شرک کی بنیاد"ایک متنازع روایت"
روایت ہے کہ امام بخاریؒ اس بات کے قائل ہیں کہ جب کسی کا پیر سن ہوجائے تو یا "محمد" صلی اللہ علیہ وسلم کہے تو اس کا پاؤں درست ہوجائے گا۔
الفاظ یہ ہیں:۔
(باب ما يقول الرجل إذا أخدرت رجله)
یعنی باب ہے کہ آدمی پاؤں سن ہوجائے تو کیا کہے؟حضرت عبدالرحمٰن بن سعد بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پاؤں سن ہوگیا۔تو ایک شخص نے ان سے کہا جو آدمی آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہو اس کا نام لیجئے انہوں نے کہا"یا محمد" صلی اللہ علیہ وسلم(اردو ترجمہ ادب المفرد ص281۔اردو ترجمہ نفیس اکیڈمی کراچی)۔۔۔ادب المفرد کے دوسرے نسخے میں حرف ندا"یا" مذکور نہیں ہے۔یعنی صرف "محمد" صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔(الدین الخالص صفحہ 160 جلد نمبر 3)
اول تو بلاشبہ سنداً یہ روایت ضعیف ہے کیوں کہ اس کی سند میں ابواسحاق السبیعی ؒ اورسفیان ثوریؒ مدلس راوی موجود ہیں۔اور محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ مدلس راوی جب"عن" سے روایت کرے گا تو اس کی روایت ضعیف ہوگی۔کیوں کہ مدلس کا عن سے ر وایت کرتا علت قادحہ ہے ،۔تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں جناب زبیر علی زئی صاحب کا مضمون "تین روایات کی تحقیق"(ہفت روزہ الاعتصام لاہور 8 نومبر 1991ء)
ضعیف ہونے کے باوجود بھی اس روایت کا وہ مفہوم نہیں ہے جو سمجھا گیا ہے کیونکہ اس روایت میں "محمد" صلی اللہ علیہ وسلم پکارنے اور مدد طلب کرنے کے لئے استعمال نہیں ہوا ہے۔بلکہ یاد کرنے کے لئے استعمال ہوا ہے۔جیسا کہ اس حدیث کے الفاظ بتاتے ہیں۔(عربی) یعنی جو شخص سے تم سب سے زیادہ محبت کرتے ہو اسے یاد کرو۔اور یہ ایک نفسیاتی علاج ہے کیوں کہ پاؤں کا سن ہونا خون کی گردش رکنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔اور انسان کو جو شخص محبوب ہواس کا ذکر آتے ہی خون کی گردش تیز ہوجاتی ہے۔ اور اس طرح پاؤں کا سن ہونا ختم ہوجاتا ہے۔تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں جناب حافظ صلاح الدین یوسف صاحب حفظہ اللہ کا مضمون"ندا لغیر اللہ شرک وبدعت یا نہیں"؟(3۔ربیع الاول 1412ہجری ص13۔14) چنانچہ مولانا روم نے بھی اپنی مثنوی میں ایک واقعہ اس کی تائید میں اس طرح بیان کیا ہے۔کہ شہزادہ جس حکماء نے لاعلاج بیمار قرار دے دیا تھا۔ اور کسی حکیم کو اس کی بیماری کا اصل سبب دریافت نہیں ہورہاتھا۔بادشاہ نے انتہائی تلاش کے بعد ایک حکیم کو بلوا کر شہزادے کا علاج کروانا چاہا تو حکیم شہزادے کی نبض پر ہاتھ رکھ کر مختلف لڑکیوں کے نام لینا شروع کردیے ٹھیک اس وقت جب اس لڑکی کا نام لیا گیا جس سے وہ محبت کرتا تھا تو گردش خون تیز ہونے کی وجہ سے اس کی نبض تیز ہوگئی ۔اس طرح حکیم نے شہزادے کی مرض کا اصل سبب معلوم کرکے بادشاہ کو بتادیا۔
یہ واقعہ اس بات کی ٹھوس دلیل ہے کہ اس روایت میں "ندا" کے بعد اپنی سب سے زیادہ محبوب شخصیت کو ہی یاد کرنا ہے۔"یا" کا اضافہ بے معنی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مصائب ومشکلات میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی نبی یا ولی کو مدد کے لئے پکارنا اور یہ سمجھنا کہ وہ ہماری مشکلات یا بیماری کو ددر کرنے پہ قادر ہے۔بلاشبہ یہ فعل شرک ہے اور اس کامرتکب ۔یقیناً مشرک ہے۔جس کی بخشش ناممکن ہے۔اللہ تعالیٰ کا دو ٹوک فیصلہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مدد کر ہی نہیں سکتا:۔
