دینی مدارس میں تحقیق و صحافت کاجائزہ
چند سالوں سے برصغیر کے دینی مدارس مغرب کا شدید ہدفِ تنقیدہیں۔ امریکی پالیسی کے مطابق اُنہیں سب سے زیادہ خطرہ مدارسِ دینیہ کے پروردہ مسلمانوں سے ہے۔ مدارس کی اہمیت، استعدادِ کار میں اضافے، معاشرے میں نمو اور اثر پذیری نیز ماضی وحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے مستقبل کی لائحہ بندی کے لئے اسلام آباد کے معروف ادارے'انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز' IPS نے ملک کے اہم شہروں میں دینی مدارس پر مختلف سیمینارز کاایک سلسلہ چند ماہ سے شروع کررکھا ہے جس کے ذریعے نہ صرف اہل علم کو مدارس کی صورتِ حال اور کارکردگی سے متعارف کرانے بلکہ مدارس میں اصلاحِ احوال کی موزوں اور مثبت تجاویز سامنے لانے کا نیک مقصد پیش نظر ہے۔
اسی سلسلے کا تیسرا سیمینار ۲۱؍ جولائی ۲۰۰۴ء کو پنجاب یونیورسٹی میں شیخ زاید اسلامک سنٹر کے تعاون سے سنٹر کی لائبریری میں راؤنڈ ٹیبل پرمنعقد ہوا۔صبح ۱۰ تا ۳بجے عصر تک جاری رہنے والے اس سیمینار میں ڈاکٹر محمد رفیق سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی کی زیر صدارت پہلا سیشن، جبکہ پروفیسر ڈاکٹر اکرم چوہدری ڈین آف اورینٹل سائنسز کی زیر صدارت دوسرا سیشن ہوا۔ ممتاز ماہرین تعلیم، شعبۂ اردو ،ابلاغیات اور اسلامیات کے پروفیسرز، یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلرز اور جید علما اس راؤنڈ ٹیبل سیمینارمیں شریک ہوئے۔ نمائندہ علما اور ممتاز دانشوروں نے زیر بحث موضوع پر اپنے خطابات پیش کیے۔سیمینار کی دیگر تفصیلات سے صرف ِ نظر کرتے ہوئے زیر نظر سطور میں مدیر محدث کا اضافہ ونظر ثانی شدہ خطاب ملاحظہ فرمائیے:
سب سے پہلے تو مجوزہ موضوع کے بارے میں چند گذارشات پیش خدمت ہیں ...
تحقیق و صحافت دونوں کے دائرہ کار اور تقاضے جداگانہ ہیں۔ صحافت جو ابلاغ کا اہم ترین ذریعہ ہے کا بنیادی اُصول سادہ ترین الفاظ میں عوام الناس تک اپنی بات پہنچانا ہے جس میں قاری کی دلچسپی کا عنصر بطورخاص ملحوظِ نظر رکھنا پڑتا ہے جبکہ فن تحقیق سنجیدہ، علمی اُسلوب اور معروف نظام کے تحت حقائق تک پہنچنے کی کوشش کانام ہے۔ اس لحاظ سے تحقیق کے ساتھ تصنیف وتالیف کو تو زیر بحث لایا جاسکتا ہے جیسا کہ مختلف دینی اداروں میں شعبہ ہائے تحقیق وتصنیف کام بھی کررہے ہیں، لیکن تحقیق و صحافت کی ترکیب موزوں نہیں ہے۔
جدید استعمار نے فکری کوششوں سے بڑھ کراپنے ابلاغی تسلط کے ذریعے عام پڑھے لکھے لوگوں میں یہ تاثر قائم کرنے کی بڑی کوشش کی ہے کہ دینی مدارس کو علم و تحقیق سے کیا واسطہ بلکہ دینی حلقوں کو وہ اس انداز سے پیش کرتا ہے کہ یہاں صرف تعصب اور فرقہ واریت کا دور دورہ ہے گویا ایسی فضا میں علم و تحقیق پروان ہی نہیں چڑھ سکتی۔ مدارس کے بارے میں یہ عام تصور غیروں کا پیدا کردہ ہے جس کی وضاحت کے لئے ہماری گزارشات حسب ِذیل ہیں:
مسلمانوں کا روایتی نظامِ تعلیم ؛ دینی مدارس
بلاشبہ دینی مدارس مسلمانوں کے اس تاریخی اورروایتی نظام تعلیم کا تسلسل ہیں جس سے مسلمانوں کی درخشندہ علمی روایات وابستہ ہیں۔ مدرسہ نظامیہ بغدادیہ (قیام۴۵۹ھ؍۱۰۶۶ء ؛ جسے معروف مؤرخ فلپ ہٹی نے 'عظیم اسلامی یونیورسٹی' قرار دیا ہے) سے باضابطہ 'درس گاہ' کی شکل میں یہ نظامِ تعلیم جاری ہوا اور اس کو مروّج ہوئے کم وبیش ۹ صدیاں ہوچلی ہیں۔
مدرسہ نظامیہ پہلا ایسا مستقل مدرسہ ہے جو خالصتاً تعلیم کے فروغ کی غرض سے ادارہ جاتی سطح پر قائم کیا گیا، اس سے قبل قائم ہونی والی درسگاہیں زیادہ ترمساجد کے ساتھ ہوتی تھیں جن میں درسگاہ مسجد نبویؐ (اھ)، مسجد ِکوفہ (۱۷ھ)،جامع عمرو بن العاص قاہرہ(۲۰ھ)،جامع منصور بغداد (۱۴۵ھ) اور جامعہ قرویین مراکش(۲۴۵ھ) وغیرہ بطورِ خاص نمایاں ہیں۔
مصر، بغداد، دمشق کے علاوہ قرطبہ وغرناطہ میں یہی نظامِ تعلیم مسلمانوں میں رائج رہا جوبعد ازاں مشرقی پھیلاؤ سے وسط ِایشیا پھر غور، غزنی اور خراسان کے راستے لاہور، دہلی، آگرہ، لکھنؤ اور اجمیر میں بھی پہنچا۔ برصغیر پاک وہند کے قدیم نظامِ تعلیم کی تحقیق پیش کرتے ہوئے مولانا عبدالحئی ؒ(والد مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی ؒ)نے ۱۹۰۹ء میں مجلہ 'الندوۃ ' میں اور اس سے کچھ عرصے بعد مولانا ابوالحسنات ندوی نے اس نظامِ تعلیم کے تاریخی خدوخال کو تحقیقی اُسلوب میں پیش کیا، جس کی رو سے انہوں نے برصغیر کے نظامِ تعلیم کو چار اور پانچ ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ واضح رہے کہ اسی نظامِ تعلیم کے تحت اندلس کی درس گاہوں میں شریعت وزبان کے علوم کے علاوہ کیمیا، فلکیات، ہندسہ، طب، نباتیات، حیوانیات، فلکیات اور فلسفہ و منطق (سائنسی علوم) کی تعلیم بھی دی جاتی تھی جبکہ ہندوستان کے نصابِ تعلیم کے تیسرے دور میں (جو ۱۵۸۳ء سے شروع ہوتا ہے؛ دورِ اکبری) درسِ نظامی میں ہی علم طب، علم ہیئت اور علم ریاضی جیسے سائنسی علوم کا بھی اضافہ کیا گیا۔ انہی علوم میں سے موجودہ دینی مدارس میں آج بھی علم ہیئت کی کتاب شرح چغمینی (فلکیات) اور علم ہندسہ (اقلیدس) درسِ نظامی میں شامل نصاب ہے۔
مسلمانوں کے نظامِ تعلیم کی اس مختصر تاریخ پیش کرنے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ شریعت کے ساتھ ساتھ سماجی، سائنسی اور لسانی علوم کا جامع امتزاجی نصاب ہمیشہ سے مسلمانوں میں رائج رہا ہے جو ان کے علمی افتخار و اعزاز کا باعث بھی بنا، لیکن لارڈ میکالے کے استعماری تصورِ علم اور نصابِ تعلیم کو ۱۸۳۵ء میں لاگو کرنے کے بعد اس جامع روایتی نظامِ تعلیم کو نہ صرف کلی طور پر نظر انداز کیا گیا بلکہ اسے پامال کرنے کے لیے ۱۸۳۸ء میں اس کا اہم ترین ذریعہ آمدن٭ مسلم اوقاف بھی برطانوی استعمار نے بحق سرکار ضبط کرلیے اور ان مدارس سے ادنیٰ تعلق ہی برطانوی سرکار کے ہاں بغاوت کا مجرم ہونے کا کافی ثبوت سمجھا جانے لگا۔
فرنگی حکومت کے مدارس کے خلاف اس متعصبانہ پروپیگنڈے کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ آج جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے ہاں اُس نظامِ تعلیم کا کوئی قابل ذکر مقام نہیں ہے جو مسلمانوں کا ہمیشہ سے اصل نظامِ تعلیم رہا ہے۔٭ بلکہ ہر دم یہ مدارس اور اس سے وابستہ طلبا اور علما جدید حلقوں کے سوقیانہ اعتراضات اور الزامات کی زد میں رہتے ہیں۔
تعلیمی ادارے اورتحقیق وتالیف
کسی تعلیمی ادارے کے ساتھ جب تحقیق کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یاتو یہ ہوسکتا ہے کہ ا س ادارے سے وابستہ اور فیض یافتہ اہل علم نے تحقیق کے میدان میں کیا کارنامے انجام دیے ہیں۔ اس مفہوم کے مطابق دینی مدارس کے فضلااور فیض یافتہ طلبہ کئیعصری یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تحقیقی کام کرچکے ہیں اور اب بھی کررہے ہیں، اکثر جامعات میں اسلامی شعبوں میں کام کرنے والے حضرات کا تعلق کسی نہ کسی واسطے مدارس سے رہا ہے۔
ایسے ہی مدارس کے ان فضلا نے بعد از فراغت میدانِ تحقیق میں مختلف موضوعات پر دادِ تحقیق دی ہے اور موجود ہ دینی لٹریچر زیادہ ترانہی کی کاوشوں کا مرہونِ منت ہے۔
لیکن تحقیق کا یہ تصورغالباً اس وقت زیر بحث نہیں۔ ہمارے پیش نظر اس وقت تحقیق کا وہ سفر ہے جو تعلیمی ادارہ کے اندر رہتے ہوئے دورانِ طالب علمی اپنے اساتذہ کی نگرانی میں طے کیا جاتا ہے۔اس نظام کی رو سے تعلیم کی اعلیٰ ترین ڈگری تحقیق کی بنیاد پر دی جاتی ہے۔
'تحقیق اور اُصول تحقیق' پر پاکستانی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جانے والی کتاب کے مصنف ڈاکٹر گیان سنگھ کے بقول :
''تحقیق کی دو قسمیں کی جاسکتی ہیں جو کسی بھی علم وفن کے لئے درست ہیں: سندی او رغیر سندی تحقیق ... سندی تحقیق کی پہلی ڈگری پی ایچ ڈی ہے جو آکسفورڈ ،الٰہ آباد اور بعض دوسری یونیورسٹیوں میں ڈی فل بھی کہلاتی ہے، اس سے آگے کی ڈگری انسانیات اور سوشل سائنسز میں ڈی لٹ( ڈاکٹر آف لٹریچر) ہے اور سائنس میں ڈی ایس سی کاچلن پی ایچ ڈی کے بعد ہوا ہے۔امریکی یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کے اوپرکوئی ریسرچ ڈگری نہیں ہوتی ۔ دلی اور مسلم یونیورسٹی میں بھی یہ چند برسوں سے رائج ہوئی ہے۔ ہندوستان میں اب بھی کئی یونیورسٹیوں مثلاً عثمانیہ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دِلّی اور مرکزی یونیورسٹی حیدر آباد میں یہ ڈگری نہیں ہے۔ ایم اے او رپی ایچ ڈی کے بیچ ایک ڈگری ایم فل کے نام سے وضع کی گئی ہے۔'' (ص ۱۴،۱۵)
