تفسیر قرآن کا طریق

((یہ لیکچر 18 جمادی الاخرہ 1410ہجری بروز جمعرات مسجد بنی ہاشم میں دیا گیا۔))
آغاذ:۔سب سے بہتر کلام اللہ جل شانہ کا کلام ہے۔اور سب سے بہترین راستہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ہے۔اور دین میں بدعات کا ارتکاب سب سے بُرا کام ہے۔چنانچہ آج میں جس موضوع پر آپ سے گفتگو کرنا چاہتاہوں۔اس کاتعلق بدعات کی ہی قبیل میں سے ایک بدعت کے ساتھ ہے۔جس کے ثبوت میں میری نظر ہے۔چند ایسی تالیفات گزری ہیں۔جن میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔کہ "قرآن حکیم" کی "تبیین" میں "سنت" کو کوئی اہمیت حاصل نہیں۔لہذا میں اللہ کے اس فرمان"(عربی)" کی تعمیل کرتے ہوئے اپنی علمی بساط کےمطابق اس اہم مسئلہ پر روشنی ڈالوں گا۔
بلاشبہ ہم میں سے ہر شخص اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ قرآن حکیم دین اسلام کادستور ہے۔جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر اللہ تعالیٰ نے وحی کی صورت میں نازل فرمایا۔ان سے بہتر اس کےمتن اور مفہوم کو اور کوئی سمجھ ہی نہیں سکتا۔لیکن تھوڑی بہت عربی زبان سے واقفیت رکھنے والوں کا ایک ایسا گروہ پیدا ہوگیا ہے جس نے قرآن حکیم کی تفسیر کے سلسلے میں اپنی عقول اور خواہشات کے مطابق ایک طریقہ ایجاد کرلیاہے۔کتاب اللہ کی تفیسر کے چنداصول اپنے پاس سے گھڑ لئے ہیں۔اوران کی ترویج کے لئے صبح وشام مصروف عمل ہیں۔اب صورت حال ایسی ہے کہ اگر ان کا انسداد علمی استدلال کے ساتھ نہ کیاگیا تو بہت سے کم علم لوگوں کے اس فتنہ کی ذد میں آنے کا خطرہ ہے۔نصف صدی سے پہلے یہ فتنہ برپا کرنے والے اپنے آپ کو "قرآنین" کے نام سے منسوب کرتے ہیں۔اور ان دعویٰ یہ ہے کہ اسلام کی مکمل تعلیم صرف اور صرف قرآن حکیم ہی ہے۔
فکر جدید یا فتنہ نو؟
چراغ سے چراغ جلنے کے مصداق مذکورہ فتنہ نے"فکر جدید" کے نام سے ایک نئے فتنہ کو پیدا کیا ہے۔جس کے علمبرداروں کا یہ دعویٰ تو نہیں کہ اسلام صرف اورصرف قرآن حکیم ہی ہے۔بلکہ بظاہر وہ قرآن وسنت دونوں ہی کی دعوت دیتے ہیں لیکن جوں ہی آپ جونہی بنظر فائز انکی تحریریں پڑھیں تو صاف معلوم ہوگا کہ قرآن وسنت کی آڑ میں ان کی خواہشات اور اصول"سنت" سے انحراف کی واضح اساس پر ہیں۔ان کے مقاصد بھی وہی ہیں۔جو اول الذکر کے مقاصد میں فرق صرف اتنا ہے کہ اول الذکر(قرآنین) اس انحراف کا خوداعلان کرتے ہیں۔اور یہ حضرات زیادہ عالمانہ اندازمیں لوگوں کو آہستہ آہستہ اپنا ہم خیال بناتے ہیں۔اسلئے میری کوشش ہوگی کہ میں اس لیکچر میں ان کے اس طریقہ واردات کے تمام پہلوؤں سے آپ کوآگاہ کروں اور آپ کو اس بات کا احساس دلاؤں کہ "اہمیت سنت" کومجروح کرنے والے اس گروہ کی علم سطح پر تردید کتنی اہمیت کی حامل ہے۔
تبیین قرآن اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم:۔
یوں تو قرآن حکیم کی بہت سی آیات سے کتاب وسنت کے باہم ربط وتعلق کو علماء اپنے خطبات میں ثابت کرتے ہیں۔لیکن میں آپ کے سامنے اس آیت کو پیش کروں گا۔جس میں صریح نص ہے۔کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل کیاگیا۔اور آپ کو اس کی وضاحت کا مکلف بنایاگیا۔ارشاد ہے۔
(عربی)
ترجمہ؛۔اور ہم نے آپ پر ذکر نازل کیاہے تاکہ آپ لوگوں پر اس کی وضاحت کریں۔جوکچھ ان کے پاس بھیجا گیا ہے۔"
اس آیت میں جس بیان کا ذکر ہوا ہے۔ در اصل سنت مطہرہ ہے۔اس سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے فہم قرآن کے لئے اہل عرب کی زبان دانی کو معیار نہیں بنایا۔اگرچہ وہ انتہائی فصیح للسان تھے۔تو پھر وہ عجمی جو چند دن عرب میں رہ گئے یا عربی زبان سیکھ لی۔ان کے تبحر علم کو"وضاحت قرآن" کے لئے کیسےقابل اعتماد قرار دیا جاسکتاہے؟ جب کہ عصرحاضر میں اس دورسے زیادہ"بیان قرآن" کی ضرورت ہے۔
آیت مذکورہ میں "بیان" سے مراد وہ وحی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر القاء فرمایا اور یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کہ ایک وحی ایسی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے متلو اور مبعد بنایا ہے۔جس کا ماحصل قرآن کریم ہے۔دوسری وہ وحی ہے جوقرآن حکیم کی طرح پڑھی تو نہیں جاتی۔لیکن اس کا حفظ لازم ہے۔اس لئے کہ اس کے بغیر قرآن حکیم کے مکمل فہم کی کوئی صورت ہی نہیں۔لہذا وہ وحی جو قرآن مجید کی صحیح وضاحت کرتی ہے ۔قرآن پاک ہی کہلائے گی۔اور یہی وہ وضاحت ہے جس کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس آیت میں صریحا ًمکلف بنایاگیا ہے۔
