امام ابن تیمیہ ؒکے حدودِ علم کی وسعتیں

امام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ اپنے دودمانِ بلند مرتبت کے سلسلۃ الذہب کی ایسی درخشندہ کڑی ہیں جن کی ضیا پاشیاں اُفق عالم کو ہمیشہ منور رکھیں گی اور جن کے علم و ادراک کی فراوانیوں اور فضل وکمال کی وسعتوں سے کشور ِ ذہن مصروفِ استفادہ اور اقلیم ِقلب مشغولِ استفاضہ رہیں گے۔ ان کے جد ِامجد مجدالدین کو حنابلہ کے ائمہ واکابر میں گردانا جاتا تھا اور اہل علم کے ایک بہت بڑے حلقے نے ان کو مجتہد ِمطلق کے پرشکوہ لقب سے ملقب کیا ہے۔ امام ذہبیؒ جنہیں رجال کے مستند امام گردانا جاتا ہے، کتاب النبلاء میں ان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اِنتھت إلیہ الإمامۃ في الفقہ '' مسائل کے حل و کشود میں وہ مرتبہ امامت پر فائز تھے۔''
امام تقی الدین ابن تیمیہؒ کی ولادت اسی جلیل القدر خاندان میں ہوئی اور اسی ماحول میں انہوں نے شعور کی دہلیز پر قدم رکھا جہاں فضیلت و عرفان کا ہمہ گیر شامیانہ تنا ہوا تھا اور مجد وذکاوت کی خوشگوار گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں۔ان ہی پاکیزہ فضاؤں میں اُنہوں نے پرورش وپرداخت کی منزلیں طے کیں اور اسی گلستانِ صالحیت کی شمیم آرائیوں میں وہ عہد ِطفولیت سے نکل کر دورِ شباب میںداخل ہوئے۔ اب وہ جادۂ علم کے پرعزم راہی تھے اور ان کی عزیمت وعظمت نے ان کو جامع الحیثیات شخصیت کے قالب میں ڈھال دیا تھا۔ وہ بہ یک وقت عالم بھی تھے اور معلم بھی، محقق بھی تھے اور مصنف بھی، مفسر بھی تھے اور محدث بھی، فقیہ ِنکتہ رس بھی تھے اور اُصولی ٔدقیقہ سنج بھی، مجاہد بھی تھے اور مجتہد بھی، مناظر بھی تھے اور جارح بھی، حملہ آور بھی تھے اور مدافع بھی، واعظ ِشیریں بیان بھی تھے اور خطیب ِشعلہ بیان بھی، مفتی بھی تھے اور ناقد بھی، عابد ِشب ِزندہ دار بھی تھے اور سالک ِعبادت گزار بھی، منطقی بھی تھے اور فلسفی بھی، ادیب ِحسین کلام بھی تھے اور شاعر اعلیٰ مذاق بھی۔ جس طرح وہ کشورِ قلم و لسان کے شہسوار تھے، اسی طرح اقلیم ِسیف و سنان پربھی ان کا سکہ رواں تھا اور ان سب کو ان کی اطاعت گزاری پر فخر تھا۔ مختلف علوم ان کے سامنے قطار بناکر کھڑے رہتے، جب کسی موضوع پرگفتگو کرنا مقصود ہوتا تو متعلقہ علم اپنی ہمہ گیریوں کے ساتھ کورنش بجا لاتا ہوا ان کی بارگاہِ فضیلت میں حاضر ہوجاتا اور جب کسی مسئلے کو ضبط ِتحریرمیں لانے کا قصد کرتے تو اشہبِ قلم تیزی کے ساتھ صفحاتِ قرطاس پر دوڑنے لگتا اور پھر آناً فاناً معلومات کا مینہ برسنا شروع ہوجاتا اور پوری روانی کے ساتھ مرتب شکل میں پُرمعانی الفاظ کاغذ پر بکھرتے چلے جاتے۔ وہ دجلہ و فرات کے سنگم میں پیدا ہوئے تھے اور ان دونوں دریاؤں کی روانی ان کے قلم اور زبان میں سمٹ آئی تھی۔
جن حضرات کو امام ابن تیمیہؒ کی تصانیف و تحریرات سے براہِ راست استفادے کا موقع نہیں ملا، ان کے سامنے امام کے مصنفانہ کمالات کی تصویر کشی مشکل ہے۔ یوں سمجھیے کہ ان کے کلام میں دریا کی روانی، آگ کے شعلے، شیر کی گرج، مجاہد کی یلغار، فن کار کے نغمے کا اثر وسحر، پھولوں کی نزاکت ومہک، شاعر کے احساسات، عابد وزاہد کا اخلاص، محدث کی دقت ِنظر اور محقق کی فیصلہ کن راے وقار و تمکنت کے ساتھ جمع ہیں۔
ذہانت و جامعیت
اللہ تعالیٰ نے حضرت امام کو اوائل ِشباب ہی میں ذہانت اور جامعیت کی متاعِ گراں بہا سے نواز دیا تھا۔ ان کے نامور شاگرد حافظ ابن کثیرؒ اپنے اس استاد عالی قدر کے درسِ اوّل کا تذکرہ کرتے ہوئے 'البدایہ والنہایہ' میں رقم قطراز ہیں :
وکان درسا هائلا وقد کتبه الشیخ تاج الدین الفزاري بخطه لکثرة فوائدة وکثرة ما استحسنه الحاضرون وقد أطنب الحاضرون في شکره علی حداثة سنه وصغره فإنه کان عمره إذ ذاك عشرین سنة وسنتین