یہ تمام اعلیٰ تحقیقی ڈگریاںدراصل 'تخلیق علم'کی بنیاد پرہوتی ہیں۔ دوسری طرف ان یونیورسٹیوں میں اساتذہ کو تحقیقی مقالات لکھنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اوران کی ترقی اس سے مشروط ہوتی ہے۔جدید یونیورسٹیوں نے علم و تحقیق کے مادّی تصور کے بموجب ان علمی وتحقیقی کاوشوں پر مالی ترغیبات او روظائف بھی مقرر کررکھے ہیں۔
جدید یونیورسٹیوں کے بنیادی مقاصد میں اب 'حدود علم کی توسیع اور غیر موجود حقائق کی دریافت 'بھی شامل ہے جس کا ایک باقاعدہ نظام یہاں تشکیل دیا گیا ہے۔ اس اعتبار سے سب سے پہلے اس سوال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کسی تعلیمی ادارے کے بنیادی وظیفہ 'تعلیم' کے بعد کیا تحقیق اور تصنیف وتالیف کو بھی اس کے مقاصد میں شامل کیا جائے اور تحقیق کو اس قدر اہمیت دی جائے کہ اس کی بنیاد پر تعلیم کی آخری ڈگری عطا کی جائے۔ مزید برآںیہ تصور کیا دینی تعلیمی اداروں میں بھی پایا جاتا ہے ؟
اگرچہ یہ سوال جدید یونیورسٹیوں کا قائم کردہ ہے اور انہوں نے اپنے مقاصد میں تحقیق وتصنیف کو شامل کرکے نہ صرف اس کے لئے ایک باقاعدہ نظام وضع کیاہے بلکہ اس کے لئے ایک مستقل فن تحقیق بھی تشکیل دے رکھا ہے جس کی رو سے پروفیسرز، ایسوسی ایٹ پروفیسر، اسسٹنٹ پروفیسراور لیکچرر جیسے تعلیمی کیڈر قائم کرنے کے بالمقابل پروفیسر،ریڈر اور ریسرچ سکالروغیرہ کے مختلف مدارج بھی تحقیق وتصنیف کے میدان میںمتعارف کرائے گئے۔ لیکن مسلم تعلیمی اداروںمیں تعلیم کے اعلیٰ مراحل کو اس انداز کی تحقیق سے وابستہ نہیں کیا گیا بلکہ ان کے ہاں تحقیق وتصنیف کا اپنا علیحدہ اُسلوب اور نظام ہے جس کامرحلہ حصولِ تعلیم کے بعد مستقل فن تالیف کی صورت میں سامنے آتا ہے۔۷۲۰ھ میں ہلاکو خاں کے وزیر اعظم معروف محقق او رعلامہ خواجہ نصیر الدین طوسی نے تعلیم اور تصنیف میںحسب ِذیل توازن قرار دیا تھا کہتعلیم وتعلّم سے وابستہ لوگو ں کو
۲۵ سال کی عمر تک صرف تحصیل علم میں مشغول رہنا چاہئے۔
۲۵ سے ۴۰ سال تدریس میں صرف کرنا چاہئیں۔
۴۰ سے ۵۰ سال تک تصنیفی کام بھی شروع کردینا چاہئے۔
۵۰ سے ۶۰ سال تک تمام اوقات تصنیف وتحقیق میں صرف کرنا چاہئے۔
اس اعتبار سے طلبہ سے تحقیق کرانے کا یہ تصور جدید٭ ہے جس کا اشارہ ڈاکٹر گیان سنگھ نے بھی کیا ہے۔بلکہ انہوں نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ طلبہ کی ایسی تحقیق اپنے معیار کے لحاظ سے اس درجہ کی حامل نہیں جو ماہرین فن یا اساتذہ علمی رسوخ اور تجربہ کے بعد خالص اپنے علمی ذوق کی تشفی کے لئے کرتے ہیں۔ (اُصولِ تحقیق : صفحہ ۱۶)
طلبہ کی یہ تحقیق فن تحقیق کے ضابطوں، موضوع کے فنی تقاضوں اور حسن ترتیب کا جمال اگر رکھتی ہے تو فضلا کی تحقیق اپنے موضوع پر گیرائی وگہرائی، جامعیت اور علم وفضل کا شاہکار ہوتی ہے۔'اسلامی تحقیق کا مفہوم، مدعا اور طریق کار' کے مصنف ڈاکٹر رفیع الدین نے مغرب سے درآمدہ اس تصورِتحقیق کو میکانیکی تحقیق قرار دیا ہے اور اسے اسلامی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔لیکن اس امر کو تسلیم نہ کرنا بخل ہو گا کہ تحقیق کو اس طرح تعلیمی اداروں سے وابستہ کرنے سے تحقیقی عمل میں نہ صرف بہت تیزی آئی ہے بلکہ یہ اندازِ تحقیق مختلف موضوعات سے متعلقہ مواد کوجمع کرنے کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہوا ہے۔ اس تحقیق کے نتائج گو بہت ثقاہت کے حامل نہیں لیکن ماہر اَساتذہ کا حقیقی اِشراف اگر حاصل ہو جائے تو یہ کمی بھی پوری ہو سکتی ہے۔
جدید تعلیمی اداروں کے ارتقا میں یہ امر بھی ملحوظ رہنا چاہئے کہ ادارہ جاتی سطح پر نہ صرف تحقیق وتصنیف کا یہ تصورنیا ہے بلکہ تعلیم کاعلمی شخصیات کی بجائے کسی تعلیمی ادارے پر انحصار کا رجحان بھی زیادہ پرانا نہیں۔ چند دہائیاں قبل ہی تعلیمی اداروں کا یہ تصور زیادہ راسخ ہوا ہے وگرنہ برصغیرکی ابتدائی درس گاہیں نہ صرف مختلف شخصیات کے وجود سے تقویت پکڑتی رہیں بلکہ ان کے ہاں 'اجازہ' (سند) کا تصور بھی کسی معروف اُستاد سے وابستہ رہا ہے۔ سب سے پہلے برصغیر میں انگریزوں کے قائم کردہ دینی علوم کے ادارہ مدرسہ عالیہ کلکتہ نے ۱۷۸۰ء میں اجازہ کی بجائے 'ادارہ جاتی سند' دینے کی طرح ڈالی ٭جسے آج کل ڈگری کہا جاتا ہے اور اس کے ادنیٰ مراحل کی اسناد سر ٹیفکیٹ کہلاتی ہیں۔ اجازہ (درجہ فضیلت Degree) سے آگے کی سندات ما بعد الجامعاتی (Post graduate) کہلاتی ہیں۔آج کل درجہ اجازہ کو بھی برطانیہ،فرانس کی پیروی میں B.Aیاامریکہ کی پیروی میں Licenciate کہاجاتا ہے۔ عرب ممالک نے انہی الفاظ کو معرب بنا کر بکالوریا؍بکالوریوس یا لیسانس کا نام دے دیا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جدید یونیورسٹیاں اپنے ادارہ جاتی نظم کی بنیاد پر علم کی دنیا میں ایک مقام حاصل کرتی ہیں جبکہ ماضی میں اسلامی تعلیمی ادارے نامور شخصیات کے وجود سے پہچانے جاتے رہے ہیں۔اب ادارہ جاتی تعلیم کایہ تصور مسلمانوں میں بھی قبو لِ عام حاصل کرگیا ہے۔
نئے انسانی تجربات اور نظاموں کا اسلام مخالف نہیں بلکہ ان کو بنظر تحسین دیکھتا ہے لیکن غیرمسلموں سے درآمدہ تصور ہماری اسلامی روایات کی اس طرح حفاظت نہیں کرسکتے جیسے ہماری نظام تعلیم کا فطری ارتقا اس کا محافظ بنتاہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ مسلمان اپنے نظاموں میں اپنے اقدار وروایات کی رو رعایت سے خود ارتقا کرتے لیکن افسوس کہ اس ارتقا میں ہمیں غیروں کا محتاج بننا پڑا ہے اور علم وتحقیق کے اصل وارث غیروں کے دست ِنگر بن کر رہ گئے ہیں۔
دینی مدارس سے مسلم حکومت کی بے اعتنائی
سابقہ صفحات میں ہم ذکر کرآئے ہیں کہ تحقیق کا یہ تصور اسناد سے وابستہ ہے۔ جہاںتک سندی تحقیق کا تعلق ہے تومقامِ افسوس ہے کہ قیامِ پاکستان کے ۵۷ برس کے بعد بھی کسی ایک بھی دینی مدرسہ کو کوئی اعلیٰ تعلیمی اسناد دینے کا اختیار نہیں دیا گیا۔یہ صورتِ حال المیہ سے کم نہیںکہ جدید تعلیمی ادارے جو چند سالوں میں علمی اُفق پر نمودار ہوئے اورکسی علمی اعزاز یا اعلیٰ کارنامہ کے حامل بھی نہیں، حکومتی ادارییونیورسٹی کاچارٹر عطا کرنے کے لئے ان کی درخواستیں منظور کرنے میں تو دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ایسی بیسیوں یونیورسٹیاں چند سالوں میں پرائیویٹ سیکٹر میںکھمبیوں کی طرح اُگ آئی ہیں جو صرف مادّی منفعت بخش علوم کاکاروبار کرتی ہیں، لیکن کئی دہائیوں سے قائم عظیم دینی جامعات جن کے فضلا کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہے اور وہ دنیا بھر میں ممتاز علمی خدمات بھی انجام دے رہے ہیں ، جید اہل علم ان میں سرگرم ہیں، اس کے باوجود دینی ادارہ ہونے کے ناطے سند دینے کی منظوری؍ اہلیت سے محروم ہیں۔ چنانچہ اس صورتحال کے پیش نظرسند دینے کی اہلیت حاصل کرنے کے لئے کئی دینی اداروں نے اپنا بھیس بدل کر جدید علوم کی بھی ویسی ہی دکان سجا لی ہے، جس کے ذریعے نہ صرف نفع بخش آمدن ہوتی ہے بلکہ معمولی بھاگ دوڑسے چارٹر بھی مل جاتا ہے۔ ایسے ادارے اس کوشش میں ہیں کہ اس طرح ایک بار سند جاری کرنے کی اہلیت حاصل کرنے کے بعد وہ دینی فضلا کے لئے بھی اسی اہلیت کا موزوں استعمال کریں گے۔
اسلام کے نام پر حاصل کی جانے والی مملکت میں اسلامی تعلیم دینے والے اداروں کو دینی تعلیم کے نام پر مستند درجہ ملنا ممکن نظر نہیں آتا، نہ ہی ان اداروں کے لیے کوئی تعلیمی بجٹ ہے یا اُنہیں ملکی تعلیمی پالیسی میں شریک سمجھا جاتاہے بلکہ ان اداروں کے مسائل یا تو وزارتِ داخلہ کے سپرد ہیں جو امن وامان کی ذمہ دار ہے یا مشرف دور سے قبل زکوٰۃ کی مد سے انہیں چند لاکھ روپے مل جاتے تھے بلکہ اس اشک شوئی میںبھی بہت سے حضرات نام نہاد دینی اداروں کے نام پر اپنا حصہ بٹورتے رہے۔ تعلیم کے نام پر یہ دینی مدارس وزارتِ تعلیم میں کوئی استحقاق نہیں رکھتے۔ انگریز سامراج نے مدارس سے اوقاف چھین کر جس طرح انہیں بے دست وپا کیا تھا، اسلامی حکومت نے سامراج کی اتباع میں ان اوقاف کو قبضے میں لے کر ان کی آمدنی پر تو اپنا اختیار قائم کررکھا ہے لیکن اس مد سے دینی مدارس کو پھوٹی کوڑی نہیں دی جاتی۔ یہ اوقاف مزاروں اور مجاوروں کی خدمت تو کرتے ہیں، دینی تعلیم کی سرپرستی کی کوئی ذمہ داری ان پر عائد نہیں ہوتی۔ اس کے باوجود ہر عوامی یا سرکاری مجلس میں مدارس سے یہ تقاضا کیا جاتاہے کہ وہ انگریز کے دورِ غلامی سے نکل آئیں اور اپنا تحفظ کا انداز ترک کرکے،تعلیم کے اصل دھارے میں شمولیت اختیار کر لیں یا بالفاظِ دیگر جدید معاشرہ میںزندہ حیثیت اختیار کرکے جدید معاشرتی مسائل حل کرنے کا چیلنج قبول کریں مگر کیسے؟ کام کرنے کی فضا مسموم ہے اور وسائل معدوم !!
