صحابہ کرامؓ اور اہل ِبیت عظام کے درمیان قابلِ رشک برادرانہ تعلقات

شیعہ سنی منافرت وطن عزیز میں کئی سالوں سے زوروں پر ہے۔ مختلف اندرونی وبیرونی عوامل اس کو ہوا دے کر اپنے نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ گذشتہ دنوں اسی منافرت کو ہوا دے کر عراق میں امریکی جارحیت کے لئے وجہ ِجواز فراہم کرنے کی بھی کوششیں ہوئیں، جس میں انہیں کامیابی نہ مل سکی۔ غیرمسلموں کا ہمیشہ سے یہی ہتھیار رہا ہے کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر اپنے مقاصد حاصل کئے جائیں۔ شیعہ سنی اختلاف کا بنیادی نکتہ 'مسئلہ خلافت اور واقعہ کربلا' ہے جس کی و جہ سے شیعہ حضرات خلفاء راشدین کے حق میں ناروا کلمات کہتے ہیں اور اسی سوئِ ادب سے اہل سنت کے جذبات مشتعل ہوتے ہیں۔
زیر نظر مقالہ میں ان تمام تاریخی دلائل کو جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کوتاہ بینی کی وجہ سے جن صحابہ کرام اور اہل بیت کو جدا کرنے کی مذموم کاوشیں آئے روز کی جاتی ہیں، وہ خود آپس میں محبت ومودت کے کیسے گہرے تعلقات اور جذبات رکھتے تھے۔ مقالہ نگار موصوف نے جو سعودی عرب کی بڑی فاضل عدالتی شخصیت ہیں، اس مقالہ میں کئی اعتبار سے نبی کریمؐ کے اہل بیت اور آپ کے صحابہ کرامؓ کے درمیان حسن ِتعلق کو تاریخی حوالوں سے پیش کرنے کی سعی مشکور فرمائی ہے۔جن میں دو نوعیت کے تعلقات یعنی ایک دوسرے کے مشابہ نام (دلالۃ التسمیۃ) رکھنااور ایک دوسرے سے شادی بیاہ کے تعلقات (دلالۃ المصاہرۃ)کا تذکرہ اس شمارے میں شائع کیا جارہا ہے ۔ ( مدیر)
اصحابِ رسولﷺ کے چند اَوصاف
جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ امت کا ایک منفرد طبقہ تھے اور اسے وہ امتیازات اور خوبیاں حاصل تھیں جو دوسرے طبقات کو حاصل ہونا ناممکن ہیں۔ وہ شرفِ صحابیت کے مقام پر فائز ہیں۔ وہ رسول اللہﷺ کی صحبت میں رہے اور آپؐنے ہی ان کی تربیت کی اور انہیں تعلیم دی اور انہیں آداب سے بہرہ ور فرمایا، ان کو لے کر آپؐ نے کفار سے جہاد کیا اور انہوںنے ہی آپ ؐکا ساتھ دیا۔ یہاں ہم ان کے اوصاف میںسے ایک وصف پرتوجہ مرکوز کرتے ہیں اور وہ وصف اس لائق ہے کہ اس کی تدریس اور تشریح کی جائے اور اس کا تذکرہ ہر سو پھیلایا جائے اور وہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں اور گروہوں کے نزدیک نشان راہ بن جائے۔ آپ جانتے ہیں کہ وہ وصف کون سا ہے؟ وہ ہے ' باہمی رحمت و مودّت'
ذرا سوچئے گفتگو کا آغاز اس وصف سے کرنے کی کیا و جہ ہے؟
قارئین کرام! آپ نے کیا اس مرغوب وصف کی حقیقت کے بارے میں سوچا ہے؟ بلاشبہ آپ کو اس موضوع پر بات کرنے سے بہت سے اسباب ملیں گے، لیکن میں اس مقالے کے اختصار کے پیش نظر چند اَسباب کا تذکرہ کروں گا :
پہلا سبب
صفت ِذاتی اور اس میں پنہاں حقائق اور اَوصافِ محمودہ، اور اس صفت کے متعلق نازل ہونے والی آیات اور حضرت رسول کریم صلوٰۃ اللہ علیہ وعلیٰ آلہٖ الاطہار سے منقول شدہ احادیث اور آپ ؐکے اخیار صحابہ کرامؓ سے مروی آثار۔ چنانچہ غور فرمائیے، ہمارا اللہ سبحانہ وتعالیٰ، رحمن اور رحیم ہے اوراس نے اپنے حبیب ﷺ کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا :
﴿لَقَد جاءَكُم رَسولٌ مِن أَنفُسِكُم عَزيزٌ عَلَيهِ ما عَنِتُّم حَريصٌ عَلَيكُم بِالمُؤمِنينَ رَءوفٌ رَحيمٌ ﴿١٢٨﴾... سورة التوبة
''تحقیق تمہارے پاس رسول آیا جو تمہاری جانوں سے ہے۔ تمہارا مشقت میں پڑنا اس پر گراں گزرتا ہے، وہ تم پر (آسانیوں کا)حریص ہے اور مومنوں کے ساتھ مشفق اور مہربان ہے۔''
اور حضرت رسولِ کریمﷺ نے فرمایا:
«من لا یرحم لا یرحم» ''جو کسی پررحم نہیں کرتا، اس پررحم نہیں کیا جاتا۔'' (متفق علیہ)
اور صفت ِذاتی کے متعلق گفتگو لمبی ہوجائے گی اور اس صفت کے متعلق بیان شدہ نصوص بہت زیادہ ہیں جو آپ پر مخفی نہیں ہیں۔
دوسرا سبب
یہ کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کے صحابہؓ کی تعریف کے لئے اس صفت کو پسند فرمایا ہے اور دوسری صفات کی بجائے اس صفت کے اختیار میں بہت سی غیرمعمولی اہمیت والی حکمتیں اور فائدے ہیں اور ان کی تعریف میں اس صفت کو اختیار کرنے میں علمی اعجاز بھی ہے۔ جو انسان بھی اس نکتے پرغور کرے گا تو اس پر یہ اعجاز آشکارا ہوجائے گا، کیونکہ آیت قرآنی میں خصوصی طور پر صفت ِرحمت جو ان کے درمیان موجود تھی کو دوسری صفات کی بجائے اللہ نے بھی امتیاز سے بیان کیا ہے۔اس میں ان اعتراضات اور الزامات کا ردّ ہے جو اس وقت ظاہرنہیں ہوئے تھے اور نہ ہی وہ کتابوں میں لکھے گئے تھے اور بعد ازاں وہ قصہ گو حضرات کی زبانوں کاچٹخارا بن گئے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿مُحَمَّدٌ رَسولُ اللَّهِ وَالَّذينَ مَعَهُ أَشِدّاءُ عَلَى الكُفّارِ رُحَماءُ بَينَهُم تَرىٰهُم رُكَّعًا سُجَّدًا يَبتَغونَ فَضلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضو‌ٰنًا سيماهُم فى وُجوهِهِم مِن أَثَرِ السُّجودِ ...﴿٢٩﴾... سورة الفتح
''محمد اللہ کے رسول ہیں اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ہیںوہ کفار پر بڑے سخت ہیں اور آپس میں رحمدل ہیں، تو انہیں رکوع اور سجدے کرتے ہوئے دیکھے گا وہ اللہ کا فضل اور خوشنودی تلاش کرتے ہیں۔ انکے چہروں پرسجدوں کے اثر کی وجہ سے (شرف ووقارکی) نشانیاں ہیں۔''
تیسرا سبب
اس حقیقت کی تعیین (کہ آپ کے صحابہ کرامؓ آپس میںرحم دل تھے) اور یہ کہ رحمت کی صفت ان کے دلوں میںجاگزیں تھی، ان روایات اور اوہام اور قصوں کہانیوں کو ردّ کردیتی ہے جو اصحاب ِرسول کی ہمارے سامنے یہ تصویر پیش کرتی ہیں کہ وہ آپس میںنامانوس اور نفور تھے اور ان کے درمیان عداوت چھائی ہوئی تھی!!
