حضرت مولانا عبدالجبار محدث کھنڈیلویؒ
مولانا عبدالجبار 1897ء/1314ھ ضلع جے پور راجپوتانہ (ہند) میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حافظ اللہ بخش سے حاصل کی۔اس کے بعد دہلی کا رخ کیا یہاں آپ نے کئی سال رہ کر عربی اور دینی علوم میں تکمیل کی۔
آپ کے اساتذہ کرام یہ ہیں:۔
مولانا عبدالوہاب دہلوی جھنگوی۔مولانا عبدالوہاب دہلوی،مولانا احمداللہ دہلوی،مولانا حافظ عبدالرحمان پنجابی شاہ پوری،برادر مولانا فقیر اللہ مدراسی ،مولانا عبدالرحمٰن ولایتی، مولانا ابو سعید شرف الدین دھلوی۔مولانا عبداللہ امرتسری روپڑی۔مولانا عبدالقادر لکھنوی۔مولانا عطاء اللہ لکھنوی۔اور مولاناعبدالعلی عبدالرحمان محدث مبارک پوری صاحب"تحفۃ الاحوذی" فی شرح جامع الترمذی (م1353ھ)
1917ء میں آپ درس نظامی کی تکمیل سے فارغ ہوگئے۔
مسند تدریس وتعلیم:
تکمیل تعلیم کے بعد کھنڈیلہ ،دہلی،رنگون،در بھنگہ،لاہور،اوکاڑہ،میں کم وبیش 45سال تک درس وتدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔اور اس مدت میں سینکڑوں طلباء اور شائقین آپ کے فیوض علمیہ سےمستفیض ہوئے۔
آپ کے مشہور تلامذہ یہ ہیں۔
مولانا حافظ عبدالخالق رحمانی کراچی۔(آپ کے صاحبزادے) مولانا حافظ محمد اسماعیل ذبیح مرحوم،مولانا حافظ محمد اسحاق شیخ الحدیث مسجد قدس،چوک دالگراں لاہور۔اور مولانا محمد عطاء اللہ صاحب حنیف سابق مدیر ہفت روزہ "الاعتصام" لاہور
تصانیف:
آپ کی تصانیف کی تعداد 8 ہے۔
حدیث پرآپ کی تصانیف یہ ہیں۔
1۔مقدمہ صحیح بخاری(عربی) صحیح بخاری سے متعلقہ مباحث پر تفصیلی اور علمی کتاب (غیرمطبوعہ) ۔
2۔حاشیہ صحیح بخاری (عربی) غیر مطبوعہ۔
مولانا مطالعہ کے بہت عادی تھے خصوصاً حدیث سے بہت شغف تھا۔حدیث کے مطالعہ کے دوران جو مشکل مباحث پیش آتے۔وہ آپ استاد علماء کرام سے بذریعہ خط دریافت کرتے۔جن ممتاز علماء کرام سے آ پ نے استفسار فرمایا۔ان میں مولانا حافظ عبداللہ روپڑیؒ۔مولانا احمداللہ دھلوہؒ۔مولانا محمد سعید شرف الدین دھلویؒ۔مولانا محمد زکریا حنفی سہارن پوریؒ۔مولانا عبدالجلیل سامروریؒ۔مولانا عبیداللہ ر حمانی مبارک پوری مدظلہ العالیٰ،مولانا محمد اسماعیل السفیؒ،اورمولانا حافظ محمد گوندلویؒ شامل ہیں۔
آپ کے تلمیذ رشید مولانا محمد عطاءاللہ حنیف ؒ آپ کی شخصیت کے متعلق لکھتے ہیں!