یعنی '' امام ابن تیمیہ ؒ کا پہلا درس ایک حیرت انگیز درس تھا،جس کے کثرتِ فوائد اور لوگوں کی بہ درجہ غایت دلچسپی کی بنا پر شیخ تاج الدین فزاری نے اسے قلم بند کیا۔ امام ممدوح کی کم عمری اور عہد ِجوانی کی وجہ سے حاضرین نے اس درس کی بے حد تحسین کی اوردل کھول کر انہیں داد دی۔ اس وقت امام کی عمر صرف بائیس برس کی تھی۔''
بوقلموں فنون اور نوع بنوع علوم میں ان کی وسعت ِنظر کا یہ عالم تھاکہ ان کے اَقران ومعاصرین اس کا اعتراف کرنے پر مجبور تھے، حالانکہ معاصرت ایک نہایت خطرناک زہر ہے اور یہ زہر جس شخص کے قلب و ذہن میں سرایت کرجائے، اسے احقاقِ حق اور اپنے معاصر کے بارے میں صدقِ مقال سے محروم کردیتا ہے۔ لیکن امام ابن تیمیہؒ کے معاصرین نے ان کے علوم و معارف کی ہمہ گیریوں کا صاف لفظوں میں اقرار کیا۔ ان کے معروف حریف علامہ کمال الدین زملکانی تھے، جو امام سے بہت سے معاملات میں شدید اختلاف کے باوصف واضح پیرایہ بیان میں ان کی تعریف کرتے ہیں۔ اس ضمن میں الکواکب الدریم في مناقب الامام المجتہد شیخ الاسلام ابن تیمیۃ میں ان کے الفاظ لائق ِتذکرہ ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
قد ألان اﷲ له العلوم کما ألان لداؤد الحدید. کان إذا سئل عن فن من العلم ظن الرائي والسامع أنه لا یعرف غیر ذلك الفن وحکم أن أحدا لایعرفه مثله، وکان الفقهاء من سائر الطوائف إذا جلسوا معه استفادوا في مذاهبهم منه مالم یکونوا عرفوه قبل ذلك. ولا یعرف أنه ناظر أحدا فانقطع منه ولا تکلم في علم من العلوم سواءً کان من علوم الشرع أو غیرها إلا فاق فیه أهله والمنسوبین إلیه. وکانت له الید الطولی في حسن التصنیف
یعنی ''اللہ تعالیٰ نے ابن تیمیہؒ کے لیے تمام علوم کو اس طرح سہل اور آسان کردیا تھا، جس طرح حضرت داؤد علیہ السلام کے لیے لوہے کو نرم اور گداز فرما دیا تھا۔ جس علم کے متعلق ان سے سوال کیا جاتا، اس انداز سے جواب دیتے کہ دیکھنے اور سننے والا یہ خیال کرتا کہ اس فن کے سوا یہ اور کچھ نہیں جانتے اور دل میں یہ فیصلہ کرتا کہ کوئی اور شخص ان کی طرح اس فن میں عبور اور مہارت نہیں رکھتا۔ جب بھی کسی مسلک ِفقہ کے شناور ان کی مجلس میں شریک ہوتے تو کوئی نہ کوئی ایسا نکتہ ان کے احاطہ علم میں ضرور آتا، جس کا اس سے پہلے انہیں علم نہ ہوتا تھا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انہوں نے کسی سے مجلس ِبحث و مناظرہ گرم کی ہو اور اس کے سامنے وہ لاجواب ہوگئے ہوں۔ جب بھی انہوں نے علومِ شرعیہ یا دیگر علوم کے بارے میں کوئی گفتگو کی تو ہمیشہ ان علوم کے ماہرین اور ان سے انتساب رکھنے والوں سے آگے کی بات کی۔ ان کا تصنیف و تالیف کا سلسلہ نہایت خوب صورت تھا اور اس میں انہیں مہارتِ تامہ حاصل تھی۔''
وہ علم کا سمندر تھے اور انہیں بحرالعلوم کا مرتبہ حاصل تھا۔ کسی مسئلے پر کسی سے ہم کلام ہوتے تو بحث کو اس طرح پھیلا دیتے کہ مسئلے سے مسئلہ نکلتا چلا آتا اور کوئی انہیں قابو میں نہیں لا سکتا تھا، حریف متحیر رہ جاتا تھا، جب وہ انہیں ایک طرف سے پکڑنے کی کوشش کرتا تو وہ دوسری طرف نکل جاتے۔ ان کے ایک فاضل ہم عصر اور اس دور کے بہت بڑے مناظر شیخ صفی الدین النہد تھے۔ وہ ان کی گفتگو کا رنگ دیکھ کر انہیں کہتے ہیں :
ما أراك یا ابن تیمیة إلا کالعصفور حیث أردتُ أن أقبضه من مکان فرّ إلی مکان اٰخر ''اے ابن تیمیہ! تم ایک چھوٹی چڑیا (یعنی کنجشک) کی طرح ہو، جب میں اسے ایک جگہ سے پکڑنا چاہتا ہوں، تو وہ اُڑ کر دوسری جگہ جا پہنچتی ہے۔''
علوم و فنون میں رسوخ