وحی غیر متلو کے بغیر وضاحت قرآن:۔
میرادعویٰ ہے کہ چاہے کوئی عربی کا بہت بڑا ماہر ہو یا فہم وادراک میں یکتا ہو۔ماہرلسانیات ہو۔وضاحت وتشریح کی غیر معمولی صلاحیتوں کامالک ہو۔وحی غیر متلو(سنت مطہرہ ) کے بغیر قرآن مجید کے اصل مفہوم کو مکمل طور پہ سمجھ ہی نہیں سکتا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے زیادہ اور کون ہے جو عربی اورلغت عربی کو سمجھنے کی قابلیت رکھتاہو۔ان کی مادری زبان میں عربی ہی میں قرآن حکیم نازل ہوا پھر بھی کئی آیات کے مطالب کو سمجھنا ان کے لئے ناممکن ہوگیا۔مجبوراًانھیں سمجھنے کےلئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی رجوع کرناپڑا۔
امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں امام احمد ؒ نے اپنی مسند میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیاہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان تلاوت فرمایا۔
(عربی)
ترجمہ۔وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم(شرک) کے ساتھ نہیں مخلوط کیا۔انہی لوگوں کے لئے امن ہے۔اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔توصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین پر دوسری بہت سی آیات کی طرح یہ آیت بھی گراں گزری۔اس وجہ سے نہیں کہ وہ اس آیت کے لفظی معنی نہیں سمجھتے تھے۔ بلکہ اس لئے کہ اس میں جوشدید حکم تھا اس کی صحیح نوعیت سمجھنے میں انہیں دقت پیش آئی۔
انہوں نے بارگارہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے کون ظلم نہیں کرتا؟حقیقت میں وہ آیت مذکور "ظلم" کا مطلب ایسا سمجھے جو عمومی طور پر ہر ایک سے سرزد ہوجاتاہے۔مثلا"اپنے نفس پر ظلم یا کسی ساتھی یا گھر والوں پر ظلم کرگزرنا۔تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر واضح کرتے ہوئے فرمایا اس آیت میں لفظ "ظلم" کامفہوم جو تمہاری عقلیں سمجھ رہی ہیں وہ نہیں بلکہ یہاں ظلم سے مراد "ظلم اکبر" یعنی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا ہے۔مذیدوضاحت کے لئے انھیں حضرت لقمان علیہ السلام کی اپنے بیتے کودی ہوئی نصیحت یاد دلائی۔
(عربی)
ترجمہ:۔اے میرے بیٹے! تو اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہرا۔بلاشبہ شرک بہت بھاری ظلم ہے۔غور فرمایئے۔جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب جو افصح العرب تھے ان کے لئے مذکورہ آیت کے ایک لفظ "ظلم" کے صحیح مفہوم کو سمجھنا مشکل ہوگیا اور اس مشکل کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت نے دورفرمایا۔تو پھر اور کس کی مجال ہوسکتی ہے کہ قرآن عظیم کی تفسیر یا وضاحت کاحق ادا کرسکے!
اور یہی وہ خصوصی شان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔جس کااشارہ رب العزت اپنے اس ارشاد میں فرماتے ہیں۔
(عربی)
ترجمہ۔اور ہم نے آپ پر ذکر نازل کیا تاکہ آپ لوگوں پر جو ہم نے آپ کی طرف بھیجاہے کی وضاحت کریں۔قرآن کریم کی اس واضح نص اور مذکورہ دلیل کو سننے یاجاننے کے بعد ہم پر لازم ہے۔ کہ ہم اپنے اذہان میں اس حقیقت کو بٹھالیں۔اپنے عقائد میں اس نص قرآنی کو شامل کرلیں۔ کہ "سنت مطہرہ" کے بغیر کسی کو قرآن حکیم کی تفسیر کاحق ہی نہیں۔اور نہ ہی کوئی اس کی مدد کے بغیر آیات الٰہیہ کے صحیح مفہوم کو ادا کرسکتا ہے۔
مشروط عہد:۔
یہ وہ عہد ہے جس کا اعلان خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لاکھ چودہ یا تیس ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی موجودگی میں فرمایا:
(عربی)
"میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کرجارہا ہوں اگر تم نے ان دونوں کو مضبوط پکڑے رکھا تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔اور وہ ہیں کتاب اللہ۔اور میری سنت اور ارشاد فرمایا۔(عربی) اور یہ دونوں علیحدہ نہیں ہوں گی۔یہاں تک کہ حوض کوثر میں مجھ پر پیش ہوں۔
