس وقت ضرورت ہے کہ ہمارے فضلا کو جدیددور کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کیاجائے تاکہ وہ بدلتے ہوئے حالات کا ساتھ دے سکیں۔ انہوں نے کہا کہ برصغیر پاک و ہند میں اسلام کا دورِ ثانی یا عوامی پھیلاؤ سنٹرل ایشیا اور پھر افغانستان کے رستہ سے ہوا۔ اس کے ساتھ ہی افغانستان اور ایران کی تہذیب وثقافت بھی ساتھ آئی۔ ہمارے ہاں کے علما عجم (فارس) کے طریق پر تبلیغ اسلام میں مصروف رہے،اسی بنا پر ہمارا بڑا علمی ذخیرہ فارسی زبان میںموجود ہے جو کہ اس وقت کی امتیازی اور سرکاری زبان تھی لیکن موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ہمارا وہ مرکز ِثقل نہ صرف دم چھوڑ چکا ہے بلکہ بعض وجوہ سے اب ساری دنیا کا مرجع 'جزیرۃ العرب' ہی ہے جہاں پر اس وقت علمی حوالے سے ایک قابل قدر کام ہورہا ہے۔ شاہ فیصلؒ نے جوسعودی عرب میںاسلامی یونیورسٹیوں کاکام شروع کیا تو اس علمی ترقی کی وجہ سے اب سعودی عرب حرمین شریفین کے علاوہ مصر وبغدادسے بھی آگے ایک ٹھوس علمی مرکز کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔جس طرح ہم نے پہلے بدلتے ہوئے حالات کا ساتھ دیا، اسی طرح اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں اپنے اصل مرکز حرمین شریفین سے جڑیں اور انکے علمی کام اورتعلیمی تجربہ سے فائدہ اُٹھائیں۔
سعودی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلبا کی ذمہ داری اس لحاظ سے اوربڑھ جاتی ہے کہ وہ اس کام کو بخوبی سرانجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کا فرض ہے کہ و ہ وطن پاک کی ضروریات کے حوالے سے بھی علمی کام کو آگے بڑھائیں۔ مزید برآں انہوں نے اس پروگرام کو 'انٹرنیشنل جوڈیشنل اکیڈمی' کے قیام کی تمہید قرار دیا اور بتلایا کہ پاکستانی اور عرب قانون دانوں کے باہمی اشتراک سے اس منصوبہ کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ مدنی صاحب نے اپنے خطاب میں الندوۃ العالمیۃ للشباب الاسلامي ( ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھWAMY) اور تربیتی ورکشاپ ۲۰۰۴ء کا مختصر سا تعارف بھی پیش کیا۔
٭ جامعہ ابی بکر کراچی کے مدیر ڈاکٹر راشد رندھاوا صاحب نے نفاذِ اسلام کے حوالے سے عملی کوششوں کو اختیار کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے دو طبقوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے؛ ایک حکومت پراور دوسری علما کرام پر، لیکن افسوس کہ یہ دونوںطبقے اپنی ذمہ داریاں صحیح طور پر بجا نہیں لارہے۔ مقصد میں کامیابی کا حصول اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک ہم غفلت چھوڑ کر اپنے اوپر عائدذمہ داریوں کو پورا نہیں کریں گے۔
٭ پروگرام کی ابتدا میں تربیتی ورکشاپ کے ناظم حافظ محمد انور نے اپنے عربی زبان کے خطاب میں ندوہ کا تعارف کروایا اور اس پروگرام کی غرض و غایت بیان کی۔ اپنے خطاب میں انہوں نے سعودی حکومت کی اسلام کے لئے کی جانے والی سرگرمیوں کا ایک مختصر جائزہ بیش کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے مابین ثقافتی تعلقات کی اہمیت پر زور دیا۔ان کے خیال میں ایسے پروگرام دو اسلامی ممالک کے مابین بہترین علمی وثقافتی رابطہ کی بنیاد ہیں۔
یہاں اس امر کا تذکرہ بھی فائدہ سے خالی نہ ہوگاکہ محترم حافظ محمد انور صاحب جو جامعہ لاہور الاسلامیہ کے ہی سابق طالبعلم رہے ہیں اور یہیں سے اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ملک تشریف لے گئے، اب تک ہونے والے تینوں تربیتی ورکشاپوں کے نہ صرف روحِ رواں ہیں، بلکہ اس بابرکت کام کا آغاز بھی ان کی مساعی سے ہی ممکن ہوا۔
٭تقریب کے مہمانِ خصوصی شیخ ابراہیم انور ابراہیم نے اپنے خطاب میں حکومت پاکستان کا اس امر پر شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ۱۱؍ستمبر کے بعد پیدا ہونے والے مشکل حالات میں بھی ان کی ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ کو پاکستان میں کام کرنے کی فراخدلانہ اجازت عطا فرمائی۔ انہوں نے مسلمانان پاکستان کو قرآن وسنت کی طرف رجوع کرنے کی اہمیت پر زور دیا اور ان بنیادی مصادر شریعت سے بلاواسطہ استفادہ کی طرف توجہ دلائی اور اس کی برکات کی نشاندہی کی۔ عربی میں اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ تمام دینی تنظیمیں نعرہ تو کتاب وسنت کا لگاتی ہیں لیکن کتاب وسنت کا وہی مفہوم مستند اور لائق اعتبار ہے جس پر صحابہ کرام نے عمل کیا اور خیرالقرون میں ان کا جو مفہوم لیا گیا، ا س کے بغیر کتاب وسنت کی اتباع کے تمام دعوے نرے دعوے ہی ہیں۔
٭ تقریب سے معروف دانشور جنرل (ر) راحت لطیف نے بھی خطاب کیا۔ جامعہ کے شیخ الحدیث مولانا حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ کی پرتاثیر دعا سے یہ تقریب اختتام پذیرہوئی۔
تربیتی ورکشاپہفتہ کی صبح ۱۰بجے کی افتتاحی تقریب سے ورکشاپ کا آغاز ہوچکا تھا۔ ظہر کے بعد ورکشاپ میں شریک تمام طلبا کی رجسٹریشن کی گئی اور اُنہیں جامعہ لاہور الاسلامیہ میں رہائشی کمرے الاٹ کردیئے گئے۔ قیام و طعام کا مکمل انتظام جامعہ میں تھا۔
افتتاحی تقریب کے روز ہی بعد از عصر مجلس التحقیق الاسلامی کے ایئر کنڈیشنڈ ہال میں قاری حافظ حمزہ مدنی کی پُرکیف تلاوت سے تربیتی ورکشاپ کی تدریسی کارروائی کا باقاعدہ آغاز ہوا ۔
٭قاری محمد انور صاحب نے سٹیج سیکرٹری کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر مزمل احسن شیخ صاحب کو افتتاحی کلمات کی دعوت دی۔انہوں نے 'اُسلوبِ دعوت'کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک داعی کے لئے ضروری ہے کہ وہ منہج نبویؐ کواپنے پیش نظر رکھے، شیطان نے قیاس کا اندھا گھوڑا دوڑایا اور گمراہی کا شکار ہوا۔ پھر اس نے ہمارے باپ آدمؑ کو جنت سے نکلوایا اور اب یہ ہمارے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ ابلیس کے ساتھ نفس امارہ بھی ہمارا دشمن ہے، جس کا ہم نے مقابلہ کرنا ہے اور یہ مقابلہ قرآن کی طاقت سے ہوسکتا ہے۔ اللہ نے ہمیں وطن عزیز پاکستان بھی مبارک رات میں دیا کہ اس میں اُترنے والے قرآن کو اس وطن میں نافذ کردینا۔ نبیؐ کی شان یہ ہے کہ سوتے ہوئے بھی ان کا دل بیدار رہتا ہے، داعیوں کو اپنے دل ودماغ بیدار رکھنے کی ضرورت ہے اور یہ کام اللہ کی مدد کے بغیرنہیں ہوسکتا۔ علاوہ ازیں انہوں نے عملی طور پر کرنے کے کاموں پر زور دیا کہ ہماری گفتار کے ساتھ جب کردار بھی اعلیٰ ہوگا تو تبھی دعوت کا کام مکمل ہوسکتا ہے۔دعوت کے حوالے سے طلبہ میں انہوں نے ایک جامع سوال نامہ تقسیم کیا، جس کے جوابات دینا او رسوچنا ان کی ذمہ داری تھا۔