"شخصیت بارعب،اور وجیہ،بودوباش سادہ،لیکن نفیس،قناعت پسند فقر ودرویشی کامرقع،خاموش طبع ،خلوت گزین،دینی معاملات میں غیور،ارباب دولت سے نفور،ذوق خالص علمی اور تحقیقی حدیث اور اس سے متعلقہ علوم پر وسیع نظر فقہ الحدیث میں خاص ورک اور فقہی مسائل پرعبور کام اور اخلاق وعادات میں سلف حلف صالحین کا نمونہ تھے۔
وفات:2ربیع الاول 1382 ہجری (4اگست 1962ء) کو اوکاڑہ میں انتقال کیا۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ
شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل السلفیؒ کی ذات محتاج تعارف نہیں آپ کاشمار علمائے اہل حدیث کے سرخیل علماء میں ہوتا ہے۔آپ ایک شعلہ نوامقرر بلند پایہ خطیب ،بہترین مدرس،بہت بڑے سیاستدان محدث فقیہ مورخ اور ادیب تھے۔
1900ء میں موضع "دھونیکی" تحصیل وزیرآباد میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد مولوی محمد ابراہیم اپنے وقت کے مشہور خوشنویس تھے۔بہت عرصہ تک مولانا محمد حسین بٹالوی(م 1338ھ) کا رسالہ"اشاعۃ السبۃ" میں کتابت کرتے رہے۔"تحفۃ الاحوذی فی شرح جامع ترمذی"از مولانا عبدالرحمان مبارک پوریؒ کی کتابت بھی آپ نے کی تھی۔مولوی محمد ابراہیم نے 1940ء میں وفات پائی اور گوجرانوالہ میں مدفون ہوئے۔
مولانا محمد اسماعیل ؒ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد بزرگوار سے حاصل کی۔بعض ازاں مولانا عمر الدین وزیرآبادی اور مولوی تاج الدین سے بھی پڑھا۔اس کے بعد سنن نسائی مولانا عبدالقادر بن مولانا حافظ عبدالمنان محدث وزیر آبادیؒ سے پڑھی اوربقیہ کتب ستہ وتفسیر مولانا حافظ عبدالمنان صاحب محدث وزیر آبادی ؒ سے پڑھے۔آپ تقریباً 7 سال حضرت حافظ صاحب کے زیر تعلیم رہے۔
وزیرآباد میں تکمیل تعلیم کے بعد دہلی کا رخ کیا تو دہلی میں آپ نے مولانا عبدالجبار عمر پوری "مولانا عبدالوہاب دہلویؒ بانی جماعت غربا اہل حدیث ،مولانا عبدالرحمان ولایتی،سے تحصیل علم کے بعد واپس پنجاب آگئے۔اور شیخ پنجاب کی خدمت میں حاضر ہوکر دوبارہ تفسیر وحدیث کی سند حاصل کی۔
وزیر آباد میں قیام کے بعد دوبارہ دہلی مراجعت فرماہوئے۔انہی دنوں عالمی جنگ زوروں پرتھی۔دہلی میں حالات کافی حد تک خراب تھے۔مولانا مستقل طور پر اپنے سبق تو شروع نہ کر سکے۔تاہم مولانا حافظ عبداللہ غاذی پوریؒ کے درس قرآن میں برابر شریک ہوتے رہے۔اور ان سے پورا استفادہ کیا۔
اس کے بعد امر تسر تشریف لے آئے۔وہاں آپ نے مولانا محمد حسین ہزارویؒ جو مدرسہ تقویۃ الاسلام میں معانی وفقہ کے استادتھے۔ان سے تعلیم حاصل کی اور ساتھ مولانا مفتی محمد حسن امرتسریؒ۔تلمیذ خاص مولانا عبدالجبار غزنویؒ سے تعلیم حاصل کی۔
امرتسسر میں تکمیل تعلیم کے بعد سیالکوٹ پہنچے اور مولانا حافظ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی ؒ سے تکمیل تعلیم کی۔
تکمیل تعلیم کے بعد 1339ہجری میں شیخ الاسلام مولانا ثناءاللہ امرتسری ؒ اورمولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی ؒ کی تجویز پر گوجرانوالہ میں مسجد حاجی پورہ میں آپ کا تقرر ہوا۔تھوڑے ہی دنوں بعد مولانا علاء الدین خطیب جامع مسجد چوک نیا ئیں کا انتقال ہوگیا۔تو مولانا محمد اسماعیل ؒمسجد حاجی پورہ س مسجد چوک سے نیائیں میں منتقل ہوگئے۔اور یہاں آپ نے مدرسہ محمدیہ کی بنیاد رکھی اور درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا۔آپ کے ساتھ حضرت العلام حضرت حافظ محمد صاحب گوندلوی بطور نائب مدرس تھے۔اس مسجد میں آپ کاقیام تاوفات 1387ھ تک رہا۔اس دوران میں آپ سے بے شما ر حضرات نے استفادہ کیا۔اور ان میں بعض ایسے حضرات بھی شامل ہیں۔جو بعد میں نامورمصنف اور مسند تدریس کے مالک بنے۔مولانا محمد حنیف ندوی ممبر اسلامی مشاورتی کونسل حکومت پاکستان آپ کے خاص تلامذہ میں سے ہیں۔
درس وتدریس کے ساتھ ساتھ ملکی سیاست میں بھی حصہ لیتے رہے ۔تحریک استخلاص وطن"اور تحریک ختم نبوت" کے سلسلہ میں کئی بار جیل گئے۔
