مقبوضہ کشمیر....ماضی اور حال
اکثر دانشور اس دنیائے ہست وبود میں رونما ہونےوالے واقعات کو کسی نہ کسی سبب یا شخص سے ملحق کردیتے ہیں۔اور اپنی ہمہ دانی کے غرور میں وہ اس حقیقی مدبر الامور،احکم الحاکمین وحدہ لاشریک کے اختیار و تصور کو اپنے ذہن سے یکسر خارج کردیتے ہیں کہ ہر "سبب" اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔اور ہر شخص کی حیات وموت،عقل و ہوش اسی کے اختیار مطلق میں ہے جس کو خدائے عزوجل نے اپنے کلام میں مختلف انداز سے بیان فرمایا ارشاد ہے۔
﴿وَلِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ وَإِلَى اللَّـهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ﴿١٠٩﴾...آل عمران
"اور جو کچھ آسمانوں میں اور جوزمین میں ہے۔ اللہ ہی کا ہے اور تمام معاملات اللہ ہی کی طرف لوٹتے ہیں۔
(عربی)
"کہہ دیجئے!کہ تمام امور اللہ ہی کے اختیار میں ہیں۔"
ایک اور مقام پر اس معنی کو ان الفاظ کی صورت میں واضح فرمایاکہ:
(عربی)
"خبردار رہو کہ حکم اسی کا ہے۔اور وہ جلد حساب لینے والا ہے۔"
وہ صاحب علم وقلم جن کے علم وبصیرت کی بنیادی تربیت علم حقیقی قرآن وحدیث کے فیض سے مستفیض ہو۔وہ اپنے خیال وفکر کا اظہار کرتے وقت اس خالق کائنات کے لامتناہی اختیار واقتدار کومرکزی حیثیت دیئے بغیر رہ ہی نہیں سکتے۔انہیں اس کائنات میں ہرمحیر العقول واقعہ کے پس پردہ اسی کی قدرت کاملہ کارفرما نظر آتی ہے۔انھیں افغانستان میں نہتے مجاہدین کے ہاتھوں اپنے وقت کے تمام جنگی اسباب اور افرادی قوت سے مسلح روسی افواج کے تباہ وبرباد ہونے میں اسی کی شان حاکمیت دکھائی دیتی ہے۔آیئے اسی سب سے بڑی صداقت (حاکمیت الہیہ) کو راہنما بنا کر مقبوضہ کشمیر کے ماضی اورحال کاجائزہ لیں۔
تقسیم ہند سے پہلے:۔
ریاست کشمیر میں بسنے والے مسلمانوں پر انگریز کے مسلط کردہ راجہ ہری سنگھ نے کئی سالوں تک اپنے تمام اسباب قوت جبروتشدد اور قتل واستحصال کے حربے فقط اس لئے استعمال کئے کہ وہاں کے مسلمان یا تو اپنا دین اپنا اسلامی تشخص چھوڑ کر ہندوؤں میں گھل مل جائیں یا ریاست کشمیر سے کسی دوسری جگہ منتقل ہوجائیں۔لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تمام سازشوں کو ناکام بنایا اور مسلمانوں نے ان تمام جبروتشدد کے باوجود 1937ء میں "مسلم کانفرنس" منعقد کی اللہ تعالیٰ نے ان نہتے مسلمانوں کو ایمان واستقلال کی ایسی قوت بخشی کہ انھوں نے اس کانفرنس کے پرچم تلے انگریز اور ہندو فوج کوللکار کر کہا!
تیغوں کے سائے میں ہم پل کرجواں ہوئے ہیں
خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا
اور کشمیر کی وادیوں میں ہر طرف یہ آوازگونجنے لگی:۔
مال ودولت دنیا۔یہ رشتہ یہ پیوند بتان وہم وگمان لاالٰہ الا اللہ
پھر مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے بخشے ہوئے اسی جذبہ جہاد کا ثمر 14جولائی 1947ء میں منعقد ہونے والی "آل جموں وکشمیر" کانفرنس تھی۔جس میں کشمیری مسلمانوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرار داد منظور کرکے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا عملی ثبوت مہیا کردیا۔
(عربی)
"بلاشبہ لوگ اپنی چالیں چل رہے ہیں اور ہم اپنی تدبیر کررہے ہیں۔پس ان کافروں کو مہلت دو تھوڑی سی مہلت !