جب آپ کے نزدیک یہ حقیقت ثابت ہوگئی کہ صحابہ کرامؓ آپس میں رحم دل تھے اور یہ بات آپ کے دل کی گہرائیوں میں اُترگئی تو آپ کے دل سے ان لوگوں کے متعلق حسد و کینہ نکل جائے گا، جن کے متعلق اللہ نے دعا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَالَّذينَ جاءو مِن بَعدِهِم يَقولونَ رَبَّنَا اغفِر لَنا وَلِإِخو‌ٰنِنَا الَّذينَ سَبَقونا بِالإيمـٰنِ وَلا تَجعَل فى قُلوبِنا غِلًّا لِلَّذينَ ءامَنوا رَبَّنا إِنَّكَ رَءوفٌ رَحيمٌ ﴿١٠﴾... سورة الحشر
''اور وہ لوگ جو ان کے بعد آئے وہ کہتے ہیں: اے ہمارے ربّ! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ایمان قبول کرنے میں ہم سے سبقت لے گئے اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے متعلق حسد و کینہ نہ پیدا کر جو ایمان لائے، اے ہمارے ربّ تو بخشنے والا مہربان ہے۔''
چوتھا سبب
محققین کے نزدیک معتمد اُصول یہ ہے کہ متن کا سند کے ساتھ اہتمام کیاجائے اور اسناد کے ثبوت کے بعد روایات کے متون کی طرف آیا جائے اور روایات کا مفہوم قرآن کی نصوص اور اسلام کے کلی اُصول کے مطابق سمجھا جائے۔ یہ ہے علم میںرسوخ حاصل کرنے والوں کا طور طریقہ ،تاریخی روایات کی تحقیق میں اس منہج کی بطور خاص پابندی ضروری ہے، لیکن افسوسناک معاملہ یہ ہے کہ مؤرخین نے اَسانید پر توجہ نہیںدی اور انہوںنے تاریخ وادب کی کتابوں میں صرف روایات کی موجودگی پر اکتفا کیا ہے دوسری طرف جنہوں نے اسانید کا اہتمام کیاہے، انہوں نے متون پر غور کرنے اور انہیں قرآن کے ساتھ موزوں کرنے میںغفلت سے کام لیا ہے۔
قارئین کرام! فیصلہ کرنے اور بہتانات کو ہوا دینے سے قبل، بلکہ اپنے تاریخی اسٹاک اور خاندانی معلومات پر اعتماد کرکے احکام صادر کرنے سے قبل بلکہ جذباتی کینے سے قبل ٹھنڈے دل سے غور کیجئے اور ان دلائل کامطالعہ کیجئے جو میں نے درج ذیل سطور میں پیش کئے ہیں۔ یہ دلائل اپنی وضاحت و ستھرائی، قربِ فہم اور قوتِ معانی کے باوجود نامانوس تو ہیں، لیکن یہ موجودہ صورت حال سے ہم آہنگ ضرور ہیں اور قرآنی نص سے مطابقت اور قوت رکھتے ہیں جیساکہ سورئہ فتح کے آخر میں ہے :
﴿مُحَمَّدٌ رَسولُ اللَّهِ وَالَّذينَ مَعَهُ أَشِدّاءُ عَلَى الكُفّارِ رُحَماءُ بَينَهُم تَرىٰهُم رُكَّعًا سُجَّدًا يَبتَغونَ فَضلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضو‌ٰنًا سيماهُم فى وُجوهِهِم مِن أَثَرِ السُّجودِ ذ‌ٰلِكَ مَثَلُهُم فِى التَّورىٰةِ وَمَثَلُهُم فِى الإِنجيلِ كَزَرعٍ أَخرَجَ شَطـَٔهُ فَـٔازَرَهُ فَاستَغلَظَ فَاستَوىٰ عَلىٰ سوقِهِ يُعجِبُ الزُّرّاعَ لِيَغيظَ بِهِمُ الكُفّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّـٰلِحـٰتِ مِنهُم مَغفِرَةً وَأَجرًا عَظيمًا ﴿٢٩﴾... سورة الفتح
''محمد، اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت ہیں اورآپس میں رحم دل ہیں تو انہیں جھکے ہوئے سربسجود پائے گا، وہ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی تلاش کرتے ہیں، سجدوں کے اثر سے ان کے چہروں پر (شرافت و وقار کی) نشانیاں ہیں۔ ان کے یہی اَوصاف تورات میں بیان ہوئے ہیں اور یہی اوصاف انجیل میں ہیں اس کھیتی کی طرح جس نے اپنی کونپل نکالی پھر اس کومضبوط کیا پھر وہ موٹی ہوئی پھر وہ اپنی نال پرکھڑی ہوئی اور کسانوں کو خوش کرنے لگی تاکہ اللہ ان (کی قوت و شوکت) کے ساتھ کفار کادل جلائے۔ اللہ نے ان لوگوں کے ساتھ جو ان میں سے ایمان لائے اور انہوں نے اچھے اعمال کئے، مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے۔''
اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا:
﴿وَالَّذينَ جاءو مِن بَعدِهِم يَقولونَ رَبَّنَا اغفِر لَنا وَلِإِخو‌ٰنِنَا الَّذينَ سَبَقونا بِالإيمـٰنِ وَلا تَجعَل فى قُلوبِنا غِلًّا لِلَّذينَ ءامَنوا رَبَّنا إِنَّكَ رَءوفٌ رَحيمٌ ﴿١٠﴾... سورة الحشر
''(اور مالِ فیٔ سے ان لوگوں کا بھی حصہ ہے) جو ان (مہاجرین) کے بعد آئے اور وہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے ایمان قبول کرنے میں سبقت لے گئے اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے متعلق کینہ و کدورت پیدا نہ کر جو ایمان لائے، اے ہمارے رب تو بلا شبہ شفقت کرنے والامہربان ہے۔''
اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے، آپ مذکورہ بالا آیات کو پڑھیں اور ان کے معانی میں غوروفکر کریں۔ان آیات میں صحابہ کرامؓ کی باہمی محبت کی گواہی اللہ تعالیٰ نے خود دی ہے۔
پہلا مبحث: دلالۃ التسمیۃ
اسم (نام) کا مسمّیٰ (نامزد انسان) پر اشارہ ہوتا ہے اور وہ اس کا ایسا نشان بن جاتاہے جو اسے دوسرے انسانوں سے جدا کرتا ہے اور لوگوں میں نام رکھنے کی روش رواج پاچکی ہے اور کوئی عقل مند انسان نام کی اہمیت میںشک نہیں کرسکتا،کیونکہ اس کے ساتھ ہی پیدا ہونے والے بچے کو پہچانا جاتا ہے اور اسے اس کے بھائیوں اور دیگر بچوں سے شناخت کیا جاتا ہے اور وہ اس کی اور اس کے بعد اس کی اولاد کی علامت بن جاتا ہے۔ انسان فنا ہوجاتا ہے اور اس کا نام باقی رہ جاتا ہے۔ اسم سُمُوّ سے مشتق ہے جس کا معنی بلندی ہے اورکہا گیا ہے کہ یہ وِسْمٌ سے بھی مشتق ہے جس کامعنی علامت ہوتاہے۔یہ تمام الفاظ پیدا ہونے والے بچے کے نام کی اہمیت پر دلالت کرتے ہیں۔
والد کی نفسیات اور محبت وچاہت کا اندازہ لگانے میںنام کی اہمیت مخفی نہیںہے، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نام کا انتخاب والد کی دین داری اور عقل پر دلالت کرتاہے، کیا آپ نے کبھی سنا کہ عیسائی اور یہودی اپنی اولاد کا نام محمدؐ رکھتے ہوں؟ یا مسلمان اپنی اولاد کانام لات اور عزیٰ رکھتے ہوں؟
ایسے ہی نام سے بیٹے کا اپنے باپ سے ربط ہوتا ہے، باپ اور گھر والے اپنے بچے کو اس نام سے ہی پکارتے ہیں جو انہوں نے پسند کیا ہوتا ہے۔ چنانچہ خاندان کے افراد کے درمیان اسم (نام) کا استعمال کثرت سے ہوتا ہے۔ دورِ قدیم میں کہا جاتا تھا: ما اسمک أعرف أباک ''آپ کانام کیاہے تاکہ اس کے ذریعے تیرے باپ کو پہچانوں...''
