حدیث( على منى وأنا منه)

شیعہ مبلغین اپنی مجالس وعظ میں بڑی شدومد کے ساتھ یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  مجھ سے ہیں اور میں اُن سے ہوں۔"آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا اس امر کی دلیل ہے  کہ حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  تمام صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے افضل وبرتر ہیں۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے متعلق ایسا فرما کر انھیں اپنے نفس سے قراردیا ہے۔جب کہ یہ سعادت اور مقام ومرتبہ کسی دوسرے صحابی کا مقدر نہ  بن سکا۔"[1]
شیعہ علماء کے ان تمام دعاوی کا جائزہ ان شاء اللہ آگے پیش کیا جائے گا۔فی الحال میں اس حدیث کے جملہ طرق محدثین کے نزدیک اُن کے مقام ومراتب اورمطالب وشروح بیان کی جاتی ہیں۔
اس سلسلے میں سب سے زیادہ کثرت  کے ساتھ بیا ن کی جانے والی حدیث اس طرح ہے۔
«على منى وانا منه ولا يؤدى عنى الا أنا أو على»

یہ روایت اسرائیل بن یونس بن ابی اسحاق عن ابی اسحاق عن حبشی بن جنادہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے طریق سے مروی ہے۔امام احمد[2] اور ابن عساکر [3]نے اس کی تخریج کی ہے۔ان کے علاوہ امام ترمذی [4]۔امان نسائی۔[5] اما م طبرانی۔[6]امام ابن ماجہ[7]۔زید بن علی[8]۔اوعر ا بن سعد[9] رحمہم اللہ نے بھی اس کی تخریج فرمائی ہے۔

امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی ؒ(م279ھ) نے اسے جن دو طریق سے روایت کیا ہے وہ یہ ہیں:

«حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ حُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ "‏»[10]

«حدثنا قتيبة بن سعيد نا جعفر بن سليمان الضبعى عن يزيد الرشك عن مطرف بن عبدالله عن عمران بن حصين قال»[11]

 اول الذکر حدیث کے الفاظ بعینہ وہی ہیں جو  ا وپر مذکور ہیں لیکن آخر الذکر حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں:

«ان عليا منى وانا  منه وهو ولى كل مؤمن بعدى»

ان میں سے پہلی حدیث پر امام ابو عیسیٰ  ترمذیؒ حکم لگایا ہےکہ "یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔[12] اور د وسری پر کہ "یہ حدیث غریب ہے۔اور  ہمیں جعفر بن سلیمان کی اس حدیث کے علاوہ کسی اور حدیث کا علم نہیں کہ جس میں یہ بات مذکور ہو۔[13]

امام ترمذیؒ کے پہلے طریق میں عمرو بن عبداللہ ابو اسحاق السبیعی ہے جو ثقہ عابدتوتھا لیکن علامہ حافظ احمد بن علی بن حجر العسقلانی ؒ(م852ھ) ابو عبداللہ بن محمد بن عثمان الذہبی ؒ(م748)اور علامہ عبدالرحمٰن ابو العلیٰ مبارک پوری ؒ(م1352ھ) وغیرہ فرماتے ہیں کہ"آخر عمر میں احتلاط کیا کرتا تھا؟[14] اگرچہ ابو حاتم ؒ اور عجلی ؒ نے اسے ثقہ قرار  دیا ہے۔لیکن بقول علامہ سوی ؒ:بعض اہل علم نے اختلاط کی وجہ سے اسے ترک کیا ہے۔[15]

علامہ شیخ ناصر الدین البانی حفظہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔کہ ابو اسحاق السبیعی اختلاط کیا کرتا  تھا پھر وہ مدلس بھی ہے۔[16]

اس طرح علامہ  شیخ عبدالرحمٰن مبارک پوری فرماتے ہیں کہ وہ مدلس ہے۔ جس کی صراحت حافظ ابن حجر ؒ نے طبقات المدلسین میں فرمائی ہے۔[17]

اس طریق میں عمرو بن عبداللہ ابو اسحاق السبیعی کا تابع شریک بن عبداللہ القاضی ہے۔اور اس پر کلام کیاگیا ہے۔علامہ ذہبی ؒ بیان کرتے ہیں کہ"یحییٰ بن سعید ؒ فرماتے ہیں:وہ بہت زیادہ ضعیف ہے۔یحییٰ القطان ؒ یہ بھی فرماتے ہیں :میں نے اسے تخلیط کرتے ہوئے پایا ہے۔یحییٰ بن سعید ؒ کا ایک قول یہ بھی ہے کہ آخر عمر میں اختلاط کیا کرتاتھا۔عبداللہ بن مبارکؒ کا قول ہے کہ شریک کی احادیث کچھ نہیں ہوتی۔جو زجانی ؒ کا قول ہے کہ وہ سئی الحفظ اور مضطرب الحدیث تھا۔ابن معین ؒ نے اسے ثقہ وصدوق قرار دیا ہے۔امام ابوالحسن علی بن عمر بن احمد بن مسعود الدارقطنی ؒ(م385ھ) کا قول ہے۔کہ شریک قوی نہیں ہے۔ابو حاتم ؒ کا قول ہے:شریک صدوق تو ہے لیکن اس سے اغلاط مروی ہیں۔امام ابوعبدالرحمٰن احمد بن شعیب بن علی النسائیؒ(م303ھ) کا قول ہے۔اس میں کوئی حرج نہیں۔[18] علامہ ابو الحسن احمد بن عبداللہ بن صالح العجلی ؒ الکوفی نزیل طرابلس (م261ھ) فرماتے ہیں کہ :ثقہ اور حسن الحدیث ہے۔[19] علامہ حافظ ابن حجر ؒ عسقلانی فرماتے ہیں۔صدوق ہے اکثر خطا کرتا ہے۔اور اس کے حافظہ میں تغیر آگیا تھا۔[20] حافظ ابن حجرؒ کا ایک اور قول ہے کہ" اس کی اسناد میں لچک ہوتی ہے۔[21] یعقوب بن سفیان ؒ فرماتے ہیں۔:ثقہ لیکن حافظہ کا  خراب تھا۔[22]علامہ نور الدین الحسن علی بن ابی بکر ابن سلیمان الہثیمی ؒ(م807ھ) فرماتے ہیں۔:ثقہ ہے لیکن اس پر کلام کیا گیا ہے۔[23]امام نسائی ؒ وغیرہ نے اسے ثقہ بتایا ہے لیکن اس میں ضعف پا یا جاتا ہے۔[24]ایک مقام پر علامہ ہثیمی ؒ نے اسے "حسن الحدیث " بھی قرار دیا ہے۔ [25]علامہ شیخ محمد ناصر الدین البانی فرماتے ہیں کہ"شریک میں ضعف موجود ہے۔[26]ایک مقام پر لکھتے ہیں۔وہ حافظہ کے باعث ضعیف ہے۔[27]ایک اور جگہ فرماتے ہیں۔اس کے  حافظہ کی خربی کے باعث اس کی تضعیف کی گئی ہے۔[28]ایک اورمقام پر علامہ موصوف فرماتے ہیں۔شریک سئی الحفظ ہے اگر اس کا حافظہ درست پھر مانا جائے تو بھی اس کے اختلاط کی علت اس کی تضعیف کے لئے کافی ہے۔[29]