ہندو سازشوں کی یلغار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور کشمیری مسلمان
کسی ایک خطہ ارض پر ہی منحصر نہیں بلکہ عالمی سطح پر باطل قوتیں حق کے خلاف متحد ومربوط ہونے اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے میں ہروقت مستعد رہتی ہیں۔چنانچہ "مسلم کانفرنس" کے پرچم تلے مسلمانان کشمیر نے جس جذبہ ایمان واتحاد کا مظاہرہ کیاتھا ،اس سے نہ صرف ہندو راجہ ہری سنگھ اور انگریز پریشان ہوئے بلکہ اس وقت کی ہندوستانی سیاست کاسرغنہ آل انڈیا کانگریس کا کرتا دھرتا اور مہاتما گاندھی کادست راست "پنڈت جواہر لال نہرو" بھی خوفزدہ ہوکر راجہ ہری سنگھ کی امداد کو بڑھا۔اس نے کشمیر کے ہی ایک مشہور دانشور پنڈت پریم ناتھ کے ذریعے مسلم کانفرنس کے بنیادی کردار "شیخ عبداللہ"کو پھانسا۔دوستانہ روابط پیدا کئے۔اس کے دل ودماغ میں اسلام کی بجائے"کشمیری قوم پرستی" کا بیج بویا۔اسے یقین دلایا کہ انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعدآل اندیا کانگریس کا ہر ممبر نہ صرف کشمیری مسلمانوں کی آزاد ریاست کے قیام میں مدد دے گا بلکہ اس کی عنان حکومت بھی شیخ عبداللہ کودلانے میں ہرممکن کوشش کرے گا۔
اپنے وعدے کی یقین دہانی کے لئے پنڈت جواہر لال نہرو نے"آل اندیا کانفرنس" کے کئی ہندوممبروں سے تصدیق بھی کروادی۔خصوصاً ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور میاں افتخار الدین (جو اس وقت کانگریس میں تھے۔اس کے بعد کمیونسٹوں میں شامل ہوگئے)کوسایہ کی طرح اس کے ساتھ لگادیا گیا۔شیخ عبداللہ ہوس اقتدار کا شکار ہوگیا۔1937ءسے 1947ءتک ہندو ماڑ واڑیوں نے شیخ عبداللہ کے لئے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیئے۔اسے "شیر کشمیر" پھر"کشمیر گاندھی" کے القابات سے نواز کر ہندو پریس کے ذریعے"کشمیر کے ہیرو" کے طور پر مشہور کروانے کی مذموم کوششیں شروع کردی گئیں۔
مختصر یہ کہ برہمن جواہر لال نہر ہندو سیاست وحکومت کے راہنما دانشور "چانکیہ" کے بتائے ہوئے اصول واردات میں بظاہر کامیاب ہوگئے! جسے اس نے اپنی کتاب"ارتھ شاستر" میں اس طرح بیان کیا ہے۔
“When you want to kill your enemy,befrienden him ,when you are killing him embrace him and when you have killed him ,weep over hisdead body”
یعنی" جب تم اپنے دشمن کو مارنا چاہو تو اس کے ساتھ دوستی کرو۔پھر جب تم اسے مارنے لگو تو اسے گلے لگا کر مارو،جب قتل کرچکو تو اس کی لاش پر آنسو بہاؤ۔"
بظاہرجواہر لال نہرو کی جیت ہوئی۔اب کشمیر میں مسلمانوں کی سیاسی کانفرنسیں "مسلم کانفرنس" کی بجائے"نیشنل کانفرنس" کے پرچموں تلے ہونے لگیں اورپاکستان سے الحاق کی قرار داد کالعدم قرار دے دی گئی۔