اس اعلان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے واضح ہے کہ میں تم میں دوچیزیں چھوڑے جارہا ہوں نہ کہ ایک چیز دووحییں نہ کہ ایک وحی ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔جب تک ان دونوں کتاب اللہ اور میری سنت کو پکڑے رکھوگے جس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جس جماعت نے بھی صرف کتاب اللہ کو پکڑا وہ کتاب وسنت دونوں کی منکرہے لہذا ہر وہ شخص جو صرف قرآن حکیم کو ماسوائے سنت یافقط سنت کو قرآن مجید کے بغیر پکڑتاہے وہ یقیناً گمراہ ہے۔صحیح ہدایت وروشنی پانے کے لئے ہمیں کتاب اللہ اور سنت دونوں کو اپنانا ہوگا۔ہمیں گمراہی سے بچنے کی شرط یہی ہے کہ ہم ایک ساتھ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھامے رہیں۔
اس حدیث کے علاوہ اصول تفسیر اور قواعد علوم تفسیر میں بھی یہی تاکید ہے کہ قرآن کی تفسیرقرآن وسنت دونوں کے ساتھ لازم ہے۔
ایک سوال اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
سوال یہ ہے کہ کیا قرآن کی تفسیر قرآن سے ہی کرنا واجب ہے اور پھر بعد سنت سے اس کی تائید وتحقیق ہونی چاہیے۔
مجھے انتہائی افسوس ہے کہ ایک جماعت میں یہ غلطی پائی جاتی ہے کہ وہ قرآن کی تفسیر کے لئے قرآن حکیم کو ہی کافی قرار دیتی ہے۔وہ یہ بھول جاتے ہیں یا"قصداً" وہ اس حقیقت سے گریز کرتے ہیں۔کہ سنت ہی قرآن کی صحیح وضاحت کرتی ہے۔اس کے مجمل کوبیان کرتی ہے۔قرآن حکیم کے عموم کی تخصیص اور اس کے مطلق کی تنقید کرتی ہے۔علاوہ ازیں ایسی دوسری وضاحتیں کرتی ہے۔جن سے کوئی ذی شعور مسلمان مستغنی نہیں ہوسکتا۔ان دلائل کی روشنی میں قرآن حکیم کی تفسیر قرآن کے ساتھ قطعاً جائز نہیں۔بلکہ قرآن کی تفسیر قرآن وسنت دونوں کے ساتھ کرنا واجب ہے۔اس لائمہ عمل کا نتیجہ وہی ہوگا جس کی بشارت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گزشتہ حدیث میں دی ہے اور فرمایا ہے۔
(عربی)اس لئے ہر اس شخص کے لئے جو قرآن حکیم کی تفسیر کرنا چاہتا ہو۔اس پر لازم ہے کہ وہ کتاب وسنت کو جمع کرکے تفسیرکرے۔خصوصا ً جن آیات کا تعلق عقیدہ۔احکام۔اخلاق۔اور معاشرت سے ہو۔کیونکہ ممکن ہے کہ قرآن مجید کی وہ آیت(جس کی تفسیر مطلوب ہے) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کی متقاضی یا حاجت مند ہو!
قیاس اجتہاد:۔
اسی موضوع کے ایک اور پہلو کا ذکر ضروری سمجھتے ہوئے میں ایک حدیث کی یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں جو علم "اصول فقہ" پڑھنے والوں کے لئے بڑی اہمیت رکھتی ہے۔اور اسے علم اصول فقہ، میں قیاس واجتہاد کی اساس بنا کر بحث کی جاتی ہے۔وہ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن بھیجا تو فرمایا کہ تم کس کے ساتھ معاملات کا فیصلہ کرو گے۔تو انہوں نے فرمایا اللہ کی کتاب سے پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اگر تمھیں وہاں نہ ملے تو؟حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے!نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر وہاں بھی تمھیں نہ ملے تو؟تو انہوں نے کہا"میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔اور اس پر کچھ زیادتی نہ کروں گا تب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(عربی)
اس حدیث کے بارہ میں طلباء علم کو یہ علم ہونا چاہیے کہ علماء حدیث کی نظر میں یہ حدیث صراحتاً اور تفریعاً صحیح نہیں ہے۔صریحاً سے میرا مقصود یہ ہے کہ اکثر ائمہ محدث نے اس کی سند ضعیف پر صراحت کی ہے۔جن میں امام المحدثین امام بخاری ؒ کے علاوہ دوسرے محدثین بھی ہیں۔ان ائمہ کی تعداد دس سے زائد ہے۔ان میں متقدم امام بخاری اور سب سے متاخر امام حافظ ابن حجر العسقلانی ہیں۔ان کے درمیان متعدد ائمہ ہیں جن کے اقوال میں نے اپنی کتاب "سلسلۃ الحادیث الضعیفہ والموضوعۃ" میں لکھے ہیں۔اگر آپ تفصیل چاہیں تو اس کی طرف رجوع کیجئے۔
مقصود یہ ہے کہ ائمہ کی تنقیص کی روشنی میں یہ حدیث ضعیف ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ان کے قواعد بھی اس کے ضعف پردال ہیں۔اس اعتبار سے کہ اس حدیث کا مدار جس شخص پر ہے۔وہ جہالت کے ساتھ معروف ہے۔یعنی اس سے روایت کرنا بھی معروف نہیں چہ جائیکہ وہ سچائی کے معیار کے ساتھ پہچانا جاتا ہو۔یاحفظ کے میعار پر پورااترے۔
