جہاں قومیں بنتی ہیں!
مشرقی ساحل پر امریکہ کے شمالی کونے میں بوسٹن شہر آباد ہے۔ دورِ حاضرکی دو عظیم درس گاہیں یہاں واقع ہیں۔ نام ان کے ہارورڈ اور ایم آئی ٹی ہیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ دونوں پاس پاس واقع ہیں۔ اتنا قریب کہ زائر چاہے تو ایک کے کیمپس سے پیدل دوسری کے احاطہ میں چلا جائے۔ یہ وہ خوش نصیب جگہیں ہیں جہاں نہ صرف علم کی انتہائی بلندیوں تک رسائی کا اہتمام ہوتا ہے،بلکہ یہاں پڑھنے پڑھانے والے ہر دم نئی کہکشاؤں کی تلاش میں مگن رہتے ہیں۔ دنیابھر سے ذہین نوجوان ادھر کا رخ کرتے ہیں، اپنے اپنے فن میں مانے ہوئے ماہرین کی نگرانی میں اپنی اپنی بساط کے مطابق تحصیل علم کے بعد وہ دنیا میں بکھر جاتے ہیں۔ اس لئے نہیں کہ بے نام ذرّوں کی طرح اپنی ہستی مٹا دیں بلکہ اس لئے کہ عالمی سطح کی اشرافیہ (Elites) کی صفوں میں شامل ہوکر وہ اپنی قابلیت کا لوہا منوائیں اور کھلم کھلا یا درپردہ مخلوقِ خدا پہ راج کریں۔ ان کے ہاتھوں اَن گنت لوگوں کی تقدیریں بنتی بھی ہیں اور بگڑتی بھی۔
'ہارورڈ' عام یونیورسٹی ہے، جہاں سائنس، عمرانیات، ادب اور روایتی مضامین میں مہارت تامہ حاصل کی جاتی ہے۔ ایم آئی ٹی ٹیکنالوجی کے میدان میں حرفِ آخر ہے۔ امریکہ کی مادّی ترقی کا انحصار زیادہ تر ان لوگوں کے مرہونِ منت ہے جو ان جیسی دانش گاہوں سے فیض یاب ہوکر میدانِ عمل میں اُترے اور نت نئی ایجادات کے نہ ختم ہونے والے سلسلہ کا موجب بنے۔ وہ روشنی اور جلا جو ذہنوں کویہاں عطا ہوتی ہے، انہیں کندن بنا دیتی ہے۔ کوئی مانے نہ مانے وہاں سے اعلیٰ درجوں میں کامیاب ہونے والے لوگ عام انسانوں سے اعلیٰ مخلوق ہوتے ہیں۔ قوتِ فکر نمایاں ہوتی ہے، تخلیقی اعتبار سے وہ بہت آگے ہوتے ہیں۔ ان میں سے کئی گھپ اندھیروں میں ایسے راستے ڈھونڈ نکالتے ہیں جن کی تلاش میں مدتوں سے ہزاروں پنڈت اور جوگی سرگرداں رہے ہوتے ہیں اور یوں کاروانِ حیات آگے بڑھتا رہتا ہے۔ یہی لوگ انسانیت کا جوہر اور ترقی کے عمل کے ضامن ہیں۔ انہی کے طفیل کائنات اپنے رازوں سے پردہ اُٹھاتی ہے اور وہ خدا کے راز دانوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔
