برصغیر کا نظامِ تعلیم اور مشرقی علوم؟
لارڈ میکالے کی تعلیمی یادداشت برصغیر پاک وہند کی تعلیمی تاریخ کی اہم ترین دستاویز ہے جو اپنے وقت ِتحریر سے اب تک ماہرین تعلیم کی شدید تنقید کا ہدف رہی ہے۔ اس کج نہاد خشت ِاوّل کے سبب برصغیر پاک وہند میں قومی تعلیمی زندگی کی عمارت صحیح طور پر تعمیر نہ ہوسکی۔ ہند کے گورنر جنرل لارڈ ولیم بیٹنک کو ۲؍فروری ۱۸۳۵ء کو پیش کی جانے والی یہ یادداشت ہندوستان میں پہلی دفعہ ۱۸۵۵ء میں مدراس کی 'ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن' نے شائع کی، بعد میں برطانیہ کے ایک رسالہ نے اپنی ایک مکمل اشاعت اسی یادداشت کے لئے مخصوص کردی۔ اس یادداشت کا اصل نسخہ کھوجانے کی وجہ سے مترجم موصوف نے انڈیا آفس لائبریری لندن سے نکلوا کراس کا ترجمہ کیا۔میکالے کی اس یادداشت کا مختصر پس منظر حسب ِذیل ہے :
۱۷۷۲ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے وارن ہیسٹنگزکو بنگال کا پہلا گورنر جنرل مقرر کیا، ۱۸۰۵ء میں گورنر بنگال کو گورنر جنرل ہند کہا جانے لگا، اس کے بعد پہلی بار ۱۸۱۳ء کے برطانوی ایکٹ کی دفعہ ۵۳ کی رو سے برصغیر کے تعلیمی نظام میں انگریزوں نے ایک لاکھ روپے کی گرانٹ اس غرض سے منظور کی کہ اس سے برصغیر میں ادبیات کے احیا کا مقصد پورا کیا جائے اور ملک کے فضلا کی ہمت افزائی کی جائے۔ اس گرانٹ کی عطا گویا انگریز حکومت کی طرف سے اس ذمہ داری کو قبول کرنے کا پہلا اظہار تھا جس کی رو سے وہ محکوم قوم کی تعلیمی ذمہ داریاں پورا کرنا چاہتی تھی۔
تعلیم کی سرپرستی کے اُصولی فیصلہ کے بعد ۱۸۱۴ء میں انگریز حکومت میں دو مکتب ِفکر پیدا ہوگئے، اس سے قبل حکومت نے تعلیمی پروگرام ہی مرتب نہ کیا تھا، جس میں کچھ خوف فارسی زبان کا بھی تھا۔ ۱۸۳۲ء میں تحریر شدہ لارڈ مٹکاف کی ایک یادداشت کے مطابق ''فارسی زبان عوام میں بہت مقبول ہے، تمام طبقے اس کے علم کو ضروری خیال کرتے ہیں، یہ زبان شیریں، جامع اور آسان ہے اور ہندوستان کی تمام زبانوں میں سے زیادہ سمجھی جاتی ہے۔'' اسی بنا پرفورٹ ولیم کالج، کلکتہ (قیام:۱۸۰۰ء) میں انگریز حکام کو مقامی زبانوں کی تدریس کرائی جاتی تھی لیکن یہ حاکمانہ اَنا کے سراسر خلاف تھا، اس لئے دونوں مکاتب ِفکر کا اس امر پر تو اتفاق تھا کہ موجود دفتری زبان فارسی کا توخاتمہ کردیا جائے اور انگریزی کو تدریجا ًاس کی جگہ پر لایاجائے۔ اختلاف اس امر میں تھا کہ کیا بدستور سابق علوم کوبھی فروغ دیا جائے یا مغربی انداز میں انگریزی زبان اور علوم کی تعلیم پر ہی اکتفا کرلیاجائے ۔ اوّل الذکر کی قیادت ایچ ٹی پرنسپ (سیکرٹری ایشیاٹک سوسائٹی، کلکتہ) کررہے تھے جبکہ انگریزی کے پرجوش حامی لارڈ ٹی بی میکالے تھے جو نہ صرف انگریزی علوم کے مؤید تھے بلکہ مشرقی علوم کو غایت درجہ حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔میکالے اپنی اس رائے میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک سابق چیئرمین چارلس گرانٹ کی ۱۷۹۲ء میں تحریر کردہ ان تصریحات سے بہت زیادہ متاثر ہوئے تھے جو برطانوی پارلیمنٹ میں پیش کی گئی تھیں لیکن چارلس گرانٹ نے اس رپورٹ میں جن حواشی اور دلائل کا سہارا لیا ہے، وہ اکثر غیر صحیح ہیں۔اس سلسلے میں راجہ رام موہن رائے کے ایک مراسلہ مؤرخہ ۱۱؍دسمبر ۱۸۲۳ء بنام گورنر جنرل نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا جس میں انہوں نے سنسکرت کی تعلیم کی بھرپور مذمت کرنے کے علاوہ اس کی تدریس کو کارِلاحاصل قرار دیا ہے۔ اسی دوران ۱۸۲۳ء میں پبلک انسٹرکشن کی جنرل کمیٹی نے گورنر جنر ل ہند کو مشرقی ویورپی علوم کے حسین امتزاج کے متعلق رپورٹ ارسال کی،فروری ۱۹۲۴ء کے ایک کمیٹی مراسلہ میں ہندو ومسلم علوم کو برقرار رکھنے پرزور دیا گیا، اسی سال کے مراسلہ اگست میں متوقع مقامی عصبیتوں کے پیش نظر اصلاحی کام میں حزم واحتیاط پر زور دیا گیا او ریہ قرار دیا گیا کہ پیچھے رہ جانے والے مشرقی علوم کو جدید علوم سے ہم آہنگ کیا جائے تاکہ مشرقی علوم فروغ پائیں اور جدید علوم سے بھی متمتع ہوں۔ انگریز سرکار اور عوام میں نفرتیں اور غلط فہمیاں بھی نہ اُبھریں۔یہ مراسلہ اس وقت کی پبلک انسٹرکشن کمیٹی نے متفقہ دستخطوں کے ساتھ گورنر جنرل ہند کو پیش کیا۔ان تمام دستاویزات کے نتیجے میں دو طرح کے نقطہ ہائے نظر پیدا ہوئے۔ ایک وہ جو مشرقی علوم کو برقرا ررکھ کراس میں سائنس اور جدید علوم کی پیوندکاری کے حق میں تھا، اور دوسرا وہ جو انگریزی زبان کو بنیاد بنا کر نیا تعلیمی نظام رائج کرنا چاہتا تھا۔لارڈ میکالے اگر انصاف پسندی کا تھوڑا سا بھی مظاہر ہ کرتے تو ان کی اس یادداشت سے قبل دونوں نکتہ ہائے نظر نے اپنے اپنے دلائل خوب اچھی طرح نکھار کر پیش کردیے تھے، اور وہ ان میں سے موزوں اور مبنی بر حقیقت نظامِ تعلیم کی بنیادوں کی اچھی طرح نشاندہی کرسکتے تھے، لیکن انہوں نے مشرقی زبانوں میں موجود علوم کو توہمات کا پلندہ اور محض بیکار قرار دے کر ان کی گرانٹ بند کرنے کی سفارش کی اور عربی وسنسکرت کالجوں کو بند کرنے کا فیصلہ اس شدت سے دیا کہ اگر اسے نہیں مانا جاتا تو وہ اس تعلیمی مشن سے استعفیٰ دینے پر مجبور ہوں گے۔لارڈ میکالے کی سنگین زیادتی یہ ہے کہ اس نے ماتحت رعایا کو حقیقی علوم سے ہم کنار کرنے کی بجائے وقتی بنیادوں پر حکومتی تقاضوں کی تکمیل کے لیے ایسا طبقہ تیار کرنے کی پالیسی پر اصرار کیا جس سے حاکموں کا محض کام نکل سکے اور انہیں مقامی زبانوں کو سیکھنے کی بزعم خود ذلت سے بھی دو چار نہ ہونا پڑے یہ رویہ گویا رعایا کی تعلیمی ذمہ داریوں سے انحراف کے مترادف تھا۔علاوہ ازیں انگریزوں نے علوم کے حصول کے لیے خود یونانی، لاطینی اور عربی زبان سے جو رویہ اپنایا کہ ان میں موجود علمی مواد کو اپنی زبان میں منتقل کر کے اسے تونگر بنایا، نہ کہ انگریزی زبان کو ہی خیر باد کہا، انصاف کا تقاضا تھا کہ مشرقی زبانوں کے ساتھ بھی یہی مثبت اور مصلحانہ رویہ اپنایا جاتا۔اسی پس منظر میں میکالے کی اس رپورٹ کا مطالعہ کریں جس نے برصغیر کی تعلیمی قسمت کا فیصلہ زبانِ جبر سے تحریر کیا ... (حافظ حسن مدنی)
برطانوی گرانٹ کو جدید علوم پر صرف کیا جائے یا مشرقی علوم پر؟
تعلیماتِ عامہ کی کمیٹی میں شامل کچھ حضرات کا خیال ہے کہ اب تک اشاعت ِ تعلیم کے سلسلے میں انہوں نے جو راہِ عمل اختیار کی ہے، اس کا قطعی تعین برطانوی پارلیمان نے ۱۸۱۳ء میں کردیا تھا۔ اگر یہ رائے درست مان لی جائے تو اس کا مفاد یہ ہوگا کہ موجودہ طریق کار میں کوئی تبدیلی لانے کے لئے مجلس قانون ساز کو نیا ایکٹ وضع کرنا ضروری ہوگا۔
میں نے ان حالات میں یہی صحیح سمجھا ہے کہ درپیش مسئلے میں مختلف فیہ بیانات کی ترتیب میں حصہ لینے سے اجتناب کروں اور اپنی رائے کو اس وقت تک کے لئے محفوظ رکھوں جب کونسل آف انڈیا کے رُکن کے طور پر یہ مسئلہ باضابطہ طور پر میر ے سامنے پیش ہو۔
مجھے یہ باور نہیں آتا کہ پارلیمان کے اس ایکٹ کو لفظوں کے کسی بھی ردّوبدل سے وہ معنی پہنائے جاسکتے ہیں جو اس سے مراد لئے جارہے ہیں۔اس ایکٹ میں کوئی ایسی دفعہ نہیں ہے جس کی رُو سے ان خاص زبانوں اور علوم کی وضاحت ہوتی ہو جن کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس میں تو محض یہ ہے کہ ایک رقم اس مقصد کے لئے مخصوص کی گئی ہے کہ ادبی تخلیقات کا احیا اور ارتقا ہو۔ ہندوستان کے اہل علم کی حوصلہ افزائی کی جائے اور حکومت ِبرطانیہ کے زیر نگین علاقوں کے باشندوں میں سائنسی علوم کی ترویج و اشاعت ہو۔