امام ابن تیمیہؒ فقہ میں حنبلی مکتب ِفکر کی طرف رجحان رکھتے تھے۔ ان کے زاویۂ نظر کے مطابق یہی وہ مدرسۂ فکر ہے جو براہِ راست کتاب و سنت اور تصریحاتِ سلف کو اپنی آغوش میں لیے ہوئے ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ احناف و شوافع یا موالک کی فقہی کاوشوں سے نابلد ہیں یا اسے شائستہ التفات ٹھہرانے سے گریزاں ہیں۔ ان کا دامن ِعلم و معرفت اس درجے کشادہ اور وسعت پذیر ہے کہ وہ تمام تہذیبی ذخائر اور فقہی خزائن اس کی لپیٹ میں آگئے ہیں، جنہیں مختلف مکاتب ِفکر کے فقہاے ذی احترام نے سیکڑوں برس کی محنت و کاوش سے جمع کیا اور نہایت قرینے اور سلیقے سے متونِ فقہ میں ترتیب دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ممدوح جب کسی فقہی مسئلے پر اظہارِ راے کرتے ہیں تو کتاب و سنت کی روشنی میں ایسی جرات واعتماد کے ساتھ کرتے ہیں جو ایک امامِ فقہ وحدیث اور مجتہد ِعصر کے لیے مخصوص ہے۔
متعدد فقہی مسائل میں انہوں نے عام فقہا کی روش سے ہٹی ہوئی راہ اختیار کی اور ان کی تعبیر و ترجمانی میں اپنے بے پناہ علمی و فکری صلاحیتوں کا ثبوت بہم پہنچایا، اور حقیقت یہ ہے کہ یہی جادۂ مستقیم تھا اور یہی راہِ صواب تھی اور انہی سے ان کی ژرف نگاہی اور ان کے علم ومطالعہ کے پھیلاؤ کا پتا چلتا ہے۔ القول الجلي میں مرقوم ہے کہ ابوحیان اندلسی جب پہلی مرتبہ امام کی خدمت میں گئے تو دورانِ گفتگو میں ان کی فراوانی معلومات سے ورطہ حیرت میں ڈوب گئے اور بے اختیار پکار اُٹھے : ما رأتْ عیناي مثل ابن تیمیۃ
''میری آنکھوں نے آج تک ابن تیمیہؒ ایسا غیر معمولی انسان نہیں دیکھا۔''
پھر اسی مجلس میں فی البدیہہ ان کی شان میں ایک قصیدہ مدحیہ بھی کہہ ڈالا۔ لیکن جب سلسلہ کلام آگے بڑھا اور ایک نحوی مسئلے سے متعلق امام فن ابوحیان نے سیبویہ کا حوالہ دیا تو امام ابن تیمیہؒ جوش میں آگئے اور کہا کہ قرآن مجید کے فہم و ترجمانی میں سیبویہ نے ۸۰ مقامات پر ٹھوکر کھائی ہے اور ادب و نحو کے بدیہی تقاضوں سے انحراف کیا ہے۔ ابو حیان نے پیغمبر نحو کے بارے میں ابن ِتیمیہ کے یہ الفاظ سنے تو وہ ایک دم چکرائے اور ان کی ذہانت و ذکاوت پر حیران ہوکر رہ گئے۔
قرآنِ مجید سے تعلق ِخاطر
قرآنِ مجید وہ افشردۂ نور اور سینۂ لاہوت کا آخری راز ہے جو جبریل امین کی وساطت سے قلب ِرسول میں جاگزیں ہوا، امام ابن تیمیہؒ کو اس سے خاص تعلق خاطر تھا۔ ان کے مطالب و معانی کے عمق و گہرائی میں غوطہ زن ہونا اور گوہر مقصود کے حصول کے لیے تگ و تاز کرنا امام کا دل پسند مشغلہ تھا۔ اللہ کے اس آخری بول کے تمام پہلوؤں کو زاویۂ فکر میں لانے اور نطق ِجبریل کے ایک ایک لفظ کو حیطۂ فہم میں لانے کی غرض سے انہوں نے بہت سے تفسیری مواد کو کھنگالا اور اس سے مستفید ہوئے۔ اس ضمن میں العقود الدریۃ میں ان کے اپنے الفاظ ملاحظہ ہوں :
ربما طالعت علی الآیۃ الواحدۃ نحو مائۃ تفسیر ثم أسئل الفھم وأقول یا مُعلّم آدم وإبراہیم! علِّمْني، وکنت أذھب الی المساجد المجھورۃ ونحوِھا وأمرغ وجھی فی التراب وأسئل اﷲ تعالی وأقول یا معلّم ابن ابراہیم! فَہِّمْني
یعنی''بسا اوقات ایک آیت کو سمجھنے کے لیے میں نے سو سو تفسیروں کا مطالعہ کیا۔ مطالعہ سے فارغ ہونے کے بعد اللہ سے دعا کرتا کہ مجھے اس آیت کی سمجھ عطا فرما۔ میں اللہ سے دعاگو ہوتا کہ اے آدم ؑاور ابراہیم ؑکے معلم! مجھے بھی علم کی نعمت سے مالا مال فرما۔
میں آبادی کے ہنگاموں سے دور ویرانوں میں نکل جاتا اور غیر آباد مسجدوں میں جابیٹھتا، اپنی پیشانی خاک پر رگڑتا اور اللہ سے التجا کرتا کہ اولادِ ابراہیم کو علم سکھانے والے! مجھے بھی فہم و ادراک کی دولت سے نواز۔''
ہر گوشۂ علم امام ابن تیمیہؒ کی کمان میںتھا، وہ ہر فن میں امامت و اجتہاد کے مرتبے پر فائز تھے اور ان کے فضل و کمال کی وسعتیں ہر میدانِ تحقیق کو اپنی لپیٹ میںلیے ہوئے تھیں۔ ان کی عبقریت و نبونمت اور بے پناہ استحضار کا اظہار شیخ تقی الدین ابن دقیق العید اِن جچے تلے الفاظ میںکرتے ہیں : العلوم کلھا بین عینیہ یأخذ منھا ما یر ید ویَدَع ما یرید