(دیکھئے تسمیۃ المولود مؤلفہ بکر بن عبداللہ ابوزید)
اسلام میں نام کی اہمیت
نام کی اہمیت کو پہچاننے کے لئے ناموں کے متعلق شریعت کا اہتمام ہی کافی ہے۔چنانچہ حضرت رسولِ کریمﷺ نے صحابہ ؓ میں بعض مردوں اور عورتوں کے نام بدل دیے تھے۔ بلکہ آپ ؐنے 'شہنشاہ' جیسے نام رکھنے سے روک دیا تھا۔ آپؐ نے فرمایا:
''اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ ناپسند اور قبیح نام والا وہ شخص ہے جو' شہنشاہ' کے نام سے ہو اور آپؐ نے عبداللہ و عبدالرحمن جیسے نام رکھنے کی تاکید فرمائی،کیونکہ ان میںمسمّٰی(نام والے) کے اللہ کے بندہ ہونے کی علامت پائی جاتی ہے۔''
حضرت رسول مقبولﷺ نے فرمایا:«أحب الأسماء إلی اﷲ عبداﷲ وعبدالرحمن»
''اللہ کے ہاں محبوب ترین نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں۔''
آپ ؐ کو اچھا نام پسند ہوتا تھا اور آپؐ اس کے ذریعے نیک فال لیتے تھے اور یہ بات آپؐ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت کاعلم رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں۔
علماے اُصول و لغت کے ہاں یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ناموں میں واضح اِشارات اور معانی ہوتے ہیں جو شخصیت میں پنہاں چیزوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور اس مسئلہ کی تحقیق لغت اور اُصولِ فقہ کی کتابوں میں موجود ہے اورعلماے کرام رحمہم اللہ علیہم نے اس مسئلہ پر اور اس کے متعلقات اور اس سے پیدا ہونے والے بہت سے مسائل پر طویل بحث کی ہے۔
میں آپ سے پوچھتاہوں...
٭ آپ اپنے بچوں کے نام کس چیز کو مدنظر رکھ کر ٹھہراتے ہیں ؟
٭ کیاآپ اپنی اولاد کے لئے وہی نام نہیں پسند کرتے جس کا معنی آپ کے نزدیک یا بچے کی ماں اورگھر والوں کے نزدیک پیارا ہوتا ہے ؟
٭ کیا آپ اپنی اولاد کے نام اپنے دشمنوں کے ناموں پر رکھنا پسند کریں گے ؟
کیا عقل اس بات کو مانتی ہے کہ ہم اپنے لئے تو وہ نام پسند کریں جو ہمارے نزدیک تو کسی معنی اور مفہوم کے حامل ہوں اور پیغمبر کے بعد سب انسانوں سے افضل ہستیوں کے متعلق کہا جائے کہ انہوں نے بعض سیاسی اور معاشرتی وجوہات سے مجبور ہو کر یہ نام رکھے تھے اور اس نام کا مفہوم اور دلالت ان کے پیش نظر نہیں تھی ۔
اُمت کے عقل مند ترین لوگ، قائد اور اپنی ذات و حسب کے اعتبار سے عزت دار شخصیتوں کو تو وسیع انسانی کمالات سے محروم کردیاجائے اور انہیں اس بات کا حق نہ دیا جائے کہ وہ اپنی اولادوں کے نام ان شخصیتوں کے ناموں پر رکھیں جن کی فضیلت اور محبت کا انہیں اعتراف ہے بلکہ (وہاں ہم یہ غلط نظریہ اپنالیں کہ) انہوں نے کچھ بچوں کے نام اپنے دشمنوں کے نام پر رکھ لئے تھے۔ بھلا آپ اس بات کی تصدیق کریں گے ؟
اور یہ بات بھی آپ کے علم میں ہونی چاہئے کہ نام صرف ایک فرد کانہیں بلکہ اولاد میں کئی افراد کا ہو، اور وہ بھی عداوت مٹ جانے کے صدیوں بعد نہیں بلکہ (مدعیانِ حب ِاہل بیت کے بقول) عداوت کے عروج کے دور میں ، درحقیقت پیار ومحبت کے عروج کے دور میں رکھا گیا ہو۔
نام تجویز کرنے کا مسئلہ نہایت اہم ہے، اس کی تحقیق اوراس کا اہتمام نہایت ضروری ہے،کیونکہ اس میں بہت بڑے اشارے اور دلائل ہیں۔ اس میں اس داستانوں اور وسوسوں اور خیالی قصوں کاردّ بھی ہے اور دل و جذبات کو اپیل کرنے کاموقع بھی اور اس میںعقل مندوں کے لئے عقل مندوں کو قائل کرنے کامواد بھی ہے جسے ردّکرنا اور اس کی تاویل کرناممکن نہیں ہے۔ اس تمہید کے بعد ہم اصل مقصد کی طرف لوٹتے ہیں :
1.امیرالمؤمنین سیدنا علی المرتضیؓ نے خلفاے ثلاثہ سے شدید محبت کی بنا پر اپنے چند بچوں کے نام ان کے ناموں پررکھے اور وہ یہ ہیں :
٭ ابوبکر بن علی بن ابی طالب جو اپنے بھائی حضرت حسینؓ کے ساتھ کربلا میں شہیدہوئے۔ان پراور ان کے باپ پر اعلیٰ و افضل درود وسلام ہو۔
٭ عمر بن علی بن ابی طالب جو اپنے بھائی حسینؓ کے ساتھ معرکہ کربلا میں شہید ہوئے۔ ان پر اور ان کے باپ پر اعلیٰ و افضل درود و سلام ہو۔
٭ عثمان بن علی بن ابی طالب جو اپنے بھائی حسینؓ کے ساتھ حادثہ کربلا میںشہید ہوئے۔ ان پر اور ان کے باپ پر اعلیٰ و افضل درود و سلام ہو۔
2. امیرالمومنین سیدنا حسن ؓبن علیؓ بن ابی طالب نے جنہیں عظیم قربانی کی بدولت فرشتہ رحمت کا لقب دیا گیا... اپنی اولاد کے نام
٭ ابوبکر بن حسنؓ بن علی المرتضیٰؓ
٭ عمر بن حسنؓ بن علی المرتضیٰؓ
٭ طلحہ بن حسنؓ بن علی المرتضیٰؓ رکھے اور یہ سب اپنے چچا سیدنا حسین بن علیؓ کے ساتھ
کربلا میں شہید ہوئے۔
3. ریاضِ رسول کے مشک بارپھول سیدنا حسینؓ نے بھی اپنے بیٹے کانام
٭ عمربن حسینؓ رکھا۔
4 مدعیانِ حب ِاہل بیت کے چوتھے امام سیدالتابعین علی بن حسینؓ، زین العابدین نے اپنی بیٹی کا نام
٭ عائشہ بنت علی بن حسینؓ رکھا اور ان سے ان کی نسل بھی موجود ہے۔
علاوہ ازیں دیگر اہل بیت کرام مثلاً حضرت عباسؓ بن ابی طالب اور حضرت جعفرؓ بن ابی طالب اورمسلمؓ بن عقیل کی اولاد میں بھی یہ نام آپ کو ملیں گے۔ یہاں ان کے ایسے ناموں کا شمار تو مقصود نہیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ نام رکھنے کا یہ عمل ہمارے مقصد پر بخوبی دلالت کرتا ہے جیساکہ حضرت امیرالمومنین علیؓ اور حضرت سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ کی اولاد کے ناموں کا ذکر ہوچکا ہے...ان پر اللہ کی طرف سے ہزارہا درود و سلام ہو!