پھر ان سازشوں کا آخری سیلاب 1947ء میں اس وقت کشمیر کی طرف بڑھا۔جب "ریڈ کلف ایوارڈ" کے ذریعہ پنجاب کے مسلم اکثریتی ضلع "گورداسپور" کو ہندوستان میں شامل کردیاگیا۔اور ریاست کشمیر سے مسلمانوں کو نیست ونابود کرنے کے لئے ہر ممکن حربے استعمال کیے جانے لگے جس کا تذکرہ ایک انگریز مصنف Alter Lamb اپنی کتاب Cricis in Kashmir میں ان الفاظ سے کرتا ہے کہ:
"قیام پاکستان کااعلان ہوتے ہی ہندو ڈوگرہ افواج اور ہندوستان سے بھیجے گئے ہندو اور سکھوں کے دھشت گرد قافلوں نے کشمیر میں داخل ہوکر وحشت وبربریت کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع کردیا۔صرف جموں وکشمیر اور اس کے گردونواح میں پانچ لاکھ کے لگ بھگ مسلمانوں کو نیست وبابود کردیاگیا۔
اس زمانے کے روز ناموں" سول اینڈ ملٹری گذٹ""ٹریبون" اور مغربی صحافیوں کیطرف سے شائع کردی آنکھوں دیکھی رپورٹوں کو پڑھیں۔تو آپ کے رونگٹے کھڑئے ہوجائیں۔ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والا یہ سلسلہ ایک دن دودن یا ہفتوں اور مہینوں تک ہی نہیں بلکہ سالہا سال تک جاری رہا۔اس کے بعد مسلمان کیا زندہ بچے ہوں گے۔یا ان میں اپنے آپ کو علی الاعلان مسلمان کہنے کی جرائت باقی رہ ہوگی؟ مادی اسباب پریقین رکھنے والے عقل گزیدہ یہی کہیں گے۔نہیں ۔ہرگز نہیں۔ایسا نہیں ہوسکتا۔ایسے حالات میں مسلمان زندہ رہ نہیں سکتے۔لیکن ایک ایسی قوت جو انسانی عقل وشعور کی رسائی سے بالاتر ہے،وہ ہمیشہ زندہ وپائندہ ہے اور جس کے فیصلے ناقابل تسخیر ہوتے ہیں۔اس کی قدرت نے تمام مظالم کے باوجود مسلمانوں کو وہاں قائم ودائم رکھا اور ان میں جذبہ اسلامی کو باقی رکھا۔
بطور ثبوت ایک سال کا عرصہ گزرتے ہی 1948ءمیں تمام دنیا نے دیکھا کہ ایک طرف ہندو ڈوگرہ افواج ہیں۔اسباب وافراد کی بہتات ہے۔دوسرے طرف سے بےسروسامان لٹے پٹے مسلمانوں کی معمولی سی تعداد خالی ہاتھ خالی پیٹ مگر جرائت ایمانی کا یہ عالم کہ وہ ان سے نبرد آزما ہوچکی ہے۔اور ان مجاہدوں کے حملوں سے ڈوگرہ افواج کے قدم اکھڑ گئے ہیں۔کچھ قبائلی مسلمان بھی ان کی امداد کو پہنچ چکے ہیں۔پھر دنیا نے دیکھا کہ بزدل راجہ ہری سنگھ ہندوستان کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی جھولی میں کشمیر ڈال کر اس سے فوجی امداد لینے پرمجبورہوگیا۔بات مذید بڑھی تو انہی نہتے اور بے سروسامان مجاہدین نے نہرو کو بھی اپنی ساکھ بچانے کے لئے اقوام متحدہ نے فریاد کرنے پرمجبور کردیا۔نتیجہ کے طور پر 21 اپریل 1948ء کو سلامتی کونسل نے ہندوستانی حکومت کو اس بات کا حکماً پا بند کردیا۔ کہ وہ کشمیر میں آزادانہ رائے شماری کے ذریعے کشمیری مسلمانوں کو پاکستان یا ہندوستان سے الحاق کرنے کافیصلہ کن موقع مہیاکرے۔
مگرشیطانی سازشوں نے دم نہیں توڑا یہاں تک بس نہیں کی بلکہ عالمی سطح پر پھیلی ہوئی اسلام دشمن قوتوں کاساتھ ہندو حکومت کو مذیدظلم پر آمادہ کرتا رہا۔اور سلامتی کونسل نے جب بھی ہندوستان کو کشمیر میں آزادانہ انتخاب پر مجبور کیا تو کالعدم روس نے "ویٹو" کے ذریعہ ہندوستان کی حمایت کی۔