شریک بن عبداللہ القاضی ؒ کے تفصیلی ترجمہ کے لئے ملاحظہ فرمائیں۔فہاس مجمع الزوائد ومنبع الفوائد للشیخ ابوہاجر محمد السعید بن بسیوئی الغلول ؒ[30]۔تہذیب التہذیب لابن حجر ؒ[31] اور تاریخ بغداد للخطیب بغدادی وغیرہ۔[32]

اسی طریق اسناد میں شریک بن عبداللہ القاضی ؒ کا تابع اسماعیل بن موسیٰ الفرازی ؒ الکونی ہے۔جس کے متعلق مشہور ہے کہ صدوق ہے لیکن خطا کیاکرتاتھا۔اس پر رافضی ہونے کا اتہام [33]بھی ہے۔ ابن عدی ؒ فرماتے ہیں کہ:" اس میں غلو فی التشیع کے باعث نکارت پائی جاتی ہے[34]۔ابو حاتم ؒ نے اسے "صدوق ثیعی"[35] قرار دیا ہے اور امام نسائی ؒ فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔لیکن اب ابن شیبہ ؒ بیان کرتے ہیں کہ وہ فاسق اسلاف کوگالیاں دیا کرتاتھا۔[36]

اب امام ترمذی ؒ کی روایت کردہ دوسری حدیث کی اسناد کی طرف توجہ فرمائیں تو آپ کو اس میں ایک راوی  جعفر بن سلیمان الضبعی ؒ نظر آئے گا۔جس کے متعلق امام ابن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں۔"صدوق زاہد تھا لیکن اس میں تشیع موجود تھا۔[37] اسی طرح عجلی ؒ فرماتے ہیں۔ثقہ تھا لیکن اس میں تشیع پایا جاتا ہے۔[38]علامہ عبدالرحمٰن مبارک پوری فرماتے ہیں۔کہ وہ شیعہ بلکہ غالی شیعہ تھا۔[39] علامہ دوری کاقول ہے۔جعفر بن سلیمان کے سامنے اگر امیر معاویہ کا ذکر کیا جاتا تو وہ اُن کو گالیاں دیتا تھا۔اور اگر حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا ذکر کیا جاتا تو  رونے لگتا تھا۔[40]علامہ ابی جعفر محمد بن عمر وبن موسیٰ بن حماد العقیلی المکی ؒ(م322ھ) فرماتے ہیں۔کہ "محمد بن مقدام العجلی ؒ نے جعفر کی نسبت رفض کی طرف بیا ن کی ہے۔محمد بن عثمان بن ابی شیبہ ؒ نے یحییٰ بن معین ؒ کا قول نقل کیا ہےکہ یحیٰ بن سعید القطان ؒ جعفر بن سلیمان سے روایت نہیں لیا کرتے تھے۔اور نہ اس کی کوئی حدیث لکھاکرتے تھے۔بلکہ اس کی تضعیف فرمایا کرتےتھے۔اگرچہ وہ ہمارے نزدیک ثقہ ہے۔"[41]

یحییٰ بن معین ؒ نے جعفر بن سلیمان کو "ثقہ" قرار دیا ہے۔[42] علامہ ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ امام احمد کا قول ہے کہ  ا س میں کوئی حرج نہیں۔امام بخاری ؒ فرماتے تھے «كان أميا» ابن سعد ؒ کا قول ہے کہ ثقہ ہے۔لیکن اس میں ضعف اور تشیع ہے۔احمد بن مقدام ؒکا قول ہے۔ کہ آئمہ نے اس کی نسبت (لفظ مٹا ہوا ہے) جانب بیان کی ہے۔ابن حبان ؒ نے اس کا ذکر اپنی ثقات میں کیا ہے۔اور لکھا ہے کہ پس اگر وہ سے  تو مثل حمار ہے۔سلیمان بن حرب ؒ فرماتے تھے کہ "اس کی حدیث نہیں لکھی جاتی۔حماد بن زید ؒ فرماتے ہیں کہ"لیکن اس کی حدیث لکھنے سے کسی نے منع نہیں کیا ہے۔امام بخاری ؒ نے اپنی کتاب "الضعفاء الصغیر" میں اس کے متعلق لکھا ہے۔کہ اس کی بعض احادیث میں مخالفت پائی جاتی ہے۔علامہ  ذہبی ؒ لکھتے ہیں۔چونکہ اس میں تشیع موجود ہے۔اس لئے وہ حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور اہل بصرہ کے متعلق کثرت سے احادیث روایت کرتا ہے۔اور حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے متعلق روایت کرنے میں غلو بھی اختیار کرجاتا ہے۔علامہ ذہبی ؒ نے اس کے ترجمے میں مثال کے طور پر یہی حدیث «على من وأنا منه» نقل فرمائی ہے۔"

چونکہ امام ترمذی ؒ کی روایت کردہ مذکورہ بالا دونوں احادیث کے جملہ رواۃ اسناد پر کبار ائمہ جرح وتعدیل نے سوء حفظ اختلاط نسبت الی  الرفض ۔تدلیس۔صوفی التشیع۔التین الحدیث۔نکارت ضعف وغیرہ جیسے بڑے احکام لگائے ہیں۔لہذا ان احکام کی روشنی میں یہ دونوں حدیثیں "ضعف الاسناد "قرار پائی جاتی ہیں۔واللہ اعلم۔

اب امام  احمد بن حنبل ؒ اور بزار ؒ کی حدیث بطریق اھلج الکندی عن عبداللہ بن بریدۃ عن ابیہ بریدۃ پش خدمت ہے۔اس روایت میں جو الفاظ مروی ہیں وہ اس طرح ہیں۔

