چند متفرق سوالات

محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا حافظ ثناءاللہ صاحب۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
خیر وعافیت کے بعد درج ذیل سوالوں کے جواب مطلوب ہیں۔
1۔ازواج مطہرات ام المومنین  رضوان اللہ عنھما اجمعین  میں سے کسی کی کسی امتی کوبطور دینی اصلاح خواب میں زیارت ہوسکتی ہے یا نہیں؟جیسا کہ حافظ عبدالمنان وزیرآبادی کے متعلق واعظین لوگ بیان کرتے ہیں کہ انہیں حضرت عائشہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کی زیارت  ہوئی تھی ۔بریلوی حضرات اعتراض کرتے ہیں کہ یہ چیز ازواج مطہرات  رضوان اللہ عنھما اجمعین  کے تقدس اور بزرگی کے خلاف ہے۔آپ واضح فرمائیں کہ حافظ صاحب مرحوم کے متعلق یہ واقعہ صحیح ہے یا نہیں؟یا عقلاً ونقلاً اس طرح کا واقعہ پیش آسکتا ہے یا نہیں۔؟
2۔نکاح کے وقت جو چھورے تقسیم کئے جاتے ہیں حدیث سے اسکا ثبوت ملتا ہے یا نہیں؟کیونکہ ہمارے ہاں ایک عالم دین نکاح کے موقعہ پر چھوہاروں کا تقسیم کرنا بدعت تصور کرتے ہیں۔
3۔ایک چیز نقد دس روپے کی ملتی ہے۔جبکہ وہی چیز ادھار پندرہ روپے میں ملتی ہے۔ایسا کرنا بائع ومشتری کے  لئے جائز ہے یا نہیں؟مثال کے طور پر ہمارے ہاں پٹھان لوگ دنبے چھ ماہ کے ادھار پر فروخت کرتے ہیں۔لوگ خرید لیتے ہیں۔حالانکہ وقتی  طور پر جوقیمت ادھار لگائی جاتی ہے وہ دنبہ چھترا اسکے برابر نہیں ایسا کرنا درست ہے یا نہیں؟
4۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب میں ملناکیسا ہے کسی نیک متقی بندے کو زیارت ہوسکتی ہے یا نہیں جبکہ کئی ائمہ  دین اس چیز کے خلاف ہیں۔
5۔اچانک موت جس سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی ہے۔اگر کوئی نیک آدمی اچانک موت حادثہ یا ایکسیڈنٹ میں فوت ہوجاتا ہے۔ایسی موت شہادت کی موت تصور کریں گے یا بری موت ہے شرعی نقطہ نظر واضح فرمائیں ۔شکریہ (السائل :عنایت اللہ امین خطیب ببر کھائی گہلن ھٹاڑ)

1۔کیا کسی امتی کو بحالت خواب ازواج مطہرات  رضوان اللہ عنھما اجمعین  سے شرف ملاقات ممکن ہے؟

الجواب بعون الوہاب:کسی بھی امتی کو بحالت خواب ازواج مطہرات  رضوان اللہ عنھما اجمعین  سے شرف ملاقات میسر آجانا کوئی بعید بات یاتقدس کے منافی نہیں۔بلکہ اس میں رائی کے جنتی ہونے کی بشارت کا پہلو غالب ہوتاہے۔جو کہ ہر مسلم کی تمنا ہے۔ان کی زیارت نصیب ہونا ناممکنات میں سے نہیں بلکہ ممکن ہے۔جب خواب میں ذات باری تعالیٰ کی روئیت ممکن ہے تو مخلوق کی روئیت کیسے ناممکن ہوسکتی ہے؟ اور حضرت حافظ صاحب ؒ کی زیارت کاواقعہ بفرض صحت ظاہر ہے ۔ملاقات بدون روئیت ہوگی کیونکہ موصوف ؒ نابینا تھے بصورت دیگر حضرت عائشہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا  (باپردہ) ہوں گی۔قرآن میں ہے"(عربی)" ویسے بھی مرتبہ امومت پرفائزہ سے شرف ملاقات عظیم سعادت کی نشان دہی کرتاہے۔قرآن میں ہے۔(عربی) نیز بعض دفعہ خواب میں مرئی حسی کے بجائے معنوی بھی مراد ہوسکتی ہے۔جس سے اقرب الی الصواب نتیجہ اخذ کرنا بتوفیق الٰہی ماہر معبر کا کام ہوتا ہے۔(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہوکتاب تعبیر الانام لعبد الغنی نابلسی)