٭اس کے بعد معاشیات کے پروفیسر جناب میاں محمد اکرم کو 'بلا سودی بنکاری' کے موضوع پر اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ بینکوں میں روپے پیسے کا جو لین دین ہورہا ہے اس کے سود ہونے کے بارے میں تمام علماء کا اتفاق ہے۔ لیکن بینک اس کومنافع کانام دیتے ہیں۔ غیرسودی بینکاری کے حوالے سے انہوںنے بتایا کہ اس موضوع پر اتناکام ہوچکا ہے کہ اگر کوئی حکمران اس کو نافذ کرنا چاہے تو اس کے لئے عملی طور پر کوئی مشکل نہیں ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حکمران خلوصِ نیت سے اس پرعمل کرنا ہی نہیں چاہتے ورنہ نوازدور میں غیر سودی بینکاری کی عملی شکل کے حوالے سے جوکام ہوا تھا وہ تو بالکل واضح تھا لیکن اس رپورٹ کو اوپن ہی نہیں ہونے دیا گیا۔ غیر سودی بینکاری کوئی خواب نہیں،بلکہ حقیقت ہے اور دنیا میںبہت سے بینک یہ کام کررہے ہیں۔ ۱۹۶۳ء میںمصر، دبئی، جدہ اور ملائیشیا میں تبوک نامی بینک بنایا گیا۔بنگلہ دیش کے اسلامی بینک نے ۲۰ فیصد کے قریب منافع دیا ہے۔ پاکستان میں المیزاناور الفیصل کے علاوہ خیبر بینک نے بھی غیر سودی بنیادوں پر کام شروع کردیا ہے۔ اسلام نے تجارت کے جو اُصول دیئے ہیں، وہ بالکل واضح ہیں اور ان میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ ہر دور کے تقاضوں کو پورا کرسکیں۔ غیر سودی بنیادوں پر کام کرنے والے بینک نہ صرف کام کرسکتے ہیں ،بلکہ دوسروں سے بہتر رزلٹ دے رہے ہیں۔معلومات، اعداد وشماراور اختصار وجامعیت سے بھرپوران کا خطاب مغرب تک جاری رہا جس کے بعد طلبہ کو سوال وجواب کا بھی موقع دیا گیا۔مغرب کے بعد جامعہ میں طلبہ کے عشائیہ کا انتظام تھا، بعد از عشاء تقریب کے ناظم حافظ محمد انور نے قیام گاہ پر طلبہ سے خطاب کرکے ان کو حسن سلیقہ اور کردار سے مسلح ہونے کی تلقین کی۔
دوسرا روز [یکم اگست ، بروز اتوار]٭ اگلے دن قاری حمزہ مدنی نے سورئہ زمر کی تلاوت سے صبح کے سیشن کا ۸بجے آغاز کیا ۔ اس کے بعد ڈائریکٹر پنجاب پبلک لائبریریز پروفیسرعبد الجبار شاکرنے 'علومِ نبوت کے حاملین طلبا کی ذمہ داریاں' کے موضوع پر گفتگو فرماتے ہوئے کہاکہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے پہلے انسان کو نبوت سے سرفراز کیا تونبوت کاجو چارٹر ان کو دیا، اس کی تین بنیادیں ہیں:
1.آیاتِ الٰہی کی تلاوت 2.کتاب و حکمت کی تعلیم اور 3.تزکیۂ نفس
نبوت کے یہ وہ فرائض سہ گانہ ہیںجس کا شہرہ دارِ ارقم سے ہوا ۔ یہ دنیا کا وہ عظیم کلاس روم تھا جس کے متخرجین نے تاریخ کا ایسا انقلاب برپا کیا کہ دنیا آج تک اس کی نظیر پیش نہیں کر سکی ۔انہوں نے کہاکہ یہ دراصل ان علومِ نبوت کا کمال تھاجس نے اخلاقی، نفسیاتی اعتبار سے 'فساد فی الارض' کی عملی تصویر قوم کو دنیا کا رہبر ورہنما بنا دیا تھا۔ اس کے بالمقابل علم الاشیا(سائنس وفلسفہ)نے آج تک کوئی اخلاقی انقلاب پیدا نہیں کیا ۔انہوں نے کہا کہ آج دنیا جو ایک دفعہ گمراہی میں منہ کے بل گر پڑی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس علم نبوت سے اعراض کر لیا ہے ۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم محدود ماحول سے نکل کر عقیدہ اور کردارکے حوالہ سے کثافت اورآلودگی کی شکاردنیا کو اس سے نکالنے کے لئے اپنا کردارادا کریں ۔
٭ اس کے بعد ڈاکٹرراشد رندھاوا صاحب نے 'نفاذ اسلام کی عملی صورتیں' کے موضوع کو دوحصوں پر تقسیم کرتے ہوئے پہلے حصے میں مثالیں دیں کہ کس طرح آج کے تجربات اسلامی تعلیمات پر مہر تصدیق ثبت کر رہے ۔انہوں نے بتایا کہ زندگی گزارنے کے جو اصول آج کی سائنس بتلا رہی ہے وہ تورسول اللہﷺ نے چودہ سو سال پہلے بتا دیئے تھے، مثلاً حدیث میں رات کو جلدی سونے کا حکم دیا گیا ہے۔ آج سائنس بتاتی ہے کہ عشا کے فورا ً بعد ایسا وقت ہے کہ اس میں سونے سے ایسے ہارمون پیدا ہوتے ہیں جو جسمانی امراض کو ختم کردیتے ہیں اور سارے نظام کو بہترین بنا تی ہیں اور یہ وقت صبح تک رہتا ہے۔ مزید مثالوں میں کھانے کے بعد کلی کرنا، شراب کی حرمت، روزہ وغیرہ ؛یہ وہ اسلامی تعلیمات ہیں جن کی افادیت کوآج دنیا تسلیم کرچکی ہے ۔ اسی طرح دوسری طرف بھی کچھ اُصول ہیں۔ امام غزالی ؒ نے 'احیاء العلوم' میں کہاہے کہ نماز،زکوٰۃ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر نفاذِ اسلام کی بنیاد ہیں۔اسلام کے اس پیغام کو اگر ہم اپنی زندگیوں میںنافذ کریں تو ان چار باتوں سے اسلام نافذ ہوسکتا ہے۔ پھر انہوں نے ان چار اُصولوں کی بنیاد پر ہونے والے فوائد کا تذکرہ کیا۔ اس سلسلے میں اپنے زیر نگرانی دینی جامعہ مرکز الدعوہ السلفیہ، ستیانہ بنگلہ فیصل آباد کو بطورِ مثال کے ذکر کیا۔
٭اس کے بعد حافظ مقصود احمد مدیر مرکز دعوۃ التوحید وماہنامہ 'دعوۃتوحید'اسلام آباد نے 'غلبہ اسلام' کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے غلبہ اسلام کا مفہوم واضح کیا ۔انہوں نے کہا کہ یہ درست کہ اسلام دنیامیںغالب ہونے کے لئے ہی آیا ہے، لیکن اس بات کو سمجھنے میں لوگوں کو غلطی لگی ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ غلبہ کامطلب ہے کہ زبردستی اور بزور کسی چیز پر قبضہ کرلینا۔ اسلام کا یہی مفہوم بیان کرکے اسلام کو دہشت پسند اور مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کیا جارہا ہے جبکہ غلبہ اسلام کا مطلب یہ ہے کہ جوکوئی مسلمان ہوگا وہ کھلے دل سے اس کی حقیقت اور غلبہ کو تسلیم کرے گا۔ بغیر کسی لالچ، جبر اور خوف کے اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرنے والا ہی مسلمان بن سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ثمامہ بن اُثال کی مثال کو پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسے تین دن تک مسجد ِنبوی ؐکے ستون سے باندھے رکھا گیا، آخر بدترین دشمنی اور نفرت کا اظہار کرنے کے بعد خود ہی یہ بات ماننے پر مجبور ہوگیا کہ اسلام ہی سچا دین ہے۔ اس کے مقابلے میں آج امریکہ، افعانستان اور عراق پر جو ظلم کررہا ہے ،خطرناک ترین ہتھیار استعمال کرچکا ہے۔ یہ جبر اور ظلم ہے، اس طرح زمین تو فتح ہوسکتی ہے دلوں پر حکمرانی ممکن نہیں ہے۔
٭ اس روز کا چوتھا خطاب ادارئہ تحقیقاتِ اسلامی انٹر نیشنل یونیورسٹی، اسلام آباد میں شعبۂ قرآن وسنت کے انچارج پروفیسر ڈاکٹر سہیل حسن صاحب کا تھا۔ ان کا موضوع 'موسیقی اوراس کی شرعی حیثیت'تھا۔ ابتدا میں طبی تحقیق سے انہوں نے ثابت کیا کہ موسیقی صالح روح کی غذا نہیں بلکہ بے شمار بیماریوں کی ماں اوربد روح کی غذا ہے۔ اس سے کان کے بہت سے عوارض لاحق ہوتے ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ موسیقی کے حوالے سے ابن حزمؒ، غزالی ؒ، یوسف قرضاوی اورغامدی گروہ نے جو مختلف آرا اپنائی ہیں، ان حضرات کے یہ موقف جمہور علماء امت اور اسلامی تعلیما ت سے متصادم ہیں۔ آلات ِموسیقی کی حرمت صدر اسلام سے علما کے ہاں متفقہ چلی آتی ہے۔اگرچہ اس سے اصل مقصود شیطانی آوازوں کی حرمت ہے۔تلبیس ابلیس میں ابن جوزیؒ نے صرف پانچ قسم کے اشعار کو مباح قرار دیا ہے :
1. دنیا کا وصف بیان کیا جائے 2. حج کو جاتے ہوئے 3. زہد وتقویٰ پر
4. شادی کے موقع پراور e جہادی اشعار ۔ عربی میں 'غنا' کا مطلب ترنم ہے اور جو لفظ ہمارے ہاںمستعمل ہے یہ یونانی لفظ ہے جو 'مست کرنے' کے معنی میں ہے اور جب ہم موسیقی کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد ترنم نہیں ہوتا۔ اس کے بعد انہوں نے متعدد دلائل سے گانے کی حرمت ثابت کی۔