«لا تقع فى على فانه من وانامنه وهووليكم بعدى و  انه منى وانا منه وهووليكم بعدى»[43]

احمد بن حنبلؒ اور بزار ؒ کی اس روایت کی اسناد میں بھی اجلح الکندی نامی ایک شیعہ راوی موجود ہے۔علامہ ہثیمی ؒ فرماتے ہیں کہ "اس کی اسناد میں اجلح الکندی (اباحجیۃ) موجود ہے۔جس کی توثیق ابن معین ؒ وغیرہ نے فرمائی ہے۔لیکن ایک جماعت نے اس کی تضعیف کی ہے۔امام احمد ؒ کی روایت کے بقیہ رجال رجال الصحیح[44] ہیں۔

علامہ عبدالرحمٰن مبارک پوری فرماتے ہیں:

اس میں اجلح الکندی بھی شیعہ ہے جیسا کہ میزان  وغیرہ میں مذکور ہے۔"[45]

اجلح الکندی کے متعلق امام ابن حجر عسقلانی ؒ  فرماتے ہیں:"صدوق لیکن شیعہ تھا۔[46] علامہ ابو الحسن علی بن محمد بن عراق الکنانیؒ(م963ھ) فرماتے ہیں کہ:" جوزجانی ؒ نے اجلح کو مفتر قرار  دیا ہے۔[47]

امام ابوالفرج عبدالرحمٰن بن علی بن الجوزی القرشی ؒ(م597ھ) نے اس کا ذکر اپنی کتاب"الموضوعات" میں کیا ہے۔[48] اور ایک حدیث کے متعلق فرمایا ہے کہ اسے اجلح نے وضع کیا ہے۔عجلی ؒ فرماتے ہیں۔کہ"ثقہ" ہے۔ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں۔جائز الحدیث ہے۔لیکن قوی نہیں ہے۔[49] عقیلی ؒ فرماتے ہیں۔ابو الولید نے یحییٰ بن سعیدؒ سے اجلح کے متعلق سوا ل کیا کہ وہ مجالد کے مقابلہ میں کیساہے۔تو یحییٰ بن سعید نے جواب دیا کہ اس کا حال مجالد سے بہت بُرا ہے۔ایک مقام پریحییٰ بن سعید القطان ؒ نے فرمایا۔«فى نفسى منه شئي» [50] علامہ محمد بن حبان بن احمد بن ابی حاتم التیمی البیتی ؒ (م356ھ) فرماتے ہیں کہ"اسے خود نہیں معلوم کہ وہ کیا بیان کرتا ہے۔ابو سفیان کوابو زبیر بنا دیتا ہے۔اور خود امام گھڑ لیاکرتا ہے۔[51] علامہ برہان الدین حلبی ؒ(م841ھ) اور علامہ ذہبی ؒ فرماتے ہیں:ابن معین ؒ اور  احمد بن عبداللہ العجلی ؒ نے اس کی توثیق کی ہے۔لیکن ابو حاتم ؒ نے کہا ہے کہ قوی نہیں ہے۔نسائی کا قول ہے کہ ضعیف ہے۔اور اس کی رائے سو ء ہے۔قطان ؒ کا قول ہے۔«فى نفسى منه شئي» ابن عدی ؒ فرماتے ہیں۔"شیعی لیکن صدوق ہے۔جو زجانی ؒ ک قول ہے کہ مفتر ہے۔[52]

علامہ ناصر الدین البانی ایک مقام پر فرماتے ہیں :" اجلح  میں ضعف ہے۔[53]  دوسرے مقام پر فرماتے ہیں۔وہ مختلف فیہ ہے۔"[54] ایک مقام پر اسے حسن الحدیث لکھتے ہیں۔[55] مزید  تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں تاریخ روایۃ الدوری ؒ۔[56] ترتیب الثقات للہثیمی ؒ[57] الجروح والتعدیل لابن ابی حاتم ؒ[58] الکامل فی الضعفاء لابن عدی۔[59] تہذیب التہذیب لابن حجر ؒ۔[60] تہذیب الکمال للخزرجی ۔ؒ[61]  اور التاریخ الکبیر للبخاری ؒ وغیرہ۔[62]

طبرانی میں حضرت برید  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ہی مروی ایک اور طویل حدیث میں رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ مروی ہیں:

«ما بال اقوا م ينتقصون عليا من تنقص عليا فقد تنقصنى ومن طينتى  وخلقت من طينة ابراهيم»[63]

اس روایت کی اسناد کے متعلق علامہ ہثیمی ؒ فرماتے ہیں۔اس کی اسناد میں رواۃ کی جماعت موجود ہے۔جنھیں میں نہیں جانتا۔اس کے علاوہ اس میں حسین الاشقر بھی موجود ہے۔ جمہور علماء نے جس کی تضعیف کی ہے۔اگرچہ ابن حبان ؒ سے اس کی توثیق منقول ہے۔"[64]

حسین الاشقر کے متعلق علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں:" صدوق ہے وہم کا شکار تھا۔اور شیعت میں غلو رکھتا تھا۔[65] علامہ ابن العراق الکنانی فرماتے ہیں:"ابن عدی ؒ نے اسے متہم گردانا ہے۔اور کہا ہے کہ میرے نزدیک اس کی خبر میں بلا موجو د ہے۔ابو معمر الہندلی ؒ نے اسے کذاب کہا ہے۔[66]دار قطنی ؒ اور نسائی ؒ فرماتے ہیں کہ قوی نہیں ہے۔[67] علامہ ہثیمی ؒ فرماتے ہیں۔منکر الحدیث ہے۔اس پر کذب کا الزام بھی ہے۔لیکن ابن حبان نے اسے ثقہ بتایا ہے۔[68] ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں بہت زیادہ ضعیف ہے۔مگر ابن حبان ؒ  نے اس کی توثیق کی ہے۔[69]ایک اور مقام پر آ پ فرماتے ہیں۔ابن حبان ؒ نے اس کی توثیق کی ہے۔جبکہ جمہور سے اس کی تضعیف منقول ہے۔[70] علامہ برہان الدین حلبی ؒ اور علامہ ذہبی ؒ فرماتے ہیں۔بخاری کا قول ہے۔"فيه نظر" ابوزرعہ ؒ فرماتے ہیں۔کہ منکر الحدیث ہے ابو حاتم ؒ کا قول ہے کہ قوی نہیں ہے۔جوزجانی ؒ فرماتے ہیں۔غالی اور اصحاب خیر کو گالیاں دینے والا ہے۔ابن عدی ؒ فرماتے ہیں۔"اس سے مناکیر مروی ہیں۔ابو معمر الہندلی ؒ نے اسے کذاب کہا ہے نسائی ؒ اور دار قطنی ؒ کہتے ہیں کہ قوی نہیں ہے۔جبکہ ابن حبان ؒ نے اس کا ذکر اپنی ثقات میں کیا ہے۔[71]