2۔بوقت نکاح حاضرین پرچھوہارے وغیرہ پھینکنے کا حکم؟

2۔بوقت نکاح جو شئی حاضرین پر نچھاور کی جاتی ہے عرف عام میں اس کا نام "انشار" ہے۔نیل الاوطار میں بحوالہ "البحر" اس کی تعریف یوں ہے"(عربی) اور "المنجد" میں ہے۔(عربی)

موضوع اس سے اعم ہے کہ ملفوظ شے چھوہارے ہوں یا اس کے علاوہ کوئی اور چیز روپیہ پھل وغیرہ ہو۔مسئلہ ہذا میں اہل علم کے معروف دو قول ہیں۔ایک گروہ جواز کا قائل ہے۔جبکہ دوسرے  گروہ کا مسلک عدم جواز ہے۔ان لوگوں کا استدلال بعض ان احادیث سے ہے جن میں"نہب"اور خلسہ"یعنی بزور بازو اور اچک کرکسی شے کو حاصل کرنے سے منع کیاگیا ہے ارشاد نبوی ؐ ہے۔

1۔(عربی)

2۔(عربی)

3۔(عربی)

اس پر "منتقی الاخبار" میں بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے"باب حجۃ من کردہ الشار والا نتھاب منہ مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت ابن مسعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ابراہیم نخعی ؒ اور عکرمہ سے بھی اس فعل کی کراہت ہے۔

جبکہ اصحاب قول اول کا استدلال حضرت جابر بن عبداللہ ۔معاذ بن جبل۔اور انس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی بعض مرفوع روایات سے ہے جوجواز پردال ہیں۔لیکن یہ روایات متکلم فیھم ہیں۔اس کے باوجود قاضی شوکانیؒ کا رجحان جواز کی طرف ہے۔(نیل الاوطار جز6 ص198) علامہ مجدالدین ابن تیمیہؒ صاحب المنتقی حدیث عبداللہ بن قرط کے تحت فرماتے ہیں۔جس میں یہ ہے کہ گیارہ ذوالحجہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں پانچ یا چھ اونٹ پیش کئے گئے ہر ایک چاہتا تھا کہ پہلے مجھے ذبح ہونے کی سعادت نصیب ہو۔اس کے اخیر میں ہے۔(عربی) یعنی جانوروں نے کہا جو چاہے کاٹ کھائے(رواہ احمد۔ابو دائود۔النسائی۔وابن حبان فی صحیۃ وسکت عنہ ابوداود۔المنذری(عربی) یعنی اس حدیث سے اس شخص نے دلیل لی ہے۔جو بوقت خوشی شادی وغیرہ حاضرین میں اشیاء پھینکنے اور لوٹنے کے جواز کا قائل ہے۔زیر حقیقت ہذا قاضی شوکانی ؒ فرماتے ہیں۔

(عربی)

"یعنی حدیث ہذا سے بزور بازو شادی کے موقع پر نچھاور شدہ شئی کے حصول کے لئے جواز کا استدلال کیا گیا ہے۔جس طرح کہ مصنف نے اسے ذکر کیا ہے۔اور جن لوگوں نے اس سے استدلال کیا ہے۔ان میں امام بغوی ؒ بھی ہیں وجہ دلالت یہ ہے کہ خوشی کے موقع پر بزور بازو حاصل شدہ شئی کو قربانی کے جانوروں کے جذبہ ایثار وتقدیم  پر قیاس کیا گیا ہے۔