سرکار اور بیوروکریسی کے منفی رویہ کی موجودگی میں تو یہ ادارے اگر آسمان سے براہِ راست وسائل بھی اُتار لائیں تو پھر بھی سپر قوتوں کے ذرائع ابلاغ کی اجارہ داری میں پنپ نہیں سکتے۔ مغربی مقاصد کے لئے کام کرنے والی این جی اوز کی آمدنی پر تو یہاںکوئی روک ٹوک نہیں ہے، البتہ مدارس کا اسلام کے نام پر بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانی حضرات کی طرف سے ہونے والا معمولی تعاون بھی حکومت ِوقت بند کرنے کو بے چین رہتی ہے !!
وفاق المدارس (آخری سند) کے لئے تحقیق
دینیمدارس کی واحد سند شہادۃ العالمیۃ في العلوم العربیۃ والاسلامیۃ جسے معتبر ہونے کا اعزاز جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے بخشا، وفاق المدارس کی وہ آخری سند تھی جسے مختلف مکاتب ِفکر کے پانچ امتحانی بورڈ بناکر انہیں ایم اے کے برابر سند دینے کی اہلیت دی گئی لیکن اس سند سے بھی گذشتہ بائیس برسوں میں جو سلوک ہوتا آیا ہے، وہ الگ داستانِ الم ہے۔ حال ہی میں سرحد حکومت اور ایم ایم اے کو اس سند کے حوالے سے جس آزمائش سے گزرنا پڑا، اس سے اخبارات پڑھنے والے سب حضرات بخوبی واقف ہیں۔
جدید یونیو رسٹیوں کے معیار اور مادّی مقاصد کو دیکھا جائے توان وفاقوں(دینی امتحانات بورڈز) پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا لیکن کار پردازانِ حکومت ان کی انتظامی کمزوریاں خوردبین سے تلاش کر کے ان کوہدفِ تنقید بناتے رہتے ہیں تاکہ ان مدارس میں مداخلت کا جواز نکالاجاسکے۔ یہ بھی واضح رہے کہ ایسے اداروں یا وفاقوں کی سرکاری منظوری حادثاتی ہے جنہیں دل سے جدید یونیورسٹیاں یا تعلیمی بیوروکریسی تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔
اس کے باوجود مدارس نے نہ صرف اپنی واحد سند کے لئے سندی تحقیق کو فروغ دیا ہے بلکہ مختلف مدارس میں ان کی اپنی جاری کردہ اسناد کے حصول کے لئے بھی اس نوعیت کا تحقیقی کام لازمی قرار دیا گیا ہے۔ وفاق کے پانچوںبورڈز نے لازمی اور اختیاری طور پر اس سند کے حصول کے لئے تحقیقی مقالہ کو پذیرائی بخشی۔ ہمارے پیش نظر اس وقت دو نمائندہ وفاقوں کے مقالات کے وہ مجوزہ عنوانات ہیں جن کے اندر رہتے ہوئے ہر سال طلبہ کو کسی موضوع کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ وفاق المدارس السلفیہ (اہلحدیث مکتب ِفکر) ۱۵۰ کے قریب موضوعات اور تنظیم المدارس (بریلوی مکتب ِفکر) ہر سال ۱۵ سے ۲۰ موضوعات کا اعلان کرتا ہے۔ یہ تحقیقی کام وفاق ہائے مدارس کے قیام (کم وبیش ۲۵سال) سے جاری و ساری ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق ایسے مقالات کی تعداد ۹ہزار سے متجاوز ہے۔صرف اہل حدیث مکتب فکر کے وفاق میں ۳ ہزار کے قریب مقالات لکھوائے جاچکے ہیں۔ یاد رہے کہ ان وفاقوں کی سندات کو ایم اے عربی واسلامیات کے مساوی قرار دیا گیا ہے۔
اس تحقیقی کام کی فہرستیں ان مختلف دینی امتحانی بورڈز سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔
مدارس کی اپنی اسناد کے لئے تحقیق
دینی مدارس نے ہمیشہ مادّی تصورات سے بالاتر ہوکر علم کے نبوی ورثہ کے تحفظ اورالٰہی ارشادات کی تعمیل میں ہر دور میں تعلیم جاری و ساری رکھی ہے اور برصغیر کے یہ مدارس پرائیویٹ سیکٹر میں تعلیم کی نہ صرف درخشندہ مثال ہیں بلکہ مسلمانانِ برصغیر کا پورے عالم اسلام سے سرمایۂ امتیاز بھی ہیں۔ ان مدارس نے اپنی جاری کردہ سندوں کے لئے بھی مقالات کو بڑی اہمیت دے رکھی ہے ۔
بعض ممتاز مدارس مثلاً جامعہ لاہور الاسلامیہ، جامعہ اشرفیہ اور جامعہ نعیمیہ میں آخری کلاسوں کے لئے مقالہ لکھنا ضروری ہے۔ اسی طرح دینی مدارس میںدرجہ تخصص (Specialization) میں بھی مقالہ لکھنا لازمی تصور ہوتا ہے اور یہ درجہ ہائے تخصص مذکورہ جامعات کے علاوہ ممتاز مدارس مثلاً دارالعلوم کراچی، جامعہ سلفیہ فیصل آباد، جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک اور جامعہ ابی بکر الاسلامیہ وغیرہ میں کام کررہے ہیں۔
اہلحدیث مدارس میں بالخصوصمرکز التربیہ الاسلامیہ فیصل آباد میں علومِ حدیث اور مرکز الامام بخاری صادق آباد میں اُصولِ فقہ کی کتابوں کی ایڈیٹنگ یا تحقیقی مقالہ پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔جامعہ لاہور الاسلامیہ (جو مجلس التحقیق الاسلامی سے ملحق ادارہ ہے) میں ابتدائی چند سالوں کا ریکارڈ تیار کیا گیا تو ۱۹۸۵ء تک ایسے ۸۲ مقالہ جات لکھے جاچکے تھے۔
مدارس پر اکثر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہاں فرقہ وارانہ موضوعات پر اور فروعی مباحث میں تحقیق ہوتی ہے، اس الزام کے ازالے کے لئے ان ۸۵ مقالہ جات میں صرف ۱۰ مقالہ جات کے موضوعات ملاحظہ فرمائیے جو جسٹس (ر) منیر احمد مغل، حافظ عبد الرحمن مدنی اورمولانا متین ہاشمی جیسے کہنہ مشق اساتذہ اور محققین کی زیر نگرانی تیار ہوئے ...
1.حدود آرڈیننس کا جائزہ از عبد اللہ سلیم
2. اتحاد بین المسلمین از غلام نبی زاہد
3. اسلام میں جیل کانظام از میاں اختر علی
4.انقلابِ ایران؛ایک جائزہ از جمیل اعوان
5. بلاسود بینکاری از منور اقبال
6.اجتہاد او رجدید مفکرین از جلیل الرحمن
7. اسلام او رسائنس از خالد حسین انصاری
8.اسلام میں بٹائی اور ٹھیکہ از ذکاء اللہ
9. پاکستان کے عائلی قوانین کا جائزہ از چوہدری محمد انور
10. وحدتِ امت مسلمہ او رتعبیردین میں اختلاف از ملک حسن اختر اعوان
11.وفاق المدارس السلفیہ نے سال ۲۰۰۳ء میں تحقیقی مقالہ کے لئے جن موضوعات کا اعلان کیا ، ان میں چند ایک حسب ِذیل ہیں:
٭ انکم ٹیکس و دیگر ٹیکسوں کی شرعی حیثیت
٭ طب نبویؐ او رجدید سائنس
٭ اسلام ، اشتراکیت اور سرمایہ داری
٭ اسلام کا نظامِ احتساب
٭ اسلام کا نظام عدل
٭ اسلامی نظام تعلیم کے خدوخال
٭ اسلام کا اقتصادی نظام
٭ عربی زبان پر قرآن مجید کے اثرات
٭ تنظیم المدارس (بریلوی مکتب ِفکر )نے سال ۲۰۰۳ء میں تحقیقی مقالہ کے لئے ۱۵؍موضوعات کا اعلان کیا ، ان میں چند ایک حسب ِذیل ہیں:
٭ ویزہ کی خرید وفروخت کی شرعی حیثیت
٭ عورت کی ملازمت کی شرعی حیثیت و حدود
٭ وصیت بالاعضاء کی شرعی حیثیت
٭ جدید میڈیا سے تبلیغ میں تصویر کا مسئلہ
٭ غیرمسلم حکومتوں سے تعاون کا شرعی حکم اور حدود
٭ جہاد او ردہشت گردی
٭ حدود وقصاص آرڈیننس پر اعتراضات کا علمی وتحقیقی جائزہ
٭ تصوف اور تعمیر سیرت
بعض مدارس میں آخری کلاسوں میں بحث لکھنے کا فن بھی پڑھایا جاتا ہے اور عربی زبان میں اس موضوع پر کئی کتب اساتذہ اور طلبا کے زیر مطالعہ رہتی ہیں جن پر کہنہ مشق اساتذہ محاضرات بھی دیتے ہیں۔
جہاں تک مدارس پر فرقہ وارانہ موضوعات میں خصوصی توجہ دینے کے اعتراض کا تعلق ہے تواس ضمن میں مدارس کی پالیسی اور منظور شدہ موضوعات سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ان میں ایسے موضوعات کی بالکل حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی لیکن عملاً اس صورتحال میں مزید بہتری او راصلاح کی کافی گنجائش موجود ہے۔البتہ لکھے جانے والے مقالات میں فرقہ وارانہ موضوعات اور فروعی مسائل پر مقالات کی تعداد ۸ تا ۱۰ فیصد سے زیادہ نہیں۔
٭ یہاں اس امر کا تذکرہ بھی مناسب ہوگا کہ دینی مدارس میں وفاق کے امتحانات منظور ہونے سے قبل سندی تحقیق کا تصور کیسے پیدا ہوا...؟
۱۹۶۱ء میں مدینہ منورہ یونیورسٹی کے قیام اور دیگر سعودی جامعات میں پاکستانی اہل علم کے تعلیم پانے کے بعد ان مدارس میں یونیورسٹی کے مختلف لوازمات پورا کرنے کا احساس پیدا ہوا۔ اس سے قبل اور بعد جامعہ ازہر، مصر اور بغداد کی یونیورسٹیوں میں بھی پاکستانی علما اعلیٰ تعلیم کے لئے جاتے رہے ۔ مدینہ منورہ یونیورسٹی میں بحث وتحقیق کی صورتِ حال یہ ہے کہ ۱۲ سالہ ثانوی کے بعد لیسانس (ایم اے) کی سطح پر چار سالہ کورس میں پہلے تو آخری سال میں تحقیقی مقالہ لکھنا ضروری ہوتا تھا لیکن چند سالوں سے ہر سال میں ایک مقالہ لکھنا ضروری قرار دیا گیا ہے جبکہ ہر سمسٹر میں مختلف Assignment اس کے علاوہ ہیں۔