موسیقی کے بارے میں قرآن وسنت کے مختلف دلائل کو پیش کرتے ہوئے انہوں نے اس سلسلہ میں ائمہ لغت کی آرا سے بھی استشہاد کیا۔اپنے موقف کی تائید میں صحابہ کرام اور فقہاء عظام کے اقوال بھی انہوں نے پیش کئے۔اس سلسلے میں متعلقہ تمام احادیث کی بھی انہوں نے نشاندہی کی اور غامدی گروہ کے خیالات کو نبی کریم او رصحابہ کی شان میں ہرزہ سرائی قرا ردیا۔ یاد رہے کہ ہر خطاب کے بعد ۱۰ منٹ طلبہ کے سوال وجوا ب کے لئے مخصوص کئے گئے تھے اور اس خطاب کے بعد طلبہ نے زور وشورسے سوالات کر کے اپنے شبہات کی تشفی کی۔
٭ ورکشاپ کے دوسرے روز اتوار صبح کے اوقات کا آخری اورپانچواں خطاب ادارہ تحقیقاتِ اسلامی ، اسلام آباد کے ہی ریسرچ سکالر ڈاکٹر عصمت اللہ زاہد کا تھا، اپنے خطاب میں جدید طبی فقہی مسائلکو زیر بحث لاتے ہوئے ہوئے کہا معاشیات ، سیاست ، معاشرت اور زندگی کے ہر شعبہ میں متعد د جدید مسائل موجود ہیں ۔اور اسلام ایک عالمگیر دین ہونے کے ناطے ان کا حل پیش کرتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ چند راہنما اُصول ہیں جن کے پیش نظر رکھتے ہوئے ان تمام مسائل کا حل دریافت کیا جا سکتا ہے کہ وہ مسئلہ جس شعبہ زندگی سے متعلقہ ہو اس کے ماہرین سے مکمل صورتِ واقعہ معلوم کی جائے۔پھرمجتہد کے لیے ضروری ہے کہ قرآن وسنت کے ذخیرہ اور فقہا کے اجتہادات پر اس کی نظر ہو۔ اس کے بعد انہوں نے کلوننگ، مصنوعی طریقہ ہاے تولید اور انسانی اعضا کی پیوند کاری کے طریقہ کار کی وضاحت کی۔
انہوں نے کہا کہ حیوانات میں کلوننگ کے عمل کو اگر وہ دو ہم جنس حیوانوں میں ہو تو اسے کسی حد تک جائز قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن انسانوں میںکلوننگ کا عمل غیر فطری،اسلامی تعلیمات کے خلاف اور تغییر لخلق اللہ کے زمرہ میں آتا ہے اورخود مغربی ممالک بھی اس غیر فطری طریقہ تولید کے مفاسد کو محسوس کرتے ہوئے اس پر پابندی عائد کر چکے ہیں۔باقی رہی نباتات میں کلوننگ تو اس کے نقصانات بھی اب مخفی نہیں رہے۔
٭جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ کے شیخ الحدیث اُستاذ الاساتذہ حافظ عبدالمنان نورپوری حفظہ اللہ کا خطاب اسی روز عصر کے متصل بعد شروع ہوا۔مولانا نے 'اخبارآحاد کی حجیت ' کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حدیث کی حجیت کے حوالے سے اس وقت بے شمار فتنے سر اٹھا رہے ہیں لیکن اس وقت میرے پیش نظر حدیث کو ظنی قرار دینے کا فتنہ ہے۔' ظن' گمانِ غالب کے معنی دیتا ہے لیکن بہت سی صورتوں میں یہ یقین پر بھی بولا جاتا ہے جیسا کہ اس کے بعد أن مخففہ یا مثقلہآجائے تو تب ظن درجہ بدرجہ یقین کا معنی دیتا ہے مثلاً
﴿الَّذينَ يَظُنّونَ أَنَّهُم مُلـٰقوا رَبِّهِم وَأَنَّهُم إِلَيهِ رٰجِعونَ ﴿٤٦﴾... سورة البقرة'أن' کے بغیر ظن کے دیگر معانی میں کذب و جھوٹ، ریب و شک، ظن اور ظن غالب بھی شامل ہیں۔ حدیث کے بارے میں اعتراض کیا جاتا ہے کہ اوّل تو حدیث ظنی ہے اورظن حجت نہیں ہوتا۔ اگر حدیث کو' ظن محض' گمان قرار دیا جائے تو سارے ذخیرئہ حدیث پر پانی پھر جاتا ہے اور کوئی بھی حدیث نہیں بچتی حالانکہ خبر واحد کے حجت ہونے کے بھی بے شمار دلائل ہیں اور یہ کہنا بھی غلط ہے کہ' ظن' حجت نہیں ہے۔عقل و نقل سے یہ بات ثابت ہے کہ 'غالب ظن' کی بنا پرہی دنیا کے معاملات چلتے ہیں۔پھر اپنے خطاب میں مولانا نے حدیث ِآحاد کے حجت ہونے کے متعدد دلائل پیش کئے۔
٭اس کے بعد حافظ عبدالرحمن مدنی صاحب نے 'تصورِاجتہاد ؛ ڈاکٹر اقبالؒ، علامہ ابن حزمؒ اور جمہور علما کے مابین' کے موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے ایسے اجتہاد کو من گھڑت قرار دیاجس کی بنیاد شرعی نص میں موجود نہ ہو اور ان لوگو ں کا ردّ کیا جو میت کے بیٹوں کی موجودگی میں دادا کی وصیت موجود نہ ہونے کے باوجود اجتہاد کے دعوے سے اس کے یتیم پوتے کو وراثت میں از خود قانوناً حصہ دار قرار دیتے ہیں اور اس موقف کی پرزور تائید کی کہ قرآن کی روسے دادا پریتیم پوتے کے لئے اپنی زندگی میں وصیت کرنا فرض ہے کیونکہ نسخ صرف وراثت کے حصص میں ہوا ہے جب کہ وصیت کی فرضیت برقرار ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ اس کے پیچھے اگرچہ ڈاکٹر اقبالؒ کا نظریۂ اجتہاد کار فرما ہے کہ دین میں جہاںنقص نظر آئے، اس کو اجتہاد سے پورا کیا جائے۔ ڈاکٹر اقبال عظیم فلسفی،ہمدردِ قوم اور ملت اسلامیہ کے بلند پایہ مصلح اور حدی خواں تھے،لیکن ان کا پرزور صاحب ِگفتار ہونا انہیں ماہر شریعت بنا دینے کے لیے کافی نہیں وہ خود ساری زندگی مقتدر علماے دین کی خوشی چینی کے لیے بیتاب رہے لیکن اصل مصادرِ شریعت سے نا آشنا ہونے کی بنا پر ان کا مقام علمی عقدہ کشائی اور مفتی کا نہیں ہے اور وہ خود بھی اس کے مدعی نہ تھے، لہٰذا ڈاکٹر اقبا ل کی اجتہاد کی وہ تعریف جو تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ میں ہے، در حقیقت اجتہاد کی تعریف ہی نہیں ہے۔ اسی طرح اجتہاد کا اختیار اراکین اسمبلی کو دینا بھی اجتہاد کے بجائے 'قانونی تقلید' کا تصور ہے۔ علامہ اقبال ؒسے اجتہاد کے جس تصور کو منسوب کیا جاتا ہے ، علامہ اقبال نے خود اس کے بارے میں تردّد کا اظہار کیا ہے۔
بلاشبہ ہرمسئلہ کی اصل اسلامی شریعت میں موجود ہے اور شریعت کی حدود میں اجتہاد کے وسیع اُصولوں کو استعمال میں لاتے ہوئے شرعی بنیاد پر ہی ہر نئے پیش آمدہ مسئلہ کا فیصلہ کرنا چاہئے۔ اگر یہ تصور مان لیا جائے کہ دنیا کے بعض اُمور کے بارے میں اسلام خاموش ہے تو اس صورت میں شریعت سے ماورا علما کی راے پر عمل کرنا بھی تقلید بن جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو اس جیسے دوسرے انسان کی رائے کا شرعاً پابند نہیں ٹھہرایا ہے ۔
اندلس کے حافظ ابن حزمؒ تقلیدی جمود وتعصب کے رد عمل میں اجتہاد کے میدان میں جوش وجذبہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسرا انتہائی رویہ اختیار کرتے ہیں کہ ہر مسلمان خواہ عالم ہو یا عامی 'اجتہاد' کا مکلف ہے کیونکہ کتاب وسنت میں ہر مسئلہ کا واضح بیان موجود ہے۔
برصغیر میں تقلیدی جمود کے خلاف جب فروغِ حدیث کی تحریک چلی تو عوامی حلقوں کو حافظ ابن حزمؒ کی جذباتی دلیلوں نے خاصا متاثر کیا اور مسلک ِاہل حدیث کا حامل ایک سطحی نظر رکھنے والا طبقہ ظاہریت کا متوالا نظر آنے لگا جس سے پختہ نظر اہل علم کو تشویش ہوئیـ۔چنانچہ مولانا محمد اسماعیل سلفی ؒ نے شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی وصیت کی تعمیل میں اپنی تصنیف 'برصغیر میں تحریک ِآزادیٔ فکر' میں اہل حدیث کا پیشوا 'فقہاے محدثین' کو قرار دیا ہے۔
مدنی صاحب نے کہا کہ اجتہاد و تقلید کے کے حوالہ سے افراط تفریط پایا جاتا ہے۔ ایک طرف جمود کا حال یہ ہے کہ وہ بات جو امام کے قول کے خلاف ہو یا تو وہ منسوخ ہے یا اس کی تاویل کی جائے گی جیسا کہ امام کرخی ؒنے کہا ہے ۔اس کے مقابلے میں ابن حزمؒ نے تقلید کا سخت ردّ کرتے ہوئے ہر شخص کو براہِ راست قرآن و سنت سے استنباطِ احکام اور اجتہادکرنے کا ذم دار قرار دیا ہے۔ان کا دعویٰ ہے کہ تمام مسائل واضح طو رپر کتاب وسنت میں موجود ہیں۔
فقہاے محدثین کا موقف ان دو انتہاؤں کے درمیان راہِ اعتدال پر مبنی ہے ۔اہل حدیث نہ تقلید ِجامد کا شکار ہوتا ہے اورنہ ظاہری رجحانات رکھتا ہے، یہی جمہور کا نظریۂ اجتہاد ہے جسے ابن تیمیہؒ اور شاہ ولی اللہ نے پیش کیا ہے۔ اس کی رو سے شریعت کے ظاہر اور مقصد دونوں کی رو رعایت کرنا ضرور ی ہے، کسی ایک کو نظر انداز کرنا درست نہیں۔