مناقشہ
شیعہ میں سے چند لوگ اس بات کاانکار کرتے ہیںکہ حضرت علی المرتضیٰؓ اور ان کے صاحبزادوں رضی اللہ عنہ عنہم نے اپنی اولاد کے نام ان ناموں پررکھے ہوں، لیکن یہ ان لوگوں کا طرزِ عمل ہے جنہیں علم الانساب والاسماء کا علم نہیں ہے اور کتابوں سے ان کا تعلق بھی محدود ہے اور بحمداللہ ایسے لوگوں کی تعداد تھوڑی ہے ۔ دوسری طرف کبار ائمہ اور علمائے شیعہ نے ایسے لوگوں کی تردید کی ہے،کیونکہ ان ناموں کے وجود کے دلائل حقیقی اور قطعی ہیں اور ان کی اولاد کے وجود پر دال ہیں اور یہ شیعہ کی معتمد کتابوں حتیٰ کہ سانحہ کربلا کی روایات میں بھی موجود ہیں،کیونکہ حضرت ابوبکرؓ بن علیؓ بن ابی طالب،اس طرح ابوبکر بن حسن بن علی ؓ اور علاوہ ازیں دیگر نوجوانانِ اہل بیت حضرت سیدنا حسین ؓ کے ساتھ ہی شہید ہوئے تھے۔
یہ حضرت حسینؓ کے ساتھ تھے اور شیعہ نے اپنی کتابوں میں ان کاتذکرہ کیاہے اورآپ یہ نہ کہیں کہ ہم' حسینیات' میں تو یہ نام نہیںسنتے اور نہ ہی ماتم کے دنوں میں ان کا تذکرہ ہوتا ہے کیونکہ عدمِ ذکر، عدمِ وجود پر دلالت نہیں کرتا۔ کربلا کی آزمائش میں حضرت عمرؓ بن علیؓ بن ابی طالب اور حضرت عمرؓ بن حسن ؓالسبط کی جواں مردی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔
مقصد یہ ہے کہ ائمہ کرام کا اپنی اولاد کے نام، حضرت ابوبکرؓ و عمر ؓو عثمانؓ و عائشہؓ وغیرہم کبار صحابہ کے نام پر رکھنے کا مسئلہ ایسا ہے کہ آپ کو شیعہ کے ہاں سے اس کا تسلی بخش جواب نہ ملے گا، کیونکہ یہ تو ممکن نہیں کہ ہم ناموں کے معاملے کو بلادلالت و معنی قرار دیں اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ ہم اسے اہل السنہ کی شیعہ کتب میں دسیسہ کاری قرار دیں، کیونکہ اس طرح کرنے کا مطلب تمام کتابوں کی تمام روایات میںتشکیک پیدا کرنا ہوگا۔ ممکن ہے کہ جو چیز شیعہ کو پسند نہ آئے وہ کہہ دیں کہ یہ دسیسہ کاری ہے!!
خصوصی طور پر اس صورت میں کہ ہر عالم کو روایات قبول کرنے یا ردّ کرنے کا حق ہے، اس لئے کہ ان کے ہاں اس کا کوئی ضابطہ نہیں ہے۔ بیک وقت ہنسا اور رُلا دینے والا نادر قول یہ ہے کہ کبار صحابہ کے نامو ں پر نام رکھنے کی غرض تقیہ کے طور پر انہیں سب و شتم کرنا ہے!!