''تمام علومِ متداولہ ان کی نگاہوں کی زد میں ہیں، ان میں سے جس علم کو چاہتے ہیں لے لیتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں ناقابل التفات سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔''
امام عالی مقام کو اللہ تعالیٰ نے اس خصوصیت سے بہرہ مند فرمایا ہے کہ وہ زیر بحث مسائل کی گہرائی تک پہنچتے ہیں اور جس معاملے میںقلم یا زبان کو حرکت دیتے ہیں، اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرلیتے ہیں۔ 'الکواکب الدریہ' میں ان کی اس کیفیت کا نقشہ ان پُرعظمت الفاظ میں کھینچا گیا ہے :
کان ابن تیمیة إذا شرع في الدرس یفتح الله علیه أسرار العلوم وغوامض ولطائف ودقائق وفنون ونقول واستدلالات بآیات الله وأحادیث واستشهادا بأشعار العرب وهومع ذلك یجري کما یجري التیار ویفیض کما یفیض البحر
یعنی ''ابن تیمیہؒ جب درس کا آغاز فرماتے تو اللہ تعالیٰ ان کے لیے علوم کے اسرار و غوامض کے دروازے کھول دیتا اور لطائف و دقائق ِعلمیہ اور نکاتِ فنون کے کواڑ ایک ایک کرکے ان کے سامنے وا فرما دیتا۔ ہر شے ان کی نگاہِ نکتہ بین کاہدف ہوتی اور وہ نہایت تیزی سے آیاتِ قرآن، احادیث ِرسول (1) سے استدلال اور ائمہ فنون اور اشعارِ عرب سے استشہاد کرتے جاتے اور پھر اس قافلۂ شواہد و اَمثال کے جلو میں اس طرح چلتے کہ جیسے سیلاب اُمنڈ آرہا ہے اور دریا موجیں ما رہا ہے۔''
اب 'الکواکب' کے حوالے سے اس ضمن میں حافظ ابوحفص کے الفاظ بھی سنتے جایے :
یجری کما یجری التیار ویفیض کما یفیض البحر ویصیر منذ یتکلم إلی أن یفرغ کالغائب عن الحاضرین، مغمضا عینیه ویقع علیه إذ ذاك من المهابة ما یرعد القلوب ویحیرالأبصار العقول
''ان کی گفتگو میں سیلاب کی سی روانی اور سمندر کی سی طغیانی ہوتی ہے۔ آغازِ کلام سے لے کر اختتامِ کلام تک یہی سلسلہ جاری رہتا ہے۔ علمی بات کرتے وقت آنکھیں بند کرلیتے ہیں اور چہرے پر ایسا وقار اور جلال طاری ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے تمام مجلس پر ایک طرح کی مرعوبیت چھا جاتی ہے۔''
امام ابن تیمیہؒ اور مولانا ابوالکلام آزادؒ
زبان کی مانند ان کے قلم میں بھی بے حد روانی اور تیزی پائی جاتی ہے، اس ضمن میں کسی نے خوب لکھا ہے : قلمہ ولسانہ متقاربان
یعنی '' ان کا قلم اور ان کی زبان ایک دوسرے کے ہم پلہ ہیں۔''
برصغیر کے علماے دین میں مولانا ابوالکلام آزادؒ میں یہ خصوصیت نمایاں تھی کہ ان کے قلم اور زبان یعنی تحریر و تقریر میں یکساں روانی پائی جاتی تھیں۔ جس طرح ان کی تقریر صاف، رواں اور علم و ادب کے تمام تقاضوں سے مرصع ومزین ہوتی تھی، اسی طرح ان کی تحریر فضل وکمال کا دل آویز مجموعہ قرار پاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہیںہندوستان کا ابن تیمیہؒ کہا جاتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ حضرات میں سے کسی صاحب نے مولانا کو دیکھا ہے یا نہیں یا ان کی تقریر سننے کا اُنہیں موقع ملا ہے یا نہیں؟ اس فقیر کو یہ سعادت حاصل ہے کہ اس نے مولانا کی زیارت بھی کی ہے، ان سے باتیں بھی کی ہیں اور ان کی تقریر بھی سنی ہے۔ ہمارے لیے یہ انتہائی مسرت کی بات ہے کہ امام ابن تیمیہؒ اور امام الہند ابوالکلامؒ دونوں عظیم الشان مبلّغانِ قرآن و حدیث تھے، دونوں ایک ہی مسلک کے حامل، دونوں کی قلم و زبان پر فرماں روائی اور دونوں تحریر و تقریر کے بادشاہ۔ اہل حدیث کو یہ فخر کرنا چاہیے کہ ان میں اللہ تعالیٰ نے ابن تیمیہؒ اور ابوالکلامؒ جیسی عالی مرتبت شخصیتیں پیدا کیں!!