تیسرا دن[ ۲ ؍ اگست، بروز سوموار ]٭ جامعہ لاہور الاسلامیہ کے فاضل استاذ قاری محمد ابراہیم میرمحمدی صاحب کی تلاوت سے صبح کے سیشن کا آغاز ہوا۔ان کی تلاوت انتہائی اثر انگیز تھی۔
٭ بعد ازاں ناظم تربیتی ورکشاپ حافظ محمد انورنے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ آج ہمارے مدارس میں تربیت کا فقدان ہے ، ہم قرآن اور اس کی تلاوت کے تقاضوں کو فراموش کر چکے ہیں ۔اصحابِ صفہ اور اسلاف کی جھلک آج ہمار ے مدارس میں نظر نہیں آتی ۔
انہوں نے کہاکہ طالب علم کی علمی، فکری اور عملی تربیت میں اصل کردار استاد کا ہوتا ہے، کتاب ثانوی چیز ہے۔ انہوں نے تدریس کے ساتھ ساتھ تحقیق کو بھی مدارس میں لازمی قرار دینے پر زور دیتے کہا کہ کلیہ کی سطح پر مقالہ کو لازمی قرار دیا جائے تاکہ طلباکو مصادرِ علومِ اسلامیہ سے شناسائی ہو سکے ۔
٭ اس کے بعد کہنہ مشق قلمکار اور نامور مؤرخ مولانا محمد اسحق بھٹی صاحب نے 'امام ابن تیمیہؒ کے حدود علم کی وسعتیں ' پر اپنا مقالہ پیش کیا ، جو معلوماتی ہونے کے ساتھ ساتھ زبان وبیان کا بھی شاہکار تھا ۔مولانا کا یہ مقالہ محدث کے اس شمارہ میں شائع کیا جا رہا ہے ۔
٭ اس روز کا تیسرا خطاب مرکز الدعوۃ السلفیہ، ستیانہ کے دار الافتاکے رئیس اور شیخ الحدیث مولانا عبداللہ امجد چھتوی صاحب نے 'بدعت اوراس کی مروّجہ صورتیں'کے موضوع پر دیا۔ انہوں نے قرآن کی یہ آیت
﴿قُل إِن كُنتُم تُحِبّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعونى يُحبِبكُمُ اللَّهُ...﴾ پڑھنے کے بعد کہا کہ یہ آیت یہودیوں کے ردّ میں نازل ہوئی جنہوں نے اپنی اختراعی شریعت کو موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب کرکے اس پر عمل کو اللہ کی محبت کا موجب قرار دیا اور اب بھی ہر گروہ اللہ کی محبت کے نام کا ہی دعویٰ کرتا ہے ،جبکہ اس آیت نے اللہ کی محبت کا صرف ایک طریقہ بتایا ہے اور وہ اطاعت ِرسولؐ ہے۔ اسکے علاوہ باقی سب کچھ بدعت ہے۔ آپ نے واضح ترین الفاظ میں بدعات سے بچنے اور اللہ کے خوف کو دل میں رکھتے ہوئے رسولؐ کی سنت پر عمل پیرا ہونے پر زور دیا اور اس سلسلہ میں صحابہ اور سلف صالحین کے طریق کار پر کار بند رہنے کی نصیحت کی۔ انہوں نے بدعت کو دو قسموں: بدعت ِحقیقی اور بدعت ِوصفی میں تقسیم کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاں بدعت ِوصفی بہت زیادہ ہے یعنی کسی چیز میں حد درجہ غلو سے کام لیا جائے۔ انہوں نے بدعت کی دورِ حاضر میں مروّ جہ شکلوں کو بیان کرتے ہوئے ان سے بچنے کی تلقین کی اور کہاکہ رسول اللہ نے بدعت کے ادنیٰ سے شائبہ کو بھی برداشت نہیں کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے سنت اور بدعت کے فرق کو پوری طرح سمجھنے پر زور دیا اورہر کام کو بدعت قرار دینے کے رجحان کی بھی حوصلہ شکنی کی ۔
٭ اس روز کا آخری اور چوتھا خطاب مولانا عتیق اللہ مدیر مرکز الدعوۃ السلفیہ ستیانہ بنگلہ نے 'فکر آخرت' کے موضوع پر دیا جو انتہائی پراثر اور ایمان افروز تھا۔ انہوں نے طلبا کو سلف کی روایات اپنانے کی تلقین کی۔ خطاب کے آخر میں انہوں نے سعودیہ میں کام کرنے والے بعض علمی اور تحقیق اداروں کا تعارف بھی کروایا۔
٭اس روز ظہر انہ کے بعد مختصر آرام کرکے تمام طلبہ سیر وتفریح کے لئے واہگہ بارڈرچلے گئے جس کے لئے دوبسوں کا انتظام کیا گیا تھا۔ واپسی پر مغرب کے بعد باغِ جناح میں کویت میں جامعہ لاہور الاسلامیہ کے نمائندہ حافظ محمد اسحق زاہدکے زیر صدارت کوئز پروگرام کا انعقاد ہوا جس میں کامیاب طلبہ کو انعامات عطا کئے گئے۔ آخر میں عشائیہ کا انتظام تھا، جس کے بعد ۱۱بجے شب طلبہ واپس اپنی قیام گاہ میں لوٹ آئے۔
یاد رہے کہ باغ جناح جانے سے قبل لارنس روڈ پر واقع علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ کے قائم کردہ مرکز اہل حدیث کا بھی طلبہ نے دورہ کیا۔
چوتھا دن [ ۳ ؍ اگست، بروزمنگل]٭'اسلامی نصاب ونظامِ تعلیم' کے حوالے سے ناظم وفاق المدارس السلفیہ مولانا یونس بٹ صاحب نے سیر حاصل گفتگو کی۔ انہوں نے بتایا کہ نصابِ تعلیم صرف کتابوں کا نام نہیں ہے اس میں سکھانے کامنہج اور انداز بھی شامل ہے۔ اسلام نے اس بارے میں ہماری بھرپور رہنمائی کی ہے۔ بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچہ جب بولنے لگے تو اس کو سب سے پہلے لا الہ الااﷲ سکھانے کا حکم ہے ۔ اس کے بعد ماں بچے کو رشتوں کی پہچان کرواتی ہے اور بتلاتی ہے کہ ان کے حقوق کیا ہیں۔ پھر معاشرتی آداب سکھانے کامرحلہ آتا ہے۔ نصابِ تعلیم کی ترتیب بھی بالکل یہی ہے۔ سب سے پہلے عقائد کی تعلیم کی ضرورت ہے ،اس میںمکمل ایمانیات آجاتیہیں۔۸، ۱۰ سال کی عمر تک جب بچے کا عقیدہ پختہ ہوجائے گا تو پھر وہ کسی بھی میدان میں بے خوف و خطر کود سکتاہے۔ اس کے بعد معاشرتی علوم کا مرحلہ آتا ہے۔ حقوق و فرائض، دوست دشمن کی پہچان اور زبان کی اصلاح اس مرحلے میں شامل ہیں۔ اس کے بعد طالب علم کے ذہنی میلان کو سامنے رکھ کر میدانِ عمل کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔اُنہوں نے نظام تعلیم کے حوالے سے بدلتے ہوئے تقاضوں کا تعارف کروایا اور کہا کہ ہمیں ان ضروریات کے ساتھ چلنا چاہئے۔ نئے اسالیب اور تجربوں کو اپنی اَناکی بھینٹ چڑھانے کی بجائے خوش دلی سے قبول کرنا چاہئے۔ قرآن وحدیث تو کبھی تبدیل نہیں ہوسکتے لیکن اس کی تعلیم و ترویج کے لئے جونئے نئے تجربات سامنے آرہے ہیں، ان سے انکار بھی کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ ہمیں نصابِ تعلیم، طریقہ تدریس، تربیت ِاساتذہ اور امتحانی طریقہ کار وغیرہ تمام چیزوں کاجائزہ لیتے رہنا چاہئے۔
٭ شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ،فیصل آباد مولانا عبدالعزیز علوی نے بھی سنت وبدعت کے موضو ع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے سنت و بدعت کامفہوم ان کے درمیان فرق اور بدعت کی مروّ جہ صورتوں پر سیر حاصل گفتگو کی اور دلائل سے ان کا ردّ کیا ۔ قرآن کی آیت
﴿وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا﴾ کے مفہوم میں انہوں نے علما کی دوآرا کی وضاحت کی اور کہا کہ تبین الأشیاء بأضدادہا کے اُصول کے تحت بدعت کی تعریف کو سمجھنے کے لیے سنت کے مفہوم کو سامنے رکھناضروری ہے۔
اُنہوں نے بدعت کو دوقسمیں پیش کیں: بدعت ِحقیقی یعنی جس کی کوئی بنیاد شریعت میںنہ ہو اوربدعت ِوضعی یعنی شریعت میں جس کی بنیاد ہونے کا تو دعویٰ کیا جائے لیکن اس کاطریقہ کار اور ہیئت سنت ِنبوی سے ثابت نہ ہو مثلاً اذان سے پہلے درود وسلام کی وضاحت کرتے ہوئے مولاناغلام رسول سعیدی کے حوالہ سے انہوں نے بیان کیا کہ اذان سے پہلے درود وسلام ساتویں صدی کے بعد کی پیداوار ہے۔ انہوں نے تیجہ ، ساتا اور چالیسواں کو بھی بدعت ِوضعی قرار دیا۔ انہوں نے اس رجحان کو تنقید کا نشانہ بنایاکہ ہر کام کو بدعت قرار دے دیاجائے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ بدعات کے عموماً چار ماخذ ہیں :1.جاہلی رسومات2.قیصر وکسریٰ کے اطوار اور طرزِ حکمرانی3.یہود ونصاریٰ اور ہنود کی رسومات وغیرہ