سبحان اللہ! کیا ہمارے لئے جائز ہے کہ ہم یہ نظریہ رکھیں کہ حضرت علیؓ اپنے ساتھیوں اور عام مسلمانوں کو دھوکا دیتے تھے؟ اور حضرت علی ؓاس غرض سے اپنی اولاد کو کیوں دکھ دیتے تھے؟ اور حضرت علی کو ان ناموں کے ذریعے کن سے بچاؤ کی توقع تھی ؟آپ ؓکی شجاعت اور عزتِ نفس اس بات سے انکار کرتی ہے کہ وہ بنو تیم یا بنو عدی یا بنو اُمیہ کی وجہ سے اپنے آپ کو یا اپنی اولاد کی توہین کرتے ہوں۔
حضرت علی المرتضیٰؓ کی سیرت کا مطالعہ کرنے والا حق الیقین رکھتا ہے کہ آپؓ بہادر ترین آدمی تھے، برخلاف ان جھوٹی روایات کے جو انہیں ایسا بزدل ثابت کرتی ہیں کہ وہ اپنے دین اور اپنی عزت و تکریم کی پامالی پر چپ سادھ لیتے تھے۔ افسوسناک معاملہ یہ ہے کہ ایسی روایات ان کی کتابوں میں کثرت سے پائی جاتی ہیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ ؓاور آپؓ کے صاحبزادوں جیسے ائمہ اہل بیتؓ کا طرزِ عمل، عقلی، نفسیاتی اور حقیقی اعتبار سے اس بات کی مضبوط دلیل ہے کہ اہل بیت سچے دل سے خلفاے راشدین اور تمام اصحابِؓ رسولؐ سے محبت رکھتے تھے اور آپ بذاتِ خود بھی اس صورتِ حال کا اندازہ کرسکتے ہیں اور اسے جھٹلانے کی مجال نہیں اور یہ صورتِ حال اللہ تعالیٰ کے اس قول کی تصدیق کرتی ہے کہ
﴿مُحَمَّدٌ رَسولُ اللَّهِ وَالَّذينَ مَعَهُ أَشِدّاءُ عَلَى الكُفّارِ رُحَماءُ بَينَهُم تَرىٰهُم رُكَّعًا سُجَّدًا يَبتَغونَ فَضلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضو‌ٰنًا سيماهُم فى وُجوهِهِم مِن أَثَرِ السُّجودِ...﴿٢٩﴾... سورة الفتح
''محمد، اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت ہیں اورآپس میں رحم دل ہیں تو انہیں جھکے ہوئے سربسجود پائے گا وہ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی تلاش کرتے ہیں، سجدوں کے اثر سے ان کے چہروں پر (شرافت و وقار کی) نشانیاں ہیں۔ '' (الفتح:۲۹)
خود مختار و آزاد رو قارئین کرام! آیت کو دوبارہ تلاوت کریں اور اس کے معانی پر غور کریں اور صفت ِرحمت پر بھی غورفرمائیں۔
دوسرا مبحث : دلالۃ المصاہرۃ (باہمی رشتہ داریاں)
قارئین کرام! بیٹیاں جگر کے ٹکڑے اور دل کا پھول ہوتی ہیں،ہم انہیں کن کے سپرد کرتے ہیں؟ کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ انہیں کسی فاجریا مجرم کے سپرد کریں، بلکہ ان کی ماں یا بھائی کے قاتل کے ہاتھ میں دے دیں۔صہری اور نسبی کے الفاظ آپ کو کیا چیز باور کراتے ہیں۔
لغت میں مصاھرۃ صَاھَرَ کا مصدر ہے۔ جب آپ کسی قوم میں شادی کریں تو کہیں گے: صاھرت القومکہ میں نے فلاں قوم سے رشتہ ناتا کیا۔
ازہری کہتے ہیں کہ صہر کا لفظ محرم عورتوں کے قریبی رشتہ داروں پرمشتمل ہے اور محرم عورتوں کے قریبی رشتہ دار اس کے والدین اور بھائی وغیرہ ہی ہوتے ہیں اور شادی کے بعد مرد کے قرابت دار محارم عورت کیصھر (سسرال) ہوتے ہیں۔ لہٰذا مرد کا صھراس کی بیوی کے قرابت دار ہیں اور عورت کے صھر اس کے خاوند کے رشتہ دار ہیں۔
خلاصہ یہ کہ لغت میں مصاھرت کا معنی ہے: عورت کے قرابت دار، اور کبھی مرد کے قرابت داروں پربھی صھرکا اطلاق کیا جاتاہے، اللہ سبحان و تعالیٰ نے اس مصاہرت کو اپنی نشانیوں میں بیان کیا ہے ۔ فرمانِ الٰہی ہے:
﴿وَهُوَ الَّذى خَلَقَ مِنَ الماءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهرًا وَكانَ رَبُّكَ قَديرًا ﴿٥٤﴾... سورة الفرقان
''اللہ وہ ذات ہے جس نے پانی سے بشر کو پیدا فرمایا اور اس کا نسبی اور سسرالی رشتہ بنایا اور تیرا ربّ قدرت والا ہے۔'' 
اس آیت میں غور کیجئے کہ انسان ایک بشر ہے۔ اللہ نے اسے ایسا بنایا ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ ازدواجی رشتے ناطے قائم کرتا ہے۔نسب اور مصاہرت ایک شرعی تعلق ہے اور اللہ نے اسے نسب کے ہم پلہ قرار دیا ہے۔' نسب' سے مراد باپ کے قرابت دار ہیں اور بعض علما کا خیال ہے کہ ہر طرح کی مطلق قرابت داری کو نسب کہا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے نسب اور مصاہرت کے درمیان تعلق قائم کردیا ہے اور اس تعلق میں عظیم اشارے اور دلالتیں ہیں جن سے غفلت نہیں برتنی چاہئے۔
تاریخ مصاہرت
عربوں کے ہاں مصاہرت کا خاص مقام و مرتبہ ہے۔ وہ نسب پر فخر کے قائل ہیں اور اس بنا پر وہ اپنی بیٹیوں کے شوہروں او ران کے مرتبہ و مقام پر بھی فخر کرتے ہیں اور وہ ان لوگوں سے اپنی بیٹیاں نہیں بیاہتے جنہیں وہ اپنے سے کم تر خیال کرتے ہوں او ران کے بارے میں یہ بات بہت مشہور ہے بلکہ ایسا بہت سے عجمی طبقات میں بھی پایا جاتا ہے او ریورپ میں آج کل اسی نسلی امتیازکو معاشرتی مشکلات قرار دیا جاتا ہے۔
عرب لوگ اپنی عورتوں پر غیرت کھاتے ہیں اور اسی غیرت اور خوفِ عار نے بعض لوگوں کو اپنی ننھی ننھی بچیوں کو زندہ درگور کرنے تک پہنچا دیا تھا اور اسی عورت کی وجہ سے لڑائیاں ٹھن جاتیں اورخونی دریا بہہ پڑتے۔ بس اتنا اشارہ ہی طویل عبارت اور گفتگو سے بے نیاز کردیتا ہے۔ غرض یہ بات آپ سے مخفی نہیں ہے کہ اس کے اثرات آج تک باقی ہیں۔
اسلام میں مصاہرت
اسلام آیا تو اس نے بلند اخلاق او رحمیدہ اوصاف کو برقرار رکھا اور قبیح عادات و نظریات سے ہمیں منع کردیا او راللہ سبحانہ و تعالیٰ نے واضح کردیا کہ اصل اعتبار تقویٰ کا ہے:﴿إِنَّ أَكرَمَكُم عِندَ اللَّهِ أَتقىٰكُم...﴿١٣﴾... الحجرات''تم میں سے اللہ کے ہاں معزز وہ ہے جو سب سے بڑھ کر متقی ہو۔'' یہی مرتبہ و مقام شرعی میزان بھی ہے۔
آپ دیکھتے ہیںکہ فقہاے کرام ؒنے دین، نسب اور پیشے میں برابری پر بحث کی ہے او ر اس کے متعلقات پر طویل مباحثے کئے ہیں کہ کیا عقد ِزواج یا اس کے لوازمات میں کفاء ت (برابری) شرط ہے یا نہیں؟ او رکیا یہ بیوی کا حق ہے یا اس میں اولیا بھی شریک ہیں؟ جب انہوں نے نکاح پر گفتگو کی ہے تو اس طرح کے دیگر مباحث پر اظہارِ خیال کیا ہے۔
جہاں تک عزت و آبرو بچانے اور عورتوں پر غیرت کرنے کامسئلہ ہے تو اس سلسلے میں حضرت نبی کریمﷺ نے اپنی آبرو کی خاطر قتل ہونے والے کو شہید قرار دیا ہے اور آپؐ نے بنفس نفیس اس عورت کی خاطر لڑائی کی قیادت کی تھی جس کے پردے سے یہودیوں نے بے ہودگی کی تھی۔ اس سلسلے میں حضرت رسولِ کریمﷺ اور یہود بنی قینقاع کے درمیان نقض معاہدہ کا قصہ مشہور ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک یہودی نے اپنی دکان سے سونا خریدنے والی مسلمان خاتون سے چہرہ سے پردہ ہٹانے کا مطالبہ کردیا۔ اس نے انکا رکیا تو اس خاتون کو غافل بیٹھی دیکھ کر اس کا کپڑا کسی چیز سے باندھ دیا۔ جب وہ کھڑی ہوئی تو اس کا چہرہ ننگا ہوگیا۔ اس نے زیادتی کا بدلہ چکانے کی صدا بلند کی تو پاس کھڑے مسلمان نوجوان نے یہودی کو قتل کردیا۔ پھر یہودی اکٹھے ہوگئے اور انہوں نے اس نوجوان کو قتل کردیا اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی طرف سے معاہدہ توڑنے کے کئی اور اسباب بھی سامنے آگئے تھے۔