علامہ محمد ناصر الدین البانی ؒ فرماتے ہیں۔غالی شیعہ ہے۔امام بخاری ؒ نے ا س کی بہت زیادہ تضعیف کی ہے۔اور التاریخ الصغیر میں لکھا ہے کہ اس سے مناکیر مروی ہیں۔"[72] مزید  تفصیل کے لئے الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ؒ[73]۔احوال الرجال للجوزجانیؒ۔ [74] ترتیب الثقات لابن حبان ؒ[75]۔التاریخ الکبیر للبخاری۔[76]الضعفاء الکبیر للعقیلی۔[77]الکامل فی الضعفاء لابن عدی ؒ[78]۔اور المجوع فی الضعفاء ولامترکون للسیروانؒ[79] وغیرہ کی طرف مراجعت فرمائیں۔المجوع فی الضعفاء والمتروکین للسیروان ص85۔ وغیرہ کی طرف مراجعت فرمائیں۔

طبرانیؒ کی ایک اور روایت [80]میں قیس  بن الربیع اب واسحاق عن حبشی بن جنادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کاتابع ہے۔امام نسائی ؒ نے قیس بن ربیع کو متروک الحدیث[81] قرار  دیاہے۔ امام بخاری  ؒ فرماتے ہیں کہ وقیع ؒ اس کی تضعیف کیاکرتے تھے۔[82] علامہ ہشیمی ؒ فرماتے ہیں کہ شعبہؒ ۔سفیان ثوریؒ ۔اور طیالسیؒ نے قیس کو ثقہ بتایا ہے۔لیکن امام احمد ؒ یحییٰ بن معین ؒ وغیرہ نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔[83] ایک جگہ لکھتے ہیں:"اس پر کلام کیا گیا ہے۔[84] ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں۔"شعبہؒ اور ثوریؒ نے توثیق کی ہےلیکن اس میں ضعف ہے۔[85] علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں:"صدوق تھا۔مگر جب عمر بڑھی تو اُس میں  تغیر آگیاتھا۔[86] علامہ ابن حبانؒ فرماتے ہیں:شعبہ ؒ نے اسے حسن القول کہا ہے۔وکیع ؒ نے اس کی تضعیف کی ہے۔ابن مبارکؒ فجمع القول بتاتے ہیں۔یحییٰ القطان ؒ نے اسے  ترک کیا ہے یحییٰ بن معین ؒ نے اس کی تکذیب کی ہے دارمی ؒ فرماتے ہیں کہ :" میں نے یحییٰ بن معین ؒ کو کہتے ہوئے سنا کہ وہ کچھ بھی نہیں ہے۔ایک دوسرے قول میں کسی چیز کے مساوی نہیں ہے کہنا بھی منقول ہے ابوحاتم ؒ فرماتے ہیں کہ جب وہ جوان تھا۔اُس وقت اس کی رائے صادق اور مامون تھی لیکن جب اس کی عمر بڑھی  تو اُس کا حافظہ خراب ہوگیا تھا۔"[87] علامہ ذہبی ؒ فرماتے ہیں۔فی نفسہ صدوق ہے۔لیکن اُس کا حافظہ خراب تھا۔ابو حاتم ؒ فرماتے ہیں کہ اس کا محل صدق ہے لیکن قوی نہیں ہے۔یحییٰ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ایک مرتبہ کہا کہ اس کی حدیث نہ لکھی جائے۔اس کے متعلق مذکور ہےکہ وہ شیعہ تھا ۔کثرت سے خطاء کرتا تھا۔اوراُس سے احادیث منکرہ مروی ہیں۔وکیعؒ علی المدینی ؒ اور دارقطنی ؒ نے اس کی تضعیف کی ہے۔اور نسائی ؒ نے متروک قرار دیا ہے۔"[88] مزید  تفصیل کے لئے تاریخ یحییٰ بن معین ؒ[89]۔الطبقات الکبریٰ۔[90]التاریخ الکبیر للبخاریؒ[91] ۔الضعفاء الکبیر للعقیلیؒ[92]۔الجرح والتعدیل لابن ابی حاتمؒ[93]۔ الکامل فی الضعفاء لابن عدی [94]ؒ۔تہذیب التہذیب بن حجر عسقلانی ؒ [95]۔المجوع فی الضعفاء والمتروکین للسیروان[96]۔تحفۃ الاحوذی للمبارکفوری [97]ؒ۔فہارس مجمع الزوائد للذغلول[98] اور سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعۃ للشیخ اللبانی ؒ[99]۔وغیرہ ملاحظہ فرمائیں۔

ایک اور طویل  روایت جو ابو رافع ہے۔بطریق ابو احمد بن عدی حدثنا اسحاق بن ابراہیم بن یونس حدثناعیسیٰ بن مہران حدثنا محول حدثنا عبدالرحمٰن بن الاسود عن محمد بن عبیداللہ ابن ابی رافع عن ابیہ عن جدہ ابی رافع مروی ہے۔اس میں مذکور ہے کہ ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اُحد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے ساتھ دیکھا۔۔۔جب حضرت جبرئیل علیہ السلام نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا:"«يا محمد هذه المواساة» تو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً فرمایا:«انا منه وهومنى»الخ۔"