اس عرصے میں جبروتشدد کے ساتھ ساتھ۔پوری وادی کشمیر میں جن سازشوں کا جال پھیلا گیا گیا ان کانقشہ کچھ یوں ہے۔
1۔ریاست کشمیر میں مسلمانوں کے دل ودماغ سے اللہ جل شانہ اور ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ کشمیری قوم پرستی قبائلی گروہی عصبیت کےمربوط اور منظم طریقہ سے بیج بوئے جانے لگے۔
2۔تمام ریاست میں علمی اداروں میں فلسفہ وحدت ادیان(رام اوررحیم ایک ہیں) اور متحدہ قومیت کے نظریات کو پروان چڑھایا گیا۔
3۔دین اسلام کی تعلیم وتدریس کے اداروں کو مالی مشکلات میں مبتلا کردیا گیا۔مبلغین اور معلمین اسلام میں سر کردہ افراد پر طرح طرح کے جھوٹے مقدمات دائر کرکے جیلوں میں ڈال دیاگیا۔
4۔شراب خانے عام کردیئے گئے ! اخلاق باختہ عورتوں کو جانی بوجھی سازش کے ساتھ کشمیر میں داخل کردیاگیا۔
5۔ہندوؤں کے اس نظریہ کہ "موسیقی جزوعبادت ہے" کو ذرائع ابلاغ کے ذریعے پروان چڑھانے کی مذموم سازش کی گئی۔
6۔نیشنلزم،سیکولرازم،اورکمیونزم کو دنیا میں قیام امن کا ذریعہ ثابت کرنے کےلئے نام نہاد ثقافتی علمی اور تہذیبی کوششیں کی گئیں۔
7۔کشمیری دوشیزاؤں میں فلمی شہرت اور ہوس دولت پیدا کرنے کے لئے فلمی یونٹ شوٹنگ کے لئے ریاست میں بھیجے جانےلگے۔
غرض بظاہر کوئی ایسی سازش کوئی ایسا سبب اور کوئی ایسا ذریعہ نہیں جسے ہندو دماغوں نے ریاست کشمیر کے مسلمانوں کے اسلامی تشخص کو چھوڑنے پر آمادہ کرنے کے لئے استعمال نہ کیاہو۔حد یہ ہے کہ خود ہندو لیڈروں کواپنی منظم سازشوں افراط اسباب اور اپنے افراد کی کامیابیوں پر اتنا یقین ہے۔کہ حال ہی میں اندرا گاندھی کے بیتے راجیو گاندھی کوپاکستان کی سر زمین پر اس وقت کی وزیراعظم کے سامنے سینہ تان کراکڑی ہوئی گردن کے ساتھ یہ کہنے کی جرائت ہوئی کہ "کشمیر میں انتخاب کیسا؟کشمیر میں متعدد بار انتخاب ہوچکے ہیں اور کشمیریوں نے ہر بار دنیا کو ہندوستان ہی سے الحاق کا فیصلہ سنایا ہے"
راجیو گاندھی کو یہ جرات کیونکر ہوئی؟
ظاہر ہے ہندوستانی فرمان رواؤں کے پاس اپنی صلاحیتوں سے حاصل کردہ مادی قوت ہے 1947ء سے لے کرآج تک کالعدم سوویت یونین سے حاصل کردہ بری ۔بحری فضائی سائنسی اور ایٹمی اعانت ہے۔
اس کےعلاوہ اس جرائت کی آبیاری میں ہمارا اپنا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔روشن خیال اور ترقی پسند کہلانے کے شوق میں ہمارے ایک طبقہ نے ہندوستانی ثقافت کو ایسا گلے لگایا ہے کہ اپنےناموں میں بھی مماثلت سے گریز نہیں کیا۔
ہندوستانی ثقافت سےہماری مرعوبیت کا یہ عالم ہے کہ تقسیم ہند سے پہلے اس خطہ کو (جسے آجکل "بھارت" کہا جاتاہے) ہندوستان یعنی ہندو کے رہنے کی جگہ کہا اور لکھا جاتا تھا۔اس کی مخصوص جغرافیائی حدود متعین تھیں۔ہندودانشوروں نے قیام پاکستان کے بعد اس خطہ کووہ نام دے دیا۔جو برہمن راج کے دور میں استعمال ہوتاتھا۔ اور اس کی جغرافیائی وسعتیں افغانستان سے ایران اور پھر پورے برصغیر پر محیط تھیں۔ہمارے مرعوب ذہنوں نے بلا چون وچرا اس کو قبول کر لیا اور آج ہمارے شاعر،ادیب اور صحافی سب کے سب "بھارت"(الفاظ مٹے ہوئے ہیں)