عقد ِنکاح اور اس پر گواہوں کی شرط رکھنے بلکہ حد ِقذف اور حد ِزنا وغیرہ جیسے شرعی احکام پر تدبر کرنے اور ان کی حکمتوں اور اثرات پر غور کرنے اور ان کے بارے میں قوانین پر نظر کرنے سے آپ پر اس موضوع کی اہمیت بخوبی آشکارا ہوجائے گی۔
رشتہ مصاہرت کی بنا پر بہت سے احکام مرتب ہوتے ہیں۔ عقد ِنکاح جیسے مضبوط اور پختہ قانون پر غور کریں، جب آدمی نکاح کا پیغام بھیجتا ہے تو اس کے اپنے احکام ہیں۔ چنانچہ کبھی تو قبول اور کبھی انکار ہوجاتا ہے۔ پھر نکاح کا خواہش مند بعض اوقات دوسروں کی رضامندی حاصل کرنے کی خاطر اپنے گھر والوں اور اپنے دوستوں کی معاونت بھی طلب کرتا ہے اور عورتوں کے سرپرست اور گھر والے رشتہ طلب کرنے والے سے سوال کرتے ہیں اور انہیں بھی قبول یا ردّ کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ اگرچہ اس نے تحفے بھی دیے ہوں اور قبل از نکاح حق مہر بھی دے دیا ہو۔ چنانچہ جب تک عقد مکمل نہیں ہوتا، لڑکی کے اولیا کو خاطب (نکاح کے خواہشمند) کو ردّ کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔
ایسے ہی عقد میں گواہوں کا ہونا ضروری ہے اور نکاح کی تشہیر کرنا شرعی تقاضاہے، کیونکہ نکاح کی بنا پر کئی احکام مرتب ہوتے ہیں۔چنانچہ وہ دور والوں کوقریب کرتا ہے اورانہیں صھری رشتہ دار بناتا ہے۔ نکاح کی وجہ سے خاوند پر کئی عورتیں ہمیشہ کے لئے یا بیوی کی موجودگی تک حرام ہوتی ہیں۔ مزید طوالت کی یہاں گنجائش نہیں ۔چونکہ بعد والے موضوع کو سمجھانے کے لئے اس موضوع کی اہمیت یاد دلانا مقصود تھی۔ چنانچہ درج ذیل (حقیقت) پر غور کیجئے ...
٭ سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی بہن کے والد سیدنا علی المرتضیٰؓ اپنی بیٹی اُمّ کلثوم ؓ کا نکاح حضرت عمر بن خطابؓ سے کرتے ہیں۔
کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عمرؓ کے ڈر کی وجہ سے ایسا کیا تھا ؟
٭ان کی شجاعت کہاں چلی گئی؟
٭ان کی اپنی بیٹی سے محبت کہاں گئی؟
٭کیاوہ اپنی بیٹی معاذ اللہ ایک دشمن کے سپرد کرسکتے تھے؟
٭اللہ کے دین کے معاملے میں ان کی غیرت کہاں گئی؟
اس طرح کے نہ ختم ہونے والے سوالات جنم لیتے رہیں گے یا پھر ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ حضرت سیدنا علی المرتضیٰؓ نے حضرت عمرؓ کی خواہش اور اس کے ساتھ رضامندی کی وجہ سے اپنی بیٹی کا نکاح ان سے کردیا تھا۔
ہاں حضرت عمرؓ نے حضرت رسولِ کریمﷺ کی اس بیٹی سے صحیح اور شرعی نکاح کیاتھا، اس میںکسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں او ریہ نکاح دونوں خاندانوں کے درمیان محبت اور صلہ رحمی پر دلالت کرتا ہے اور ایسا کیوں نہ ہوتا۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ حضرت رسول مقبولﷺ حضرت عمرؓ کی بیٹی کے شوہر ہیں اور حضرت اُمّ کلثوم بنت علیؓ رضی اللہ عنہما کی حضرت عمرؓ سے شادی سے پہلے بھی دونوں خاندانوں میں مصاہرت قائم تھی۔
٭دوسری مثال: حضرت امام جعفر صادقؒ کا یہ قول بھی کافی ہے کہ
''ولدنی أبوبکر مرتین'' مجھے ابوبکرؓ نے دو مرتبہ جنا ہے۔ـ''
آپ جانتے ہیں کہ امّ جعفر کون ہے؟ یہ اُمّ فروہ بنت قاسم بن محمد بن ابی بکر الصدیق ہیں اور اُمّ فروہ کی ماں اسماء بنت عبدالرحمن بن ابوبکر الصدیق ہے۔
دیکھئے یہاں حضرت امام جعفرؒ نے حضرت ابوبکرؓ کا نام لیا ہے، محمدبن ابی بکر کا نام نہیں لیا؟ انہوں نے حضرت ابوبکرؓ کے نام کی صراحت اس بنا پر کی، کیونکہ بعض آپ ؓکی فضیلت کا انکار کرتے ہیں جبکہ آپ کے بیٹے محمد بن ابوبکر کی فضیلت پر تمام شیعہ متفق ہیں۔
اللہ کو حاضروناظر جان کر بتائیے کہ انسان کن کے ساتھ فخر کرتا ہے ؟؟
قارئین کرام! مہاجرین اور انصار صحابہ کرامؓ کے حسب ونسب میں غیر معمولی میل جول کو ہر وہ شخص جانتا ہے جسے ان کے انساب کی معرفت حاصل ہے۔ یہاں تک ان کے آزاد کردہ غلاموں کے نسب بھی ان میں داخل ہیں۔ حتیٰ کہ آزاد کردہ غلاموں نے بھی سادات و اشراف قریش کے گھرانوں میں شادیاں کیں۔
٭ ان میں ایک زید بن حارثہؓ ہیں اور یہ وہ واحد صحابی ؓہیں جن کا نام قرآن کی سورئہ احزاب میں آیا ہے۔ ان کی بیوی کون تھی؟ وہ تھیں:اُمّ المؤمنین زینب بنت جحش ؓ
٭ ایسے ہی ایک اسامہ بن زیدؓ ہیں، حضرت رسول کریمﷺ نے ان کی شادی فاطمہ بنت قیس ؓ قریشیہ سے کی تھی۔
٭ انہی میں سے حضرت سالمؓ ہیں جو آزاد کردہ غلام ہیں۔ ان کی شادی ان کے آقا حضرت ابوحذیفہ قریشی نے اپنی بھتیجی ہند بنت ِولید بن عتبہ بن ربیعہ سے کی تھی اور اس کا باپ قریش کے سادات میں سے تھا۔
صحابہ کرام ؓ کے درمیان مصاہرت پر گفتگو بہت طویل ہوجائے گی، اس لئے اہل بیت اور خلفاے راشدین کے درمیان مصاہرت (رشتہ ازدواج) کی چند ایک مثالیں بیان کرنے پر اکتفا کرتاہوں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ سیدنا عمر فاروقؓ نے حضرت فاطمہ بنت رسول اللہﷺ کی صاحبزادی (اُم کلثومؓ) سے شادی کی تھی؟
حضرت جعفر بن محمد الصادق ؒ کی والدہ محترمہ جن کا تذکرہ گذر چکا ہے،آپ جانتے ہیں کہ ان کی بڑی نانی کون تھی، یہ دونوں (ماں بیٹی) حضرت ابوبکر الصدیق ؓکی پوتیاں تھیں۔
قارئین کرام! آپ دل سے شیاطین کے وسوسے دھوڈالئے اور گہری سوچ سے کام لیجئے۔ آپ مسلمان ہیں، آپ پر عقل کا مقام مخفی نہیں ہے اور جن آیات میںتدبر اور تفکر کی ترغیب ہے ،وہ بہت زیادہ ہیں، ان کی تفصیل بیان کرنے کایہاںموقع نہیں ہے، اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی عقلوں سے سوچیں اور اندھی تقلید کو چھوڑ دیں اور اس بات سے بچیں کہ بے ہودہ لوگ ہماری عقلوں سے کھیلنا شروع کردیں۔نعوذ باﷲ السمیع العلیم من شیاطین الانس والجن
قارئین کرام! کیا یہ بات آپ کو پسند ہے کہ آپ کے باپ دادوں کو گالی دی جائے او ریہ کہا جائے کہ آپ کی عورتوں کی سردار خاتون زبردستی بیاہ دی گئی باوجودیکہ وہ سارے خاندان کی آبرو اور ناک تھی ؟
کیا آپ کسی کہنے والے کی اس ژاژخائی کو پسند کرتے ہیں کہ وہ پہلی خاتون تھی جو ہم سے زبردستی چھین لی گئی؟ اس طرح کے ایسے نہ ختم ہونے والے سوالات اُٹھیں گے۔ کون سی عقل اس بے ہودہ گوئی کو پسند کرے گی؟! اور کون سا دل اس بے سروپا بات کو قبول کرے گا؟!