انہوں نے شیخ محمد بہجت مصری کے حوالہ سے جنازہ کے پیچھے اونچی آواز سے قرآن پڑھنا اور قصیدہ بردہ پڑھناوغیرہ کومکروہ اور بدعت قراردیا۔
٭اس کے بعد جامعہ اہلحدیث،لاہوراورمجلہ تنظیم اہلحدیث کے مدیر منتظم حافظ عبد الوہاب روپڑی کو دعوتِ خطاب دی گئی۔ آپ نے سلفی تحریک کی حقیقت اور اس کی تاریخ کا اختصار کے ساتھ تذکرہ کیا اور بیان کیا کہ اس فکر کے حاملین نے کس طرح محنت اورجانفشانی سے اپنے مشن کو آگے بڑھایا۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نیکہا کہ حافظ عبد اللہ محدث روپڑی اور مولانا ثناء اللہ امرتسری کے درمیان فکری اختلاف تو تھا لیکن وہ ایک دوسرے کی خوبیوں کے معترف بھی تھے انہوں نے اس الزام کو غلط قرار دیاکہ محدث روپڑی نے مولانا ثناء اللہ امرتسری ؒکو(نعوذ باللہ )کافرکہا ہے ۔
٭مولانا عبد الستار حمادصاحب نے 'بیمہ کی شرعی حیثیت' پر گفتگو کرتے ہوئے بیمہ کا مفہوم واضح کیا اور اس کی صورتیں اور اقسام بیان کیں اوربیمہ کے مجوزین کے دلائل کا تجزیہ کرتے ہوئے ان کا بطلان واضح کیا اور یہ ثابت کیا کہ بیمہ متعدد اعتبارات سے حرام ہے۔
اوّل یہ کہ اس کی بنیاد دھوکہ پر ہے اور وہ بھی چار قسم کا؛ وجود میں دھوکہ، حصول میں دھوکہ، مقدارمیں دھوکہ اور مدت میں دھوکہ ،جبکہ شریعت نے مطلقاً دھوکہ کو حرام قرار دیا ہے۔اس کے علاوہ جوا،ربا الفضل اور ربا النسیئۃ ،اسلام کے قانونِ وراثت سے تصادم،ظلم اور گناہ کے اُمور پر تعاون اس میں پایا جاتا ہے، لہٰذا اس کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ اس کے ضمن میں انہوں نے بیمہ کی ان صورتوں کے جواز پر سیرحاصل بحث کی جن سے مقصود کاروبار نہیں بلکہ محض خدمت ِخلق ہو جیسا کہ حکومت یا بعض انجمنیں کرتی ہیں اور انہوں نے طلبا کو نصیحت کی کہ وہ ان جدید مسائل کا حل کرنے کے لیے اپنے مطالعہ میں وسعت پیداکریں۔
٭ دوپہر کے بعد طعام اور آرام کا وقفہ تھا۔ عصر کے متصل بعد جماعۃ الدعوۃ پاکستان کے مرکزی دفاتر کی زیارت کا پروگرام تھا جس کے لئے طلبہ کو سب سے پہلے ننگل ساہداں، مریدکے میں لے جا کر جامعہ الدعوۃ الاسلامیہ کے علاوہ عسکری سرگرمیوں کا تعارف کرایا گیا۔ مغرب کے بعد مرکزی مسجد میں حافظ عبد السلام بھٹوی کا خطاب ہوا۔ واپسی پر لاہو ر میں مرکز قادسیہ، چوبرجی میں طلبہ کو لایا گیا، جہاں لائبریری کے مختصر تعارف کے بعد عشائیہ ہوا۔ رات گئے طلبہ اپنی قیام گاہ جامعہ لاہور الاسلامیہ ، نیوگارڈن ٹائون،لاہور میں پہنچ گئے۔
پانچوان دن [۴؍ اگست، بروز بدھ ]ورکشاپ کا پانچواں روزعلمی مذاکرہ کے لئے مخصوص تھا جس میں نامور اہل علم کو دعوت دی گئی تھی۔مذاکرہ کا موضوع 'حدیث وسنت اور متجددین کے شبہات'تھاجس کی صدارت جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن کے مہتمم مولانا عبدالقادر ندوی نے کی جبکہ سٹیج سیکرٹری کے فرائض پروفیسر عبدالجبار شاکرنے انجام دیے۔مدعو علماء کرام میں مولاناارشاد الحق اثری فیصل آباد، ڈاکٹر عبدالرؤف ظفر (ڈائریکٹر سیرت چیئر،بہاولپور یونیورسٹی)، مولانا حافظ عبدالرحمن مدنی، مولانا حافظ صلاح الدین یوسف، شیخ الحدیث مولانا عبدالرشید ہزاروی، مولانا عبدالرشید حجازی اور مولانانصر اللہ استاد جامعہ تعلیم الاسلام، ماموں کانجن شامل تھے۔
٭ صبح ۸ بجے سیشن کا آغاز پروفیسرعبدالجبار شاکر کی مفصل تقریر سے ہوا، جس میں اُنہوں نے 'انکار ِحدیث کی مختصر تاریخ' بیان کرتے ہوئے حدیث کی حجیت کو واضح کیا اور کہا کہ قرآن اگر قانون ہے تو حدیث اس کے نفاذ کا نام ہے۔ قرآن کے ساتھ اگر حدیث کو لازم نہ پکڑا گیا تو قرآن بازیچہ اطفال بن جائے گا۔ حدیث کی اتباع کی بیسیوں آیات قرآن میں موجود ہیں۔اُنہو ں نے واضح کیا کہ حدیث بذاتِ خود وحی ہے، اب اس وحی کو مشکوک بنانے کی جسارت ہورہی ہے۔ حدیث پرپہلا حملہ عباسیوں کے دورمیں ہوا۔ اس کے توڑ کے لئے محدثین نے ایک مستقل فن کی بنیاد رکھی۔ اس کی حفاظت کے لئے پانچ لاکھ افراد کے حالاتِ زندگی کا محفوظ ہونا ایسا کارنامہ ہے کہ تاریخ نے آج تک اس کی مثال پیش نہیں کی ۔
اُنہوں نے کہا کہ آج غیر مسلم مسلمانوں کے خلاف متحد ہیں۔ وہ جان چکے ہیں کہ مسلمانوں کی سیاسی اور جہادی قوت کامقابلہ کرنا ان کے بس کی بات نہیں ہے تو انہوں نے سازشوں کا سہارا لیا۔ ایک طرف انہوں نے منصب ِ خلافت کو ختم کرکے مسلمانوں کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کردیا، دوسری طرف انہی کی صفوں میں سے ایسے نام نہاد دانشور تلاش کئے جو ان میں انتشار پیدا کریں جس کے لئے انہوں نے 'انکارِ حدیث' کا سہارا لیا ہے۔ ہمیں ان کی ان سازشوں کو سمجھنا ہوگا اور ان کا مقابلہ کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
٭اس کے بعدبہاولپوریونیورسٹی سیرت چیئرکے ڈائریکٹرپروفیسر ڈاکٹر عبدالرؤف ظفر صاحب کو دعوت دی گئی ۔ ان کا موضوع 'مولانا امین احسن اصلاحی کا نظریۂ حدیث' تھا۔ حدیث ِرسول ﷺ نضراﷲ امرئً سمع مقالتی...سے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آدمی جس سے محبت کرنا ہے، ہر طرح سے اس کا اظہار کرتا ہے اور یہ اظہار علمی، عملی اور عقیدت؛ کسی بھی لحاظ سے ہوسکتا ہے۔مولانا اصلاحی کے استخفافِ حدیث کے نظریہ کا پس منظر بیان کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ برصغیر میں اتباع حدیث کی بجائے فقہی جمود کا دور دورہ تھا ۔ فقہ حنفی اس لئے زیادہ پھیلی ہے کہ اس کو ہمیشہ حکومت کی تائید حاصل رہی ہے۔ فتاویٰ عالمگیری کے لکھنے میں۵۰۰ حنفی علما شریک تھے۔انہوں نے بیان کیا کہ شاہ ولی اللہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے برصغیر میں فقہی اورتقلیدی جمود کو توڑا اور حدیث کی درس و تدریس کاآغاز کیا۔ ہمیں اس سلسلہ کو آگے بڑھانا ہے اور اس کی حفاظت کیلئے کوشش کرنا ہمارا فرض ہے۔
٭ معروف محقق مولانا ارشاد الحق اثری صاحب نے اس کے بعد 'مرزا قادیانی اور انکار حدیث' کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ہر مقرر کو نصف گھنٹہ کا وقت دیا گیا تھا۔ انکارِ حدیث کے ارتقا کا اختصار سے ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چودہویں صدی سے قبل جزوی طور پر تو حدیث کا انکار ہوتا رہا ہے، معتزلہ نے اللہ کے اسماء و صفات سے متعلق احادیث کا انکار کیا،بعض متعصب روافض نے فضائل صحابہ کے بارے میں ہزار کے لگ بھگ روایات کا انکار کیا، بعض متعصب اہل رائے نے غیر فقیہ صحابی کی روایات کوماننے سے انکار کیا لیکن کسی نے کلیتاًحدیث کا انکار نہیں کیا۔چودھویں صدی میںبرصغیر میں عبداللہ چکڑالوی اور اس کی معنوی اولاد کو اسلامی تاریخ میں حدیث ِرسول کا کلیتاًانکار کرنے کا 'اعزاز' حاصل ہوا۔
مرزا قادیانی نے حدیث کے بارے میں خود کسوٹی ہونے کا دعویٰ کیا اور صحت وضعف کے بارے میں بھی ' متنبی'کی اتھارٹی تسلیم کرانے کی کوشش کی۔
٭ اس موقع پر جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن کے استاذ حافظ نصر اللہ صاحب کو 'تفسیر میں انکارِ حدیث' کے موضوع پر دعوتِ خطاب دی گئی ۔ انہوں نے اپنے خطاب میں مولانا ابو الکلام آزاد کے علاوہ مولانا مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی کی بعض تفسیری آرا پر تنقید کی۔ ان کے خطاب میں جارحیت کا عنصر خاصا نمایاں تھا۔ انہوں نے برصغیر میں انکارِ حدیث کے مختلف مکاتب ِفکر کا تذکرہ کرتے ہوئے ان سے خبر دار رہنے پر زور دیا۔