اس لحاظ سے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ باوجود اس امر کے کہ مدارس کو آج تک اعلیٰ سندیں دینے کی سرکاری اہلیت (چارٹر) حاصل نہیں، انہوں نے نہ صرف وفاق المدارس کی واحد سند پر وسیع تحقیقی کام کیا ہے بلکہ اس سے قبل وہ اپنی اسناد پر بھی تحقیقی کام کرتے آئے ہیں اور ان کے ہاں سندی تحقیق کی یہ روایت جدید یونیورسٹیوں سے کسی طرح متاخر نہیں۔انہوں نے اس سلسلے میں ملکی یونیورسٹیوں کے بجائے عالمی اسلامی یونیورسٹیوں سے تحقیق کا یہ جدید تصور لیاہے۔
تحقیقی کام کی فہارس
مجلس التحقیق الاسلامی میں عالم عرب کے تمام ممالک کی اسلامی یونیورسٹیوں کے ڈگری سطح کے تمام مقالہ جات کی فہرستیں موجود ہیں۔ ۱۵ ہزار کے قریب صرف اسلامی موضوعات پر یہ مقالہ جات بی اے، ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کے لئے لکھے گئے ہیں۔ یہ فہرستیں کمپیوٹر سی ڈیز کے علاوہ کتابی شکل میں بھی موجو دہیں جس میںسالِ تکمیل، سپروائزر کا نام، تعداد صفحات اور مقالہ کا مختصر تعارف موجود ہے۔بعض تحقیقی اداروں کی یہ کوشش ہے کہ ان تمام مقالہ جات کے مکمل متن کو بھی سی ڈیز کی شکل میں ریلیز کردیا جائے جوعظیم اسلامی و علمی خدمت ہوگی۔اس کے لئے ریاض کے بعض تحقیقی اداروں میں کام جاری ہے۔
مزید برآں سعودی عرب کی 'ہائر ایجوکیشن منسٹری' نے اپنے ملک کے ۱۰۰۰؍ اہم ترین مقالہ جات کی اشاعت کا سلسلہ بھی شروع کردیا ہے جن میں سے ۱۰۰ کے لگ بھگ شائع ہوچکے ہیں اور ان کاتحقیقی معیار غیر معمولی حد تک ممتازہے۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان میں ۲۰۰۱ء میں ریگولر ایم فل اور Ph.D کا آغاز ہونے کے بعد اس نوعیت کی تحقیق میںکئی گنا اضافہ ہوا ہے اور اس وقت ہر یونیورسٹی میں سینکڑوں طلبہ پی ایچ ڈی کررہے ہیں، ظاہر ہے کہ اس کے نتائج چند سالوں بعد سامنے آئیں گے۔لیکن جہاں تک فہارس کا تعلق ہے تو ۲۰۰۰ء تک پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ علوم اسلامیہ کے علاوہ کسی یونیورسٹی نے اپنے مقالات کی فہرست شائع نہ کی تھی۔ اگرچہ دیکھا دیکھی اب دیگر یونیورسٹیوں کی فہرستیں بھی سامنے آرہی ہیں۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے پروفیسر سجاد تترالوی نے ذاتی کوشش سے ایسی فہرستیں جمع کرنے کی کوششیں کئی سال قبل شروع کی تھیں، لیکن اس کی اشاعت کے بارے علم نہیں ہوسکا۔
جامعہ لاہور الاسلامیہ سے ملحق'مجلس التحقیق الاسلامی' کی طرف سے ایسی فہرستیں جمع کرنے کے منصوبے پر بھی کام کیا گیا اور اس کے لئے متعدد سرکاری اداروں کو خطوط بھی لکھے گئے لیکن ابھی تک اس میں بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔جدید یونیورسٹیوں بالخصوص مشرقی علوم کے شعبوں میں تحقیق میں درپیش مسائل ومشکلات بے حساب ہیں جن کا ایک مختصر جائزہ حسب ِذیل مقالات میں لیا گیا ہے ، تفصیل کے شائقین ان کی طرف رجو ع کرسکتے ہیں:
'جامعات میں ادبی تحقیق؛ مسائل او رتجاویز' از ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اور 'تحقیقی پیش رفت میں جامعات کا کردارــ؛ چند عمومی مسائل اور تجاویز' از ڈاکٹر معین الدین عقیل ... یہ دونوں مقالات IPS کی 'پاکستان میں جامعات کا کردار ' نامی کتاب میں ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے بقول
''تکلیف دہ امر یہ ہے کہ بعض جامعات میں کئی مقالات ملازمین کی ملی بھگت سے خرد برد کر لئے گئے اور یونیورسٹی کے پاس ان کا ایک بھی نسخہ موجود نہیں ہے۔'' (ایضاً: ص ۱۳۰)
دینی مدارس اور یونیورسٹیوں میں تحقیق کو فروغ دینے کا اوّلین قدم یہ ہے کہ تبادلہ معلومات کا رجحان پیدا کیاجائے اور مراکز جمع و فراہمی معلومات قائم کئے جائیںجس میں ظاہر ہے پرائیویٹ علمی اداروں یا مدارس اس کام کی تکمیل پر قادر نہیں کیونکہ انہیں یونیورسٹیوں کے ہاں کوئی قدرومنزلت حاصل نہیں جو انہیں اپنی فہرستیں فراہم کریں ،البتہ یہ کام یونیورسٹی کی سطح پر یا اعلیٰ تعلیمی کمیشن (HEC) کے زیرنگرانی بخوبی ہوسکتا ہے۔
غیر سندی تحقیق
غیرسندی تحقیق وہ ہے جو روایتی طور پر ہمیشہ سے چلی آتی ہے اور ہمارا آج تک کا تحقیقی ذخیرہ غیرسندی تحقیق پرمشتمل ہے۔ سندی تحقیق کے لئے ایک باقاعدہ فنِ تحقیق تشکیل دیا گیا ہے جس میں معلومات کو جمع کرنے، پیش کرنے اور مرتب کرنے کے متعین ضوابط موجود ہیں۔ لیکن تحقیق صرف اسی کو قرار دینا جو فن تحقیق کے نووضع کردہ ضابطوں پر پوری اُترتی ہو، جبر اور فکری محکومی کاغماز ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو سابقہ تحقیقی کام ان ضوابط پرتیار نہیں ہوا انہیں دائرئہ تحقیق سے خارج قرار دیا جائے۔ ایسی صورت میں ائمہ اسلاف کی تمام علمی کتب، بنیادی مصادرِ اسلام حتیٰ کہ سائنس و فنون کی تمام سابقہ کتب بھی غیر تحقیقی قرار پاجائیں گی۔ اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوگا کہ آج تک کسی موضوع پر تحقیق کی ہی نہیں گئی لہٰذا تحقیق کا دائرہ اس قدر محدود کردینا صریح ناانصافی ہوگی۔ اس اعتبار سے فن تحقیق اور چیز ہے اور تحقیق اس سے زیادہ جامع تر مفہوم رکھتی ہے۔ ڈاکٹر گیان سنگھ کے بقول
''تحقیق سچ یا حقیقت کی دریافت کا عمل ہے۔'' (اُصول تحقیق: ص ۹)
بقول قاضی عبد الودود ''تحقیق کسی امر کو اس کی اصل شکل میں دیکھنے کی کوشش ہے۔''مولانا کلب عابد کا کہنا ہے کہ ''تحقیق حق کا اثبات ہے یا حق کی دریافت...'' (ایضاً)
مدارس میں اس موضوع پر پڑھائی جانے والی کتاب میں تحقیق کی تعریف یوں کی گئی ہے :
فن التنظیم الصحیح لسلسلة من الأفکار العدیدة إما من أجل الکشف عن حقیقة مجهولة لدینا أومن أجل البرهنة علی حقیقة لا یعرفها الآخرون (البحث العلمي مناہجہ وتقنیاتہ از محمد زیان عمر: ص ۴۸ )
''یہ متعدد افکار و نظریات کو اس انداز پر خوبصورتی سے ترتیب دینے کا فن ہے جس کامقصد کسی حقیقت سے پردہ اُٹھانا ہوکہ یہ حقیقت ہماری نظروں سے اوجھل ہو یاایسی حقیقت پر برہان قائم کرنا مقصود ہو جسے دوسرے لوگ نہ جانتے ہوں۔''
اس سے پتہ چلتا ہے کہ تحقیق ایک مستقل فن ہے جس کے طے شدہ اُصول و ضوابط ہیں۔ تحقیق کی ایک اور جامع تعریف ڈاکٹر عجاج الخطیب نے یوں کی ہے :
''کل دراسة موضوعیة تبین الأحکام التی تتصل بجانب من جوانب الحیاة بیانا واضحًا أو تعالج مشکلة اجتماعیة أواقتصادیة أو سیاسیة من خلال قیم الاسلام وأحکامه تستند إلی فهم سدید وفحص عمیق وإدراك صحیح ومنهج سلیم''(لمحات فی المکتبۃ والبحث والمصادر:ص۱۰۱)
''کسی موضوع پر ایسا مطالعہ جو زندگی کے کسی پہلو کا نکھار کرتا ہو یا وہ کسی معاشرتی، اقتصادی یا سیاسی مشکل کا حل پیش کرتا ہو۔ یہ مطالعہ اسلامی اقدار اور اس کے احکام پر استوار ہو جس کی بنیاد راست فکری، گہرا تجزیہ، درست اِدراک اور موزوں منہج پر قائم ہو۔''
کیا تصنیف بھی تحقیق کا لازمہ ہے؟
تحقیق کے بارے میں ہمارے ہاں اکثر یہ مغالطہ پایا جاتاہے کہ تحقیق اسے ہی تصور کیاجاتا ہے جوطے شدہ اُصول و ضوابط کے مطابق حیطۂ تحریر میں لائی گئی ہو، یہی وجہ ہے کہ پیش نظر سیمینار کا موضوع بھی تحقیق و صحافت اسی مناسبت سے رکھا گیاہے۔ جبکہ ہم ذکر کر آئے ہیں کہ صحافت کا لفظ صرف تحریر کے بجائے ایسے معانی کے لئے زیادہ بولاجاتا ہے جس میں اِبلاغ کا عنصر زیادہ ہو۔ اس لحاظ سے تحقیقی شعبہ جات کو 'شعبۂ تحقیق و تصنیف' کا نام بھی دیا جاتا ہے جس کامطلب یہ ہوتا ہے کہ یہاں نہ صرف تحقیق بلکہ اس کو احاطہ تحریر میں لانے کے انتظامات بھی موجود ہیں۔ جہاں تک عمل ِتحقیق یا نفس ِتحقیق کی بات ہے تواس کے مفہوم میں اصلاً تصنیف و تالیف شامل نہیں۔ جدید فن تحقیق کے لئے کی جانے والی سابقہ تعریفات کی رو سے بھی یہ پتہ نہیں چلتا کہ تحقیق کواحاطہ تحریر میںلانابھی اس کا لازمہ ہوناچاہئے۔
اس کی مثال بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہمارے ہاں علم کا تصور لکھنے پڑھنے کی صلاحیت کے ساتھ ہی مشروط ہے۔بلکہ صاحب ِعلم شخص کو ہماری زبان میں پڑھا لکھا آدمی ہی کہا جاتا ہے۔ لیکن ذرا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو علم کی تکمیل اور اس میںتوسیع تو لکھنے پڑھنے سے ہوتی ہے، نفس علم کاوجود یا اسکا حصول صرف لکھنے پڑھنے کا محتاج نہیں، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ جو معلم کائنات کے بلند ترین مرتبے پر فائز ہیں اور علم کو دنیا میں حقیقی بنیادیں آپؐ نے فراہم کی ہیں، باوجود علم و فضل میں اشرف المخلوقات ہونے کے لکھنے پڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ ایسے ہی صحابہ کرام ؓ کے بہترین طبقہ کا حال ہے کہ ان میں سے کئی حضرات اس صلاحیت سے محروم تھے لیکن ان کے علم و کمال پر بحث کرنا گویا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ ایسے ہی نابینا شخص لکھنے پڑھنے دونوں کی صلاحیت سے محروم ہوتا ہے، کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ کوئی نابینا شخص پڑھا لکھا نہیں ہوتا۔سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبد العزیز بن باز نہ صرف علم کے بلند ترین درجے پر فائز تھے بلکہ انہیں دسیوں جلدوں پر مشتمل کتب (مثلاً فتح الباری شرح صحیح بخاری) کی تحقیق وتعلیق کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