یہ مخفی راز ان بڑے لوگوں پرکھلتے ہیں جنہیں قدرت نے قوموں کی تربیت کا فریضہ سونپا ہوتا ہے۔ جواہر لال اُنہی میں سے ایک تھے۔ دوربین تھے، اس لئے جب مغربی دنیا نے مہرباں ہوکر مدد کرنا چاہی تو انہوں نے ایم آئی ٹی کی طرح کے ٹیکنالوجی انسٹیٹیوٹ Technolgy Institutes مانگ لئے۔ ایک نہیں، اکٹھے چھ۔نہ صرف یہ ادارے معرضِ وجود میں آگئے بلکہ یہاں اعلیٰ ترین معیارِ تعلیم کا بھی خاطر خواہ بندوبست کیا گیا۔ سرکاری ادارے بنتے ہی عموماً تنزل کا شکار ہوجایاکرتے ہیں،یہاں ایسا نہیں ہوا۔ معیار برقرار رکھا گیا۔ اساتذہ اور تجربہ گاہوں کے معیار پر کسی قسم کی رعایات روانہ رکھی گئیں۔ داخلہ بالکل میرٹ پر ہوتا رہا۔ مقابلہ کے امتحان کے ذریعہ جس کے طریق کار میں شک و شبہ کی گنجائش نہ تھی۔ اُمیدوار یوں ٹوٹ پڑتے جیسے شہد پر مکھیاں۔ قابل ترین ہی داخلہ پاتے۔ طلب اور رسد کا عالم یہ کہ گذشتہ سال ایک لاکھ اٹھتر ہزار امیدواروں میں سے تین ہزا رپانچ سو کو داخلہ مل پایا۔
طالب علموں کے جوش و خروش کا یہ عالم دیکھا تو سرکار نے اس نوعیت کے اور بہت سے ادارے قائم کئے۔ بڑی تعداد میں انجینئرنکلنے لگے۔ قابلیت میں یہ کسی سے پیچھے نہ تھے۔ انتھک محنت کے عادی، مقابلہ کی فضا سے گھبراتے نہ تھے۔ اپنے قدم جمانے کے لئے وہ سنگلاخ سے سنگلاخ زمین پر اُترنے کے لئے تیار تھے۔ انہوں نے باہر کی دنیا میں بھی بڑا نام کمایا اور ملک کے اندر بھی انقلاب برپا کردیا۔ بنگلور کو نہ صرف کیلے فورنیا کی 'سیلی کون' (Silicon) وادی جو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت میں سرفہرست ہے کے برابر لاکھڑا کیا بلکہ ایک اندازہ کے مطابق وہاں ایک لاکھ بیس ہزار ماہر کام کرتے ہیں، جب کہ بنگلور میں ان کی تعداد ڈیڑھ لاکھ ہے۔ اب حیدرآباد ، مدراس ، ممبئی اور دہلی بھی پیچھے نہیں رہے۔ ہندوستان سات ارب ڈالر سالانہ آئی ٹی خدمات I.T.Services کی برآمد سے کما رہا ہے۔
اس شعبہ کی معروف مشاورتی فرم مکنزے (Mckinsey) نے اندازہ لگایا ہے کہ ۲۰۰۸ء تک ہندوستان آئی ٹی برآمدات سے ۵۷ملین ڈالر سالانہ کما رہا ہوگا۔
یہ کمال صرف ہندوستان تک ہی محدود نہیں،جہاں بھی ترقی ہوئی ہے، اعلیٰ تعلیم کی برکت سے ہی ہوئی ہے۔ صنعتی انقلاب سب سے پہلے انگلستان میں آیا۔ برطانیہ تعلیم کے میدان میں صدیوں تک صف ِاوّل میں رہا، مگر اب کئی دہائیوں سے وہاں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ وہ بہتر سے بہترین کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔اس 'پسماندگی' کی کسک اتنی شدید ہے کہ ٹونی بلیر نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے کھلم کھلا اعلان کیا کہ میر ی ترجیحات میں تعلیم، تعلیم اور تعلیم سرفہرست ہوں گی۔ ان کی حکومت برابر مغز ماری میں مبتلا ہے کہ کیسے عظمت کی چوٹیوں کو پھر سے سرکرے...!!