علامہ ابن الجوزیؒ فرماتے ہیں کہ " یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔[100] اس  روایت کی اسناد میں عیسیٰ بن مہران موجود ہے جس کے متعلق علامہ  ابن الجوزی ؒ اور علامہ ابن عراق الکنانیؒ فرماتے ہیں کہ"رافضی کذاب تھا۔ابن عدی ؒ  فرماتے ہیں۔کہ وہ موضوعات بیان کرتاتھا۔"[101] علامہ ذہبیؒ بھی فرماتے ہیں کہ " کذاب تھا،ابن عدی ؒ کا قول ہے کہ موضوع احادیث بیان کرتا تھا۔اور رفض میں محترق تھا۔اس سے «انا منه وهومنى» والی  حدیث مروی ہے۔ابو حاتم ؒ کا قول ہے کہ کذاب تھا دراقطنی ؒ فرماتے ہیں۔"برا آدمی تھا۔خطیب بغدادی ؒ فرماتے ہیں کہ رافضی شیاطین میں سے ایک شیطان تھا۔[102]امام دارقطنی ؒ فرماتے ہیں۔بُراآدمی تھا۔اس کا مذہب بھی بُرا تھا۔وہ ابن جریر الطبری ؒ سے روایت کرتا تھا۔[103] مزید تفصیل کے لئے الکامل فی الضعفاء لابن عدی ؒ۔[104] تاریخ بغداد للخطیب بغدادی ؒ۔[105]۔الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم[106]۔لسان المیزان لابن حجر عسقلانی ؒ۔[107] اور المجموع فی الضعفاء والمتروکین للسیروان [108]وغیرہ کی طرف مراجت فرمائیں۔

ا س  حدیث کو ایک متعصب شیعہ عالم محمد بن حمید رازی المعروف بہ شیخ عبدالحسین الموسوی نے اپنی کتاب"المراجعات" میں اس طرح بیان کیا ہے :

«قوله صلى الله عليه وسلم يوم عرفات فى حجة الوداع: على منى وانا من على، ولا يؤى عنى الا انا او على»[109]

پھر اس کی  تخریج کرتے ہوئے حاشیہ پراس طرح لکھا ہے:

"اس کی  تخریج ابن ماجہ ؒ نے اپنی سنن کے باب فضائل الصحابۃ ج1 ص92۔میں اور ترمذیؒ ونسائیؒ نے اپنی اپنی صحیح میں کی ہے۔یہ حدیث (2531) کنز ج6 ص153 پر بھی درج ہے۔امام احمد ؒ نے اپنی مسند ج4 ص164 میں حبشی بن جنادہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث کی تخریج متعدد طرق کے ساتھ کی ہے۔اور اس کے وہ تمام طرق صحیح ہیں۔یہاں واضح رہے کہ یہ روایت یحییٰ بن آدم عن اسرائیل بن یونس عن جدہ ابی اسحاق السبیعی عن حبشی بن جنادۃ سے مروی ہے۔اور یہ تمام رواۃ  شیخین کے نزدیک حجت ہیں۔جو شخص اس حدیث کےلئے مسند احمد کی طرف رجوع کرے گا وہ جان لے گا کہ اس کا صدور حجۃ الوداع کے موقع پر ہوا تھا۔"[110]

حاشیہ نگار کی اس عبارت پر علامہ شیخ محمد ناصر الدین البانی  ؒ نے ایک طویل تعقب لکھا ہے جس کااخلاص حسب ذیل ہے:

1۔اس حدیث میں قول یوم عرفات کی کوئی اصل نہیں ہے۔یہ محض افتراء ہے۔

2۔قول فی حجۃ الوداع کی یہ زیادتی سوائے ابن عساکر کے طریق واہیہ کے اور کسی طریق میں وارد نہیں ہے۔پس اگر اس اضافے کے ساتھ حدیث کو ابن عساکر ؒ کے علاوہ دوسروں کے نزدیک بھی درست مانا جائے تو یہ ان سب  پرافتراء ہوگا۔

3۔قول:جو شخص اس حدیث کے لئے مسند احمد کی طرف رجوع۔۔۔الخ میں بھی تضلیل کمثوف ہے۔کیونکہ مسند میں حبشی کے متعلق ابو اسحاقؒ کے علاوہ اور کسی سے منقول نہیں ہے کہ وہ حجۃ الوداع میں موجود تھے۔لیکن ہر صاحب علم وبصیرت اس امر سے بخوبی واقف ہے کہ یہ  جملہ تصریحاً تاتلمیحاً کسی طرح بھی نہیں بتاتا کہ حبشی بن جنادہ نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حجۃ الوادع کے موقع پر سنی تھی۔

4۔قول:اور ترمذیؒ ونسائیؒ نے اپنی اپنی صحیح میں ۔۔۔الخ بھی گمراہی ہے کیونکہ امام ترمذیؒ اور امام نسائی ؒ کی کتب سنن کے نام سے معروف ہیں نہ کہ صحیح کے نام سے اور یہ صحیح ہو بھی کس طرح سکتی ہیں جب کہ اُن میں ضعیف احادیث تک موجود ہیں جن کی تصریح خود مولف نے بھی کی ہے۔نیز یہ کہ نسائی ؒ نے اس حدیث کی تخریج اپنی سنن میں نہیں بلکہ ایک الگ کتاب خصائص علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ [111] میں کی ہے۔

5۔قول:۔۔۔متعدد طرق کے ساتھ کی ہے۔"یہ بھی کذب ہے کیونکہ نہ مسند میں اور نہ ہی کسی  اور کتاب میں اس کا کوئی دوسرا طریق مروی ہے۔صرف ایک طریق جو ہر جگہ ملتاہے۔وہ ابی اسحاق السبیعی عن حبشی بن جنادۃ والا ہے۔ابواسحاق ؒ کے بعد روایت کرنے والوں کی تعداد یا ان کے طرق جدا ہونے پر یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اس حدیث کی تخریج متعدد طرق سے کی ہے۔

6۔قول:اور اس کےوہ تمام طرق صحیح ہیں۔"یہ بھی کذب بیانی ہے کیونکہ جب صرف ایک طریق کے علاوہ کوئی دوسرا طریق موجود نہیں ہے تو ان مفروضہ طرق کی صحت کا دعویٰ کس طرح اور کیوں کر درست ہوسکتا ہے۔"[112]

اختتام پر علامہ شیخ محمد ناصر الدین البانی ؒ  فرماتے ہیں:

"اس شیعہ  عالم نے بہت سی اکاذیب کو اپنی اس کتاب میں درج کیا ہے۔مصنف کا علم سے بے بہرہ ہونا ،احادیث ضعیفہ وموضوعہ سے احتجاج کرنا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  وائمہ حدیث ؒ اور اہلسنت پر زبان طعن دراز کرنا اس کتاب کے ایسے امور ہیں کہ مصنف اور اس کی کتاب میں موجود جملہ اکاذیب وخرافات کا ابطال ورد کرنا ضروری ہے۔الخ[113]