٭ مدیر جامعہ لاہور الاسلامیہ حافظ عبدالرحمن مدنی صاحب نے سنت کی تعریف کرتے ہوئے بتایاکہ سنت کے بارے میں لوگو ں نے افراط و تفریط سے کام لیا ہے۔متاخرین اہل سنت نے خلفاے راشدین کی سنت کو سنت ِرسول ؐ کا لاحقہ بنایا اور شیعہ نے اہل بیت کی زندگی کو بھی سنت میں شامل کر دیا ہے۔حالانکہ اگر سنت وحی ہے تو رسول ؐ کے بعد تو وحی نبوت کا سلسلہ بند ہو چکا۔دوسری طرف تفریط یہ ہے کہ بعض لوگوں نے سنت کا دائرہ بہت محدود کر دیااور سنت کی من مانی تعریفیں کر کے حدیث ِرسول ؐ کا بیشتر حصہ سنت سے خارج کرنے کی کوششیں کیں۔دراصل یہ بھی اسوۂ رسولؐ سے جان چھڑانے کے حربے ہیں حالانکہ سنت رسول اللہ1کی پوری زندگی کانام ہے جیسا کہ امام شافعی ؒنے 'الرسالہ' میں اس کی وضاحت کی ہے اس میںاگر کہیں دین ودنیا کی تقسیم ہے تو وہ بھی حدیث ِرسول سے ہی معلوم ہو گی ۔
انہوں نے فرمایاکہ سنت کے بارے میں سر سید، غلام احمد پرویزہوں یا عبداللہ چکڑالوی، احمد دین، چراغ علی(نام نہاد اہل قرآن) کا نظریۂ انکار سنت تو واضح ہے ،لیکن دبستانِ شبلی کے پروردہ امین احسن اصلاحی اور جاوید غامدی نے مسلمہ اصطلاحات کی نئی تعریفیں وضع کرنا شروع کردیں جس سے غامدی گروپ کامقصود مغربی تہذیب کے چوردروازوں کو کھولنا ہے۔ اسی لئے اس حلقہ کی طرف سے اب مجسمہ سازی، تصویر اور ناچ گانیکے مرغوب عمل ہونے کے فتوے آرہے ہیں۔ ان کے منحرف خیالات سے اہل علم کو آگاہی حاصل کرنا چاہئے تاکہ ان کی مناسب انداز میں تردید کرکے دین حق کی حفاظت کی جاسکے۔
٭ مذاکرے کے چھٹے مقرر مولانا صلاح الدین یوسف صاحب نے حدیث کے حجیت پر ایک تفصیلی خطاب کیا۔ انہوں نے واضح کیاکہ حفاظت ِقرآن میں حفاظت ِحدیث بھی شامل ہے۔قرآن کریم ہی کی طرح حدیث کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ نے تکوینی انتظام فرمایا ہے۔اس کے لئے محدثین نے جو محنت کی ہے، یہ صرف اللہ کی مدد کے ساتھ ہی ممکن ہے۔ وگرنہ یہ انسانی قوت سے بڑا کام نظر آتا ہے۔انہوں نے کہا کہ حدیث کو سبوتاژ کرنے کے لئے صرف دشمن ہی نہیں بلکہ اپنے بھی اس کام میں شریک ہیں۔بظاہر حدیث کا کلیتاً انکار توکوئی نہیں کرتا، لیکن تمام ہی اپنے تحفظات اور مفادات کا شکار ہیں جس کا مقصد یہ ہے کہ حدیث رسول ؐوحی الٰہی نہ ہونے کی بنا پر امت کے لیے اسوہ نہ رہے۔
شیخ الحدیث مولانا انور شاہ کشمیری نے مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کی زبانی آخر عمر میں اس بات کا اعتراف کیا کہ ہم ساری زندگی حدیث کو اپنی فقہ1 کے مطابق بنانے کی کوشش میں لگے رہے۔ اس کام کے لئے مختلف اُصول وضع کئے گئے جن کا مقصد یہ تھا کہ مطلب کی احادیث کو لے کر باقی کو چھوڑ دیا جائے۔مولانا کشمیری نے اس روش کو اسلام سے انحراف قرا ردیا۔
مولانا صلاح الدین یوسف نے قرار دیاکہ اُمت کا اتفاق اسی صورت میں ممکن ہے جب کتاب وسنت کو کسی تحفظ کے بغیر صمیم قلب سے تسلیم کیا جائے۔
٭مولانا عبدالرشید حجازی نے 'فتنہ انکار حدیث کی تاریخ' کے موضوع پر خطاب کیا ۔
٭ آخر میں صدر مجلس مولانا عبدالقادرندوی نے سامعین کے سامنے یہ واضح کیا کہ سلف کا منہج راہِ اعتدال پر قائم تھا۔ انہوں نے طلباکو سلف کے اس منہج پر گامزن ہو کر عملی میدان میں اپنی توانائیاں صرف کرنے کی تلقین کی ۔ انہوں نے کبار مشائخ اور علماپر مشتمل ایک مجلس علمی کے قیام کی تجویز پیش کی ۔
٭مذاکرہ میں شرکت کے لئے کئی فاضل شخصیات تشریف لائی ہوئی تھیں جن میں مولانا حافظ عبد السلام بھٹوی، ڈاکٹر راشد رندھاوا،پروفیسر نصیر الدین ہمایوں (رہنما تنظیم اساتذہ پاکستان)، ڈاکٹر خالد ظفر اللہ اور فیصل آباد میں ایک بڑی لائبریری کے ناظم جناب علی ارشد قابل ذکر ہیں۔ نمازِ ظہر کی وجہ سے ان حضرات کے قیمتی خیالات سے استفادہ نہ کیا جاسکا۔
٭ ظہرانہ سے فراغت حاصل ہوتے ہی ورکشاپ کے تمام طلبہ بیت الحکمت ملتان روڈ کی زیارت کو تشریف لے گئے، جہاں انہیں مختلف گروپوں میں تقسیم کرکے نادر نسخہ جات اور قدیم مخطوطہ جات بالخصوص قرآن کریم کے قدیم نسخوں کا معائنہ کرایا گیا۔
٭عصر کے نماز قریبی مسجد میں ادا کرکے تمام طلبہ کو لاہور کے تفریحی پارک گلشن اقبال میں لے جایا گیا۔اس کے بعد اگلی منزل لاہور میں ادارہ دارالسلام کی زیارت تھی۔ پنجاب سیکرٹریٹ کے پہلو میں دارالسلام کے دفتر میں طلبہ کے اعزاز میں ایک تقریب کا انتظام کیا گیا تھا۔ تقریب سے پروفیسر عبد الجبار شاکر اور حافظ صلاح الدین یوسف کے علاوہ ماہنامہ الاعتصام کے مدیر حافظ عبد الوحید، حافظ محمد اسحق زاہد(کویت) اور حافظ محمدانور نے خطاب کیا۔
چھٹادن [ ۵ اگست، بروز جمعرات ]آج ورکشاپ کا آخری روز تھا۔طلبہ دن رات کے پروگراموں سے تھکن سے چور تھے۔ رات گئے قیام گاہ پر لوٹنے کے بعد صبح سویرے لیکچرہال میں ناشتہ کرکے پہنچنا خصوصی محنت اور منتظمین کی بھاگ دوڑ کے بغیر ممکن نہ تھا۔
٭صبح سویرے تلاوت کے بعد حافظ حسن مدنی نے طلبہ کو میزبان ادارہ جامعہ لاہور الاسلامیہ اور مجلس التحقیق الاسلامی کی سرگرمیوں، شعبہ جات اور کارکردگی کا مختصر تعارف پیش کیا۔ان اداروں کے مقصد قیام، مختصر تاریخ اور اہم علمی ودینی خدمات کے علاوہ مستقبل کے منصوبہ جات کا بھی تذکرہ کیا گیا۔ اس ضمن میں اسلامک انسٹیٹیوٹ اور شعبۂ خواتین کی کارکردگی سے بھی طلبہ کو متعارف کرایا گیا۔یہ تمام معلومات طلبہ کے لئے نہ صرف نئی بلکہ حیران کن بھی تھیں کہ ایک ادارہ کس طرف ہمہ جہت میدانوں میں اسلام کی خدمت کررہا ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں طلبہ ورکشاپ کے لئے محدث کے خصوصی زرتعاون صرف ۵۰ روپے زرسالانہ کا بھی اعلان کیا، جس کے نتیجے میں ۷۰ کے قریب طلبہ نے سال بھر کیلئے محدث کا اجرا کرایا۔
حافظ حسن مدنی نے مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام کمپیوٹر سیکشن کا تعارف پیش کرتے ہوئے دو سال قبل ہونے والی پہلی تربیتی ورکشاپ کی جامع سی ڈی جو تمام لیکچرز، تقریبات، اخباری کوریج، انتظامی فارم اور دفتری وثائق پر مشتمل تھی کا مختصر تعارف کرایا اور حالیہ ورکشاپ کی بھی ایسی ہی جامع سی ڈی بنانے کی شرکا کو اطلاع دی۔ ورکشاپ کے اکثر طلبہ نے دوسال قبل ہونے والی ورکشاپ کی سی ڈی خریدی جس کی قیمت ۵۰ روپے رکھی گئی تھی۔
٭ جمعرات کو صبح کے سیشن میں ۶بجے طلبہ کے مابین تقریری مقابلہ کا انعقاد کیاگیا تھا جس میں مختلف مدارس کے نمائندہ طلبا نے 'عالم اسلام کے مسائل اور ان کا حل' کے موضوع پراپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ مقابلہ میں حصہ لینے والے طلبہ کے نام یہ ہیں:
سعید اقبال (جامعہ تعلیم الاسلام)، محمد ارشد(جامعہ لاہور الاسلامیہ)،حبیب الرحمن (پنجاب یونیورسٹی)، عمران الہٰی ظہیر(جامعۃ الدعوۃ)،جاوید اقبال(دارالعلوم محمدیہ لاہور)، حافظ محمد(مرکز الدعوۃ السلفیہ ستیانہ)، عثمان غنی(اسلامک ایجوکیشنل دیپالپور)،اکرام الحق اثری (جامعہ اہلحدیث لاہور)، حافظ عبدالباری(جامعہ سلفیہ فیصل آباد)،محمد یاسر(دار الحدیث محمدیہ حافظ آباد)،محمد شعیب ضیائ(دار الحدیث اوکاڑہ)،حافظ محمد ایوب(جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ)،امجد شہزاد(جامعہ محمدیہ،اکاڑہ)حافظ عبد العزیز(کلیہ دار القرآن فیصل آباد)، اور سفیان الحق رندھاوا (جامعہ سلفیہ،فیصل آباد)