جاپان کا قصہ توسبھی کو معلوم ہے۔مائجی (Meiji) انقلاب کیونکر آیا۔ اس نوجوان شہنشاہ نے رعایا کے سامنے ایک حلف اٹھایا تھا جس میںیہ عہد شامل تھا: ''دنیا بھر سے علم حاصل کیا جائے گا تاکہ سلطنت کی بھلائی اور بہبود میں اضافہ کیا جائے۔'' پھر ساری قوم ہاتھ دھو کر تعلیم کے پیچھے پڑ گئی۔ نونہالوں کو کتابوں سے لاد دیا گیا۔ سائنس، ادب اور ٹیکنالوجی تو لازمی مضمون تھے ہی، ساتھ ہی سماجی اقدار اور اخلاقیات کو نصاب میں شامل کردیا گیا۔ جدید اور قدیم کا ایسا خوبصورت امتزاج پیدا ہوا جس پر قربان ہونے کو جی چاہے۔ ٹیکنالوجی میں وہ مہارت حاصل کی کہ قدرتی وسائل کے نہ ہوتے ہوئے بھی صنعتی میدان میں سب کو مات کردیا۔ اپنے کلچر کا دامن البتہ مضبوطی سے تھامے رکھا۔ عجزوانکسار اپنی جگہ قائم رہا۔ اس عظیم قوم کے کسی فرد سے ملئے تو اس قدر جھک جھک کر کورنش بجا لائے گا کہ اس کی کمر میں موچ آجانے کا خدشہ لاحق ہونے لگے گا۔خوش دل اور کھلی مسکراہٹ کا تو جواب نہیں۔ ہوٹل کا دربان آپ کو دیکھتے ہی سلام کرتے ہوئے جھکے گا۔ پھر لپک کر چھتری اُٹھائے گا اور تقریباً دہرا ہوتے ہوئے اسے آپ کی خدمت میںپیش کرے گا۔ اس کا چہرہ خوشی اور طمانیت سے تمتا رہا ہوگا۔ یہ سارا جذبہ ، یہ مخلصانہ خدمت بالکل بے غرض، بغیر کسی لالچ کے۔ چونکہ بخشش(Tip) وہاں نہ صرف قانوناً منع ہے بلکہ آپ دینا چاہیں بھی تو لیتا کوئی نہیں۔ جاپان میں کم از کم ان گناہ گار آنکھوں کو تو ایک گداگر بھی نظر نہیں آیا۔ غیرت شاید اسی چیز کا نام ہے۔ افسوس کہ یہ نہ صرف تیمور کے گھر سے رخصت ہوئی بلکہ اسلامی دنیا کے بیشتر حصے سے بوریا بستر لپیٹ گئی۔
فرانس کے نظامِ تعلیم کی نمایاں خصوصیت وہاں کے عظیم سکول ہیں جن میں داخلہ قومی سطح پر منعقد ہونے والے مقابلہ کے امتحان کے ذریعہ ہوتا ہے۔ جو خوش قسمت داخل ہوجاتے ہیں انہیں تین سے پانچ سال تک وہاں خوب رگیدا جاتاہے۔ کامیاب ہوکر جو نکلتے ہیں وہ ایسے گوہر تابدار ہوتے ہیں جنہیں بے شمار ادارے ماتھے کا جھومر بنانے کیلئے بے تاب ہوتے ہیں۔
اس دوڑ میں ہم کہاں ہیں؟ نکتہ آغاز سے بھی پیچھے بلکہ مسلسل پھسلتے ہوئے... ہر لمحہ منزل ہم سے دور بھاگتی ہوئی۔ ادارے تو کافی ہیں؛ معیار نہ ہے، نہ اس کی فکر ہے۔ خود غرضی کی چادر اوڑھے سب محو ِخواب ہیں۔ سرسید سے کہو قبر سے اُٹھے اور ان گراں خوابوں کو جگائے۔ یہ بھاری پتھر ان سے بھی اکیلے شاید نہ اٹھایا جاسکے۔ قافلہ عشاق کی ضرورت ہوگی جس میں آپ کو مجھے اور سب کو شامل ہونا پڑے گا۔ یاد رہے کہ قائداعظم نے کہا تھا کام کام اور کام۔ دورِ حاضر کا تقاضا ہے کہ تقدیر بنانا ہے تو تعلیم، تعلیم اور تعلیم پر تمام تر توجہ اور وسائل مرکوز کردیں۔
تعلیم کے فروغ کے لیے ان قوموں کے تعلیمی رجحانات ہمارے لیے ایک درخشندہ مثال کی حیثیت رکھتے ہیں، اگر مسلمان اپنی کھوئی منزل حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے اسلاف کی میراث اور علوم کا احیا کرنا ہوگا جو ان سب سے بڑھ کر علوم کے والہ وشیدا تھے ، انہوں نے تحصیل علم کے لیے میلوں سفر طے کیا اور مسلمانوں کو علم وتحقیق سے مالا مال ایک قوم بنا دیا۔