ایک مخصوص طبقے کی جانب سے دلائل پیش کئے جارہے ہیں بلکہ ایک حد تک باور کرایا جارہا ہے کہ ادبیات سے پارلیمان کی مراد صرف عربی اور سنسکرت کی ادبیات ہوسکتی ہیں اور یہ کہ پارلیمان اہل علم یا فاضل باشندوں کامعزز لقب ایسے باشندوں کو نہیں دے سکتی تھی جو ملٹن کی شاعری، لاک کے فلسفہ ما بعد الطبیعات اور نیوٹن کی طبیعات سے واقف ہو۔بلکہ اس لقب سے وہ افراد مقصود ہیں جنہوں نے ہندوؤں کی مقدس کتب کُسّا گھاس کے استعمال کے تمام طریقوں اور دیوتائی گیان دھیان میں مراقبے کے مخفی اسرار کا مطالعہ کرلیا ہے۔محولہ بالا قانون کی یہ تعبیر مجھے کچھ زیادہ تسلی بخش معلوم نہیں ہوتی۔
اس کے متوازی اسی قسم کا مسئلہ لیجئے۔ فرض کیجئے کہ بادشاہِ مصر (ایک ملک جو کبھی یورپ بھر کی قوموں سے علمی عظمت میں گوے سبقت لے گیا تھا اور اب مرورِ زمانہ سے ان کے مقابلے میں پسماندہ ہے) ایک رقم اس مقصد کے لئے مخصوص کردیں کہ اسے ادبیات کے احیا وترقی میں خرچ کیاجائے اور مصر کے اہل علم کی حوصلہ افزائی کی جائے تو کیا اس بات سے کوئی شخص یہ نتیجہ نکالے گا کہ بادشاہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کی مملکت کے نوجوان سالہا سال قدیم مصری خط تصویری کا مطالعہ کرتے رہیں۔ او سی رِس fکی حکایت ِبے سروپا کے پس منظر میں گم نظریات کی چھان پھٹک میں لگے رہیں اور امکانی صحت کے ساتھ ان آداب و احترامات رسوم کی تحقیق کریں جو ازمنہ قدیم میں بلیوں اور پیازوں کے لئے ملحوظ رکھے جاتے تھے؟
کیا ان پراز روے انصاف یہ الزام آئے گا کہ انہوں نے روایات کے تسلسل کو منقطع کیا ہے۔ اگر بادشاہ اپنی نوجوان رعیت کو اس تحقیق میں لگانے کی بجائے کہ وہ مخروطی پتھر کے میناروںg کی حنوطی تحریرپڑھیں، انہیں یہ حکم دیں کہ وہ انگریزی اور فرانسیسی زبانیں سیکھیں اور اس طرح سائنسی علوم میں دسترس حاصل کریں جن کے حصول کے لئے یہ زبانیں کلیدی حیثیت رکھتی ہیں؟ جن الفاظ پرپرانے نظام برقرار رکھنے کے حامی زیادہ اعتماد کررہے ہیں، وہ الفاظ اُن کے نقطہ نظر کی صحیح ترجمانی نہیں کررہے اور الفاظ مابعد، برخلافِ ازیں قطعی طور پر فیصلہ کن معلوم ہوتے ہیں۔
یہ ایک لاکھ روپیہ صرف 'ہندوستان میں ادب کے احیا'... یہ وہ جزوِ جملہ ہے جس پر ان کی تمام تشریحات کا دارو مدار ہے... کے لئے ہی مخصوص نہیں کیا گیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی مذکور ہے کہ حکومت ِبرطانیہ کے زیرنگیں علاقوں کے باشندوں میں سائنسی علوم کے تعارف اور ترقی کے لئے بھی یہ رقم صرف کی جانا ہے۔یہی الفاظ اس امر کیلئے کفایت کرتے ہیں کہ ہم وہ تمام تبدیلیاں برپاکرنے کے مجاز ہیں، جن کے لئے میں جدوجہد کررہا ہوں۔
اگر کونسل کے اراکین میرے نقطہ نظر سے متفق ہیں تو اس خصوص میں کوئی نیا ایکٹ وضع نہیں کرنا پڑے گا۔ اگر انہیں اختلاف ہے تو پھر میں تجویز کروں گا کہ ایک مختصر سے ایکٹ کے ذریعے سے ۱۸۱۳ء کے چارٹر کی اس دفعہ کو منسوخ کردیا جائے جس سے یہ اُلجھن پیدا ہوئی ہے۔وہ دلیل جو میرے ذہن میں ہے، صرف کارروائی کی ہیئت پراثر انداز ہوگی۔ لیکن مشرقی طریق تعلیم کے مداحین نے ایک اور دلیل پیش کی ہے۔ جسے ہم صحیح تسلیم کرلیں تو وہ کسی بھی تبدیلی کی متحمل نہیں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ موجودہ طریقۂ تعلیم سے لوگوں کو اعتقادی وابستگی ہے اور یہ کہ اس رقم کے کسی بھی حصے کو (جو عربی اور سنسکرت کی حوصلہ افزائی کے لئے استعمال ہورہا ہے) کسی اور مصرف میں لانا، اس رقم کا کھلا استحصال بالجبر ہے۔
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ انہوں نے یہ نتیجہ کس منطقی طریق سے اخذ کیا ہے۔ درآنحالیکہ وہ گرانٹ جو خزانۂ عامرہ سے ادبیات کی حوصلہ افزائی کے لئے دی جاتی ہے، اس گرانٹ سے جو رفاہِ عامہ کے لئے خزانہ سے دی جاتی ہے، کسی طرح بھی مختلف نہیں ہے!!
فرض کیجئے ہم نے ایک ہیلتھ سنٹر کی بنیاد ایک ایسے مقام پر رکھی جسے ہم نے صحت بخش سمجھا تھا، لیکن وہاں نتائج ہماری توقع کے مطابق برآمد نہیں ہوئے تو کیا اس صورتِ حالات میں ہم پابند ہیں کہ اس کی عدمِ افادیت کے باوجود اس صحت گاہ کو وہیں برقرار رکھیں؟
یا ہم ایک ستون نصب کرنے کا آغاز کرتے ہیں اور تعمیر کے دوران میں کسی مرحلے پراگر یہ یقین کرنے کے وجوہ موجود ہوں کہ یہ تعمیر بے فائدہ ہے تو کیا اس تعمیر کو روک دینا، اعتمادِ ِعامہ کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہوگا؟
حقوقِ ملکیت بلا شبہ قابل احترام ہیں، لیکن ان حقوق کو کوئی امر اس سے زیادہ خطرے میں نہیں ڈال سکتا، جس قدر یہ عام ناخوش گوار روش کہ انہیں اس شخص سے منسوب کردیا جائے جس کی وہ ملکیت ہی نہیں ہے۔ وہ لوگ جو اس غلط استعمال میں شامل تمام خرابیوں کو ملکیت کے تقدس کی آڑ میں صحیح تصور کرتے ہیں، دراصل اپنے اس طرزِ عمل سے ملکیت کے دستورِ اساسی ہی کو عدمِ قبولیت اور عدمِ استحکام کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں؛ اگر حکومت نے کسی شخص کو اس امر کی باضابطہ یقین دہانی کرائی ہے... نہیں اگر یوں کہیں کہ حکومت نے کسی شخص کے ذہن میں یہ توقع یا شوق اُبھار دیا ہے کہ بطورِ سنسکرت یا عربی کے معلّم یامتعلّم کے اُسے ایک خاص مشاہرہحاصل ہوگا۔ تو میںاس شخص کے اقتصادی مفاد کا احترام کروں گا اور حکومت پر عوام کے اعتماد کو کسی مسئولیت میں مبتلا کرنے کی بجائے میں اس خصوص میں غلط طور پر فیاضی کو ترجیح دوں گا۔ البتہ یہ کہنا کہ کسی حکومت نے اس امر کی ضمانت دے دی ہے کہ وہ بعض ایسی زبانوں میں علوم کی تدریس کا انتظام کرے گی جو بے فائدہ ہیں اور جن کی بے حقیقی کی قلعی کھل گئی ہے، میرے نزدیک ایک بالکل بے معنی سی بات ہے۔
گورنمنٹ کی کسی بھی دستاویز میںایک بھی ایسا لفظ نہیں ہے جس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکے کہ حکومت ِہند نے اس موضوع پر کبھی کوئی حتمی وعدہ کیا ہوا ہے یا یہ کہ اس رقم کے خرچ کے مقاصد متعین اور ناقابل تبدیل ہیں، اور اگر برعکس ازاں کوئی وعدہ ہوتا بھی تو میں اپنے پیشروؤں کے اس استحقاقِ پیمان بندی سے ہی انکار کردیتا۔ فرض کیجئے کسی حکومت نے گذشتہ صدی میں یہ قانون بنایا تھا کہ اس کی عام رعایا کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اسی طریق سے ہی چیچک کا ٹیکہ لگایا جائے جو طریق ان دنوں رائج تھا۔ تو کیا جے نرh کے انکشافاتِ طبی کے بعد بھی گورنمنٹ انہی پرانے طریقوں کو برقرار رکھے گی؟ یہ مواعید جن کا کوئی ایفا کنندہ نہیں ہے اور نہ ہی ان کی ذمہ داری سے کسی کو کوئی سبکدوش کرنے والا ہے، یہ ملکیت جس کے حقوقِ ملکیت کسی کو حاصل نہیں ہیں۔ یہ جائیداد جس کا کوئی مالک نہیں ہے، یہ 'رہزنی' جس نے کسی کا کچھ چھینا نہیں ہے۔ اس کا ادراک تو مجھ سے بہتر ذہنی صلاحیتوں کے لوگ ہی کرسکتے ہیں۔ میرے نزدیک تو یہ عذر محض الفاظ آرائی ہے جسے انگلستان اور ہندوستان دونوں ملکوں میں کسی بھی غلط کارروائی کے دفاع و تحفظ کے لئے استعمال کیا جاتاہے جہاں کوئی بہانہ کارگر ہوتا نظر نہ آئے!!
میرا موقف ہے کہ اس ایک لاکھ روپے کی رقم کا استعمال گورنر جنرل یا اجلاس کونسل کے دائرئہ اختیار میں ہے کہ وہ ہندوستانی ذخائر علمی میں ترقی کے لئے اپنی صوابدید کے مطابق مناسب طور پر خرچ کریں۔ میرا موقف یہ بھی ہے کہ امارت مآب بالکل اسی طرح یہ حکم دینے کے مجاز ہیں کہ آئندہ کوئی رقم عربی و سنسکرت کے علوم کی حوصلہ افزائی کے لئے صرف نہ کی جائے۔ یہ بعینہٖ اسی طرح ہے کہ جس طرح وہ حکم نافذ کردیں کہ میسورi میں چیتے مارنے کا معاوضہ کم کردیا گیا ہے یا ایک کیتھڈرل میں مذہبی نغمہ سرائی پر آئندہ سرکاری طور پر کوئی رقم خرچ نہیں کی جائے گی۔
٭ اب اس مسئلے کے لب ِلباب کی طرف آئیں۔ ہمارے پاس ایک ایسی رقم ہے جسے گورنمنٹ کے حسب ِہدایت اسی ملک کے لوگوں کی ذ ہنی تعلیم و تربیت پر صرف کیا جانا ہے۔ یہ ایک بڑا سادہ سا سوال ہے کہ اس کا مفید ترین مصرف کیا ہے ؟
مشرقی زبانیں علم سے تہی دامن ہیں!