اب اس سسلسلہ کی سب سے قوی اور مستند روایت پیش خدمت ہے۔اس روایت کو امام ابی عبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری ؒ نے اپنی صحیح کی کتاب فضائل الصحابۃ رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے باب   "مناقب علی بن ابی طالب القرشی الہاشمی ابی الحسن  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور کتاب "المغازی" کے باب"عمرۃ القضاء" کی ایک طویل حدیث میں بطریق عبیداللہ بن موسیٰ عن اسرائیل عن ابی اسحاق عن البراء رضی اللہ عنہ اس طرح لائے ہیں:

«قال النبى صلى الله عليه وسلم لعلى: انت منى وانا  منك»[114]

اس روایت کی اسناد میں بھی ابو اسحاق السبیعی موجود ہے۔جس پر ائمہ جرح وتعدیل اور کبار محدثین کی نقد وجرح اوپر بیان کی جاچکی ہے۔لیکن یہاں اس راوی کی موجودگی قطعی مضر نہیں ہے۔کیونکہ بقول امام المحدثین علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ عمر و بن عبدللہ اب اسحاق السبیعی اختلاط کا شکا ر ہونے وے قبل اثبات کے علماء میں شمار ہوتاتھا۔اور امام بخاری ؒ نے اس کی کوئی ایسی حدیث نہیں لی ہے جسے اس نے قدماءمثلاً ثوریؒ اورشعبہؒ وغیرہ سے بیان نہ کرکے متاخرین مثلا ابن عینیہؒ وغیرہ سے روایت کیا ہو چنانچہ امام بخاری ؒ کے ساتھ محدثین کی بڑی جماعت نے بھی عمرو بن عبداللہ سے (قبل از اختلاط) احتجاج کیا ہے۔"[115]

حدیث کا مطلب ومفہوم:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد محض حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت کے باعث نہیں بلکہ نسب وصہر او رمسابقت اور محبت وغیرہ کی وجہ سے ہے۔اگر محض قرابت کی وجہ سے سمجھاجائے۔تو اس میں حضرت جعفر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بھی شریک ہوں گے۔پس معلوم ہوا کہ اس قول نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے معنی یہ ہیں۔کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق  اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی اطاعت میں آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کا مبالغہ کی حد تک اتحاد واتفاق ہونا۔نیز حدیث کے اس معنی ومفہوم کی تائید میں بعض اور احادیث بھی مروی ہیں۔مثلاً ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

«ان علىا يحب الله ورسوله يحبه الله ورسوله»[116]

"بے شک حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتے ہیں۔اللہ اور اُس کا رسول بھی اُن سے محبت رکھتا ہے۔"

محبت کی اس مطلق صفت میں تمام مسلمان حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے ساتھ مشترک ہیں۔کیونکہ اس حدیث  میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو تلمیحاً بیان کیا گیا ہے:

﴿قُل إِن كُنتُم تُحِبّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعونى يُحبِبكُمُ اللَّه...﴿٣١﴾... سورة آل عمران

"آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) فرمادیجئے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو تم لوگ میری اتباع کرو   اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا۔"

یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری محسوس ہوتی ہے۔کہ بعض لوگ اپنے اس مؤقف کی تائید میں ایک حدیث بھی پیش کرتے ہیں۔جو اس طرح ہے:

«انا من الله والمؤمنون منى»

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ سے ہوں اور  مومنین ( رضوان اللہ عنھم اجمعین ) مجھ سے ہیں۔"

لیکن یہ حدیث بھی موضوع ہے۔علامہ حافظ  ابن حجرؒ عسقلانی فرماتے ہیں:" کہ یہ کذب مختلق ہے۔"زرکشی ؒ کہتے ہیں: "یہ حدیث معلوم نہیں۔"امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ"یہ حدیث موضوع ہے۔"بعض حفاظ بیان کرتے ہیں کہ"ان الفاظ کے ساتھ اس کامرفوعاً مروی ہونا معروف نہیں ہے۔"لیکن  اسماعیل بن محمد العجلونی الجراحیؒ (م1162ھ) اور شمس الدین ابو الخیر محمد بن عبدالرحمٰن السخاوی ؒ(م902ھ) فرماتے ہیں کہ"مگر کتاب  وسنت سے فی الواقع ایسا ہونا ثابت ہے۔پس اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔«بعضكم من بعض» اور سنت سے اشعر یین حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور حضرت حسین  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا۔«هم منى وانا منهم،انت منى وانا من اور هذا منى وانا منه» ثابت ہے۔

«انامن الله والمؤمنون منى فمن آذى مؤمنا فقد آذانى»

والی حدیث ویلمی ؒ نے عبداللہ بن جراد سے مرفوعاً بلا اسناد  روایت کی ہے۔مزید تفصیل کےلئے  تمیز الطیب من الخبیث فیما ید ورعلی السنۃ الناس من الحدیث" از عبدالرحمٰن بن علی بن  محمد بن عمر بن الشیبانی الشافعی الاخری[117](م944ھ)

"المقاصد الحسنة فى بيان كثير من الاحاديث المشتهرة على الالسنة للسخاوى،"[118]

"كشف الخفاء ومزيل الألباس عما  اشتهر من  الاحاديث على السنة الناس للعجلونى"[119]

"الموضوعات الكبير لملا على القارى"[120] وغیرہ ملاحظہ فرمائیں۔

الغر ض حدیث زیر بحث میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ کہ حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اس قدر مکمل ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کی صفت سے متصف ہیں۔اور اسی لئے اُن کی محبت کو ایمان کی علامت اور اُن سے بضض کو نفاق کی علامت قرار دیا گیا ہے۔جیسا کہ اس حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مروی ہے۔

«لا يحبك الا مؤمن ولا يبغضك  الا منافق»[121]

اسی امر کے لئے ام سلمہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کی وہ حدیث بھی شاہد وموئید ہے جس کی  تخریج امام احمد ؒ نے  فرمائی ہے۔

یہ ہے حدیث زیر بحث کا صحیح مطلب ومفہوم وشرح۔مشہورشارحین حدیث میں سے امام ابن حجر عسقلانی ؒ۔امام نووی ؒ۔اورعلامہ عبدالرحمٰن مبارک پوریؒ۔نے اپنی وقیع شروح احادیث میں  اس حدیث کا یہی مطلب ومفہوم بیان فرمایا ہے۔[122]                                    (جاری ہے)


[1] ۔كذا فى تحفة الاحوذى شرح جامع الترمذى للشيخ عبدالرحمان المباركفورى ج4 ص325 طبع دهلى ونشر السنة ملتان