ہم اللہ سے دُعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے متعلق کینہ پیدا نہ کرے جو ایمان دار ہیں۔ اے اللہ ہمیں اپنے تمام صالحین بندوں کی محبت نصیب فرما۔ آمین!
سیدہ اُمّ کلثوم بنت علی المرتضیٰ ؓ کے نکاح کے متعلق اثنا عشری روایات
تیسرا موضوع شروع کرنے سے پہلے (مناسب معلوم ہوتا ہے )کہ آپ کے سامنے چند نصوص اور واضح مفہوم والی تصریحات شیعہ کی ایسی کتابوں میں پیش کردی جائیں جو ان کے ہاں معتبر ہیں او ران کے معتبر علما کی لکھی ہوئی ہیں اور ان میں سیدہ اُمّ کلثوم بنت علی المرتضیٰؓ کی حضرت عمر فاروق سے شادی کا تذکرہ ہے ...رضوان اللہ علیہم اجمعین
٭ امام صفی الدین محمد بن تاج الدین جو ابن طقطقی کے نام سے مشہور ہیں اور نامور مؤرخ اور ماہر انساب ہیں، اپنی اس کتاب میں جو انہوںنے ہلاکو خاں کے مشیر خواجہ نصیرالدین طوسی کے صاحبزادے اصیل الدین حسن کی نذر کی تھی، میں بیان کرتے ہیں:
ذکر بنات امیر المومنین علی ؓ : واُمّ کلثوم أمھا فاطمۃ بنت رسول اﷲ تزوجھا عمر بن الخطاب فولدت لہ زیدًا ثم خلف علیھا عبداﷲ بن جعفر (ص:۵۸)
''اور اُمّ کلثوم، ان کی ماں حضرت فاطمہ بنت رسول اللہﷺ تھی۔ ان سے حضرت عمر بن خطابؓ نے شادی کی تھی، انہوں نے عمر کے بیٹے زید کو جنا۔ ان کی وفات کے بعد حضرت عبداللہ بن جعفر(ہاشمی) نے ان سے شادی کی۔''
٭ اور اس سلسلے میں محقق سید مہدی رجائی کا قول بھی دیکھئے۔ انہوں نے بھی حوالے ذکر کئے ہیں۔
٭ ان میں ایک تحقیق حضرت عمر بن علی بن حسین رضی اللہ عنہم کی طرف نسبت کی بنا پر عمری کہلانے والے علامہ ابوالحسن عمری کی ہے، وہ اپنی کتاب المجديمیں لکھتے ہیں :
والمعول علیه من هذه الروایات ما رأیناه آنفا من أن العباس بن عبدالمطلب زوجها عمر برضی أبیها علیه السلام وإذنه وأولدها عمر زیدا
''اور ان روایات سے معتبر بات جو ہم نے ابھی دیکھی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب نے حضرت علیؓ کی رضا مندی اور اجازت سے ان کی شادی حضرت عمر سے کردی اور انہوں نے حضرت عمر کے بیٹے زید کو جنم دیا... الخ''
٭ بعض لوگوں نے یہاں عجیب وغریب اقوال بھی ذکر کئے ہیں کہ جن میں ایک یہ بھی ہے کہ جس عورت سے حضرت عمرؓ نے شادی کی تھی، وہ ایک جن عورت تھی یا یہ کہ اس نے ان سے صحبت نہیں کی تھی یا یہ کہ اس نے بزورِ بازو چھین کر شادی کی تھی...الخ
علامہ مجلسی کہتے ہیں کہ اس طرح مفید کا اُصولِ واقعہ سے انکار بھی منقول ہے، لیکن وہ صرف اس چیز کو بیان کرنے کے لئے ہے کہ یہ بات ان کے طرق سے ثابت نہیں ہے۔ ورنہ ان روایات اور عنقریب ذکر ہونے والی اسناد کے بعد یہ مانے بنا چارہ نہیں کہ جب حضرت عمرؓ فوت ہوئے تو حضرت علیؓ اُمّ کلثوم کے پاس آئے اور انہیں لے کر اپنے گھر چلے گئے۔ اس کے علاوہ اور روایات بھی ہیںجو میں نے بحار الانوار میں ذکر کی ہیں۔ لہٰذا اس واقعہ کا انکار عجیب بات ہے۔ اس بات کا اصل جواب یہ ہے کہ یہ کام تقیہ اور اضطرار کی بنا پر ہوا تھا۔ الخ (مرآۃ العقول: ج۲؍ ص۴۵)
میں کہتا ہوں کہ شیعہ کے ہاں مستند ترین کتابِ حدیث 'الکافی' کے مصنف نے 'کافی' میں بہت سی احادیث ذکر کی ہیں، ان میں سے ایک حدیث اس باب میں درج ہے :
باب المتوفی عنها زوجها المدخول بها أین تعتد وما یجب علیها
حمید بن زیاد عن ابن سماعة عن محمد بن زیاد عن عبد الله بن سنان ومعاویة بن عمار عن أبی عبد اﷲ علیه السلام قال: سألته عن المرأة المتوفی عنها زوجها أتعتد في بیتها أوحیث شاء ت ؟ قال بل حیث شاء ت: أن علیا علیه السلام لما توفی عمر أتی اُمّ کلثوم فانطلق بها إلی بیته (فروعِ کافی: ۶؍۱۵۵)
''باب اس مسئلہ پر کہ جس مدخولہ عورت کا خاوند فوت ہوگیا ہو وہ عدت کہاں گزارے اور اس پرکیا کچھ واجب ہے۔ حمید بن زیاد، ابن سماعہ سے بیان کرتے ہیں اور وہ محمد بن زیاد سے اوروہ عبداللہ بن سنان اور معاویہ بن عمار سے اور وہ ابوعبداللہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا کہ جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے وہ عدت کے ایام اپنے گھر میںگزارے یا جہاں کہیں وہ چاہے؟ آپ نے فرمایا: بلکہ جہاںکہیں وہ چاہے۔جب حضرت عمر فوت ہوئے تھے تو حضرت علی ؓاُم کلثوم کے پاس آئے او رانہیں لیکر اپنے گھر چلے گئے۔''