غرض ہر اعتبار سے یہ راوی "مجہول" ہے گویا"مجہول العین" ہے۔عظیم ناقد امام حافظ ذہبی ؒ الدمشقی نے اپنی مایہ ناز تصنیف "میزان الاعتدال فی نقد الرجال" میں اس کی جہالت کی مدلل تصریح کی ہے۔علماء حدیث کے ہاں نتقیصاً اورتعریفاً ضعیف ثابت ہونے کے بعد اگر آپ اس کے متن پر بھی غور کریں تو باعتبار متن بھی"منکر" ہے۔علاوہ ازیں اس کے بطلان کی دلیل میں سابقہ سطور کافی ہیں جن میں صراحتاً کیا گیاہے کہ قرآن کی تفسیر میں کتاب وسنت دونوں کی جانب رجوع واجب ہے۔اور اس حدیث میں سنت کو قرآن کے بعد مقام دیا گیا۔اور سنت کے بعد رائے کو مقام دیا گیا ہے۔
ایک اور دلیل:۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔
(عربی)
"ترجمہ۔یعنی تم پر مردار اور خون حرام کیا گیا ہے" اگر کوئی اس آیت کی تفسیر ایسے شخص سے پوچھے جو معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجہول حدیث میں بیان کردہ ترتیب تفقہ کا قائل ہو ۔ تو وہ فقیہ قرآن حکیم کی اس آیت پر تفکر کرنے کے بعد اس کے صریح معنوں کو بیان کرے گا۔(عربی) یعنی تمہارے لئے مردار اور خون حرام ہے۔لہذا اس آیت کے ان معانی کو بنیاد بنا کر وہ کہے گا"مچھلی" حرام ہے اس طرح جگر اور تلی کے بارے میں بھی اس کا جواب یہی ہوگا کیونکہ اس آیت میں "مردار اور خون کا حکم ایک ہی ہے جب کہ تلی اور جگر بھی محض خون ہی ہوتے ہیں۔
لہذا صرف آیت قرآن کے صریح معانی پراعتماد کرتے ہوئے مذکورہ فتویٰ دینا غیر اسلامی ہوگا۔اس لئے کہ قرآن اور بیان دونوں لازم وملزوم ہیں۔یعنی قرآن وسنت دونوں کانام اسلام ہے۔اس مقام پر لازم ہوگا کہ یہ دیکھا جائے کہ بیان کے مکلف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی وضاحت کس طرح فرمائی ہے۔تو معلوم ہوگا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی سند سے مروی ہے جس میں کلام ہے اور ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے موقوفاً یہ قول صحیح ثابت ہے بلکہ بعض علماء کے نزدیک یہ قول"مرفوع" ہی کے حکم میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
(عربی)
اس حدیث میں بعض مرداروں اور خونوں کے جواز کی صراحت موجود ہے اس طرح ایک اور صحیح حدیث میں وارد ہے جسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں مرقوم فرمایا۔
"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر کا عبیدہ بن جراح کو امیر بنا کر روانہ فرمایا۔یہ لوگ ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ چلے ان کا زاد راہ کھجوریں تھی جب کم پڑنے لگیں تو ہر ایک شخص کو ایک ایک کھجور دینے کی نوبت آگئی۔حتیٰ کہ انہوں نے دو ر سے ساحل سمندر پر ایک بڑی بہت بڑی شے دیکھی جب اس کے پاس گئے تو معلوم ہوا یہ ایک بہت بڑی اور موٹی مچھلی تھی۔تو انہوں نے اس سے سیر ہوکرکھایا۔اور باقی ہمراہ لے لیا۔اس مچھلی کی جسامت کا یہ عالم تھا۔کہ انہوں نے اس کی ایک پسلی کی ہڈی زمین میں گاڑی تو اس کے نیچے ایک آدمی اونٹ پر سوار ہوکر آسانی سے نکل سکتا تھا۔اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے اسے سمندر کے باہر پھینک دیا۔اوراسے اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے میسر فرمادیا۔جب یہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس پہنچے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے سوال کیا۔"تمہارے پاس اس مچھلی میں کچھ میرے کھانے کے لئے بھی ہے؟
گویا حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث سے ثابت ہوا کہ سمندر کا مردار حلال ہے۔یہ تو اسی کے لئے ہوگا جس نے قرآن وسنت دونوں پر اعتماد کرتا ہوگا۔لیکن جو قرآنین سے متاثر ہوتا تو اس کا جواب ہوگا(عربی)تمہارے اوپر مردار اورخون حرام ہے۔
لیکن یہی شخص جب قرآن حکیم میں ایسی آیت پرپہنچےگا جو ان معانی پر دال ہیں کہ اطاعت ر سول در اصل اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے۔تو اس وقت اس پر لازم ہوگا کہ وہ سنت کی طرف رجوع کرے۔اسے قرآن سے ملائے ان کے درمیان فرق نہ کرے۔تو اس و قت اس آیت کا مفہوم اس کے ذہن میں اس طرح آئے گاکہ"تم پر مردار حرام ہے ماسوا "میتۃ البحر" کے !اور خون حرام ہے ماسوائے جگر! اور "تلی" کے ! میں نے یہ دلیل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کی ہے۔جس کے بعد کوئی اور دلیل وزن ہی نہیں رکھتی۔
شریعت کی اساس:
شریعت کی پوری عمارت قرآن وسنت دونوں کی اساس پر قائم ہے۔اسی لئے امام شافعی ؒ سے یہ فرمان منقول ہے۔کہ مکمل سنت(بشرط یہ کہ وہ صحیح ہو) وہ ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے سمجھائی۔اس سے امام شافعی ؒ کا یہ مقصد ہے۔قرآن وسنت تسبیح کی طرح باہم پروئے ہوئے دانوں کی مانند ہیں۔اللہ جل شانہ نے اپنے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ان آیات کی وضاحت اور بیان کی اتار،جس بیان کی امت کوضرورت تھی۔
میرے خیال میں یہ ایک مثال انتہائی کافی ہے۔قرآن کی تفسیر میں یہ قاعدہ لازمی ہے کہ قرآن وسنت دونوں کی طرف رجوع کیا جائے۔ہمیں یہ بات زیبا نہیں دیتی کہ ہم مرحلہ وار یہ کہیں کہ پہلے مرحلے پر قرآن پھر دوسرے مرحلے پرسنت کی طرف رجوع کیا جائے۔کیونکہ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سنت دوسرے مرتبے پر ہے۔
ہم ایسی بات نہیں کہنا چاہتے جو اہل علم کےلائق نہیں۔کہ سنت قرآن کے مساوی ہے ہر اعتبار سے۔بلکہ باعتبارثبوت سنت کاقرآن سے دوسرا ہی درجہ ہے اس وجہ سے کیونکہ قرآن تو ہمیں بذریعہ تواتر ملا ہے۔جب کہ سنت ایسے نہیں۔ہمارا مقصد یہ ہے کہ حکم کو ثابت کرنے کے اعتبار سے د ونوں عین مساوی ہیں۔ اور باعتبار عمل سنت اور قرآن میں تفریق نہیں اور جس تفریق کو بعض علماء(جو کہ علم حدیث میں مختص ہیں) نے ملحوظ رکھا ہے۔وہ باعتبار علم الروایہ ہے۔جہاں تک علم وروایت فقہ اور کتاب اللہ سے مفہوم لینے کا تعلق ہے۔ وہاں اللہ کی کتاب اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مابین کوئی فرق نہیں۔
یہ بحث ہمیں ایک اور مسئلے کی طرف بھی لے جاتی ہے۔ جس کے بارے میں بعض شک کرنے والوں نے اس علم سے جہالت اور اصولوں سے ناواقفیت کی بناء پر سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں شک کیاہے۔ان کی اس بحث کا محور خبر متواتر اورخبر آھاد کی تقسیم ہے۔ لیکن ہمارے خیال سے اس بحث سے وہی علمائے امت مستفید ہوسکتے ہیں۔ جو علم وسنت حدیث میں تخصیص کے حامل ہوں۔جہاں تک عامۃ المسلمین کا تعلق ہے۔انہیں اس تفصیل سے کوئی فائدہ نہیں۔بلکہ یہ بحث ان کے اذہان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق مذید تشکیک کا باعث بن سکتی ہے۔ہوسکتا ہے وہ ذہنی ناپختگی کی بنا پر ان شک پیدا کرنے والوں کے پیدا کردہ شبہات کا شکار ہوجائیں۔
حدیث وہ ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح طور پر مروی ہو چاہے کسی بھی طریق۔مثلاً حسن،صحیح ۔یا حسن لذاتہ وصحیح لذاتہ۔یا حسن لغیرہ وصحیح لغیرہ صحیح غریب صحیح مستفیض صحیح مشہور یا صحیح متواتر ہو۔ان سب مباحث کا تعلق اہل علم سے ہے عام مسلمانوں کے لئے فقط یہ کافی ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اس پر ایمان لانا اس کی تصدیق کرنا واجب ہے۔یا یہ حدیث ضعیف ہی جس سے اجتناب ضروری ہے۔
مشاہدے میں آیا ہے وہ لوگ جو عوام الناس کے سامنے ان تفاصیل پربحث کرتے ہیں۔جن کا صرف اہل علم سے تعلق ہے۔در حقیقت وہ عام مسلمانوں میں بے شمار ان صحیح احادیث کے بارے میں بھی شک و شبہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔جو بطریق آحاد مروی ہیں۔حدیث آحاد کا بالاختصار مطلب یہ ہے کہ جو درجہ تواتر کو نہ پہنچے اور متواتر سے مقصود یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بڑی تعداد(جس کا جھوٹ پر اتفاق ناممکن ہے) نے اس حدیث کو بیان کیا ہو۔لیکن اس تعداد کے تعین کے بارے میں بے شمار اختلاف ہیں۔جو میرے خیال میں اللہ کی رحمت ہیں۔کیونکہ کسی چیز میں اختلاف اس کی ناپختگی پر تو دلالت کرسکتاہے لیکن صداقت پر نہیں۔ان میں بعض کا کہنا ہے کہ تواتر کی تعداد کم از کم سو شخص ہیں اور بعض اس سے کچھ کم بتاتے ہیں۔حتیٰ کہ بعض نے کم از کم دس عدد بیان کئے ہیں۔یعنی جب تک کوئی حدیث سو ر اویوں تک (اعلیٰ قول کا اعتبار کرتے ہوئے) یا باعتبار ادنیٰ قول کم ازم کم دس راویوں سے مروی نہ ہو اور اسی طرح 100 یا دس صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین سے لے کر تابعینؒ تک حتیٰ کہ کتب حدیث تک تعداد سو یا دس رواۃ سے اسے بیان نہ کیا ہو۔وہ درجہ تواتر کو نہیں پہنچ سکے گی۔
حدیث کے متواتر یا غیر متواتر ہونے سے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔تو ان لوگوں کا کہنا ہے کہ خبرآھاد (غیرمتواتر) سے"(لفظ کی سمجھ نہیں آرہی)"(جس کی تعبیر وہ عقائد سے کرتے ہیں)سے متعلق حکم اخذ کرنا صحیح ہیں۔اور احکام کےماسواغیر متواتر حدیث سے مسئلہ اخذ نہیں کیا جاسکتا۔