نیز مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے۔(عربی)یعنی حضرت حسن ؒ اور شعبیؒ بوقت خوشی حاضرین پر کوئی شے نچھاور کرنے میں کوئی حرج نہیں جانتے تھے اور بعض اہل علم نے اس کا جواز قصہ ایوب سے اخذ کیا جب وہ غسل کررہے تھے تو سونے کی ٹڈیاں گرنا شروع ہوگئیں اور وہ جمع کرتے رہے۔(فتح الباری ج6 ص421)

مذکورہ دلائل کی روشنی میں فعل ہذا کے جواز پر استدلال کیا جاسکتا ہے۔اس کو بدعت قرار دینا درست نہیں۔لیکن ضروری بھی نہیں صرف اباحت ہے۔اس صورت میں عموم نھی عن الانتھاب سے مخصص ہوگا۔واللہ اعلم

3۔ادھار شے زیادہ قیمت پرفروخت کرنا؟

3۔کسی شے کو ادھار نسبتاً زیادہ  قیمت پر فروخت کرناجائز ہے۔کیونکہ جانوروں کے بھاؤ میں کمی بیشی ہوتی ہی ر ہتی ہے جس سے سود کا شبہ ختم ہوجاتا ہے۔

4۔کیا خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روئیت ممکن ہے؟

4۔بحالت خواب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی بھی پرہیز گار متقی آدمی کو نظر آجانا ممکن ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا  فرمان ہے۔(عربی)(مختصرا الشمائل المحمدیہ اسنادہ  صحیح) یعنی جس نے مجھے خواب میں دیکھا پس اس نے مجھے دیکھ لیا کیونکہ شیطان میری شکل اختیار نہیں کرسکتا۔

بالفرض اگر کوئی اس مسلک کے خلاف نظریہ رکھتا ہے تو وہ باطل ہے کیونکہ کتاب وسنت کی نصوص کے منافی ہے۔

5۔ناگہانی موت اچھی ہے یا بُری؟

5۔اچانک موت بری نہیں صحیح بخاری میں حدیث ہے۔ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا میری ماں  ناگہانی مر گئی ہے۔میر خیال ہے اگر اسے گفتگو کا موقعہ میسر آتا تو وہ صدقہ کرتی کیا پس اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو اس کے لیے ثواب ہے؟فرمایا ہاں۔وجہ استدلال یہ ہے کہ اس آدمی نے اپنی ماں کی ناگہانی موت کی اطلاع جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کراہت کا اظہار نہیں فرمایا۔امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں حدیث ہذا پربایں الفاظ تبویب قائم کی ہے۔(عربی)

مصنف کا مقصود اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اچانک موت مکروہ نہیں البتہ اس کو شہید قرار دینے کے لئے کوئی نص صریح صحیح موجود نہیں۔نجات کادارومدار انسان کی نیت اور اعمال  پر ہے۔علامہ عبدالرحمٰن مبارک پوری مسئلہ ہذا کے بارے رقم طراز ہیں۔

ناگہانی  موت کے بارے میں مختلف روایتیں آئی ہیں۔بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ ناگہانی موت اچھی نہیں۔عبید بن خالدسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"ناگہانی موت غضب کی پکڑ ہے"(ابوداود) اور بعض روایتوں سے معلوم ہوتاہے کہ ناگہانی موت اچھی ہے۔حضرت ابن مسعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور حضرت عائشہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا  سے روایت ہے کہ ناگہانی موت مومن کے واسطے راحت ہے اور فاجر کے واسطے غضب ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ)

علمائے حدیث نے ان حدیثوں میں اس طرح جمع وتوفیق بیان کی ہے کہ جو شخص موت سے غافل نہ ہو اور مرنے کے لئے  ہر وقت تیار ومستعد  و آمادہ رہتا ہو۔اس کے لئے ناگہانی موت اچھی ہے۔اور جو شخص ایسا نہ ہو اس کے لئے اچھی نہیں ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم (کتاب الجنائز ص14)(مذید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو فتح الباری ج3 ص254۔255)