یوں لگتا ہے کہ تمام مختلف الخیال لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ ہندوستان میںاس علاقے کے باشندے عام طور پر وہ مقامی زبانیں استعمال کرتے ہیں جو ادبی اور سائنسی معلومات سے تہی دست ہیں۔ علاوہ ازیں ذخیرئہ الفاظ و اصطلاحات کے لحاظ سے اس قدر کم مایہ اور قوتِ اظہار کے اعتبار سے اس درجہ ناتراشیدہ ہیں کہ جب تک انہیں کسی ترقی یافتہ زبان سے تونگر نہیںبنا دیا جاتا،ان زبانوں میںکسی قابل قدر علمی شاہکار کا ترجمہ کرنا سہل نہیں ہوگا۔ یہ لوگ اس حقیقت کے بھی معترف معلوم ہوتے ہیں کہ اس ملک کے اس طبقے کے لوگوں کی ذہنی تربیت کا انتظام جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی قدرت رکھتے ہیں، صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ ان کی مروّ جہ مقامی بولیوں کی بجائے کسی باضابطہ زبان کو تعلیم و تعلّم کا ذریعہ بنایا جائے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ زبان کون سی ہو؟
کمیٹی کے پچاس فی صد اراکین مصر ہیں کہ یہ زبان انگریزی ہے۔ باقی نصف اراکین نے اس مقصد کے لئے کوئی ایسا شخص نہیں پایا ہے جو اس حقیقت سے انکار کرسکے کہ یورپ کی کسی اچھی لائبریری کی الماری میںایک تختے پر رکھی ہوئی کتابیں ہندوستان اور عرب کے مجموعی سرمایۂ علمی پر بھاری ہیں۔ پھر مغربی تخلیقاتِ ادب کی منفرد عظمت کے کماحقہ معترف توکمیٹی کے وہ اراکین بھی ہیں جو مشرقی زبانوں میں تعلیم کے منصوبے کی حمایت میںگرم گفتار ہیں۔
میرا خیال ہے کہ اس حقیقت کو ماننے میںکسی کو تامل نہیں ہوگا کہ شاعری ادب کی وہ صنف ہے جس میں مشرقی قلم کاروں کو اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے۔ لیکن یقین مانئے مجھے کوئی بھی ایسا مستشرق نہیں ملا جس نے یہ دعویٰ کرنے کی جسارت کی ہو کہ عربی اور سنسکرت کے شعری سرمائے کا عظیم یورپین اقوام کی تخلیقات ِ شعری سے مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
جب ہم مشرقی شعری ادبیات کے دائرئہ تخیلات سے باہر ان فن پاروں پرنظر ڈالتے ہیں جن کی اساس زندگی کے ٹھوس حقائق ہیں اور جن میں تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں عام اُصولوں کی چھان پھٹک ہوتی ہے تو یورپ کی تخلیقات ِعلمی کی فضیلت ِبے پایاں کا صحیح اندازہ ہوتا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ تاریخی معلومات کا وہ ذخیرہ جو سنسکرت میںلکھی ہوئی تمام کتابوں میںموجود ہے، انگلستان کی ابتدائی درس گاہوں میںزیر استعمال تشنہ صلاحیتوں میں شامل علمی مواد سے بھی قدرو قیمت کے لحاظ سے فروتر ہے۔ فلسفہ طبیعات یا اخلاقیات کا کوئی شعبہ لے لیجئے، دونوں قوموں کی متناسب تقابلی علمی کیفیت کم و بیش یہی ہوگی۔
جدید تقاضوں پر پورا اُترنے والی واحد زبان انگریزی ہے!
ان حقائق کی رُو سے اصل صورتِ حالات کیا ہوئی؟ ہمیں ایک ایسی قوم کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنا ہے جسے فی الحال اپنی مادری زبان میں تعلیم نہیں دی جاسکتی۔ ہمیں اُنہیں لازماً کسی غیرملکی زبان میں تعلیم دینا ہوگی۔ اس خصوص میں ہماری اپنی مادری زبان کے استحقاق کا اعادہ تحصیل حاصل ہے۔ ہماری زبان تو یورپ بھر کی زبانوں میںممتاز حیثیت کی حامل ہے۔ یہ زبان قوتِ متخیلہ کے گراں بہا خزانوں کی امین ہے۔ جن کا پایہ یونان کے مہتم بالشان علمی کارناموںkjسے جو ہمیں ورثہ میں ملے ہیں، کسی طرح بھی پست نہیں ہے۔اس زبان میںمتنو ع انداز ِ طلاقت ِ لسانی و خطبات کی مثالیں مہیا ہیں۔ تاریخی تصانیف جنہیںمحض افسانہ سرائی اور داستان گوئی پرمحمول کیا جاتا تھا، اس زبان کے قالب میںڈھل ڈھل کر زندہ حقائق کے بے مثال نمونے بن گئے۔ ان سے تاریخ کا دامن مالا مال ہوگیا اور تاریخ اخلاقیات و سیاسیات کا بے نظیر ذریعہ اظہار بن گئی۔
اس زبان نے فطرتِ انسانی اور حیاتِ انسانی کی متوازن اور شگفتہ ترجمانی کی ہے۔ اس میں ما بعد الطبیعات، اخلاقیات، اُمور ِ سلطنت، فلسفہ، قانون اور کاروبارِ تجارت میںبے حد عمیق غوروفکر کا سرمایہ موجود ہے۔ اس زبان میں ہر تجرباتی علم کے بارے میں ایسی مکمل اور صحیح معلومات فراہم ہیں جن کی مدد سے صحت ِعامہ کا تحفظ ہوسکتا ہے۔ راحت و آسائش میں اضافہ ہوسکتا ہے اور فراست ِ انسانی کو نئی نئی وسعتیں مل سکتی ہیں۔ انگریزی زبان سے جسے بھی واقفیت ہے اسے اس وسیع فکری اثاثے تک ہمہ وقت رسائی حاصل ہے جسے روے زمین کی دانشور ترین قوموںl،m نے باہم مل جل کر تخلیق کیا ہے اور گذشتہ نوے نسلوں نے جسے بکمالِ خوبی محفوظ کیا ہے۔
یہ بات پورے اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ اس زبان میں موجود ادب اس تمام سرمایۂ ادبیات سے کہیں گراں تر ہے جو آج سے تین سو سال پہلے دنیا کی تمام زبانوں میںمجموعی طور پر مہیا تھا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی، ہندوستان میں تو انگریزی زبان کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ یہ حکمران طبقے کی زبان ہے۔ ملکی باشندوں کے اونچے طبقے کے لوگ جو صدر مقامات پر رہتے ہیں، وہ بھی انگریزی زبان میں بات چیت کرتے ہیں۔ یہ امکان بھی ہے کہ یہ زبان سارے مشرقی سمندروں میںتجارتی زبان بن جائے۔ پھر یہ بھی ہے کہ یہ دو نوخیز عظیم قوموں کی زبان ہے جن میں سے ایک جنوبی افریقہ میں ہے اور دوسری آسٹریلیا میں۔ ان دونوں قوموں کی اہمیت میں ہر سال اضافہ ہوتا جارہاہے اور ان دونوں کا رابطہ ہماری ہندوستانی سلطنت سے مضبوط ترہورہاہے۔ اب خواہ ہم اپنی زبان کی صحیح قدرو قیمت کا لحاظ رکھیں یا ہندوستان کے مخصوص حالات کو پیش نظر رکھیں، ہماری ٹھوس فکری دلیل یہ ہوگی کہ تمام غیر ملکی زبانوں میں صرف انگریزی ہی وہ زبان ہوسکتی ہے جو ہماری رعایا کے لئے سُود مند ہوگی۔
اب ہمارے سامنے ایک سیدھا سادا سا سوال رہ جاتا ہے کہ جب ہمیں انگریزی زبان پڑھانے کا اختیار ہے تو کیا پھر بھی ہم ان زبانوں کی تدریس کی ذمہ داری قبول کریں گے جن کے بارے میں یہ امر مسلّمہ ہے کہ ان میں سے کسی موضوع پر بھی کوئی کتاب اس معیار کی نہیں ہے کہ اس کا ہماری کتابوں سے موازنہ کیاجاسکے؟
آیا جب ہم یورپین سائنس کی تدریس کاانتظام کرسکتے ہیں تو کیا ہم ان علوم کی بھی تعلیم دیں گے جن کے بارے میں عمومی اعتراف ہے کہ جہاں ان علوم میں اور ہمارے علوم میں فرق ہے تو اس صورت میں ان علوم ہی کا پایہ ثقاہت پست ہوتا ہے؟ اور پھر یہ بھی کہ آیا ہم جب پختہ فکر فلسفہ اور مستند تاریخ کی سرپرستی کرسکتے ہیں تو پھر بھی ہم سرکاری خرچ پر ان طبی اُصولوں کی تدریس کا ذمہ لیں جنہیں پڑھانے میں ایک انگریز سلوتری بھی خفت محسوس کرے؟ ایسا علم فلکیات پڑھائیں جن کا انگریزی اقامتی اداروں کی چھوٹی چھوٹی بچیاں بھی مذاق اُڑائیں؟ ایسی تاریخ پڑھائیں جس میں تیس تیس فٹ قدآور بادشاہوں کے من گھڑت قصے ہوں، اور جو تیس تیس ہزار سال تک حکمرانی کرتے رہے ہوں؟ اور ایسے جغرافیے کی تدریس کریں جس میں پودوں اور درختوں کی راب، رس اور مکھن کے سمندروں کی بے سروپا حکایتیں ہوں۔
اس مسئلہ پر غوروفکر میں ہم نے حیات ِ انسانی کے سابقہ تجربات سے رہنمائی حاصل کی ہے۔ تاریخ میں اس سے ملتی جلتی کئی مثالیں موجود ہیں اور ان سب سے یہی سبق ملتا ہے۔ ہم ماضی کے دھندلکوں میں کیوں جائیں، دور حاضر میں ہی یونیورسٹیوں کی سطح پر بجز اینگلو سیکسن کہانیوں اور افسانوں اور نارمن فرانسیسی رومانی قصوں کے نہ تو کچھ پڑھاتے اور نہ شائع کرتے تو کیا ادبیات اس مقام پر فائز رہ سکتی تھی؛ جس پر وہ آج فائز ہے ؟
اگر بنظر غائر دیکھاجائے تو جو حیثیت یونانی اور لاطینی زبانوں کی مورn اور اسیچم oکے ہم عصروں کے سامنے تھی، عین وہی حیثیت آج ہماری زبان کی ہندوستان کے لوگوں کے سامنے ہے۔ دقیانوسی، قدیم کلاسیکی ادب کے مقابلے میں آج انگریزی ادب زیادہ گراں پایہ ہے۔ مجھے شبہ ہے کہ سنسکرتی ادبی سرمایہ شاید ہی وہ قابل قدر درجہ حاصل کرسکا ہو جو سیکسن اور نارمن کی موروثی ادبیات نے ہمارے ہاں حاصل کرلیاتھا۔ بعض شعبوں میںمثلاً تاریخ میں، تو میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ سنسکرت کامعیار کم تر ہے۔
روس کی ترقی سے استدلال
ایک اور مثال علیٰ و جہ البصیرت ہمارے سامنے ہے۔ گذشتہ ایک سو بیس سالوں میں ایک ایسی قوم نے جہالت کی پستیوں سے اُبھر کر، منزل بہ منزل تہذیب یافتہ اقوام کی صف اوّلین میںمقام حاصل کرلیا ہے۔ درآں حالے کہ اس سے قبل وہ بربریت اور وحشت کا اسی طرح صید ِزبوں تھی جس طرح ہمارے آبائو اجداد صلیبی لڑائیوںpسے پہلے تھے۔ میرا روے سخن روس کی طرف ہے۔ اس ملک میں فی الوقت ایک وسیع تعلیم یافتہ طبقہ موجود ہے جس میں ایک کثیر تعداد ان افراد کی ہے جو مملکت کے اعلیٰ ترین اور اہم ترین اُمور کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی استعداد سے مالا مال ہیں اور وہ پیرس اور لندن کے اعلیٰ ترین حلقوں کی قدآور باکمال شخصیتوں سے کسی اعتبار سے بھی کہتر یا کم ترین نہیں ہیں۔