یہ ان لوگوں کے خیال ہیں جو مذکور بحث کو اپنا موضوع سخن بناکر خلاف حقیقت احادیث کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کرتے ہیں۔ان کے ہر فریب کی وضاحت اور تردید تو صرف چند علماء حدیث ہی کرسکتے ہیں۔جو ہر زمانے میں تعدادمیں انتہائی کم ہوتے ہیں۔
اس کی مثال ملاحظہ فرمائیں۔کہ علمائے حدیث کے نزدیک حدیث متواتر کی واضح ترین مثال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ:
(عربی)
یہ حدیث متواتر ہے کیونکہ اس کے راوی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے لے کر تاحد آخر سو تک موجود ہیں۔لیکن آپ میں سے جس کے پاس"حدیث متواتر" کے تمام اوصاف پہنچ گئے وہ بجا۔۔۔لیکن اگر میں اکیلا یہ کہہ دوں کہ یہ حدیث متواتر ہے۔تو تب میرے اکیلے کی بناء پر اس کا تواتر ختم ہوجائے گا؟بہتر یہی ہے کہ ہم ایسی بحث میں نہ پڑیں۔اور احادیث کی اس طرح اتباع کریں۔جس طرح ہمارے اسلاف نے کیا۔عوام الناس کو تو اس بحثوں میں الجھانا فلسفہ کی بحث کی طرح انہیں مشکل میں ڈال دے گا۔صاف بات یہ ہے کہ حدیث پر عمل کرنے کے لئے تواتر کی شرط لگانا حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو معطل کرنے کی مذموم کوشش ہے۔
دور حاضر میں اکثر افراد اور جماعتوں کو میں نے اس مرض میں مبتلا پایا ہے۔ کہ وہ بے شمار صحیح احادیث کو اس دلیل سے رد کردیتے ہیں۔کہ فلاں حدیث احکام کے بارے میں نہیں۔بلکہ امور غیب اورعقائد کے بارہ میں ہے۔لہذا یہاں حدیث آحاد معتبر نہیں۔اسی طرح یہ افرادمتعدداحادیث کو اپنی خواہشات کے مطابق ناقابل عمل قرار دے دیتے ہیں۔
قرون اولیٰ اور ہم:۔
ان تمام مباحث میں پڑنے اور ذہنی خلفشار سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ کہ ہم عہد اول (قرون اولیٰ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی طرف رجوع کریں۔تاکہ ہمیں یہ معلوم ہوکہ اصحاب النبی اپنے اور بعد میں آنے والے لوگوں کو جو ان کے ہم عصر تھے مگرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے انہیں شرف ملاقات نہیں ہوسکا۔کو احادیث کیسے بیان کرتے تھے مثلا اہل یمن کی مثال ہمارے سامنے ہے،وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شرف ملاقات حاصل نہ کرسکے! مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وقفہ وقفہ سے معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھیجتے رہے۔اور بھیجتے وقت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اسلام کی دعوت دینے کے لئے کیا فرمایا۔میرے خیال میں اس کاعلم تو آپ سب کو ہوگا۔بحوالہ صحیحین ارشاد فرمایا۔
(عربی)
محل شاہد یہ ہے کہ نماز تو احکام میں سے ایک حکم ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس سے پہلے عقیدہ توحید کی طرف دعوت کا بھی ذکر ہے۔جو اسلام کے تمام عقائد کی بنیاد ہے۔آپ کا کیا خیال ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں تبلیغ کاحکم دیاتھا اور آپ نے تبلیغ فرمائی تو کیا یہ خبرمتواتر تھی؟کیا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی"اہل یمن" پر تبلیغ کی حجت قائم ہوگئی یا نہیں؟وہ لوگ جنھوں نے اسلام میں یہ فلسفہ(کہ خبراحاد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا) داخل کیا ہے۔ان کے زعم میں تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طرف سے حجت قائم نہیں ہوتی۔بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر لازم تھا کہ کم از کم اتنی تعداد بھیجتے جو کہ"عددتواتر کے میعار پر پوری اترے"