علم و تحقیق کو تصنیف و تالیف میںمحدود تصور کرنا جدید تمدنی ارتقا کا عطا کردہ وہ تصور ہے جو نہ صرف حقیقت سے عاری ہے بلکہ ہمیں اپنے شاندار ماضی سے منقطع کردیتا ہے۔ کسی شخص کا غضب کا مقرر ہونا، خوبصورت الفاظ میں اپنے مافی الضمیرکو بیان کرنا یا اعلیٰ درجے کے مدرّس ہونے کا یہ لازمی مطلب نہیں کہ وہ اپنے اماثل و اقران میں زیادہ برتر اور ممتاز علمی حیثیت کا بھی حامل ہے کیونکہ تقریر، تحریر اور تدریس تینوں کا تعلق ایسے فنون سے تو ہے جو علم کے لئے غیرمعمولی اہمیت رکھتے ہیں اور عموماً اہل علم کے علم کا ثمر ان فنون میں سے کسی صورت میں ظاہرہوتا ہے لیکن انہیں اس طرح علم کالازمہ قرار نہیں دیا جاسکتا کہ علم کی پیمائش یا علم کامیزان ان کے ذریعے ہی قائم کیاجائے۔ علم کی مثال اس قلب کی سی ہے جو انسان کی بنیادی طاقت اور صلاحیت کامرکز ہے، اس طاقت کا اظہار کبھی ہاتھ سے ہوتا ہے ، کبھی زبان سے اور کبھی کسی اور ذریعہ سے۔ ظاہر ہے کہ انسان کا قلب قوی ہوگا تو اس کے اعضاء و جوارح میں بھی وہ قوت نظر آئے گی۔ لیکن اگر کوئی انسان قوت کے کسی مظہر سے وقتی یا دائمی طور پر محروم ہو تو اس سے اس کی اصل قوت ختم نہیں ہوجاتی۔
آج ہم ان اہل علم کو تو جانتے ہیں جنہوں نے اعلیٰ تصانیف کا ورثہ انسانیت کے لئے چھوڑا ہے لیکن جو لوگ اپنے علم کا اظہار خطابت یا تدریس کے ذریعے کرتے تھے، کئی صدیاں گزرنے کے بعد ان کے نام سے بھی ہمیں آگاہی نہیں لیکن ان کے وہ نامور شاگرد جنہوں نے ان سے کسب ِفیض کرکے اُمت کے لئے تحریری ورثہ چھوڑا، آج ان سے زیادہ قد آور حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں ایک نمایاں مثال امام بخاریؒ کے استاذ شیخ علی بن مدینی کی ہے۔ ایسی ہی ایک مثال امام ابو حنیفہ ؒ بھی ہیں جنہوں نے عقائد میں الفقہ الأکبر تصنیف کی ہے یا بعض چند صفحات کے پمفلٹ لیکن ان کی طول طویل فقہ کی تدوین ان کے شاگردوں کے ہاتھوں ہوئی اور انہی کے نام سے شائع بھی ہو رہی ہے۔ دینیات کے طلبہ صحیح بخاری کا تذکرہ تو دن میں کئی بار کرتے ہیں او راس کو پڑھانے والے کو شیخ الحدیث (صدر مدرّس) کا منصب حاصل ہوتا ہے گویا امام بخاریؒ کی تالیف صحیح بخاری سے ان کا امیر المومنین فی الحدیث کا منصب قائم ودائم ہے، لیکن ان کے استاد علی بن مدینی کو عام طلبا میں وہ تعارف نہیںملا، حالانکہ امام بخاریؒ ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ میں نے ان کے سامنے اپنے علم کو ہمیشہ انتہائی کمتر پایا۔ ایسے ہی لوگوں میں سے نامور ائمہ اسلاف ہیں جن کے تذکرے کتب ِسلف میںتو ملتے ہیںلیکن علمی حلقوں میں ان کا تذکرہ زبان پر بہت کم آتا ہے،کیونکہ ان کا علمی ذخیرہ صفحۂ قرطاس پر محفوظ نہیں ہے۔
علم وتحقیق ایک ادراک ہے جب کہ فن اسے پیش کرنے کا ایک اُسلوب ہوتا ہے۔ چنانچہ ہر فن کے ایسے خواص ہیں جو دوسروں میں بھی نہیںپائے جاتے، اسی بنا پر فنون کے فوائد وثمرات بھی مختلف ہیں۔ چنانچہ تصنیف کے بارے میں عربی زبان کا مشہور شعر ہے :
یلوح الخط في القرطاس دهرا وکاتبه رمیم في التراب
''تحریر صفحۂ قرطاس پر کئی زمانے ثبت رہتی ہے، جبکہ اس کو لکھنے والامٹی میں مل کر قصہ پارینہ بن چکا ہوتا ہے۔''
دوسری طرف خطابت کی بعض ایسی ممتاز خصوصیات ہیں،جن سے تحریر وتصنیف عاری ہے۔ فرمانِ نبویؐ ہے:إن من البیان لسحرًا (مسند احمد: ۱؍۲۶۹) ''انسان کے بیان میں سحر (جادوکا اثر) پایا جاتا ہے۔'' فوری طور پر لوگوں کو متاثر کرنے میں تحریر وہ کام نہیں کرسکتی جو انسان اپنے لب ولہجے، الفاظ کے زیر وبم اور حرکات و سکنات سے کرلیتا ہے۔ غرض ابلاغ کے مختلف ذرائع کے مقاصد اور فوائد وثمرات مختلف ہیں، جن میں ہر ایک کی خصوصیات اپنی جگہ پر امتیاز رکھتی ہیں لیکن لوگوں میں عرصہ دراز تک باقی رہنے کے اعتبار سے تحریر کو دیگر ذرائع ابلاغ پر ایک فوقیت حاصل ہے۔ ایسے ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان جس شے کو خود دیکھتا اور محسوس کرتا ہے، اسی کا اثر زیادہ قبول کرتا ہے۔ وگرنہ بہت سے خطیب، خوش الحان اور باصلاحیت لوگ پچھلی صدیوں میںگزر گئے اور آج ہم ان کے نام تک نہیں جانتے !!
اس بحث کا مدعا یہ ہے کہ عمل تحقیق کو فن تحریر وتصنیف سے جداگانہ طور پر سمجھنا چاہئے۔ علم وتحقیق کا لازمہ تصنیف وتالیف نہیں ہے بلکہ تصنیف وتالیف اس کی حفاظت کی ایک صورت ہے۔اور یہ حفاظت دیگر ذرائع سے بھی ہوسکتی ہے بلکہ مختلف نوعیت کے کاموں کی حفاظت اور پیش کش کے ذرائع مختلف ہوسکتے ہیں۔
موجودہ دور کا المیہ یہ ہے کہ یہاں تحقیق کے عمل کی بجائے اس پر ایک طرف صحافیانہ رنگ غالب ہے، تو دوسری طرف ہر تحریر کو تحقیق قرار دینے کی کوشش ہوتی ہے، جبکہ جس چیز کوضبط تحریر میں نہ لایا جائے ، اس کو تحقیق ہی تصور نہیں کیا جاتا۔ یہ افراط وتفریط پر مبنی رویہ ہے جس کا ایک مظہر موجودہ سیمینار کا عنوان بھی ہے ، جس میں غالباً تحقیق کو صحافت کے ساتھ اسی لئے نتھی کیا گیا ہے، جبکہ صحافت کا درجہ توتصنیف وتالیف کے بھی بعد آتا ہے۔کیونکہ آج کل صحافت سے مراد وہ پرنٹ میڈیا ہے جو ذرائع ابلاغ کا ایک حصہ ہے جب کہ تحقیق کے تقاضے بالکل جداگانہ ہیں۔
تحقیق کی ایک اہم قسم 'معاشرتی تحقیق' بھی ہے جس میں معاشرے میں مختلف رجحانات کا اندازہ لگانے کے لئے مختلف نوعیت کے اعدادوشمار جمع کرکے بعض نتائج تک پہنچا جاتا ہے۔ یہاں معاشرے میں اعدادوشمار کے ذریعے نتائج تک پہنچنا تو تحقیقی عمل ہے لیکن اس کی بحفاظت دوسروں تک منتقلی کے لئے اس کی رپورٹ تیار کی جاتی ہے۔ آیا رپورٹ کی تیاری تحقیق کہلائے گی یا اس کام کے پہلے حصے کو تحقیق کا نام دیا جائے گا۔اسی طرح تحقیق کی ایک قسم اجتماعی تحقیق بھی ہے جسے عموماً زبانی تبادلہ خیال سے پروان چڑھایا جاتا ہے۔ اجتماعی تحقیق کی مختلف صورتوں میں مذاکرے، مباحثے اور مشاورت کی مجالس شامل ہیں۔ ان کی موزوں حفاظت کا اس دور میں اہم ترین ذریعہ تحریر کی بجائے آڈیو یا وڈیو ریکارڈنگ اور تصاویر کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ایسی صورت میں کیا مذاکروں کے تحقیقی عمل کا لازمہ تحریر یا رپورٹ کہلا سکتی ہے؟ جوں جوں انسان ترقی کی منازل طے کرتا جارہا ہے ، توں توں سادہ تحریر کی بجائے مختلف علامتوں کی مدد سے نتائج ِتحقیق کومحفوظ کیا جارہا ہے۔ چنانچہ مختلف اعداد و شمار کو پیش کرنے کے لئے موجودہ دور میں گراف کی مختلف شکلوں کو استعمال کیاجاتاہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ گراف صفحۂ قرطاس کی بجائے کمپیوٹر سکرین پر دکھائے جاتے ہیں۔ چند برس قبل آنے والے کمپیوٹر نے علم و تحقیق کے ذرائع ابلاغ میں اس تیزی سے پیش رفت کی ہے کہ قلم وقرطاس پر کئی اعتبار سے اس نے اپنی برتری ثابت کردی ہے۔ چنانچہ عوامی ابلاغ کے میدان میں پردئہ سیمیں (ٹی وی سکرین) کی اہمیت اس دور میں کاغذ (پرنٹ میڈیا) سے بہت بڑھ گئی ہے اور اطلاعات و معلومات، کاروبار اور خریدوفروخت میں کمپیوٹر سکرین نے دیگر روایتی ذرائع کو واضح طور پر پیچھے چھوڑدیا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ فن اظہار کا ارتقا تاریخی طور پر دیکھا جائے تو اسلام کے ابتدائی دور میں بڑا ذریعہ زبان تھاجو دورِ تدوین میں قلم کے ذریعے تحریر میں ڈھل گیا لیکن اسے بھی عروج اس وقت ملا جب پریس جیسی صنعت کو فروغ حاصل ہوا اور آج کل پرنٹ میڈیا پر الیکٹرانک میڈیا چھارہا ہے۔چنانچہ علم وتحقیق فن کے اس ارتقا سے فیض یاب ضرور ہوتا ہے لیکن علم وتحقیق اس معرفت وہدایت کا نام ہے جسے حالات کے تحت کسی بھی ذریعہ ابلاغ (Medium) کے ذریعے عام کیاجا سکتا ہے، اس کے لیے زبان وقلم کا رواج ماضی میں زیادہ رہا تو مستقبل شاید برقی ذریعہ ابلاغ (Electronic Medium) کے ذریعے بامِ عروج حاصل کرے گا۔