بجاطور پر توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ وسیع مملکت جو ہمارے اسلاف کے زمانے میں غالباً پنجاب qسے بھی گئی گزری تھی، ہمارے اخلاف کے دور میں مسابقت اور ترقی کی دوڑ میں فرانس اور برطانیہ کے اصلاحِ حال کے منصوبوں میں قدم بہ قدم ساتھ ہوگی۔
یہ تبدیلی کیسے عمل میں آئی؟ قومی عصبیتوں کے ساتھ کھیلا نہیں گیا، نہ ہی ماسکو کی نئی پود کو بڑی بوڑھیوں نے اُن کے جاہل آبا کی توہم پرستانہ کہانیاں سنا کر یہ تبدیلی پیدا کی، اور نہ ہی اُن کے دماغ میں سینٹ نکولسr کے دروغ آمیز قصے ٹھونسے گئے، نہ ہی اُن کی اس غیر معمولی مسئلے کے مطالعے پرہمت افزائی کی گئی کہ کیا کائنات تیرہ ستمبر کو معرضِ وجود میں آئی تھی یا نہیں؟ اور نہ ہی انہیں اِن 'اُمورِ علمی' کا احاطہ کرنے پر ملکی فضلا کے لقب سے نوازنے پر... بلکہ اُنہیں ان غیر ملکی زبانوں کی تعلیم دے کر یہ انقلاب برپا ہوا جن میںگراں بہا ذخائر ِعلمی محفوظ تھے، اور اس کا نتیجہ یہ ہواکہ انہیں ان علوم تک دسترس ہوگئی اور مغربی یورپ کی زبانوں نے روس کو زیورِ تہذیب و ثقافت سے آراستہ و پیراستہ کردیا۔ مجھے اس بات میں ذرّہ بھر بھی شک نہیںہے کہ ان زبانوں نے جس طرح تاتاریوں میں ذ ہنی تبدیلی پیدا کردی تھی، اسی طرح وہ ہندوؤں میں بھی ایک عظیم تبدیلی پیدا کردیں گی۔
فریق مقابل کے دلائل کا تجزیہ
آئیے اب دیکھیں کہ اس راہِ عمل کے اختیار کرنے کے خلاف وہ کیادلائل ہیں جن کی حمایت اُصول اور تجربہ دونوں کرتے ہیں۔
مسلسل کہاجاتا ہے کہ ہمیں ملکی عوام کا تعاون لازمی طور پر حاصل کرنا ہے، اور اس کی واحد صورت یہ ہے کہ ہم انہیں سنسکرت اور عربی پڑھائیں۔میں یہ بات کسی طور پر ماننے کے لئے تیارنہیںہوں کہ جب ایک اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کی حامل قوم کسی ایسی قوم کی تعلیمی نگرانی کا بیڑا اٹھائے جو مقابلۃً بے علم ہو تو متعلّمین سے توقع کی جائے کہ وہ قطعیت کے ساتھ وہ نصاب ونظام تعلیم تجویز کریں جو اُن کے معلّمین اختیار کریں۔ بایں ہمہ اس موضوع پر مزید کچھ کہناغیر ضروری ہے، کیونکہ یہ امر ناقابل انکار شہادتوں سے پایۂ ثبوت کو پہنچ گیا ہے کہ ہم فی الوقت ملکیوں کا تعاون حاصل نہیںکررہے ہیں۔ یہ بات تو بڑی بُری ہوگی، اگر ہم ان کی ذہنی صحت کی قیمت پر ان کے ذہنی ذوق کی تسکین کا سامان کریں۔ لیکن موجودہ حالات میں تو ہم دونوں میں سے کسی کی طرف بھی رجوع نہیں کررہے ہیں، لیکن ہم ان پر ان کی اس تعلیم کے دروازے ہی بند کررہے ہیں جن کے وہ متمنی ہیں۔ ہم ان پر وہ مضحکہ خیز تعلیم ٹھونس رہے ہیں جو انہیں بے حد ناپسند ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہم مجبور ہیں کہ عربی اور سنسکرت کے طالب علموں کو وظائف دیں ، درآں حالے کہ انگریزی کے طلبا ہمیں فیس اداکرنے پر آمادہ ہیں۔
مشرقی علوم پرتعلیمی وظائف کیوں؟
اہل ملک کی اپنی مقدس مادری زبانوں سے محبت اور احترام پر مہیا دنیا بھر کے جذباتی اظہارات بھی ایک غیر جانبدار انسان کی نظروں میں اس غیر مختلف فیہ حقیقت کوبے وزن نہیں کرسکتے کہ ہم اپنی وسیع سلطنت میںکوئی ایک طالب علم بھی نہیں ڈھونڈ سکتے جووظیفے لئے بغیر ہم سے یہ زبانیں سیکھنے کے لئے تیار ہو۔
کلکتے کے مدرسےs کا ایک ماہ کا گوشوارہ حسابات میرے سامنے ہے۔ یہ ماہ دسمبر ۱۸۳۳ء ہے۔ عربی کے طلبا کی تعداد ۷۷ ہے، یہ تمام کے تمام وظیفہ خوار ہیں۔ مجموعی رقم جو ادا کی جارہی ہے، ۵۰۰ روپے ماہوار سے زیادہ ہے۔ دوسری جانب حساب کی یہ مد بھی ہے۔
مبلغ ۱۰۳ روپے جوگذشتہ مئی، جون اور جولائی میںفارغ شدہ انگریزی طلبا سے وصول ہوئے، مجموعی رقم سے منہا کئے جائیں۔
مجھے کہا جاتا ہے کہ مقامی حالات کا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے میں ان امور کو بنظر استعجاب دیکھتا ہوں اور یہ کہ ہندوستانی طلبا میںذاتی اخراجات سے علم حاصل کرنے کا رواج نہیں ہے۔ اس رائے سے میرے نظریات کو اور پختگی ملی ہے۔ اس سے زیادہ یقینی کوئی بات نہیں ہے کہ دنیا کے کسی حصے میںبھی لوگوں کو ان کاموں کے لئے کچھ نہیں اداکرنا پڑتا ہے جنہیں وہ خوشگوار یا نفع آور سمجھتے ہیں؛ اس سے ہندوستان بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔ یہاں کے لوگوں کو جب بھوک ستائے اور وہ چاول کھائیں تو انہیں کچھ بھی ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اور نہ ہی اس صورت میںکہ وہ موسم سرما میں اونی کپڑے پہنیں، انہیں کوئی وظیفہ دیا جاتا ہے۔
بچے جو گاؤں کے مدرسے میں استاد سے حروفِ تہجی یاتھوڑی بہت ریاضی سیکھتے ہیں، انہیں استاد کو بھی کچھ نہیں ادا کرنا پڑتا۔ استاد کو پڑھانے کی تنخواہ ملتی ہے۔ تو پھر جو لوگ سنسکرت اور عربی پڑھتے ہیں، انہیں مالی اعانت دینے کا کیا جواز ہے ؟
مشرقی علوم اپنے سیکھنے والے کی کفالت نہیں کرتے!
یہ امر صریحاً بلاجواز ہے کیونکہ یہ سب لوگ محسوس کرتے ہیںکہ سنسکرت اور عربی وہ زبانیں ہیں جن کا علم اس مشقت کی تلافی نہیںکرتا جو ان کے حصول میں صرف ہوتی ہے۔ ایسے تمام مباحث میں منڈی یا مارکیٹ کی مانگ ہی فیصلہ کن ہوتی ہے۔ اس خصوص میں اور شہادتوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ مزید ضرورت ہو تو وہ بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔
گذشتہ سال سنسکرت کالجt کے کئی سابق طلبا نے کمیٹی کو ایک درخواست دی۔ اس میں بیان کیا گیا کہ انہوں نے کالج میںدس یا بارہ سال تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے ہندو ادبیات اور علوم میں خاصی دستگاہ پیدا کی۔ انہوں نے اسنادِ تکمیل بھی حاصل کیں، لیکن اس تمام دماغ سوزی کا ثمر کیا ملا؟ ان تمام اسنادِ فضیلت کے باوجود انہوں نے کہا کہ عزت مآب کمیٹی کی چشم عنایت کے بغیر اصلاحِ حال کی کوئی اُمید نہیں۔ انہیں ابناے وطن نے درخورِ اعتنا نہیںسمجھا، انہیں اہل وطن کی ہمت افزائی اور اعانت پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ اندریں حالات وہ مستدعی ہیں کہ کمیٹی ازراہِ عنایت ِکریمانہ فضیلت مآب گورنر جنرل سے سفارش کرے کہ وہ حکومت کے زیر سایہ مناصب پر ان کی تقرریوں کی منظوری عطا کریں۔ انہوں نے مزید درخواست کی کہ بے شک یہ مناصب اعلیٰ سطح کے یا اونچی تنخواہات کے نہ ہوں، لیکن ایسے ضرور ہوں جو ان کے لئے قوتِ لایموت کا توشہ بہم پہنچا سکیں۔ ہمیں ایک شائستہ زندگی کے لئے وسائل درکار ہیں، تاکہ ہم اصلاح و ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکیں۔ انہوں نے کہا اور یہ صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ جس حکومت نے ہمیں بچپن سے اپنی آغوشِ تعلیم و تربیت میں لیا ہے ، وہ ہماری مدد کرے۔ انہوں نے اپنی درخواست کو اس دردمندانہ التجا کے ساتھ ختم کیا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ جس حکومت نے بکمالِ فیاضی انہیںتعلیم دلوائی ہے، اس کی ہرگز یہ نیت نہ تھی کہ انہیںسند ِتکمیل کے حصول کے بعد بے یارومددگار چھوڑ دے۔
گورنمنٹ کو معاوضوں کے بارے میں جو درخواستیں پیش کی جاتی ہیں وہ میری نظر سے بھی گزرتی رہتی ہیں۔ ان تمام درخواستوں پر بشمولِ بعض انتہائی غیر معقول درخواستوں کے، کارروائی اس مفروضہ پر کی جاتی ہے کہ درخواست گزاروں کا کچھ نہ کچھ نقصان ضرور ہوا ہے۔ ان کا کوئی نہ کوئی حق ضرور زائل ہوا ہے۔ میں یقینی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ یہ پہلے درخواست گزار ہیں جنہوں نے مفت تعلیم حاصل کرنے کا معاوضہ مانگا ہے۔ انہیں دس بارہ سال ملکی خزانے سے وظیفہ ملتا رہا، اور انہیں ادب اور سائنس کے ہتھیاروں سے مسلح کرکے کارزارِ حیات میں بھیجا گیا۔ یہ لوگ اس تعلیم کو اپنے حق میںایسی مضرت سمجھتے ہیں جس کی حکومت کو تلافی کرنی چاہئے۔ یہ ایک ایسی ضرب ہے جس کے مقابلے میں انہیں وہ وظیفہ جو انہیں اسی دوران میں عطا کیا جاتا رہا، ناکافی تلافی تھا۔ میرے نزدیک وہ صحیح موقف پر ہیں، انہوں نے اپنی زندگیوں کے بہترین سال ایسے علوم کے حصول میں گزارے جنہوں نے نہ تو ان کی معاشی ضرورتوں کو پورا کیا اور نہ سماج میں عزت کی جگہ دلوائی۔ یہ یقینی بات ہے کہ ہم نے جو رقم انہیں بے کار اور مفلوک الحال بنانے کیلئے صرف کی ہے، کسی بہتر مصرف کے لئے محفوظ کی جاسکتی تھی!
مشرقی علوم پر مزید خرچ کرنا کارِ لاحاصل ہے!