ہندوستانی حکمرانوں کااس جرائت کو مدد دینے میں ہم پاکستانیوں کا بھارتی تہذیب وثقافت کی طرف خطرناک حد تک جھکاؤ بھی ہے چنانچہ ہماری نوجوان نسل بھارتی گلوکاروں اوراداکاروں کو اپنا آئیڈیل قرار دیتی ہے۔ہندوؤں ہی کے اطوار اپنانا اپنے لئے باعث فخر تصور کرتی ہے۔اپنی حکومت کے استحکام کے لئے ہندوفرمان رواؤں نے کشمیر میں جتنی سازشیں پھیلائیں جتنے اسباب استعمال کئے اس کےنتائج کی جھلکیاں تو آنے والی سطور میں پیش ہوں گی البتہ پاکستان میں بھی سیکولر اورلادینی نظام حکومت کےقیام کے لئےجتنی سازشیں ہورہی ہیں وہ بھی آپ کی نظروں سے اوجھل نہیں۔
راجیو گاندھی نے جب یہ دیکھا کہ جوکچھ ہمارا مقصد ہے اس کو پاکستان میں پزیرائی حاصل ہے ۔جوان قیادت اور جوان معاشرہ ہمارے اطوار کا دلدادہ ہے۔ ہمارے اداکاروں کاپرستا ر ہے۔ تو پھر کشمیر پر ہمارا اتنی مدت سے مکمل قبضہ ہے۔حکمرانی ہے اور کشمیر کے چپے چپے پر ہم نے بارودی سرنگیں بچھا دی ہیں۔کس کی مجال ہے کہ ہم غاصبوں سے کشمیر حاصل کرسکے۔
اللہ تعالیٰ کی تدابیر ہی سب پر غالب ہیں:۔
انسان اپنے ذرائع اور اسباب کی روشنی میں اپنی کامیابی اور ناکامی سوچنے پرمجبور ہے۔لیکن اللہ عزوجل کے فیصلے نہ اسباب کے محتاج ہیں نہ ہی ذرائع کے ضرورت مند!قرائن وشواہد سے ثابت ہوتاہے کہ ہندوؤں کے تمام اسباب اور تمام سازشیں ناکام ہوگئیں۔اور اللہ تعالیٰ ہی کی تدابیر غالب آچکی ہیں۔1989ء میں خودراجیو گاندھی نے اپنی آنکھوں سے دیکھا وہاں کے مسلمانوں نے سب قحبہ خانے بند کروادیئے اورشراب خانے تباہ کرادیئے گئے۔عورتوں نے بغیر پردہ کے گھر سے نکلنا قطعاً بند کردیا۔اور مسلمانوں میں اللہ تعالیٰ نے چند ایک نہیں بلکہ بائیس سے زیادہ ایسی جماعتیں قائم کردی ہیں۔جو اپنی ذات اپنے وجود اور اپنے عیش وآرام کے لئے نہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین اسلام کی بقا کے لئے کفن بردوش میدان جہاد میں اتر آئی ہیں۔گویا 1947ء سے لے کر آج تک ہندوؤں کی مسلمانوں کو ختم کرنے کی جتنی کوششیں تھیں اللہ نے سب ناکام بنادیں۔آج ان جماعتوں میں ایسے لوگ شامل ہیں۔جن کا تعارف اللہ تعالیٰ اپنے قرآن حکیم میں یوں فرماتے ہیں:۔
(عربی)
"اہل ایمان وہ لوگ ہیں۔کہ جب لوگوں نے ان سے کہا کہ لوگ تمہارے خلاف جمع ہوچکے ہیں۔لہذا تم ان سے ڈر جاؤ۔تو اس سے ان کا ایمان مذید بڑھا۔اور وہ پکار اٹھے"ہمارے لئے تواللہ کافی ہے۔اور وہ بہترین کار ساز ہے۔"
اب دیکھ لیجیے ایک طرف تو سنگینیں ،برچھیاں،نیزے،کلاشنکوف،میزائل اور جدید مہلک ہتھیارات سے مسلح ہندو افواج ہیں۔اور دوسری طرف وہ جماعتیں ہیں جن کے پاس اسباب ہیں نہ افرادی قوت ان کے پاس فقط جذبہ جہاد ہے۔اوراپنے اللہ پر ایمان!
