مسئلہ اہل البیت

ابھی حال ہی میں قرآن وسنت کے دو علمبردار اہل سنت حضرات(جناب رضوان علی ندوی اور جناب شاہ بلیغ الدین) نے قرآن مجید کی نہایت واضح اصطلاح"اہل البیت" کو اپنے مختلف اختلافات کا نشانہ بنایا۔جو نہایت تکلیف دہ اور افسوس ناک ہے۔ان دونوں حضرات نے ان اختلافات پر ہفت روزہ"تکبیر" میں درجنوں صفحات پر خامہ فرسائی فرمائی، یہاں تک کہ "اہل بیت" کے علاوہ دیگر مسائل اور معاملات پر بھی تنازعات کھڑے کردیئے ان کے بارے میں ظن غالب تو خیر ہی کا ہے۔ اور  یہ کہ انھوں نے یہ بحث نیک نیتی کے جذبے سے ہی کی۔لیکن غالباً انھوں نے اس مسئلہ کی تاریخی حیثیت سے صرف نظر کرتے ہوئے لاشعوری طور پر وہ کام کیا جو علماء اہل سنت کے شایان شان نہیں اور کتاب  وسنت کےمنحرفین یعنی منافقین کو ہی زیب دیتا ہے۔تاکہ اسلام کی اساس (قرآن وسنت) کو مختلف فیہ بنادیا جائے۔

منافقین کی اولین سازش کا سرغنہ ایک  یہودی ابن سبا تھا۔جس نے حضر ت عثمان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے دور خلافت میں قرآن وسنت کے خلاف یہودی سازش کی ابتدء کی قرآن مجید کے مطابق یہودیوں نے کوئی بھی پچھلا آسمانی صحیفہ ایسا نہ چھوڑا تھا کہ جس میں  تحریف نہ کی ہو۔لہذا اللہ تعالیٰ نے نزول قرآن کے ساتھ اپنا یہ  فیصلہ فرمادیا کہ وہ اپنی آخری کتاب قرآن کریم کی خود ہی تاقیامت حفاظت بھی فرمائے  گا۔(سورۃ الحجر ۔آیت 9)

جب یہودیوں نے یہ دیکھا کہ ان کے لئے متن قرآن میں تحریف کا دروازہ بند ہوگیا ہے تو انھوں نے اپنی پرانی سازش کی حکمت عملی کو تبدیل کرکے اس آخری کتاب اللہ کے معنی ،مطلب اور مفہوم کو حدف بنایا اور مختلف گھپلے کرنے شروع کردیئے۔اسی کی ایک مثال قرآنی اصطلاح"اہل البیت کے بارے میں ان کی شاطرانہ کارستانی ہے۔

"اہل بیت" کے معنی اور مفہوم نہایت واضح ہونے کے باوجود بھی یہودی سرغنہ ابن سبا (منافق) اور اس کے ہم مذہب گروہ نے اسلام کے لبادے میں اس کو بحث ومباحثہ کا موضوع بنایا اور اس کے وہ نادار مفہوم پیدا کئے۔جو اس قرآنی اصطلاح کے بین معنی سے قطعی مطابقت نہ رکھتے تھے۔ایسی تمام یہودی سازشوں کا ادراک قرون اولیٰ کے اہل اسلام کوتو ہوچکاتھا اور وہ ان پھندوں میں نہ پھسے تھے۔مگر تاریخ میں یہ بات ضرور آئی کہ چند قرآنی  الفاظ اور اصطلاحات کے معنی بھی نعو ذ باللہ اختلافی ونزاعی رہے ہیں۔

مختصراً یہ کہ مذکورہ یہودی سازشوں کاتسلسل اس منافق ابن سبا سے شرو ع ہوا۔اور آج تک کسی نہ کسی صورت میں  دنیا میں مروج ہے۔ کہ جس کا تعلق ہرگز قرآن وسنت کے متبعین (اہل سنت) سے نہیں ہے۔حیرت ہے کہ اس تاریخی حقیقت کے باجود بھی دو حضرات اہل سنت (جناب رضوان علی ندوی۔اور جناب  شاہ بلیغ الدین) مسئلہ اہل بیت آپس میں الجھ پڑے اور متعدد دیگر معاملات بھی بلاوجہ متنازعہ بنادیئے۔

مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ ملاحظہ فرمایئے کہ قرآن حکیم میں اللہ ت تعالیٰ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کا اعزاز کن کےلئے مخصوص فرمایا ہے۔

مندرجہ ذیل قرآنی آیات بھی اس کی وضاحت کرتی ہیں۔

(عربی)