محترم جناب حضرت مولانا ثناء اللہ مدنی صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

چند سوالات پیش خدمت ہیں۔ کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دے کر عنداللہ ماجور ہوں۔

1۔ایک ہی وقت میں اگر تین اذانیں ہورہی ہوں تو ان اذانوں کے جواب کی صورت کیاہوگی؟

2۔فوت شدہ نماز کی قضاحاضر نماز سے پہلے دیجائے یا بعدمیں؟

3۔کیاوتر کی نماز کے بعد بیٹھ کر دو نفل پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟

4۔سجدہ تلاوت اسی وقت کرنا چاہیے جب مقام سجدہ آئے یا بعد میں بھی ہوسکتا ہے۔اور کیا چارپائی وغیرہ پر بھی ہوسکتا ہے؟

5۔جب اذان ہورہی تو کیا قضائے حاجت کے لئے جایا جاسکتا ہے۔یا نہیں مذید یہ کہ کیا قضائے حاجت کے  لئے ننگے سر اور ننگے پاؤں جانا جائز ہے؟والسلام

1۔بیک وقت تین چار اذانوں کا جواب کس طرح دیا جائے؟

الجواب بعون الوہاب بظاہر احادیث اس پر دال ہیں کہ ایک ہی اذان کا جواب دینا کافی ہے چنانچہ ایک روایت میں ہے۔

(عربی)

"یعنی  جب تم موذن کی اذان سنو تو جس طرح موذن کہتا ہے۔تم بھی اسی طرح کہو۔لیکن اس عموم کا اطلاق (عربی) کا ماسوا پر ہوگا کیونکہ "صحیح مسلم" میں حضرت عمر کی روایت میں بالصراحت موجود ہے کہ(حی علی الصلواۃ ) اور (حی علی الفلاح) کی جگہ (لاحول ولا قوۃ الا باللہ) کہناہوگا۔اس حدیث کےتحت امام کرمانی ؒ فرماتے ہیں۔

(عربی)

یعنی حدیث میں بصیغہ مضارع (عربی) کے الفاظ  ہیں۔بصیقہ ماضی (قال) کے نہیں تاکہ یہ  معلوم ہوسکے کہ جواب ہر کلمہ کے بعد دیناہوگاحافظ  ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ"نسائی" کی روایت اس بارے میں مصرح ہے جس کے الفاظ یوں ہیں۔

(عربی)

یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اذان کے کلمات اسی طرح دھراتے جس طرح موذن کہتا حتیٰ کہ وہ خاموشی اختیار کرتا۔اور "صاحب المرعاۃ" فرماتے ہیں۔کہ اس سے بھی حضر ت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث زیادہ واضح ہے جو"صحیح مسلم" میں بایں الفاظ مروی ہے کہ:

(عربی)

ان روایات میں بصورت جواب موذن کی پیروی کی صراحت موجود ہے ظاہر ہے کہ ایک ہی وقت میں سب کی پیروی نہیں ہوسکتی۔اس سے معلوم ہوا کہ ایک ہی اذان کا جواب کافی ہے۔جبکہ حدیث میں تعبیر بھی بصیغہ افراد"الموذن" اس امر کی موید ہے۔واللہ اعلم بالصواب۔

2۔فوت شدہ نماز حاضر سے پہلے پڑھی جائے یا بعد میں؟

سوال غیرواضح ہے غالباً مقصود یہ ہے کہ فوت شدہ نماز کی قضا حاضر نماز سے پہلے دی جائے یا بعد میں؟اس کا جواب یہ ہے کہ فوت شدہ نماز کی قضا پہلے دی جائے اور بعد میں موجودہ نماز کو ادا کیا جائے۔اس مسئلہ پر امام بخاری ؒ نے بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے۔

(عربی)