آسان الفاظ میں انسانی تاریخ میں پڑھنے اور بولنے سے شرو ع ہونے والی صلاحیت بعد میں کئی صدیوں تک تحریر کی مرہونِ منت رہی، لیکن آئندہ دور میں تحریر کی جگہ کئی میدانوں میں انفرمیشن ٹیکنالوجی برتری لیتے ہوئے نظر آرہی ہے۔پرنٹنگ اور پریس کی ایجاد سے علم و تحقیق میں جو تیزی آئی تھی، کمپیوٹر کی ایجاد سے اس میں ایک نیا اور اہم سنگ ِمیل پیش آگیا ہے۔ اس اعتبار سے علم و تحقیق کو صرف تحریرکے پیمانے سے ماپنا تنگ نظری اور فکری جبر کا اسلوب ہی ہوسکتا ہے۔
اس بحث کا خاتمہ اس نتیجے پر ہوتا ہے کہ سندی تحقیق (جو فن تحقیق کے تقاضوں کو پورا کرتی ہے)میں تو فی الحال تحریر و تصنیف ایک لازمہ کی حیثیت رکھتی ہے لیکن عمل تحقیق کا اسے لازمہ قرار دینا زیادتی ہوگی۔اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ علم کی پیمائش ڈگریوں سے شروع کردی جائے اور جوفاضل ترین شخصیات بذاتِ خود سند ہوتی ہیں،ان کی علمی صلاحیت کو سندوں سے جانچا جانے لگے۔
دینی مدارس میں غیر سندی تحقیق ہمیشہ سے جاری ہے اوراپنے موجودہ دورِ زوال میں بھی دینی مدارس اس بنیادی وصف سے محروم نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ دینی مدارس کا ٹھوس طرزِ تدریس ہے۔ چونکہ دینی علوم کے طلبہ اپنی مستند دینی معلومات کے لئے بنیادی انحصار قرآن وحدیث پر کرتے ہیں۔ اس لئے ان میںسے معانی کا استخراج، مفہوم کی گہرائی تک پہنچنا، الفاظ اور اسلوبِ بیان سے بہت کچھ نکالنے کی مشق ان کی تعلیم وتربیت کا لازمی حصہ ہوتی ہے۔ اسی طرح مدارس میںلسانی علوم اور اُصولِ شریعت بھی اس دقت اور محنت سے پڑھائے جاتے ہیں کہ ایک دینی مدرسہ کاطالب علم، سکول و کالج کے طالب علم کے مقابلے میں (اپنے اپنے موضوع کی مناسبت سے) زیادہ رسوخ اور اعتماد رکھتا ہے۔
علومِ شریعت کی تحصیل کے دوران انہیں اس قدر ذہنی مشق کرا دی جاتی ہے کہ وہ بعد میں کسی بھی میدانِ حیات میںمعمولی محنت سے کامیاب ہوسکتا ہے۔ مختلف تجزیوں میں دینی مدارس کے طلبہ کی یہ لیاقت خوب نمایاں ہوتی ہے، لیکن اس امر کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ طلبہ مدارس میں معلومات اور مطالعہ کی وسعت اور پھیلاؤ کا رجحان جدید یونیورسٹیوں کے طلبہ کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔ البتہ یہ امر درست ہے کہ دینی مدارس کے طلبہ کی اپنے موضوع پر گرفت کے مظاہر کئی بار سامنے آئے ہیں۔ ایسا تو اکثر ہوتا ہے کہ یونیورسٹی کے ایم اے عربی یا اسلامیات کا امتحان دینے والے طلبہ مدارس کے ثانوی کلاسوںکے طلبہ سے اپنے امتحان کی تیاری کرتے نظر آتے ہیں۔
اس سلسلے میں ایک تازہ واقعہ کا حوالہ دینا بھی مناسب ہوگا۔ ۲۰۰۱ء میں جب پنجاب یونیورسٹی نے ریگولر Ph.D کلاسز کا آغاز کیا تو اس میں داخلہ ٹیسٹ بہت مشکل بنایا گیا۔ شعبۂ اسلامیات کے فاضل اساتذہ کے بنائے گئے اس مشکل ٹیسٹ میں تین صد سے زائد طلبہ نے شرکت کی لیکن کامیاب ہونے والوں میں تمام طلبہ دینی مدارس کے فارغ التحصیل تھے۔ یونیورسٹیوں کا اپنا کوئی بھی ایم اے کا سند یافتہ طالب علم اس امتحان میں کامیاب نہ ہوسکا۔ یہی صورت حال ۲۰۰۲ء میں پنجاب یونیورسٹی کے شیخ زاید سنٹر میں پی ایچ ڈی کے ٹیسٹ میں پیش آئی۔ اس امتیاز کی بنیادی وجہ دینی مدارس کے طلبہ کی مخصوص نوعیت کی تعلیم ہے۔ دینی مدارس میں پڑھائے جانے والے درسِ نظامی کے بارے علامہ شبلی نعمانی کا یہ تبصرہ اہم ہے کہ
''اس نصاب کی مقدم خصوصیت اس کے مرتب کے پیش نظر یہ تھی کہ نصاب کی تکمیل کے بعد طالب ِعلم جس فن کی جو چاہے کتاب سمجھ سکے۔''
برصغیر کے نظامِ تعلیم پر تحقیق کرنے والے مولانا ابوالحسنات ندویؒ کی اس نصاب کے بارے میں رائے یہ ہے :
''طالب علموں میں امعانِ نظر اور قوتِ مطالعہ پیدا کرنے کا اس میں بہت لحاظ رکھا گیا ہے اور جس کسی نے تحقیق سے پڑھا ہو توگو اس کو ختم تعلیم کے معاً بعد کسی مخصوص فن میں کمال حاصل نہیںہوجاتا لیکن یہ صلاحیت ضرور پیدا ہوجاتی ہے کہ آئندہ محض اپنی محنت سے جس فن میں چاہے، کمال پیدا کرلے۔'' (برصغیر کے قدیم عربی مدارس کا نظام تعلیم از پروفیسر بختیار حسین صدیقی: ص۲۳)
دینی مدارس کے اساتذہ اپنے اسباق کی تیاری کے لئے باقاعدہ بنیادی مصادرومراجع علم سے رجوع کرتے ہیں او رطلبہ میں دورانِ سبق مختلف سوالات پوچھنے اور ان کی وضاحت کی بطورِ خاص حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ایسے ہی دورانِ تدریس پیدا ہونے والے کئی سوالات کا جواب تلاش کرنااور دیگر کتب سے ان کا مطالعہ کرکے ان کی وضاحت کرنا طلبہ کے ذمے لگایا جاتا ہے۔اس اعتبار سے دینی مدارس کے اسباق کی نہ صرف تیاری بلکہ عمل تدریس میں بھی تحقیقی رجحانات کا غلبہ ہے۔ اس استاد کو مدارس میں ہدفِ تنقید بنایا جاتا ہے جوبنیادی مراجع سے رجوع یا تیاری کے بغیرتدریس کرتا ہو یا ترجموں اورمعاون کتب کی مدد سے پڑھاتا ہو۔ یوںبھی استاد طلبہ کے اکثر سوالات کا جواب دینے کا پابند ہوتا ہے اور سبق پر اس کی گرفت اور اصل ماخذ تک اس کی رسائی کا دورانِ سبق بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔
دینی مدارس کے اساتذہ اپنے فرائض کی تکمیل کے لئے جن بنیادی کتب کا مطالعہ کرکے اپنے سبق کی تیاری کرتے ہیں، ان کو وہ بعض اوقات مستقل مضمون کی شکل میں تحریر کرکے مختلف دینی رسائل میں شائع کرا دیتے ہیں۔ چنانچہ دینی رسائل میں اکثر علما کی تحریریں اسی نوعیت کی ہیں جودورانِ تدریس مسائل کو حل کرتے ہوئے انہوں نے تحقیق کی۔ بعض اساتذہ کتاب کی تدریس کے دوران اپنے وضاحتی نوٹس باقاعدہ طلبہ کو لکھواتے ہیں اور حسب ضرورت ایسے حواشی کی باقاعدہ اشاعت بھی ہوجاتی ہے۔
دینی مدارس کی روایات میں سے یہ بھی ہے کہ ایک فاضل استاذ جو عموماً صدر مدرّس یا شیخ الحدیث ہوتا ہے، مختلف پیش آمدہ مسائل پر اساتذہ کی مجلس میں تبادلہ خیال کرتا ہے اور اس بحث مباحثہ کے نتیجہ میں نکھرنے والے نکات کو اصل مصادر سے نکال کر ضبط ِتحریر میں لانے کی ذمہ داری کسی موزوں استاذ کے سپرد کرتا ہے۔ ہردینی مدرسہ میں چند اساتذہ ضرور ایسے ہوتے ہیں جو تصنیفی مشاغل اپناتے ہیں۔ دینی مدارس کے ترجمان رسائل وجرائد عموماً یہی اساتذہ نکالتے ہیں، جس کے ذریعے اس مدرسہ کی تحقیقات منصہ شہود پر آتی رہتی ہیں۔
ایسے ہی مدارس کے یہ اساتذہ کسی نہ کسی اہم کتاب کی شرح وحواشی کا شغل بھی رکھتے ہیں۔ کسی ماہر استاد کی معیت میں کسی اہم دینی کتاب کی شرح کاکام کرنا مدارس کا ایسا معمول ہے جس سے کوئی بھی قابل ذکر مدرسہ مستثنیٰ نہیں۔ مدارس کے سینئر اساتذہ عموماً تدریس میں مہارت اور تجربے کے بعد ادھیڑعمری میں مختلف دینی موضوعات پر تصنیف وتالیف کا کام شروع کردیتے ہیں اور ایسی ہی تصنیفات سے دینی مکتبوں اور دینی لٹریچر کی دنیا آباد ہے۔
عوام الناس کو درپیش مختلف مسائل، مختلف موضوعات پر مناظرے اور مباحثے، جمعتہ المبارک کے خطبے اورعوامی اجتماعات میں خطابات کے تمام مواقع ایسے ہیں جہاں بیان سے قبل کافی کچھ تحقیق کرنا پڑتی ہے، ا س کے بعد ہی کوئی عالم دین اپنے موضوع سے انصاف کرسکتا ہے۔ ایسی سرگرمیوں کو سندی تحقیق ایسی باضابطہ تحقیقی سرگرمی تو نہیں کہا جاسکتا، لیکن انہیں عمل ِتحقیق سے خارج کرنا بھی مناسب نہیںہے۔
مدارس میں تحقیقی عناصر
تمام دینی مدارس کو یوں تو ایک جامع لفظ 'دینی مدرسہ' سے بیان کردیا جاتا ہے لیکن اس سے مراد دراصل 'مدرسہ سسٹم' ہے جس کے کئی مراحل ہیں:مثال کے طور پر تحتانی، فوقانی اور دورئہ حدیث جنہیں اب تمہیدی(کے جی)، ابتدائیہ (پرائمری)، متوسطہ (مڈل)، ثانویہ (سیکنڈری سکول)، اور اعلیٰ تعلیم کے مدارس (کالج ویونیورسٹی)بھی کہا جاتا ہے ۔جہاں تک تحقیقی سرگرمیوں کا سوال ہے تو وہ صرف اعلیٰ سطحی مدارس میں ہی ہوتی ہے۔ اس نوعیت کے مدارس لاہور شہر میں آٹھ، دس سے زیادہ نہیںلیکن انہیں مدارس کہنے کے بجائے جامعات (Universities)کہنا زیادہ مناسب ہے۔ ایسے دینی مدارس میں عموماً چار نوعیت کے تحقیقی ادارے سرگرم ہوتے ہیں :
1. لائبریری 2. دارالافتاء 3.شعبۂ تصنیف وتالیف اور 4.دینی مجلہ