"اے نبی کی بیویو!تم میں سے جو کوئی کھلی ہوئی بے ہودگی کرے گی۔تو اسے دہری سزا دی جائے گی۔اور یہ اللہ کے لئے(بالکل ) آسان ہےاور جو کوئی تم میں سے اللہ اور اس کے  رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی  فرمانبردار رہے گی اور عمل صالح کرتی رہے گی تو ہم اس کا اجردوہرا دیں گے۔اور ہم نے ا س کے لئے (مخصوص) عمدہ نعمت تیار کررکھی ہے۔اے نبی کی بیویو!تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہوجبکہ تم تقویٰ اختیار کررکھو تو تم بولنے میں نزاکت مت اختیار کرو کہ اس سے ایسے شخص کو خیال(فاسد) پیدا ہونے لگتا ہے۔کہ جس کے دل میں خرابی ہے اور قاعدے کے موافق بات کہا کرو۔ اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور جاہلیت (قدیم) کےمطابق اپنے آپ کو دیکھاتی مت پھرو اور نماز کی پابندی رکھو ،زکواۃ دیاکرو،اور اللہ کا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا حکم مانو۔اللہ تو بس یہ چاہتا ہے کہ اے نبی کے گھر والو تم سے آلودگی دور فرمادے اور تم کو خوب نکھار دے۔اور تم اللہ کی ان آیتوں اور اس  علم کو یاد رکھو جو تمہارے گھروں میں پڑھ کر سنائے جاتے رہے ہیں،بے شکر اللہ بڑا باریک بین ہے اور پورا خبردار ہے۔

اللہ نے براہ راست خطاب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات  رضوان اللہ عنھما اجمعین  سے فرمایاہے اور اسی بلاواسطہ خطاب  کی آیت 33 میں ان کو "اہل البیت" صاف طور پر قرار دیا ہے۔فرمایا کہ:اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیویو!اللہ تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم اہل البیت سے آلودگی کو دور کرے اور تمھیں اچھی طرح پاک کردے(احزاب۔33) اس سے پہلے سورہ  ھود کی آیت73 میں بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کی ازواج کو ہی اہل البیت فرمایا ہے ارشاد ہوتاہے یعنی"وہ بولے ارے تم اللہ کے کام میں تعجب کرتی ہےاے خاندان والو تم پر  تو اللہ رحمتیں اور اس کی برکتیں نازل ہوتی رہتی ہیں،بے شک وہ تعریف کے لائق اور بڑاشان والا ہے۔

اس طرح پورے قرآن مجید میں صرف ان دو مقامات پر"اہل البیت" کی خصوصی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔البتہ ایک تیسری جگہ پر محض اہل بیت کا ذکر ہے۔یعنی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے اورشیرمادر اور پرورش مادر کے محتاج تھے تو اس حالت طفولیت میں ان کی والدہ محترمہ کو عمومی اہل بیت سے تشبیہ دی گئی(سورۃ القصص۔آیت 12) مگر اس آیت میں وہ  خصوصی اصطلاح"اہل البیت"استعمال نہیں کی گئی۔جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے۔کہ خصوصی اصطلاح تو پورے قرآن پاک میں صرف دو مقامات پر موجود ہے۔اور دونوں جگہ وہ صرف'ازواج النبی ؐ" کےلئے مختص [1]ہے۔لہذا فرمان الٰہی سے یہ نکتہ عیاں اور آشکارا ہوجاتا ہے۔ کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت ہونے کاشرف صرف آپ کی ازواج مطہرات  رضوان اللہ عنھما اجمعین (امہات المومنین  رضوان اللہ عنھما اجمعین ) کو حاصل ہے۔اور  یوں سورہ احزاب کی پیش کردہ آیت 33 نص قطعی کی حیثیت رکھتی ہے ۔خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی اس صاف اور صریح آیت سے امہات المومنین  رضوان اللہ عنھما اجمعین  کے سوا کسی اور کو اہل بیت مراد لینے کی سرے سے کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔

اب اگر متقدمین میں سے کسی محترم مفسر یا محدث سے یہ بات کہیں منسوب ملتی ہے کہ اہل البیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نسبی وصلبی رشتہ  دار بھی شامل ہیں۔تو اس کی وجہ یہ ہے کہ منافقین آل یہود نے ابتداء ہی سے اصل منقولہ باتوں میں تحریف شروع کرنا شروع کر دیاتھا۔چونکہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کو فرقان بھی کہا ہے  یعنی حق اور ناحق میں فرق کرنے والا اس لے نقل کردی کسی بھی قول کو رد وقبول کی صرف اسی کسوٹی پر ہی پرکھناچاہیے۔تاریخ گواہ ہے کہ ابن سباء منافق کا آل یہود گروہ  ہمیشہ سے غلط باتیں اکابرین اسلام کی جانب منسوب کرنے کی شیطانی مہارت کے لئے مشہور ومعروف رہا ہے۔اگر قرآن وسنت کے پاسداروں اور پاسبانوں(اہل سنت) کی کڑی نظر منافقین کی تحریفات کے پس پردہ اصل سازش پر رہے تو کبھی کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو۔عیار آل یہود کی اصل سازش یہی تو تھی کہ دین اسلام اور اہل اسلام میں انتشار اور افتراق پیدا کردیا جائے۔چنانچہ انھوں نے اہل البیت کے معنی خاندان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نکالے۔پھر افراد خاندان کو دیگر اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دو گروپوں میں بانٹ کر خلفائے ثلاثہ کے خلاف مہم چلائی۔ تاکہ ملت متحدہ میں دراڑیں پڑ جائیں۔جہاں تک  مسئلہ فضیلت وافضلیت کاتعلق ہے۔ تو وہ صرف خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو حاصل تھی کے جن کے متعلق "افضل البشر بعد الانبیاءؑ " کہا گیا ہے۔اور جن کو خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ہی امامت مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سپرد کرکے اپنا جانشین اور امام امت مقرر فرمادیا تھا۔صدیق اکبر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی فضیلت کے بعد جو دوسرے افضل الصحاب الرسول تھے'وہ بقیہ عشرہ مبشرہ کے افراد تھے،نہ کہ من گھڑت اہل البیت۔