منطق و فلسفہ کے بارے میں امام کے افکار
اب آیے چند الفاظ میں ارسطو کی منطق اور فلاسفہ یونان کے بارے میں امام عالی مقام کے افکارِ عالیہ سے مطلع ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اس سے قبل یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ حضرتِ امام جہاںعلومِ شرعیہ و نقلیہ میں کامل عبور رکھتے تھے اور ان کے ہر گوشے پر حاوی تھے، وہاں فنونِ عقلیہ اور فلسفہ و منطق میں بھی مرتبہ کمال پر فائز تھے۔ بلکہ کہنا چاہیے کہ وہ ان فنون کے ائمہ و اساتذہ میںممتاز درجے کے مالک تھے۔ وہ اس مشکل تریں موضوع میں کسی کو اپنا حریف اور مدمقابل نہیں سمجھتے۔ یہی وجہ ہے کہ ارسطو کی منطق پر انہوں نے اس انداز سے کڑی اور چبھتی ہوئی تنقید کی جو اس موضوع سے متعلق کثرتِ معلومات کی روشنی میں وہی کرسکتے تھے، کسی دوسرے کے بس کا روگ نہیں تھا۔
لیکن یہاں یہیاد ر ہے کہ انہوں نے ارسطو یا دیگر فلاسفہ و منطقیین کو جس مسئلے میں ہدفِ تنقید اور نشانۂ اعتراض ٹھہرایا ہے، وہ مسئلہ الٰہیات ہے۔ منطق و حکمت کے باقی مسائل میں وہ اصحابِ حکمت و دانش کی تعبیر و تشریح کو قرین ِصحت قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ ایک جگہ لکھتے ہیں :
نعم لهم في الطبعیات کلام، غالبه جید وهوکلام کثیر واسع ولهم عقول عرفوا بها ذلك وهم قد یقصدون الحق لایظهر علیهم العناد
یعنی '' ان فلسفیوں نے طبیعات کے موضوع پر جو گفتگو کی ہے، اس کا زیادہ تر حصہ صحیح ہے اور ان کی یہ گفتگو خاصی وسیع اور مفصل ہے۔ وہ بہت اچھے دماغ کے مالک تھے۔ متعدد مسائل میں وہ حق کے متلاشی دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔''
٭ فلاسفہ یونان کی معرکہ آرائیوں اور جودتِ طبع کا ذکر کرتے ہوئے وہ سورئہ اخلاص کی تفسیر میں بہ الفاظِ واضح تحریر فرماتے ہیں :
لکن لهم معرفة جیدة بالأمور الطبعیة وهذا بحر علمهم وله تفرغوا وفیه ضیعوا زمانهم
یعنی ''اُمورِ طبعیہ میں انہیں خوب دسترس حاصل ہے۔ اس لیے کہ یہی ان کا میدانِ فکر اور موضوعِ خاص ہے اور اسی پر غورو بحث میں انہوں نے عمریں کھپائی ہیں۔''
طبیعات کے متعلق فلاسفہ نے جوکارہاے نمایاںسرانجام دیے ہیں اور اس کے برعکس الٰہیات کے سلسلے میں جو لغزشیں کی ہیں، اس کی تفصیل حضرت امام رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی متعدد تصانیف میںبیان کی ہے۔ ایک جگہ ان مسائل کے بارے میں ان کے دائرئہ فکر کے درمیان خط ِامتیاز کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ''مسائل فلسفہ کو حرزِ جان بنانے والے لوگ اُمورِ طبعیہ میںتو خوب غوروخوض کرتے ہیں اور اس موضوع کی وسعتوں کے اظہار میںید ِطولیٰ رکھتے ہیں، لیکن الہٰیات کے بارے میں جادۂ حق سے ہٹے ہوئے ہیں۔ اس باب میں ان کے استاذ ومعلم ارسطو سے جو کچھ منقول ہے، وہ اگرچہ بہت تھوڑا ہے تاہم اغلاط و خطا سے پُر ہے۔''
امام کا کہنا ہے کہ ''خود فلسفہ یونان کے اساطین و ماہرین اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیںکہ علومِ الٰہیہ کے بارے میں ان کا دائرئہ معلومات محدود اور سمٹا ہوا ہے۔ ان مسائل کے متعلق وہ جو کچھ کہتے ہیں، اصل حقیقت اس سے لازماً متصادم ہوگی۔ اس کی کنہ تک پہنچنے کے تقاضے ہمارے نقطہ فکر سے بہت حد تک مختلف ہوں گے اور یقینیات کی حدوں تک رسائی کے ذرائع ان اُمور کے طالب ہوں گے جو ہماری نظر کے دوائر سے اوجھل ہیں۔''
عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ امام ابن تیمیہؒ بطورِ علم کے حکمت و دانش اور فلسفہ و منطق کے حصول پر معترض نہیں ہیں، وہ خود بہت بڑے فلسفی اور منطقی تھے۔ مولانا محمدحنیف ندوی نے اس موضوع پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے، جس کا نام 'عقلیاتِ ابن تیمیہ' ہے۔ یہ کتاب کم وبیش چار سو صفحات پرمحیط ہے۔ اس میں امام کے فلسفیانہ اور منطقیانہ پہلوؤں کی وضاحت کی گئی ہے۔
امام کا اعتراض اور اختلاف فلاسفہ اور منطقیین کے اس نقطہ نظر سے ہے جو الٰہیات سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ نقطہ نظر تشکیک اور ارتیاب کے دروازے کھولتا ہے اور انسان کو گمراہی کی وادیوں میںدھکیل دیتا ہے۔ کوئی صحیح العقیدہ مسلمان اس صورتِ حال کو ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہیںکرسکتا۔ آج اگر ہمارے مدارس میں فلسفہ اور منطق کے علوم نہیں پڑھائے جاتے تو یہ الگ بحث ہے۔ لیکن پاکستان سے قبل فارغ التحصیل ہونے والے علماے کرام نے ان علوم کی باقاعدہ تحصیل کی، مثلاً حضرت حافظ عبداللہ روپڑی، حضرت حافظ محمد حسین روپڑی[والد ِگرامی حافظ عبد الرحمن مدنی]، مولانا ثناء اللہ امرتسری اور ان کے استاذ مولانا احمد اللہ رئیس امرتسر، مولانا حافظ محمد گوندلوی، مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی، مولانا محمد اسماعیل سلفی، مولانا محمد حنیف ندوی ، مولانا سید محمد داؤد غزنوی،مولانا حافظ عبداللہ بڈھیمالوی، مولانا عطاء اللہ حنیف، مولانا حافظ محمداسحق شیخ الحدیث جامعہ قدس، مولانا عطاء اللہ لکھوی، مولانا محمد علی لکھوی، مولانا عبدالرحمن لکھوی، مولانا حبیب الرحمن لکھوی اور دیگر بہت سے اہل حدیث علماے کرام نے فلسفے میںبھی مہارت پیدا کی اور منطق میں بھی۔ اور ان علوم کی وہ باقاعدہ تعلیم دیتے رہے، لیکن ان میں سے کوئی بزرگ الٰہیات کے بارے میں تشکیک میںمبتلا نہیںہوئے بلکہ ان علوم کو انہوں نے اسلام کی ترویج کے لیے استعمال کیا اور اسلامی احکام پر کسی نے اعتراض کیا تو ان حضرات نے ان علوم کی مدد سے اسلام کا دفاع کیا۔
ہمارے اسلافؒ نے ہر موقعے پر کتاب و سنت ہی کو قابل عمل قرار دیا اور اسی کو ہمیشہ شائستہ التفات ٹھہرایا۔ فلسفہ و منطق کا جو حصہ کتاب و سنت سے متصادم اور تعلیماتِ اسلامی کے منافی ہے، اسے نہ امام ابن تیمیہؒ نے مانا، نہ ہمارے اسلاف میں سے کسی نے کوئی اہمیت دی اور نہ اس دور میں ہم اسے لائق ِتسلیم قرار دیتے ہیں۔ اس ضمن میں ہم اپنے عالی قدر اسلاف سے ہم آہنگ ہوکر ظفر علی خاں کے الفاظ میں اعلان کریں گے کہ
ارسطو کی حکمت ہے یثرب کی لونڈی
فلاطون ہے طفل دبستانِ احمدؐ
ہندوستان میں ابن تیمیہؒ کے اثرات
یہاں یہ بھی عرض کردیں کہ ہندوستان پر بھی امام ابن تیمیہ ؒ کے ساغر ِعرفان کے چھینٹے پڑے اور انہوں نے توحید کے جو خم کے خم لنڈھائے تھے، کفرستانِ ہند کے باشندے بھی ان سے بقدرِ استطاعت سیراب ہوئے اور ان کے ظاہر و باطن کی دنیا بدلی۔
شاہِ ہند علاء الدین خلجی کے عہدمیں امام کے ایک قابل فخر شاگرد عبدالعزیز اردبیلی یہاں آئے، جن کی صحبتوں سے خود بادشاہ متاثر ہوا اور اس کے امراے دربار میں سے بہت سے لوگوں کی ذہنی کایا پلٹی۔
محمد تغلق بادشاہ کے دور میں بھی امام کے بعض فیض یافتہ علما ومشائخ نے قصد ِہندکیا اور خود بادشاہ کے سامنے تبلیغ دین اور ترویج احکام اسلامی کا فریضہ انجام دیا، جس کے انتہائی خو ش گوار نتائج مرتب ہوئے۔ یہ ایک الگ موضوع ہے جو اہل علم کی عنانِ توجہ کا متقاضی ہے۔
دیارِ ہند میں امام ابن تیمیہؒ اور امام ابن قیمؒ کی قلمی کتابیں سب سے پہلے یہاں ایک اہل حدیث صوفی بزرگ حضرت سید عبداللہ غزنویؒ کی تحریک اور کوشش سے آئیں، پھر وہ کتابیں ان کے صاحب زادگانِ گرامی قدر مولانا سید محمدغزنوی، حضرت الامام عبدالجبار غزنوی، مولانا سید عبدالغفور غزنوی وغیرہ نے شائع کیں۔ رحمہم اللہ تعالیٰ