قارئین کرام! میں نے بعض معاصر شیعہ علما سے اس شادی کے متعلق مراسلت کی تو سب سے تفصیلی جواب محکمہ اوقاف و مواریث کے قاضی شیخ عبدالحمید الخطی نے لکھا۔ ان کے الفاظ کا ترجمہ یہ ہے :
''باقی رہا شہسوارِ اسلام حضرت علی ؓکا حضرت عمر فاروقؓ سے اپنی لخت ِجگر کی شادی کا معاملہ تو ہم اس سے نفرت نہیںکرتے اور آپ کے سامنے حضرت رسول اللہﷺ کااسوئہ حسنہ ہے اور آپؐ تمام مسلمانوں کے لئے اُسوہ تھے اور آپؐ نے اُمّ حبیبہؓ بنت ابی سفیانؓ سے نکاح کیا تھا اور ابوسفیانؓ حضرت عمر فاروقؓ کے مرتبہ و مقام پرنہ تھے۔ اس نکاح کے سلسلے میں جو غبار اُڑایا جاتا ہے اس کا مطلق جواز نہیںہے۔ باقی رہا تمہارا یہ کہنا کہ ایک جن عورت اُمّ کلثوم کی ہم شکل بن کر ان کی جگہ حضرت عمرؓ بن خطاب کے پاس آئی تو یہ ہنسا ہنسا کررُلا دینے والا قول ہے اور اس لائق نہیں کہ اس پر توجہ کی جائے اور اس کیلئے وقت صرف کیا جائے اگر ہم اس طرح کی من گھڑت خرافات کی تلاش کریںتو ہمیں بہت سی ہنسا اور رُلا دینے والی باتیں ملیں گی... الخ
شیخ نے بحث کے اصل قضیے کو نہیں چھیڑا اور وہ یہ تھا کہ خاندانوں کے درمیان ربط کے لئے دلالت ِمصاہرت بغیر اطمینان اور تسلی کے نہیںہوتی اوراس میں أصہار(سسرالی رشتہ داروں) کے درمیان باہمی اُلفت ، اُخوت اور محبت کی دلالت کی صراحت پائی جاتی ہے۔
٭ ایسے ہی آپ پریہ واضح اور روشن ترین فرق مخفی بھی نہیں ہے کہ مسلمان مرد کی کتابیہ (یہودیہ یا نصرانیہ) سے شادی جائز ہے او رکتابی مرد کی مسلمان عورت سے شادی جائز نہیں ہے، اس بات کو بھی ذرا سوچئے...!!
خلاصہ یہ ہے کہ اصحابِ رسولؐ کے درمیان رشتہ مصاہرت آفتاب نیمروز کی طرح روشن ہے خصوصاً خلفاے راشدین اور حضرت علی المرتضیٰ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اولاد کے درمیان اس طرح اسلام سے قبل اور اس کے بعد بنو ہاشم اور بنوامیہ کے درمیان مصاہرات کے رشتے بھی مشہور ہیں اور ان میں سے زیادہ مشہور رشتہ مصاہرت حضرت رسول کریمﷺ کا حضرت ابوسفیان اُمویؓ کی لخت ِجگر حضرت ام حبیبہؓ سے نکاح کرنا ہے۔
مزید تفصیلات اس مقالہ کے دوسرے حصے میں دیکھیں۔ یہاں اس چیز کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ مصاہرت سے نفسیاتی اور معاشرتی اثرات پیدا ہوتے ہیں، ان میں سے بڑا اثر دونوں خاندانوں کے درمیان محبت کا پھلنا پھولنا ہے ورنہ اسے تسلیم نہ کرنے کی صورت میں بہت سے اثرات رونما ہوتے ہیں اور شاید جو کچھ بیان ہوچکا ہے وہ کافی ہے او رجو کچھ بیان نہیں ہوا، اس کی ضرورت نہیں۔ وباﷲ التوفیق (جاری ہے)
عشرہ مبشرہ اور ہاشمی گھرانوں کی باہمی رشتہ داریاں
ہاشمی گھرانہ
دیگر گھرانوں سے نکاح
حوالہ جات
رسول اللہ ﷺ
عائشہؓ بنت ابو بکرتیمیہ قریشیہ
حفصہؓ بنت عمر عدویہ قریشیہ
رملہؓ بنت ابوسفیان اُمویہ قریشیہ
اس کا تذکرہ تمام کتب ِحدیث وتفسیر
اور کتب تاریخ میں ہے۔
اُمّ کلثومؓ بنت علیؓ
عمرؓبن خطاب عدوی قریشی
اکثر کتب ِحدیث جن کا ذکر ہوا۔
فاطمہؓ بنت حسینؓ
عبداللہ بن عمرو بن عثمان
اُموی قریشی
انساب الطالبین ص۶۵، ابن طقطقی
عمدۃ الطالب فی انساب ابی طالب،ص ۱۱۸
(طبقاتِ شافعیہ :ص۴۸۳)
صفیہؓ بنت عبدالمطلب والدہ حضرت زبیرؓ
عوام بن خویلدتیمی قریشی
تمام کتب ِشیعہ و اہل السنہ
اُمّ الحسن بنت حسین بن علی المرتضیٰ ہاشمیہ قریشیہ
ان سے عبداللہ بن زبیرؓ نے نکاح کیا، شہادت کے بعد ان کے بھائی انہیں اپنے ساتھ لے گئے
منتہی الآمال ص۳۴۱ از شیخ عباس قمی
اور تراجم النساء از شیخ محمد اعلمی حائری
رقیہ بنت الحسن بن علی بن ابی طالب
عمرو بن زبیر بن عوام قریشی
منتہی الآمال ص ۲۴۲ از شیخ عباس قمی
اور تراجم النساء ص۳۴۶
حسین الاصغر بن زین العابدین بن حسین السبط
خا لدہ بنت ِحمزہ بن معصب بن زبیر تیمی قریشیہ سے نکاح کیا
تراجم النساء محمد اعلمی حائری : ص۳۶۱
ایسے ہی حضرت سکینہ بنت حسین بن علی المرتضیٰ ؓ کا حضرت مصعب بن زبیر تیمی قریشی سے نکاح بہت مشہور ہے اور اگر کوئی صاحب ان کی باہمی رشتہ داریوں پر تحقیق کرے تو اسے بہت سے تفصیلات لکھنا پڑیں گی کیونکہ ایسے تذکرے بہت زیادہ ہیں۔ وﷲ الحمد علی ذلك