[2] ۔مسند احمد بن حنبل ج3 ص484،ج4ص164.165،ج5 ص204

[3] ۔تهذيب تاريخ دمشق لابن عساكر ج12ص50 ق1

[4] ۔جامع الترمذى مع تحفة الاحوذى للمباركفورى ج4ص325.326..28

[5] ۔خصائص على النسائى ص14

[6] ۔طبرانى الكبير حديث 354

[7] ۔سنن ابن ماجه المقدمة باب 11، حديث119

[8] ۔مسند زيد بن على حديث 972.974

[9] ۔طبقات ابن سعد ص3ص14 ق1

[10] ۔جامع  الترمذی مع تحفۃ الاحوزی للمبارکفوری ج4 ص320۔

[11] ۔ایضاً ج4 س325۔326۔

[12] ۔ایضا ج4ص328۔

[13] ۔ایضاًج4ص326۔

[14]۔تقریب التہذیب لابن حجر ج2ص73۔طبع  دارالمعرفۃ بیرت 1975ءمیزان الاعتدال فی نقد الرجال للذہبی ج3 طبع درالمعرفۃ بیرت ۔تحفۃ الاحوذی للمبارکفوری ج1 ص29۔407۔تہذیب  التہذیب لابن حجر ج8 ص63۔الکواکب النیرات ص347۔شرح علی الترمذی لابن رجب ص375۔معرفۃ الثقات من الرجال فی العلم والحدیث ومن الضعفاء وذکر مذاہبیم واخبارہم للعجلی ج2 ص179۔180۔ طبع مکتبۃ الدار بالمدینۃ منورہ 1985ء۔

[15] ۔میزان الاعتدال المذہبی ج3 ص270۔

[16]۔سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ وشئی من فقہاء وفوائد للشیخ البانی ؒ       ج4ص637۔35۔طبع مکتبۃ السلفیہ عجان 1304ھ۔

[17] ۔تحفۃ الاحوزی للمبارکفوری ج1 ص29۔

[18] ۔میزان الاعتدال للذہبی ج2 ص274۔270۔

[19] ۔معرفۃ الثقات للعجلی ج1ص453۔456۔

[20] ۔تقریب التہذیب لابن حجر ج1ص351۔

[21] ۔اتلخیص الجیر لابن حجر بحوالہ تحفۃ الاحوزی للمبارکفوری ج1 س415۔111۔

[22] ۔تحفۃ الاحوزی للمبارکفوری ج1۔ص23۔

[23] ۔مجمع الزوائد ومنبع الفوائد للہثیمی ج3 س211 وج9 س55۔

24] ۔ایضاً ج5ص21۔وج10 ص241۔347۔

[25] ۔ایضاً ج9 ص123 طبع دارالکتب العربی۔

[26] ۔سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعۃ واثرہا ایستی فی الامۃ للشیخ البانی ج1 ص429۔212۔ طبع المکتب الاسلامی بیروت 1318ھ۔

[27] ۔ایضاً ج2 ص22۔97۔

[28] ۔ایضاً ج2 ص112۔213۔3329۔وغیرہ۔

[29] ۔سلسلۃ الاحادیث الصحیۃ للبانی ج4 ص632۔

[30] ۔فہارس مجمع الزوائد للز غلول ج3 ص307 طبع دارالکتب العلمیۃ بیروت 1986ء۔

[31] ۔تہذیب التہذیب لابن حجر ص233۔

[32] ۔تاریخ بغداد للخطیب ج9 ص281۔

[33] ۔کذافی التقریب فی التہذیب لابن حجر ج1 ص75 وتحفۃ الاحوذی للمبارکفوری ج1ص52۔

[34] ۔تہذیب التہذیب لابن حجر ج1 325 وکذافی الخلاصہ لابن حجر ومیزان الاعتدال لذہبی ج1 ص251۔252۔وتحفۃ الاحوذی للمبارک فوری ج1 ص109۔

[35] ۔الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج2 ص196۔

[36] ۔میزان الاعتدال لذہبی ج1 ۔

[37] ۔تقریب التہذیب لابن حجر ج1 ص131۔وتحفۃ الاحوزی للمبارکفوری ج1 ص157۔202۔

[38] ۔معرفۃ الثقات للعجلی ج1 ص269۔

[39] ۔تحفۃ الاحوذی للمبارکفوری ج4 ص326۔

[40] ۔ایضاً ج4326۔وکذافی التہذیب لابن حجر ج2 ص95۔

[41] ۔الضعفاء الکبیر للعقیلی ج1 ص185۔طبع دارالکتب العلمیۃ بیروت ۔وکذا فی المیزان الاعتدال لذہبی ج1ص46۔48۔

[42] ۔ایضاً

[43] ۔مسند احمد بن حنبل ج4 ص165۔وکذا فی تحفۃ الاحوذی للمبارکفوری ج4 ص326۔

[44] ۔مجمع الزوائد ومنبع الفوائد للہثیمی ج9 ص128۔

[45] ۔تحفۃ الاحوزی للمبارکفوری ج4 ص226۔

[46] ۔تقریب التہذیب لابن حجر ج1 ص49۔

[47] ۔تنزیۃ الشریعۃ المرفوعۃ عن الاخبار الشفعیۃ الموضوعۃ الکنانی ج1 ص25۔طبع درالکتب العلمیۃ بیروت 1981۔

[48] ۔کتاب الموضوعات لابن الجوزی ج1 ص342۔طبع دارالسلفیہ مدینہ المنورہ 1966۔

[49] ۔ معرفۃ الثقات للعجلی ج1 ص213۔

[50] ۔الضعفاء الکبیر للعقیلی ج1 ص123۔

[51] ۔ کتاب المجروحین من المحدثین والضعفاء والمتروکین لابن حبان ج1 ص175۔ طبع د ارلباز مکۃ المکرمۃ ۔

[52] ۔کشف الحثیث عن ری بوضع الحدیث للعجلی ص50۔طبعااحیاء التراث الاسلامی بغداد 1984ء ومیزان الاعتدال لذہبی ج1 ص79۔