اس وقت وادی کشمیر میں بیس کے لگ بھگ ایسی تنظیمیں ہیں جو اسی کاز کے لئے دن رات جدوجہد میں مصروف ہیں۔نمایاں اہمیت کی حامل جماعتیں یہ ہیں۔
1۔مسلم کانفرنس۔2۔جمعیت اہل حدیث۔3۔تحریک نفاذ شریعت۔4۔اسلامک سٹڈی سرکل۔5۔جماعت اسلامی(جموں وکشمیر) 6۔جماعت المجاہدین وغیرہ۔
علاوہ ازیں لا تعداد ایسے مجاہدین ہیں جو اس مقصد کے لئے انفرادی اور اجتماعی طور پر دن رات میدان عمل میں مصروف ہیں۔ہندوؤں کی سازشوں کی دھجیاں بکھیرنے کےلئے اللہ تعالیٰ نے ایسے جرات ایمانی سے نوازا ہے۔کہ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ ان کے تذکروں کو نمایاں مقام دینے پر مجبور ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو نیست ونابود کرنے والی سازشوں میں ہندوؤں نے جن سکھوں کااستعمال کیا تھا آج انہی سکھوں کےہاتھوں ہندوؤں کا قتل ہورہا ہے۔ صحیح ہے کہ:۔
(عربی)
ان شواہد کا تذکرہ مسلمانوں کے ضمیر کو آواز دے رہا ہے کہ روشن خیالی اور جدیدیت کے جنون میں یہ مت بھولو کہ آخر کار حق ہی غالب ہے۔ہم سب کو سوچناچاہیے کہ کہیں ہم آیات الٰہیہ کی تکذیب کاارتکاب تو نہیں کررہے اور کہیں ہم ان لوگوں میں سے تو نہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس طرح تذکرہ فرمایا ہے۔
(عربی)
"وہ لوگ جنھوں نے ہماری آیات کو جھٹلادیا ہے توا نہیں ہم بتدریج (ایسےطریقے سے) تباہی کی طرف لے جائیں گے کہ انہیں خبر تک نہ ہوگی۔اور میں ان کو ڈھیل دے رہا ہوں۔اور میری تدبیر کا کوئی توڑنہیں۔"
موجودہ صورت حال:۔
ہندوؤں کی طرف سے سب سے خطرناک سازش جو اس وقت بروئے کار لائی جارہی ہے وہ مجاہدین کشمیر میں پھوٹ ڈالنے کے لئے ان کی صفوں میں ہندوستانی ایجنٹوں کی شمولیت ہے مثال کے طور پر عبدالغنی لون کی سازش! جس نے اپنی سیاست کاآغاز NO GOD Fedration کے نام کی ملحدانہ تنظیم کے قیام سے کیا تھا۔اور اب تک وہ "نیشنل کانگریس" کانگریس اور جنتا پارٹی جیسی ہندو نواز جماعتوں میں شامل رہ چکا ہے۔اب اسلامی قوتوں میں دراڑیں پیدا کرنے کی سازشوں میں مصروف ہے۔
اس کی بیٹی شبنم لون اس مقصد کے لئے صبح وشام مختلف لوگوں کو اپناآلہ کار بنانے میں مصروف ہے۔اسی لئے "کشمیر لبریشن فرنٹ" جو عبدالغنی لون کی سرپرستی میں سرگرم عمل ہے۔کو ہندوستانی پریس بہت بڑی عسکری تنظیم کے طور پر پیش کررہا ہے۔ اس طرح ان کی سازش کامقصد یہ ہے کہ کسی طرح اسلام پسند جماعتوں کی جگہ ہماری لیڈر شب کامیاب ہوسکے۔اور عالمی دباؤ کے تحت اگر ہمیں اٹوٹ انگ کا نعرہ واپس بھی لینا پڑے تو بھی کشمیر کی باگ دوڑ ہمارے کٹھ پتلی ہاتھوں میں ہی رہے۔ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ دشمنوں کی اس سازش سے بھی ہمیں محفوظ فرمائیں گے۔ اللہ ایسے لوگوں کا حشر بھی شیخ عبداللہ کی طرح کرے گا۔(ان شاء اللہ) جسے قوم سے غداری اور کشمیری قوم پرستی کے بدلے میں اپنا مقصد پورا ہونے کے بعد نہر و نے 12 سال تک جیل میں قید کئے رکھا۔اور پھر زندگی کے آخری سالوں میں ا س کی بیٹی "اندرا" نے اپنی شرائط پر اسے رہا کیا۔