یعنی فوت شدہ نما ز کی قضا بالترتیب ہے۔پھرمصنف ؒ نے"قصہ خندق" سے استدلال کیا ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز عصر قضا ہوگئی تھی۔تو غروب شمس کے بعد آپ نے  پہلے نماز عصر پڑھی پھر نمازمغرب کو ادا کیا۔(بخاری مع فتح الباری ج2،ص72) یا د رہے کہ معقول عارضہ کی بنائ پر تاخیر وتقدیم بھی صحیح ہے۔مثلاً حاضر نماز کا وقت کتنا ہے یا جماعت کھڑی ہوجائے و غیرہ وغیرہ۔

3۔بعد از وتر دو رکعتوں کا حکم

 وتروں کے بعد دو رکعات پڑھنے کا صرف جواز ہے۔تاکید نہیں چنانچہ "صحیح مسلم" میں ہے (عربی) یعنی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعد اذان بیٹھ کر دو رکعتیں ادا کرتے۔

یہ بھی یاد رہے کہ بلاعذر بیٹھ کر پڑھنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پورا ثواب تھا۔جبکہ امتی کے لئے آدھا ثواب ہے۔ملاحظہ ہو۔"صحیح مسلم" جلد اول صفحہ253۔

لہذا اجر کی تکمیل کے پیش نظر اگر کوئی ان دو رکعتوں کو پڑھنا چاہے تو  کھڑا ہوکر پڑھے اگرچہ نہ پڑھنا اولیٰ ہے تاکہ رات کی آخری نماز"وتر" بن سکے جس طرح کے حدیث میں بصیغہ امر موجود ہے۔(عربی)(رواہ مسلم۔بحوالہ مشکواۃ)

اوراصول فقہ  کا قاعدہ ہے کہ امر فعل پر مقدم ہوتا ہے۔اس لئے کہ فعل میں خصوصیت کا احتمال ہوتاہے۔جبکہ امر میں یہ شے نہیں۔

4۔سجدہ تلاوت فوری کیا جائے یا تاخیر سے بھی ہوسکتا ہے؟

سجدہ  تلاوت میں چونکہ دو قولوں میں ایک قول کے مطابق طہارت شرط نہیں لہذا بلاتاخیر کرلینا چاہیے۔"صحیح بخاری" کے ترجمہ الباب میں ہے کہ:

(عربی)

یعنی ابن عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بلا وضوء سجدہ تلاوت کر لیاکرتے تھے۔پھر مصنف کا استدلال اس حدیث سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ معظمہ میں سورۃ نجم کی تلاوت فرمائی۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسلمان اورمشرکین ،جن وانس نے بھی سجدہ کیا۔وہ استدلال یہ ہے کہ مشرک کی عدم اہلیت کے باوجود اس کافعل سجدہ سے موسوم ہے۔لہذا ایک مسلم کا سجدہ تو ہر حالت میں بطریق اولیٰ شرعی سجدہ ہی قرار پائےگا۔مزید یہ کہ عمومی مجالس میں عادتا ً ہر شخص باوضو بھی نہیں ہوتا۔پس بلا تفصیل تمام کا سجدہ گزرنا طہارت کے عدم اشتراط کی دلیل ہے۔(فتح الباری ج2ص 554)

علاوہ ازیں جب چارپائی وغیرہ پر نماز پڑھی  جاسکتی ہے تو سجدہ تلاوت بھی ہوسکتاہے۔(مذید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو"فتاویٰ اہلحدیث" ج1ص 329 شیخنا محدث ر وپڑی ؒ)

5۔بوقت اذان بیت الخلا جانے کا حکم؟

قضائے حاجت کی خاطر جب نماز کو موخر  کیا جاسکتا ہے۔تو بوقت اذان بیت الخلا جانے کا بھی کوئی حرج نہیں۔کیونکہ قضائے حاجت انسان کی ایک اضطراری حالت ہے۔

جس کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں۔(عربی)

نیز محل نجاست ننگے پاؤں جانے سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ طہارت وپاکیزگی عبادات کی قبولیت میں اولین شرط ہے اور جہاں تک ایسے مقامات پر ننگے سرجانے کا  تعلق ہے تو اس میں کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا۔واللہ اعلم بالصواب۔