مذکورہ بالا معروضات کے بعد اب آخر میں مسئلہ کا ایک اور قابل توجہ پہلو پیش خدمت ہے۔ابن سباء کے آل یہود ٹولے نے نہ صرف یہ کہ قرآنی اصطلاح  اہل البیت کی تعریف میں گھپلا کیا۔انھیں ایک الگ الگ طبقہ ٹھہرایا۔ اور ان کو دوسرے طبقہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے افضل  ظاہر کیا،بلکہ رفتہ رفتہ تمام اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم(بشمول اہل بیت) پر تبرا بھی کیا۔آغاذ میں خلفائے ثلاثہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کونشانہ بنایا اور  پھر چوتھے خلیفہ اور بعد والوں کو بھی زد میں لے آئے۔غرض یہ کہ ان منافقین نے اپنے خود ساختہ دونوں طبقات السلام میں سے کبھی ایک پر تبرا کیا اورسبائی کہلائے اور کبھی دوسرے پر کیا اور ناصبی کہلائے اور کبھی دونوں پر کیا اور خارجی کہلائے۔ان سب کا مقصد ایک تھا تاکہ بالآخر تمام کے تمام اصحاب النبی  رضوان اللہ عنھم اجمعین  پر سے ملت اسلامیہ کی آنے والی نسلوں کااعتماداٹھ جائے ۔اور  اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پہنچایا ہوا دین اسلام بھی مشکوک ومشتبہ اور ناقابل اعتبار بن جائے۔یہی وجہ ہے کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت سے پیشگی فرما دیاتھا کہ خبردار! میرے صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کو کبھی بھی بُرا مت کہنا۔"(بخاری ۔مسلم) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس کھلی تنبیہ کے باوجود قرآن وسنت کے حامل(اہل سنت) کے کچھ حضرات آل یہودیت کی پیدا وار یعنی سبائیت،ناصبیت،اورخارجیت کی تبرا بازیوں کو آجکل سمجھ نہیں پارہے ہیں۔اورغیر شعوری طور پر ان میں سے کسی نہ کسی میں ملوث ہوجاتے ہیں۔یہ صورتحال بڑی خطرناک ہے اور تمام اہل سنت کے لئے لمحہ فکریہ ہے کاش تمام اہل سنت یک جان ہوکر  آل یہود کی سازشوں کا پردہ چاک کردیں۔


[1] ۔فاضل مقالہ نگار کی رائے کہ"کہ ان دونوں آیات میں "اہل بیت" کی اصطلاح فقط ازواج النبیؐ سے مختص ہے۔میں نظر ہے جیسا کہ مولانا عبدالماجد دریاآبادی اہل بیت ہی کی بحث میں اپنی تفسیر ماجدی میں صفحہ نمبر 848 پر اس طرح رقم طراز ہیں:۔ اس آیت کے سیاق سے بالکل ظاہر ہے کہ اہل بیت سے مراد ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اوریہی مفہوم سلف سے بھی منقول ہے۔(عربی)(ابن جریر  عن عکرمہ)(عربی)(ابن کثیر ابن عباس) اہل سنت کاتو اس میں کوئی اختلاف ہی نہیں کہ آیات کا سبب نزول ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم  ہی ہیں۔اور اہل بیت سے اولاد وہی مراد ہیں البتہ گفتگو اس میں ہوتی ہے کہ آیا ان کے علاوہ کوئی اور بھی مراد ہے؟سو محققین اہل سنت کا فیصلہ ہے کہ لفظ کے عموم میں ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ بھی ہستیاں داخل ہیں۔(عربی)اہل سنت کے جو معنی اردو میں معروف چلے آتے ہیں۔وہ بھی حدیث سے نکلتے ہیں۔لیکن یہاں ذکرصرف اصطلاح قرآنی کا ہے۔ قرآن مجید میں دوسری جگہ میں بھی ایک پیغمبر ؑ کی زوجہ محترمہ کے لئے آیا ہے۔(سورہ ہود)