مقابلے کے بعد اول ، دوم ، سوم آنے والے طلبہ کا اعلان کیاگیا اور ان کے انعامات اختتامی تقریب تک ملتوی کر دیے گئے۔ اس کے بعد محاضرات کا سلسلہ شروع ہوا۔
٭ سب سے پہلے گورنمنٹ کالج سمندری کے صدر شعبۂ اسلامیات پروفیسر خالد ظفر اللہ نے 'اسلام میں حریت ِفکر اور آزادیٔ اظہار' کے موضوع پر لیکچر دیا۔ انہوں نے اسلا م پر اس اعتراض کاشافی جواب دیا کہ اسلام ایک طرف 'لا اکراہ فی الدین' کی تلقین کرتاہے اور دوسری طرف بزورِ قوت اسلام کو نافذ کرتاہے اور مرتد کو قابل گردن زنی قرار دیتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ بالجبر کسی کو اسلام میں داخل کرنا اسلام کی روح کے خلاف ہے۔
انہوں نے دیگر مذاہب پر اسلام کی فوقیت کوثابت کرتے ہوئے یہ وضاحت کی کہ پوری اسلامی تاریخ میں اس کی ایک مثال بھی نہیں ملتی کہ اسلامی حکومت نے کسی کو اسلام میں داخل ہونے پر مجبور کیاہو۔ ذمیوں سے جزیہ وصول کرنا جبر واکراہ کی صورت نہیں بلکہ ایک معمولی سا حفاظتی ٹیکس ہے۔اسلام نہ صرف غیر مسلموں کے ساتھ رواداری کی تلقین کرتا ہے بلکہ قانونی طور پر اس کی تشکیل بندی بھی کرتاہے۔مرتد کی سزا کے حوالہ سے اسلام پر اعتراض کاجواب دیتے ہوئے واضح کیا کہ مرتد کی سزا 'قتل' ہونا درحقیقت اسلام سے ارتداد کی سزا ہے خواہ وہ بغاوت کا مرتکب ہویانہ ہو۔
٭ بعدازاں پروفیسر ڈاکٹر عبد الروف ظفر نے طلبہ کو اعلیٰ تعلیمی اسناد کے حصول اور تحقیق وتصنیف کی طرف متوجہ ہونے کی تلقین کی اور مختلف یونیورسٹیوں میں ان کو اعلیٰ تعلیم میں داخلے کی ضرورت، اہمیت اور طریق کار سے آگاہ کیا۔
٭ مدیر مجلہ 'الشریعہ'گوجرانوالہ اور شیخ الحدیث جامعہ نصرۃ العلوم،گوجرانوالہ مولانا زاہد الراشدی صاحب نے'جہاد اور دہشت گردی' کے موضوع پر اپنے خیالات کو پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ مغرب کا بڑا اعتراض مسلمانوں پر یہ ہے کہ وہ اپنے دین کو اجتماعی امور اور سیاست میں شامل کرتے ہیں۔ لیکن عراق وافغانستان کی جنگ میں خود امریکہ نے اسی اصول کی بنیاد پر کاروائی کرکے مسلمانوں کے موقف پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ افغانستان پر حملہ کا سبب امریکہ نے 'مغربی تمدن کے لئے خطرہ' قرار دیا ہے گویا وہ اپنے تمدن اور افکار ونظریات کے تحفظ کے لئے دوسری دنیا پر جنگ ٹھونس رہا ہے۔
٭ چیئرمین شعبۂ علوم اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی حافظ محمود اخترصاحب نے 'قرآن پر مستشرقین کے اعتراضات' کے حوالے سے گفتگو فرمائی۔ انہوں نے واضح کیا کہ مستشرقین بعض تجدد پسندمسلمانوں کے ذہنوں میں اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہوئے ہیں ، لیکن وہ اسلام اور قرآن کے بارے میں اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکے ۔
٭ ورکشاپ کا آخری خطاب بزرگ شخصیت حافظ محمد یحییٰ عزیز میرمحمدی صاحب مدیر مرکز الاصلاح، بھائی پھیرو کا تھا۔ جنہوں نے' سیرت النبیؐ کی روشنی میں داعی کی صفات' بیان کیں۔ تبلیغ کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے ان صفات کا تذکرہ کیا جوایک داعی اللہ کا طرئہ امتیاز ہوتی ہیں۔ انہوں نے نبیﷺ صحابہ کرام اور سلف کی عزیمت کی مثالوں کا ذکر کیا کہ انہوں نے کس طرح فکر ِمعاش سے آزاد ہو کر بھوک،تنگدستی اور آزمائشوں کو جھیلتے ہوئے لیبلغ الشاہد الغائب کے فریضہ کو ادا کیا۔انہوں نے آج کے واعظین ،محققین کی بعض غلطیوں پر تنقید کرتے ہوئے ہر کام میں اخلاقِ نبویہ کو اپنانے کی تاکید کی کہ اس کے بغیر نہ تفقہ فی الدین ہو سکتا ہے اور نہ دعوتِ نبویؐ کا فریضہ بخوبی ادا ہو سکتا ہے۔
٭ نمازِ ظہر سے گھنٹہ قبلپورے ہفتہ میں مختلف موضوعات پر ہونے والے لیکچرز میں پیش کی جانے والی معلومات کا طلبا سے امتحان لیا گیا ۔ ۲۰ سوالات پر مبنی یہ امتحان معروضی طرز کا تھا جس کے لئے نصف گھنٹہ کا وقت دیا گیا۔آخر میں تمام طلبہ کو جائزہ فارم تقسیم کئے گئے جس میں تفصیلاً مختلف حوالوں سے ورکشاپ کے بارے میں ان سے تجاویز وآراء طلب کی گئیں۔ دوورقی اس فارم کو سند سے قبل انہیں پرکرکے انتظامیہ کے حوالے کرنا تھا۔
تربیتی ورکشاپ کی نمایاں خصوصیات1. حالات حاضرہ کے مطابق اہم موضوعات پر لیکچرز ہوئے
2. ہر لیکچر کے بعد سوال و جواب کی نشست ہوئی
3. لیکچرز کے درمیان مشروبات کا وقفہ رکھا گیا
4. طلبا کے لئے عمدہ قیام و طعام کا انتظام کیا گیا
5. طلبا کے لئے مناسب علمی اور معلوماتی سیر کا اہتمام ہوا
6. باہم مل بیٹھنے سے ایک دوسرے کے خیالات پڑھنے کاموقع ملا
7. مکمل ورکشاپ کی کثیر المقاصد سی ڈی تیار کی گئی
8. طلبا کے لئے ائیر کنڈیشنڈ لیکچر ہال کا انتظام تھا
9. شرکاء ورکشاپ سے ورکشاپ کے آخر میں امتحان لیا گیا اور انہیں اسناد عطا کی گئیں
اختتامی تقریبایک ہفتہ جاری رہنے والی اس اہم علمی و تربیتی ورکشاپ کی پروقار اختتامی تقریب جمعرات کو بعد نمازِ عصر پرنس ہال بالمقابل قذافی سٹیڈیم لاہور میں منعقد ہوئی۔ افتتاحی تقریب کی طرح اس تقریب کے منتظم بھی حافظ حسن مدنی تھے۔تقریب کی صدارت سپریم کورٹ کے سابق جج جناب جسٹس منیر اے شیخ نے کی، جبکہ مہمانِ خصوصی ماہنامہ اردو ڈائجسٹ لاہور کے مدیر انتظامی جناب ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی تھے۔ دیگر مہمانوں میں پروفیسر عبد الرحمن لدھیانوی، ڈائریکٹر تعلیمات کالجزاور پروفیسر مزمل احسن شیخ شامل تھے۔تقریب میں لاہور کی اہم شخصیات کے علاوہ جامعہ کے تمام اساتذہ اور انتظامی ذمہ دار شامل تھے۔
ورکشاپ کے شرکا میں اسناد، انعامات او رمنتظمین کو ہدیہ تشکر وامتنان پیش کرنے کے لئے اس تقریب کا انعقاد کیا گیا، اسی تقریب میں جامعہ لاہور الاسلامیہ کے فضلاکو بھی فاضل مہمانان کے دست مبارک سے اسناد عطا کی گئیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق جج جسٹس(ر) منیر اے شیخ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ملک میں عدالتوں کا وجود ہی کافی نہیں ہے بلکہ ان اداروں سے عوام کوانصاف بھی ملنا چاہیے اور انصاف ہوتا نظر بھی آنا چاہیے ۔اور یہ وصف ترقی پذیر ممالک میں عام طور پر مفقود ہوتا جا رہا ہے ۔ جسٹس(ر) منیر احمد شیخ نے یہ الفاظ مولانا عبد الرحمن مدنی پرنسپل جامعہ لاہور الاسلامیہ کے اس جملے کے جواب میں کہے جس میںانہوں نے سابق وزیراعظم برطانیہ مسٹر چرچل کے حوالے سے عدلیہ کی اہمیت بیان کی تھی۔ جسٹس (ر) منیر اے شیخ نے انٹرنیشنل جوڈیشل اکادمی کے منصوبے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ سعودی اداروں کے تعاون سے ہونے والے یہ دورے جوڈیشل اکادمی کی ریہرسل کے مترادف ہیں۔