تصانیف:۔
آپ کی تصانیف کی تعداد 9 ہے۔جن کی تفصیل یہ ہے۔
1۔تحریک آزادی فکر اور حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کی تجدیدی مساعی:۔
یہ مولانا مرحوم کی معرکۃ الآراء تصنیف ہے۔عمل بالحدیث وردتقلید کے سلسلہ میں ہے۔ان کی زندگی میں بریلوی اور دیوبندی علماء کی طرف سے کئے گئے اعتراضات کا مکمل جواب ہے۔حنفی اور اہل حدیث کے درمیان جن فقہی واجتہادی مسائل کا اختلاف ہے۔ اور اس کا جو حل حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے پیش کیا ہے۔اس کو مولانا مرحوم نے اس کتاب میں پیش کیا ہے۔
2۔جماعت اسلامی کانظریہ حدیث(مولانا مودودی کے مسلک حدیث پر تنقید کے جواب میں)3۔اسلامی حکومت کا مختصر خاکہ۔
4۔امام بخاریؒ کا مسلک
5۔حدیث کامقام قرآن کی روشنی میں
6۔زیارۃ القبور
7۔مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم ادلہ شرعیہ کی روشنی میں مدیر"تجلی" دیو بند کے ایک مضمون کے جواب میں۔
8۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز۔
9۔ترجمہ مشکواۃ المصابیح(اردو) صرف ربع اول کاترجمہ کیا۔
جماعت اہل حدیث کی ترقی وترویج کےسلسلہ میں آپ کی خدمات جلیلہ:
جماعت اہل حدیث اور مسلک اہل حدیث کی ترقی وترویج میں آپ کی گرانقدر خدمات ہیں۔آپ شروع سے ہی"آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس" سے وابستہ ہوگئے۔اورمجلس قائمہ کےممبر منتخب ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد مولانا سید محمد داود غزنویؒ کو جماعت اہل حدیث کی تنظیم پر آپ ہی نے آمادہ کیا۔چنانچہ مولاناغزنوی ؒ مرحوم آپ کی خواہشات کااحترام کریں میدان میں آگئے۔چنانچہ مولانا غزنوی پہلے صدر مقرر ہوئے اور آپ ناظم اعلیٰ۔
16 سال تک آپ"جمیعت اہلحدیث" کےناظم اعلیٰ رہے۔اس دوران آپ نے جماعت کی ترقی وفلاح کے لئے بہت کام کیا۔"جامعہ سلفیہ" قائم کیا۔اور اس کے علاوہ بہت سے اہم امور بھی سرانجام دیئے۔1963ء میں مولانا داود غزنویؒ کے انتقال کے بعد آپ "جمعیت اہل حدیث" کے امیر مقرر ہوئے۔اور آپ تاوفات 1968ء امیر رہے۔
آپ کاقلم ہمیشہ مسلک اہل حدیث کی ترقی وترویج میں رواں دواں رہا۔جس کسی نے بھی کسی وقت حدیث،ائمہ حدیث،مسلک اہلحدیث یاجماعت اہل حدیث پرکوئی اعتراض کیا،آپ کاقلم فوراً حرکت میں آگیا۔اور آپ اس ٹھوس اور قوی دلائل سے جواب دیتے کہ مخالف دم بخود رہ جاتے۔اور انھیں دوبارہ لکھنے یا جواب دینے کی ہمت نہ پڑتی۔
مولانا محمد اسماعیل ؒ جملہ علوم وفنون کے جید عالم تھے۔عربی،فارسی،اوراردو کے بہترین ادیب تھے ۔جس طرح تقریر میں عربی،فارسی،اور اردو میں کامل عبور تھا۔اسی طرح عربی،فارسی اور اردو تحریرکے بھی بادشاہ تھے۔عالم باعمل شب زندہ دار اور سلف صالحین کانمونہ تھے۔
آپ اکابر علمائے اہلحدیث کی جملہ صفات کے حامل اور ایک مثالی شخصیت تھے۔ آپ مولانا حافظ عبداللہ غاذی پوری کا ورع،اورتقویٰ ،مولانا عبدالرحمان مبارک پوری ؒ کی تواضع،مولانا عبدالواحد غزنویؒ کا ذو ق قرآن فہمی،مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی کی انگریز دشمنی،مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ کا ذوق تالیف،مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹیؒ کاجوہرخطاب،مولانا عبدالوہاب دھلویؒ کا (لفظ مٹا ہواہے) سنت،مولانا محمد حسین بٹالویؒ کی وسعت علم، مولانا عبدالقادر قصوری کی متانت اور عمق فکر،مولانا حافظ عبداللہ امرتسریؒ روپڑی۔کا ملکہ افتاء مولانا عبدالجبار غزنویؒ کی محبت حدیث، مولانا شمس الحق ڈیانویؒ عظیم آبادی ؒ کا شوق کتب ،مولانا سیدمحمد نزیر حسینؒ دھلوی،کی تدریس حدیث،اور مولانا سید محمد داود غزنوی ؒ کی معاملہ فہمی اور وسعت قلبی ،یہ سب صفات ایک مولانا محمد اسماعیل ؒ میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