یہ بات بھی وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ حکومت اس سے کم خرچ پر بھی انہیں اہل ملک کے لئے بوجھ اور ہمسایوں کے لئے موجب ِتحقیر بننے کا انتظام کرسکتی تھی، لیکن یہ تو سب کچھ ہماری حکمت ِعملی کا کیا دھرا ہے۔ ہم تو اس معرکہ حق و باطل میں الگ تھلگ بھی نہیںرہ سکے۔ ہم تو اس پر بھی راضی نہ ہوئے کہ ان دیسیوں کو اپنی موروثی عصبیتوں کے اثرات قبول کرنے کے لئے کھلا چھوڑ دیتے۔ یہی نہیں بلکہ ان طبعی موانعات کے علاوہ جو مشرق میں کسی بھی ٹھوس علمی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں، ہم نے ان میں خود پیدا کردہ اُلجھنوں کا اضافہ کردیا ہے۔ مراعات اور انعامات جو اس دریا دلی سے اشاعت ِ حق و صداقت کے لئے نہ دیے جاسکتے تھے، ہم دروغ باف متون اور غلط فکر فلسفے پر پانی کی طرح بہا رہے ہیں۔
ہمارے اس طریق کارسے وہ بُرائی جنم لے رہی ہے جس سے ہم خائف ہیں۔ وہ مزاحمت پیداکررہے ہیں جس کا فی الوقت کوئی وجود نہیں۔عربی کالج اور سنسکرت کالج پر ہم جو کچھ خرچ کررہے ہیں، یہ حق ہی کا سراسر ضیاع نہیں ہے بلکہ غلط کاروں کی پرورش و تربیت کے لئے بے دریغ کی جانے والی اعانت ہے۔ اس مصرف سے ہم ایسی عافیت گاہیںتعمیر کررہے ہیں جن میں نہ صرف بے یارومددگار بے ٹھکانہ لوگ پناہ لیتے ہیں بلکہ ان میں تعصبات اور ذاتی مفادات کے مارے وہ تنگ نظر لوگ بھی پل رہے ہیں جو اپنے ذاتی فائدوں اور گروہی عصبیتوں کے سبب تعلیمی اصلاح کی ہر تجویز کے خلاف ہرزہ سرا ہوں گے۔ اگر میری سفارش کردہ تبدیلی کے خلاف ہندوستانیوں میں احتجاج ہوا تو اس کا سبب ہمارا اپنا نظام اور طریق کار ہوگا۔ علم مخالفت بلند کرنے والوں کے قائدین وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے ہمارے وظائف پر پرورش پائی ہوگی اور جو ہمارے کالجوں کے تربیت یافتہ ہوں گے۔ ہمارے موجودہ طریق کار کا دورانیہ جس قدر طویل ہوگا، مخالفت اتنی ہی شدت اختیار کرتی چلی جائے گی۔ انہیں ہر سال ان لوگوں سے تازہ کمک پہنچتی رہے گی جنہیں ہم اپنے خرچ سے تیار کر رہے ہیں۔ اگر ملکی معاشرے کو اس کے حال پر چھوڑ دیاجائے تو ان کی طرف سے ہمیںکوئی مشکل درپیش نہیں آئے گی۔ زیر لب شکایتوں کاطومار تو 'مشرقی مفاد' کی جانب سے متوقع ہے جسے ہم سطحی ذرائع سے عالم وجود میں لائے ہیں اور جسے ہم نے پال پوس کر تواناکردیا ہے۔
اس امر کا ایک اور ثبوت بھی ہے جس سے ظاہر ہوگا کہ اگر ملکیوں کے احساسات کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا تو اس کا وہ نتیجہ ہرگز نہیں ہوگا جس کی پرانے نظام کے حامی حضرات توقع کرتے ہیں۔
کمیٹی نے تقریباً ایک لاکھ روپیہ عربی اور سنسکرت کی کتابوں کی طباعت کے لئے مختص کیا تھا۔ لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ ان کتابوں کے خریدار ہی نہیں ملے۔ شاذونادر ہی کوئی ایک آدھ کتاب فروخت ہوجاتی ہو۔ تیئس ہزار نسخے جن میں کثرت دو ورقیوں اور چار ورقیوں کی ہے۔ لائبریریوں میں بھرے پڑے ہیں یا کمیٹی کے کباڑ خانوں میںٹھسے پڑے ہیں۔ کمیٹی کی تجویز ہے کہ مشرقی ادبیات کے اس وسیع ذخیرے کے ایک حصے سے چھٹکارا پانے کیلئے اسے لوگوں میں بلا قیمت تقسیم کردیا جائے لیکن ان کے تقسیم کرنے کی رفتار سے ان کی طباعت کی رفتار تیز تر ہے۔ ہر سال تقریباً بیس ہزار روپیہ اس لئے خرچ کئے جارہے ہیں کہ اس ردّی کے پہلے ہی جمع کردہ بے مصرف انبار میں کچھ ایسے ہی کاغذوں کے نئے ڈھیر اور شامل کردیئے جائیں۔
گذشتہ تین سالوں میںقریب قریب ساٹھ ہزار روپے اسی طریقے سے خرچ کئے گئے ہیں۔ عربی اور سنسکرت کی کتابوں کے فروخت سے جو آمدنی حاصل ہوئی ہے وہ ایک ہزار روپے بھی نہیں ہے۔ برخلاف ازاں اسی دوران اسکول بک سوسائٹی نے سات یا آٹھ ہزار انگریزی کتابوں کی جلدیں فروخت کی ہیں۔ اس آمدنی سے نہ صرف اخراجات پورے ہوگئے ہیں بلکہ سرمایہ پر بیس فی صد نفع بھی مل رہا ہے۔ اس امر پر بھی بڑا اصرار کیاگیا ہے کہ ہندو قانون ؍ سنسکرت کی کتابوں سے اور محمدن لاء ؍ عربی کی کتابوں سے ہی حاصل ہوگا لیکن اس کا مسئلہ زیر بحث سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔
ہمیں پارلیمنٹ نے حکم دیا ہے کہ ہم ہندوستان کے قوانین کی چھان پھٹک کریں اور اس کی تلخیص مرتب کریں۔ اس مقصد کے لئے ہمیں لاء کمیشن کی امداد بھی مہیا کی گئی ہے۔ جونہی اس ضابطہ قانون کا نفاذ عمل میں آئے گا، منصفوں اور صدر امینوں کے لئے شاسترu اور ہدایہv غیر ضروری ہوجائیں گی۔مجھے یہ توقع اور پورا بھروسہ ہے کہ جن طلبا نے عربی مدارس اور سنسکرت کالجوں میں داخلہ لے رکھاہے۔ ان کی تعلیم سے فراغت سے پہلے یہ عظیم کام مکمل ہوجائے گا۔ یہ بات واضح طور پر بعید از قیاس ہے کہ ہم ایک اُبھرتی ہوئی نسل کو ان مخصوص حالات میںتعلیم دیں جنہیںہم ان کے سن بلوغ تک پہنچنے سے پہلے بدل دینا چاہتے ہیں۔
٭ عربی اور سنسکرت کی اہمیت کے سلسلے میں ایک اور دلیل بھی دی جاتی ہے جو اس سے بھی زیادہ کمزور اور غیر مستحکم ہے۔ بیان کیاجاتا ہے کہ عربی اور سنسکرت وہ زبانیں ہیں جن میںکروڑوں انسانوں کی مقدس کتابیں محفوظ ہیں اور اس لئے یہ زبانیں خصوصی حوصلہ افزائی کی مستحق ہیں۔ یقینا یہ حکومت ِبرطانیہ کا فرض ہے کہ وہ ہندوستان کے تمام مذہبی مسائل میں روادار اور غیر جانبدار رہے۔ لیکن ایک ایسے ادب کی تحصیل کی حوصلہ افزائی کرتے چلے جانا جو مسلّمہ طور پرمعمولی قدروقیمت کا حامل ہے اور محض اس لئے کہ وہ ادب اہم ترین موضوعات پر غلط ترین معلومات ذہن نشین کراتا ہے، ایک ایسا رویہ ہے جس کی موافقت نہ تو عقل کرتی ہے اور نہ اخلاق اور نہ وہ غیر جانبداری جسے احترام و اکرام کے ساتھ برقرار رکھنے پر ہم سب متفق ہیں۔ ایک ایسی زبان جس کے بارے میں سب متفق ہیں کہ وہ علوم سے تہی دامن ہے۔ کیا ہم اسے اس لئے پڑھائیں کہ وہ بھیانک اوہام کو جنم دیتی ہے۔ کیا ہمیں غیر مستند تاریخ، غلط علم فلکیات اور غیر صحیح طبابت کی اس لئے تعلیم دینا ہے کہ وہ ایک غلط مذہب کے مؤید ہیں۔ جو لوگ ہندوستانیوں کو حلقہ بگوشِ مسیحیت کرنے کے کام میںمصروف ہیں، ہم ان کی سرکاری طور پر ہمت افزائی سے اجتناب کرتے رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اس سے آئندہ بھی مجتنب رہیں گے۔ جب عیسائیت کے بارے میں ہمارا یہ رویہ ہے تو کیا مناسب اور درست ہوگا کہ ہم سرکاری خزانے سے رشوت دے کر لوگوں کو اس امر پر مستعد کریں کہ وہ اپنی نوجوان نسل کی زندگیاں یہ جاننے میں برباد کردیں کہ گدھے کو چھونے کے بعد وہ اپنے آپ کوکس طرح پاک کرسکتے ہیں یا وید کے کن اشلوکوں کے پڑھنے سے ایک بکرا مار دینے کے گناہ کاکفارہ ادا ہوجاتا ہے۔
ہندوستانی باشندے انگریزی میں اعلیٰ مہارت حاصل کرسکتے ہیں!
مشرقی علوم کے وکلا اس بات کو ایک مسلمہ حقیقت سمجھ بیٹھے ہیں کہ اس ملک کا کوئی باشندہ انگریزی زبان کی ابتدائی شدبد سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ وہ اس مفروضے کو ثابت تو نہیں کرسکے ہیں ،لیکن انہیں اس کی صحت پر غیر معمولی اصرار ہے۔ یہ حضرات از راہِ حقارت انگریزی تعلیم کو محض حروفِ تہجی کی تعلیم سے موسوم کرتے ہیں۔ وہ اس امر کو ناقابل تردید سمجھتے ہیں کہ اصل مسئلہ، اعلیٰ درجے کے ہندو اور عربی ادب اور انگریزی کی سطحی اور ابتدائی معلومات میں ردّو قبول کا ہے۔ لیکن یہ محض ایک مفروضہ ہی ہے جس کی تائید نہ عقل کرتی ہے اورنہ تجربہ۔ ہم اس امر سے باخبر ہیں کہ تمام قوموں کے لوگ انگریزی زبان میں اتنا درک ضرور حاصل کرلیتے ہیں جس سے اُنہیں اس زبان کے ان پیچیدہ اور دقیق مسائل تک رسائی ہوسکے جن سے ان کا دامن مالامال ہے اور اس طرح سے وہ ان لسانی اور ادبی لطافتوں سے بہرہ اندوز ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں جو ہمارے چوٹی کے انشا پردازوں کی تحریروں میں جابجا بکھری پڑی ہیں۔ اسی شہر میں ایسے ہندوستانی دستیاب ہیں جو پوری سلاست بیانی اور جامعیت کے ساتھ سیاسی اور سائنسی مسائل پراپنے خیالات کا اظہار کرسکتے ہیں۔
میں نے اس مسئلے پرجسے میں قلمبند کررہا ہوں ملکی شرکا کو وسعت ِذہنی اور کمال فراست سے گفتگو کرتے سنا ہے اور یہ بات مجلس تعلیماتِ عامہ کے ارکان کے لئے بھی باعث ِفخرومباہات ہوسکتی ہے۔ مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ براعظم یورپ کے ادبی حلقوں میں بھی کوئی غیر ملکی شاید ہی میسر آسکے جو انگریزی زبان میں اپنے خیالات کا اظہار اتنی سہولت اور صحت سے کرسکے، جس قدر ہمارے ہاں بعض ہندو ادا کرسکنے پر قادر ہیں۔
میرا خیال ہے کہ کوئی شخص بھی اس امر سے اختلاف نہیں کرے گا کہ انگریزی زبان ایک ہندو کے لئے اتنی ہی مشکل ہے جس قدر کہ یونانی زبان ایک انگریز کے لئے ہوسکتی ہے۔ بایں ہمہ ایک ذہین انگریز نوجوان ہمارے اس بدقسمت سنسکرت کالج کے طالب علم کے مقابلے میں بہت کم مدت میں اس قابل ہوسکتا ہے کہ وہ بہترین یونانی مصنّفین کے ثمراتِ فکر سے آگہی حاصل کرسکے، ان سے لطف اندوز ہوسکے اور ایک حد تک ان کے اندازِ تحریر کی پیروی کرسکے۔ جتنی مدت میں ایک انگریز نوجوان ہیروڈوٹسw اور سوفو کلینر xکا مطالعہ کرتا ہے۔ اس سے نصف عرصے میں ایک ہندو نوجوان ہیوم yاور ملٹن کا مطالعہ کرسکتا ہے۔
خلاصہ : جو کچھ میں نے اب تک کہا ہے اس کا ملخص یہ ہے کہ
میرا خیال ہے کہ یہ ایک واضح بات ہے کہ ہم پارلیمنٹ ایکٹ ۱۸۱۳ء کے پابندنہیں ہیں، نہ ہی کسی ایسے معاہدے کے جو ہم نے اس خصوص میں صراحتاً کیا ہو یا کنایتہً اور یہ کہ ہم زیر بحث رقوم کو اپنی صوابدید کے مطابق استعمال کرنے میں آزاد ہیں اور یہ کہ ہمیں اس فنڈ کو اس علم کے حصول میں صرف کرنا چاہئے جو بہترین طور پر شایانِ مطالعہ ہو اور یہ کہ انگریزی زبان، عربی اور سنسکرت کے مقابلے میں مطالعہ کے لئے موزوں تر ہے اور یہ کہ خود ہندوستانی لوگ انگریزی زبان سیکھنے کے خواہش مند ہیں اور انہیں عربی یا سنسکرت سیکھنے کی کوئی طلب نہیں اور یہ کہ نہ تو قانونی زبان کی حیثیت سے اور نہ مذہبی زبان کے لحاظ سے سنسکرت یا عربی زبان کو ہماری خصوصی ہمت افزائی کا کوئی استحقاق ہے اور پھر یہ کہ یہ عین ممکن ہے کہ اس ملک کے باشندوں کو اچھے انگریزی اسکالر بنایا جاسکے اور اس مقصد کے حصول کے لئے ہمیں اپنی پوری مساعی بروے کار لانی چاہئیں...!!