یاد رہے کہ جامعہ لاہور الاسلامیہ کے زیر اہتمام یہ دورے عرصہ دراز سے تسلسل سے جاری ہیں۔ اہم ترین ورکشاپوں میں ۱۹۹۵ء میں مدینہ منورہ یونیورسٹی کے تعاون سے ہونے والی ورکشاپ جس میں اعلیٰ عدلیہ کے جج حضرات کے علاوہ سول وسیشن جج حضرات کی بڑی تعداد نے شرکت کی تھی۔ اس ورکشاپ کے متعدد پروگرام جامعہ کے کیمپس کے علاوہ لاہور ہائی کورٹ کے زیر اہتمام بھی منعقد ہوئے تھے۔ ۱۹۹۷ء میں ایسا ہی ایک دورہ سعودی عرب کی عدلیہ تیار کرنے والی یونیورسٹی جامعہ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ کے زیر اہتمام جامعہ میں منعقد ہوا تھا۔جس میں ایک بار پھراعلیٰ عدلیہ سے وابستہ کئی حضرات نے ٹریننگ حاصل کی۔انہی ورکشاپوں میں اسے ایک ورکشاپ ۲۰۰۲ء میں منعقد ہوئی جو سعودی عرب کے ایک اہم رفاہی ادارے کے تعاون سے انعقاد پذیر ہوئی۔ ان پروگراموں میں ملک کے نامور اہل علم کے اہم موضوعات پر خطاب ہوئے جبکہ شرکت کرنے کے لئے بھی ممتاز طلبہ علم کو منتخب کیا جاتا رہا۔
اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اُردوڈائجسٹ کے مدیر اعجاز حسن قریشی نے کہا کہ پاکستان اللہ تبارک وتعالیٰ کا ایک تحفہ ہے اور اس کی تخلیق کا واحد مقصد یہاں اسلامی نظام قائم کرنا ہے۔انہوں نے کہا اسلام مخالف دنیا پاکستان میں اس تجربے کو کامیابی سے روکنے پر کمربستہ ہے۔جامعہ لاہور الاسلامیہ کے مہتمم مولانا عبد الرحمن مدنی نے کہا کہ سعودی عرب کی یونیورسٹیوں اور پاکستانی جامعات کے فضلا کی یہ مشترکہ ورکشاپ ذہنی کشادگی کا سبب بنی ہے اور عالم اسلام کو درپیش چیلنج کوسمجھنے میں مدد گار ثابت ہوئی ہے ۔ ڈاکٹر قاری محمد انور نے کہا کہ ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ کا تعاون اس ورکشاپ کی کامیابی کا ضامن ہے۔ ڈائریکٹر کالجز پنجاب مولانا عبدالرحمن لدھیانوی نے کہا کہ اس تربیتی کورس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اسلامی فقہ کے بہت سے اہم پہلوؤں کو جدید فکر کی روشنی میں اجاگر کیاگیا ہے۔
تقریب کی نظامت معروف قانون دان ظفر علی راجا نے کی۔ آخر میں جامعہ لاہور الاسلامیہ کے مختلف کلیات کے گذشتہ سالوں میں فارغ التحصیل ہونے والے سیکڑوں طلبہ کو سندات اور انعامات مہمانان گرامی کے ہاتھوں دیے گئے۔۴ شعبہ جات کی ۵ صد کے لگ بھگ سندات میں ابتدائی ۱۰ طلبہ کو خود سندات تقسیم کرنے کے بعد متعلقہ شعبہ کے انچارج کے حوالے باقی سندات کی جاتی رہیں تاکہ وہ دفتر میں ان کی مناسب تقسیم کا فوری انتظام کرسکیں۔
مغرب سے کچھ وقت قبل ورکشاپ کے امتیازی نمبرلینے والے طلبہ بالخصوص سعودی جامعات سے شرکت کرنے والے طلبہ کو اسناد اور تحائف دیے گئے، تقریری مقابلہ میں پوزیشن حاصل کرنے والوں کو نقدی انعامات دیے گئے۔
وقت کی قلت کے پیش نظرباقی پروگرام نماز مغرب کے بعد مجلس التحقیق الاسلامی کے ہال نمبر ا میں مکمل ہوا۔ جہاں تمام جامعات کے طلبہ کو فردا ًفرداً سند حاصل کرنے کے لئے بلایا جاتا، ہر طالبعلم کو ایک قیمتی بیگ کے علاوہ نادر کتب کے تحفے دیے گئے۔ ان تحائف میں ماہنامہ محدث کے تازہ شماروں کے علاوہ ، اردو ڈائجسٹ اور ماہنامہ کوثر کے تازہ شمارے بھی شامل تھے۔ اردو ڈائجسٹ نے بھی ورکشاپ کے طلبہ کے لئے رعایتی زرسالانہ کا اعلان کررکھا تھا۔ کتب کے تحائف میں پروفیسر مزمل احسن شیخ صاحب اور سعودی دعوتی اداروں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
ورکشاپ آخری لمحات پر تھی کہ ناظم ورکشاپ حافظ محمد انور صاحب نے تقریب کے انتظام میں سرگرم میزبان جامعہ کے اساتذہ اور عملہ کو ہدیۂ تشکر کے طورپر دعوت دی اور ۲۵ کے قریب اساتذہ کی خدمت میں ہدیۂ شکر وامتنان کے علاوہ مالی انعامات بھی پیش کئے گئے۔ورکشاپ کے حسن انتظام کو محسوس کرتے ہوئے جامعہ کے مدیر حافظ عبد الرحمن مدنی نے ان تمام اساتذہ وعملہ کو مزید ایک ایک ہزار روپے بطور انعام دینے کا اعلان کیا جس میں بطور خاص مبلغ ۵ ہزار روپے کا رمزی انعام جامعہ لاہور الاسلامیہ کے قابل فخر فرزند اور ورکشاپ کے ناظم حافظ محمد انورکے لئے تھا۔گویا مادرِ علمی کی طرف سے یہ ان کی خدمات کا ایک اعتراف تھا۔
اس موقع پر اختتامی کلمات میں محترم مدیر الجامعہ نے حافظ محمد انور صاحب کو ان ورکشاپوں کی نیک روایت کا آغاز کرنے پر خصوصی مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ حافظ انور کے خلوص کا مظہر یہ ورکشاپیں ان کا ایسا کارنامہ ہے جسے ان کے دیکھتے دیکھتے چند سالوں میں قبول عام حاصل ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ ورکشاپ سے چند روز پہلے شروع ہوکر ۳ ہفتے جاری رہنے والی ایک ورکشاپ جامعہ امام بخاری میں جامعہ لاہور الاسلامیہ کے استاذ اورسابق ناظم مولانا محمد شفیق مدنی کروا رہے ہیں۔ ایسی ہی ایک ورکشاپ گوجرانوالہ میں جمعیت احیا ء التراث الاسلامی کے تعاون سے ۷۰ کے قریب دعاۃ وخطبا کے لئے حافظ محمد اسحق زاہد کے زیر نگرانی ہورہی ہے۔ الحمد للہ یہ امر میرے لئے باعث ِصد مسرت ہے کہ ان تمام ورکشاپوں کے روح رواں جامعہ لاہو رالاسلامیہ کے فاضلین اور ان کے منتسبین ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان دینی مشنوں کو کامیابی سے ہمکنار فرمائے او راس عظیم مادرِ علمی جامعہ لاہو رالاسلامیہ کو اُمت ِاسلامیہ میں علم کے فروغ کے لئے ہمیشہ قائم ودائم رکھے ۔
انہی نیک مبارک جذبات اور دعائیہ کلمات پر اس ورکشاپ کا خاتمہ ہوا اور عشاء کی نماز پڑھ کر تمام طلبہ اپنے اپنے مستقر کی طرف واپس لوٹ گئے۔
٭ورکشاپ میں جن حضرات کو دعوتِ خطاب دی گئی لیکن مصروفیت یا دیگر وجوہات کے سبب وہ لیکچر نہ دے سکے، البتہ ورکشاپ کے دوران تشریف لاتے رہے، ان میں جماعۃ الدعوۃ پاکستان کے نائب امیر حافظ عبد السلام بھٹوی، جامعہ لاہور الاسلامیہ کے شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی، معروف دانشوراور صاحب ِقلم محمد عطاء اللہ صدیقی، پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ علومِ شرقیہ کے ڈین فاضل شخصیت پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری، شعبۂ اسلامیات کے پروفیسرڈاکٹر حمید اللہ عبد القادر، پروفیسر ڈاکٹر عبد اللہ صالح وغیرہ شامل ہیں۔
٭پروگرام میں متعدد بار کئی بار حاضری دینے والی نامور شخصیات میں مولانا محمد اسحق بھٹی، پروفیسر عبد الجبار شاکر، ڈاکٹر راشد رندھاوا، پروفیسر ڈاکٹر عبد الرء وف ظفراورپروفیسر مزمل احسن شیخ شامل ہیں۔
٭ ورکشاپ میں بعض طلبہ نے اہم انتظامی کارکردگی کا بھی مظاہرہ کیا جن میں جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ کے حفیظ الرحمن سندھو، مدینہ یونیورسٹی کے اتحاد الطلبۃ السلفیین کے امیر محمد یحییٰ، جامعہ ام القریٰ کے ہی محمد امین شاہد، اور جامعہ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ کے عبد المنان پاشا شامل ہیں۔ دیگر طلبہ میں شکیل امجد،حافظ امیر حمزہ، طلحہ طارق(جامعہ امام)، عبدالروف ، نبیل احمد( جامعہ امّ القریٰ)، محمد اسحق، عثمان یوسف اور حافظ عبد اللہ (مدینہ یونیورسٹی) نے بھی نمایاں کارکردگی کا مظاہر ہ کیا۔
٭ ورکشاپ کی خبریں روزنامہ اخبارات میں ہرروز شائع ہوتی رہیں، ہفتہ بھر کی اس ورکشاپ کی ۳۵ کے قریب خبریں اخبارات میں اشاعت پذیر ہوئیں۔جن کی تفصیلات اور نقول تیار شدہ سی ڈی میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔شائقین ۵۰ روپے کے عوض دفتر محدث سے یہ سی ڈی حاصل کرسکتے ہیں جس میں تمام خطابات کی ریکارڈنگ کے علاوہ جملہ انتظامات اور سرگرمیوں کی تفصیلات موجود ہیں۔