سیکولر پریس کی ایک اور سازش دیکھئے کہ اس نے کشمیری مسلمانوں کی ان کوششوں کو جو وہ برہمن سامراج سے آزادی کے لئے کررہے ہیں کو جہاد کانام دینے کی بجائے"حریت پسندی" کا نام دیا ہے۔ اورآج ہمارے ذرائع ابلاغ انہیں حریت پسند کا نام دے رہے ہیں۔حالانکہ" جہاد اورمجاہدین ایسی اصطلاحیں ہیں کہ جن سے اسلام کاعظیم الشان ماضی وابستہ ہے۔جہاد کا لفظ سنتے ہی ہر مسلمان قلبی طور پر اپنے مجاہد بھائی کی ہر طرح سے مدد پرآمادہ ہوجاتاہے۔ہمیں ان مذموم ہندوانہ سازشوں کی بیخ کنی کے لئے جہاد اور مجاہدین ہی کی اصطلاحات کو اپنے قومی اور بین الاقوامی پریس میں رائج کرنا چاہیے اور اپنی تقاریر اورتحریروں میں "حریت پسند" کانام ترک کردینا چاہیے۔
زندگی کے ہر مرحلے میں ہماری کامیابی کا سو فیصدانحصار صرف اس قیادت پر ہے جو "اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حامل ہو۔ یعنی جس میں اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی اوصاف کا تواتر نظر آئے۔متبع الرسول صلی اللہ علیہ وسلم قیادت میں سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس کا ہر قدم صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اٹھتا ہے۔ اور وہ اپنی ذاتی خوشیوں،ارمانوں،اور ہوس اقتدار کے جذبوں کو فرامین الٰہی کا تابع کرچکا ہوتاہے۔اپنی ذات کی نفی کرچکا ہوتاہے۔
(عربی)
جس کے نتیجہ میں نصرت الٰہی اس کی پشت پناہی کرتی ہے کامرانی اس کے قدم چومتی ہے۔ارشاد ربانی ہے:۔
(عربی)
ترجمہ:۔مومنوں کی بات تو یہ ہے کہ جب اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم )کے طرف بلائے جاتے ہیں۔ تاکہ وہ ان میں فیصلہ کریں تو کہیں۔ہم نے(حکم) سن لیا اور مان لیا اوریہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی فرمانبرداری کرے گا اور اسی سے ڈرے گا تو ایسے ہی لوگوں کو کامیابی حاصل ہوتی ہے۔"
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بھی ہم سے اس بات کے متقاضی ہیں۔احادیث نے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والوں کو نجات وفلاح کی خوشخبری سنائی ہے۔وہاں راہ فرار اختیار کرنے والوں کو خبردار کیا ہے۔کہ باری تعالیٰ کہ ذات وہ حکمران نہیں جس کی گرفت سے ہم بچ سکتے ہیں۔یا جس کی نگاہ سے ہم اوجھل ہوسکتے ہیں۔اس فرار سے ہمیں ذات اوررسوائی اور آخرت کے عذاب کے سوا کچھ نہ ملے گا۔
امان اللہ کی قیادت:۔