ہمارا مقصد کیا ہونا چاہئے؟
البتہ ایک نقطے پر میرا ان حضرات سے پورا پورا اتفاق ہے جن سے میں نے اس مسئلے میںمخالفت کی ہے۔ اس احساس میں مَیں ان کے ساتھ برابر کا شریک ہوں کہ ہمارے لئے فی الحال اپنے محدود وسائل کے سبب سب لوگوں کی تعلیم کے لئے کوشش کرنا ناممکن ہے۔
فی الوقت ہماری بہترین کوششیں ایک ایسا طبقہ معرضِ وجود میں لانے کے لئے وقف ہونی چاہئیں جو ہم میں اور ان کروڑوں انسانوں کے مابین جن پر ہم حکومت کررہے ہیں، ترجمانی کا فریضہ سرانجام دے۔ یہ طبقہ ایسے افراد پر مشتمل ہو جو رنگ و نسل کے لحاظ سے تو ہندوستانی ہو، لیکن ذوق، ذہن، اخلاق اور فہم و فراست کے اعتبار سے انگریز۔ اور پھر اس طبقے کے کاندھوں پر یہ ذمہ داری ڈالی جائے کہ وہ ملکی دیسی زبانوں کی اصلاح کرے، مغربی ممالک میںمروّجہ سائنسی اصطلاحات میں اضافہ کرے اور پھر بتدریج انہیں اس قابل بنا دے کہ وہ ملک کی عظیم آبادی پر علوم و فنون کے خزانوں کے دروازے کھول دیں۔
میں موجودہ میسرمفادات کا احترام کروں گا۔ میں ان تمام افراد کے ساتھ فیاضانہ برتاؤ کروں گا جو جائز طور پر مالی اعانت کے مستحق ہیں۔لیکن میں اس نظام ناکارہ کو جڑ سے اُکھاڑ دینا چاہوں گا جسے ہم نے ابھی تک سینے سے چمٹا رکھاہے۔ میں فی الفور عربی اور سنسکرت کی کتابوں کی طباعت روک دوں گا۔ میں کلکتہ کے مدرسے اور سنسکرت کالج کو ختم کردوں گا۔ بنارس برہمنی تعلیم کا بڑا مرکز ہے اوردلّی عربی تعلیم کا۔ اگر ہم ان دونوں ہی کو جاری رکھیں تو 'السنہ شرقیہ' کے فروغ کے لئے کافی ہے بلکہ میرے خیال میں کافی سے زیادہ ہے۔
اگربنارس اور دلّیz کے کالجوں کو برقرار رکھنا ہو تو میری کم سے کم یہ سفارش ہوگی کہ ان میں داخلہ لینے والے کسی طالب علم کو وظیفہ نہ دیا جائے،بلکہ لوگوں کو دو حریف نظام ہائے تعلیم میں سے کسی ایک کے انتخاب کی پوری آزادی ہو۔ ہم کسی طالب علم کو بھی رشوت دے کر اس علم کی تحصیل پر آمادہ نہ کریں جس کے حاصل کرنے کا وہ خود خواہشمند نہ ہو۔
اس طریق کار سے جو رقم ہمیں دستیاب ہوگی اس کی مدد سے ہم اس حیثیت میں ہوں گے کہ ہندو کالج کلکتہ کی وسیع تر اعانت کرسکیں اور فورٹ ولیمã اور آگرہ کی پریذیڈنسیوں کے بڑے بڑے شہروں میں ایسے مدارس قائم کرسکیں،جہاں انگریزی زبان کی تدریس کا اچھا اور مکمل انتظام ہو۔
اگر ہزلارڈ شپ اِن کونسل (عزت مآب گورنر جنرل اِن کونسل) کا فیصلہ وہی ہو، جس کی میں پیش بینی کررہا ہوں تو میں اپنے فرائض کی ادائیگی میں کمال انہماک اور بڑی مستعدی سے سرگرمِ عمل ہوجاؤں گا۔ برخلاف ازاں اگر حکومت کی رائے موجودہ نظام کو بلاردّ و بدل جوں کاتوں رکھنے کے حق میں ہو تو میں درخواست کروں گا کہ مجھے کمیٹی کی صدارت سے سبکدوش ہونے کی اجازت مرحمت فرمائی جائے۔ میرا مخلصانہ احساس ہے کہ اس صورت میں کمیٹی میں میری کوئی افادیت نہیں ہوگی۔ میرا یہ احساس بھی ہے کہ اس صورت میں اس نظام کی حمایت کررہاہوں گا جس کے بارے میںمیرا یقین محکم ہے کہ وہ محض ایک فریب ِ نظر ہے۔ میرا عقیدہ ہے کہ موجودہ نظام کے جاری رہنے سے حق و صداقت کی رفتار ترقی میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ عالم جان کنی میں سلگتی ہوئی خرابیوں کی طبعی موت میںکچھ اور تاخیر ہورہی ہے۔
میرا خیال ہے کہ موجودہ صورت ِ حالات میں ہم کمیٹی کے اراکین کوئی حق نہیں رکھتے کہ ہمیں 'بورڈ آف پبلک انسٹرکشن' کے نام سے موسوم کیاجائے۔ ہم ایک ایسا بورڈ ہیں جو قومی سرمائے کے ضیاع کا ذمہ دار ہے۔ جو ایسی کتابیں چھاپ رہا ہے جن کے کاغذ کی قیمت چھپنے کے بعد اتنی بھی نہیں رہتی جتنی ان کے چھپنے سے پہلے تھی!!
ہم ایک ایسا بورڈ ہیں جو لغو تاریخ، بعید از قیاس مابعد الطبیعات، خلافِ عقل طبیعات اور بے سروپا دینیات کی منافقانہ ہمت افزائی کررہا ہے اور اہل علم کا ایک ایسا طبقہ تیار کررہا ہے جو اپنی فضیلت ِعلمی کو اپنے لئے باعث ِابتلا اور موجب ِعار سمجھتا ہے، جو دورانِ تعلیم عوامی امداد پر گزر بسر کرتا ہے اور اس کی تعلیم اس درجہ بیکار ہے کہ جب وہ اس کی تکمیل کرلیتا ہے تو یاتو فاقہ کشی اس کا مقدر ہے یا عمر بھر کے لئے عوام کی ٹکڑ گدائی اس کی تقدیر ہے۔
ان خیالات و احساسات کے پیش نظر یہ قدرتی امر ہے کہ میں اس کمیٹی کی ذمہ داریوں میں شریک ہونے کے لئے اس وقت تک مستعد نہیں ہوں جب تک کہ یہ ادارہ اپنامجموعی اسلوبِ کار تبدیل نہیںکرلیتا۔ اس وقت تک میرے نزدیک یہ ایک ازکارِ فتنہ ادارہ ہے،بلکہ ایجابی طور پر مضرت بخش اور ضرر رساں بھی۔
٭ اس یادداشت میں جن جذبات کا اظہار کیا گیا ہے، مجھے ان سے کامل اتفاق ہے۔ڈبلیو سی بیٹنکä (گورنر جنرل ہند)
مختصر جائزہ
جناب لارڈ میکالے نے ۲؍فروری ۱۸۳۵ء کو گورنر جنر ل ہند لارڈ ولیم بینٹک کو بیرک پور میں یہ یاد داشت پیش کی اور اس میں انہوں نے اپنے پیش نظر نظام تعلیم کا یہ مقصد قرا ردیا کہ
'' تعلیماتِ عامہ کاکام حکومت برطانیہ کے بس کی بات نہیں، مقصود صرف ایک طبقہ پیدا کرنا ہے جو انگریزوں اور ان کی ہندوستانی رعایا کے درمیان ترجمان کاکام دے سکے، رنگ ونسل کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہو لیکن ذہنی ذوق اور اخلاق کے حوالے سے انگلستانی۔''
اس یادداشت کا تذکرہ جوں ہی کالج کے طلبہ میں ہوا، ہندوستان کے روایتی نظام تعلیم 'مدرسہ ' کے حق میں ۳۰ ہزار افراد کے دستخطوں سے احتجاجی مراسلہ گورنر جنر ل کو ایک وفد نے پیش کیا جس کے بعد احتجاجی مراسلوں کا ایک سلسلہ چل نکلا، سنسکرت کے حامیوں نے بھی مراسلے بھیجے۔
ڈبلیو ایچ میگناٹن نے اس یادداشت کی بے وقعتی کھولی اور اس پر نہایت تند وتیز تنقید کی، ایسے ہی کرنل موریسن نے السنہ شرقیہ کی تعلیمی اہمیت سے انکار کو فکری عجوبہ قرار دیا۔جبکہ جناب ایچ ٹی پرنسپ نے بڑا ہی مدلل جوابی نوٹ تحریرکیا، جس میں انہوں نے قرار دیا کہ میکالے نے تشنہ معلومات کی بنا پر غلط اور دوراز کار نتائج اخذ کئے ہیں او راس کا رویہ انتہا پسندانہ اور جانبدارانہ ہے۔۱۰؍ فروری۱۸۳۵ء کے اس نوٹ میں پرنسپ نے اس یادداشت کا جامع جائزہ لیا ہے اور افسوسناک فروگذاشتوں پر کامیاب تبصرہ کیا مثلاً
٭ لاکھ روپے کی گرانٹ کا مقصد'علوم کا احیا اور ملکی فضلا کی ہمت افزائی' بڑا واضح تھا جسے کسی بھی اعتبار سے اپنی صوابدید کے مطابق استعمال کرنے کا مقصد نہیں نکالا جاسکتا۔ نہ ہی ان علوم کو مسترد کرنے کا مفہوم اس سے کسی طرح نکلتا ہے جن کا فروغ مقصو دہے۔جبکہ اس فقرے کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے انگریزی زبان کی تدریس کے ادارے بند کردیے جائیں اور انگریزی کتب کی اشاعت روک دی جائے۔
٭ مصر کے پاشا کی مثال بھی بے محل اور غیر موزوں ہے۔ متداولہ علوم کے فروغ سے یہ کہاں مفہوم نکلتاہے؟دراصل پاشا مخروطی میناروں اور اوسی رس کے علوم کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ اس سے سیدھا سادا مطلب یہ نکلتاہے کہ یہ وہ علوم ہیں جو مصر کے اداروں میںزیر تدریس ہیں اور مسلمان عربوں کے برپا کئے ہوئے عالمی علمی انقلاب کا نتیجہ ہیں۔
جبکہ تمدنِ عرب کے مصنف گستاولی بان کے نزدیک ان کی اہمیت یہ ہے کہ پانچ سو سال تک یورپ کی یونیورسٹیاں انہی علوم کے سہارے جیتی رہی ہیں۔ رابرٹ بریفالٹ کے قول کے مطابق مسلمانوں نے ہی عالم انسانیت پرجدید سائنسی تحقیقات کے دروازے کھولے ہیں۔