53] ۔سلسلۃ الاحادیث الصحیۃ لالبانی ج4 ص211 ۔

[54] ۔ایضا ج4 ص296۔

[55] ۔ایضاً ج2 ص44۔

[56] ۔تاریخ روایۃ المدوری ترجمہ 1267۔

[57] ۔ترتیب الثقات للہثیمی ق3 ب۔

58] ۔الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج2 ص247۔

[59] ۔الکامل فی الضعفاء لابن عدی ج1 ترجمہ۔150۔

[60] ۔تہذیب التہذیب لابن حجر ج1 ص189۔

[61] ۔تہذیب الکمال للخزرجی ج3 ص277۔

[62] ۔التاریخ الکبیر للبخاری ج2 ص68۔

[63] ۔طبرانی فی الاوسط بحوالہ مجمع الزوائد للہثیمی ج9 ص128۔

[64] ۔ایضاً

[65] ۔تقریب التہذیب لابن حجر ج1 ص175۔

[66] ۔تنزیۃ الشریعۃ المرفوعۃ الکنانی ج1 ص53۔

[67] ۔الضعفاء والمتروکوں لنسائی  ترجمہ۔146۔والضعفاء والمتروکون للدارقطنی ترجمہ 195۔

[68] ۔مجمع الزوائد للہثیمی ج6ص189۔

[69] ۔ایضاً ج10 ص346۔

[70] ۔ایضاً ج6 س82۔وفہارس مجمع الزوائد  للزمحلول ج3ص269۔

[71] ۔میزان الاعتدال ج1 ص531۔532۔وکشف الحثیث للحلبی ص147۔148۔

[72]   ۔سلسلۃ الاحادیث الضیعفہ والموضوعۃ للبانی ج1 ص360۔361۔

[73] ۔الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج3 ص50۔

[74] ۔احوال الرجال للجوجانی ق8۔

[75] ۔ترتیب الثقات لابن حبان ج1ق92۔

[76] ۔تاریخ الکبیر للبخاری ج1ق2ص385۔

[77] ۔الضعفاء الکبیر للعقیلی ج1 ص250۔

[78] ۔ الکامل فی الضعفاء لابن عدی ج2ص771۔

[79] ۔

[80] ۔طبرانی حدیث نمبر 2512۔

[81] ۔الضعفاء والمترکون للنسائی ترجمہ 499۔

[82] ۔الضعفاء الصغیر للبخاری۔ترجمہ 301۔

[83] ۔مجمع الذوائد للہثیمی ج1ص158۔وج3ص290۔

[84] ۔ایضاً ج3 ص112۔ وج9 ص170۔وج1ص95۔

[85] ۔ایضاً ج4 ص110۔283۔ج5س146۔

[86] ۔تقریب التہذیب لابن حجر ج2س128۔

[87] ۔کتاب المجروحین لابن حبان ؒ ج2 ص219۔

[88] ۔میزان الاعتدال لذہبی ؒ ج3 ص396۔

[89] ۔تاریخ یحییٰ بن معین ؒ ج2 ص490۔

[90] ۔الطبقات الکبریٰ ج6۔ص262۔

[91] ۔التاریخ الکبیر للبخاری ج4 ق 1 ص156۔

[92] ۔الضعفاء الکبیر للعقیلی ؒ ج3 ص469۔

[93] ۔الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم ج7 ص96۔

[94] ۔الکامل فی الضعفاء لابن عدی ؒ ج6 ترجمہ 2063۔

[95] ۔تہذیب التہذیب لابن حجر ج8 س391۔

[96] ۔المجوع فی الضعفاء والمتروکین للسیروانص194۔

[97] ۔تحفۃ الاحوذی للمبارکفوری ج1ص28۔

[98] ۔فہارس مجمع الزوائد للزغول ج3 ص373۔

[99] ۔ کتاب الموضوعات لابن الجوزی ج1۔ص381۔382۔

[100] ۔ایضاً

[101] ۔تنزیۃ الشریعۃ المرفوعۃ الکنانی ج1ص94۔

[102] ۔میزان الاعتدال المذہبی ج3 ص224۔

[103] ۔الضعفاء والمتروکین الدارقطنی ترجمہ 418۔

[104] ۔الکامل فی الضعفاء لابن عدی ج5 ترجمہ 1899۔

[105] ۔تاریخ بغداد للخطیب بغدادی ج11 ص167۔

[106] ۔الجرح والتعدیل ابن ابی حاتم ج3 ص290۔

[107] ۔لسان المیزان لابن حجر ج4ص406۔

[108] ۔الجموع فی الضعفاء والمتروکین للسیروان ص350۔

[109] ۔کتاب المراجعات لرازی ص173۔

[110] ۔ایضاً

[111] ۔خصائص علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  امام نسائی ؒ کی وہ کتاب ہے۔ جس کے متعلق شیخ الاسلام تقی الدین احمد بن عبدالحلیم ؒ بن تیمیہؒ(م728ھ) فرماتے ہیں۔"اس کتاب میں ضعیف بلکہ موضوع روایات تک شامل ہیں۔کیونکہ اس کی تالیف کی غرض محض روایات کو جمع  کرنا تھا۔نہ کہ ان پر نقد درج(ملاحظہ فرمائیں"منہاج السنۃ النبویۃ لابن تیمیہؒ ج4 ص119۔194۔طبع بولاق 1322ھ والتعلیقات السلفیۃ علی سنن النسائی (لفظ مٹا ہوا ہے)ص24 طبع المکتبۃ السلفیہ لاہور۔

[112] ۔سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ للبانی ج4ص644۔

[113] ۔ایضاً۔

[114] ۔صحیح البخاری مع فتح الباری لابن حجر ج7 ص70 باب9 وج7ص499 باب43 طبع درالمعرفۃ بیروت۔

[115] ۔ہدی الساری مقدمۃ فتح الباری لابن حجر ص431 طبع دارالمعرفۃ بیروت۔

[116] ۔مسند احمد ج1 س185۔

[117] ۔تمیز الطیب للشیبانی ص41 طبع دارالکتب العلمیۃ بیروت 1981ء ۔

[118] ۔المقاصد الحسنہ للسخاوی ص98 طبع دارالکتب العلمیۃ بیروت 1979۔

[119] ۔کشف الحخفاء للعجلونی ج1ص237۔طبع مؤستہ الرسالۃ بیروت 1985ء۔

[120] ۔الموضوعات الکبیر از ملا علی قاری  مترجم ص136 طبع محمد سعید اینڈ سنز قرآن محل  روڈ کراچی۔

[121] ۔جامع ترمذی مع تحفۃ الاحوذی للمبارکفوری ج4 ص327۔وسنن ابن کانی مقدمۃ باب 11 ومسند احمد ج1795۔وغیرہ۔

[122] ۔فتح الباری لابن حجر 5ج7ص5۔7۔76۔وتحفۃ الاحوذی للمبارکفوری ج4 ص325۔