لاہور شہرکے جن جامعات میں یہ چاروں کام کافی حد تک بہتر شکل میں پائے جاتے ہیں، ان میں اہل حدیث مکتبہ فکر کے
1.جامعہ لاہور الاسلامیہ اور
2. جامعہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ؛ دیوبندی مکتب ِفکر کے
3.جامعہ اشرفیہ ،
4.دارالعلوم اسلامیہ اور
5.جامعہ مدنیہ؛ بریلوی مکتب ِفکر کے
6.جامعہ نعیمیہ اور
7.منہاج القرآن جبکہ شیعہ مکتب ِفکر کا
8. جامعۃ المنتظرقابل ذکر ہیں۔
٭ ان مدارس سے شائع ہونے والے دینی مجلات میں بالترتیب
1.ماہنامہ 'محدث'
2.مجلہ 'نداء الجامعہ'
3. ماہنامہ 'الحسن'
4.ماہنامہ 'الامداد'
5.ماہنامہ 'انوارِ مدینہ'
6.ماہنامہ 'عرفات'
7.ماہنامہ 'منہاج القرآن' اور
8. ماہنامہ 'المنتظر' شامل ہیں۔
٭ دینی مدارس کی لائبریریاں دینی لٹریچر کی فراہمی اور فروغ میں نمایاں کردار اداکرتی ہیں۔ ایسی غیر معمولی لائبریریوں میں جامعہ سلفیہ فیصل آباد، جامعہ اثریہ جہلم، دارالعلوم کراچی، جامعہ فاروقیہ کراچی، جامعہ ابی ہریرہ (نوشہرہ)، جامعہ خیر المدارس ملتان، دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک، جامعہ منظورالاسلامیہ کینٹ لاہور، جامعہ اشرفیہ لاہور، جامعہ نعیمیہ لاہور اورجامعہ لاہور الاسلامیہ کی لائبریریاں خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔
٭ دینی مدارس کے دارالافتاء ہمیشہ سے شرعی مسائل میں عوام الناس کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے آئے ہیں۔ عوام الناس آج تک اپنے فتاویٰ کے سلسلے میں کسی بڑے سے بڑے اسلامی دانشور یا کسی یونیورسٹی کے اسلامیات کے پروفیسر کی بجائے مدارسِ دینیہ کے دارالافتاء اور ان کے فضلا بلکہ ائمہ مساجد سے ہی رجوع کرتے ہیں۔ دارالافتاء نے اپنے فتاویٰ جات شائع کرنے کابھی ایک وسیع سلسلہ شروع کررکھاہے۔ گذشتہ چند برسوں میں فتاویٰ لٹریچر میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ دینی مدارس کے فتاویٰ جات میں سے ممتاز فتاویٰ جات کے مجموعے بطورِ مثال حسب ِذیل ہیں: دار العلوم حقانیہ کا فتاویٰ حقانیہ، جامعہ اہلحدیث لاہور کافتاویٰ اہلحدیث، جامعہ تفہیم القرآن مردان کا تفہیم المسائل، جامعہ محمدیہ اہلحدیث گوجرانوالہ کا 'احکام و مسائل' از مولانا شیخ الحدیث عبدالمنان نورپوری، درس گاہ حضرت میاں صاحب کا 'فتاویٰ نذیریہ' ازمیاں سیدنذیر حسین دہلوی، جامعہ بنوریہ کراچی کا 'احکام ومسائل' از مولانا یوسف لدھیانوی، فتاویٰ سلفیہ از مولانا محمداسماعیل سلفی، فتاویٰ ثنائیہ از مولانا ثناء اللہ امرتسری، اور فتاویٰ عزیزی از شاہ عبد العزیز محدث دہلوی وغیرہ
٭ تمام بڑے دینی مدارس میں شعبہ ہائے تصنیف و تالیف بھی سالہا سال سے سرگرمِ عمل ہیں۔ دینی مدارس کے معروف شعبہ ہائے تصنیف و تالیف میں دارالعلوم کراچی کا شعبۂ تصنیف و تالیف، دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کا مؤتمر المصنّفین، جامعہ لاہور الاسلامیہ کا مجلس التحقیق الاسلامی، جامعہ اثریہ جہلم کامجلس التحقیق الاثری، جامعہ ابی ہریرہ نوشہرہ کاشعبۂ تصنیف و تالیف، جامعہ سلفیہ فیصل آباد کاادارۃ البحوث العلمیہ اور جامعہ سلفیہ بنارس کا ادارۃ البحوث العلمیہ، جامعہ فاروقیہ کراچی اور جامعہ بنوریہ کراچی کے شعبہ ہائے تحقیق وغیرہ شامل ہیں۔
٭ بعض دینی مدارس نے اس کے ساتھ اپنی کتب کی اشاعت بھی خود شروع کررکھی ہے، ان میں بعض اشاعت ِکتب کا کام اسی نام سے کرتے ہیں جبکہ بعض کے مکتبے مستقل ناموں سے ہیں مثلاً دارالعلوم کراچی کامکتبہ دارالعلوم، جامعہ ابی ہریرہ نوشہرہ کا'القاسم اکیڈمی' وغیرہ، جامعہ اہل حدیث لاہور کی 'محدث روپڑی اکیڈمی' وغیرہ
٭ دینی رسائل و مجلات : ہرنمایاں دینی مدرسہ اپنا ماہوار دینی رسالہ شائع کرتا ہے۔٭ دینی مدارس سے شائع ہونے والے رسائل میں پہلے درج کردہ رسائل کے علاوہ ماہنامہ الحق (جامعہ حقانیہ، اکوڑہ خٹک)، ماہنامہ الشریعہ (الشریعہ اکادمی،گوجرانوالہ)، ماہنامہ ترجمان الحدیث (جامعہ سلفیہ، فیصل آباد)، ماہنامہ البلاغ (دارالعلوم کراچی)، ماہنامہ حرمین (جامعہ اثریہ جہلم)، ماہنامہ بینات (جامعہ بنوریہ کراچی) ماہنامہ الفاروق عربی، انگریزی، اردو (جامعہ فاروقیہ، کراچی)، مجلہ التراث (جامعہ سلفیہ بلتستان)،ماہنامہ ضیائے حرم (جامعہ غوثیہ بھیرہ)، ماہنامہ دارالعلوم (دارالعلوم، دیو بند)، ماہنامہ محدث (جامعہ سلفیہ، بنارس) اور ماہنامہ 'السراج' ماہنامہ نور الحبیب بصیر پور، ماہنامہ شمس الاسلام بھیرہ اور پندرہ روزہ 'صحیفہ اہل حدیث' کراچی وغیرہ شامل ہیں۔ ان رسائل میں تحقیقی نوعیت کے مضامین بھی شائع ہوتے ہیں۔
٭ مذکورہ بالا تفصیلات صرف ان شعبہ ہائے تصنیف و تحقیق، لائبریریوں اور مجلات کی ہیںجو دینی مدارس سے شائع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں دینی صحافت، دینی لائبریریوں یااشاعتی اداروں کو اس میں شامل نہیں کیا گیا۔ اگر اس نوعیت کا ایک مطالعہ بھی کیا جائے کہ دینی مدارس کے فضلا نے دینی مدارس سے سند ِفراغت کے بعد کس طرح انہی میدانوں میں اپنا کام جاری رکھا تو یہ معلوم ہوگا کہ ان کے کام کاحجم بہت زیادہ ہے لیکن چونکہ یہ ہمارے موضوع سے متعلق نہیں، اس لئے اس پر اکتفا کیاجاتاہے۔
ملک کے نامو ردینی جرائد جو دینی مدارس کے ترجمان کے طورپر شائع نہیں ہوتے ، ان کو اس میں شامل نہیں کیا گیا۔ مثلاً ترجما ن القرآن، مجلہ الدعوۃ، میثاق، ایشیا، بیدار ڈائجسٹ، بیداری حیدرآباد، خواتین میگزین، السیرہ العالمی، تعمیر افکار، افکار معلم، الاعتصام اور 'فقہ اسلامی' کراچی وغیرہ۔
ایسے نشریاتی یا تحقیقی ادارے جو دینی مدارس سے ملحق نہیں لیکن مدارس کے فضلا ہی وہاں سرگرمی سے مصرو فِ عمل ہیں۔ ان میں مکتبہ دارالسلام ، ادارئہ اسلامیات، مکتبہ قدوسیہ، مکتبہ ضیاء القرآن، دار الاندلس، مکتبہ سید احمد شہید، مکتبہ سلفیہ، دار الاشاعت کراچی اور صدیقی ٹرسٹ وغیرہ شامل ہیں۔ ایسے ہی مدارس کے فضلا کے زیر نگرانی کام کرنے والے مکتبے اور تحقیقی اداروں کی فہرست بھی بہت طویل ہے جن کے لئے مستقل جائزہ کی ضرورت ہے۔
دینی مدارس میں عمل تحقیق کا ایک جائزہ
گذشتہ صفحات میں دینی مدارس میں تحقیق کی جو تفصیلات پیش کی گئی ہیں، ان کی نوعیت اور معیار کے علاوہ موضوعات اور افادیت کے اعتبار سے بھی ایک تفصیلی بحث کی ضرورت ہے۔ زیر نظر مضمون میں ہماری پیش کردہ تفصیلات سے جہاں ان مدارس میں نفس ِتحقیق کا وجود ثابت ہوتا ہے، وہاں مدارس کی صحافت کا ایک مختصر جائزہ بھی سامنے آتا ہے۔ جہاں تک ان کے معیار اور موضوعات کی بات ہے تو چند نکات کی صورت میں اپنا مختصر جائزہ ہم پیش کئے دیتے ہیں لیکن اس کا جائزہ اس حوالے سے بھی لینے کی ضرورت ہے کہ ملک ِعزیز میں تحقیق یا اسلامی موضوعات پرمطالعے کے رجحان کی مجموعی صورتِ حال کیا ہے؟ ایسے ادارے جو اسلامی موضوعات پر تحقیق کے لئے حکومت کے فنڈ سے کام کررہے ہیں، انہوں نے تحقیق کے میدان میں کیا کردار ادا کیا ہے ؟
بعض حضرات جن کی نظر صرف دینی صحافت پرعیب جوئی کی ہے، وہ بعض دینی جرائد ورسائل پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں بعض عوامی درجے کے اشتہار یا ضرورتِ رشتہ کی خبریں بھی آتی ہیں۔ دوسری طرف ملک کی مایہ ناز صحافت مثلاًروزنامہ جنگ اپنے سنڈے میگزین میں جس طرح عطائی حکیموں کے فحش اشتہارات کو جگہ دیتا ہے، اس کو یہ لوگ نظر انداز کردیتے ہیں۔ ایک قوم کے رجحانات اس کے تمام افرادپر یکساں طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ملکی حالات اور زمینی حقائق سے بالاتر ہوکر مثالی تصورات پیش کردینا تو بڑا آسان ہے لیکن دینی مدارس کو درپیش مشکلات اور دستیاب وسائل کی روشنی میں ان کی کاوشوں کااعتراف نہ کرنا صریح زیادتی ہے۔
تحقیق کے معیار اور موضوعات کی کسوٹی پر اگر یونیورسٹیوں کے مقالات کو پرکھا جائے تو بہت سے عجوبہ روزگار نمونہ ہائے تحقیق دیکھنے کو ملیں۔ یونیورسٹی کے پروفیسرز کے ریسرچ پیپرز کا سراغ لگایا جائے تو ان میں حقیقی ریسرچ کے بارے میں بھی بہت کچھ بحث کی جا سکتی ہے۔ ان اُمور کو مدنظر رکھتے ہوئے دینی مدارس کے پیش کردہ موضوعات اور تحقیق کے معیار پر چند نکاتی تبصرہ نذرِ قارئین ہے :
1. مدارس میں ان موضوعات کو زیادہ تر موضوعِ بحث بنایا جاتا ہے جن پر پہلے سے تحقیق اور دلائل کے انبار موجود ہیں اور چند موضوعات پر جواب درجواب کاطویل سلسلہ ہے۔