٭ اسی طرح ہندوستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں نے ان اداروں کے لئے جو املاک وقف کی ہیں، انہیں انہی مقاصد میں صرف کرنا ضروری ہے،کیونکہ شرط الواقف کنص الشارع۔ یہ موقوفہ جائیدادیں لاکھوں روپے کی ہیں جنہیںمخیر لوگوں نے محض اغراضِ تعلیمی کے لئے وقف کیاہے۔ انہیں حکومت 'اپنی صوابدید' کے مطابق خرچ نہیں کرسکتی۔ کیا انگلستان کی یونیورسٹیوں کے لئے املاکِ موقوفہ حکومت ِانگلستان کسی اور مصرف میں لاسکتی ہے؟
٭ میکالے کا وظائف کااعتراض بھی پرنسپ کے بقول غلط ہے کیونکہ وظائف صرف قابل اورمستحق طلبا کو دیے جاتے ہیں اور طلبا کی یہ تعداد اداروں کی مجموعی تعداد کا تہائی حصہ سے زیادہ نہیں بنتی اور ایسے تعلیمی وظائف آج تک فروغ تعلیم کے لئے جدید یونیورسٹیوں میں بھی دیے جاتے ہیں۔ اس سے میکالے کے مفروضہ اعدادوشمار کی وقعت ختم ہوجاتی ہے جس پر اس نے ایک بے سروپا اضافہ گھڑ لیا۔
٭ جن کتابوں کی طباعت اور اشاعت کا ہنگامہ برپاکیا گیا ہے، وہ جیومیٹری، ٹریگنومیٹری، ہٹن کا نصابِ ریاضیات ، فتاویٰ عالمگیری، کراکر، ہوپر اور برج کا الجبرا، مہابھارت جیسی درسی کتابیں ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ میکالے کو کتب نصاب کی پوری طرح پڑتال کا موقع بھی نہیںملا،ورنہ اسے بآسانی معلوم ہوسکتا تھا کہ ان کتابوں کے ذریعے سے بڑی خوبی سے مشرقی علوم میںمفید مغربی علوم کا امتزاج کیاجارہا تھا اور اس تحریک میں کمیٹی کو صحیح الفکرہندوستانیوں کا تعاون بھی حاصل تھا۔ اس نظامِ کار میں ایسی بہ عجلت تبدیلی سے ''ہندوستانیوں کو ہم پر جو اعتماد ہے، اسے غیر معمولی ٹھیس پہنچے گی۔'' پرنسپ نے اس پر خصوصی توجہ دلائی۔
٭ اور پھر پرنسپ کے بقول فارسی اور عربی کے بارے میں مدرسہ میں جو حکمت ِعملی زیر کار ہے، اس کی رُو سے جدید علوم و فنون کو ان کتب ِنصاب میںموزوں پیوندکاری کے ذریعے سے بتدریج مطلوبہ سطح تک لانا ہے۔ عربی فارسی اور سنسکرت زبانیں مسلمانوں اور ہندوؤں کے لئے اسی طرح ہیں جس طرح لاطینی اور یونانی زبانیں یوروپین اقوام کیلئے تھیں۔
٭ روس کی مثال پر تبصرہ کرتے ہوئے پرنسپ نے بڑی لاجواب بات کہی۔ ان کے خیال میں یہ مثال غیرمتعلق ہے۔ یہ مثال صحیح جب تھی کہ روس میں جرمنی زبان ہی لازمی قرار دے دی جاتی اور وہاں کی زبانوں کو دیس نکالا دے دیاجاتا۔ ظاہر ہے کہ روس میں جرمنی یا کسی اور ملک کی زبان تدریس کا واحد ذریعہ کبھی نہیںرہی۔
٭ پرنسپ نے میکالے کی اس ناقابل فہم منطق پر بھی حیرت کا اظہار کیا ہے کہ ہندوستان جیسے مذہبی ملک میں مسلمانوں کو عربی اور ہندوؤں کو سنسکرت سے رغبت نہیں۔ اس میںغالباً سنسکرت کی حدتک میکالے نے راجہ رام موہن رائے کے خیالات کا سہارا لیا ہے۔ پرنسپ نے مسلمانوں کی دینی عصبیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے انگریزی صرف اس وقت پڑھنے کی حامی بھری تھی جب مولانا عزیز الدین دہلوی نے اس کے جواز کا فتویٰ دیا تھا۔ ان کے خیال کے مطابق مسلمان اپنی روایات اور دین کے بارے میں ہندوؤں کے مقابلے میں بہت ہی زیادہ پختہ ہیں۔ مدرسے کو بند کردینے سے ان کی 'دینی غیرت' کو چیلنج کرنا ہوگا اور پھر یہ عجیب بات ہے کہ ہم ان کتابوں کے بارے میں فیصلہ کررہے ہیں جن کی زبانوں ہی سے ہم محض نابلد ہیں۔ اس کا خود میکالے اعتراف کرتے ہیں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ متّفقین کی کمیٹیاں مقرر کی جاتیں اور ان لوگوں کو اعتماد میںلیا جاتا جن کے لئے ہم کوئی تعلیمی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ ذریعہ تعلیم، نصاب میںمشرقی اور مغربی علوم کا حسین امتزاج، کتابوں کی طباعت اور اشاعت کا بہتر طریق انہی کے مشورے سے طے پاتا۔ رعایا کی خوشنودی اور دل جوئی کرنے والی سلطنت ِبرطانیہ کے اراکین کو عجلت سے فیصلہ نہیں کرنا چاہئے اور جو فیصلہ کیاجاچکاہے، اسے کم از کم ملتوی کردیاجائے۔
نتیجہ: بڑی ردّ و قدح کے بعد ۱۱؍اپریل ۱۸۳۵ء کو جنرل کمیٹی برائے پبلک انسٹرکشن نے آٹھ اُمور میںکچھ تجاویز منظور کیں اور اس اجلاس کی صدارت بھی ٹی بی میکالے نے کی۔ ان اُمور میں ان کتابوں کی طباعت کی اجازت دے دی گئی جن کاکام شروع تھا۔گورنمنٹ سے درخواست کی گئی کہ فتاویٰ عالمگیری کی طباعت کی تکمیل کی اجازت دے دے۔ گورنمنٹ سے درخواست کی گئی کہ جس طباعت و اشاعت کے کام کی ذمہ داری کمیٹی نے اُٹھارکھی تھی، اسے کسی دوسرے فرد یا ایجنسی کو منتقل کرنے کی اجازت دے دے۔ کلکتہ اور بنارس کے لئے سیکرٹریوں کے تقرر کے التوا کی اجازت لی گئی اورطے پایا کہ انگریزی زبان کی تدریس کے لئے فراہم شدہ فنڈز کا سیکرٹری صاحب تخمینہ پیش کریں گے۔ اس سرمائے سے فورٹ ولیم اور آگرہ کی پریذیڈنسیوں کے اہم قصبوں میں انگریزی کی تدریس کے مدارس قائم کئے جائیں اور آگرہ کے اسکول ماسٹروں کی تعیناتی کی جائے۔ ایک سب کمیٹی جس کے اراکین سرایڈورڈ ریان، ٹریویلین، کیپٹن برچ اور مسٹرگرانٹ ہوں گے، مقرر کی جائے جو انگریزی کے اساتذہ کے بارے میں اور ان کی شرائط ِملازمت کے متعلق رپورٹ کرے۔
اور اس طرح لارڈ میکالے کوئی قومی نظامِ تعلیم برپا کرنے کی بجائے انگریزی زبان کی تدریس کا انتظام کرنے اور ہندوستانیوں کا ایک طبقہ تیار کرنے میںکامیاب ہوگئے جو رنگ ونسل کے اعتبار سے تو بلا شبہ ہندوستانی ہے لیکن ذہن، ذوق اور اخلاق کے لحاظ سے انگریز! انا ﷲ وانا الیہ راجعون
٭قارئین تصحیح فرما لیں
محدث کے سابقہ شمارہ جولائی ۲۰۰۴ء میں معروف قلمکار صاحب ِعلم ڈاکٹرخالد علوی کے شائع شدہ مقالہ 'اسلام اور دہشت گردی ' میں صفحہ نمبر ۷۶ پر ایک جملے کے درمیان [بریلوی] کا اضافہ کمپوزر کی غلطی سے سہواً شائع ہوگیا ہے، قارئین سے گذارش ہے کہ اس کی اصلاح کرلیں تاکہ مفہوم میں خرابی پیدا نہ ہو۔غلطی کی نشاندہی پرادارہ فاضل مقالہ نگار کا شکرگزار ہے۔ (ادارہ)
حوالہ و ہاشیہ:
4. جان لاک (۱۷۰۴۔۱۶۳۲) انگلستان کا عظیم مفکر، فلسفی اور ماہر تعلیم۔ سیفٹس بری کا دوست، اس کے زوال کے بعد ہالینڈ چلا گیا۔ ولیم اورنج کے ساتھ واپس آیا۔ اس نے بادشاہت کے نظریۂ حق آسمانی کی تردید کی تھی۔
5. سر اسحق نیوٹن (۱۷۲۷۔۱۶۴۲) عظیم ریاضی دان اور فلسفی جس نے کشش ِثقل کا اُصول دریافت کیاتھا۔
6. اوسی رس (OSIRIS) عالم ادنیٰ کامصری دیوتا سمجھاجاتا تھا۔ عسس جو زرخیزی اور تہذیب کی دیوی سمجھی جاتی تھی، اس کی بہن اور بیوی تھی۔
7. اوبی لکس (OBELIKS) مخروطی پتھر کے مینار، جو عہد ِفراعنہ مصر کی تعمیری یادگار تھے۔ بارہ مینار اٹلی میں اور ایک مینار فرانس اور انگلستان میںمنتقل ہوگئے۔
8. ایڈورڈجے نر (JENNER) (۱۸۲۳۔۱۷۴۹) چیچک کے ٹیکے کے موجد۔ اس ایجاد پرپارلیمنٹ نے اسے تیس ہزار پونڈ کا انعام دیا۔
9. میسور: متحدہ ہندوستان کی ایک دیسی ریاست تھی جو شیروں کی پرورش گاہ تھی۔ اس ریاست کا رقبہ ۲۹۴۷۴
مربع میل تھا۔ آبادی ۷۴ لاکھ اور سالانہ آمدنی ساڑھے آٹھ کروڑ روپیہ تھی۔
10. تھیوسی ڈائی ڈس: (۴۰۱۔۴۷۱ ق م) مشہور عالم یونانی تاریخی دان اور مؤرخ
11. افلاطون: (۳۴۷۔۴۲۹ق م) سقراط کا شاگرد، شہرئہ آفاق یونانی فلسفی جس کی تصنیف 'ری پبلک' فکری نشاۃ کا سبب بنی۔
12. سسرو۔ مارکس طویسیس : (۴۳۔۱۰۶ ق م) مشہور رومی خطیب اور فلسفی، مفکرین عالم میں شمارہوتا ہے۔
13. ٹاسی ٹس، کیس کارویس:(۱۲۰۔ سی۵۵) رومی مؤرخین کا سرخیل اور معروف دانشور، اس کی تصانیف فن تاریخ کی اساس ہیں۔