اسی لئے ہی میں نے بعض اوقات ان لوگوں کو جن کا یہ عقیدہ ہے(کہ خبر آھاد سے غیبات ثابت نہیں ہوتے) کہا کہ تم میں سے کسی مبلغ کو اسلام کی تبلیغ کے لئے کبھی"بلاد کفر" کی طرف جانے کا اتفاق ہوتوبلاشبہ وہ سب سے پہلے انہیں اسلامی عقائد کی طرف دعوت دے گا۔اس لئے کہ اسلامی عقائد میں سب سے پہلا عقیدہ "اللہ کی توحید اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت " ہے۔مذکورہ گروہ کے رئیس نے اپنی کتاب میں"دعوت کے طریقہ کار" کے بارے میں ایک مستقل فصل لکھی ہے جس کا نام اس نے"طریق الایمان" رکھا ہے۔اوراس میں اس نے مسلمانوں کو بلاد اسلام میں اور کفار کو ان کے ممالک میں اسلام کی طرف دعوت دینے کا جوطریقہ بیان کیا ہے۔اس طریقہ کے آخر میں یہ اصول بھی مذکور ہے۔کہ خبرآحاد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا۔پس اگر کوئی شخص تبلیغ کے لئے جائے اور ان کو اپنے رئیس کے بیان کردہ طریق کے مطابق تبلیغ اسلام کرے۔لیکن جب اس طریقہ کے آخر میں یہ اصول بھی بیان کرے اور لوگوں کا مجمع اس کا خطاب سن رہا ہوکہ خبرآحاد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا۔توان لوگوں میں سے ایک شخص کھڑا ہو اور کہے محترم!آپ نے ابھی ابھی ہمارے سامنے عقیدہ اسلام رکھا ہے۔اورآخر میں آپ نے اپنا اصول بھی بتایا ہے اس کی روشنی میں آپ بھی ہمیں اسلام کا عقیدہ سکھانے کے لئے اکیلے آئے ہیں۔لہذا آپ ہی کے بیان کردہ منہج پر(جو آپ نے ہمیں سکھایا ہے)اللہ کی حجت ہم پرقائم نہیں ہوئی۔کیونکہ آپ فرد واحد ہیں۔آپ کو چاہیے کہ آپ اپنے ملک میں لوٹیں۔اور اپنے ساتھ اتنی تعداد لے کرآئیں جو آپ کے ساتھ گواہی دے کہ جو آپ نے ہمیں سکھایاہے وہ اسلام ہی ہے۔
تعجب ہے یہ لوگ اس حدیث پر توجہ نہیں دیتے جس کا ہم نے ابھی ذکر کیا ہے یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ۔علی۔اورحضرت ابو موسیٰ اشعری رضوان اللہ عنھم اجمعین کو فردا فردا بھیجا تاکہ انھیں اسلام کی تعلیم دیں۔ا س سے ثابت ہوا جس عقیدہ کو رئیس مذکور نے اسلام میں داخل کیا ہے ۔سلف صالحین کا اس تقسیم (کہ فلاں متواتر ہے فلاں آھاد ہے)سے کوئی تعلق نہیں تھا۔بلکہ صرف اتنا کافی ہے کہ آپ کو فقط نبی اکرم کی حدیث صحیح رواۃ کے ساتھ پہنچ جائے اور حدیث کو ان کمزور عقول کی شہادت کی ضرورت نہیں ہوتی جو کتاب وسنت کو کماحقہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔مختصراً یہ کہ ہمارے لئے سنت کی مدد سے قرآن کی تفسیر کرنا واجب ہے چاہے وہ متواتر ہوں یاآھاد ہوں یہی وہ راستہ ہے جس پرخدا تعالیٰ کے اس فرمان کی بنا پر ہمارے لئے قرآن کی تفسیر کرتے ہوئے چلنالازم ہے۔
(عربی)
ترجمہ:۔اگرتمہارا کسی چیز میں جھگڑا ہوجائے تو اس کو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف لوٹادو۔یہ بہتر اوراچھاہے انجام کارکے لحاظ سے لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ قرآن میں بعض آیات ایسی ہیں۔جن کی تفسیر کرنے کے لئے ہم کو کوئی حدیث نہیں ملتی۔تب مذکورہ بیان صحیح کیسے ہوگا؟
ایسی صورت میں جیسا کہ اہل علم کے ہاں معروف ہے کہ جب سنت میں ہمیں قرآنی آیات کی تفسیر کی راہنمائی نہ ملے تو پھر سلف صالحین کی تفسیر کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔اور ان میں پہلے درجے میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آتے ہیں۔جن میں حضر ت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کادرجہ سب سے اعلیٰ ہے۔کیونکہ ان کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ساتھ ر ہا۔اور دوسری وجہ ان کا قرآن کے بارے میں سوالات اور اس کو سمجھنے کا اہتمام ہے۔پھر دوسرے درجہ میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ابن مسعود سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ بے شک(وہ) قرآن کے ترجمان ہیں ۔یعنی ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت دیتے ہیں کہ وہ "ترجمان القرآن " ہیں۔
پس اس طرح جبکہ ہم سنت میں کتاب اللہ کی تفسیر نہیں پائیں گے تو درجہ بدرجہ اصحاب رسول کی تفاسیر سے مدد لیں گے۔جن میں اولین حیثیت کے حامل ابن مسعود پھر ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔پھر اس کے بعد جس صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی کسی آیت کی تفسیر منقول ہو۔
اور اگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے تفسیر نہ ملے۔تو پھر تابعینؒ کی تفاسیر سے مدد لینا لازم ہے۔جنھوں نے اصحاب الرسول سے تفسیر کے حصول میں اہتمام کیا۔جس طرح کہ سعید بن جبیر،طاؤس اور ان جیسے دوسرے ہیں جو کہ صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین سے خاص طور پر ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حصول تفسیر میں مشہور ہیں۔