امان اللہ کی قیادت نے کچھ لوگوں کے دلوں میں پاکستان کے خلاف جو آگ بھڑکائی ہے۔ وہ اس بات کی گواہ ہے کہ وہ مجاہد نہیں۔حریت پسند ہے وہ آزادی چاہتاہے۔بالکل اسی طرح جس طرح ہوس اقتدار کےجھانسے میں شیخ عبداللہ نے کشمیر کی آزادی چاہی تھی مگر اس وقت جب کہ اتحاد بین المسلمین پر بڑا زور دیا جارہا ہے ہر رسالہ ہراخبار کا اداریہ اس کی اہمیت بیان کررہا ہے۔ایسے وقت میں امان اللہ کانعرہ "آزاد کشمیر" اور پاکستان سے الگ تھلگ کشمیر لادین نیشنلزم کے سوا کچھ بھی نہیں۔
چنانچہ امان اللہ کے کنٹرول لائن توڑنے کے فیصلہ پر پاکستان کا موقر روزنامہ "نوائے وقت" اپنی 18 فروری کی اشاعت کے اداریہ میں لکھتاہے۔
"مسئلہ کشمیر نے 11 فروری کو جے کے ایل ایف کے راہنما مسٹر امان اللہ خاں کی اپیل پر کنڑول لائن توڑنے کے اقدام سے نیا رخ اختیار کرلیا ہے۔جس سے کشمیری عوام کی جدوجہد نیا رخ اختیار کرسکتی ہے۔ جو نہ صرف کشمیریوں کےلئے بلکہ پاکستان کے لئے بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتاہے۔"
پاکستان نے نہ چاہتے ہوئے بھی کنٹرول لائن کی طرف مارچ کرنے والوں کو روکنے کے لئے جو کاروائی کی۔اس کے لئے امان اللہ اور اس کے ہمنواؤں کو یہ کہنے کا موقع ملا ہے کہ کشمیریوں کے لئے بھارت اور پاکستان دونوں برابر ہیں۔اس لئے انہیں خود مختاری کا حق دیاجائے۔"
امان اللہ خاں کے یہ جملے بتارہے ہیں۔ کہ کنٹرول لائن کراس کرنے کے دو ہی نتیجے ہوسکتے ہیں۔ایک تو ہندوستان کے ہاتھوں ایک ہی وقت میں ہزاروں کی تعداد میں جذبانی مسلمانوں کو گولیوں کانشانہ بنوادے۔اورخود گرفتار ہوکرزندہ بچ جائے۔اور پھر ہندوؤں سے انعام واکرام حاصل کرسکے۔
دوسری صورت وہ موجود پاکستانی حکومت کے خلاف یہ تاثر دینے کی دلیل مہیا کرسکے کہ اسے کشمیر کے مسلمانوں کے آزادی سے کوئی دلچسپی نہیں۔لیکن امان اللہ یہ بھول گئے کہ اس جیسے دنیا کے لالچی منصوبے بناتے ہی رہتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ انہیں ناکام کردیتی ہے ۔اللہ تعالیٰ صرف ان نیک بندوں کے منصوبوں کو افغان مجاہدین کی طرح کامیاب فرماتے ہیں جو صرف اس کے حکم کے تابع منصوبے بناتے ہیں۔اور اسی کے حکم کے مطابق ہماری قومی بقا کا انحصار صرف ایک اصول پر ہے جیسے اپنائے بغیر ہم کامیابی کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ارشاد ہے۔
(عربی)
"اللہ کی رسی مضبوطی سے پکڑے رہو اور گروہ گروہ نہ بن جاؤ"
جب تک ہم اللہ کے احکامات پر سختی سے کاربند نہیں ہوتے۔کامیابی محال ہے اس کے ساتھ ساتھ اپنے اتحاد کو مضبوط بنانا بھی لازمی ہے۔"اطاعت الٰہی اوراتحاد" وہ مسلمہ اصول ہے جس سے زندگی کی تمام مشکلوں کو حل کیاجاسکتاہے۔وما علینا الا البلاغ۔