14. مور۔سرتھامس (۱۵۳۵۔۱۴۷۸) ہنری ہشتم کے دور حکومت میں کارڈنیل وولزے کا جانشین، لارڈ چانسلر۔ ایکٹ آف سپریمیسی کے تحت حلف اٹھانے سے انکار پر قتل کردیا گیا۔ اس کی کتاب یوٹوپیا کا شمار دنیا کی اُمہات الکتب میں ہوتاہے۔
ایسچم: راجر اسیچم(۱۵۶۸۔۱۵۱۵) ادبیاتِ انگلستان کا ایک معروف نام۔ اس کی مشہور تصنیف 'اسکول ماسٹر' کا شمار انگریزی کلاسیکی ادب میں ہوتا رہا ہے۔
15. صلیبی لڑائیاں: (کروسیڈز) وہ حروب جو صلیب پوش مغربی مملکتوں نے مسلمانوں سے یروشلم چھیننے کے لئے لڑی تھیں۔ پیٹر نے ۱۰۹۵ء میں مسلمانوں کے خلاف تعصب اور نفرت کی جو آگ بھڑکائی تھی، اس کے شعلے ابھی تک سرد نہیں ہوئے ہیں۔ حروبِ صلیبی مغربی ممالک میںمندرجہ ذیل آٹھ جنگوں سے مراد ہیں: پہلی جنگ ۹۸۔۱۰۹۶ء میں گاڈنرے آف یوئیلن کی قیادت میں لڑی گئی جس میں پہلے پہل عیسائیوں نے یروشلم فتح کرلیا تھا۔ دوسری جنگ ۴۹۔۱۱۴۷ء میں لوئی ہفتم کی کمان میں لڑی گئی، لیکن عیسائی قوتوں کو ناکامی کا سامنا ہوا۔ تیسری صلیبی جنگ ۹۲۔۱۱۸۹ء میںرچرڈ شیردل نے سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ کے خلاف لڑی، لیکن اسے منہ کی کھانا پڑی۔ چوتھی جنگ۴۔۱۲۰۲ء میں فلینڈڑز کے کاؤنٹ بلڈون کی قیادت میں لڑی گئی اور قسطنطنیہ میں لاطینی سلطنت کی بنیاد پڑی۔
پانچویں جنگ ۱۲۱۷ء میںلڑی گئی اور اس کی کمان جان بواِن نے کی اور ناکام رہی۔ چھٹی جنگ ۹۔۱۲۲۸ء میںفریڈرک ثانی کی قیادت میں لڑی گئی ساتویںجنگ ۵۰۔۱۲۴۸ء میں سینٹ لوئیس (لوئیس IX) کی قیادت میںلڑی گئی اور آٹھویں دفعہ میدانِ کارزار ۱۲۷۰ء میں گرم ہوا۔ جس میں لوئیس بے نیل ومرام رہا۔ اس کے بعد عیسائیوں نے آلاتِ جنگ بدل دیئے ہیں اور یہودیوں کے ساتھ مل کر زیادہ شدت سے آج تک عالم اسلام کے خلاف صف آرا ہیں۔
16. پنجاب: یہ سکھا شاہی دور کا بدقسمت پنجاب تھا۔ شہزادہ تیمور حاکم پنجاب کے خلاف آدینہ بیگ ناظم دوآبہ نے مرہٹوں کو حکومت ِپنجاب کی پیشکش کی۔ مرہٹوں نے پنجاب کو تہ و بالاکردیا اور واپس چلے گئے۔ اس افراتفری سے سکھوں کو لوٹ مار کا موقع ملا۔ جس کا سلسلہ ۱۸۴۹ء تک وقفوں وقفوں کے بعد جاری رہا۔ ۱۸۴۹ء میں انگریزوں نے اس ظلم و ستم کی حکومت کا تختہ اُلٹا۔ کنہیا لال نے پنجاب کی بربادی کی جو داستان لکھی ہے، اس سے سکھوں کی بربریت اور سفاکی کابخوبی اندازہ ہوسکتا ہے۔
17. سینٹ نکولس (بشپ آف ماٹر)روس کاچوتھی صدی کا ہردلعزیز راہب جس سے کرسمس کے سانٹا کلاز کے قصے منسوب ہیں۔
18. مدرسہ عالیہ، کلکتہ حضرت شاہ ولی اللہؒ کے ایک شاگرد ملا مجدالدین شاہجہان پور سے ایک علمی مناظرے میںشرکت کے لئے کلکتہ آئے۔ کلکتہ کے مسلمان ان کے تبحر علمی سے بڑے متاثر ہوئے۔ ان کا ایک وفادار وارن ہیسٹنگزگورنر جنرل سے ملا اور درخواست کی کہ اس یگانہ عصر عالم کے علم سے فیض یاب ہونے کے لئے مسلمانوں کوکلکتے میں ایک اسلامی مدرسہ قائم کی اجازت دی جائے۔ گورنر جنرل نے مدرسے کے قیام کی منظوری دے دی اور ۱۷۸۰ء میں اس کا افتتاح ہوگیا۔ بورڈ آف ڈائرکٹرز کی منظوری تک اس مدرسے کے جملہ مصارف گورنر جنرل نے اپنی جیب ِخاص سے ادا کئے۔ اس مدرسے کے فارغ التحصیل طلبا پرملازمتوں کے دروازے کھلے تھے اور عدالتوں کے اعلیٰ عہدوں پربھی انہیں فائز کیاجاتا تھا۔
19. بنارس سنسکرت کالج: ہندوؤں کی دل جوئی کے لئے اور مخصوص سیاسی مفاد کی تکمیل کے لئے جو کلکتہ مدرسہ کے قیام کے محرک بھی تھے۔ اس کے ریذیڈنٹ جوناتھن ڈنکن نے ۱۷۹۱ء میں اس کالج کی بنیاد رکھی۔ پہلے سال اسے چودہ ہزار روپیہ بطورِ گرانٹ عطاکئے گئے۔ اس کے نصاب میں وہی مضامین شامل تھے جو دیسی پاٹھ شالاؤں میں زیر تدریس تھے، مدرسہ عالیہ کو جس طرح عربی کی تعلیم کامرکز سمجھا جاتا تھا۔ اسی طرح بنارس سنسکرت کالج کو سنسکرت کی تعلیم کامرکز گردانا جاتاتھا۔
20. شاستر دھرم شاستر (قانون و رسم و رواج) کی کتابیں 'سمرتی' کہلاتی ہیں جس کے معانی ان کے سینہ بہ سینہ منتقل ہونے کی وجہ سے 'یاد کئے ہوئے اُصول' ہیں۔ ان میں سے سب سے زیادہ مشہور منو کا دھرم شاستر ہے۔ ہندوؤں کے وراثت، متبشگی اور دیگر معاملات اور مسائل انگریزی عدالتوں میں اسی کے مطابق طے پاتے تھے۔
21. ہدایہ: فقہ حنفی کی مستند کتاب، مصنفہ شیخ برہان الدین ابوالحسن علی بن ابی بکر مرغینائی ؒ متوفی ۵۹۳ھ۔ پہلی دو جلدوں میںکتاب الطہارۃ سے لے کر کتاب الوقف تک اور اخیرین میں کتاب البیوع سے لے کر کتاب الوصایا تک مسائل فقہی کا احاطہ ہے۔ائمہ کے اختلافی اقوال میں ترجیحی صورت میں مصنف کا محاکمہ قابل مطالعہ ہے۔ اسلامی فقہ میں ہدایہ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔
22. ہیروڈوٹس (۴۲۴۔۴۸۴ ق م) باباے تاریخ۔ یونان کا عظیم مؤرخ اور ادیب جس کا نام تاریخی واقعات پر اس دور کی معتبر ترین شہادت کے طور پر پیش کیاجاتاہے۔
23. سوفوکلینر (۴۰۶۔۴۹۵ ق م ) مشہور یونانی ڈرامہ نگار جسے ایتھنز میں غیر معمولی شہرت ملی۔ اس کے سو ڈراموں میں سے صرف سات دستیاب ہیں: اوڈی پس، اینٹی گال، الیکٹرا، ایچبکس، ٹراچیتی،فیلو کٹے ٹیں اور اوڈی پس ایٹ کانولس۔
24. ڈیوڈ ہیوم (۷۶۔۱۷۱۱) مشہور مؤرخ اور فلسفی، مصنف تاریخ انگلستان جسے تاریخ کی کتابوں میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ اس کے فلسفے نے فکر کو نئی نئی جہتیں دی ہیں۔
25. دلّی کالج:جوزف ہنری ٹیلر (سیکرٹری دلّی مجلس) کی رپورٹ پر کہ دلّی میںتعلیم کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں ہے اور غازی الدین خان کے خراب حال مدرسہ کی جگہ کالج قائم کیاجائے۔ ۱۸۹۵ء میں ڈائریکٹروں کی منظوری سے ۷۱۱۰ روپے کے صرف سے مدرسے کی عمارت کی مرمت کی گئی اور اس میںمسٹرٹیلر ہی کی پرنسپل شپ میں عربی، فارسی اور اُردو کی تدریس کے لئے کالج قائم کردیا گیا۔ ۱۸۲۸ء میں انگریزی کا شعبہ بھی کھل گیا۔ ۱۸۵۷ء میں اس کاتعلق پنجاب یونیورسٹی سے کردیا گیا۔ پنجاب کے مشیرانِ تعلیم ملر، ہالرائیڈ اور لائٹی نر کی خواہش تھی کہ اسے بند کردیا جائے۔چنانچہ دلّی کالج ۱۸۷۷ء میں بند کردیا گیا۔
26. فورٹ ولیم: ۱۸۰۰ء میںکلکتہ میں یہ کالج اس لئے قائم کیا گیا تھا کہ اس میں کمپنی کے انگریز ملازموں کو ہندوستانی زبانوں میںتعلیم دی جائے تاکہ وہ اپنے فرائض کی سرانجام دہی میںزیادہ باخبر اور مستعد ہوں۔ اس کالج کو گل کرائسٹ جیسے محب ِوطن اور کپتان روبک، کپتان ٹیلر اور ڈاکٹر ہنٹر جیسے بیدارمغز افسروں کی خدمات حاصل رہی ہیں۔ مقالہ میکالے اسی کالج کے رجسٹر کاروائی (از ۲۲ جنوری ۱۸۳۵ء تا ۱۷ مارچ ۱۸۳۵ئ) سے نقل کیا گیا ہے جو انڈیا آفس لائبریری میںموجود ہے۔
27. لارڈ ولیم کیونڈش بینٹنک: ۱۸۲۸ء سے ۱۸۳۲ء تک اور پھر ۱۸۳۳ء سے ۱۸۳۵ء تک دو مرتبہ ہندوستان کے گورنر جنرل رہے۔ انہوں نے لارڈ میکالے کی یادداشت کو من وعن قبول کیا اور اس کے نظریات وخیالات کی پرزور تائید کی۔ وہ میکالے کی علمی صلاحیتوں سے اس درجہ مرعوب تھے کہ انہوں نے اس یادداشت کو حرفِ آخر سمجھا۔ ایچ ٹی پرنسپ کے معقول ا ورمربوط نوٹ کا خاص نوٹس نہ لیا،بلکہ انہیں تنبیہ کی کہ تم سیکرٹری ہو مشیر نہیں ہو اور انہیں پیغام بھجوایاکہ اپنا نوٹ واپس لے لو۔ بالآخر جب حالات بہت پریشان کن ہوگئے تو یادداشت میں تجویز کردہ بعض انتہائی اقدامات نرم کردیے گئے۔