اسی طرح بعض آیات کی تفسیر رائے سے بھی کی جاتی ہے۔اور انکے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے موصولاً کوئی وضاحت ثابت نہیں ہوتی۔لیکن بعض متاخرین نے (اسی شے کے مدنظر) آیات کی تفسیر اپنے مذاہب کے مطابق کرنی شروع کردی ہے۔یہ انتہائی خطرناک اقدام تھاکہ آیات کی تفسیر اپنے مذاہب کو تقویت دینے کے لئے ان کے تابع کی جائے۔ اور علماء تفسیر نے اس (غلط) طریقہ کے علاوہ بھی (بے شمار) تفاسیر کی ہیں۔بطورمثال ملاحظہ فرمائیں ۔
(عربی)
"بعض اصحاب نے اس کی تفسیر تلاوت نفسی سے کی ہے یعنی ان کے مطابق تمام نمازوں میں فقط ایک لمبی آیت یا تین مختصرآیات پڑھنا واجب ہے اس کے باوجود کہ صحیح حدیث میں نبی اکرم سے وارد ہے کہ:
(عربی)
اور دوسری حدیث میں ہے کہ:
(عربی)
پس ان دونوں احادیث کی دلالت نے گزشتہ آیت کی تفسیر میں اس دعویٰ کی تردید کردی کہ یہاں مطلق قراۃ ہے یعنی کہ آیت صرف یہ کہتی ہے کہ قرآن سے کچھ پڑھ لو۔
تو اسی مذکورہ مذہب کے بعض متاخرین نے دوبارہ حدیث متواتر کی بحث کی طرف لوٹتے ہوئے اب یہ کہناشروع کیا کہ قرآن کی تفسیر فقط متواتر سے صحیح ہے کہ دوسرے الفاظ میں قرآن کی تفسیر سنت متواترہ کے علاوہ صحیح نہیں۔
یعنی(ان کا خیال یہ ہے) کہ متواتر قرآن کی تفسیر ماسوائے متواتر کے صحیح نہیں اور انھوں نے اس آیت میں بھی اپنے فہم پراعتماد کرتے ہوئے گزشتہ دنوں حدیثوں کو رد کردیا۔کہ نماز پڑھنے والے پر جس سے ابتداء کرنالازم تھا۔
(عربی)
لیکن تمام علمائے تفسیر نے (جن میں متقدمین بھی ہیں،متاخرین بھی) واضح کیاہے کہ آیت کریم میں (عربی) سے مراد یہ ہے کہ تم رات کی نماز سے جتنی نماز پڑھ سکتے ہوپڑھو۔" کیونکہ اللہ عزوجل نے اس آیت کو سورہ مزمل میں اس آیت کریمہ کے مناسبت سے زکر کیا ہے کہ۔
(عربی)
یعنی رات کی جتنی نمازیں پڑھ سکتے ہوپڑھو۔پس آیت اس سے متعلق نہیں ہے کہ رات کی نماز میں خصوصاً انسان پر کچھ پڑھنا واجب ہے اور اللہ نے مسلمانوں کے لئے آسانی کی ہے کہ وہ جو کچھ پڑھ سکتے ہیں پڑھ لے۔
لہذا امت کے لئے واجب نہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جتنی(یعنی گیارہ رکعات) نماز کی رکعات پڑھیں۔آیت کامعنی یہ ہے اور یہ عربی اسلوب کے مطابق کل بول کرجز مراد لیناہے۔ جز بول کرکل مراد لینے کی مثال یہ ہے (عربی) یعنی نماز پڑھو یہ کل ہے۔اور قراۃ جز ہے۔اور لغت عربی کا علم رکھنے والے افراد جانتے ہیں کہ عربی کا یہ اسلوب کہ جب کل بول کر جز مراد لیا جائے۔تو اس کا مقصد کل میں اس جز کی اہمیت بیان کرنا ہوتاہے۔جیسا کہ اللہ کے اس دوسرے فرمان میں ہے۔
(عربی)
"الم سے مراد بھی "قرآن الفجر " ہے۔لیکن یہاں جز بول کر کل مراد لیا اور یہ معروف اسلوب ہے۔اس لئے اس آیت کی واضح تفسیر کے بعد(کہ جس میں سلف اورخلف کاکوئی اختلاف نہیں)پہلی حدیث کو رد کرنا صحیح نہیں۔اور اس د عویٰ کے ساتھ کہ یہ خبر آحاد ہے۔رد صحیح نہیں کیونکہ آیت مذکورہ کی تفسیر ان علماء کے اقوال سے واضح ہوتی ہے۔جو کہ لغت عربی کی باریکیاں سمجھتے تھے۔اور اس لئے کہ حدیث نبوی قرآن کے مخالف نہیں ہوسکتی بلکہ(جس طرح ہم نے ابتداء میں ذکر کیا ہے)اس کی وضاحت اورتفسیرکرتی ہے۔پس حدیث کیسے مخالف ہوسکتی ہے۔اور آیت کا تو اس موضع سے کوئی تعلق ہی نہیں کہ مسلمان پر فرضی یا نفلی نماز میں کیا پڑھنا واجب ہے۔جہاں تک احادیث کاتعلق ہے۔تو وہ اپنے موضوع میں صریح ہیں کہ نماز فاتحہ کے بغیر صحیح نہیں ہوتی۔
(عر بی ) اور
(عربی)
کہ اس شخص کی کوئی نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اور سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اور سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز ناقص ہے۔پس جس نے اپنی نماز مکمل کی اس حالت میں کہ وہ نامکمل تھی۔ تو پھر اس کی کیا نماز ہوئی وہ تو اس وقت کالعدم ہی متصور ہوگی جس طرح کے پہلی حدیث کا ظاہر اس کیطرف مشیر ہے۔کہ "فاتحہ الکتاب کے بغیر کوئی نماز نہیں"
جب ہمارے لئے حقیقت ظاہر ہوگئی ہے کہ احادیث جو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم تک(یا تو کتب حدیث کے واسطہ س پہنچی ہیں یا صحیح اسانید کے ساتھ تو ہمیں ان پرمطمئن ہوجانا چاہیے۔اور جن شبھات کو دورحاضر میں پیش کیا گیا ہے ان پر کان نہ دھرتے ہوئے شک وشبہ میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔اور تفسیرقرآن میں سلف صالحین کے منھج کو ہی مد نظر ر کھنا چاہیے۔(واللہ اعلم بالصواب)