امام ابن تیمیہؒ کی ان کتابوں کی تعداد جو علماے غزاوِنہ کی سعی و جہد سے امرتسر، لاہور اور دہلی میں زیورِ طبع سے آراستہ ہوئیں، دس تک پہنچتی ہے۔ امام ابن قیمؒ کی کتابیں اس کے علاوہ ہیں۔ یہ آج سے ڈیڑھ سو سال قبل کی بات ہے۔ جب کتابوں کا حصول بہت مشکل تھا، مطابع بھی بہت کم تھے اور پیسے کا بھی قحط تھا۔ اس زمانے کو آج کے زمانے پر قیاس نہ کیجیے، آج سعودی عرب کی حکومت نے امام ابن تیمیہؒ اور دیگر اسلافِ کرام کی تصانیف شائع کرکے گھر گھر مفت پہنچا دیں ہیں، جو شان دار جلدوں کے ساتھ علماے کرام کے کتب خانوں میں پڑی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ انہوںنے پڑھی ہیں یا نہیں پڑھیں لیکن پڑی ضرور ہیں۔ کوئی میرا جیسا آدمی ان سے محروم رہ گیا ہوگا جو وہاں کے شیوخ اور سرکردہ علما تک رسائی حاصل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا یا عدم وسائل کی بنا پر رسائی حاصل نہیں کرسکتا۔
امام پر لکھنے والے برصغیر کے اوّلین اہل ِعلم
اس برصغیر میں سب سے پہلے امام ابن تیمیہ ؒ کی شخصیت اور ان کی تصانیف سے متعلق والا جاہ نواب صدیق حسن خاں والی ٔبھوپال نے اظہارِ خیال کیا۔ اس کے بعد دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے مجلے 'الندوہ' میں علامہ شبلی نعمانی نے مفصل مضمون لکھا۔ پھرامام الہند مولانا ابوالکلام آزاد نے ۱۹۱۶ء میں اپنے علمی شہکار 'تذکرہ' میں امام کی مساعی بوقلموں کا اپنے اندازِ خاص میں ذکر فرمایا۔ مولانا کے زوردار قلم نے جس اُسلوب میں امام کا تعارف کرایا، وہ انہی کا حصہ ہے۔
۱۹۲۵ء میں امام کے حالات میں اُردو میں اوّلین کتاب'سیرتِ ابن تیمیہ ؒ'کے نام سے معروف اہل حدیث عالم مولانا غلام رسول مہرؒ نے لکھی جو 'الہلال بک ایجنسی، لاہور' نے شائع کی۔ اس کتاب کی شکل و صورت اب بھی آنکھوں کے سامنے ہے۔ میں نے یہ کتاب قیام پاکستان سے پہلے پڑھی تھی اور اس پر مصنف کا نام لکھا تھا ...
چودھری غلام رسول مہر ایڈیٹر 'زمیندار' لاہور
امام کی کتابوں کے اُردو تراجم کا سلسلہ جہاں تک مجھے معلوم ہے، لاہور کے محلہ فاروق گنج میں رہنے والے ایک صوفی مزاج اور درویش منش بزرگ عبدالعزیز آفندی نے آگے بڑھایا۔ یہ مولانا ابوالکلام آزاد کے عقیدت مندوں میں سے تھے۔ اسی لیے انہوں نے اپنے ادارے کانام مولانا کے اخبار 'الہلال' کے نام سے 'الہلال بک ایجنسی' رکھا تھا۔ وہ کئی سال مرضِ فالج میںمبتلا رہے۔ آزادیٔ وطن کے بعد میں ان کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا ہوں۔ مرحوم نہایت متدین، بلند اخلاق اور صابر و شاکر بزرگ تھے۔ امام کی بعض کتابوں کے ترجمے انہوں نے مولانا آزاد کے ارادت مند شاگرد مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی سے کرائے تھے۔ یہ سب بزرگانِ ذی مرتبت اپنی اپنی باری سے اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں۔ رحمتہ اللہ علیہم اجمعین
مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے اپنے سلسلۂ دعوت وعزیمت کا ایک حصہ امام ابن تیمیہؒ اور ان کی علمی و فکری مساعی کے لیے وقف کیا۔ بے شک ان کا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے اور اپنے نہج کی یہ بہترین کاوش ہے۔