قرآن حکیم میں ایک جگہ نہیں۔ایک اسلوب میں ہی نہیں۔بلکہ مختلف مقامات اور الگ الگ اسلوب میں انسان کو یہ بات سمجھائی ہے کہ اللہ کے سوا تمہاری مدد کوئی نہیں کرسکتا ہے۔
ایک جگہ ارشاد ہے(عربی) (آل عمران:126۔الانفال :10) اور نہیں ہے مدد صرف اللہ کی طرف سے"نماز میں اللہ تعالیٰ سے اقرار کرتے ہیں:
(عربی)
"ا ے اللہ ! ہم "صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور خاص تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں۔"
اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:۔
(عربی)
قرآن کریم سے ثابت ہے کہ تمام انبیاءؑ نے بھی ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے ہی مدد طلب کی۔(الانبیاء:90) جناب آ دمؑ غلطی سرزد ہونے کے بعد،جناب نوحؑ نے ساڑھے نوسو سال تبلیغ کرنے کے بعد،جناب یونس علیہ السلام نے مچھلی کے پیٹ میں سے،جناب ایوب علیہ السلام نے سخت بیماری میں،جناب ابراہیم ؑ اورجناب ذکریا ؑ نے اولاد کی آرزو میں اللہ تعالیٰ کو پکارا اور اس سے مد طلب کی۔حقیقت یہ ہے کہ یہ انبیاءکرام علیہ السلام بھی اللہ ہی کے محتاج اور اس کے در کے فقیر ہیں۔
(عربی)
"اے لوگو! تم سب اللہ تعالیٰ کے محتاج ہو اور اللہ تو بے نیاز اور تمام خوبیوں والا ہے۔"
اور اللہ کے آخری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہر موقع پر اللہ ہی سے مدد طلب کی چنانچہ غزوہ بدر کے موقع پر اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی عاجزی کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر اللہ سےدعا مانگی تھی اور اس میں یہ بھی کہا تھا کہ"اے اللہ ! اگر آج یہ تیرے نام لیوادنیا سے مٹ گئے تو پھر تیرانام لینے والا دنیا میں کوئی باقی نہیں رہے گا۔اور یہ بھی فرمایا"اے اللہ ! تو نے جو مدد کا وعدہ فرمایا ہے۔اسے پورا فرما۔"(صحیح مسلم کتاب الجہاد) اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:۔
(عربی)
"اور اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے پروردگار سے فریاد کررہے تھے اور اللہ تعالیٰ نے تمہاری دعاؤں کو قبول فرمایا اور فرمایا کہ میں تمہاری مدد کے لئے پے درپے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں۔یہ بات تمھیں اللہ نے صرف اس لئے بتادی کہ تمھیں خوشخبری ہو۔اورتمہارے دل اس سے مطمئن ہوجائیں۔ورنہ مدد تو جب بھی ہوتی ہے اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے یقیناً اللہ زبردست اور دانا ہے۔"
(عربی)
"اورتحقیق اللہ جنگ بدر میں بھی تمہاری مدد کرچکا ہے حالانکہ تم اس و قت بہت کمزورتھے۔لہذا تم کو چاہیے کہ اللہ کی ناشکری سے بچو،امید ہے کہ اب تم شکر گزار بنو گے۔یادکرو جب تم(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) مومنوں سے کہہ رہے تھے کیا تمہارے لئے یہ بات کافی نہیں کہ اللہ تعالیٰ تین ہزارفرشتے اتار کرتمہاری مدد کرے؟بے شک اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کروتو جس آن دشمن تمہارے اوپرچڑھ کر آئیں گے۔اسی آن تمہارا رب(تین ہزار نہیں) پانچ ہزار صاحب نشان فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا۔یہ بات اللہ نے تمھیں اس لئے بتادی ہے کہ تم خوش ہوجاؤ اور تمہارے دل مطمئن ہوجائیں۔فتح ونصرت جو کچھ ہے۔اللہ کی طرف سے ہے۔جو بڑی طاقت والا اور دانا وبینا ہے۔"ایک اور مقام پرارشاد ہے۔