2. مصادرِ شریعت پر کام کرنے کی بجائے شخصیات اور ان کے ملفوظات پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔
3. اتحادو اتفاق کی بجائے اس لٹریچر میں افتراق و انتشار کا رجحان پایا جاتاہے۔ حق کو واضح کرنے کی بجائے اپنے موقف کی تائید میں دلائل کو جمع کیا جاتا ہے۔
4. درپیش مسائل اور سلگتے سوالات کے بجائے گڑے مردے اُکھاڑے جاتے ہیں۔ وسیع النظری کی بجائے تنگ خیالی غالب ہے۔ عبادات و الٰہیات پر بیش بہا لٹریچر کے بعد سیاست واقتصاد اور معاملات و معاشرت پر تحقیق کارجحان مفقود ہے۔ البتہ گذشتہ برسوں میں اقتصادیات پر کافی کام سامنے آیا ہے۔
5. دیگر مذاہب اور اسلام کو درپیش عالمی چیلنجز کے حوالے سے کام ہونا باقی ہے۔
6. عبارت سلیس اور عام فہم ہونے کی بجائے عربی اُسلو ب میں لکھی جاتی ہے ۔ خصوصا جدید تعلیم یافتہ حضرات کیلئے یہ اصطلاحات مشکل، ناقابل فہم اور اُسلوب مغلق اور مبہم ہوتا ہے۔
7. کام کی تعدادزیادہ لیکن افادیت اور اشاعت کا دائرہ محدود ہے۔
لیکن یہ امر قابل تعریف ہے کہ دینی مدارس کے فضلا کی تحریریں قرآن و حدیث سے بکثرت استشہاد، ائمہ اسلاف کے اقوال سے جابجا استناد سے مزین ہوتی ہیں اور ان میں عقل پرستی کی بجائے نصوصِ شرعیہ کی بنا پر موقف قائم کیا جاتا ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ تبصرہ دینی مدارس میں علم وتحقیق کے بجائے اس خرابی کا عکاس ہے جو سامراجی غلبہ کے بعددینی حلقوں میں سرایت کر گئیں جن میں ایک طرف دینی حلقے علمی مکاتب ِفکر کے بجائے فرقوں اوران کی تنظیمی یونٹوں کی شکل اختیار کرتے گئے۔ دوسری طرف سامراج کے جبر کے مقابلہ میں دینی ذہن کو جو مسجد اور خانقاہوں میں بند ہونے پر مجبور ہونا پڑا تو اس کے نتیجہ میں وہ اجتماعی میدانوں یا معاشرت،معیشت اور سیاست میں جولانی نہ دکھا سکے۔اسی دوران سامراجی کوششوں سے جب مسیحی،آریائی، سناتن، دہری، شدھی وغیرہ مذہبی تحریکوں کواپنے پر پرزے پھیلانے کا موقع ملا تو میدانِ مناظرہ گرم ہو گیا جوبعد میں بڑھتا ہوا خود اسلامی مکاتب ِفکر میںباہمی تناؤ کا باعث ہوا اور اس طرح شیعہ کے تین امامی فرقوں آغا خانی،جعفری اور زیدی کے بعد اہل سنت کوحنفی(دیوبندی) حنفی(بریلوی) اوراہل حدیث میں تقسیم کرنے پر منتج ہوا۔الغرض اس تبصرہ کا تعلق نفس تحقیق کے بجائے ان تحقیقی رجحانات سے ہے جو سوئے اتفاق سے مذہبی حلقوں کی نفسیات میں جڑ پکڑ گئے اور اس سے ان کے کردار اور اثر اندازی کی صلاحیت کو خاطرخواہ نقصان ہوا۔
تجاویز
چونکہ ہمارا موضوع تحقیق وتصنیف ہے، لہٰذا ان مذہبی رجحانات پر زیادہ طویل گفتگو کے بجائے آخر میں دو تجاویز پر بات کو ختم کیا جاتا ہے جن میں ایک جدید جامعات میں ہونے والی تحقیق کے بارے میں اور دوسری اربابِ دینی مدارس کے لئے :
1. تحقیق کو حقیقت آشنا کیا جائے: یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی ریگولر شروع ہونے کے بعد اُمیدواروں کا ایک تانتا بندھا ہوا ہے، دوسری طرف تحقیق طلب موضوعات کی یونیورسٹیوں میں ہمیشہ سے قلت رہی ہے۔ ادھر یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں اسلام کے حوالے سے نہ صرف ہزاروں موضوعات پر کام ہونا باقی ہے بلکہ دنیا بھر میں اسلام کو درپیش مسائل کے حوالے سے بے شمار موضوعات تحقیق طلب ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں فرضی موضوع پر تحقیق کرنے یا کسی سابقہ تحقیق میں معمولی سی عنوان کی تبدیلی کرکے تحقیق کرنے کے بجائے مناسب ہوگا کہ ماہرین اجتماعیات کے علاوہ استشراق اور تقابل ادیان وثقافت کے مختلف شعبہ ہائے حیات کے ماہرین کو موضوع کے تعین اور تجویز کرنے میں شامل کیا جائے۔ اس سلسلے میں پاکستان میں مصروفِ عمل اسلامی اداروں مثلاً اسلامی نظریاتی کونسل، وفاقی شرعی عدالت، اسلامی بینکنگ کونسل اور بیت المال وغیرہ کے نمائندوں کو ایڈوانس سٹڈیز بورڈ کے اجلاس میں بھی شریک کیا جانا چاہئے اور ان کو درپیش مسائل پر طلبہ سے تحقیق کرائی جائے جس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ تحقیق حقیقی مسائل پر ہوگی بلکہ محقق کودورانِ تحقیق سرپرستی اور درکار وسائل بھی حاصل رہیں گے نیز تحقیق کی تکمیل کے بعد انہی اداروں میں اس کو ملازمت کے مواقع ملنے کے علاوہ تحقیق جلد از جلد شائع ہوکر اپنا مقصد ِتحقیق بھی پورا کرے گی۔
مغرب کی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم کے اداروں کو تجارتی و اجتماعی ادارے اسی بنیاد پر مالی اعانت فراہم کرکے اپنے مطلوبہ موضوعات پر ان سے تحقیق کراتے ہیں۔ اس سلسلے میں توجہ دینے اور پالیسی بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔
2. تحقیق کے ذریعے مسائل کو حل کیا جائے نہ کہ مسائل پیدا کئے جائیں: اس تجویز کا رئوے سخن بالخصوص دینی مدارس کی طرف ہے۔ تحقیق کسی موضوع پر درپیش مشکل کے حل کے لئے ہوتی ہے۔ کسی موضوع پر منہجِ تحقیق میں در پیش مشکل اور مسئلہ کا تعین کرنا اسی لئے ضروری ہوتا ہے تاکہ تحقیق کے ذریعے اس کا حل نکالا جا سکے۔ ہمارے ہاں ایسی تحقیقات بھی سامنے آتی ہیں جن سے نہ صرف مسائل جنم لیتے ہیں بلکہ انتشار و افتراق بھی پیدا ہوتاہے بلکہ کئی ایسے نو افلاطون پیدا کیے جاتے ہیں جو اسلامی مسلمات کے خلاف مسلسل تشکیک کا کام کرتے ہیں یا معروف اصطلاحات کو نئے معانی پہناتے ہیں بلکہ تعبیر نو کے نام پر اسلام کی تشکیل نو کا نعرہ تو اب فیشن بنتا جا رہا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ تحقیق کے ذریعے ایسی مشکلات کا خاتمہ کیا جائے اور ترقی کے زعم میں ماضی سے کٹنے کی بجائے اسی کا ارتقا اور اس سے قرب کے راستے دریافت کئے جائیں۔ ایسے موضوعات میں وہ تمام عنوانات شامل ہوسکتے ہیں جن میں مختلف مکاتب ِفکر کے مابین حساس موضوعات پرمبنی برانصاف تحقیق کے ذریعے ہر دو فریق کے لیے معتدلانہ موقف کی نشاندہی کی کوشش کی جائے۔
آخر میں اس تبصرے پر ہم اپنی بات کو ختم کرتے ہیں کہ بحیثیت ِمجموعی دینی مدارس اور شعبہ ہاے اسلامیات میں تحقیقی رجحانات رو بہ زوال ہیں ۔ قبولیت ِاسلام کے رجحانات میں جوں جوں اضافہ ہورہا ہے توں توں اسلام کو نئے مسائل سے بھی واسطہ پیش آرہا ہے۔ ان حالات میں اسلام سے وابستہ حضرات کی ذمہ داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں۔
دیگر علوم میں مختلف حوالوں سے جو تحقیقی کام ہورہا ہے، اس لحاظ سے بھی اسلامی علوم کی تعلیم او رتحقیق کی صورتحال کسی طور تسلی بخش نہیں ہے اور اس کے لئے سب کو اجتماعی جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ دینی مدارس ہوں یا یونیورسٹیوں کے شعبہ ہائے اسلامیات وعربی، دراصل وہ ایک منزل کے راہی ہیں۔ آپس میں معلومات اورتجربوں کے تبادلے سے منزل کی طرف بہترطور پر قدم اٹھائے جاسکتے ہیں۔
ملک بھر میں قائم حقیقی اسلامی تحقیقی مراکز کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے، اس کے باوجود تحقیقی کام سے اہل علم کا ناطہ ابھی تک ٹوٹا نہیں ہے۔ اگر احساس بیدار ہوجائے تو یہیں سے اسلام کی درخشندہ تحقیقی روایات کا احیا کیا جاسکتا ہے۔اقدام سے قبل تحقیق کسی بھی کام میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے، اور زندہ قومیں اپنے تحقیقی کام کی بدولت ہی مسائل کی حقیقی وجوہ تک پہنچ کر ان کا حل تلاش کرتی ہیں۔اس لحاظ سے ہمیں اسلامی موضوعات پر تحقیقی رجحانات کی بطورِ خاص حوصلہ افزائی کرنی چاہئے اور اس عمل میں اپنا حصہ ڈالتے رہنا چاہئے۔ (حافظ حسن مدنی)
٭ دینی حلقوں کو اپنی تحقیق میں کن رجحانات کو اختیار کرنا چاہئے، اس سلسلے میں معروف محقق
اور فاضل قلمکار مولانا ارشاد الحق اثری کے درج ذیل مضمون کا مطالعہ مفید ہوگا:
'دینی تعلیم وتحقیق او رعصری تقاضے ' اداریہ ماہنامہ محدث لاہور [دسمبر ۱۹۹۸ء]
٭ ایسے ہی دینی حلقوں کے تحقیقی رجحانات کی اصلاح کے لئے مولانا زاہد الراشدی کے اسی سیمینار میں پڑھے جانے والے مختصر مقالے میں بھی غور وفکر کے نکات موجود ہیں، دیکھئے
'دینی مدارس میں تحقیق وتصنیف کی صورت حال' اداریہ ماہنامہ 'الشریعہ' گوجرانوالہ [اگست ۲۰۰۴ء]
اور 'دینی مدارس : تصنیف وتحقیق کی ضرورت' نوائے قلم روزنامہ پاکستان [۲۷ جولائی ۲۰۰۴ء]