'عقلیاتِ ابن تیمیہ' کے نام سے مولانا محمدحنیف ندوی مرحوم و مغفور نے چار سو سے زائد صفحات پرمحیط کتاب تصنیف کی، جس میں امام کے فلسفہ و دانش اور منطق و حکمت پر بحث کی گئی ہے۔ مولانا محمد حنیف ندوی کا اپنا اسلوبِ نگارش ہے جو انہی کے لیے مخصوص ہے۔ مولانا کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے فلسفے کے دقیق اور پُرپیچ مباحث کو ادب کے حسین سانچے میں ڈھال دیا ہے۔ ان کا یہ وہ کارنامہ ہے جو دوسرا کوئی مصنف انجام نہیں دے سکتا تھا۔ یہ کتاب علم و عرفان پبلشرز، اُردو بازار لاہورکی طرف سے طبع ہوئی۔
مولانامحمدحنیف ندوی مرحوم نے ابن تیمیہ کے آثارِ قلم کی تعداد پانچ سو بتائی ہے،جب کہ ایک اور محقق نے تین سو اور دوسرے نے ان کی تعداد ایک ہزار تک بیان کی ہے۔
بہت عرصہ پیشتر ہندوستان کے ایک ممتاز اہل حدیث صاحب ِقلم پروفیسر محمد یوسف کوکن نے 'سیرتِ ابن تیمیہ ' کے نام سے کتاب سپرد قلم کی تھی، جس میں امام کی حیاتِ طیبہ کے مختلف پہلوؤں کو تفصیل کے ساتھ اُجاگر کیا گیا تھا۔ یہ اس موضوع کی لائق استفادہ کتاب ہے۔
ہندوستان کے ایک اور نوجوان سکالر کا نامِ نامی محمد عزیر شمس ہے۔ وہ کئی سال سے مکہ مکرمہ میں مقیم ہیں اور ان کا زیادہ تر وقت مکہ مکرمہ کی اُمّ القریٰ یونیورسٹی کی لائبریری میں گزرتا ہے۔ وہ کچھ عرصے سے وہ تمام مواد جمع کررہے ہیں جو کسی بھی زبان میں امام ابن تیمیہؒ کے متعلق مضامین یا کتب کی شکل میں چھپا۔ محمد عزیر شمس اسے خاص ترتیب کے ساتھ شائع کرنے کے خواہاں ہیں۔ وہ علمی اعتبار سے بڑے متحرک اور مستعد نوجوان ہیں۔
امام ابن تیمیہ ؒ علم و فکر کی رو سے پہلودار شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے ہر پہلو پر کام ہونا چاہیے۔امام ابن تیمیہ ؒ کہیںکہیں مخالفین کے بارے میں بہت سخت ہوگئے ہیں اور یہ سختی بعض مقامات پر جارحیت سے ہم کنار ہوگئی ہے، لیکن ان کی افتادِ طبع اور اس دور کے حالات کے مطابق ایسا اُسلوب اختیار کرنا ضروری تھا اور یہ مولانا ابوالکلام آزادنے بھی کیا ہے۔ ان کے دور کی یہ مجبوری تھی۔
ان دونوں حضرات کے قلم و زبان میں جو تیزی، جوحدت اور اظہارِ مدعا میں جو بے پناہ بہاؤ کا رفرما ہے اور صفحاتِ قرطاس پر الفاظ کا جو سیلاب اُمنڈا ہوا دکھائی دیتا ہے، اس کے پیش نظر کہنا چاہیے کہ امام ابن تیمیہؒ اردو میں لکھتے تو ابوالکلام کا لہجہ اختیا رکرتے اور ابوالکلام عربی کو اظہارِ افکار کا ذریعہ قراردیتے تو ابن تیمیہ ؒسے قلم مستعار لیتے۔
شیخ الحدیث مولانا عبد الغفار ضامرانی کی وفات
مولانا عبد الغفار ضامرانی ستر سال کی عمر میں ۳۰؍ مئی ۲۰۰۴ء بروز سوموار صبح ۲بجے کراچی میں انتقال کرگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔آپ قافلہ حدیث کے وہ عظیم ہم سفر تھے جنہوں نے بلوچستان کے علاقے میں کتاب وسنت کی شمع کو فروزاں کیا۔ مولانا مرحوم مدینہ یونیورسٹی کے اوّلین فیض یافتگاں میں سے تھے۔ جماعت اہل حدیث کے نامور عالم، جمعیت اہل حدیث مکران کے رئیس اور قبیلہ ضامران کے سردار تھے۔ مرحوم عربی، بلوچی اور اُردو میں کئی کتب کے مصنف ومترجم تھے۔ بالخصوص بلوچستان میں اُٹھنے والے ذکری فرقہ کا انہوں نے بطورِ خاص تاحیات تعاقب کیا اور ان کے بطلان وتردید میں تحریر وتقریر کے ذریعے ہرممکن کوشش کی۔
مولانا ضامرانی جامعہ لاہور الاسلامیہ میں شیخ الحدیث کے منصب پر کئی سال خدمات انجام دیتے رہے اور مجلس التحقیق الاسلامی کی سرگرمیوں میں بھی آپ مصروف کار رہے۔ مدیر الجامعہ کی رہائش گاہ میں ہی بطورِ خاص آپ کے قیام وطعام کا انتظام ہوتا۔ان اداروں سے آپ کا دلی تعلق تھا اور آپ ان کی ترقی کیلئے دعاگو رہتے
اللہ تعالیٰ مرحوم کی شاندار علمی ودینی خدمات قبول فرمائے، ان کی کاوشوں کو ان کے لئے صدقہ جاریہ بنائے اور ان کی مغفرت فرمائے۔ غمزدہ : عارف جاوید محمدی و محمد رفیق زاہد وجماعت اہل حدیث کویت