دوسرے مقام پر ارشاد ہے۔
(عربی)
"اللہ اس سے پہلے بہت سے مواقع پر تمہاری مدد کرچکا ہے۔اور غزوہ حنین کے موقع پر بھی(تمہاری مدد کی تھی)"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری حج کے موقع پر صفا پہاڑ پر چڑھ کر اور بیت اللہ کی طرف دیکھ کر اللہ کی وحدانیت بیان کی اور یہ الفاظ بھی ارشاد فرمائے۔
(عربی)
"اللہ نے اپنا وعدہ پورا کردیا اور اپنے بندے (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مدد فرمائی اور اس اکیلے اللہ نے کافروں کے لشکروں کوشکست دی۔"اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی ہمیشہ اللہ ہی سے مدد مانگا کرتے تھے اگر وہ خود مدد کرنے پرقادر ہوتے یا مدد کرنا ان کے اختیار میں ہوتا تو پھر انہیں اللہ سے مدد طلب کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدد کرنے کا اختیار نہیں رکھتے:۔
جیسا کہ ہم نے واضح کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود اللہ تعالیٰ سے مدد مانگا کرتے تھے۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔
(عربی)
"اے نبی کہو کہ"میں تو صرف اپنے رب کو پکارتا ہوں۔ اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔" اور اس کے ساتھ ہی یہ بات واضح کردی گئی ہے۔
(عربی)
"کہو"میں تم لوگوں کے لئے نہ کسی نقصان کا اختیار رکھتاہوں نہ کسی بھلائی کا۔"کہو "مجھے اللہ کی گرفت سے کوئی نہیں بچا سکتا اور نہ میں اس کے دامن کے سواکوئی جائے پناہ پاسکتا ہوں۔"اور دوسرے مقام پرارشاد ہے:
(عربی)
"(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) ان سے کہو کہ" میں اپنی ذات کے لئے بھی کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا۔اللہ جو کچھ چاہتا ہے وہ ہوتاہے۔"
ان آیات سے ثابت ہواکہ اپنا یا دوسروں کے نفع ونقصان کا اختیار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار میں نہیں ہے۔جناب ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں۔ کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال ِ غنیمت میں خیانت کا ذکر کیا اور اسے بڑا بھاری گناہ اور بڑا جرم قرار دے کر فرمایا کہ قیامت کے دن میں کسی کو ایسی حالت میں نہ پاؤں کہ اس کی گرد ن پر ممیاتی ہوئی بکری(مال غنیمت سے چوری کی ہوئی) سوار ہو یا اس کی گردن پر گھوڑا بیٹھا ہوا ہنہنا رہا ہو اور وہ(مجھے دیکھ کر) پکارے۔
(عربی)
"میں تیری مدد کرنے کا ذرہ اختیار بھی نہیں رکھتا۔میں تجھے تبلیغ کرچکا تھا۔" ظاھر بات ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد طلب کرنے والے کوئی کافر ومشرک نہ ہوں گے۔بلکہ گناہ گار مسلمان ہوں گے۔لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان کی مدد کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔معلوم ہوا کہ مدد کرنا صرف اللہ کی صفت ہے۔وہی اپنے بندوں کی مشکل کشائی،دستگیری،اور مدد فرماتا ہے۔اور اس کے علاوہ کائنات میں کوئی بھی مشکل کشا ،مددگار ،دستگیر اور فریاد رس نہیں۔اس حدیث نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد مانگنے کی تمام راہیں مسدود کردی ہیں۔البتہ جو نا مانے تو اس کے دلائل کے انبار بھی بیکار ہیں۔
یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پکارنے والے گستاخ رسول ؐ ہیں:۔
یہ حقیقت ہے کہ ماتحت الاسباب کسی سے بھی مدد مانگی جاسکتی ہے۔اور اس طرح کی مدد دنیا میں ہر انسان دوسرے انسان سے مانگتا دیکھائی دیتا ہے۔مثلاً کسی سے پانی مانگنا۔کسی سے کھانا طلب کرنا۔اور اس مدد مانگنے کو آج تک کسی نے بھی شرک قرار نہیں دیا۔بلکہ اس طرح کی مدد،امداد مانگنا جائز ہے۔لیکن مافوق الاسباب کہ ظاہر میں کوئی سبب موجود نہ ہو تو ایسی مدد اللہ کے علاوہ کسی اور سے نہیں مانگی جاسکتی۔اوراگر اس نظریے کے تحت مدد کے لئے یا محمد ؐ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) پکارا جائے تو یہ شرک ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بے حد احترام کیا کرتے تھے اور انہیں کبھی بھی نام لے کر نہ پکاراکرتے تھے۔بلکہ احادیث سے ثابت ہے کہ یہودی یا منافق بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو"یا محمد ؐ" کہ کربلا یا یا پکارا نہیں کرتے تھے اور ایک یہودی کو تو ایک صحابی جناب ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یا محمدؐ کہہ کر پکارنے کی وجہ سے زور سے دھکا دے دیا تھا۔(صحیح مسلم ،کتاب الحیض)
اور جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یا محمدؐ" کہہ کر بلایا کرتے تھے ان کی مذمت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔
(عربی)
"بے شک جو لوگ آپؐ کو حجروں کے باہر سے(یا محمد کہہ کر) پکارتے ہیں ان میں سے اکثر بے عقل ہیں"۔جناب اقرع بن حابس تمیمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں۔
(عربی)
ترجمہ"انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (حجروں کے باہر سے) پکارا،پس کہا"یا محمد "یا محمد" اور ایک روایت میں ہے "یا رسول اللہ" بس آپ نے اسے کوئی جواب نہ دیا تو اس نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ؐ،میرا تعریف کرنا زینت ہے۔اور میری برائی کرنا عیب ہے(گویا اس طرح اس نے اپنی تعریف کی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"ایسی ذات تو محض اللہ تعالیٰ کی ہے"اور ایک دوسری روایت میں جناب براء بن عاذب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ اللہ تعالیٰ کے اس قول (عربی) کے متعلق فرماتے ہیں۔کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لئے آیا اور اس نے(حجروں کے باھر سے پکار کر) کہا:یامحمد ؐ(تفسیر ابن جریر بحوالہ تفسیر ابن کثیر ص208 ج4 (عربی) اس روایت کے باقی الفاظ اوپر والی روایت کی طرح ہیں۔السنن الترمذی،کتاب التفسیر میں بھی اس مضمون کی روایت موجود ہے۔اور امام ترمذیؒ اسے حسن غریب کہتے ہیں۔
حافظ ابن کثیرؒ کہتے ہیں کہ اس طرح کاواقعہ حسن بصریؒ اور قتادہؒ نے بھی مرسلاً روایت کیا ہے۔جناب ذید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔کہ عرب کے کچھ لوگ جمع ہوئے اور کہنے لگے اس شخص کے پاس چلو اگر وہ سچا نبی (ٍ صلی اللہ علیہ وسلم) ہے تو سب سے زیادہ اس سے سعادت حاصل کرنے کے ہم مستحق ہیں۔اگر وہ بادشاہ ہے۔تو ہم اس کے پروں تلے(زیر سایہ) پل جائیں گے۔میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور یہ واقعہ بیان کیا،پھر وہ لوگ آئے اور حجرے کے باہر سے پکارنے لگے "یا محمدؐ"یا محمدؐ"۔پس اللہ تعالیٰ نے آیت:
(عربی)نازل فرمائی۔
جناب زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا کان پکڑ کر فرمایا:اللہ تعالیٰ نے تیری بات سچی کردی۔اللہ نے تیری بات سچی کردی۔(ابن ابی حاتم بحوالہ تفسیر ابن کثیر ص208 ج4 وسندہ صحیح فی الشواحد) حافظ ابن کثیرؒ اس آیت کے ضمن میں ارشاد فرماتے ہیں۔
(عربی)
پھر اس آیت میں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی مذمت کرتاہے کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکانوں کے پیچھے سے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے مکانات تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آوازیں دیتے اور پکارتے تھے۔جس طرح اعرابیوں میں دستور تھا تو اللہ تعالیٰ نے(ان کے حق میں) ارشاد فرمایا کہ"ان میں اکثر بے عقل ہیں۔"
سوچنے کامقام ہے کہ وہ لوگ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حجروں کے باہر سے پکارا کرتے تھے ان کواللہ تعالیٰ نے بے عقل یعنی عقل سے خالی یا دوسرے الفاظ میں جانور قرار دیا۔حالانکہ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ تھے اور دنیا میں موجود تھے۔اور جو لوگ اب ان کی وفات کے بعد دور دراز سے ان کو پکارتے اورآوازیں دیتے ہیں ان کے بے عقل ہونے میں کیا کسر باقی رہ جاتی ہے دوسرے مقام پرارشاد ہے:
(عربی)
"مسلمانوں تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پکارنے کو ایسا خیال نہ کرو جیسا کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو۔"حافظ ابن کثیرؒ اس آیت کی تفسیر میں نقل کرتے ہیں"جناب ضحاک ؒ جناب عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یا محمد یا ابا القاسم کہہ کر پکارا کرتے تھے۔پس اللہ تعالیٰ نے انھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے پیش نظر اس بات سے منع فرمایا اور فرمایا کہ(تم نبی ؐ کو ان کا نام لے کر نہ پکارو بلکہ) یا نبی اللہ ،یا رسول اللہ کہو۔اور یہی بات جناب مجاہد ؒ اورجناب سعید بن جبیر ؒ نے بیان فرمائی ہے۔اورجناب قتادہ ؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی سے باز رہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت وتعظیم کریں۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آہستہ بولیں۔(تفسیر ابن کثیر)
جناب مقاتل ؒ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب انہیں آواز دو تو ان کا نام لے کر یعنی یا محؐمد کہہ کر نہ پکارو اور نہ"یا ابن عبداللہ" کہو لیکن ان کی عزت کرواور یا نبی اللہ یا رسو ل اللہ کہو۔(تفسیر ابن کثیرؒ) عموماً انسان اپنے باپ کی تعظیم کے پیش نظراسے نام لے کر نہیں پکارتا بلکہ ابا جان،ابو جی،والد صاحب وغیرہ کہہ کر خطاب کرتاہے۔تو پھر نبی اکرم کا مقام تو والد کے مقام سے بہت ہی زیادہ بلند ہے۔لہذا انھیں نام لے کر پکارنا اور یا محمدؐ کہنا کس قدر گستاخی ہے۔اور جب یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں گستاخی خیال کیجاتی تھی۔تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان باتوں کو دھرانا(عربی)کے مصداق ہے۔